Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 48

سورة النحل

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَ ہُمۡ دٰخِرُوۡنَ ﴿۴۸﴾

Have they not considered what things Allah has created? Their shadows incline to the right and to the left, prostrating to Allah , while they are humble.

کیا انہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا؟ کہ اس کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کر اللہ تعالٰی کے سامنے سر بسجود ہوتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Everything prostrates to Allah Allah says: أَوَ لَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَلُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالْشَّمَأيِلِ سُجَّدًا لِلّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ Have they not observed things that Allah has created: (how) their shadows shift from right to left, prostrating to Allah, while they are humble! Allah informs us about His might, majesty and pride, meaning that all things submit themselves to Him and every created being - animate and inanimate, as well as the responsible - humans and Jinns, and the angels - all humble themselves before Him. He tells us that everything that has a shadow leaning to the right and the left, i.e., in the morning and the evening, is by its shadow, prostrating to Allah. Mujahid said, "When the sun passes its zenith, everything prostrates to Allah, may He be glorified." This was also said by Qatadah, Ad-Dahhak and others. وَهُمْ دَاخِرُونَ while they are humble, means, they are in a state of humility. Mujahid also said: "The prostration of every thing is its shadow," and he mentioned the mountains and said that their prostrations are their shadows. Abu Ghalib Ash-Shaybani said: "The waves of the sea are its prayers." It is as if reason is attributed to these inanimate objects when they are described as prostrating, so Allah says:

عرش سے فرش تک اللہ تعالیٰ ذو الجلال والاکرام کی عظمت و جلالت کبریائی اور بےہمتائی کا خیال کیجئے کہ ساری مخلوق عرش سے فرش تک اس کے سامنے مطیع اور غلام ۔ جمادات و حیوانات ، انسان اور جنات ، فرشتے اور کل کائنات ، اس کی فرماں بردار ، ہر چیز صبح شام اس کے سامنے ہر طرح سے اپنی عاجزی اور بیکسی کا ثبوت پیش کرنے والی ، جھک جھک کر اس کے سامنے سجدے کرنے والی ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج ڈھلتے ہی تمام چیزیں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتی ہیں ہر ایک رب العالمین کے سامنے ذلیل و پست ہے ، عاجز و بےبس ہے ۔ پہاڑ وغیرہ کا سجدہ ان کا سایہ ہے ، سمندر کی موجیں اس کی نماز ہے ۔ انہیں گویا ذوی العقول سمجھ کر سجدے کی نسبت ان کی طرف کی ۔ اور فرمایا زمین و آسمان کے کل جاندار اس کے سامنے سجدے میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ 15۝۞{السجدہ} ) 13- الرعد:15 ) خوشی نا خوشی ہر چیز رب العالمین کے سامنے سر بسجود ہے ، ان کے سائے صبح و شام سجدہ کرتے ہیں ۔ فرشتے بھی باوجود اپنی قدر و منزلت کے اللہ کے سامنے پست ہیں ، اس کی عبادت سے تنگ نہیں آ سکتے اللہ تعالیٰ جل و علا سے کانپتے اور لرزتے رہتے ہیں اور جو حکم ہے اس کی بجا آوری میں مشغول ہیں نہ نافرمانی کرتے ہیں نہ سستی کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور اس کی جلالت شان کا بیان ہے کہ ہر چیز اس کے سامنے جھکی ہوئی اور مطیع ہے۔ جمادات ہوں یا حیوانات یا جن و انسان اور ملائکہ۔ ہر وہ چیز جس کا سایہ ہے اور اس کا سایہ دائیں بائیں جھکتا ہے تو وہ صبح و شام اپنے سائے کے ساتھ اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ امام مجاہد فرماتے ہیں جب سورج ڈھلتا ہے تو ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦۔ الف ] مثلاً پہلے پہر اگر آپ جنوب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو سایہ آپ کی دائیں جانب ہوگا اور شمال کی طرف منہ کریں تو بائیں جانب پھر جب سورج سر پر آجائے گا تو آپ کا سایہ آپ کے قدموں میں آجائے گا اور سردیوں میں شمال کی جانب سیدھ میں آجائے گا۔ اور پچھلے پہر سمت بالکل برعکس ہوجائے گی۔ اس آیت میں دائیں جانب کے لیے تو اللہ نے واحد کا صیغہ (یمین) استعمال فرمایا اور بائیں جانب کے لیے جمع کا (شمائل واحد شمال) یہ بھی عرب کا محاورہ اور ان کی فصاحت کی ایک قسم ہے۔ اہل عرب جب دو صیغے جمع کے لانا چاہتے ہیں تو ایک کو مفرد کرکے لاتے ہیں۔ قرآن میں اس کی دوسری مثال یہ ہے (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ ) 2 ۔ البقرة) [ ٤٧] کائنات کی ہر چیز کا سجدہ کیسے ؟ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اسے چند طبعی قوانین کا پابند بنادیا ہے۔ ان قوانین کا پابند رہنا ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ مخلوق اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز، مجبور محض اور انتہائی عجز کا اظہار کر رہی ہے مثلاً روشنی کے لیے ایک قانون بنادیا کہ وہ اگر ایک ہی قسم کے مادہ سے گزرے تو وہ ہمیشہ خط مستقیم میں چلتی ہے۔ اسی قانون کے مطابق ہر چیز کا سایہ بنتا ہے۔ گھٹتا اور بڑھتا ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سایہ صرف مادی چیز اور ٹھوس قسم کی چیز کا ہوتا ہے اور یہ چیزیں سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ جو اللہ کے ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑی ہوئی ہیں اور چونکہ مخلوق ہیں لہذا کسی نہ کسی وقت تباہ بھی ہوجائیں گی لہٰذا ان میں الوہیت کا شائبہ تک نہیں ہے بلکہ سب اللہ کے حکم میں جکڑی ہوئی اور اس کی عاجز مخلوق ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۔۔ : ” يَّتَفَيَّؤُا “ ” فَاءَ یَفِیْئُ فَیْءًا “ (لوٹنا) سے باب تفعل ہے۔ سایوں کے لوٹنے سے مراد سورج نکلنے کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ حتیٰ کہ زوال کے بعد بالکل ہی دوسری طرف منتقل ہونا ہے۔ ” دٰخِرُوْنَ “ ” دَخِرَ یَدْخَرُ دُخُوْرًا “ (ع) سے ہے، ” دَخِرَ فُلَانٌ لِفُلَانٍ “ فلاں شخص دوسرے کا بالکل مطیع اور اس کے سامنے عاجز اور ذلیل ہوگیا۔” اَوَلَمْ يَرَوْا “ میں استفہام پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ ڈانٹنے کے لیے ہے کہ کیا ان مشرکوں کو نظر نہیں آتا، یقیناً یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز اور عاجز و مطیع ہے، مگر یہ اللہ کے دیے ہوئے اختیار کو اس کی ساری مخلوق کی طرح عاجزی، اطاعت اور عبادت کے بجائے سرکشی اور کفر و شرک میں استعمال کر رہے ہیں۔ اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۔۔ : یعنی دنیا کی کوئی بھی چیز جو اللہ نے پیدا فرمائی ہے، مثلاً پہاڑ، درخت اور انسان وغیرہ، جس کا سایہ بڑھتا، گھٹتا اور ڈھلتا ہے، ہر ایک تکوینی طور پر (اپنے اختیار کے بغیر) اللہ تعالیٰ ہی کی فرماں برداری میں مصروف ہے اور وہ قانون قدرت سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوسکتی۔ یہاں تمام چیزوں پر ذوی العقول کو غلبہ دے کر ” دٰخِرُوْنَ “ فرمایا ہے۔ (روح المعانی) شاہ عبد القادر (رض) اس سجدہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے، اس کا سایہ بھی کھڑا ہے، جب دن ڈھلا، سایہ بھی جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑگیا، جیسے نماز میں قیام سے رکوع اور رکوع سے سجدہ، اسی طرح ہر چیز اپنے سائے سے نماز ادا کرتی ہے۔ “ (موضح) ” الْيَمِيْنِ “ کو اختصار کے لیے واحد اور ” وَالشَّمَاۗىِٕلِ “ کو تفصیل کے لیے جمع لائے۔ پہلے سے مراد جنس ہے، اس میں بھی تمام افراد شامل ہیں، دوسرے سے مراد بائیں جانب کے تمام اطراف ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : کیا (ان) لوگوں نے اللہ کی ان پیدا کی ہوئی چیزوں کو نہیں دیکھا (اور دیکھ کر توحید پر استدلال نہیں کیا) جن کے سائے کبھی ایک طرف کو کبھی دوسری طرف کو اس طور پر جھکتے جاتے ہیں کہ (بالکل) خدا کے (حکم کے) تابع ہیں (یعنی سائے کے اسباب کہ آفتاب کی حرکت ہے پھر سایہ کے خواص یہ سب بحکم الہی ہے) اور وہ (سایہ دار) چیزیں بھی (اللہ کے رو برو) عاجز (اور تابع حکم) ہیں اور (جس طرح یہ اشیاء مذکورہ جن میں حرکت ارادیہ نہیں جیسا کہ یتفیئوا کی اسناد ظلال کی طرف اس کا قرینہ ہے کیونکہ متحرک بالارادہ میں سایہ کی حرکت خود اس متحرک بالا رادہ کی حرکت سے ہوتی ہے حکم خدا کے تابع ہیں اسی طرح) اللہ ہی کے مطیع (حکم ہیں) جتنی چیزیں (بالارادہ) چلنے والی آسمانوں میں (جیسے فرشتے) اور زمین میں (جیسے حیوانات) موجود ہیں اور (بالخصوص) فرشتے (بھی) اور وہ (فرشتے باوجود علو مکان و رفعت شان کے اطاعت خداوندی سے) تکبر نہیں کرتے (اور اسی لئے بالخصوص ان کا ذکر کیا گیا باوجودے کہ مافی السموت میں داخل تھے) وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں کہ ان پر بالا دست ہے اور ان کو جو کچھ (خدا کی طرف سے) حکم کیا جاتا ہے وہ اس کو کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے (تمام مکلفین کو بواسطہ رسل کے) فرمایا ہے کہ دو (یا زیادہ) معبود مت بناؤ پس ایک معبود ہی ہے (اور جب یہ بات ہے) تو تم لوگ خاص مجھ ہی سے ڈرا کرو (کیونکہ جب الوہیت میرے ساتھ خاص ہے تو جو جو اس کے لوازم ہیں کمال قدرت وغیرہ وہ بھی میرے ہی ساتھ خاص ہوں گے تو انتقام وغیرہ کا خوف مجھ ہی سے چاہئے اور شرک انتقام کو مستدعی ہے پس شرک نہ کرنا چاہئے) اور اسی کی (ملک) ہیں سب چیزیں جو کچھ کہ آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور لازمی طور پر اطاعت بجا لانا اسی کا حق ہے (یعنی وہی اس امر کا مستحق ہے کہ سب اس کی اطاعت بجا لاویں جب یہ بات ثابت ہے) تو کیا پھر بھی اللہ کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو (اور ان سے ڈر کر ان کو پوجتے ہو) اور (جیسا ڈرنے کے قابل سوائے پاس جو کچھ (کسی قسم کی) بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب تم کو (ذرا) تکلیف پہنچتی ہے تو (اس کے رفع ہونے کے لئے) اسی (اللہ) سے فریاد کرتے ہو (اور کوئی بت وغیرہ اس وقت یاد نہیں آتا جس سے توحید کا حق ہونا اس وقت تمہارے اقرار حال سے بھی معلوم ہوجاتا ہے لیکن) پھر جب (اللہ تعالیٰ ) تم سے اس تکلیف کو ہٹا دیتا ہے تو تم میں ایک جماعت (اور وہی بڑی جماعت ہے) اپنے رب کی ساتھ (بدستور سابق) شرک کرنے لگتی ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ہماری دی ہوئی نعمت کی (کہ وہ تکلیف کا رفع کرنا ہے) ناشکری کرتے ہیں (جو کہ عقلا بھی قبیح ہے) خیر چند روزہ عیش اڑا لو (دیکھو) اب جلدی (مرتے ہی) تم کو خبر ہوئی جاتی ہے (اور ایک جماعت اس لئے کہا گیا کہ بعضے اس حالت کو یاد رکھ کر توحید و ایمان پر قائم ہوجاتے ہیں کقولہ تعالیٰ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ) اور (منجملہ ان کے شرک کے ایک یہ ہے کہ) یہ لوگ ہماری دی ہوئی چیزوں میں ان (معبودوں) کا حصہ لگاتے ہیں جن کے (معبود ہونے کے) متعلق ان کو کچھ علم (اور ان کے معبود ہونے کی کوئی دلیل وسند) نہیں (جیسا اس کی تفصیل پارہ ہشتم کے رکوع سوم آیت وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ الخ میں گذری ہے) قسم ہے خدا کی تم سے تمہاری ان افتراء پردازیوں کی (قیامت میں) ضرور باز پرس ہوگی (اور ایک شرک ان کا یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں سبحان اللہ (کیسی مہمل بات ہے) اور (اس پر یہ طرہ کہ) اپنے لئے چاہتی چیز (یعنی بیٹے پسند کرتے ہیں)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ 48؀ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے فيأ الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل/ 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر/ 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب/ 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر : 360- أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّة «2» وکما قال : 361- إنّما الدّنيا كظلّ زائل «3» والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی: إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] . ( ف ی ء ) الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل/ 48] جنکے سائے لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر/ 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب/ 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔ ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) دخر قال تعالی: وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل/ 48] ، أي : أذلّاء، يقال : أدخرته فَدَخَرَ ، أي : أذللته فذلّ ، وعلی ذلک قوله : إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر/ 60] ، وقوله : يَدَّخِرُ أصله : يذتخر، ولیس من هذا الباب . ( د خ ر ) الدخور والد خور ۔ ( ف ) س ) کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے ذلیل کیا تو وہ ذلیں ہوگیا قرآن میں ہے وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل/ 48] اور وہ ذلیل ہوکر إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر/ 60] جو لوگ میری عبادت سے از راہ تکبر کنیا تے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے ۔ اور یدخر اصل میں یذ تخر تھا ( پہلے تاء کو دال سے تبدیل کیا پھر ذال کو دال کو دال میں ادغام کرکے یدخر بنالیا اور یہ اس باب ( د خ ر ) سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) کیا مکہ والوں نے اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ان درختوں اور ان جانوروں کو نہیں دیکھا کہ جن کے سائے صبح کو دائیں جانب کو اور شام کو بائیں جانب کو اس طور پر جھک جاتے ہیں گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور ان کے سائے بھی صبح وشام اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ ) اس آیت میں ہمارے اردگرد کی اشیاء سے پیدا ہونے والے ماحول کی تصویر کشی کی گئی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہم اللہ کی کبریائی کا ایک نقشہ اپنے تصور میں لاسکتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو تمام چیزوں کے سائے زمین پر بچھے ہوئے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ہی ساتھ یہ سائے سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ سورج کے ڈھلنے کے ساتھ دوسری سمت میں پھیلتے ہوئے یہ سایے پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41. The argument is this: The fact that everything a man, an animal, a tree or a mountain casts its shadow, is a clear proof of its material nature, and everything which is made of matter, is a creation of Allah and is subject to a universal law. In this case the law is that every material thing casts its shadow, which is symbolical of its servitude, and it cannot have any share whatsoever in Godhead.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :41 یعنی تمام جسمانی اشیاء کے سائے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت ، جانور ہوں یا انسان ، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں ، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے ، الوہیت میں کسی کا کوئی ادنی حصہ بھی نہیں ہے ۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادی ہونے کی کھلی علامت ہے ، اور مادی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: انسان کتنا بھی مغرور یا متکبر ہوجائے، اس کا سایہ جب زمین پر پڑتا ہے تو وہ عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے ساتھ اس کے سائے کی شکل میں ایک ایسی چیز پیدا فرمادی ہے جو اس کے اختیار کے بغیر ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ ریز رہتی ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ خود تو سورج کے آگے جھک رہے ہوتے ہیں اور ان کے سائے اس کی مخالف سمت میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ اللہ پاک اس آیت میں اپنی عظمت و دبدبہ کی خبر دیتا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ ایسا صاحب عظمت ہے کہ کل چیزیں اس کے حکم کی فرمانبردار ہیں کیا حیوان اور کیا بےجان اسی طرح خواہ فرشتے ہوں خواہ جن ہوں سب اس کے قہر و غلبہ کے سامنے مجبور و لاچار ہیں کل وہ چیزیں جن کا سایہ ہے جاندار ہوں یا بےجان صبح و شام داہنے بائیں خدا برتر کے سامنے سجدہ کرتی ہیں مجاہد کا قول ہے کہ جب سورج ڈھلتا ہے تو ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے۔ اور کل مخلوق خدا کے سامنے حقیر ہے۔ کسی کی حقیقت و ہستی اس کے آگے نہیں ہے وہ سب سے بڑا صاحب شوکت ہے ترمذی کے حوالہ سے حضرت عمر کی حدیث جو آگے آتی وہ بھی گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سب چیزوں کا سایہ زوال سے پہلے سیدھے ہاتھ کی طرف اور سورج کے ڈھلنے کے بعد الٹے ہاتھ کی طرف جو آتا ہے یہی سب چیزوں کے سایہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے سجدہ مقرر کیا ہے آیت وللہ یسجد من فی السموات والارض طوعا و کرھا وظلالھم بالغدو والاصال (١٣: ١٥) جو سورت الرعد میں گزر چکی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں سے مجاہد نے اس سورت الرعد کی آیت کو اس آیت کی تفسیر قرار دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ زمین کے ایماندار جن و انس اور آسمان کے سارے فرشتے خوشی سے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور ایمان دار جن و انس کی پرچھائیاں بھی سجدہ کرتی ہیں اور مشرک لوگ خود تو بتوں کو سجدہ کرتے ہیں مگر ان کی پرچھائیاں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمام دنیا کے جنات اور انسان اللہ کی عبادت میں مشغول اور پرہیز گار ہوجاویں تو اس سے اللہ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جاوے گا۔ اسی طرح اگر یہ سب اللہ کی عبادت چھوڑ دیویں تو اس سے اس کی بادشاہت میں سے کچھ گھٹ نہ جاوے گا ١ ؎۔ اس حدیث کو بھی آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ مشرک لوگ خالص اللہ کو جو سجدہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کو نہ اس کی کچھ پروا ہے نہ ان کے سجدہ نہ کرنے کے سبب سے اس کی بادشاہت میں سے کچھ گھٹ جاوے گا لیکن اللہ کی عظمت اور بڑائی کا اثر ان کی پرچھائیوں پر ایسا ہے کہ وہ بےاختیار اللہ کو سجدہ کرتے ہیں معتبر سند سے مسند امام احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں ابوذر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسمان پر چار انگل بھی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں ایک فرشتہ سجدہ میں نہ پڑا ہو ٢ ؎۔ فرشتوں کے سجدہ کرنے کا اس آیت میں مختصر طور پر اور آگے آیت میں صاف طور پر جو ذکر ہے یہ حدیث اس کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٩ ج ٢ باب تحریم العلم۔ ٢ ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد دوم ص ٣٤٧۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:48) یتفیئوا۔ مضارع واحد مذکر غائب تفیء (تفعل) مصدر۔ فیء مادہ جھکے جاتے ہیں۔ لوٹتے ہیں۔ الفیء والفیئۃ معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ کر آنا کے ہیں۔ مثلاً فان فاء وا۔ (2:226) اگر وہ (اس عرصہ میں قسم سے) رجوع کرلیں۔ اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سایہ کے (زوال کے بعد) لوٹ آنے کے ہیں۔ اور فیء اس سایہ کو کہا جاتا ہے جو (زوال کے بعد) لوٹ کر آتا ہے۔ سجدا۔ الظلال کا حال ہے۔ سجدہ کرتے ہوئے۔ داخرون۔ دخر۔ سے اسم فاعل جمع مذکر۔ ذلیل و خوار ہونے والے ۔ عاجزی کرنے والے۔ الدخور۔ ای الصغار والذل۔ یعنی عاجزی ودرماندگی۔ وہم داخرون۔ میں وائو حالیہ ہے۔ یعنی اس حال میں کہ وہ اظہار عجز کر رہے ہیں۔ یعنی سائے اپنے خالق کے حکم کی اطاعت میں بےچون وچرا ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ کہ تخلیق کائنات میں یہی سنت اللہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی سایہ کے اسباب کہ آفتاب کا نورانی ہونا اور سایہ دار جسم کا کثیف ہونا ہے اور حرکت سایہ کا سبب کہ آفتاب کی حرکت ہے پھر سایہ کے خواصہ سب بحکم الٰہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کو عذاب کی وعید سنانے کے بعد یہ سمجھایا ہے کہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ جس کائنات میں یہ رہ رہے ہیں اس کا ذرہ ذرہ اپنے خالق کے سامنے سر بسجود ہے۔ مگر کافر، مشرک اور نافرمان اللہ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قرآن مجید بار بار یہ بات انسان کو باور کرواتا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ پیدا کیا گیا ہے اس کے پیدا کرنے کا ایک مقصد یہ کہ وہ انسان کی خدمت بجا لائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کے مطابق اپنا اپنا کام کرتے رہیں۔ لیکن انسان نہ صرف اپنے رب کی نافرمانی کرتا ہے بلکہ وہ کفرو شرک کا ارتکاب کر کے ذات کبریا کا انکار کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے ان کے سائے یہاں تک کہ انسان کا سایہ بھی دائیں بائیں اپنے رب کے حضور سر بسجودہوتا اور اس کے حضور عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔ نہ صرف ہر چیز کا سایہ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ کرتا ہے بلکہ زمین و آسمان میں جتنی جاندار مخلوق اور فرشتے ہیں وہ سب کے سب اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور کبھی تکبر اور نافرمانی نہیں کرتے۔ وہ ہر وقت اپنے رب سے لرزاں و ترساں رہتے ہوئے وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے سجدہ کا معنی جھکنا ہے۔ جس کے لیے ضروری نہیں کہ جھکنے والے کی پیشانی زمین کے ساتھ لگے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی مخلوق اسے کس کس انداز میں سجدہ کررہی ہے۔ مسائل ١۔ ساری مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ سب کے سائے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تمام عاجز ہیں۔ ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے۔ ٥۔ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ ٦۔ فرشتے کبھی تکبر نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو یاد کرنے کے ساتھ اس کو سجدہ کرتی ہے : ١۔ چوپائے، فرشتے اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (النحل : ٤٩) ٢۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن : ٦) ٣۔ بیشک وہ لوگ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الرعد : ١٥) ٥۔ وہ لوگ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ تکبر نہیں کرتے وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢٠٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر مخلوق فرشتے وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں ان آیات میں بندوں کو اللہ تعالیٰ نے توحید کے دلائل کی طرف متوجہ فرمایا ہے اور اپنی شان خالقیت اور مالکیت بیان فرمائی ہے اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا فرمائی ہیں ان کو کیوں نہیں دیکھتے ؟ ان میں غور کرو اور دیکھو کہ ان کا سایہ دائیں طرف بائیں طرف جو زمین پر پڑتا ہے اس سائے میں بھی اللہ تعالیٰ شانہٗ کی شان خالقیت ظاہر ہو رہی ہے یہ سائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں اللہ تعالیٰ جس طرف چاہتے ہیں یہ سائے اسی طرف جھکتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں اور اس کے حکم کے سامنے عاجز محض ہیں، اور سایوں پر اور سایہ والی چیزوں پر کچھ منحصر نہیں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں، ان میں حیوانات بھی ہیں اور فرشتے بھی، اور یہ فرشتے تکبر نہیں کرتے فرمانبرداری اور اطاعت ہی ان کا شعار ہے، فرشتے اس بات کو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شانہ پوری طرح قدرت رکھتا ہے اور قاہر اور غالب ہے اور اس سے ڈرتے ہیں کہ اس کی طرف سے کوئی گرفت نہ ہوجائے قال صاحب الروح ص ٥٨ ج ٣ و معنی کونہ سبحانہ فوقھم قھرہ وغلبتہ لان الفوقیۃ المکانیۃ مستحیلۃ بالنسبۃ الیہ تعالیٰ (وقال ایضا) وخوف ربھم کنایۃ عن خوف عذابہ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ان کے اوپر ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا قہر اور غلبہ ہے کیونکہ مکانی برتری اللہ تعالیٰ کی نسبت سے محال ہے اور فرمایا ان کے رب کا خوف کنایہ ہے اس کے عذاب کے خوف سے) اور علامہ بغوی معالم التنزیل میں لکھتے ہیں (ھو) کقولہ تعالیٰ وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ) سایوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں اللہ تعالیٰ جس طرف چاہتا ہے اسی طرف سایہ پڑتا ہے اور سایہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور گھٹتا بھی ہے ہر طرح کا تصرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، اور سب تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کے منقاد اور فرمانبردار ہیں اس لیے (سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَ ھُمْ دٰخِرُوْنَ ) فرمایا ہے سورة فرقان میں فرمایا (اَلَمْ تَرَی اِِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا ثُمَّ قَبَضْنٰہُ اِِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا) (کیا تو نے اپنے رب کو نہیں دیکھا اس نے سایہ کو کس طرح پھیلا دیا اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا رکھتا پھر ہم نے آفتاب کو اس پر علامت مقرر کیا پھر ہم نے اس کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیا) جب آفتاب نکلتا ہے تو ہر چیز کا سایہ لمبا ہوتا جاتا ہے پھر جیسے جیسے آفتاب بلند ہوتا ہے سایہ کم ہوتا جاتا ہے بظاہر سایہ کا وجود آفتاب کے چلنے اور اس کے سامنے اجسام کثیف آنے کی وجہ سے ہے لیکن خود آفتاب کی حرکت ہی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے اور پھر سایوں کا وجود میں آنا اور گھٹنا بڑھنا یہ سب بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو ذرا سا بھی سایہ نہ ہو، سایہ کا ایک مثل دو مثل ہونا سایہ کے بڑھنے ہی کی وجہ سے ہے اللہ چاہتا تو سایہ ایک ہی جگہ پر ٹھہرا رہتا جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے نہ آفتاب خود کوئی حیثیت رکھتا ہے اور نہ سایہ، سب اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ سایوں کی فرمانبرداری بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا جو بھی چیزیں آسمان اور زمین میں ہیں سب اللہ کی فرمانبردار ہیں، تکوینی طور پر ان کا وجود اور ان کی کیفیات اسی طرح سے ہیں جس طرح سے اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے ان میں شمس و قمر، ستارے، درخت، پہاڑ اور چوپائے سبھی ہیں جیسا کہ سورة حج کے دوسرے رکوع میں ان چیزوں کا خصوصی تذکرہ ہے۔ یہاں سورة نحل میں من دابۃ یعنی زمین پر جو چیزیں چلتی پھرتی ہیں وہ سب اللہ کی فرمانبردار ہیں، پھر خاص طور پر فرشتوں کا تذکرہ فرمایا کہ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں، اور وہ تکبر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے اور اس کے قہر اور غلبہ کے سامنے اپنے اندر کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتے، سورة نساء میں فرمایا (لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ ) (مسیح اللہ کا بندہ ہونے سے ہرگز عار نہیں کریں گے اور نہ مقرب فرشتے) جتنی جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اسی قدر اس کی شان بندگی بڑھ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو جانتا اور مانتا ہے، فرشتوں کو تو بہت زیادہ معرفت حاصل ہے وہ کیوں کر عبادت گزار اور فرمانبردار نہ ہوں گے، نہ صرف یہ کہ وہ عبادت گزار اور سجدہ ریز ہیں بلکہ وہ اللہ کے عذاب سے بھی ڈرتے ہیں اور اس کے ہر حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ فائدہ : آیت شریفہ میں (وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ ) فرمایا اس سجدہ سے مفسرین نے مطیع اور فرمانبردار ہونا مراد لیا ہے کیونکہ ظاہری حال میں ہر چیز سے سجدہ کا مظاہرہ نہیں ہوسکتا لیکن مخلوقات میں جو جماعتیں ذوی العقول ہیں (فرشتے اور انسان اور جن) ان کا سجدہ حقیقی بھی مراد ہوسکتا ہے اور یہ جمع بین الحقیقۃ والمجاز کے طور پر نہیں بلکہ اس طرح سے کہ جو سجدہ ریز ہیں وہ فرمانبرداری ہی کے ذیل میں سجدہ کرتے ہیں جن لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے ان لوگوں کا مومن ہونا اور پھر اپنے اختیار سے سجدہ کرنا یہ انقیاد کا اعلیٰ درجہ ہے اہل ایمان تکوینی طور پر منقاد ہیں اور تشریعی طور پر بھی ہاں جو لوگ اہل ایمان نہیں ہیں وہ تکوینی طور پر منقاد ہیں اس لیے سورة حج میں (وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ) فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ توحید پر چوتھی عقلی دلیل۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے ان کے سائے اللہ کے قانون تکوینی کے تحت گھٹتے بڑھتے ہیں اس طرح کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے تکوینی احکام کی مطیع و فرمانبردار ہے۔ ” عَنِ الْیَمِیْنَ وَاالشَّمَائِلَ الخ “ لفظ مَا صورۃً مفرد ہے اس لیے اس کی رعایت سے یمین مفرد لایا گیا اور مَا معنی جمع ہے کیونکہ اس سے تمام سایہ دار مخلوق مراد ہے اس لیے اس کی رعایت سے شمائل جمع استعمال کیا گیا۔ ” وَ ھُمْ دَاخِرُوْنَ “ اس سے ذوی العقول اور گیر ذوی العقول سب مراد ہیں لیکن تغلیباً ضمیر عقلاء کی استعمال کی گئی ہے۔ ” وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ الخ “ زمین و آسمان کی ہر جاندار مخلوق اور فرشتے سب اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے سجدہ کرتے ہیں۔ ” یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ الخ “ فرشتے بایں قرب و منزلت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کے پورے پورے فرمانبردار ہیں۔ الغرض کائنات کی ہر چیز اور ساری مخلوق اللہ کے سامنے عاجز اور مطیع و منقاد ہے لہذا ان میں سے کوئی بھی معبود ہونے کے لائق نہیں۔ ” مِنْ شَیْءٍ “ کی تعبیر مفید استغراق ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 ۔ کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ان چیزوں کو نہیں دیکھا جن کے سائے کبھی دائیں جانب کبھی بائیں جانب کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف جھکتے اور پھرتے رہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ ریزہ اور اس کے حکم کے بالکل فرماں بردار ہیں اور وہ سایہ دار چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلیل و عاجز ہیں ۔ یعنی یہ چیزیں بھی اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ان سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ زوال کے بعد سایہ کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں شاید عام مراد ہے ، آفتاب کو نور عطا کرنا اور سایہ دارچیزوں کو کثیف بنانا یہ سب اسی وحدہٗ لا شریک کا کیا ہوا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے اس کا سایہ بھی کھڑا ہے جب دن ڈھلا سایہ جھکا پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑگیا جیسے نماز میں کھڑے سے رکوع رکوع سے سجدہ اسی طرح ہر چیز آپ کھڑی ہے اپنے سایہ سے نماز کرتی ہے کسی ملک میں کسی موسم میں داہنی طرح جھکتا ہے کہیں بانویں طرف ۔ 12