Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 22

سورة بنی اسراءیل

لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَقۡعُدَ مَذۡمُوۡمًا مَّخۡذُوۡلًا ﴿٪۲۲﴾  2

Do not make [as equal] with Allah another deity and [thereby] become censured and forsaken.

اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا کہ آخرش تو برے حالوں بے کس ہو کر بیٹھ رہے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do not associate Anything in Worship with Allah Allah says, لااَّ تَجْعَل مَعَ اللّهِ إِلَـهًا اخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَّخْذُولااً Set not up with Allah any other ilah (god), or you will sit down reproved, forsaken (in the Hellfire). Addressing those who are responsible among this Ummah, Allah says, "Do not admit any partner into your worship of your Lord." فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا (or you will sit down reproved), meaning, because of associating others with Him. مَّخْذُولاً (forsaken), means, because the Lord, may He be exalted, will not help you; He will leave you to the one whom you worshipped, and he has no power either to benefit or to harm, because the Only One Who has the power to benefit or to harm is Allah alone, with no partner or associate. Imam Ahmad reported that Abdullah bin Mas`ud said: "The Messenger of Allah said: مَنْ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللهِ أَرْسَلَ اللهُ لَهُ بِالْغِنَى إِمَّا اجِلً وَإِمَّا غِنىً عَاجِلً Whoever is afflicted with poverty and goes and asks people for help, will never get rid of his poverty, but if he asks Allah for help, then Allah will grant him the means of independence sooner or later. This was also recorded by Abu Dawud and At-Tirmidhi, who said, "Hasan Sahih Gharib".

فاقہ اور انسان یہ خطاب ہر ایک مکلف سے ہے ۔ آپ کی تمام امت کو حق تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو ۔ اگر ایسا کرو گے تو ذلیل ہو جاؤ گے اللہ کی مدد ہٹ جائے گی ۔ جس کی عبادت کرو گے اسی کے سپرد کر دئے جاؤ گے اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان کا مالک نہیں وہ واحد لا شریک ہے ۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے بند کروانا چاہے اس کا فاقہ بند نہ ہو گا اور جو اللہ سے اس کی بابت دعا کرے اللہ اس کے پاس تونگری بھیج دے گا یا تو جلدی یا دیر سے ۔ یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی میں ہے ۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] شرک کی مذمت اور مشرکوں کی حسرت :۔ اس آیت میں شرک، مشرکوں اور ان کے معبودوں کی ایک نئے انداز میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ جو یہ ہے کہ دنیا میں جتنے معبودوں سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کی دعا یا آرزو کی جاتی ہے وہ یا تو بےجان ہیں یا جاندار۔ بےجان تو بالکل بےدست و پا اور انسان کے خود تراشیدہ ہیں۔ وہ تو خود انسانوں کے محتاج ہیں وہ ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں اور جو جاندار ہیں وہ اللہ کے مطیع فرمان اور اس کے آگے مجبور محض ہیں۔ لہذا تمہاری مدد کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اب جو شخص ان سے توقعات تو بڑی بڑی وابستہ کیے بیٹھا ہو۔ لیکن مصیبت کے وقت ان کے معبود ان کی کچھ بھی مدد نہ کرسکیں تو اس کی یاس و حسرت کا جو حال ہوگا وہ سب جانتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا ۔۔ : ” مَّخْذُوْلًا “ وہ ہے جس کی مدد وہ چھوڑ دے جس سے اسے مدد کی امید ہو۔ اس آیت میں تمام اعمال کی بنیاد شرک سے پاک ہونا بیان فرمائی گئی ہے۔ بظاہر مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، مگر درحقیقت ہر انسان اس کا مخاطب ہے، کیونکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرک کا صدور کیسے ہوسکتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ بالفرض اگر اللہ کے ساتھ شریک بنانے کا فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی سرزد ہوجائے تو پھر آپ کی بھی کوئی تعریف کرنے والا ہوگا نہ کوئی مدد کرنے والا، بلکہ ہر ایک مذمت ہی کرے گا۔ دیکھیے سورة زمر (٦٤ تا ٦٧) ، حج (٣١) ، مائدہ (٧٢) اور نساء (١١٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence Previous verses mentioned some conditions attached to the acceptance of deeds. One of the conditions required that no deed is accepted unless it comes with &Iman (faith, belief) and is in accordance with Shari` ah (Law) and Sunnah (sayings and deeds of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)). In the present verses, instructions regarding some of such deeds have been given. These are rules set by the Shari&ah of Islam. Their compliance brings success in the Hereafter and their contravention, ruin. And since the most important of these conditions is that of &Iman, therefore, the very first injunction given here was that of belief in the Oneness of Allah (tauhid). After that come injunctions relating to the rights of the ser¬vants of Allah (huquq al-` ibad).

ربط آیات : سابقہ آیات میں قبول اعمال کے لئے چند شرائط کا بیان آیا ہے جن میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ عمل مقبول وہی ہوسکتا ہے جو ایمان کے ساتھ ہو اور شریعت وسنت کے مطابق ہو ان آیات میں ایسے ہی خاص خاص اعمال کی ہدایت کی گئی ہے جو شریعت کے بتلائے ہوئے احکام ہیں ان کے تعمیل آخرت کی فلاح اور ان کی خلاف ورزی آخرت کی ہلاکت کا سبب ہے اور چونکہ شرائط مذکورہ میں سب سے اہم شرط ایمان کی ہے اس لئے سب سے پہلا حکم بھی توحید کا بیان فرمایا اس کے بعد حقوق العباد سے متعلقہ احکام ہیں۔ خلاصہ تفسیر : حکم اول توحید لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ (اے مخاطب) اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود مت تجویز کر ( یعنی شرک نہ کر) ورنہ تو بد حال بےیارومددگار ہو کر بیٹھ رہے گا (آگے پھر اس کی تاکید ہے) تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس (معبود برحق) کے کسی کی عبادت مت کر (یہ سعی آخرت کے طریقہ کی تفصیل ہے) حکم دوم : اداء حقوق والدین وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اگر (وہ) تیرے پاس (ہوں اور) ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے (کی عمر) کو پہنچ جائیں (جس کی وجہ سے محتاج خدمت ہوجائیں اور جبکہ طبعا ان کی خدمت کرنا بھاری معلوم ہو) سو (اس وقت بھی اتنا ادب کرو کہ) ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور (ان کے لئے حق تعالیٰ سے) یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن (کی عمر) میں پالا پرورش کیا ہے (اور صرف اس ظاہری توقیر و تعظیم پر اکتفاء مت کرنا دل میں بھی ان ادب اور قصد اطاعت رکھنا کیونکہ) تمہارا رب تمہارے دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے (اور اسی وجہ سے تمہارے لئے اس کی تعمیل آسمان کرنے کے واسطے ایک تخفیف کا حکم بھی سناتے ہیں کہ) اگر تم (حقیقت میں دل ہی سے) سعادت مند ہو (اور غلطی یا تنک مزاجی یا دل تنگی سے کوئی ظاہری کوتاہی ہوجائے اور پھر نادم ہو کر معذرت کرلو) تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا 22؀ۧ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیز کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ ذم يقال : ذَمَمْتُهُ أَذُمُّهُ ذَمّاً ، فهو مَذْمُومٌ وذَمِيمٌ ، قال تعالی: مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 18] ، وقیل : ذَمَّتُّهُ أَذُمُّهُ علی قلب إحدی المیمین تاء . والذِّمَام : ما يذّمّ الرّجل علی إضاعته من عهد، وکذلک المَذَمَّةُ والمَذِمَّة . وقیل : لي مَذَمَّة فلا تهتكها، وأذهب مَذَمَّتَهُمْ بشیء، أي : أعطهم شيئا لما لهم من الذّمام . وأَذَمَّ بکذا : أضاع ذمامه، ورجل مُذِمٌّ: لا حراک «2» به، وبئر ذَمَّةٌ: قلیلة الماء، قال الشاعر : 170- وتری الذّميم علی مراسنهم ... يوم الهياج کمازن الجثل «3» الذَّمِيم : شبه بثور صغار . يقال : أصله الذنة والذنین . ( ذ م م ) ذمتہ ( ن) ذما کے معنی مذمت کرنے کے ہیں ۔ اس سے صیغہ صفت مفعول مذموم وذمیم آتا ، قرآن میں ہے : مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 18] نفرین سنکر اور ( درگاہ خدا سے ) راندہ ہوکر ۔ اور بعض ذممتہ صیغہ واحد متکلم میں دوسری میم کا ناد ست بدل کر ذمتہ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ الذمام ۔ وہ عہد وغیرہ جس کا ضائع کرنا باعث مذمت ہو یہی معنی ذمتہ ومذمتہ کے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ میرے عہد یا حرمت کا پاس کیجئے توڑیئے نہیں یعنی ان کے حق احترام کا بدلہ اتاریئے ۔ اذم بکذا ۔ اس کی حرمت کو ضائع کردیا ۔ تہاون سے کام لیا ۔ رجل مذم بےحس و حرکت بئر ذمتہ کم پانی والا کنواں چیونٹی کے انڈوں کی طرح سفید سا مادہ جو ناک پر ظاہر ہوجاتا ہے اسے الذمیم کہا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ خذل قال تعالی: وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] ، أي : كثير الخذلان، والخِذْلَان : ترک من يظنّ به أن ينصر نصرته، ولذلک قيل : خَذَلَتِ الوحشيّة ولدها، وتَخَاذَلَت رجلا فلان، ومنه قول الأعشی بين مغلوب تلیل خدّه ... وخَذُول الرّجل من غير كسح «2» ورجل خُذَلَة : كثيرا ما يخذل . ( خ ذل ) قرآن میں ہے : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کو عین موقعہ پر دغا دینے والا ہے ۔ الخذول ( صیغہ مبالغہ ) بہت زیادہ خدلان یعنی دغا دینے والا ہے ۔ الخذلان ایسے شخص کا عین موقعہ پر ساتھ چھوڑ کر الگ ہوجانا جسکے متعلق گمان ہو کہ وہ پوری پوری مدد کریگا ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے : خذلت الوحشیۃ ولدھا وحشی گائے نے اپنے بچہ کو چھوڑ دیا اس کی ٹانگیں کمزور پڑگئیں اسی سے اعشی نے کہا ہے ( الرمل ) (132) بین مغلوب تلیل خدۃ وخذول الرجل من غیر کسح ( بعض مغلوب ہو کر رخسارے کے بل گر پڑے ہیں اور بعض ٹانگیں بدوں بےحسی کے جواب دے چکی ہیں ۔ رجل خذلۃ بےبس آدمی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود تجویز کر ورنہ صاحب ملامت ہوجائے گا کہ خود ہی اپنے آپ کو ملامت کرے گا اور پروردگار حقیقی تجھ کو ذلیل کر دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا) آئندہ دو رکوع اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں تورات کے احکام عشرہ (Ten Commandments) کو قرآنی اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے نزدیک ان احکام کے اندر تورات کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ ان احکام کا خلاصہ ہم سورة الانعام کے آخری حصے میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ یہاں پر وہی باتیں ذرا تفصیل سے بیان ہوئی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24. Or it can be rendered like this: Do not invent another deity besides Allah, or do not set up another as a deity beside Allah.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :24 دوسرا ترجمہ اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور خدا نہ گھڑ لے ، یا کسی اور کو خدا نہ قرار دے لے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: آیت نمبر 19 میں فرمایا گیا تھا کہ آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کے لیے بندے کو ویسی ہی کوشش کرنی ہے جیسی کرنی چاہئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی طرف اشارہ تھا۔ اب یہاں سے ایسے کچھ احکام کی تفصیل بیان فرمائی جا رہی ہے جس کو سب سے پہلے توحید کے حکم سے شروع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔ اس کے بعد کچھ احکام حقوق العباد سے متعلق بیان کیے گئے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢:۔ اس آیت میں اگرچہ اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا مگر اللہ کے احکام امت کے لوگوں کو اللہ کے رسول کی معرفت پہنچتے ہیں اس لیے حقیقت میں ہر ایک نسان اس خطاب میں داخل ہے اور ہر انسان کو یہ حکم سنایا گیا کہ خدا کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ اگر کسی نے اس وحدہ ‘ لاشریک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ اس جرم کے باعث سے ملامت میں پڑے گا اور کوئی اس کا حامی و مددگار نہ ہوگا اور اللہ پاک کبھی اس کی مدد نہ کرے گا بلکہ اسی معبود باطل کے سپرد اس شخص کو کرے گا جو کسی قسم کے نفع وضرر کا مالک نہیں ہے کیونکہ ہر طرح کا فائدہ ونقصان خدا کے ہاتھ میں ہے اور سارے جہاں میں اسی وحدہ ‘ لاشریک کا بول بالا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے ١ ؎۔ کہ اللہ کے فرشتے دنیا کی چند روز خوشحالی کا دوزخیوں کو قائل اور ذلیل کریں گے۔ یہ حدیث فتقعد مذموما مخذولا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل وہی ہے جو آیت من کان یرید العاجلۃ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذاج ٣ ص ٣٢٠

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:22) فتقعد۔ ورنہ تو بیٹھ رہے گا (قعود (بیٹھے رہنا) سے مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ مخذولا۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ منصوب۔ خذل وخذلان مصدر۔ بےمدد چھوڑا ہوا خذل یخذل (باب نصر) بےمدد چھوڑنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز اس سورت کی آیت ٢ سے ہوا۔ جس میں بنی اسرائیل کے حوالے سے تمام انسانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ سمجھیں۔ خطاب کا اختتام بھی اسی بات پر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا اور عبادت کے لائق نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی نام ” اللہ “ ہے۔ اس نام کا متبادل ” اِلٰہ “ ہے۔ جو متبادل نام ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اسم صفت بھی ہے۔ یہ نام اللہ تعالیٰ کی اکثر صفات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہر دور کا مشرک اللہ تعالیٰ کو خالق، رازق اور مالک تسلیم کرتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے اِلٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اِلٰہ کا معنی ہے ایسی ذات جس کے ساتھ غایت درجے کی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی انتہائی عاجزی کے ساتھ عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی اعتبار سے بھی کسی دوسرے کو شریک نہ سمجھا اور نہ بنایا جائے۔ دعا بھی عبادت کی ایک شکل ہے۔ جس میں کسی قسم کا واسطہ، حرمت، طفیل کے الفاظ نہیں بولنے چاہییں۔ سورة النمل آیت ٦٢ میں ارشاد ہوا ہے کہ بھلا کون ہے ؟ جو مجبور کی دعا قبول کرتے ہوئے اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور کون ہے ؟ جو تمہیں زمین پر ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ اس حقیقت کے باوجود بہت کم لوگ اس بات پر غور و خوض کرتے ہیں۔ یہاں ” الٰہ “ کا لفظ حاجت روا اور مشکل کشا کے طور پر لایا گیا ہے۔ سورة النمل کی آیت ٦٠ سے لے کر ٦٣ تک اِلٰہ کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔ البقرۃ آیت ١٦٣ میں دو ٹوک انداز میں ارشاد فرمایا ہے کہ : ” تمہارا ” اِلٰہ “ ایک ہی ” اِلٰہ “ ہے اس کے سوا تمہارا کوئی ” اِلٰہ “ نہیں وہ نہایت مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ اس بناء پر یہاں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو ” اِلٰہ “ نہ بنانا۔ ورنہ تم برے حال اور بےیارو مددگار ہو کر بیٹھے رہ جاؤ گے۔ (عَنْ مُعَاذٍ (رض) قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حِمَارٍ یُقَالُ لَہُ عُفَیْرٌ، فَقَالَ یَا مُعَاذُ ، ہَلْ تَدْرِی حَقَّ اللّٰہِ عَلَی عِبَادِہِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ قُلْتُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْءًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَ مَنْ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ، أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ لاَ تُبَشِّرْہُمْ فَیَتَّکِلُوا) [ رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ ] ” حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی آخری لکڑی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہکرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں ؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُول اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُولُ نَعَمْ فَیَقُولُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِی صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ النار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں تیرے لیے ہے۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہے ؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اس سے زیادہ تجھ سے نرمی کی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، راوی کا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہیں کروں گا لیکن تو شرک سے باز نہیں آیا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں بنانا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنانے والا بدحال اور بےیارو مددگار ہوگا۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کے مختلف معانی : ١۔ اللہ کے ساتھ دوسرا معبود نہ بناؤ ورنہ بدحال بےیارومددگار ہوجاؤ گے۔ (بنی اسرائیل : ٢٢) ٢۔ تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ : ١٦٣) ٣۔ اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (القصص : ٨٨) ٤۔ اگر یہ اِلٰہ ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ (الانبیاء : ٩٩) ٥۔ انہوں نے اللہ کے سوا اِلٰہ بنا لیے ہیں جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اپنی مدد کے لیے الٰہ بنا لیے ہیں ؟ (یٰس : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سورت کے پہلے سبق میں عمل و مکافات عمل کے اصولوں اور ہدایت و ضلالت کے قوانین اور کسب اور حساب کی ذمہ داریوں کو کائناتی اصولوں اور طبعی قوانین اور گردش لیل و نہار سے مربوط کیا گیا تھا۔ اس سبق میں انسانی طرز عمل ، اخلاق وآداب اور انفرادی اخلاق اور اجتماعی طرز عمل اور قوانین کو اسلامی نظریہ حیات کے اساسی اصول و عقائد یعنی توحید الٰہی کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ چناچہ تمام انفرادی اور اجتماعی روابط کی اساس یہی عقیدہ توحید ہے ، جو ایک مضبوط رسی ہے۔ اور یہی ایک خاندان اور ایک سو سائٹی کی اجتماعی زندگی کی اساس اور رابطہ ہے۔ درس سابق میں کہا گیا تھا کہ یہ قرآن بالکل ایک سیدھی راہ کی طرف ہدایت اور رہنمائی کرتا ہے۔ اور اس کے اندر اس راہنمائی کی تمام تفصیلات درج ہیں۔ ان ھذا القران………تفصیلا (٢١) (٧١ : ٩۔ ٢١) ” جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے “۔ ” انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے “۔ ” دیکھو ‘ ہم نے رات اور دن و دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بےنور بنایا اور دن کی نشانی کو روشن کردیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کرسکو۔ اسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیز کرکے رکھا ہے “۔ جبکہ اس سبق میں قرآن کریم کے احکامات میں سے بعض احکام ، منہیات میں سے بعض مناھی کی تفصیلات دی گئی ہیں اور یہ انسانی زندگی کے عملی معاملات سے متعلق ہیں۔ چناچہ درس کا آغاز شرک کی ممانعت سے ہوتا ہے ، اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ صرف اللہ وحدہ لا شریک مستحق عبادت ہے۔ اس کے بعد احکام شروع ہوتے ہیں۔ پہلا حکم والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ہے۔ پھر رشتہ داروں ، مساکین اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک ، پھر اعطاء اور خرچ میں اعتدال اور حفاظت ، وفائے عہد ، ناپ تول برابر رکھنے کا حکم ، سچائی پر قائم رہنے کا حکم ، تکبر سے اجتناب اور آخر میں پھر شرک سے اجتناب۔ چناچہ تمام اخلاقی اور قانونی احکام کو عقیدہ توحید کے اندر باندھ دیا گیا ہے۔ کیونکہ اسلامی نظام پورے کا پورا اسلامی نظریہ حیات پر قائم ہے اور اسلا می نظریہ حیات کلمہ طیبہ پر قائم ہے۔ اس آیت میں شرک سے ممانعت اور اس کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ امر تو عام ہے لیکن اسے صیغہ مفرد کی شکل میں لا کر ایک فرد کو مخاطب کیا گیا تاکہ ہر فرد یہ سمجھے کہ یہ حکم اسی کے لئے ہے اور مخصوص طور پر ہر فرد کے لئے صادر ہوا ہے۔ کیونکہ عقیدہ ایک شخصی معاملہ ہے اور اس کے بارے میں ایک شخص ہی انفرادی طور پر مسئول ہے اور انجام یہ ہے کہ جو شخص بھی شرک کا ارتکاب کرے گا ، وہ مذموم ہوگا ، کیونکہ اس نے قابل مذمت فعل کا ارتکاب کیا ہے اور پھر دوسرا انجام یہ ہے کہ وہ شرمندہ اور بےیارو مددگار رہ جائے گا ، اگرچہ اس کے خیال میں اس کے مددگار بہت ہوں اور جو شخص مذموم ہوجائے اور اس کی امداد کے لئے کوئی نہ آئے تو وہ بھی علیحدہ ہو کر شرمندگی کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ انسان ضعیفی کی حالت میں اکثر بیٹھ جاتا ہے۔ کوئی حرکت نہیں کرسکتا اس لئے لفظ قعود (بیٹھنا) ایسے شخص کے لئے اس جگہ نہایت ہی بامعنی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں شرک اور اصحاب شرک کی مذمت فرمائی اور توحید اختیار کرنے اور توحید پر جمنے کا حکم فرمایا، ارشاد ہے (لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ) (اے مخاطب تو اللہ کے ساتھ کسی کو بھی معبود مت بنا) (فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا) (ورنہ تو اس حال میں بیٹھ رہے گا کہ تو مذموم ہوگا اور مخذول ہوگا) یعنی قیامت کے دن بدحال لوگوں میں شمار ہوگا اور وہاں کوئی یار و مددگار نہ ہوگا توحید کو چھوڑنے کی وجہ سے وہاں کی عاجزی، بےبسی اور بےکسی اور بدحالی سامنے آجائے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ جواب شہبہ اور ترغیب الی الاخرہ کے بعد دعوی توحید کا اعادہ کیا گیا۔ خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور مراد ساری مخلوق ہے یا خطاب ہر سامع سے ہے بقاعدہ خطاب خاص و مراد عام۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہوں میں ایسا ہے۔ والخطاب فی لا تجعل للسامع غیر الرسول وقال الطبری وگیرہ الخطاب لمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولمراد لجمیع الخلق (بحر ج 6 ص 22) ۔ ” فتقعد مذموما مخذولا “ تخویف دنیوی یا اخریوی ہے اور یہ نہی کا جواب ہے یعنی اگر تو اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا کارساز اور حاجت روا بنائے گا تو دنیا میں ذلت کے ساتھ کس مپرسی کی زندگی گذارے گا اور جن کو تو نے اپنے مددگار سمجھا ہے وہ تیری مدد نہیں کرسکیں گے (کشاف) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں ذلیل و خوار اور بےیارو مددگار ہوگا۔ ای لا ناصر لک ولا ولیا (قرطبی) ج 10 ص 236) ۔ من اشرک باللہ کان مذموما مخذولا۔ لانہ لما باثبت شریکا للہ تعالیٰ استحق ان یفوض امرہ الی ذالک الشریک فلما کان ذلک الشریک معدوما بقی بلا ناصر و لا حاظ و لا معین و ذلک عین الخذلان (کبیر ج 5 ص 568) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 اے مخاطب تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو تجویز نہ کر اور نہ کسی دوسرے کو مقرر کر ورنہ مذمت کیا گیا اور بےکس و بےیارو مددگار ہو کر بیٹھ رہے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو برحق ہے اس کے ساتھ کوئی اور معبود قرار دینے پر تم کو الاہنا بھی ملے گا اور الزام بھی دیا جائے گا اور تم قابل نفریں قرار پائو گے اور تم بےکس اور بےیارو مددگار ہو کر رہ جائو گے۔