Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 73

سورة النحل

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَہُمۡ رِزۡقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۚ۷۳﴾

And they worship besides Allah that which does not possess for them [the power of] provision from the heavens and the earth at all, and [in fact], they are unable.

اور وہ اللہ تعالٰی کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں کچھ بھی تو روزی نہیں دے سکتے اور نہ قدرت رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Denouncing the Worship of anything besides Allah Allah tells وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ ... And they worship others besides Allah, Allah tells us about the Mushrikin who worship others besides Him, even though He alone is the bountiful Provider, the Creator and Sustainer, without partners or associates, but they still worship idols and make rivals for Him. He says: ... مَا لاَ يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ شَيْيًا ... such as do not have power to grant them any provision from the heavens or the earth, meaning, nobody can cause rain to fall, or make plants and trees grow. ... وَلاَ يَسْتَطِيعُونَ nor the ability to do so. They cannot do these things for them- selves, even if they wanted to. Thus Allah says:

توحید کی تاکید نعمتیں دینے والا ، پیدا کرنے والا ، روزی پہنچانے والا ، صرف اللہ تعالیٰ اکیلا وحدہ لا شریک لہ ہے ۔ اور یہ مشرکین اس کے ساتھ اوروں کو پوجتے ہیں جو نہ آسمان سے بارش برسا سکیں ، نہ زمین سے کھیت اور درخت اگا سکیں ۔ وہ اگر سب مل کر بھی چاہیں تو بھی نہ ایک بوند بارش برسانے پر قادر ، نہ ایک پتے کے پیدا کرنے ان میں سکت پس تم اللہ کے لئے مثالیں نہ بیان کرو ۔ اس کے شریک و سہیم اور اس جیسا دوسروں کو نہ سمجھو ۔ اللہ عالم ہے اور وہ اپنے علم کی بنا پر اپنی توحید پر گواہی دیتا ہے ۔ تم جاہل ہو ، اپنی جہالت سے دوسروں کو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی اللہ کو چھوڑ کر عبادت بھی ایسے لوگوں کی کرتے ہیں جن کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] ان کے معبود نہ تو بارش برسانے پر قادر ہیں نہ زمین سے غلے اور پھلدار درخت پیدا کرنے پر، نہ ہی وہ یہ بتاسکتے ہیں کہ زمین میں کون کون سے خزانے موجود ہیں اور وہ کون کون سے مقامات پر موجود ہیں، نہ وہ ان باتوں پر آج قدرت رکھتے ہیں اور نہ آئندہ کبھی قادر ہوسکیں گے یعنی تمہاری زندگی اور تمہاری نوع کی بقا کے اسباب تو صرف اللہ مہیا کرے اور اس کی بندگی میں تم اوروں کو بھی شریک بنا لو۔ یہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ میں ہر بت، تھان، آستانہ، زندہ و مردہ بزرگ، غرض ہر چیز آگئی جسے وہ پوجتے اور پکارتے ہیں اور ان سب کے لیے ” مَا “ کا لفظ استعمال فرمایا جو عام طور پر ان چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں عقل نہیں۔ ” رِزْقًا “ میں تنوین تنکیر کے لیے ہے کہ جو کسی معمولی سے معمولی رزق کے مالک بھی نہیں۔ اسی طرح ” شَـيْـــًٔـا “ نکرہ ہے کہ کسی بھی رزق کی ملکیت میں ان کا کچھ بھی حصہ نہیں، یعنی ان مشرکوں کی جہالت دیکھو کہ ان معبودوں کو پوجتے اور پکارتے ہیں جو نہ تو آسمان و زمین میں سے کسی بھی طرح کے رزق کی کچھ بھی ملکیت رکھتے ہیں، نہ آسمان سے بارش برسانے کے مالک، نہ زمین سے کچھ اگانے کے قابل، نہ کوئی چیز پیدا کرنے کے قابل، نہ جو چیز اگے اسے باقی رکھنے کے قابل، پھر وہ معبود کیسے بن گئے ؟ وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : یہ اس غلط گمان کی تردید ہے کہ مالک تو واقعی اللہ تعالیٰ ہے، مگر ہمارے یہ دستگیر اس سے دلوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ سے جو چاہیں منوا سکتے ہیں، جیسا کہ ایک صاحب نے کہا ؂ اولیاء راہست قدرت از الہ تیر جستہ باز آرندش زراہ ” اولیاء کو اللہ کی طرف سے یہ طاقت ملی ہوئی ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو راستے سے واپس لے آتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے پاس کسی طرح بھی کوئی طاقت نہیں، نہ خود کچھ دینے کی، نہ اللہ تعالیٰ کو اپنی محبت یا طاقت اور دھونس کے ساتھ مجبور کرکے دلوانے کی، بلکہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ کوئی ہمیں پکار بھی رہا ہے۔ (دیکھیے احقاف : ٥، ٦) ان کے اس عقیدے کی تردید سورة یونس (١٨) اور سورة زمر (٣) میں بھی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔ ” وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ “ میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ ایسا اختیار حاصل کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مجبور محض ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 73؀ۚ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣) یعنی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان بتوں کی عبادت کرتے رہیں گے کہ جو نہ آسمان سے پانی برسانے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں سے کسی پیداوار پر قادر ہیں اور نہ اختیار حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ) مشرکین عرب ایام جاہلیت میں جو تلبیہ پڑھتے تھے اس میں توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ شرک کا اثبات بھی موجود تھا۔ ان کا تلبیہ یہ تھا : لبّیک اللّٰھُم لبّیک ‘ لبّیک لَا شَرِیْکَ لَک لبّیک ‘ اِلَّا شَرِیْکًا تَملِکُہُ وَمَا مَلَک یعنی میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ہے ‘ میں حاضر ہوں۔ سوائے اس شریک کے کہ اس کا اور جو کچھ اس کا اختیار ہے سب کا مالک تو ہی ہے۔ یعنی بالآخر اختیار تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک تجھ سے آزاد ہو کر خود مختار (autonomous) نہیں ہے۔ چناچہ جس طرح عیسائیوں نے توحید کو تثلیث میں بدلا اور پھر تثلیث کو توحید میں لے آئے (One in three and three in One) اسی طرح مشرکین عرب بھی توحید میں شرک پیدا کرتے اور پھر شرک کو توحید میں لوٹا دیتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٣۔ ٧٤۔ اوپر وحدانیت الٰہی کا ذکر فرما کر اب مشرکوں کو یوں قائل کیا کہ تم لوگ جو سوا اللہ کے غیروں کی عبادت کرتے ہو جن میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ تمہارے رزق کا کچھ انتظام کریں نہ آسمان میں ان کا اختیار کہ وہاں سے مینہ برسا سکیں نہ زمین میں ان کا کچھ تصرف ہے کہ اس میں غلہ پیدا کریں اور درخت اگائیں۔ عالم بالا اور عالم پستی میں کہیں بھی ان کا ذرہ برابر عمل دخل نہیں بلکہ خود انہی میں کوئی قدرت نہیں دوسرے کے محتاج ہیں خدا کی مخلوق ہیں اس لئے یہ عبادت کے ہرگز سزاوار نہیں۔ اطاعت اور بندگی تو خدائے وحدہ لا شریک کو زیبا ہے جو کل شئے کا خالق اور رازق ہے پھر فرمایا کہ اللہ کی مخلوق کو اس کا شبیہ نہ قرار دو کیونکہ وہ سب خدا کے بندے ہیں اور اس کی ملکیت اور اختیار میں ہیں صرف وہی اکیلا ہے جو کسی کے اختیار میں نہیں اس واسطے اس کا کوئی مثل نہیں مشرکین مکہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ جل جلالہ کا مرتبہ ایسا عالی ہے کہ ہم میں سے کسی کو اس کی عبادت کی مجال نہیں ہے اسی واسطے وہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جن لوگوں کی یہ بت مورتیں ہیں وہ اللہ کے خالص بندے ہیں ان کو خدا کے دربار میں تقرب حاصل ہے بارگاہ الٰہی میں یہ ہماری شفاعت کریں گے جس طرح چھوٹے آدمی دنیا میں بادشاہوں کے مصاحبوں کی خدمت کرتے ہیں اور وہ لوگ بادشاہوں کی خدمت بجا لاتے ہیں ہر شخص کا مقدر نہیں کہ بادشاہوں تک اس کی رسائی ہوجاوے تو انہی مصاحبوں کے وسیلے سے اللہ پاک نے اس عقیدے کو یوں غلط قرار دیا کہ تمہیں اس کا علم نہیں ہم جانتے ہیں خدا کے ہاں بھلا ان کو کیا تقرب حاصل ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوتا تو اس بت پرستی کے جرم میں پہلی امتوں پر طرح طرح کی آفتیں کیوں آتیں مکہ کے قحط کے تمہیں ان بتوں سے کچھ مدد کیوں نہ ملی۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت گزر چکی ہے ١ ؎ کہ ان بت پرستوں نے مرے ہوئے نیک لوگوں کی مورتیں بنالی ہیں انہیں مورتوں کی پوجا کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ نیک لوگ ان بت پرستوں کی سفارش کریں گے۔ سورت یونس میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ قیامت کے دن جب ان بت پرستوں کا ان نیک لوگوں سے آمنا سامنا ہوگا تو وہ نیک لوگ ان بت پرستوں سے اپنی بیزاری طاہر کریں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سورت یونس کی آیت وقال شرکاؤھم ما کنتم ایانا تعبدون (١٠: ٢٨) اور سورت الانبیاء کی آیت یاویلنا قد کنا فی غفلۃ من ھذا (٢١: ٩٧) اور حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی یہ حدیث اس آیت ان اللہ یعلم وانتم لا تعلمون کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اب تو ان لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جن نیک لوگوں کی مورتوں کی یہ پوجا کرتے ہیں وہ نیک لوگ اللہ سے ان بت پرستوں کی سفارش کریں گے لیکن جس قیامت کے یہ لوگ منکر ہیں اس دن کا حال ان کو معلوم نہیں اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس دن وہ نیک لوگ بجائے سفارش کے ان بت پرستوں سے بیزار ہوجاویں گے جس بیزاری کے بعد یہ بت پرست اپنے اس غلط اعتقاد پر بہت پچھتاویں گے اور اس وقت کا پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آوے گا۔ ١ ؎ جلدہذا ص ٣١٥۔ ٣٣٧۔ ٣٤٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:73) لا یستطیعون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ استطاعۃ (استفعال) وہ طاقت نہیں رکھتے ۔ وہ استطاعت نہیں رکھتے ۔ وہ استطاعت نہیں رکھتے ۔ وہ قدرت نہیں رکھتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی نہ وہ آسمان سے پانی برسا سکتے ہیں اور نہ زمین سے کوئی چیز اگا سکتے ہیں اور نہ جو چیز اگے اسے باقی رکھ سکتے ہیں۔ 8 یا نہ وہ ایسا اختیار حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے محبور محض ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَھُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ شَیْءًا وَّ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ) (اور وہ لوگ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں میں سے اور زمین میں سے انہیں رزق دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ انہیں قدرت ہے) اللہ تعالیٰ شانہ سب کو رزق دیتا ہے اور اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کو رزق نہیں دیتا پھر یہ کیسی حماقت ہے کہ رزق دینے والے کے علاوہ ان چیزوں کی عبادت کریں جنہیں رزق دینے کا ذرا سا بھی اختیار نہیں اور وہ کچھ بھی طاقت اور قدرت نہیں رکھتے، اس کے عموم میں تمام معبودان باطلہ کی تردید ہوگئی جن کی عبادت کرنے کو سابقہ آیت میں باطل پر ایمان لانے سے تعبیر فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57:۔ یہ بطور زجر دلیل مذکور کا ثمرہ ہے۔ مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوگیا کہ قادر مطلق، مالک الملک اور سب کا رازق اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا وہی سب کا کارساز ہے اور وہی مستحق عبادت و دعاء ہے۔ مگر یہ مشرکین اس قادر و محسن کے ساتھ عبادت اور پکار میں اس کے عاجز و بےبس بندوں کو شریک بناتے ہیں جو مذکورہ کاموں میں سے کچھ بھی نہیں کرسکتے، نہ آسمان سے بارش برسا سکتے ہیں نہ زمین سے روزی پیدا کرسکتے ہیں۔ ان کاموں میں سے کچھ بھی تو ان کے اختیار میں نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

73 ۔ اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان معبود ان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو آسمانوں میں سے کچھ رزق دینے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین سے اور نہ اختیار حاصل کرنے کی قدرت و طاقت رکھتے ہیں یعنی نہ ان کو کوئی اختیار ہے نہ آئندہ اختیار حاصل کرنے کی طاقت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نہ آسمان سے مینہ برسادیں نہ زمین سے اناج نکالیں ۔ 12