Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 60

سورة النحل

لِلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوۡءِ ۚ وَ لِلّٰہِ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰی ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۶۰﴾  13

For those who do not believe in the Hereafter is the description of evil; and for Allah is the highest attribute. And He is Exalted in Might, the Wise.

آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کی ہی بری مثال ہے اللہ کے لئے تو بہت ہی بلند صفت ہے ، وہ بڑا ہی غالب اور با حکمت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِلَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِالاخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ... For those who do not believe in the Hereafter there is an evil description, meaning, only imperfection is to be attributed to. ... وَلِلّهِ الْمَثَلُ الاَعْلَىَ ... and for Allah is the highest description. meaning He is absolutely perfect in all ways and this absolute perfection is His Alone. ... وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ And He is the All-Mighty, the All-Wise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی کافروں کے برے اعمال بیان کئے گئے ہیں انھیں کے لئے بری مثال یا صفت ہے یعنی جہل اور کفر کی صفت۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی جو بیوی اور اولاد یہ ٹھہراتے ہیں، یہ بری مثال ہے جو یہ منکرین آخرت اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں۔ 60۔ 2 یعنی اس کی ہر صفت، مخلوق کے مقابلے میں اعلٰی و برتر ہے، مثلاً اس کا علم و سیع ہے، اس کی قدرت لا متناہی ہے، اس کی جود و عطا بےنظیر ہے۔ و علٰی ہذا القیاس یا یہ مطلب ہے کہ وہ قادر ہے، خالق ہے۔ رازق ہے اور سمیع وبصیر ہے وغیرہ (فتح القدیر) یا بری مثال کا مطلب نقص کوتاہی ہے اور مثل اعلی کا مطلب کمال مطلق ہر لحاظ سے اللہ کے لیے ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] یعنی ایسی گھٹیا صفات تو ان ظالموں کی ہی ہوسکتی ہیں جن کا روز آخرت پر ایمان ہی نہ ہو۔ نہ انھیں یہ معلوم ہے کہ ان کی ایسی ذلیل حرکتوں کی انھیں عبرتناک سزا ملنے والی ہے۔ رہی اللہ کی ذات تو وہ اولاد ہی سے بےنیاز ہے۔ اللہ کی ذات ان کے تصور سے بھی بلند تر اور ماورا ہے اور اس کے لیے ایسی مثالیں اور صفات ثابت کی جاسکتی ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور ہر بلند چیز سے بلند تر ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۔۔ : ” مَثَلُ “ کا معنی کسی چیز کے مشابہ چیز بھی ہے، ضرب المثل، یعنی کہاوت بھی اور صفت اور حال بھی۔ یہاں اکثر مفسرین نے صفت معنی کیا ہے، یعنی وہ مشرکین جن کا اوپر ذکر ہوا، آخرت، حساب کتاب اور جزا و سزا پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بہت برا حال ہے جو قباحت کی انتہائی مثال ہے، اسی وجہ سے وہ اتنے بیوقوف اور سنگ دل ہوگئے ہیں کہ فرضی خداؤں کے لیے اپنی آمدنی کا ایک حصہ مقرر کرتے ہیں، بیٹیوں کو نہایت حقارت سے دیکھتے ہیں، انھیں زندہ درگور کردیتے ہیں، حالانکہ بڑھاپے اور کمزوری میں انھی کے محتاج ہوتے ہیں، اپنے لیے بیٹوں کی پیدائش پر فخر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں بتاتے ہیں۔ فرشتوں کی عبادت کرتے اور انھیں اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔ یہ چند روزہ زندگی سے دھوکا کھانے اور آخرت پر ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے، اگر انھیں اللہ کے سامنے پیش ہونے کا اور آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی کا یقین ہوتا تو ظلم کی ان صورتوں میں سے ایک کی بھی جرأت نہ کرتے۔ اور اللہ کی صفت تو سب سے اونچی ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں، وہ واحد ہے، احد ہے، اولاد اور والدین سے پاک ہے۔ صرف وہی تمام صفات کمال، جمال اور جلال کا مستحق ہے اور وہی سب پر غالب ہے، زبردست ہے، مگر کمال درجے کا حکیم بھی ہے، وہ اپنے غلبے کو اندھے کی لاٹھی کی طرح نہیں بلکہ نہایت حکمت سے عمل میں لاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Also at the end of the third verse (60), in: وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (And He is the Mighty, the Wise), there is a hint that taking the birth of a baby girl to be nuisance and disgrace, and hiding from people because of it, amount to challenging Divine wisdom - as the creation of male and female among the created is the very requisite of wisdom. (Ruh a1-Bayan) Ruling: Clear indications are visible in these verses that taking the birth of a girl in the family to be a disaster or disgrace is not permissible under Islam. This is done by disbelievers. Quoting Shr&ah (شرعہ ) Tafsir Ruh al-Bayan also says that a Muslim should be happier at the birth of a girl in the family so that it becomes a refutation of the act of the people of Ja-hiliyyah. Says a Hadith: Blessed is the woman who gives birth to a girl in her first pregnancy. That the Arabic word: اِنَاث (inath: females) has been made to precede the word for &males& in the verse of the Qur’ an: وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ‌ (He bestows on whomsoever He wills females and bestows on whomsoever He wills males - 42:49) indicates that the birth of a girl from the first pregnancy is better.[ In another Hadith, it is said: Whoever finds any of such girls en-trusted to his care, and he treats them fairly and favourably, then, these girls will stand as a curtain between him and Hell. (Ruh al-Bayan) To sum up, it can be said that taking the birth of a girl to be bad is a detestable custom of the pagan period. Muslims must abstain from it. In fact, they should be pleased and satisfied with the promise of Allah against it. Allah knows best.

تیسری آیت کے آخیر میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ لڑکی پیدا ہونے کو مصیبت وذلت سمجھنا اور چھپتے پھرنا حکمت خداوندی کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ مخلوق میں نرو مادہ کی تخلیق عین قانون حکمت ہے (روح البیان) مسئلہ : ان آیتوں میں واضح اشارہ پایا گیا کہ گھر میں لڑکی پیدا ہونے کو مصیبت وذلت سمجھنا جائز نہیں یہ کفار کا فعل ہے تفسیر روح البیان میں بحوالہ شرعہ لکھا ہے کہ مسلمان کو چاہئے کہ لڑکی پیدا ہونے سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے تاکہ اہل جاہلیت کے فعل پر رد ہوجائے اور ایک حدیث میں ہے وہ عورت مبارک ہوتی ہے جس کے پہلے پیٹ سے لڑکی پیدا ہو قرآن کریم کی آیت يَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ میں بھی اناث کو مقدم کرنے سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ پہلے پیٹ سے لڑکی پیدا ہونا افضل ہے۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس کو ان لڑکیوں میں سے کسی کے ساتھ سابقہ پڑے اور پھر وہ ان کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی (روح البیان) خلاصہ یہ ہے کہ لڑکی کے پیدا ہونے کو برا سمجھنا بری رسم ہے مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے اور اس کے بالمقابل جو اللہ کا وعدہ ہے اس پر مطمئن اور مسرور ہونا چاہئے واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۚ وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 60؀ۧ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) جو لوگ مرنے کے بعد زندگی پر یقین نہیں رکھتے ان کے لیے جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے تو بڑے اعلی درجہ کے صفات یعنی الوہیت، ربوبیت، وحدت ثابت ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے وہ اس کو سزا دینے میں بڑے زبردست ہیں اور حکمت والے بھی ہیں کہ اس چیز کا حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی کی بھی پرستش نہ کی جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) عقیدۂ آخرت کے حوالے سے یہ حقیقت لائق توجہ ہے کہ یہ عقیدہ دنیوی زندگی میں انسانی اعمال پر تمام عوامل سے بڑھ کر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں آخرت اور ایمان بالآخرت کے بارے میں بہت تکرار پائی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٠۔ اس سے اوپر کی آیتوں میں اللہ پاک نے یہ بیان کیا تھا کہ مشرکین مکہ لڑکیوں کے پیدا ہونے سے ناک چڑہاتے ہیں اور ان بیچاریوں کو اپنے لئے تنگ و عار سمجھتے ہیں اور ان غریب معصوموں کو زندہ زمین میں دفن کردیتے ہیں اور باوجود اس بات کے اپنی زبان سے یہ کہا کرتے ہیں کہ خدا کی لڑکیاں ہیں اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں جانتے ہیں اپنے واسطے تو لڑکیاں پسند نہیں کرتے اور اس خدائے پاک کو جس کے نہ بیوی ہے نہ بچہ بیٹیوں کا ہونا بتلاتے ہیں وہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے وہ نہ اولاد کا محتاج اور نہ کسی رشتے کنبے والوں کا پھر اب یہ فرمایا اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ہیں انہیں اس حساب و کتاب کے دن کا بالکل خوف نہیں ہے انہیں لوگوں کے واسطے بری مثالیں ہیں جاہل ہیں تو یہی ہیں کافر ہیں تو یہ ہیں خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانا انہیں کا کام ہے خدا کو آل و اولاد کا محتاج بتلانا انہیں کا قول ہے خدا تو ان باتوں سے بالکل پاک و صاف ہے اس کے واسطے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی مثالیں وہ بری باتوں کو بندوں کے حق میں بھی نہیں پسند کرتا ہے اپنی ذات کے واسطے کیوں کر گوار کرے گا وہ تو بڑا ہی غالب ہے کوئی اس پر غالب نہیں ہوسکتا اس کی حکمت سب سے بلند ہے وہ بڑا ہی حکمت والا ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزر چکی ہے ١ ؎۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بردبار نہیں ہے کہ لوگ اس کو صاحب اولاد قرار دیتے ہیں اور وہ ان لوگوں کے رزق اور ان کی صحت کے انتظام کو برقرار رکھتا ہے۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ حشر کے منکر لوگ اللہ کی قدرت میں بٹہ لگاتے ہیں حشر کو اس کی قدرت سے باہر گنتے ہیں اس کو اولاد کا محتاج بتلاتے ہیں مخلوق کو اس خالق کا شریک ٹھہراتے ہیں لیکن اس نے اپنی بردباری سے ایسے لوگوں کی راحت کا انتظام برقرار کھا ہے۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٣٣٠۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:60) مثل۔ یہاں اس کا معنی صفت ہے۔ السوئ۔ ساء یسوء (نصر) کا مصدر ہے۔ برا ہونا۔ مثل السوئ۔ مضاف مضاف الیہ۔ برائی کی صفت۔ یعنی وہ صرف برائی اور بری اور مذموم صفات سے ہی متصف ہیں کوئی خوبی یا اچھی صفت ان میں نہیں ہے۔ المثل الاعلی۔ موصوف صفت۔ بہت بلند صفت۔ بہت بڑی خوبی۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین وایمان نہیں رکھتے وہ نہایت بری صفات کے مالک ہیں اور باری تعالیٰ اعلیٰ صفات کے مالک ہیں۔ المثل (معرّف باللام) صرف دو جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ اور دونوں جگہ اللہ کی شان میں ہے ایک اس آیت میں اور دوسرا پارہ نمبر 21 میں ولہ المثل الاعلی فی السموت والارض۔ (30:27) اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی شان اعلیٰ وارفع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی مشرکین جن کا حال اوپر بیان کیا گیا ہے۔ 7 وہی اولاد کے محتاج ہیں۔ ان ہی کو بڑھاپے اور بیماری میں اولاد کے سہارے کی ضرورت ہے اور انہی کا یہ شیوہ ہے کہ عار یا افلاس کے خوف سے بیٹیوں کو زندہ درگور کر ڈالتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ دنیا میں بھی کہ ایسے جہل میں مبتلا ہیں اور آخرت میں بھی کہ مبتلائے عقوبت وذلت ہوں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٠ یہاں شرک کے مسئلے کو مسئلہ انکار آخرت سے ملا دیا جاتا ہے اس لیے کہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں میں ایک ہی قسم کی گمراہی ہے۔ انسانی شعور میں شرک اور انکار آخرت باہم مخلوط ہوتے ہیں اور انسانی شخصیت اور انسانی معاشرے پر ان کے اثرات بھی ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جب ہم ان لوگوں کو بات سمجھائیں جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے تو وہ ہر پہلو کے اعتبار سے برے لوگ نظر آئیں گے۔ اپنے شعور ، اپنے طرز عمل اور اپنے عقائد کے اعتبار سے ، غرض وہ ہر پہلو سے برے ہوں گے۔ یہ لوگ زمین و آسمان میں ہر جگہ برے لوگ ہوں گے۔ اللہ کی اگر ہم کوئی مثال دیں گے تو وہ ہر اعتبار سے ایک اعلیٰ مثال ہوگی ۔ اللہ کی ذات اور کسی دوسری شخصیت میں کوئی مماثلت ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا چھوڑ دو ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ وھو العزیز الحکیم (١٦ : ٦٠) “ وہی تو سب پر غالب اور حکمت میں کامل ہے ”۔ وہ نہایت ہی زبردست طاقت والا ہے۔ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ وہی حکیم ہے ، وہ ہر چیز کو اپنے مقام پر رکھتا ہے تا کہ ہر پرزہ اپنی صحیح جگہ پر اس کی حکمت ، اور اس کے قانون کے مطابق صحیح انداز میں کام کرسکے۔ وہ تو اس قدر طاقتور ہے کہ اگر لوگوں کی بدعملی اور ان کے ظلم کی وجہ سے ان کو فوراً پکڑ لے تو ان کو پوری دنیا کو تہ وبالا کر دے۔ لیکن اس کی اسکیم کا تقاضا یہ تھا کہ ان کو قدرے مہلت دی جائے کیونکہ وہ عزیز و حکیم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوْءِ ) (جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کی بری حالت ہے) (کہ دنیا میں جہالت اور حماقت میں مبتلا ہیں اور آخرت میں عذاب اور ذلت میں مبتلا ہوں گے) (وَ لِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی) (اور اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ ہیں) اس کا وجود ذاتی ہے اس کی قدرت کاملہ ہے، خالقیت اور مالکیت میں اس کا کوئی شریک اور سہیم نہیں وہ کسی کا محتاج نہیں اولاد اس کے لیے شایان شان نہیں۔ (وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) اور وہ عزت والا غلبہ والا ہے حکمت والا ہے، جو کچھ وجود میں ہے سب کچھ اس کی حکمت کے مطابق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ یہ ماقبل ہی سے متعلق ہے اور اس میں مشرکین کے قول مذکور کی شفاعت ہی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ مشرکین جن کا آخرت پر ایمان نہیں اور جن کے دلوں میں آخرت کی جواب دہی کا ڈر نہیں وہ بہت بری صفتوں کے مالک ہیں۔ مثلاً لڑکوں کو پسند کرنا اور لڑکیوں سے نفرت کرنا اور شرم و عار اور تنگدستی کے ڈر سے ان کو زندہ درگور کرنا لیکن اللہ تعالیٰ بلند صفات کا مالک ہے اور ان گھٹیا صفتوں سے منزہ ہے۔ صفۃ السوء وھی الحاجۃ الی الاولاد الذکور وکراھۃ الاناث و وادھن حشیۃ الاملاق (وللہ المثل الاعلی) وھو الغنی عن العالمین والنزاھۃ عن صفات المخلوقین (مدارک ج 2 ص 223) اللہ تعالیٰ مخلوق کی صفات سے منزہ اور اولاد سے مستغنی ہے۔ اسے نہ کسی نائب اور معاون کی حاجت ہے اور نہ وہ کسی کی سفارش کا تابع ہے۔ العزیز فی الاخذ والحکیم فی التاخیر۔ یعنی وہ پکڑنے میں زبردست ہے اور ڈھیل دینے میں بھی اس کی کوئی حکمت ہوتی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

60 ۔ جو لوگ آخرت پر ایمان اور یقین نہیں رکھتے ان کی بری مثال اور بری حالت ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بلند ترین اور بڑے اعلیٰ درجے کی صفات ثابت ہیں اور وہ بڑا زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔ یعنی منکرین کی دنیا اور آخرت میں بری حالت ہے ۔ یہاں بیوقوفی اور جہالت میں مبتلا اور وہاں عذاب میں مبتلا ، اللہ تعالیٰ کی یہ لوگ جو صفات بیان کرتے ہیں وہ ان سے بہت بلند صفات کا مالک ہے زبردست کے ساتھ چونکہ کمال حکمت کا مالک ہے بمقتضائے حکمت ان کی جلدی گرفت نہیں کرتا۔ فائدے بجائے ننگ و عار کے۔ بعض مفسرین نے ایمس کہ علی ھون کی تفسیر اس طرح بھی کی ہے کہ اس لڑکی کو ذلت کے ساتھ زندہ کھے یا مٹی میں دبا دے یعنی لڑکی کو زندہ رکھے مگر اس کے ساتھ ذلت آمیز برتائو کرے مکہ کے کافروں میں لڑکی کے ساتھ ہی ذلت آمیز برتائو تھا۔