Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 32

سورة النحل

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۳۲﴾

The ones whom the angels take in death, [being] good and pure; [the angels] will say, "Peace be upon you. Enter Paradise for what you used to do."

وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے ، جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those whose lives the angels take while they are in a pious state saying (to them) "Salamun `Alaikum (peace be on you!). Enter Paradise because of what (good) you used to do (in the world)." Allah tells us about their condition when death approaches them in a good state, i.e., free from Shirk, impurity and all evil. The angels greet them and give them the good news of Paradise, as Allah says: إِنَّ الَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَـمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَـيِكَةُ أَلاَّ تَخَافُواْ وَلاَ تَحْزَنُواْ وَأَبْشِرُواْ بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَأوُكُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِى الاٌّخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِى أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ Verily, those who say: "Our Lord is Allah (alone)," and then behave righteously, on them the angels will descend (at the time of their death) (saying): "Fear not, nor grieve! But receive the good news of Paradise as you have been promised! We have been your friends in the life of this world and are (so) in the Hereafter. In it you shall have (all) that your souls desire, and in it you shall have (all) that you ask for. An entertainment from (Allah), the Oft-Forgiving, Most Merciful." (41:30:32) We have already referred to the Hadiths that have been reported on the taking of the soul of the believer and the soul of the disbeliever, when we discussed the Ayah, يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِى الاٌّخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّـلِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَأءُ Allah will keep firm those who believe, with the word that stands firm in this world (i.e. they will keep on worshipping Allah Alone and none else), and in the Hereafter. And Allah will cause the wrongdoers to stray, and Allah does as He wills. (14:27)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 ان آیات میں ظالم مشرکوں کے مقابلے میں اہل ایمان وتقویٰ کا کردار اور ان کا حسن انجام بیان فرمایا ہے۔ 32۔ 2 سورة اعراف کی آیت 43 کے تحت یہ حدیث گزر چکی ہے کہ کوئی شخص بھی محض اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، جب تک اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنے عملوں کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ، تو ان میں دراصل کوئی منافقت نہیں۔ کیونکہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں، اس کے بغیر آخرت میں اللہ کی رحمت مل ہی نہیں سکتی۔ اس لئے حدیث مذکورہ کا مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے اور عمل کی اہمیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس لیے ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے ان اللہ لا ینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] برزخ میں مومن اور کافر سے سلوک کا تقابل :۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو پاکیزہ سیرت ہوتے ہیں جب فرشتے اس قسم کے لوگوں کی روح قبض کرنے کے لیے آتے ہیں تو فرشتے خود انھیں السلام علیکم کہہ کر انھیں پہلے سلامتی کی دعا دیتے ہیں۔ پھر انھیں جنت کی خوشخبری دیتے ہیں اور ابھی وہ اس دنیا سے پوری طرح رخصت بھی نہیں ہوچکے ہوتے کہ انھیں جنت میں داخل ہونے کو کہہ دیا جاتا ہے اور احادیث میں آیا ہے کہ جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے اور فرشتوں سے سوال و جواب ہوچکتے ہیں تو اس کی قبر میں جنت کی طرف سے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جس کی خوشبو سے اس کا دماغ معطر ہوتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ ایسے آرام اور مسرت سے سو جاؤ جیسے ایک نئی نویلی دلہن سوتی ہے۔ (احمد، بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الجنائز، باب مایقال عند من حضرہ الموت۔ الفصل الثالث) اور ابھی وہ اپنی نیند بھی پوری نہیں کرچکا ہوتا کہ بعث بعد الموت کا وقت آجاتا ہے۔ اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ شاید گھنٹہ دو گھنٹے سویا رہا ہوں گا لیکن اسے بتایا جاتا ہے کہ تم یہاں حشر کے دن تک سوئے رہے (٣٠: ٥٦) اور کافر کو قبر یعنی عالم برزخ میں طرح طرح کے عذاب دیئے جاتے ہیں مگر وہ عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ جب انھیں قبر سے اٹھایا جائے گا اور اپنے سامنے میدان محشر کے دہشت ناک مناظر دیکھیں گے تو کہیں گے : ہائے افسوس ! ہمیں ہماری خوابگاہوں سے کس نے اٹھا دیا۔ یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ نے وعدہ کر رکھا تھا اور رسول ٹھیک ہی کہتے تھے۔ (٣٦: ٥٢)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے حٰم السجدہ (٣٠ تا ٣٢) اور زمر (٧٣، ٧٤) ” بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٤٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 32؀ وفی وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] ( و ف ی) الوافی اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں طيب ( پاكيزه) يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] قوله تعالی: مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] ، وقوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وَمَساكِنَ طَيِّبَةً [ التوبة/ 72] ، أي : طاهرة ذكيّة مستلذّة . ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں اسی معنی میں فرمایا ؛ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم/ 24] پاک عمل کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہے ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمے پڑھتے ہیں ۔ سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) جن کی روحیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ شرک سے پاک صاف ہوتے ہیں اور وہ فرشتے کہتے جاتے ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو، تم اپنے ایمان اور دنیا میں جو نیکیاں کرتے تھے، اس کی وجہ سے جنت میں چلے جانا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ) جن کی روحیں پاکیزہ اور جن کی زندگیاں تقویٰ کی آئینہ دار ہوتی ہیں جب ان کے پاس موت کے فرشتے آتے ہیں تو :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:32) طیبین۔ پاکیزہ ۔ ستھرے۔ پاک۔ طیب کی جمع ہے یہ ضمیر ہم (تتوفہم) سے حال ہے درآنحالیکہ وہ پاک وصاف ستھرے گناہوں کی آلودگی سے صاف تھے۔ یقولون۔ الملئکۃ کا حال ہے (یعنی اس وقت فرشتے ان متقین سے کہیں گے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ظاہری سبب کے اعتبار سے عمل کو نجات یا جنت میں داخل ہونے کا سبب قرار دے دیا۔ ورنہ حقیقت میں داخل ہونے کا سبب تو اللہ کی رحمت اور اس کا فضل و کرم ہوگا۔ چناچہ ایک صحیح حدیث میں ہے۔ ” راست روی اور میانہ روی اختیار کرو اور یہ جان لو کہ تم میں سے کسی کا عمل اسنے جنت میں داخل نہ کرے گا۔ ” صحابہ نے عرض کی “ اور نہ آپ کا عمل آپ کو جنت میں داخل کرے گا ؟ فرمایا ” ہاں ! میرا عمل بھی نہیں الایہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ڈھانپ لے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ قبض روح کے بعد جنت میں جانا روحانی جانا ہے، اور جسمانی جانا مخصوص ہے قیامت کے ساتھ اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ قیامت میں تم جنت میں جانا، اور ہر حال میں مقصود بشارت سنانا ہے۔ اور اعمال کو جو سبب دخول جنت کا فرمایا تو یہ سبب مادی ہے، اور سبب حقیقی رحمت الہیہ ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ متقی حضرات کے ساتھ موت کے فرشتوں کا حسن سلوک۔ شرک سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے تقاضے پورے کرنے والے حضرات ہی حقیقی معنوں میں متقی ہوتے ہیں۔ ایسے متقی حضرات کو دنیا میں ہر قسم کی اچھائی اور موت کے بعد جنت کے انعام و اکرام عطا کیے جائیں گے۔ جن کی ابتدا متقین کی موت کے وقت ہی ہوجاتی ہے۔ جس کا پہلا منظر یہ ہے کہ ملائکہ جب ان کی روح قبض کرنے کے لیے تشریف لاتے ہیں تو متقی حضرات کو سلام عرض کرتے ہوئے تسلی دیتے ہیں کہ آپ کو کسی قسم کا خوف و خطر نہیں ہوگا۔ جونہی تمہاری جان قبض کی جائے گی تمہیں جنت میں داخلہ مل جائے گا کیونکہ تم نیک عمل کیا کرتے تھے۔ اس خوشخبری کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہمیں پیدا کرنے اور رزق دینے والا صرف ایک اللہ ہے پھر وہ تا دم آخر عقیدۂ توحید پر قائم رہے ملائکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری سناتے ہیں کہ خوف اور غم نہ کرو تمہیں اس جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے خیر خواہ تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جس کی تم تمنا کرو گے۔ یہ غفور الرحیم رب کی طرف سے تمہاری مہمان نوازی ہے۔ (حٰم السجدۃ : ٣٠۔ ٣١۔ ٣٢) مسائل ١۔ مومن کو موت کے وقت اور قبر میں ملائکہ خوشخبری دیتے ہیں۔ ٢۔ متقین کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٣۔ فرشتے مومنین کی روحیں قبض کرتے ہوئے انہیں سلام کہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن متقین حضرات کو موت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک ملائکہ کا سلام کرنا : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو انھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمہارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ فرشتے جب جنتیوں پر داخل ہوں گے تو سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 ۔ جن کی جان فرشتے ایسی حالت میں قبص کرتے ہیں کہ وہ شرک وکفر سے پاک ہوتے ہیں ۔ قبض روح کے وقت ان سے فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو اب تم اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے جنت میں داخل ہوجانا ۔ تقویٰ کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ شرک سے پرہیز کرے جب ایسے لوگوں سے کوئی قرآن کریم کے متعلق سوال کرتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا تو ان کے منہ سے یہی نکلتا ہے کہ خیر و برکت نازل فرمائی ہے جن لوگوں نے بھلے کام کئے ان کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے یعنی ثواب کی بشارت یا مدد اور فتح یا اچھی روزی اور آخرت کا تو چھنا ہی کیا ہے او دار آخرت تو بہر حال بہتر ہے وہ شرک سے بچنے والوں کا اچھا گھر ہے وہ گھر ایسے باغ ہیں جن کی عمارتوں اور درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہاں ان کی ہر خواہش پوری کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پرہیز گاروں کو ایسا یہ صلہ ملا کرتا ہے یہ مرتے دم تک پرہیز گار رہے۔ فرشتوں نے ان کی روح ایسی حالت میں قبض کی جب یہ کفر و شرک سے پاک تھے وہ السلام علیکم کہتے ہوئے اور یہ بشارت دیتے ہوئے ان کے پاس آئے کہ مرنے کے بعد تم جنت میں داخل ہوجانا یعنی قیامت میں تم دخول جنت کے مستحق ہو۔