Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 100

سورة بنی اسراءیل

قُلۡ لَّوۡ اَنۡتُمۡ تَمۡلِکُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَۃِ رَبِّیۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَکۡتُمۡ خَشۡیَۃَ الۡاِنۡفَاقِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا ﴿۱۰۰﴾٪  11

Say [to them], "If you possessed the depositories of the mercy of my Lord, then you would withhold out of fear of spending." And ever has man been stingy.

کہہ دیجئے کہ اگر بالفرض تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تم اس وقت بھی اس کے خرچ ہو جانے کے خوف سے اس کو روکے رکھتے اور انسان ہے ہی تنگ دل ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Holding back is Part of Man's Nature Allah says to His Messenger: قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَايِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لاََّمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الاِنفَاقِ ... Say: "If you possessed the treasure of the mercy of my Lord, then you would surely hold back for fear of spending, "Tell them, O Muhammad, even if you had authority over the treasures of Allah, you would refrain from spending for fear of exhausting it." Ibn Abbas and Qatadah said, "This means for fear of poverty," lest it run out, despite the fact that it can never be exhausted or come to an end. This is because it is part of your nature. So Allah says: ... وَكَانَ الانسَانُ قَتُورًا and man is ever miserly. Ibn Abbas and Qatadah said: "(This means) stingy and holding back." Allah says: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذاً لاَّ يُوْتُونَ النَّاسَ نَقِيراً Or have they a share in the dominion Then in that case they would not give mankind even a Naqira. (4:53), meaning that even if they had a share in the authority of Allah, they would not have given anything to anyone, not even the amount of a Naqira (speck on the back of a date stone). Allah describes man as he really is, except for those whom Allah helps and guides. Miserliness, discontent and impatience are human characteristics, as Allah says: إِنَّ الاِنسَـنَ خُلِقَ هَلُوعاً إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعاً إِلاَّ الْمُصَلِّينَ Verily, man was created very impatient; irritable when evil touches him; and stingy when good touches him. Except those who are devoted to Salah (prayers). (70:19-22) And there are many other such references in the Qur'an. This is an indication of the generosity and kindness of Allah. In the Two Sahihs it says: يَدُ اللهِ مَلَْى لاَ يَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالاَْرْضَ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِه Allah's Hand is full and never decreases because of His giving night and day. Do you not see how much He has given since He created the heavens and the earth, yet that which is in His right hand never decreases.

انسانی فطرت کا نفسیانی تجزیہ انسانی طبیعت کا خاصہ بیان ہو رہا ہے کہ رحمت الہٰی جیسی نہ کم ہونے والی چیزوں پر بھی اگر یہ قابض ہو جائے تو ہاں بھی اپنی بخیلی اور تنگ دلی نہ چھوڑے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اگر ملک کے کسی حصے کے یہ مالک ہو جائیں تو کسی کو ایک کوڑی پرکھنے کو نہ دیں ۔ پس یہ انسانی طبیعت ہے ہاں جو اللہ کی طرف سے ہدایت کئے جائیں اور توفیق خیر دئیے جائیں وہ اس بدخصلت سے نفرت کرتے ہیں وہ سخی اور دوسروں کا بھلا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ انسان بڑا ہی جلد باز ہے تکلیف کے وقت لڑکھڑا جاتا ہے اور راحت کے وقت بھول جاتا ہے اور دوسروں کے فائدہ سے اپنے ہاتھ روکنے لگتا ہے ہاں نمازی لوگ اس سے بری ہیں الخ ایسی آیتیں قرآن میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس سے اللہ کے فضل و کرم اس کی بخشش و رحم کا پتہ چلتا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ دن رات کا خرچ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ابتدا سے اب تک کے خرچ نے بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 خشیۃ الانفاق کا مطلب ہے۔ خشیۃ ان ینفقوا فیفتقروا۔ اس خوف سے کہ خرچ کر کے ختم کر ڈالیں گے، اس کے بعد فقیر ہوجائیں گے۔ حالانکہ یہ خزانہ الٰہی جو ختم ہونے والا نہیں لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے، اس لئے بخل سے کام لیتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا) ۔ 4 ۔ النساء :53) ۔ یعنی ان کو اگر اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں۔ نقیر کھجور کی گٹھلی میں جو گڑھا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں یعنی تل برابر بھی کسی کو نہ دیں یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں جس طرح حدیث میں ہے اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں کس قدر خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں وہ بھرے کے بھرے ہیں۔ البخاری۔ مسلم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٨] کفار مکہ کی تنگ نظری اور انسان کی فطرت :۔ قریشی سردار جو آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے اور نہ یہ تھی کہ انھیں دعوت دین کے دلائل کی سمجھ نہیں آتی تھی بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیتے تو ان کی سرداریاں اور چودھراہٹیں انھیں چھنتی نظر آرہی تھیں۔ اور انھیں پیغمبر اسلام کے تابع ہو کر رہنا پڑتا تھا۔ نیز اگر اسلام پھیل جاتا تو انھیں کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں جو عزت اور وقار حاصل تھا وہ بھی ان سے چھنتا نظر آرہا تھا۔ لہذا ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام کا خاتمہ ہی کردیا جائے اور حقیقتاً انسان ایسا ہی بخیل واقع ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے مقابلے پر سر نہ نکالے۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ اگر ان کے پاس زمین بھر کے خزانے بھی ہوں تو ان کا یہ حال ہے کہ وہ کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیں۔ مبادا کہ وہ کسی وقت ان کے مقابلہ پر آجائے۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ ہر طرح کے خزانے اسی کے پاس ہیں اور جس کسی پر جس طرح کا چاہے فضل کرتا رہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ ۔۔ : یعنی اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے، جن کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں، تب بھی تم کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیتے۔ اس شدید بخل کا نتیجہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا بھی کسی کو نعمت عطا کرنا برداشت نہیں، نہ تمہیں یہ برداشت ہے کہ اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت سے سرفراز فرمایا، اس لیے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت پر حسد و بخل کرتے ہو۔ یہ دونوں صفات بیحد قبیح ہیں۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورة نساء (٥٣ تا ٥٥) روح المعانی میں ہے کہ ماقبل سے ربط میں مختلف اقوال ہیں مگر ان میں تکلف ہے۔ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا :” قَتَرَ یَقْتُرُ قَتْرًا وَ قُتُوْرًا “ (ن، ض) خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل، حتیٰ کہ اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بھی بخل کرے۔ اس میں انسان کی طبعی اور جبلی خصلت بیان فرمائی ہے، جو ہمیشہ سے اس میں پائی جاتی ہے اور جس سے چھٹکارا انھی اعمال کی بدولت ہوسکتا ہے جو ” مرد ہلوع “ (تھڑدلا مرد) کے علاج کے لیے سورة معارج کی آیات (١٩ تا ٣٥) میں بیان ہوئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The truth of the matter about what has been said in the last verse (100) is that the treasures of the mercy of Allah are limit-less and end-less. They are never going to end, but man is by nature nar¬row-minded, short on courage. When it comes to giving, he is not motivat¬ed enough to share what he has with others. Commentators generally take the expression &the treasures of the Lord&s blessing or mercy& to mean the treasures of wealth. This has its link with previous verses (90, 91) where the disbelievers of Makkah had demanded that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should - if he was really a prophet in truth - make rivers flow in the barren desert of Makkah and trans-form it into lush green farms, like the land of Syria. The answer to this was given right there (93), saying in effect: This is as if you have taken me to be nothing short of God whose authority you want me to exercise. As for me, I am only a messenger of Allah, not Allah. I cannot do what I will. If we see this verse in this context, it would mean: If you are asking me to turn this desert land of Makkah into a green land to test my veracity as prophet and messenger, then, the miracle of the eloquence of the Qur&an is sufficient to prove that. There is no need for any other de¬mands. And if this is to meet the needs of your country and people, remember that, even if you are given everything you demand for the land of Makkah, and all sorts of treasures with it, it would not result in the prosperity of the masses of your country. In fact, human nature will take its course and whoever gets hold of these treasures will sit on them like legendary serpents. Tell them to spend it on the people and you will see them all consumed by the fear that it will go out of their hands. In a situ-ation like this, if a few rich men of Makkah get to be richer and opulent, what are the masses of people going to get out of it? Most commentators have declared this to be the sense of the verse. My master and mentor, Hadrat Thanavi (رح) ، in his Bayan al-Qur&an, has interpreted &my Lord&s mercy& as the station of prophethood and messen¬ger-ship, and &the treasures of mercy& as the varied perfection of proph¬ethood. Given this Tafsir, this verse will be linked with previous verses by saying: The outcome of all those absurd demands you are making against my status as a prophet and Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is that you just do not want to believe in it. Do you, then, want that the function of prophethood should be entrusted in your hands, so that you can make anyone a prophet at your sweet will? If such a wish were to be granted, the consequence would be that you would never give prophethood or messenger-ship to anyone, sitting over it like misers. After having given this explanation, he has added that this Tafsir is something that comes as one of the many divine gifts. It fits the occasion. Interpreting proph-ethood in this setting with mercy would be similar to its interpretation in the verse of Surah az-Zukhruf. It was said: أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَ‌حْمَتَ رَ‌بِّكَ (Do they distribute the mercy of your Lord? - 43:32). Here, &rahmah& (mercy) means nothing but &nubuwwah& (prophethood) - and there is a consensus on it. Allah knows best.

معارف و مسائل : آخری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اگر تم لوگ اللہ کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوجاؤ تو بخل کرو گے کسی کو نہ دو گے اس خطرہ سے کہ اگر لوگوں کو دیتے رہے تو یہ خزانہ ختم ہوجائے گا اگرچہ رحمت رب کا خزانہ ختم ہونے والا نہیں مگر انسان اپنی طبیعت سے تنگ دل کم حوصلہ ہوتا ہے اس کو فراخی کے ساتھ لوگوں کے دینے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اس میں خزائن رحمت رب کے لفظ سے عام مفسرین نے مال و دولت کے خزائن مراد لئے ہیں اور اس کا ربط ماسبق سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اس کی فرمائش کی تھی کہ اگر آپ واقعی نبی حق ہیں تو آپ اس مکہ کے خشک ریگستان میں نہریں جاری کر کے اس کو سرسبز باغات میں منتقل کردیں جیسا ملک شام کا خطہ ہے جس کا جواب پہلے آ چکا ہے کہ تم نے تو گویا مجھے خدا ہی سمجھ لیا کہ خدائی کے اختیارات کا مجھے مطالبہ کر رہے ہو میں تو صرف ایک رسول ہوں خدا نہیں کہ جو چاہوں کر دوں یہ آیت بھی اگر اسی کے متعلق قرار دی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ سر زمین مکہ کو نہری زمین اور سبزہ زار بنانے کی فرمائش اگر میری نبوت و رسالت کے امتحان کے لئے ہے تو اس کے لئے اعجاز قرآن کا معجزہ کافی ہے دوسری فرمائشوں کی ضرورت نہیں اور اگر اپنی قومی اور ملکی ضرورت رفع کرنے کے لئے ہے تو یاد رکھو کہ اگر تمہاری فرمائش کے مطابق تمہیں زمین مکہ میں سب کچھ دے بھی دیا جائے اور خزائن کا مالک تمہیں بنادیا جائے تو اس کا انجام بھی قومی اور ملک کے عوام کی خوشحالی نہیں ہوگی بلکہ انسانی عادت کے مطابق جن کے قبضہ میں یہ خزائن آ جاویں گے وہ ان پر سانپ بن کر بیٹھ جاویں گے عوام پر خرچ کرتے ہوئے افلاس کا خوف ان کو مانع ہوگا ایسی صورت میں بجز اس کے کہ مکہ کے چند رئیس اور زیادہ امیر اور خوشحال ہوجائیں عوام کا کیا فائدہ ہوگا اکثر مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم قرار دیا ہے۔ سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی نے بیان القرآن میں اس جگہ رحمت رب سے مراد نبوت و رسالت اور خزائن رحمت سے مراد کمالات نبوت لئے ہیں اس تفسیر کے مطابق اس کا ربط آیات سابقہ سے یہ ہوگا کہ تم جو نبوت و رسالت کے لئے بےسروپا اور بیہودہ مطالبات کر رہے ہو اس کا حاصل یہ ہے کہ میری نبوت کو ماننا نہیں چاہتے تو کیا پھر تمہاری خواہش یہ ہے کہ نبوت کا نظام تمہارے ہاتھوں میں دے دیا جائے جس کو چاہو نبی بنالو اگر ایسا کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی کو بھی نبوت و رسالت نہ دو گے بخل کر کے بیٹھ جاؤ گے حضرت نے اس تفسیر کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ یہ تفسیر مواہب الہیہ میں سے کہ مقام کے ساتھ نہایت چسپاں ہے اس میں نبوت کو رحمت کے ساتھ تعبیر کرنا ایسا ہی ہوگا۔ جیسا (آیت) اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ میں بالاجماع رحمت سے مراد نبوت ہی ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ١٠٠۝ۧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 1 00] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن . ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہل نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ قتر القَتْرُ : تقلیل النّفقة، وهو بإزاء الإسراف، وکلاهما مذمومان، قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] . ورجل قَتُورٌ ومُقْتِرٌ ، وقوله : وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، تنبيه علی ما جبل عليه الإنسان من البخل، کقوله : وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، وقد قَتَرْتُ الشیء وأَقْتَرْتُهُ وقَتَّرْتُهُ ، أي : قلّلته . ومُقْتِرٌ: فقیر، قال : وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، وأصل ذلک من القُتَارِ والْقَتَرِ ، وهو الدّخان الساطع من الشِّواء والعود ونحوهما، فكأنّ الْمُقْتِرَ والْمُقَتِّرَ يتناول من الشیء قتاره، وقوله : تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] ، نحو : غَبَرَةٌ «2» وذلک شبه دخان يغشی الوجه من الکذب . والقُتْرَةُ : ناموس الصائد الحافظ لقتار الإنسان، أي : الریح، لأنّ الصائد يجتهد أن يخفي ريحه عن الصّيد لئلّا يندّ ، ورجل قَاتِرٌ: ضعیف كأنّه قَتَرَ في الخفّة کقوله : هو هباء، وابن قِتْرَةَ : حيّة صغیرة خفیفة، والقَتِيرُ : رؤوس مسامیر الدّرع . ( ق ت ر ) ( القتر ( ن ) کے معنی بہت ہی کم خرچ کرنے اور بخل کرنے کے ہیں یہ اسراف کی ضد ہے اور یہ دونوں صفات مذمومیہ سے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم اسی سے صفت مشبہ کا صیغہ قتور ومقتر آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان فطرۃ کنجوس واقع ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں قترت الشئی واقتر تہ وقتر تہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے کے ہیں اور مقتر بمعنی فقیر ہے قرآن میں ہے : ۔ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] اور تنگد ست اپنی حثیت کے مطابق ۔ اصل میں یہ قتار وقتر سے ہے جس کے معنی اس دھواں کے ہیں جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے گویا مقتر اور مقتر بھی ہر چیز سے دھوئیں کی طرح لیتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی میں قترۃ غبرۃ کی طرح ہے مراد دھوئیں کی طرح سیاہی اور افسر دگی ہے جو جھوٹ کیوجہ سے چہرہ پر چھا جاتی ہے ۔ القترۃ شکار ی کی کین گاہ جو انسان کی بوکو بھی شکار تک نہیں پہچنے دیتی کیونکہ شکاری کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کی بو بھی شکار تک نہ پہنچنے تاکہ شکار بھاگ نہ جائے ۔ رجل قاتر کمزور آدمی ۔ گو یا وہ ضعف میں دھوئیں کی طرح ہے جیسا کہ کمزور آدمی کو ھو ھباء کہا جاتا ہے ۔ ابن قترۃ ایک بار یک اور چھوٹا سا سانپ القتیرۃ زرہ کی میخوں کے سرے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٠) آپ ان مکہ والوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے ہاتھ میں میرے پروردگار کے رزق کے خزانوں کی کنجیاں ہوتیں تو اس صورت میں تم فاقہ کے ڈر سے ان کے خرچ کرنے سے ضرور ہاتھ روک لیتے اور کافر بڑا تنگ، دل بخیل اور لالچی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

( اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ) اگر اللہ کی رحمت کے بےحساب خزانے تمہارے اختیار میں ہوتے تو تم لوگ اپنے فطری بخل کے سبب ان کے دروازے بھی بند کردیتے کہ کہیں خرچ ہو کر ختم نہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

112. This verse also suggests the same thing that has already been mentioned in Ayat 55. This hints at the real psychological reason why the disbelievers of Makkah were not inclined to accept Muhammad (peace be upon him), their contemporary, as a Prophet. For thus they would have to acknowledge his superiority and one does not easily acknowledge the superiority of his contemporary. This verse may be expanded like this: Those people who are so narrow minded that they are unwilling even to acknowledge the real superiority of another, cannot be expected to be generous in spending on others, if they possessed the keys of the treasures of Allah’s blessings.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :112 یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ وَ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے ۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل وشرف ماننا پڑتا تھا ، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے ۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے ، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

52: رحمت کے خزانوں سے یہاں مراد نبوت عطا کرنے کا اختیار ہے، کفار مکہ آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہیں دی گئی ؟ گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کو نبوت ہماری مرضی سے دینی چاہئیے تھی، اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرمارہے ہیں کہ اگر نبوت عطا کرنے کا اختیار تمہیں دے دیا جاتا تو تم اس میں اسی طرح بخل سے کام لیتے جیسے دنیوی دولت کے معاملے میں بخل کرتے ہو کہ خرچ ہونے کے ڈر سے کسی کو نہیں دیتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٠۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قریش کی ان باتوں کا ذکر فرمایا تھا جن باتوں کا ضد سے معجزہ کے طور پر وہ ظاہر ہونا چاہتے تھے ان باتوں میں قریش نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر صفا پہاڑ سونے کا ہوجائے گا تو ہم مسلمان ہو کر اس سونے کو ہر طرح سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے یہ اس کا جواب اللہ نے دیا ہے کہ ایک صفا پہاڑ تو کیا دنیا میں جتنی سونے چاندی کی کانیں اللہ تعالیٰ کے خزانہ کی موجود ہیں ان سب کے یہ مالک بن جائیں جب بھی خرچ کرنے میں دل تنگی کریں گے کیونکہ ہر انسان کی جبلی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ مال کے خرچ کرنے میں تنگدلی کرتا ہے۔ یہاں بعضے مفسروں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ بعضے آدمی ذاتی سخی ہوتے ہیں پھر سب آدمیوں کو جو آیت میں دل تنگ فرمایا گیا ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟ جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ دنیا دار دنیا کی نمود کے لیے اور دین دار دین کے اجراء کے لیے سخاوت کرتے ہیں یہ اوپری سبب ہیں جن کے تصور سے آدمی میں سخاوت آجاتی ہے ورنہ ہر دل میں مال کی محبت ہے جس نے دل کو پیدا کیا ہے اس سے بڑھ کر دل کا حال کون جان سکتا ہے اسی واسطے صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی جو روایت ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ آدمی کا پیٹ مال سے اس وقت تک نہیں بھرتا جب تک قبر کی مٹی اس کے پیٹ میں نہ بھرے جائے۔ ١ ؎ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٥٠ باب العمل والحرص۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:100) لامسکتم۔ میں لام کے لئے ہے امسکتم ماضی جمع مذکر حاضر۔ امساک سے تم ضرور روک رکھتے۔ خشیۃ۔ خوف۔ ڈر۔ منصوب بوجہ امسکتم کے مفعول لہ ہونے کے ہے۔ انفاق بروزن افعال۔ مصدر ہے بمعنی خرچ کرنا۔ قتورا۔ صیغہ صفت مشبہ، کنجوس طبیعت والا۔ بخیل۔ قتر۔ اسراف کی ضد ہے قرآن مجید میں ہے والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما۔ (25:67) اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخیلی سے کام لیتے ہیں۔ اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان اعتدال میں رہتا ہے۔ قواما بوجہ کان کی خبر ہونے کے منصوب ہے۔ صاحب بیان القرآن اس آیت کے سابقہ آیات سے ربط کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ :۔ اوپر کفار کا آپ کی نبوت سے انکار کرنا اور آپ سے عداوت رکھنا مذکور ہوا ہے۔ آگے بطور تفریع کے فرماتے ہیں کہ اگر نبوت اختیار میں ہوتی تو تم رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی نہ دیتے مگر وہ فضل خاص خدا کے ہاتھ میں ہے اس لئے تمہاری کراہت و عداوت مانع نہیں ہوسکتی۔ نیز ان کے اس سوال کا جواب بھی نکل آیا جو کہا کرتے تھے۔ وقالوا لولا نزل ھذا القران علی رجل من القریتین عظیم۔ (43:31) ۔ اور کہنے لگے کہ یہ قرآن دو ( مشہور) بستیوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟ جس کا جواب اس جگہ ان لفظوں میں دیا گیا ہے اہم یقسمون رحمۃ ربک (43:32) ۔ تو کیا آپ کے پروردگار کی رحمت ِ خاصہ کو تقسیم یہ لوگ کرتے ہیں ؟ یا یہ کہ ان سے کہہ دو کہ میرے ذریعہ تو خداوند تعالیٰ کی رحمت کے خزانے یوں لٹائے جا رہے ہیں کہ ان کو لینے والے بہت کم ہیں۔ لیکن اگر یہی رحمت کے خزانے تمہیں دئیے جاتے تو تم اپنے بخل کی وجہ سے جو کفر کا لازمی نتیجہ ہے ان کو ضرور روک رکھتے۔ (ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر عبداللہ یوسف علی) خزائن رحمۃ ربی۔ لفظ عام ہے ہر قسم کے کمالات اور جملہ اقسامِ نعمت پر شامل ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ یہاں اشارہ نعمت ِ نبوت کی جانب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی کسی کو پھوٹی کوڑی نہیں دیتے۔ اس لئے آنحضرت کی نبوت و رسالت پر بھی حسد و بخل کرتے ہو۔ اوپر کی آیات میں ان کے جمود اور کفر کی مذمت تھی۔ اس آیت میں ان کے بخل کی مذمت ہے اور یہ دو بری صفات ہیں جن میں سے ایک کا ضرر لازم ہے اور دوسری کا متعدی ہے۔ ماقبل سے وجوہ ربط میں مختلف اقوال منقول ہیں مگر ان میں تکلف ہے۔ (روح)8 یا ” بڑاتنگ دل واقع ہوا ہے۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی کبھی بھی کسی کو نہ دیتے، باجودیکہ وہ چیز ایسی ہوتی کہ دینے سے بھی نہ گھٹتی، مگر خود اس کے دینے ہی کو مثل خرچ کرنے کے سمجھ کر کسی کو بھی نہ دیتے، جیسے بعض لوگ علم کی بات غایت بخل سے نہیں بتلایا کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت نمبر ٨٥ سے ہوا تھا۔ اس سے اگلی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عظیم نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا۔ اے نبی ! اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ عظیم فضل ہے کہ اس نے آپ کو اپنے پیغام کے لیے منتخب کیا ہے اور قرآن مجید جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی اب اس خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کفار کو مخاطب کیا گیا ہے۔ کہ حق کا انکار کرنے والا صرف روحانی اور اخلاقی طور پر کم ظرف نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ دنیوی طور پر بھی بخیل اور کم ظرف ہوتا ہے۔ دیگر فرسودہ دلائل کے ساتھ اہل مکہ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ یہ بشر ہے اور ہم اس جیسے چلتے پھرتے انسان کو اپنے آپ پر کس طرح بڑاتسلیم کرسکتے ہیں۔ اس بات کا اظہار ابو جہل نے اپنے ایک ساتھی کے سامنے یوں کیا تھا کہ زم زم کا انتظام، حجاج کی خدمت اور فلاں فلاں کام بنو ہاشم نے سنبھال رکھے ہیں۔ اگر ہم ان کے آدمی کی نبوت کا اعتراف کرلیں تو خاندانی طور پر ہمارے پلے کیا رہ جاتا ہے ؟ اس لیے میں اسکی نبوت کا انکار کرتا ہوں اور تا دم آخر کرتارہوں گا۔ گویا کہ کفار اپنی طبیعت کا انقباض اور چھوٹا پن چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے چھوٹے پن اور کم ظرفی کو اس حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں بین السطور آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو پریشان ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ یہ تو اس قدرکم ظرف لوگ ہیں کہ اگر ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے جمع ہوجائیں تو یہ خرچ کرنے کی بجائے ان پر سانپ بن کر بیٹھ جائیں۔ کیونکہ انسان بنیادی طور پر تنگ دل واقع ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کا کچھ نہ کچھ طبعی رجحان بخل کی طرف ہوتا ہے لیکن کافر اس لیے زیادہ بخیل ہوتا ہے کہ اسے آخرت میں کسی اجروثواب کی امید نہیں ہوتی مال کے حوالے سے کافر کے بخیل ہونے کا ذکر فرماکر یہ واضح کیا گیا ہے۔ یہ اس کی کم ظرفی کا نتیجہ ہے کہ جس طرح وہ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز دینا پسند نہیں کرتا اسی طرح ہی اپنا باطل نظریہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسلام قبول کرنے میں کافر کو اپنے مال اور دنیوی عزت کے بارے میں نقصان کا اندیشہ ہوتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بخل اور کنجوسی کی یہ حد ہے۔ کیونکہ اللہ کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ اس نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کے ختم ہونے کا کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ نہ اس میں کوئی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ اس قدر بخیل ہیں کہ اگر سمندر پر بھی بیٹھے ہوں تو ان کو پانی کی کمی نظر آتی ہے۔ اس طرح ان کو اللہ کی رحمت میں بھی کمی نظر آتی ہے۔ بہرحال اگر ان کے سامنے وہ معجزات کثرت سے بھی لائے جائیں جن کا وہ مطالبہ کرتے ہیں ، ان کے دل چونکہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں اس لئے یہ نہ مانیں گے۔ دیکھو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو۔ ٩ بڑے معجزات دئیے گئے ، مگر فرعون اور اس کے سرداروں نے مان کر نہ دیا۔ اس لئے اس پر تباہی آئی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر تمہارے پاس میرے رب کی رحمت کے خزانے ہوتے تو خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روک لیتے، انسان بڑا تنگ دل ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم میرے رب کے خزانوں کے مالک ہوتے اور تمہیں اختیار ہوتا کہ جسے چاہو دو اور جسے چاہو نہ دو ۔ تو تم ہاتھ روک لیتے کسی کو نہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ رازق ہے اور خالق ہے۔ اپنی مخلوق کو رزق عطا فرماتا ہے جس کا جتنا رزق مقرر اور مقسوم فرمایا ہے پورا کیے بغیر موت نہ آئے گی۔ جب سے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اللہ تعالیٰ شانہ رزق دیتا ہے اور جس قدر اس کی مخلوق بڑھتی چلی جائے اس کی نعمتوں اور رحمتوں میں کوئی کمی نہیں، مخلوق بھی بڑھ رہی ہے اور رزق بھی بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو عطا فرماتا ہے اور حاجتیں پوری فرماتا ہے دوست اور دشمن سب کو دیتا ہے ایک حدیث میں ہے ارائیتم ما انفق منذ خلق السموات والارض فانہ لم یغض ما فی یدہ (تم ہی بتاؤ اس نے جب سے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے کتنا خرچ فرما دیا اس سب کے باوجود اس کے قبضہ قدرت سے کچھ بھی کم نہیں ہوا۔ ) (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢١) یہ جو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت ہے بھرپور انفاق ہے حاجت روائی ہے یہ سب اس کی رحمت کے خزانوں میں سے ہے اگر اس کے خزانے مخلوق کے اختیار میں ہوتے اور وہ خرچ کرنے والے ہوتے تو وہ اس ڈر سے کہ یہ سب خرچ ہوگیا تو تنگ دستی آجائے گی خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیتے (وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا) اور انسان طبعی طور پر قتور واقع ہوا ہے جو خرچ کرنا چاہتا ہے۔ کنجوس ہے تنگ دل ہے، علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں مشرکین کی اس بات کا جواب ہے جو انہوں نے کہا ہے کہ ہماری سرزمین میں چشمے جاری کروا دیجیے تاکہ ہماری تنگ دستی جاتی رہے اور معیشت میں وسعت ہوجائے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تمہیں وسعت نصیب ہوجائے تب بھی کنجوسی کرو گے کیونکہ انسان مزاج اور طبیعت کے طور پر بخیل، کم دلا اور نخر چا واقع ہوا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

86:۔ یہ توحید پر چھٹی عقلی دلیل ہے۔ ” انتم “ کا خطاب عام ہے، جن و بشر اور فرشتوں کو شامل ہے۔ حاصل یہ ہے کہ متصرف و مختار اور تمام خزانوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اگر رزق کے خزانے تمہارے ہاتھ میں دے دئیے جائیں تو تم بخل کرو اور کسی کو کچھ بھی نہ دو کہ کہیں خزانے ختم نہ ہوجائیں۔ اس لیے تم میں سے کوئی بھی اس کا استحقاق نہیں رکھتا کہ اسے کارخانہ عالم میں تصرف کا اختیار دیا جائے۔ ” قتورا “ بخیل اور کنجوس۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

100 اے پیغمبر ! آپ ان سے فرمائیے اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مختار ہوتے تو تم ان خزانوں کو بھی اس خوف سے روک رکھتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائیں اور انسان بڑا ہی دل تنگ واقع ہوا ہے۔ یعنی رحمت رب عام طور سے نبوت کے لئے قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اس لئے شاید یہ اس شبہ کا جواب ہو جو یہ منکر کیا کرتے تھے کہ ابن عبداللہ کو کیوں یہ قرآن کریم دیا گیا اور ان کو کیوں نبوت دی گئی ۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر پروردگار کی رحمت کے خزانے تم کو دے دیئے جاتے تو تم اس میں بھی بخل کرتے اور خرچ ہوجانے کے خوف سے اپنا ہاتھ روک لیتے۔ چنانچہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے خزانے خود ہی تقسیم کئے اور جس کو اہل پایا اور جس میں صلاحیت پائی اس کو اپنی رحمت یعنی نبوت سے سرفراز فرمایا چوں کہ نبوت کی بحث اوپر سے ہو رہی ہے اس مناسبت سے ہم نے یہ معنی کئے ہیں ورنہ آیت کے معنی اور طرح بھی کئے گئے ہیں۔ بخل کی مذمت تو ظاہر ہی ہے۔ جیسے پانچویں پارے میں فرمایا۔ ام لھم نصیب من الملک فاذ الایئوتون الناس نقیرا۔ ابن کثیر نے اس آیت کو بخل کی مذمت پر حمل کیا ہے اور یہی معنی لئے ہیں۔