Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 74

سورة النحل

فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰہِ الۡاَمۡثَالَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷۴﴾

So do not assert similarities to Allah . Indeed, Allah knows and you do not know.

پس اللہ تعالٰی کے لئے مثالیں مت بناؤ اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَ تَضْرِبُواْ لِلّهِ الاَمْثَالَ ... So do not give examples on behalf of Allah. meaning, do not set up rivals to Him or describe anything as being like Him. ... إِنَّ اللّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ Truly, Allah knows and you know not. meaning, He knows and bears witness that there is no god but Him, but you are ignorant and associate others in worship with Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو ۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر و ناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات و ضروریات سے آگاہ ہوجائے جب کہ اللہ تعالیٰ تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہر چیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] زیادہ خداؤں کی ضرورت کا نظریہ :۔ چونکہ مشرکوں کا اللہ کی ذات کے متعلق تصور ہی غلط ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق جو مثال بھی چسپاں کرتے ہیں حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ اللہ کو بھی دنیا کے بادشاہوں یا راجوں، مہاراجوں کی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ مخلوقات کی مشابہت سے پاک ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق ٹھیک مثال بیان کر ہی نہیں سکتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کو اپنے وزیروں اور امیروں کی بات سننا پڑتی ہے۔ کیونکہ انھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میرے خلاف نہ ہوجائیں اور بغاوت یا کوئی دوسرا فتنہ نہ کھڑا کردیں۔ اسی طرح انبیائ، اولیائ، بزرگ، اوتار اور ٹھاکر اور ہمارے یہ معبود اللہ کی درگاہ میں ایسے دخیل ہیں کہ اللہ میاں کو ان کی سفارش ضرور سننا پڑتی ہے اور اگر قیامت ہوئی بھی تو یہ ہمیں اللہ سے بچا لیں گے۔ انکا دوسرا تصور یا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بادشاہ اپنے سارے کام خود نہیں کرسکتے اور نہ سب لوگوں کی فریادیں سن سکتے ہیں۔ لہذا انھیں امیروں، وزیروں اور دوسرے بیشمار کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ میاں کو اپنے مقربین کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کی فریادیں اس کے حضور پہنچا دیں اور پھر انہی کی وساطت سے فریادی کو کوئی جواب ملے۔ اسی طرح اگر اللہ سے مال و دولت یا اولاد یا کوئی دوسری بھلائی مانگنا ہو تو ان مقربین کا واسطہ ضروری ہے۔ یہی وہ گمراہ کن عقائد ہیں جو مشرکوں نے اپنی دنیوی اغراض کی بنا پر گھڑ رکھے ہیں۔ یہی عقائد شرک کی اکثر اقسام کی بنیاد ہیں۔ اور قرآن میں جابجا ان کی تردید مذکور ہے۔ اور انتباہ یہ کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کی حقیقت کو جان ہی نہیں سکتے تو اس کے متعلق غلط تصورات مت قائم کیا کرو اور نہ ہی اس کی مثالیں دیاکرو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ : مشرک کہتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کے وزیر اور درباری اس کی سلطنت میں دخیل ہوتے ہیں اور بادشاہ کو ان کی سننا پڑتی ہے، اسی طرح ہمارے یہ معبود، اوتار اور ٹھاکر بھی اللہ کی سرکار میں صاحب اختیار ہیں، اس واسطے ہم ان کو پوجتے ہیں، سو یہ مثال غلط ہے۔ بادشاہ تو سب کام خود نہیں کرسکتے مگر اللہ ہر چیز آپ کرتا ہے اور اس پر کسی کا رتی برابر بھی دباؤ نہیں ہے۔ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ : یعنی یہ تمہاری بےعلمی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اللہ ان کی سفارش رد نہیں کرسکتا، کبھی چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت کی طرح اپنے داتاؤں کو سیڑھی قرار دیتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہی نہیں، وہ بالکل قریب ہے اور کسی کا محتاج نہیں کہ اس کی سفارش رد نہ کرسکتا ہو۔ یہ سب تمہاری بےعقلی اور بےسمجھی ہے، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کے لیے اس قسم کی مثالیں بیان نہ کرو۔ اب آگے دو مثالیں بیان کی جاتی ہیں، ان پر غور کرو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The statement: فَلَا تَضْرِ‌بُوا لِلَّـهِ الْأَمْثَالَ (So, do not coin similarities for Allah -74) clarifies an important aspect of the reality of things as they relate to Allah. If ignored, it becomes the breeding ground of all sorts of rejection¬ist doubts and scruples. The problem is that people would generally take Allah Ta’ ala the analogy of their own humankind and go on to declare the highest placed among them, a king and ruler, as similar to Allah Ta’ ala. Then, relying on this wrong assumption, they start seeing the Di-vine system on the analogy of the system of human monarchs. This leads them to take a cue from the fact that since no king can, all by himself, run the administration of the whole kingdom, the system is run by dele-gating powers to subordinate ministers and officials who do that on his behalf. Similarly, they believe and propose that there have to be some other objects of worship under the authority of Allah Ta’ ala who would help Him out in carrying out His tasks. This is the general theory of all idol-worshipers and polytheists. This sentence of the Qur’ an has cut off the very root of these doubts by stating that suggesting examples of what has been created and applying them on Allah Ta’ ala, the Creator, is something unreasonable by itself. He is far above similarities and analogies and conjectures and guesses.

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَال میں ایک اہم حقیقت کو واضح فرمایا ہے جس سے غفلت برتنا ہی تمام کافرانہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ حق تعالیٰ کو اپنے بنی نوع انسان پر قیاس کر کے ان میں سے اعلیٰ ترین انسان مثلا بادشاہ وفرمانروا کو اللہ تعالیٰ کی مثال قرار دیتے ہیں اور پھر اس غلط بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے نظام قدرت کو بھی انسانی بادشاہوں کے نظام پر قیاس کر کے یہ کہنے لگتے ہیں کہ جس طرح کسی سلطنت و حکومت میں اکیلا بادشاہ سارے ملک کا انتظام نہیں کرسکتا بلکہ اپنے ما تحت وزراء اور دوسرے افسروں کو اختیارات سپرد کر کے ان کے ذریعہ نظم مملکت چلایا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ماتحت کچھ اور معبود بھی ہوں جو اللہ کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹائیں یہی تمام بت پرست اور مشرکین کا عام نظریہ ہے اس جملے نے ان کے شبہات کی جڑ قطع کردی کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق کی مثالیں پیش کرنا خود بےعقلی ہے وہ مثال و تمثیل اور ہمارے وہم و گمان سے بالاتر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 74؀ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) تو اب تم اس بطلان کے بعد اللہ تعالیٰ کے لیے لڑکا شریک اور نائب مت ٹھہراؤ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ ان کے نہ کوئی لڑکا ہے اور نہ شریک اور اے گروہ کفار تم نہیں جانتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ) قبل ازیں اسی سورت (آیت ٦٠) میں ہم پڑھ چکے ہیں : (وَلِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی) ” اور اللہ کی مثال سب سے بلند ہے “ لیکن اس کا ترجمہ بالعموم یوں کیا جاتا ہے : ” اللہ کی صفت بہت بلند ہے “۔ یا ” اللہ کی شان بہت بلند ہے “۔ اس لیے کہ اللہ کے لیے کوئی مثال بیان نہیں کی جاسکتی۔ انسانی سطح پر بات سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تمثیلی الفاظ تو استعمال کرنے پڑتے ہیں ‘ مثلاً اللہ کا چہرہ اللہ کا ہاتھ اللہ کا تخت اللہ کی کرسی اللہ کا عرش وغیرہ ‘ لیکن ایسے الفاظ سے ہم نہ تو حقیقت کا اظہار کرسکتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی صفات اور اس کے افعال کی حقیقت کو جان سکتے ہیں۔ اسی لیے منع کردیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کیا کرو۔ اس کی منطقی وجہ یہ ہے کہ ہم اگر اس ہستی کے لیے کوئی مثال لائیں گے تو عالم خلق سے لائیں گے جس کی ہرچیز محدود ہے۔ یا پھر ایسی کوئی مثال ہم اپنے ذہن سے لائیں گے ‘ جبکہ انسانی سوچ ‘ قوت متخیلہ اور تصورات بھی سب محدود ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ذات مطلق (Absolute) ہے اور اس کی صفات بھی مطلق ہیں۔ چناچہ انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسی مطلق ہستی کے لیے کوئی مثال بیان کرسکے۔ اسی لیے سورة الشوریٰ کی آیت ١١ میں دو ٹوک انداز میں فرما دیا گیا : (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ) کہ اس کی مثال کی سی بھی کوئی شے موجود نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65. “So do not make up any similitude for Allah”: You should not compare Allah with others nor consider Him to be unapproachable like worldly kings and rulers, to whom none can have access without the mediation and intercession of their courtiers and servants. As Allah is not surrounded by angels, saints, favorites, etc. everyone can have direct access to Him without mediation by anyone.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :65 ”اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو“ ، یعنی اللہ کو دنیوی بادشاہوں اور راجوں اور مہاراجوں پر قیاس نہ کرو کہ جس طرح کوئی ان کے مصاحبوں اور مقرب بارگاہ ملازموں کے توسط کے بغیر ان تک اپنی عرض معروض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اللہ کے متعلق بھی تم یہ گمان کرنے لگو کہ وہ اپنے قصر شاہی میں ملائکہ اور اولیاء اور دوسرے مقربین کے درمیان گھِرا بیٹھا ہے اور کسی کا کوئی کام ان واسطوں کے بغیر اس کے ہاں سے نہیں بن سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: مشرکین عرب بعض اوقات اپنے شرک کی تائید میں یہ مثال دیتے تھے کہ جس طرح دنیا کا بادشاہ تنہا اپنی حکومت نہیں چلاتا، بلکہ اسے حکومت کے بہت سے کام اپنے مددگاروں کو سونپنے پڑتے ہیں، اسی طرح (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی خدائی کے بہت سے کام ان دیوتاؤں کو سونپ رکھے ہیں۔ اور ان معاملات میں وہ خود مختار ہوگئے ہیں۔ اس آیت میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے دنیا کے بادشاہوں کی، بلکہ کسی بھی مخلوق کی مثال دینا انتہائی جہالت کی بات ہے۔ اس کے بعد آیت نمبر 75، 76 میں اللہ تعالیٰ نے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ اگر مخلوقات ہی کی مثال لینی ہے تو ان دو مثالوں سے ظاہر ہے کہ مخلوق مخلوق میں بھی فرق ہوتا ہے، کوئی مخلوق اعلی درجے کی ہے، کوئی ادنیٰ درجے کی، جب مخلوق مخلوق میں اتنا فرق ہے تو خالق اور مخلوق میں کتنا فرق ہوگا؟ پھر کسی مخلوق کو خالق کے ساتھ عبادت میں کیسے شریک کیا جا سکتا ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:74) فلا تضربوا للہ الامثال۔ اللہ کے لئے مثالیں مت گھڑو۔ ضرب المثل کا معنی ہے ایک حال کو دوسرے حال سے تشبیہ دینا۔ تشبیہ حال بحال یہاں منع کیا جا رہا ہے کہ اس کو کسی کے ساتھ تشبیہ نہ دی جاوے کیونکہ اس کی ذات فہم انسانی سے ماوراء ہے اور ہر اعتبار سے غیر محدود اور ہر حدود نہایت سے برتر ہے اس لئے اس کی مثال دی ہی نہیں جاسکتی اور نہ ہی اس کی کوئی شبیہ ہوسکتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 مشرک کہتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کے وزیر اور درباری اس کی سلطنت میں دخیل ہوتے ہیں اور بادشاہ کو ان کی بات سننی پڑتی ہے اسی طرح ہمارے یہ معبود اوتار اور بیٹھا کر بھی اللہ کی سرکار میں صاحب اختیار ہیں اس واسطے ہم ان کو پوجتے ہیں۔ سو یہ مثال غلط ہے، بادشاہ تو سب کام خود نہیں کرسکتے مگر اللہ تعالیٰ ہر چیز آپ کرتا ہے اور اس پر کسی کارتی برابر بھی دبائو نہیں ہے (وحیدی، موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 74 تا 76 لاتضربوا تم نہ مارو، تم نہ گھڑو۔ ضرب بیان کیا۔ عبد غلام۔ مملوک کسی کی ملکیت۔ لایقدر قدرت نہیں رکھتا۔ ینفق وہ خرچ کرتا ہے۔ سر چھپ کر۔ جھر کھل کر۔ ھل یستون کیا وہ دونوں برابر ہیں۔ رجلین دو آدمی۔ ابکم گونگا۔ لایقدر قدرت نہیں رکھتا، اختیار نہیں رکھتا۔ کل بوجھ۔ مولیٰ مالک، آقا۔ اینما جہاں بھی۔ یوجھہ اس کو بھیجا جاتا ہے۔ لایات نہیں لاتا۔ بخیر بھلائی سے۔ یامر حکم کرتا ہے۔ العدل انصاف تشریح : آیت نمبر 74 تا 76 اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اے لوگو ! تم ایک اللہ کو چھوڑ کر ان غیر اللہ کی عبادت و بندگی نہ کرو جو آسمان و زمین میں نہ تو کچھ پیدا کرتے ہیں نہ وہ رزق پہنچاتے ہیں اور نہ ان میں اس کی طاقت و استطاعت ہے۔ وہ ایک اللہ ہے جو اس ساری کائنات کے نظام کو چلانے والا ہوے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ دنیاوی حکمرانوں اور افسروں کی طرح نہیں ہے جن کو اپنا کام چلانے کے لئے بہت سے مددگاروں کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ وہ ایسا حاکم مطلق ہے کہ جس چیز کو کرنا چاہتا ہے اس میں وہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ چیز کے موجود ہونے کا حکم دیتا ہے اور وہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔ ایسی ذات کو دنیاوی مثالوں سے سمجھنا سمجھانا سب سے مشکل اور ناممکن ہے۔ چونکہ اللہ کو کسی نے دیکھا نہیں لہٰذا اس کی قدرت، شان اور ذات عظیم کے لئے اپنے تصور اور گمان کے مطابق تصوراتی شکل بناتا ہے تو یہ اس کا اپنا خیال ہے۔ اگر وہ اس خیالی تصویر کی عبادت کرتا ہے اور ان سے اپنی مرادوں کے پورا ہونے کی توقع رکھتا ہے تو یہ اس کی نادانی اور اپنے خیال اور گمان کی عبادت و بندگی کہلائے گی اس لئے فرمایا کہ اے لوگو ! تم اللہ کے لئے مثالیں نہ گھڑ و اور جو کائنات میں مثالیں تمہارے سامنے موجود ہیں جن کو تم آسانی سے سمجھ سکتے ہو ان پر غور کرسکتے ہو، دیکھ سکتے ہو تو یقینا تم اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہو کہ اللہ اپنی ذات میں یکتا ہے اور ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی حقیقت سامنے آتی ہے جس میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو ! تم اللہ کی ذات میں غور نہ کرو بلکہ اس کی مخلوقات میں غور و فکر کرو۔ کیونکہ غور کرنے سے وہ اس فرق کو صاف اور واضح طریقہ پر سمجھ سکتا ہے کہ جب دو آدمی جو ایک ہی جنس سے مختلف صلاحیتوں کی بنا پر ایک جیسے نہیں ہو سکتے تو وہ خلاق جو ہر چیز پر ہر طرح کی قدرت و طاقت رکھتا ہے اس کے برابر وہ بندر کیسے ہو سکتا ہے جس کا اپنے وجود پر بھی پورا اختیار نہیں ہے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے دو مثالوں سے واضح کیا ہے۔ فرمایا کہ تم اس بات میں غور کرو کہ دو شخص ہیں ایک تو وہ ہے جو کسی کا غلام ہے کوئی اس کا مالک ہے اور اس غلام کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے دوسرا وہ شخص ہے جس کو اللہ نے خوب بہترین رزق اور اسباب عطا کئے ہیں وہ اس میں سے اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہتا ہے کھلے عام یا خاموشی سے خرچ کرتا ہے۔ اللہ نے سوال کیا ہے کہ یہ بتاؤ ایسے دو آدمی برابر ہو سکتے ہیں ؟ یقینا اس کا جواب یہی ہوگا۔ کہ ایک بےاختیار شخص ایک بااختیار کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دو شخص ہیں ایک تو ان میں سے بہرا گونگا ہے جو نہ تو سنتا ہے نہ اپنی بات کا اظہار کرسکتا ہے کسی چیز پر اس کا کوئی اختیار بھی نہیں ہے۔ کسی کام کا نہیں اس کا مالک اس کو جو کام بھی سپرد کرتا ہے وہ اس کو ٹھیک سے کر نہیں سکتا۔ دوسرا شخص وہ ہے جو عدل و انصاف کرنے کا خوگر ہے اور وہ راہ مستقیم پر ہے۔ اللہ نے سوال فرمایا ہے کہ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا کہ اگر عام زندگی کی اس مثال کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے جو ایک ہی جنس سے ہیں تو پھر یہ کیسی بےانصافی ، جہالت اور نادانی کی بات ہے کہ ان اندھے بہرے، گونگے بےاختیار پتھروں کے وہ بت جو کسی کے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں ان کو اس اللہ کے برابر سمجھا جائے جو ساری دنیا کو عدل و انصاف عطا فرماتا ہے جو کالم اختیار رکھتا ہے اپنے اختیار میں کسی کا محتاج نہیں ہے وہ اپنے اختیار سے جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے اس کو ان بےبس اور عاجز معبودوں کے برابر سمجھنا انسان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ معبودان باطل کی مثالیں خالق حقیقی کے ساتھ بیان کی بجائے ان کا اپنے ساتھ موازنہ کرو اور اپنے ضمیر کے آئینہ میں دیکھو اور سوچو تاکہ تمہارے سامنے حقیقت منکشف ہوجائے کہ شرک کا عقیدہ کس قدر بےبنیاد اور بےانصافی پر مبنی ہے۔ مشرکین کی پرانی عادت ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت سمجھائی جائے۔ تو مشرک اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرتوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنے معبودان باطل کے حق میں دلائل دیتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص جو لوگ مدفون بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ اور دلائل یہ ہیں کہ جس طرح دنیا میں ایک حکمران اپنا نظام چلانے کے لیے مختلف لوگوں کو ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گو اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے مگر اس نے بھی کائنات کا نظام چلانے کے لیے اپنی خوشی سے مدفون بزرگوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں جس کی بنا پر ہم ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ دلیل دیتے ہیں کہ جس طرح حاکم کو ملنے کے لیے اس کے P-A کو ملنا ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے اور اس کو اپنی فریاد پہنچانے کے لیے بزرگوں کے وسیلے کی ضرورت ہے۔ کچھ جاہل تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس طرح چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو اپنی فریاد پہنچانے کے لیے مدفون بزرگوں کی ارواح کا واسطہ دینا لازم ہے۔ ان مثالوں پر ذرا غور فرمائیں تو آپ کے سامنے ان کی حقیقت کھل جائے گی۔ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت اس لیے ہے کہ چھت نیچے آ نہیں سکتی اور چھت پر چڑھنے والا سیڑھی کے بغیر اس پر چڑھ نہیں سکتا، حاکم کو ملنے کے لیے اس لیے سفارش چاہیے کہ وہ غریب اور کمزور لوگوں کی فریاد کو براہ راست سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی صورت حال قبروں میں مدفون بزرگوں کی ہے جو نہ کسی کی فریاد سن سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مدد کرسکتے ہیں یہاں تک اپنی قبر پر ہونے والی غیر شرعی حرکات کو نہیں روک سکتے۔ حالانکہ ان میں ایسے مواحد بھی تھے جو اپنی زندگی میں شرک و بدعات سے سختی سے روکتے تھے۔ لیکن اب ان کی بےچارگی کا یہ عالم ہے ان کے نام پر شرک و بدعت اور خرافات کی جا رہی ہیں۔ لیکن روک نہیں سکتے۔ یہاں تک انہیں خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ان کی حالت ایسی ہے جیسی آقا کے مقابلے میں غلام کی ہوتی ہے جو مالک کے حکم کا پابند اور اس کا تابع مہمل ہوتا ہے۔ مالک کے مال سے ایک روپیہ بھی اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں ایسا شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے وافر رزق عنایت فرما رکھا ہے وہ اپنی مرضی اور خوشی سے جہاں اور جتنا چاہتا ہے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے۔ کیا مالک اور غلام، بےاختیار اور بااختیار کنگال اور سخی برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے خالق کے سامنے ایک غلام سے کہیں زیادہ بےبس ہیں۔ حق یہ ہے کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور نہ اس کا شریک ثابت کرنے کے لیے کوئی معقول دلیل ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مثالیں بیان فرمائیں۔ ٢۔ جس طرح غلام اور آقا برابر نہیں اسی طرح خالق اور مخلوق برابر نہیں۔ ٣۔ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ تفسیر بالقرآن مشرک اور کافر حقیقی علم سے بےبہرہ ہوتے ہیں : ١۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل : ٧٥) ٢۔ آسمان و زمین کا پیدا کرنا انسانی تخلیق سے بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (المومن : ٥٧) ٣۔ یہی صحیح دین ہے لیکن لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ (الروم : ٣٠) ٤۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ (الروم : ٦) ٥۔ اکثریت حق کو نہیں پہچانتی۔ بلکہ اکثر لوگ حق سے اعراض کرتے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٧٤ اس کے بعد اللہ ان لوگوں کے سامنے دو مثالیں پیش کرتا ہے ، ایک شخص مالک رازق ہے اور دوسرا شخص مملوک غلام اور عاجز ہے۔ کسی چیز کا نہ مالک ہے اور نہ کسب کمائی پر قادر ہے۔ یہ مثال اس لیے دی جارہی ہے کہ جس عظیم حقیقت کو وہ بھول چکے ہیں وہ ان کے فہم کے قریب تر ہوجائے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ کی کوئی مثال نہیں ، اور یہ کہ اللہ کے ساتھ اس کی الوہیت و حاکمیت اور بندگی میں اس کی مخلوق میں سے کسی چیز کو بھی شریک نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مخلوق سب اس کی غلام اور بندہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ ) اس کا مطلب بعض مفسرین نے یوں لکھا ہے کہ اللہ کے لیے مثالیں مت گھڑو اور اپنی طرف سے باتیں بنا کر قیاس دوڑا کر اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی مثالیں بیان نہ کرو جس سے اپنے شرکیہ اعمال پر دلیل لاؤ اور بعض حضرات نے اس کا یہ معنی بتایا ہے کہ کسی کو اللہ کا مثیل نہ بناؤ یعنی کسی کے لیے اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ تجویز نہ کرو اور کسی کو معبود نہ بناؤ اس معنی کے اعتبار سے مذکورہ بالا جملہ (فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا) کے ہم معنی ہوگا۔ (اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) (بلاشبہ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے) یہ تمہاری جہالت ہے کہ خالق کو مخلوق پر قیاس کرکے شرکیہ باتیں کرتے ہو، اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات وصفات کا پورا علم ہے اور تم جو اس کے ساتھ شرک کرتے ہو اسے اس کا بھی علم ہے وہ اس پر مواخذہ فرمائے گا اور سزا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85:۔ یہ ” و یجعلون للہ البنات “ سے متعلق ہے۔ مشرکین کہتے تھے کہ فرشتے بیٹیوں کی مانند اللہ کو پیارے ہیں اور وہ ان کی کوئی بات رد نہیں کرتا اس لیے ہم فرشتوں کو خدا کے یہاں سفارشی سمجھتے ہیں نیز مشرکین کہتے تھے اصل میں مالک و مختار اور متصرف علی الاطلاق تو واقعی اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اللہ کے برگزیدہ اور نیک بندے اللہ کی سرکار میں مختار بالاذن ہیں اس لیے ہم ان کو خدا کے یہاں سفارشی سمجھ کر پوجتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے لیے ایسی مثالیں نہ بیان کرو جن سے شرک کی راہ نکلتی ہو یا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے شریک اور مثیل نہ بناؤ یعنی اپنے معبودانِ باطلہ کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یقول سبحانہ لا تجعلوا معی الٰھا غیری فانہ لا الہ غیری (روح ج 14 ص 194) ۔ شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں ” مشرکین کہتے ہیں کہ مالک اللہ ہی ہے پر یہ لوگ اللہ کی سرکار میں مختار ہیں اس واسطے ان کو پوجتے سو یہ غلط مثال ہے اللہ ہر چیز آپ کرتا ہے کسی پر سپرد نہیں کر رکھا اور اگر صحیح مثال چاہو تو آگے دو مثالیں فرمائیں “۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74 ۔ سو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں نہ گھڑا کر اور اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں نہ بیان کیا کرو بلا شبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم صحیح مثال بیان کرنا نہیں جانتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مشرک کہتے ہیں کہ مالک اللہ ہی ہے یہ لوگ اس کی سرکار میں مختار میں اس واسطے ان کو پوجیے سو یہ غلط مثال ہے اللہ ہر چیز آپ کرتا ہے کسی پر سپرد نہیں کر رکھا اور اگر صحیح مثال چاہوتو آگے دو مثالیں فرمائیں۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ اس قسم کی مثالیں دنیوی بادشاہوں کے لئے تو زیب دیتی ہیں کہ اس کے مشیر اور نائب وغیرہ ہوتے ہیں لوگ ان سے کہتے ہیں وہ بادشاہ سے کہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو مالک الملک ہے وہ اس قسم کی مثالوں سے بلند وبالا تر ہے۔