Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 7

سورة النحل

وَ تَحۡمِلُ اَثۡقَالَکُمۡ اِلٰی بَلَدٍ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا بٰلِغِیۡہِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ ؕ اِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ۙ﴿۷﴾

And they carry your loads to a land you could not have reached except with difficulty to yourselves. Indeed, your Lord is Kind and Merciful.

اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کیئے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے ۔ یقیناً تمہارا رب بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ ... And they carry your loads, meaning the heavy burdens that you cannot move or carry by yourselves, ... إِلَى بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُواْ بَالِغِيهِ إِلاَّ بِشِقِّ الاَنفُسِ ... to a land that you could not reach except with great trouble to yourselves, meaning journeys for Hajj, Umrah, military campaigns, and journeys for the purpose of trading, and so on. They use these animals for all kinds of purposes, for riding and for carrying loads, as Allah says: وَإِنَّ لَكُمْ فِى الاٌّنْعَـمِ لَعِبْرَةً نُّسْقِيكُمْ مِّمَّا فِى بُطُونِهَا وَلَكُمْ فيِهَا مَنَـفِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ And verily, there is indeed a lesson for you in the An'am (cattle). We give you to drink (milk) of that which is in their bellies. And there are numerous (other) benefits in them for you. Of them you eat, and on them and on ships you are carried. (23:21-22) اللَّهُ الَّذِى جَعَلَ لَكُمُ الاٌّنْعَـمَ لِتَرْكَـبُواْ مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَلَكُمْ فِيهَا مَنَـفِعُ وَلِتَـبْلُغُواْ عَلَيْهَا حَاجَةً فِى صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ وَيُرِيكُمْ ءَايَـتِهِ فَأَىَّ ءَايَـتِ اللَّهِ تُنكِرُونَ Allah, it is He Who has made cattle for you, so that some you may ride, and some you may eat. And you find (many other) benefits in them; you may reach by their means a desire that is in your breasts (i.e. carry your goods, loads), and on them and on ships you are carried. And He shows you His Ayat. Which, then of the Ayat of Allah do you deny! (40:79-81) Thus here Allah says, after enumerating these blessings, ... إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَوُوفٌ رَّحِيمٌ Truly, your Lord is full of kindness, Most Merciful. meaning, your Lord is the One Who has subjugated the An`am (cattle) to you. This is like the Ayat: أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَأ أَنْعـماً فَهُمْ لَهَا مَـلِكُونَ وَذَلَّلْنَـهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ Do they not see, that of what Our Hands have created, We created the An'am (cattle) for them, so that they may own them, and We subdued them so that they may ride some and they may eat some. (36:71-72) وَالَّذِى خَلَقَ الاَزْوَجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالاٌّنْعَـمِ مَا تَرْكَبُونَ لِتَسْتَوُواْ عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُواْ نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُواْ سُبْحَـنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَـذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّأ إِلَى رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ And He made mounts for you out of ships and cattle. In order that you may ride on their backs, and may then remember the favor of your Lord when you mount upon them, and say: "Glory be to the One Who subjected this to us, and we could never have it (by our efforts). And verily, to Our Lord we indeed are to return!" (43:12-14) Ibn Abbas said, لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ (In them there is warmth), refers to clothing; وَمَنَافِعُ (and numerous benefits), refers to the ways in which they derive the benefits of food and drink from them."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ ۔۔ : یہ بات قرآن میں کئی جگہ آئی ہے، مثلاً سورة مومنون (٢١، ٢٢) ، سورة مومن (٧٩ تا ٨١) ، سورة یس (٧١ تا ٧٣) اور سورة زخرف (١٢ تا ١٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ۭاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ۝ۙ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ شق ( مشقت) والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] ( ش ق ق ) الشق الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ دود سے بدن نا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔ رأف الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ «3» ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور/ 2] . ( ر ء ف ) الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور/ 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ) ان میں ایسے جانور بھی ہیں جو سازو سامان کے نقل و حمل میں تمہارے کام آتے ہیں اور ان کے بغیر تم یہ بھاری چیزیں اٹھا کر دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچا سکتے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:7) لم تکونوا بلغیہ۔ جہاں تک تم نہیں پہنچ سکتے۔ بالغیہ مضاف مضاف الیہ۔ بلغی اصل میں بالعین تھا۔ ن جمع بسبب اضافت حذف ہوگیا۔ بلوغ مصدر۔ شق الانفس۔ مضاف مضاف الیہ۔ جانی مشقت ۔ جانی دشواری ۔ شق بمعنی مشقت جا نکاہی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کہ تمہارے آرام کے لئے کیا کیا سامان پیدا کئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حلال چوپایوں کے ذکر کے بعد بار برداری کے کام آنے والے چوپایوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کرم فرمائی ہے کہ اس نے حلال چوپاؤں اور بار برداری کے کام آنے والے چوپاؤں کے درمیان حلال و حرام کے ذریعے فرق کردیا ہے۔ حلال چوپایوں میں بھیڑ اور بکریوں کا گوشت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اور ان کی نسل دنیا کے تمام ممالک میں حسب ضرورت پائی جاتی ہے۔ ان کی افزائش اور پیدائش کا سلسلہ دوسرے چوپایوں کے مقابلے میں زود افزائش ہے۔ بھیڑچھ سے سات مہینے کے دوران ایک سے لے کر تین تک بچے جنم دیتی ہے۔ بکری پانچ سے چھ مہینے کی مدت میں عام طور پر دو سے چار بچے پیدا کرتی ہے۔ ان کے مقابلے میں بار برداری کے کام آنے والے جانوروں کی حلال جانوروں کے مقابلے میں نسبتاََ کم ضرورت ہوتی ہے اس لیے ان کی مدت پیدائش میں بھی خاصہ فرق رکھا گیا ہے۔ شاید اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ انہوں نے بوجھ اٹھا کر طویل سفر کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے گھوڑی اور گدھی بارہ ماہ کے بعد بچہ پیدا کرتی ہے۔ تاکہ ان کے جسم مضبوط ہوں اور ان کے تخلیقی ڈھانچے میں کسی قسم کی کمزوری واقع نہ رہے۔ اگر سواری اور باربرداری کے لیے یہ جانور پیدا نہ کیے جاتے تو انسان کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بھاری بھرکم اشیا کی منتقلی ناممکنات میں سے ہوجاتی۔ چوپائے سواری اور بار برداری کے کام آنے کے علاوہ آدمی کی زینت اور شوکت میں اضافہ کے باعث بھی ہیں۔ بالخصوص گھوڑے اور خچر کی سواری سوار کی شوکت میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے چوپایوں کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ ورنہ انسان کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ انہیں اپنے تابع کرلیتا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہاری سواری اور باربرداری کے لیے اللہ تعالیٰ وہ کچھ پیدا کرے گا جس کو تم نہیں جانتے چناچہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل عنایت فرمائی کہ وہ سواری اور باربرداری کے لیے نئی سے نئی ایجادات کرتا رہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج فضا میں سینکڑوں من بوجھ اٹھائے ہوئے ہوائی جہاز پرواز کر رہے ہیں اور ہزاروں ٹن وزن اٹھائے بحری جہاز سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے ہزاروں میل کی مسافت طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ ایجادات نہ ہوتیں تو انسان کبھی اتنی ترقی نہ کرسکتا۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارا رب تم پر بڑا مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا اسْتَوٰی عَلٰی بَعِےْرِہٖ خَارِجًا اِلَی السَّفَرِ کَبَّرَ ثَلٰثًا ثُمَّ قَالَ (سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِےْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَاالْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَےْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاطْوِلَنَا بُعْدَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِےْفَۃُ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَّعْثَآء السَّفَرِ وَکَآبَّۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالاَھْلِ ) وَاِذَا رَجَعَ قَالَ ھُنَّ وَزَادَ فِےْھِنَّ (اآءِبُوْنَ تَآءِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ ) [ رواہ مسلم : باب مایقول اذا رکب الی سفرالحج ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر پر روانہ ہوتے وقت جب اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعا پڑھتے ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کردیا حالانکہ ہم اس کو زیر کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ بارِالٰہا ! ہم اس سفر میں نیکی ‘ تقویٰ اور ایسے عمل کا سوال کرتے ہیں جس میں تیری رضا ہو۔ اے ہمارے معبود ! ہمارے اس سفرکو آسان بنا دے ‘ اس کی دوری کو سمیٹ دے۔ بارِ الٰہا ! تو سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور اہل و عیال کی حفاظت فرمانے والا ہے۔ بارِ الٰہا ! میں سفر کی مشقتوں ‘ غمناک منظر اور اپنے اہل و عیال اور مال میں پریشان واپسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ جب واپس آتے تو ان کلمات کا اضافہ فرماتے۔” ہم لوٹنے والے ہیں ‘ توبہ کرنے والے ہیں ‘ عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی حمدوثنا کے گن گانے والے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا بوجھ اٹھانے کے لیے چوپائیپیدا کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت اور رحمت فرمانے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے گھوڑے، خچر اور گدھے سواری کے لیے پیدا کیے ہیں اور ان کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ وہ کچھ پیدا کرے گا جسے انسان نہیں جانتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ شفقت اور رحمت والا ہے : ١۔ اللہ بڑی شفقت اور رحمت والا ہے۔ (النحل : ٧) ٢۔ اللہ تمہارے ساتھ شفقت اور رحمت فرماتا ہے۔ (الحدید : ٩٠) ٣۔ اللہ لوگوں کے ساتھ شفقت اور رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ : ١٤٣) ٤۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی بیشک وہ شفقت کرنے اور رحم والا ہے۔ (التوبۃ : ١١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 ۔ اور مزید برآں یہ چوپائے تمہارے بوجھ بھی ان شہروں اور ان مقامات تک اٹھا کرلے جاتے ہیں کہ جہاں تک تم بغیر مشقت اور جانکا ہی کے نہیں پہنچ سکتے چہ جائے کہ بوجھ اٹھا کر پہنچ سکوبلا شبہ تمہارا پروردگار یقینا بڑی شفقت کرنے والا بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ یعنی یہ چو پائے ہزاروں من کا بوجھ لئے گائوں درگائوں پھرتے ہیں ریتلے ملکوں میں جاتے ہیں پہاڑوں پر چڑھتے ہیں کیچڑ پانی میں لئے پھرتے ہیں تم ان مواقع پر اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے ۔ ہاں یہ چوپائے ہزاروں من بوجھ لیکر پہنچ جاتے ہیں اور تم کو بغیر بوجھ کے تنہا پہنچنا بھی دشواری سے خالی نہیں۔