Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 25

سورة النحل

لِیَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَہُمۡ کَامِلَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۙ وَ مِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِیۡنَ یُضِلُّوۡنَہُمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ ﴿٪۲۵﴾  9

That they may bear their own burdens in full on the Day of Resurrection and some of the burdens of those whom they misguide without knowledge. Unquestionably, evil is that which they bear.

اسی کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ہی ان کے بوجھ کے حصے دار ہوں گے جنہیں بے علمی سے گمراہ کرتے رہے ۔ دیکھو تو کیسا برا بوجھ اٹھا رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ ... They will bear their own burdens in full on the Day of Resurrection, and also of the burdens of those whom they misled without knowledge. meaning, `We decreed that they would say that, so they will carry the burden of their own sins and some of the burden of those who followed them and agreed with them,' i.e., they will be held guilty not only for going astray themselves, but also for tempting others and having them follow them. As it says in a Hadith: مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الاَْجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْيًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَلَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الاِْثْمِ مِثْلُ اثَامِ مَنِ اتَّبَعَهُ لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ اثَامِهِمْ شَيْيًا Whoever invites people to guidance, he will receive a reward like that of those who follow him, without diminishing their reward in the least. And whoever invites people to misguidance, he will bear a burden of sin like that of those who follow him, without diminishing their burden in the least. Allah says; وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْـَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ عَمَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ They shall bear their own loads, and other loads besides their own; and they shall be questioned about their false allegations on the Day of Resurrection. (29:13) Al-Awfi reported from Ibn Abbas that it is like the Ayah: لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَـمَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ That they may bear their own burdens in full on the Day of Resurrection, and also of the burdens of those whom they misled without knowledge. (16:25) Allah says, وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ They shall bear their own loads, and other loads besides their own. (29:13) Mujahid said: "They will bear the burden of their own sins, and they will bear the sins of those who obeyed them, but that will not lessen the punishment of those who obeyed them at all." And Allah says here; ... أَلاَ سَاء مَا يَزِرُونَ Evil indeed is that which they shall bear!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یعنی ان کی زبانوں سے یہ بات اللہ تعالیٰ نے نکلوائی تاکہ وہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ نبی نے فرمایا ' جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا، تو اس شخص کو ان تمام لوگوں کا اجر ملے گا جو اس کی دعوت پر ہدایت کا راستہ اپنائیں گے اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا تو اس کو تمام لوگوں کے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا جو اس کی دعوت پر گمراہ ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] یعنی ایک تو خود مجرم تھے دوسرے اور لوگوں کو پیغمبر کی اصل دعوت نہ بتانے کی وجہ سے انھیں بھی روک دیا لہذا ان کی گمراہی کا بار بھی انہوں نے اپنے اوپر لاد لیا۔ قیامت کے دن گناہوں کا یہ بار مجسم شکل میں ان کی پشتوں پر لاد دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٣٨، ٣٩) اور سورة عنکبوت (١٢، ١٣) ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ دَعَا إِلٰی ہُدًی، کَانَ لَہُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لاَ یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْءًا وَ مَنْ دَعَا إِلٰی ضَلاَلَۃٍ ، کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہُ ، لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِھِمْ شَیْءًا ) [ مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیءۃ۔۔ : ٢٦٧٤ ]” جو شخص ہدایت کے کسی کام کی طرف دعوت دے اس کے لیے ان لوگوں کے اجر جتنا اجر ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کے کسی کام کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جتنا گناہ ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔ “ آدم (علیہ السلام) کے قاتل بیٹے پر قیامت تک کے ہر ناجائز قتل کا بوجھ اس کی مثال ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (٣١، ٣٢) ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عین عدل ہے کہ گمراہ کرنے والے اپنے گناہوں کا (جو انھوں نے خود کیے) کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جن کو گمراہ کیا ان کے سارے بوجھ نہیں بلکہ کچھ بوجھ اٹھائیں گے۔ ”ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ “ میں ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی ان کے صرف ان گناہوں کو جو انھوں نے ان کے کہنے پر کیے۔ (شعراوی) يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ : اس سے تقلید کا رد نکلتا ہے، کیونکہ تقلید علم کی ضد ہے اللہ اور رسول کی بات دین میں دلیل اور علم ہے، اس کے خلاف جو بھی ہے تقلید اور جہل ہے۔ یہاں بغیر علم گمراہ کرنے والوں اور ان کے پیچھے چل کر گمراہ ہونے والوں میں سے کسی کا عذر تقلید قبول نہیں ہوگا۔ ابن قیم (رض) نے فرمایا : اَلْعِلْمُ مَعْرِفَۃُ الْھُدٰی بِدَلِیْلِہِ مَا ذَاکَ وَالتَّقْلِیْدُ یَسْتَوِیَانِ إِذْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ مُقَلِّدًا لِلنَّاسِ وَالْأَعْمٰی ھُمَا سِیَّانٖ ” علم ہدایت کو اس کی دلیل (قرآن و سنت) کے ساتھ پہچاننے کا نام ہے۔ یہ اور تقلید کبھی برابر نہیں ہوسکتے، کیونکہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لوگوں کی تقلید کرنے والا اور اندھا دونوں برابر ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ 25؀ۧ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ وزر الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل . قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی: لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» «4» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . ( و ز ر ) الوزر ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) نتیجہ یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا پورا وزن اور اسی طرح ان لوگوں کے گناہوں کا بھی وزن جن کو یہ لوگ اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لانے سے گمراہ کررہے تھے یاد رکھو کہ یہ حصے کرنے والے جن گناہوں کو اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ بہت ہی برا بوجھ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ) یوں ان کے دل حق کی طرف مائل نہیں ہو رہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ روز قیامت وہ اپنی اس گمراہی اور سر کشی کے وبال میں گرفتار ہوں گے۔ (وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ) یعنی قیامت کے دن وہ نہ صرف اپنی گمراہی کا خمیازہ بھگتیں گے بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کی گمراہی کا وبال بھی ان پر ڈالا جائے گا جنہیں اپنے نام نہاد ‘ دانشورانہ مشوروں سے انہوں نے گمراہ کیا ہوگا۔ جیسے قرب و جوار کے لوگ جب اہل مکہ سے اس کلام کے بارے میں پوچھتے تھے یا مکہ کے عام لوگ قرآن سے متاثر ہو کر اپنے سرداروں سے پوچھتے تھے کہ ان کی اس کلام کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ ایسی صورت میں یہ لوگ اپنے عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے تھے کہ ہاں ہم نے بھی یہ کلام سنا ہے اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے بس سنی سنائی باتیں ہیں اور پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی اللہ کے کلام کو افسانہ قرار دے کر انہوں نے جن لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ ان کے ایسے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر لادا جائے گا جو انہوں نے ان کے زیر اثر آ کر کیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٥۔ اس سے پہلے کی آیت میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ مشرکین مکہ اجنبی لوگوں کے بہکانے کی غرض سے قرآن شریف کو کہتے تھے کہ یہ پہلے اہل کتاب کی کتابوں سے چن چن کر پہلے لوگوں کی کہانیاں بنالی ہیں اس لئے فرمایا جو لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں اس کا بدلہ ان کو آخرت میں ملے گا اپنے گناہ کا بوجھ بھی بھرپور اٹھائیں گے اور جن لوگوں کو بہکا رکھا ہے ان کے گناہ کا بوجھ بھی ان کے کاندھے پر ہوگا اور یہ بہت ہی برا بوجھ ہوگا کہ ان کو اپنے برے کاموں کی بھی سزا ہوگی اور ان کے پیروی کرنے والوں کے بد افعال کی بھی۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اسی قدر اجر ملے گا جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کو ملے گا اور پیروی کرنے والوں کو ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ بھی کمی نہ ہوگی اور جس نے گمراہی کی طرف لوگوں کو بلایا اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس کے تابعداروں پر ہوگا اور اس کے تابعداروں سے بھی کوئی گناہ کم نہیں کیا جائے گا ١ ؎۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) اور ابو سعید خدری (رض) سے روایتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار شخص کو کسی بیماری کی یا اور کسی طرح کی دنیا میں تکلیف پہنچے تو اس سے اس شخص کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ٢ ؎۔ آیت کے ٹکڑے لیحملوا اوزارھم کاملۃ یوم القیمۃ کو اور اس حدیث کو ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ مشرکوں کے نامہ اعمال میں قیامت کے دن وہ معافی کہیں نظر نہ آوے گی جس کا ذکر حدیث میں ہے بلکہ مشرکوں کو ہر قسم کے گناہوں کی پوری سزا ملے گی۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٩ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٦٥ ج ٢ الترغیب نے الصبر الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

16:25 ۔ لیحملوا میں لام تعلیل کا ہے یحملو یحملون تھا۔ لام حرف عامل سے نون اعرابی گرگیا۔ (بوجہ اس کے) یا نتیجۃً وہ اٹھائیں گے۔ ادزارھم۔ مضاف، مضاف الیہ۔ اپنے بوجھ۔ وذرۃ کی جمع۔ ومن اوزار الذین۔ میں من تبعیضیہ ہے۔ یعنی بوجھ میں سے کچھ۔ بعض حصہ۔ یضلونہم۔ مضارع جمع مذکر غائب ہم ضمیرمفعول جمع مذکر غائب۔ یضلون کا فاعل وہ کفار ہیں جن کا ذکر اوپر چل رہا ہے اور ہم ضمیر مفعول کا مرجع الذین اسم موصول ہے۔ یعنی قیامت کے دن وہ اپنے گناہوں کا مکمل بوجھ اٹھائیں گے اور کچھ ان لوگوں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے جن کو یہ بربنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں۔ بغیر علم۔ فاعل کا حال بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ وہ ہوگا۔ جو اوپر مذکور ہوا۔ اور مفعول کا بھی حال ہوسکتا ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا اور کچھ ان جاہلوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں وہ گمراہ کر رہے ہیں۔ الا۔ خبردار۔ دیکھو۔ سن لو۔ جان لو۔ سائ۔ ساء یسوء سوء (باب نصر) سے ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ فعل ذم ہے۔ برا ہے۔ (کتنا برا ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 اس مضمون کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں یوں فرمایا ہے :” جو شخص لوگوں کے لئے کسی اچھے طریقے کی رسم چھوڑ جائے اس کے لئے اپنا اجر ہے اور جتنے لوگ اس کی پیروی کریں گے اس کا بھی اسے اجر ملے گا اور جو شخص بری رسم کی بنیاد ڈالے گا اسے اس کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کے گناہ کا بوجھ بھی اس پر پڑے گا جو اس پر عمل کریں گے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ جو شخص کسی کو گمراہ کیا کرتا ہے اس گمراہ کو تو گمراہی کا گناہ ہوتا ہے اور اس گمراہ کرنے والے کو اس گمراہی کا سبب بن جانے کا اس حصہ تسبب کو کچھ بوجھ فرمادیا گیا، اور پنے گناہ کا کامل طور پر اٹھانا ظاہر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اسی کو فرمایا (لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) کہ ان حرکتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن اپنے کفر و شرک اور گناہوں کے پورے پورے بوجھ اپنے اپنے اوپر اٹھا کر لائیں گے اور ان لوگوں کے بھی بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے جنہیں گمراہ کیا تھا پھر فرمایا (اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ) (خبردار یہ برا بوجھ ہے جسے اپنے اوپر لاد رہے ہیں) اپنے کیے کی بھی سزا بھگتیں گے اور ان لوگوں کے گناہ بھی ان کے سر پڑیں گے جن کو بہکایا اور ورغلایا، ان کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی (گو وہ بھی عذاب سے نہ بچیں گے کیونکہ انہوں نے جانتے بوجھتے کفر اختیار کیا اور لوگوں کے ورغلانے میں آئے) سورة عنکبوت میں فرمایا (وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِھِمْ وَ لَیُسْءَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) (اور یہ لوگ ضرور ضرور اپنے بوجھوں کو اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور البتہ قیامت کے دن ان سے ان باتوں کے بارے میں باز پرس ہوگی جو جھوٹ موٹ بنایا کرتے تھے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 ۔ اس کہنے کا یہ انجام ہوگا کہ قیامت کے دن ان منکروں کو اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اور کچھ بوجھ ان لوگوں کا جن کو بلا تحقیق اور بےجانے بوجھے گمراہ کر رہے ہیں اٹھانا ہوگا خوب سن لو وہ بوجھ بہت برا ہے جس کو یہ اپنے اوپر لاد رہے ہیں ۔ یعنی اگر کوئی ان سے قرآن کریم کے متعلق دریافت کرتا ہے کہ بتائو تمہارے رب نے کیا نازل کیا تو بطوراستخفاف جواب دیتے ہیں کہ خدا نے کہا نازل کیا وہ تو پہلے لوگوں کے اور امم سابقہ کے افسانے ہیں وہ انہوں نے بھی سیکھ لئے ہیں۔ حضرت حق تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ قیامت میں اپنے گناہوں کا تو تمام بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے گناہوں کے ساتھ جن لوگوں کو لے جانے بوجھے جہالت کے ساتھ بہکا رہے ہیں اور گمراہ کر رہے ہیں کچھ بوجھ ان کا بھی اٹھانے پڑے گا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی کو گمراہی کی جانب بلایا تو اسکو بھی اس کے گناہ کو اٹھانا ہوگا بغیر اس کے کہ اس گمراہ ہونے والے پر سے کچھ بوجھ کم ہو ۔ مسلم یعنی گمراہ ہونے والے کے بوجھ میں سے کچھ بوجھ کم نہ ہوگا اور گمراہ کرنے والے کو پورے بوجھ کے علاوہ کچھ بوجھ اس کا بھی اٹھانا ہوگا چونکہ یہ سبب بنا ہے اس کی گمراہی کا وہ بوجھ بہت برا ہے جو یہ لوگ اپنے اوپر لاد رہے ہیں۔