Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 65

سورة النحل

وَ اللّٰہُ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّسۡمَعُوۡنَ ﴿۶۵﴾٪  14

And Allah has sent down rain from the sky and given life thereby to the earth after its lifelessness. Indeed in that is a sign for a people who listen.

اور اللہ آسمان سے پانی برسا کر اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو سنیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاللّهُ أَنزَلَ مِنَ الْسَّمَاء مَاء فَأَحْيَا بِهِ الاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ... And Allah sends water down from the sky, then He revives the earth with it after its death. Just as Allah causes the Qur'an to bring life to hearts that were dead from disbelief, so He brings the earth to life after it has died, by sending down water from the sky. ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لايَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ Surely that is a sign for people who listen. meaning those who understand the words and their meanings.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] بارش سے روئیدگی اور بعث بعد الموت پر ثبوت :۔ زمین خشک اور بالکل بےآب وگیاہ پڑی ہوتی ہے مگر برسات کے موسم میں ہر طرف جڑی بوٹیاں گھاس، درخت اور پودے وغیرہ از خود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جن کے بیج وغیرہ مدتوں پہلے زمین میں دبے ہوئے تھے۔ پھر اس موسم میں مینڈک اور کئی قسم کے ایسے حشرات الارض بھی پیدا ہوجاتے ہیں جن کا پہلے نام و نشان تک مٹ چکا تھا اور موسم کی شدت نے اس نوع کا کلیتاً خاتمہ کردیا تھا۔ مگر برسات کے موسم میں وہ بھی از سر نو پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ منظر تم اپنی زندگی میں بار بار دیکھتے رہتے ہو۔ بالکل ایسی ہی صورت حال انسان کی دوبارہ پیدائش کی ہوگی۔ جب دوسری بار صور میں پھونکا جائے گا تو اس کی حیثیت بالکل وہی ہوگی جیسے نباتات کے لیے اور حشرات الارض کے لیے بارش اور موسم برسات کی ہے۔ انسان کا جسم خواہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہو۔ اس نفخہ صور ثانی یا روحانی قسم کی بارش سے سب دوبارہ جی اٹھیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۔۔ : ” السَّمَاۗءِ “ ” سِمْوٌ“ سے مشتق ہے جس کا معنی بلندی ہے، اس لیے ہر اونچی چیز کو ” سَمَاءٌ“ کہہ لیتے ہیں۔ یہاں مراد بلندی سے اتارنا بھی ہوسکتا ہے اور بادل سے بھی۔ یہاں پانی کی نعمت کی طرف توجہ دلائی ہے جو زندگی کا اصل ہے، فرمایا : ( ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ) [ الأنبیاء : ٣٠ ] ” اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز بنائی۔ “ یعنی زمین مردے کی طرح خشک پڑی تھی، نہ اس میں زندگی کے کوئی آثار تھے، نہ گھاس پھونس، نہ پھول پتیاں اور نہ کیڑے مکوڑے، اتنے میں بارش ہوئی اور وہ دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں ہری بھری اور تروتازہ ہوگئی اور اس میں ہر قسم کی سرسبزی اور شادابی آگئی اور جگہ جگہ پانی کے چشمے پھوٹنے لگے، گویا مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ یہ مضمون سورة حج کی آیت (٥، ٦) میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، وہاں اس کی تین حکمتیں بیان ہوئی ہیں اور دیکھیے سورة روم (٥٠) اور سورة یٰسٓ (٣٣، ٣٤) ۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ : اس سے وہ بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ جو مالک زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندگی عطا فرما سکتا ہے، وہ انسانوں کو بھی ان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرسکتا ہے، اس کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں۔ سننے سے مراد انصاف اور غور سے سننا ہے، کیونکہ جو دل سے نہ سنے سمجھو بہرا ہے، جسے سنائی نہیں دیتا، فرمایا : (لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ) [ الأعراف : ١٧٩ ] ” ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ 65؀ۧ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) اللہ تعالیٰ نے بارش برسا کر اس سے زمین کو خشک ہوجانے اور قحط سالی کے بعد زندہ کیا، اس امر میں ان لوگوں کے لیے جو اطاعت کرتے اور تصدیق کرتے ہیں، بڑی دلیل توحید ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ ) یہ نشانی ان لوگوں کے لیے ہے جن کا سننا حیوانوں کا سا سننا نہ ہو بلکہ انسانوں کا سا سننا ہو۔ علامہ اقبال نے ” زبور عجم “ میں کیا خوب کہا ہے : دم چیست ؟ پیام است ‘ شنیدی ‘ نشنیدی ! در خاک تو یک جلوۂ عام است ندیدی ؟ دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! یعنی سانس جو تم لیتے ہو یہ بھی اللہ کا ایک پیغام ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ تم اس پیغام کو سنتے ہو یا نہیں سنتے ہو۔ یہ درست ہے کہ تم خاک سے بنے ہو ‘ مگر تمہارے اسی خاکی وجود کے اندر ایک نور اور جلوۂ ربانی بھی موجود ہے۔ یہ روح ربانی جو تمہارے وجود میں پھونکی گئی ہے یہ جلوہ ربانی ہی تو ہے ‘ جسے تم دیکھتے ہی نہیں ہو۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ تمہارے اندر کیا کیا کچھ موجود ہے : (وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) (الذاریات) ” اور تمہارے اندر (کیا کچھ ہے) ‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ “ ذرا دوسری طرح کا دیکھنا اور دوسری طرح کا سننا سیکھو ! ایسا دیکھنا سیکھو جو چیزوں کی اصلیت کو دیکھ سکے اور ایسا سننے کی صلاحیت حاصل کرو جس سے تمہیں حقیقت کی پہچان نصیب ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ دیکھنا اور یہ سننا محض حیوانوں کا سا دیکھنا اور سننا ہے۔ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ! اس سورة میں تکرار کے ساتھ اہل فکر و دانش کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر ‘ سن کر اور سمجھ کر سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ (آیت زیر نظر کے علاوہ ملاحظہ ہوں آیات ١١ ‘ ١٢ ‘ ٦٧ ‘ ٦٩ اور ٧٩)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 پہلے مردے کی طرح خشک پڑی تھی۔ نہ اس میں زندگی کے کوئی آثار تھے۔ نہ گھاس پھونس نہ پھول پتیاں اور نہ کیڑے مکوڑے۔ اتنے میں بارش ہوئی اور وہ دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں ہری بھری اور ترو تازہ ہوگئی اور اس میں ہر قسم کی سرسبزی و شادابی آگئی اور جگہ جگہ پانی کے چشمے پھوٹنے لگے کو یا مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ 3 اس سے وہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ جو خدا زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندگی عطا فرما سکتا ہے وہ انسانوں کو بھی انکے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی اس کی قوت نامیہ کو بعد اس کے خشک ہوجانے سے کمزور ہوگئی تھی تقویت دی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان کی زندگی اور دنیا کی بقا کے لیے پانی اس کی بقا کا ضامن ہے۔ اسی طرح انسان کی روحانی اور ایمانی زندگی کے لیے قرآن مجید تریاق اور آب حیات ہے۔ انسان کی روحانی اور ایمانی زندگی کا انحصار آسمانی وحی پر ہے آخری وحی قرآن مجید کی شکل میں نازل کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسان کی روح اور اس کا ایمان صحت مند اور توانا نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح انسان کی مادی زندگی کی بنیاد پانی پر رکھی گئی ہے۔ (أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ )[ الانبیاء : ٣٠] ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ “ آبیات (ہائیڈرولوجی): آج ہم جس تصور کو ” آبی چکر “ (واٹر سائیکل) کے نام سے جانتے ہیں اسے پہلے پہل ١٥٨٠ ء میں برنارڈ پیلیسی نامی ایک شخص نے پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ سمندروں سے کس طرح پانی تبخیر ( Evaporation) ہوتا ہے اور کس طرح وہ سرد ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں، بلند تر ہوتے ہیں، ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ یہ پانی جھیلوں، جھرنوں، ندیوں اور دریاؤں کی شکل میں آتا ہے اور بہتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتا ہے اس طرح پانی کا یہ چکر جاری رہتا ہے۔ ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلز نامی ایک یونانی فلسفی کو یقین تھا کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار (اسپرے) پیدا ہوتی ہے۔ ہوا اسی پھوار کو اٹھا لیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کر بارش کی صورت میں برساتی ہے۔ پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین پانی کا ماخذ کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہوا کی زبردست قوت کے زیر اثر سمندر کا پانی براعظموں (خشکی) میں اندرونی حصوں تک داخل ہوتا ہے۔ انہیں یہ یقین بھی تھا کہ پانی ایک خفیہ راستے یا ” عظیم تاریکی “ (Great Abyss) سے آتا ہے، سمندر سے ملا ہوا یہ تصوراتی راستہ افلاطون کے زمانے سے میں ” ٹارٹارس “ کہلاتا تھا، حتی کہ اٹھارہویں صدی کے عظیم مفکر، ڈیکارتے (dEsvarts) نے بھی انہیں خیالات سے اتفاق کیا ہے۔ انیسویں صدی عیسوی تک ارسطو کا نظریہ ہی زیادہ مقبول و معروف رہا۔ اس نظریے کے مطابق، پہاڑوں کے سرد غاروں میں پانی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور وہ زیر زمین جھیلیں بناتا ہے جو چشموں کا باعث بنتی ہیں۔ آج ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ بارش کا پانی زمین پر موجود دراڑوں کے راستے رِس رِس کر زیر زمین پہنچتا ہے اس سے چشمے بنتے ہیں۔ درج ذیل آیات قرآنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی مختلف قسمیں ہیں۔ “ [ الزمر : ٢١] ” آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ “ [ الروم : ٢٤]” اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرادیا، ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں۔ “ [ المؤمنون : ١٨]” قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی۔ “ [ الطارق : ١١] (وَأَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَأَسْقَیْنَاکُمُوْہُ )[ الحجر : ٢٢] ” اور ہم ہی ہواؤں کو بارآور بناکر چلاتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں۔ “ یہاں عربی لفظ ” لواقح “ استعمال کیا گیا ہے، جو ” لاقح “ کی جمع ہے اور ” لاقحہ “ سے مشتق ہے، جس کا مطلب ” بارآور “ کرنا یا ” بھردینا “ ہے، اسی سیاق وسباق میں بار سے مراد یہ ہے کہ ہوا، بادلوں کو (ایک دوسرے کے) قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح کی توضیحات، قرآن پاک کی دیگرآیات مبارکہ میں بھی موجود ہے۔ (از : خطبات ڈاکٹر ذاکر نائیکْ ” کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکروں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچالیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ “ [ النور : ٤٣] ” اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکریوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے بھیجتا تو یکایک وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ “ [ الروم : ٤٨]

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٦٥ پانی تو ہر چیز کی زندگی کا سامان ہے۔ قرآن مجید اسے پورے کرۂ ارض کے لئے علی العموم سامان حیات قرار دیتا ہے ، جو چیز بھی اس کرۂ ارض کی پشت پر ہو اور اللہ جو ہر چیز کو حالت مرونی سے زندگی کی حالت میں لاتا ہے وہی ہے جو الٰہ ہونے کے لائق و سزاوار ہے۔ ذلک لایۃ لقوم یسمعون (١٦ : ٦٥) “ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لئے ” تا کہ وہ جس چیز کو سنیں اس پر غور کریں اور سمجھیں۔ یہی اصل مسئلہ ہے یہ کہ دلائل الوہیت اور دلائل حیات بعد الموت جس کا قرآن کریم با ربار تذکرہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہے اس کائنات میں جابجا بکھرے پڑے ہیں ، لیکن یہ آیات و معجزات ان لوگوں کے لئے ہیں جو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور پھر مزید غوروفکر کرتے ہیں۔ مویشیوں اور جانوروں کے اندر بھی ایک نصیحت آموز چیز موجود ہے۔ یہ خالق کائنات کی عجیب تخلیق ہے اور یہی ایک دلیل الٰہ العالمین کی کبریائی کے لئے بس ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاللّٰہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا) (اور اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد پانی کے ذریعے زندہ فرمایا) جب زمین ہری بھری ہوگئی اور اس میں سے طرح طرح کے پھل میوے سبزیاں ترکاریاں حاصل ہوئیں تو انسانوں کے لیے اور ان کے جانوروں کے لیے غذا بن کر زندگی کا سہارا ہوگیا اللہ تعالیٰ نے زندگی بھی دی روحانی غذا بھی دی یعنی قرآن مجید عطا فرمایا اور اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہادی بنا کر مبعوث فرمایا اور جسمانی غذا بھی دی یہ سب اس کا فضل ہے۔ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ ) (اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سنتے ہیں) یعنی دلائل سے منتفع ہوتے ہیں اور قادر اور خالق ومالک پر ایمان لاتے ہیں جس کی رحمت سے ہدایت کا بھی انتظام ہوا اور کھانے پینے کو بھی ملا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ یہ توحید پر پانچویں عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ بارش برسا کر مردہ اور ناکارہ زمین کو سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے سمجھ رکھنے والوں کے لیے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ ” و ان لکم فی الانعام “ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ ان کے پیٹ کے گوبر اور خون کے درمیان میں سے وہ خالص اور پاکیزہ دودھ نکالتا ہے جو ان دونوں ناپاک چیزوں کی آمیزش سے بالکل پاک اور مبرا ہوتا ہے اور ہر شخص کے لیے خوشگوار ہے۔ دودھ دینے والے چوپائے جو چارہ یا خوراک کھاتے ہیں ہضم معدے کے بعد جگر اس کے کار آمد اجزاء اپنی طرف جذب کرلیتا ہے اور گوبر معدہ میں رہ جاتا ہے جگر اس سیال مادے کو مزید طنج دینے کے بعد خون کے اجزاء الگ کر کے دل کی طرف بھیج دیتا ہے اور دودھ کے اجزاء الگ کر کے دودھ کی نالیوں کے ذریعہ تھنوں میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔ لعبرۃ ای دلالۃ علی قدرۃ اللہ ووحدانیتہ وعظمتہ (قرطبی ج 10 ص 123) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آسمان کی جانب سے پانی نازل کیا پھر اس پانی سے زمین کو اس کے مرنے اور خشک ہوجانے کے بعد زندہ کردیا بلا شبہ اس زمین کو مرے پیچھے زندہ کرنے میں ان لوگوں کے لڑے بڑی دلیل ہے جو توجہ اور دل کے ساتھ ان باتوں کو سنتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اسی طرح قرآن کریم جاہلوں کو عالم کرے گا اگر دل سے سنیں گے۔ 12 زمین کا مرنیکے بعد زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پانی برسنے کے بعد زمین میں پھر نمو کی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔