Surat un Nahal

Surah: 16

Verse: 81

سورة النحل

وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡجِبَالِ اَکۡنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمُ الۡحَرَّ وَ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمۡ بَاۡسَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾

And Allah has made for you, from that which He has created, shadows and has made for you from the mountains, shelters and has made for you garments which protect you from the heat and garments which protect you from your [enemy in] battle. Thus does He complete His favor upon you that you might submit [to Him].

اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ چیزوں میں سے سائے بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لئے پہاڑوں میں غار بنائے ہیں اور اسی نے تمہارے لئے کرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں وہ اسی طرح اپنی پوری پوری نعمتیں دے رہا ہے کہ تم حکم بردار بن جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَلاً ... And Allah has made shade for you out of that which He has created, Qatadah said: "This means trees." ... وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا ... and He has made places of refuge in the mountains for you, meaning fortresses and strongholds. ... وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ ... and He has made garments for you to protect you from the heat, meaning clothing of cotton, linen and wool. ... وَسَرَابِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْ ... and coats of mail to protect you from your violence. such as shields made of layers of sheet iron, coats of mail and so on. ... كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ ... Thus does He perfect His favor for you, meaning, thus He gives you what you need to go about your business, so that this will help you to worship and obey Him. ... لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ that you may submit yourselves to His will. This is interpreted by the majority to mean submitting to Allah or becoming Muslim. All the Messenger has to do is convey the Message Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 یعنی درخت جن سے سایہ حاصل کیا جاتا ہے۔ 81۔ 2 یعنی اون اور روئی کے کرتے جو عام پہننے میں آتے ہیں اور لوہے کی زرہیں اور خود جو جنگوں میں پہنی جاتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] گرمی سردی سے بچاؤ کے لئے کپڑے :۔ انسان کو سردی سے بچنے کے لیے بھی لباس کی ایسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے گرمی سے بچنے کے لیے اور جو لباس گرمی سے بچاتا ہے وہ سردی سے بھی بچاتا ہے اور یہاں جو بالخصوص گرمی سے بچانے کا ذکر فرمایا تو اس لیے اہل عرب سردی کے موسم سے ناآشنا تھے وہاں عموماً موسم گرم ہی رہتا ہے۔ بالخصوص مکہ میں، جہاں یہ سورت نازل ہوئی، ٹھنڈا موسم ہوتا ہی نہیں۔ وہاں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کبھی کم گرمی کا موسم ہوتا ہے اور کبھی شدید گرمی کا۔ [٨٤] ( لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ ) النحل :81) کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے اور دوسرا یہ ہے کہ لباس اس لیے بنائے کہ تم گرمی کی لو سے محفوظ رہو اور جنگی لباس یا زرہ بکتر وغیرہ اس لیے بنائے کہ تم دوران جنگ زخمی ہونے سے محفوظ رہ سکو۔ اور اتمام نعمت سے مراد یہاں انسان کی جملہ ضروریات کی تکمیل ہے۔ جن میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لہذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے منعم حقیقی کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردے اور اس کا فرمانبردار بن کر رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا ۔۔ : ” ظِلٰلًا “ ” ظِلٌّ“ کی جمع ہے، سائے۔ ” اَكْنَانًا “ اور ” اَکِنَّۃٌ“ دونوں ” کِنٌّ“ کی جمع ہیں، چھپاؤ کی جگہ یا چیز، جیسا کہ فرمایا : (وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ ) [ حٰآ السجدۃ : ٥ ] ” اور انھوں نے کہا ہمارے دل پردے میں ہیں۔ “ ” سَرَابِیْل “ ” سِرْبَالٌ“ کی جمع ہے، قمیص یا جو لباس بھی پہنا جائے۔ ” تَقِيْكُمْ “ ” وَقٰی یَقِيْ “ سے مضارع معلوم واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے۔ فاعل اس کا ضمیر جمع ہے، اس لیے واحد مؤنث ہے۔ چوپاؤں، مکانوں اور خیموں کے بعد گھر سے باہر سردی گرمی اور دشمن سے بچاؤ کرنے والی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے جن کے پاس مکان یا خیمہ نہیں، یا وہ سفر میں ہیں تو گرمی وغیرہ سے بچاؤ کے لیے مختلف سایوں کا ذکر کیا، مثلاً درختوں کا سایہ، مکانوں، دیواروں اور پہاڑوں کا سایہ، آبادیوں کا سایہ، چھتریوں کا سایہ، غرض یہی سائے گرمی سردی اور بارش سے بچانے کے کام آتے ہیں۔ وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا : اس میں پہاڑوں کی قدرتی غاریں، کھود کر بنائے ہوئے مکان اور پہاڑوں میں کھود کر بنائی ہوئی لمبی سرنگیں، جن میں فوجی سامان، اسلحہ، جہاز اور فوج محفوظ رکھی جاتی ہے، سب شامل ہیں۔ وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ : وہ لباس جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں، بعض اہل علم نے فرمایا کہ قرآن کے اولین مخاطب عرب تھے، وہاں گرمی زیادہ تھی، اس لیے صرف گرمی سے بچانے والے لباس ذکر فرمائے۔ مگر اکثر مفسرین نے فرمایا کہ گرمی کا ذکر کافی سمجھ کر سردی کا الگ ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ لباس گرمی سے بچاتا ہے تو سردی سے بھی بچاتا ہے۔ رہا عرب میں گرمی کا زیادہ ہونا تو اسی سورت کے شروع میں جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ ) [ النحل : ٥ ]” تمہارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان ہے۔ “ معلوم ہوا عربوں کو بھی سردی سے بچنے کی ضرورت تھی، اس لیے یہ بات زیادہ قوی ہے کہ قرآن مجید نے صرف گرمی کا ذکر کرکے سردی سے بچانے کی نعمت پر غور کرنا سننے والوں پر چھوڑ دیا، یا سورت کے شروع میں ” وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ “ (تمھارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان ہے) میں سردی سے بچاؤ کا ذکر پہلے ہو چکنے کی وجہ سے یہاں ذکر نہیں فرمایا۔ ” وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ “ اس میں زرہ، خود، بلٹ پروف (گولی سے محفوظ) جیکٹیں، گاڑیاں اور ٹینک وغیرہ سب شامل ہیں۔ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ : یعنی تاکہ تم فرماں بردار اور اللہ تعالیٰ کے تابع بن جاؤ، اس لیے کہ جو شخص ان بےپایاں نعمتوں پر غور کرے گا ضروری ہے کہ وہ ایمان لا کر اس کی اطاعت اختیار کرے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Finally, a note about the statement: سَرَ‌ابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ‌ (shirts which protect you from heat - 81). Here, protection from heat has been identified as the purpose of a shirt - though, a shirt protects one from heat and cold both. This has been answered by Imam Al-Qurtubi and other commentators by saying that the Holy Qur’ an has been revealed in the Arabic language, its first addressees are Arabs, therefore, it speaks by taking Arab habits and needs into account. Arabia is a hot country where the very thought of snow and winter chill is far-fetched, therefore, the statement was left with the mention of protection from heat as being sufficient. Yet another explanation for this has been given by Maulana Ashraf Ali Thanavi in Bayan al-Qur’ an by saying that in the beginning of this Surah, the Qur’ an had already said: لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ (and for you, there is provision against cold in them - 16:5). Thus, it was in view of this earlier mention of beating cold and having warmth that only protection from heat has been mentioned here.

(آیت) سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرّ ۔ یہاں انسان کو کرتے کی غرض گرمی سے بچانے کو فرمایا ہے حالانکہ کرتہ انسان کو گرمی اور سردی دونوں سے بچاتا ہے اس کا ایک جواب تو امام قرطبی اور دوسرے مفسرین نے یہ دیا ہے کہ قرآن حکیم عربی زبان میں آیا ہے اس کے اولین مخاطب عرب ہیں اس لئے اس میں عرب کی عادات و ضروریات کا لحاظ رکھ کر کلام کیا گیا ہے عرب ایک گرم ملک ہے وہاں برف باری اور سردی کا تصور ہی مشکل ہے اس لئے گرمی سے بچانے کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں فرمایا کہ قرآن کریم نے اسی سورة کے شروع میں لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ فرما کر لباس کے ذریعہ سردی سے بچنے اور گرمی حاصل کرنے کا ذکر پہلے کردیا تھا اس لئے یہاں صرف گرمی دفع کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا وَّجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَـقِيْكُمُ الْحَـرَّ وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَاْسَكُمْ ۭكَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ 81؀ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ظلل الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] ، أي : في عزّة ومناع، ( ظ ل ل ) الظل ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ كن الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] . وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] . والکِنَانُ : الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ. نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة . ( ک ن ن ) الکن ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ الکنان ۔ پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔ سربل السِّرْبَالُ : القمیص من أيّ جنس کان، قال : سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ، سَرابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ [ النحل/ 81] ، أي : تقي بعضکم من بأس بعض . ( س ر ب ل ) السربال ۔ کرتہ ۔ قمیص خواہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہو جیسے فرمایا : سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ان کے کرتے گندھک کے ہوں گے ۔ سَرابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ [ النحل/ 81] اور تمہارے ( آرام کے ) واسطے کرتے بنائے جو تم گرمی سے بچائیں اور کرتے یعنی زر ہیں جو تم کو ( اسلحہ ) جنگ ( کے ضر) سے محفوظ رکھیں ۔ تو باسکم سے مراد یہ ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ حر الحرارة ضدّ البرودة، وذلک ضربان : - حرارة عارضة في الهواء من الأجسام المحميّة، کحرارة الشمس والنار . - وحرارة عارضة في البدن من الطبیعة، کحرارة المحموم . يقال : حَرَّ يومُنا والریح يَحِرُّ حرّاً وحرارةوحُرَّ يومنا فهو محرور، وکذا : حرّ الرّجل، قال تعالی: لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ : نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا[ التوبة/ 81] ، والحَرور : الریح الحارّة، قال تعالی: وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ [ فاطر/ 21] ، واستحرّ القیظ : اشتدّ حرّه، والحَرَر : يبس عارض في الکبد من العطش . ( ح رر ) الحرارۃ یہ برودۃ کی ضد ہے اور حرارت دوقسم پر ہے ( ا) وہ حرارت جو گرم اجسام سے نکل کر ہوا میں پھیل جاتی ہے جیسے سورج اور آگ کی گرمی (2) وہ حرارت جو عوارض طبیعہ سے بدن میں پیدا ہوجاتی ہے ۔ جیسے محموم ( بخار زدہ ) کے بدن کا گرم ہونا کہا جاتا ہے ۔ حر ( س ) حرارۃ الیوم اوالریح دن یا ہوا گرم ہوگئی ۔ ایسے دن کو محرورُ کہا جاتا ہے اسی طرح حررجل کا محاورہ ہے قرآن میں ہے : لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ : نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا[ التوبة/ 81] کہ گرمی میں مت نکلنا ( ان سے ) کہہ دو کہ دوذخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے ۔ الحرور گرم ہوا ۔ لو ۔ ارشاد : وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ [ فاطر/ 21] اور نہ ایسا یہ اور نہ دھوپ کی تپش ۔ استحر القیظ گرمی سخت ہوگئی ۔ الحررُ یبوست جو شدت پیاس کی وجہ سے جگر میں پیدا ہوجاتی ہے ۔ تمَ تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے درختوں، پہاڑوں اور دیواروں کے سائے بنائے، جن سے گرمی میں اپنی حفاظت کرتے ہو اور تمہارے لیے پہاڑوں میں پناہ کے مقامات اور غار بنائے اور تمہارے لیے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے گرمی میں اور سردی سے سردی میں تمہارے حفاظت کرتے ہیں۔ اور زرہیں بنائیں جو تمہارے دشمن کے ہتھیار لگنے سے حفاظت کرتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے، اگر تم اس کا اقرار کرکے اس کے فرمانبردار ہوجاؤ یا یہ کہ ان زر ہوں کی وجہ سے زخم لگنے سے محفوظ رہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا) اللہ نے درختوں اور بہت سی دوسری چیزوں سے سائے کا نظام وضع فرمایا ہے جو انسانی زندگی کے لیے بہت مفید ہے۔ (وَّجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَكْنَانًا) پہاڑوں کے اندر قدرتی غاریں پائی جاتی ہیں جن میں لوگ طوفانی ہواؤں وغیرہ کی شدت سے بچنے کے لیے پناہ لے سکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں تو اس حوالے سے ان غاروں کی بہت اہمیت تھی۔ (كَذٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُوْنَ ) جیسا کہ قبل ازیں بھی اشارہ کیا گیا ہے اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ذکر کی تکرار بہت زیادہ ہے۔ (مزید ملاحظہ ہوں آیات ١٨ ‘ ٣٥ ‘ ٧١ ‘ ٧٢ ‘ ٨٣ اور ١١٤) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

76. The Quran has not mentioned protection from cold for either of the two reasons: (1) Because the use of garments in the summer season is a symbol of cultural perfection and obviously there is no need to mention the lower stages of culture. Or (2) the use of garments in hot countries has specially been mentioned because the main use of garments there is for protection from the hot pestilential furious wind. Therefore, one has to cover one’s head, neck, ears, and the whole of his body to protect it from the hot wind which would otherwise scorch him to death. 77. That is, Armors. 78. “Thus does He perfect His favor upon you”: Allah makes provision for the minutest needs and necessities of every aspect of human life. For example, let us take the instance of the protection of the human body from external influences. We find that Allah has made such elaborate arrangements as require a complete book to relate them. These arrangements reach their perfection in the case of clothing and housing arrangement. Or, if we consider the food requirements, we realize that it is of many varieties which fulfill every need. More than this: the means Allah has provided for food requirements of man are so numerous that the list of the varieties and the names of different kinds of food require a big volume. This is the perfection of the blessing of food. Likewise, one would see perfection of the blessings of Allah in the fulfillment of each and every human need and necessity.

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :76 سردی سے بچانے کا ذکر یا تو اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ گرمی میں کپڑوں کا استعمال انسانی تمدن کا تکمیلی درجہ ہے اور درجہ ٔ کمال کا ذکر کر دینے کے بعد ابتدائی درجات کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی ، یا پھر اسے خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں نہایت مہلک قسم کی باد سموم چلتی ہے وہاں سردی کے لباس سے بھی بڑھ کر گرمی کا لباس اہمیت رکھتا ہے ۔ ایسے ممالک میں اگر آدمی سر ، گردن ، کان اور سارا جسم اچھی طرح ڈھانک کر نہ نکلے تو گرم ہوا اسے جھُلس کر رکھ دے ، بلکہ بعض اوقات تو آنکھوں کو چھوڑ کر پورا منہ تک لپیٹ لینا پڑتا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :77 یعنی زرہ بکتر ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :78 اتمام حجت یا تکمیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی ضروریات کا پوری جز رسی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام فرماتا ہے ۔ مثلا اسی معاملے کو لیجیے کہ خارجی اثرات سے انسان کے جسم کی حفاظت مطلوب تھی ۔ اس کے لیے اللہ نے کس کس پہلو سے کتنا کتنا اور کیسا کچھ سروسامان پیدا کیا ، اس کی تفصیلات اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے ۔ یہ گویا لباس اور مکان کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے ۔ یا مثلا تغذیے کے معاملہ کو لیجیے ۔ اس کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کیسے کیسے تنّوعات کے ساتھ کیسی کیسی جُزئی ضرورتوں تک کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ نے بے حد و حساب ذرائع فراہم کیے ، ان کا اگر کوئی جائزہ لینے بیٹھے تو شاید محض اقسام غذا اور اشیاء ِ غذا کی فہرست ہی ایک ضخیم مجلد بن جائے ۔ یہ گویا تغذیہ کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے ۔ اِسی طریقہ سے اگر انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر گوشے میں اللہ نے ہم پر اپنی نعمتوں کا اتمام کر رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: یعنی لوہے کی زرہیں جو جنگ میں تلوار وغیرہ کے وار کو روکنے کے لیے پہنی جاتی تھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(16:81) ظللا۔ بوجہ مفعول منصوب ہے۔ ظل کی جمع۔ سائے۔ ان المتقین فی ظلل وعیون (77:41) بیشک پرہیزگار لوگ سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اکنانا۔ بوجہ مفعول منصوب ہے اکنان جمع ، اس کی واحد کن ہے چھپنے کی جگہ، حفاظت کی جگہ۔ کن یکن (نصر) کن کنون واکن گھر میں چھپانا۔ دھوپ سے بچانا۔ الکن ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے۔ کننت الشیٔ کنا۔ میں نے چیز کو کن میں محفوظ کردیا۔ کننت (ثلاثی مجرد) خصوصیت کے ساتھ کسی مادّی شے کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولا جاتا ہے۔ مثلاً کانہم لؤلؤ مکنون (52:24) جیسے چھپائے ہوئے موتی۔ آیہ ہذا : وجعل لکم من الجبال اکنانا۔ اور اس نے تمہارے لئے پہاڑوں میں غاریں (پناہ گاہیں) بنائیں۔ سرابیل۔ سربال کی جمع۔ کرتے۔ قمیص، پیراہن۔ پوشاک۔ دوسری دفعہ سرابیل سے مراد زرہ بکتر لی گئی ہے۔ وہ بھی ایک قسم کا پیراہن ہی ہے۔ تقیکم۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تمہیں بچاتی ہے۔ وفی یقی (ضرب۔ لفیف مفروق) وقایۃ بچانا۔ نگاہ رکھنا۔ باسکم۔ تمہاری لڑائی میں۔ مضاف مضاف الیہ۔ تسلمون۔ تم فرماں بردار رہو۔ تم اطاعت کرتے رہو۔ اسلام (افعال) سے مضارع جمع مذکر حاضر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اور سردی سے بھی چونکہ سخت گرمی اور بادسموم سے بچنے کے لئے کپڑوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ اس لئے گرمی سے بچنے کا ذکر خصوصیت کے ساتھ فرما دیا۔ (شوکانی) 3 یعنی سلمان بنو اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمتوں پر غور کرے گا ضرور ہے کہ وہ یہاں بلکہ میں کی اطاعت اختیار کرے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی غار وغیرہ جس میں گرمی، سردی، بارش، موذی دشمن آدمی جانور سے محفوظ رہ سکتے ہو۔ 3۔ مراد اس سے زرہیں ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان کی مستقل قیام گاہ کے بعد اس کی عارضی پناہ گاہوں اور اس کے لباس کا تذکرہ۔ دنیا میں انسان کی مستقل قیام گاہ اس کا گھر ہوتا ہے جو انسان کے لیے سکون اور سکونت کا باعث ہونے کے ساتھ گرمی، سردی اور اس کے سازوسامان کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ انسان کا گھر بیشک جھونپڑی کی صورت میں کیوں نہ ہو وہ اسے اٹھائے ہوئے ہر جگہ نقل و حرکت نہیں کرسکتا۔ اس نے اپنی روزی اور دیگر حاجات کے لیے گھر سے باہر جانا ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس کے لیے عارضی طور پر ایسی قیام گاہیں ہوں جنہیں وہ گرمی، سردی اور سفری مشکلات کے وقت کچھ وقت کے لیے قیام کرسکے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے درختوں اور پہاڑوں کے سائے بنائے تاکہ تھکا ماندہ اور محنت کش انسان کچھ وقت کے لیے ان میں آرام کرسکے پہاڑوں کے دیگر فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی عطا فرمایا کہ انسان موسم ناہموار ہونے کی صورت میں عارضی طور پر ان میں پناہ لے سکے پھر انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ لیاقت عطا فرمائی کہ وہ گرمی اور جنگ کی صورت میں دشمن سے بچاؤ کے لیے اپنا لباس تیار کرے۔ حالات کے مطابق اپنی صحت اور جسم کی حفاظت کا خیال رکھ سکے۔ یہاں دو قسم کے ملبوسات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ گرمی سے بچاؤ اور لڑائی کے وقت اپنی حفاظت کے لیے لباس تیار کرنا۔ سورۃ النحل کا نزول مکہ معظمہ میں ہوا۔ مکہ اور اس کے گردونواح میں ہمیشہ سخت یا نیم گرمی کا موسم رہتا ہے۔ جنگی لباس کا ذکر اس لیے کیا کہ اس زمانے میں دست بدست لڑائی ہوتی تھی۔ دشمن کے وار سے بچنے کے لیے لوہے کا ٹوپ اور سینہ ڈھانپنے کے لیے زرہ پہنی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس لباس کو اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا کیونکہ جنگی ٹیکنالوجی کا حصول کسی قوم اور ملک کے تحفظ کے لئے سب سے بڑی نعمت ہوا کرتا ہے۔ یہ انعامات تم پر اس لیے کیے گئے ہیں تاکہ تم اپنے رب کے تابع فرمان رہو۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے مستفیض ہونے کے باوجود لوگ حق قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پر صرف یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ واشگاف الفاظ اور انداز میں لوگوں تک حق پہنچا دیں جہاں تک لوگوں کی اکثریت کا حال ہے وہ اپنے رب کی نعمتوں کو پہچاننے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناقدری اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید نے کئی بار واضح کی ہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے سائے بنائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایسے پیراہن بنائے جو انہیں گرمی، سردی اور جنگ کے وقت دشمن کے وار سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اپنی نعمتیں نازل فرمائیں تاکہ وہ فرمانبردار بن جائیں۔ ٥۔ انبیاء (علیہ السلام) کا کام دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچاننے کے باوجود لوگ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کا کام تبلیغ کرنا ہے : ١۔ اگر لوگ رو گردانی کریں تو آپ کا کام حق پہنچانا ہے۔ (النحل : ٨٢) ٢۔ اگر تم پھر جاؤ یقیناً ہمارے رسول کے ذمے حق بات پہنچانا ہے۔ (المائدۃ : ٩٢) ٣۔ نہیں ہے رسول کے ذمہ مگر حق پہنچادینا۔ (المائدۃ : ٩٩) ٤۔ اگر وہ اعراض کریں تو ہم نے آپ کو نگران بنا کر نہیں بھیجا آپ کا کام پہنچانا ہے۔ (الشوریٰ : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب مضمون ، اللہ کی تخلیقات کے اسرار و رموز بیان کرتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے۔ اللہ کی قدرت کے مزید نشانات اور اللہ کے انعامات کے کچھ مزید نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے گھر اور ان کی مسرتیں ، گھروں کا ماحول سازوسامان اور پناہ گاہیں۔ گھر اور پرسکون گھر کس قدر عظیم نعمت ہے ، اس کی قدر وہ جانیں جو مہاجر ہیں ، جو گھروں سے نکال دئیے گئے ہیں اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ نہ ان کا گھر ہے اور نہ سکون ہے۔ یہاں گھروں اور سایوں کا ذکر غیب کے ذکر کے بعد آتا ہے۔ ربط یوں ہے کہ ایک سایہ بھی کسی چیز کو ڈھانپ لیتا ہے اور غیب بھی ان امور کو ڈھانپ لیتا ہے جو غیب میں ہوتے ہیں۔ دونوں میں ستر اور پوشیدگی ہے۔ گھروں کی تعبیر جائے سکون سے کرنے سے ایک حساس شخص ہی لطف اندوز ہوسکتا ہے ، غافل لوگ اس سے کما حقہ لطف نہیں لے سکتے۔ یہاں مناسب ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ گھر کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ۔ قرآن کریم نے گھر کی تعبیر یوں کی ہے۔ واللہ جعل لکم من بیوتک سکنا (٦١ : ٠٨) ” اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا ہے “۔ اسلام چاہتا ہے کہ ایک گھر نفسیاتی اطمینان ، شعوری ٹھہرائو اور جذباتی سکون کی جگہ ہو۔ یہ خوشی کی جگہ ہو ، انسان وہاں آکر خوش ہوں۔ اور اس میں انسان کے لئے مادی اور روحانی سکون کا انتظام ہو۔ اس میں جو لوگ رہتے ہوں وہ ایک دوسرے کے لئے باعث اطمینان اور خوشی ہوں ، اور ان میں سے ہر ایک شخص دوسرے کے لئے سامان سکون ہو۔ اسلام کسی بھی گھر کو نزاع ، جھگڑے ، بےاتفاقی اور مخاصمت کی جگہ بنانا نہیں چاہتا کیونکہ وہ اس کے نزدیک ٹھہرنے ، سکون ، امن اور اطمینان و سلامتی کی جگہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام گھر کے احترام کی ضمانت دیتا ہے تاکہ گھر کے امن و سکون اور سلامتی کی ضمانت دی جاسکے۔ مثلاً کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہو۔ کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے گھر میں بس گھس جائے۔ بغیر حق کے اور بغیر اجازت کے۔ اسی طرح کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ گھروالوں کی اجازت کے بغیر کسی بھی وجہ سے کسی کی پرائیویسی میں دخل انداز ہو ، نہ کسی کو گھر کے خلاف تجسس کی اجازت ہے اور نہ کسی کی غیبت کی اجازت ہے کیونکہ ان امور سے کسی بھی گھر کا امن و سکون اور خوشی اور اطمینان ختم سکتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ایک گھر کو جائے سکون قرار دیا ہے۔ یہ منظر چونکہ گھر ، پناہ گاہ اور لباس سے متعلق تھا ، اس لئے یہاں جانوروں کے بھی اس پہلو کا ذکر کیا گیا ، جو ان مقاصد کے لئے مفید ہے یعنی مسکن و لباس کا پہلو۔ وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا تستخفونھا یوم ظعنکم و یوم اقامتکم و من اصوافھا واوبار ھا واشعار ھا اثاثا ومتاعا الی حین (٦١ : ٠٨) ” اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لئے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام ، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ اس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لئے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کردیں جو زندگی کی مدت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں “۔ یہاں بھی جانوروں کے مفادات میں سے ضروریات کا ذکر کیا اور ان چیزوں کا ذکر بھی کیا جو حسن اور شوق کا سامان کرتی ہیں۔ متاع اور ثاث السیت میں یہی فرق ہے۔ متاع سے مراد فرش ، قالین اور دوسرا سامان آرائش ہے لیکن اس میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جو تمتع کی تعریف میں آتی ہیں اور فرحت بخشش ہوتی ہیں۔ سکون اطمینان کی فضا میں اب انداز تعبیر لطیف ہوجاتا ہے۔ سایوں ، پناہ گاہوں ، پہاڑوں اور گرمی سردی اور جنگی پوشاکوں کی بات چلتی ہے۔ واللہ جعل لکم مما خلق ظللا وجعل لکم من الجبال اکناناو جعل لکم سرابیل تقیکم الحر وسرابیل تقیکم باسکم (٦١ : ١٨) ” اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لئے سائے کا انتطام کیا ، پہاڑوں میں تمہارے لئے پناہ گاہیں بنائیں ، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں۔ اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس میں جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں “۔ چھائوں میں انسان کے لئے سکون ہے اور چھائوں کے تصور میں بھی فرحت ہے۔ پہاڑی پناہ گاہوں میں انسان اطمینان اور امن محسوس کرتا ہے۔ پھر وہ پوشاکیں جو سردی ، گرمی میں اور جنگ کی حالت میں کام آتی ہیں انسان کی دلچسپی کا سامان ہیں اور انسان کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں۔ پھر خوشی اور مسرت کا بھی ان میں سامان ہے اس لئے اس پر یہ نتیجہ سامنے آتا ہے۔ کذلک یتم نعمتہ علیکم لعلم تسلمون (٦١ : ١٨) ” اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرمانبردار بن جائو “۔ اسلام کا مفہوم ہی سکون ، سپردگی اور سلامتی ہے۔ اس طرح اس منظر کی تمام چیزوں کے درمیان معنوی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو قرآن کریم کے اسلوب کلام کا خاص انداز ہے۔ اب اگر وہ اسلام کو قبول کرتے ہیں تو بہتر ، اور اگر وہ منہ موڑتے ہیں اور بھاگتے ہیں تو رسول کا فریضہ تو صرف ابلاغ ہے۔ اگر یہ انکار پر تل گئے ہیں تو انکار کردیں لیکن جن نعمتوں کا ذکر ہوا ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ مان جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(٥) پانچویں یوں فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لیے بعض ایسی مخلوقات پیدا فرمائی ہیں جن سے تمہیں سایہ حاصل کرنے کا فائدہ ہوتا ہے اس میں درخت، مکانات بڑے بڑے پہاڑ اور وہ سب چیزیں داخل ہیں جن سے سایہ حاصل کیا جاتا ہے۔ (٦) چھٹے نمبر پر یوں فرمایا کہ اللہ نے پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ لینے اور سر چھپانے کی جگہ بنائی، اس سے پہاڑوں کے غار مراد ہیں اور پہاڑوں کو کاٹ کر جو گھر بنالیتے ہیں وہ بھی اس کے عموم میں داخل ہیں۔ (٧) ساتویں نمبر پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کرتے بنائے یعنی وہ چیزیں پیدا فرمائیں جن سے کرتے بنائے جاتے ہیں اس میں اون، روئی اور وہ سب چیزیں داخل ہیں جن سے کپڑے تیار کیے جاتے ہیں، دور حاضر میں پلاسٹک اور نائیلون وغیرہ سے طرح طرح کے کپڑے بننے لگے ہیں اور دیکھئے آگے اللہ تعالیٰ کی کیا تخلیق ہوتی ہے (وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) میں آئندہ پیدا ہونے والی چیزوں کی پیشین گوئی ہے، کپڑوں کا فائدہ یہ بتایا کہ یہ کپڑے تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں، یہاں صرف گرمی کا ذکر فرمایا حالانکہ یہ سردی سے بھی بچاتے ہیں، علماء نے فرمایا کہ یہ برسبیل اکتفا ہے ایک چیز کو ذکر کیا جس سے اس کی مقابل دوسری چیز بھی سمجھ میں آگئی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں گرم کپڑوں کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ شروع سورت میں (وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَکُمْ فِیْھَا دِفْءٌ) میں ان کا تذکرہ آچکا ہے، اور ایسے کرتوں کا بھی ذکر فرمایا جو لڑائی میں حفاظت کرتے ہیں اس سے وہ زرہیں مراد ہیں جن سے مقابلہ کے وقت دشمنوں کے حملہ سے بچاؤ ہوتا ہے۔ پھر فرمایا (کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ ) (اللہ تم پر اس طرح اپنی نعمتیں پوری فرماتا ہے تاکہ تم فرمانبردار ہوجاؤ۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65:۔ اللہ تعالیٰ نے درختوں اور چھتوں کیلئے سائے بنا دئیے، پہاڑوں میں غاریں بنادیں جو وقتاً فوقتاً بارش، طوفانِ باد، دھوپ اور سردی سے بچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اون اور روئی وغیرہ پیدا کی جن سے سردی اور گرمی سے بچنے کے لیے لباس تیار کیا جاتا ہے۔ صرف گرمی کا ذکر فرمایا حالانکہ یہ کپڑے سردی سے بھی بچاتے ہیں اس لیے کہ عرب میں شدت کی گرمی پڑتی ہے جس سے بچنے کے لیے انہیں درختوں کے سایوں، پہاڑوں کے غاروں اور مختلف قسم کے کیڑوں کی ضرورت تھی۔ سردی وہاں اس قدر کم پڑتی ہے جو زیادہ اہتمام کے بغیر بھی برداشت کی جاسکتی ہے۔ ” تقیکم باسکم “ لوہے کی زرہیں جو جنگ میں پہنی جاتی تھیں تاکہ بدن پر تلوار یا تیر اثر نہ کرسکے۔ ” کذلک یتم نعمتہ الخ “ یہ ساری نعمتیں تمہیں اس لیے دیں تاکہ منعم (نعمت دہندہ) کو پہچانو، اس کا شکر بجالاؤ، اس کی پوری پوری اطاعت کرو اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو اور اسی کو منعم سمجھو، اور اسی کو متصرف و کارساز سمجھ کر حاجات میں پکارو۔ یعنی لعلکم یا اھل مکۃ تخلصون للہ الوحدانیۃ الالوھیۃ والعبادۃ والطاعۃ و تعلمون انہ لا یقدر علی ھذہ الانعامات الا اللہ (خازن ج 4 ص 108) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

81 ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے بعض چیزوں کے تمہارے لئے سائے بنائے اور پہاڑوں میں تمہارے لئے چھپنے کی جگہیں اور ٹھکانے بنائے اور تمہارے لئے ایسے کرتے بنائے جو گرمی سے تم کو بچاتے ہیں اور ایسے کرتے بھی بنائے جو لڑائی میں تمہاری حفاظت کا کام دیں اور تمہاری آپس کی لڑائی میں تم کو بچاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسی طرح تم پر اسی نعمتیں پوری کرتا ہے تا کہ تم فرمانبرداربنو اور حکم مانو ۔ سائے جیسے درختوں اور مکانوں اور پہاڑوں کے کرتے جو گرمی اور لو سے بچائو اور لڑائی سے بچائو کے لئے زر ہیں جو زخم لگنے سے حفاظت کریں جب ظاہری نعمتوں کا یہ حال ہے تو باطنی نعمتوں اور مہربانیوں کا اندازہ اسی سے لگا لو اور ان بیکراں نعمتوں کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کا احسان مانو اور اسلام لا کر انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم کے پابند بنو ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جن کرتوں میں گرمی کا بچائو ہے سردی کا بھی بچائو ہے پر اس ملک میں گرمی بہت تھی۔ اسی کا ذکر فرمایا اور لڑائی کا بچائو زرہ میں ہے۔ 12