Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 23

سورة بنی اسراءیل

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾

And your Lord has decreed that you not worship except Him, and to parents, good treatment. Whether one or both of them reach old age [while] with you, say not to them [so much as], "uff," and do not repel them but speak to them a noble word.

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to Worship Allah Alone and to be Dutiful to One's Parents Allah says, وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ... And your Lord has Qada (decreed) that you worship none but Him. Allah commands us to worship Him alone, with no partner or associate. The word Qada (normally having the meaning of decree) here means "commanded". Mujahid said that; وَقَضَى (And He has Qada) means enjoined. This is also how Ubayy bin Ka`b, Ibn Mas`ud and Ad-Dahhak bin Muzahim recited the Ayah as: وَوَصَّي رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ "And your Lord has Wassa (enjoined) that you worship none but Him." The idea of worshipping Allah is connected to the idea of honoring one's parents. Allah says: ... وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ... And that you be dutiful to your parents. Here He commands good treatment of parents, as He says elsewhere: أَنِ اشْكُرْ لِى وَلِوَلِدَيْكَ إِلَىَّ الْمَصِيرُ give thanks to Me and to your parents. Unto Me is the final destination. (31:14) ... إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَ تَقُل لَّهُمَأ أُفٍّ ... If one of them or both of them attain old age in your life, say not to them a word of disrespect, means, do not let them hear anything offensive from you, not even say "Uff!" which is the mildest word of disrespect, ... وَلاَ تَنْهَرْهُمَا ... and do not reprimand them, means, do not do anything horrible to them. Ata' bin Rabah said that it meant, "Do not raise your hand against them." When Allah forbids speaking and behaving in an obnoxious manner, He commands speaking and behaving in a good manner, so He says: ... وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا but address them in terms of honor. meaning gently, kindly, politely, and with respect and appreciation.

اٹل فیصلے محکم حکم یہاں قضی معنی میں حکم فرمانے کے ہے تاکیدی حکم الہٰی جو کبھی ٹلنے والا نہیں یہی ہے کہ عبادت اللہ ہی کی ہو اور والدین کی اطاعت میں سرمو فرق نہ آئے ۔ ابی ابن کعب ، ابن مسعود اور ضحاک بن مزاحم کی قرأت میں قضی کے بدلے وصی ہے ۔ یہ دونوں حکم ایک ساتھ جیسے یہاں ہیں ایسے ہی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀ ) 31- لقمان:14 ) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مند رہ ۔ خصوصا ان کے بڑھاپے کے زمانے میں ان کا پورا ادب کرنا ، کوئی بری بات زبان سے نہ نکلنا یہاں تک کے ان کے سامنے ہوں بھی نہ کرنا ، نہ کوئی ایسا کام کرنا جو انہیں برا معلوم ہو ، اپنا ہاتھ ان کی طرف بے ادبی سے نہ بڑھانا ، بلکہ ادب عزت اور احترام کے ساتھ ان سے بات چیت کرنا ، نرمی اور تہذیب سے گفتگو کرنا ، ان کی رضا مندی کے کام کرنا ، دکھ نہ دینا ، ستانا نہیں ، ان کے سامنے تواضع ، عاجزی ، فروتنی اور خاکساری سے رہنا ان کے لئے ان کے بڑھاپے میں ان کے انتقال کے بعد دعائیں کرتے رہنا ۔ خصوصا دعا کہ اے اللہ ان پر رحم کر جیسے رحم سے انہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی ۔ ہاں ایمانداروں کو کافروں کے لئے دعا کرنا منع ہو گئی ہے گو وہ باپ ہی کیوں نہ ہوں ؟ ماں باپ سے سلوک و احسان کے احکام کی حدیثیں بہت سی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی ، جب آپ سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا اے نبی اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، جس کے پاس تیرا ذرک ہو اور اس نے تجھ پر درود بھی نہ پڑھا ہو ۔ کہئے آمین چنانچہ میں نے کہا آمین کہی ۔ پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہ رمضان آیا اور چلا بھی گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی ۔ آمین کہئے چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی ۔ پھر فرمایا اللہ اسے بھی برباد کرے ۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پا لیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہئے آمین میں نے کہا آمین ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے کسی مسلمان ماں باپ کے یتیم بچہ کو پالا اور کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ بےنیاز ہو گیا اس کے لئے یقینا جنت واجب ہے اور جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ اسے جہنم سے آزاد کرے گا اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم سے آزاد ہو گا ۔ اس حدیث کی ایک سند میں ہے جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پا لیا پھر بھی دوزخ میں گیا اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے ۔ مسند احمد کی ایک روایت میں یہ تینوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوئی ہیں یعنی گردن آزاد کرنا خدمت والدین اور پرورش یتیم ۔ ایک روایت میں ماں باپ کی نسبت یہ بھی ہے کہ اللہ اسے دور کرے اور اسے برباد کرے الخ ۔ ایک روایت میں تین مرتبہ اس کے لئے یہ بدعا ہے ۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود نہ پڑھنے والے اور ماہ رمضان میں بخشش الہٰی سے محروم رہ جانے والے اور ماں باپ کی خدمت اور رضا مندی سے جنت میں نہ پہنچنے والے کے لئے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بدعا کرنا منقول ہے ۔ ایک انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں چار سلوک ( ١ ) ان کے جنازے کی نماز ( ٢ ) ان کے لئے دعا و استغفار ( ٣ ) ان کے وعدوں کو پورا کرنا ( ٤ ) ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو ۔ یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان کے ساتھ کر سکتا ہے ( ابوداؤد ابن ماجہ ) ایک شخص نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے ارادے سے آپ کی خدمت میں خوشخبری لے کر آیا ہوں ۔ آپ نے فرمایا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا جا اسی کی خدمت میں لگا رہ ۔ جنت اسی کے پیروں کے پاس ہے ۔ دوبارہ سہ بارہ اس نے مختلف مواقع پر اپنی یہی بات دہرائی اور یہی جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دہرایا ( نسائی ابن ماجہ وغیرہ ) فرماتے ہیں اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی نسبت وصیت فرماتا ہے اللہ تمہیں تماری ماؤں کی نسبت وصیت فرماتا ہے ۔ پچھلے جملے کو تین بار بیان فرمایا اللہ تمہیں تمہارے قرابت داروں کی بابت وصیت کرتا ہے ، سب سے زیادہ نزدیک والا پھر اس کے پاس والا ( ابن ماجہ مسند احمد ) فرماتے ہیں دینے والے کا ہاتھ اونچا ہے اپنے ماں سے سلوک کر اور اور اپنے باپ سے اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر جو اس کے بعد ہو اسی طرح درجہ بدرجہ ( مسند احمد ) بزار کی مسند میں ضعیف سند سے مروی ہے کہ ایک اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے طواف کرا رہے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے لگے کہ اب تو میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک شمہ بھی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کردیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ' ہوں ' تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بےبس اور لا چار ہوتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد و گرم تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اسلامی معاشرہ کے لئے چودہ بنیادی احکام تورات کی تعلیم کا خلاصہ :۔ اس آیت سے لے کر آگے پندرہ سولہ آیات میں ایسے بنیادی اصول و احکام بیان کیے جارہے ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اور جن پر مستقبل قریب میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جانے والی تھی۔ گویا یہ اسلامی ریاست کا دستور اساسی تھا جس کا مکہ کی آخری زندگی میں ہی اعلان کردیا گیا تھا کہ اس نئی ریاست کی بنیاد کن کن نظری، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی اور سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ تورات کی ساری تعلیم کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرما دیا ہے۔ [٢٤] توحید کا فیصلہ اللہ نے کب کیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اس وقت ہی کردیا تھا جب سیدنا آدم کو پیدا کرکے اس کی پشت سے پیدا ہونے والی تمام روحوں کو نکال کر اپنے سامنے حاضر کیا اور پوچھا تھا && کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ؟ && تو سب نے جواب دیا تھا && کیوں نہیں۔ ہم اس کا اقرار کرتے ہیں && پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا && میں یہ اقرار تم سے اس لیے لے رہا ہوں مبادا تم قیامت کو یوں کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے اور ہم تو اس سے بیخبر تھے && (٧: ١٧٢، ١٧٣) اسی عہد کا خلاصہ اس جملہ میں آگیا ہے یعنی اقرار ایک تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے موجود ہونے پر تھا اور دوسرے اس بات پر کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنایا جائے گا۔ دنیا کے مذاہب توحید پرست ہمیشہ موجود رہے ہیں اگرچہ کم کیوں نہ ہوں :۔ اعتقادی لحاظ سے انسان دو قسموں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ فریق ہے جو سرے سے ہی اللہ کے وجود کا قائل نہیں جیسے دہرئیے اور نیچری وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار اور اللہ کی ہستی کے قائل ہیں۔ اس لحاظ سے پہلی قسم کے لوگ تھوڑے ہیں اور اکثریت ایسی ہی رہی ہے جو اللہ کے وجود کی قائل رہی ہے۔ پھر یہ دوسرا گروہ یعنی اللہ کی ہستی کے قائل لوگ دو قسموں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں مگر ساتھ ساتھ اس کے شریک بھی بنائے جاتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو توحید پر قائم رہے۔ ان میں اکثریت پہلی قسم کے لوگوں کی ہے اور توحید پرست کم ہی رہے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ انسان اس کی ہستی کا قائل بھی ہو اور اس کے ساتھ شرک بھی نہ کرے۔ اب جن لوگوں نے اللہ کی ہستی کا انکار کیا انہوں نے بھی اللہ سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے شرک کیا انہوں نے بھی خلاف ورزی کی۔ باقی تھوڑے ہی لوگ بچتے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا۔ اور اللہ کے فیصلے کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ صرف توحید پرستوں کا قلیل سا طبقہ دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور تاقیامت موجود رہے گا تاکہ لوگوں پر ہر وقت اتمام حجت ہوسکے۔ چناچہ سورة یوسف کی اس آیت ( وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦۔ ) 12 ۔ یوسف :106) میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ [٢٥] والدین سے بہتر سلوک اور ادائیگی حقوق :۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ متصل والدین کا ذکر فرمایا۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ والدین کے حقوق ادا کرو بلکہ یوں فرمایا ان سے بہتر سلوک کرو اور یہ تو واضح ہے کہ بہتر سلوک میں حقوق کی ادائیگی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے۔ اسی طرح احادیث صحیحہ میں شرک کے بعد دوسرے نمبر پر عقوق والدین کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے اور عقوق کے معنی عموماً نافرمانی کرلیا جاتا ہے حالانکہ عقوق کا معنی ہر وہ فعل ہے جس سے والدین کو ذہنی اور روحانی اذیت پہنچے۔ مثلاً والدین کی طرف بےتوجہی بالخصوص اس وقت جبکہ وہ بوڑھے اور توجہ کے محتاج ہوں۔ یہ بات نافرمانی کے ضمن میں نہیں آتی مگر عقوق کے معنی میں ضرور آجاتی ہے اسی لیے قرآن نے ہر مقام پر والدین سے احسان یا بہتر سلوک کا ذکر فرمایا۔ [٢٦] والدین سے حسن سلوک کی وجوہ :۔ جب والدین بوڑھے ہوں اور کما بھی نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد جوان اور برسر روزگار ہو۔ تو والدین کئی لحاظ سے اولاد سے بہتر سلوک کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اولاد ان سے مالی تعاون کرے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرے۔ دوسرے یہ کہ والدین کی محبت تو اپنی اولاد سے بدستور قائم رہتی ہے مگر اولاد کی محبت آگے اپنی اولاد کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اس لیے اولاد اپنی اولاد کی طرف متوجہ رہتی ہے اور والدین کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس عمر میں والدین کو اولاد سے زیادہ خاصی توجہ، محبت اور الفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرے یہ کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے طبعی طور پر چڑچڑا سا ہوجاتا ہے اور اولاد چونکہ اب ان کی طرف سے بےنیاز ہوچکی ہوتی ہے۔ لہذا وہ والدین کی باتیں برداشت کرنے کے بجائے انھیں الٹی سیدھی باتیں سنانے لگتی ہے انھیں وجوہ کی بنا پر اولاد کو یہ تاکید کی گئی کہ ان سے بات کرو تو ادب کے ساتھ اور محبت و الفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بات کرو۔ جس سے انھیں کسی قسم کی ذہنی یا روحانی اذیت نہ پہنچے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ : پچھلی آیت میں شرک سے منع فرمانے کے بعد صرف اپنی عبادت کی تاکید کے لیے لفظ ” قَضٰى“ استعمال فرمایا، جس میں انتہائی تاکید پائی جاتی ہے، کیونکہ فیصلہ قطعی ہوتا ہے اور وہ بدلا نہیں جاتا، چناچہ فرمایا ” قَضٰى“ یعنی قطعی حکم اور فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سو اکسی کی عبادت نہ کرو، یعنی صرف اس کے بندے بن کر رہو، غیبی قوتوں کا مالک صرف اس کو سمجھ کر اس سے مانگو۔ انتہائی درجے کی محبت اور خوف کے ساتھ انتہائی عاجزی صرف اس کے لیے اختیار کرو۔ تمہارے دل، زبان اور جسم کے ہر حصے کا اس طرح کا ہر فعل مثلاً قیام، سجدہ، رکوع اور قربانی بلکہ پوری زندگی ایسی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا : ” اِحْسَانًا “ امر ” أَحْسِنُوْا “ کا مصدر ہے، جو تاکید کے لیے ہے اور امر کی جگہ آتا ہے۔ اس کے ساتھ امر کا لفظ ذکر نہیں ہوتا مگر مراد امر تاکیدی ہوتا ہے، یعنی والدین کے ساتھ بہت نیکی کرو۔ ” اِمَّا “ اصل میں ” إِنْ مَا “ ہے، ” مَا “ شرط کی تاکید کے لیے ہے، یعنی ” اگر کبھی۔ “ ان آیات کے نزول کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد اور والدہ دونوں فوت ہوچکے تھے، ان دونوں یا ایک کا بڑھاپے میں پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دینے کے باوجود اصل حکم ہر شخص کو ہے۔ ماں باپ خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، ہر حال میں ان کا ادب کرنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا فرض اور انھیں جھڑکنا گناہ ہے، مگر چونکہ بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے، بلکہ بسا اوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے، اس لیے خاص طور پر بڑھاپے کا ذکر فرمایا۔ 3 اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر صرف اپنی عبادت کی تاکید کے ساتھ والدین سے احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (٣٦) اور سورة بقرہ (٨٣) دوسرے مقامات پر واضح فرمایا کہ ان سے حسن سلوک لازم ہے، خواہ وہ کافر و مشرک ہوں، بلکہ اگرچہ شرک و کفر کی دعوت بھی دیتے ہوں۔ دیکھیے سورة لقمان (١٥) اور سورة عنکبوت (٨) احادیث میں بھی والدین سے حسن سلوک کی بہت تاکید آئی ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَغِمَ أَنْفُ ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ، قِیْلَ مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَہ الْکِبَرِ ، أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب رغم من أدرک أبویہ۔۔ : ١٠؍٢٥٥١ ] ” اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو۔ “ پوچھا گیا : ” یا رسول اللہ ! کس کی ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان میں سے ایک کو یا دونوں کو، پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔ “ ” عِنْدَک “ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تم والدین کے پاس تھے اور ان کے محتاج تھے، اب وہ بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے تمہارے پاس اور تمہارے محتاج ہیں۔ چناچہ انھیں ” اف “ بھی نہ کہو، جو اکتاہٹ اور بےادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے، پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ قَوْلًا كَرِيْمًا : بعض اہل علم نے اس کی تفسیر میں قول کریم کی نقشہ کشی یوں فرمائی کہ ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے اور بعض نے فرمایا کہ بچپن میں جس طرح تمہارے پیشاب پاخانہ کو صاف کرتے وقت وہ کوئی کراہت محسوس نہ کرتے تھے، بلکہ محبت ہی سے پیش آتے تھے، اب تم بھی ان سے وہی سلوک کرو۔ (بغوی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It is very important to respect and obey parents Imam al-Qurtubi says that, in this verse (23), Allah Ta` ala has made it necessary (wajib) to respect and treat parents well by combining it with the command to worship Him. This is similar to what has been said in Surah Luqman where the inevitable need to thank Him has been combined with the need to thank one&s parents: أَنِ اشْكُرْ‌ لِي وَلِوَالِدَيْكَ (Be grateful to Me, and to your parents - 31:14). This proves that, after the obligation of worshipping the most exalted Allah, obeying parents is most impor¬tant and being grateful to parents like being grateful to Allah Ta’ ala is wajib (necessary). This has its confirmation in the Hadith of Sahih al-Bukhari where a person reportedly asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) |"Which is the most favoured deed in the sight of Allah?|" He said, |"Salah at its (mustahabb: preferred) time.|" The person asked again, |"Which is the most favoured deed after that?|" To that he said, |"Treating parents well.|" (Qurtubi) The merits of obeying and serving parents in Ilad! th narratives 1. In the Musnad of Ahmad, Tirmidhi, Ibn Majah and Mustadrak Hakim, it has been reported on sound authority from Sayyidna Abu ` d-Darda& that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"A father is the main gate of Jannah. Now it is up to you to preserve or waste it.|" (Mazhari) 2. According to a report from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) ap¬pearing in Jmi& al-Tirmidhi and al-Mustadrak of al-Hakim (which Hakim rates as Sahih), the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"The pleasure of Allah is in the pleasure of a father and the displeasure of Allah in the displeas¬ure of a father.|" 3. Ibn Majah reports on the authority of Sayyidna Abu Umamah that a person asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : |"What rights do parents have on their children?|" He said, |"They both are your Paradise, or Hell.|" It means that obeying and serving parents take one to Jannah and their disobedience and displeasure, to Jahannam. 4. Al-Baihaqi (in Shu&ab al-&Iman) and Ibn ` Asakir have reported on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"For one who remained obedient to his parents for the sake of Allah two gates of Paradise shall remain open. And for one who disobeyed them two gates of Hell shall remain open, and if he had just one of the two, ei¬ther father or mother, then, one gate (of Paradise or Hell shall remain open).|" Thereupon, someone asked, |"Does it (the warning of Hell) hold good even when the parents have been unjust to this person?|" Then he said thrice: وَ اِن ظَلَمَا وَ اِن ظَلَمَا وَ اِن ظَلَمَا which means, &yes, there is that warning of Hell against disobeying and hurting parents even if they were unjust to the son.& (The outcome is that children have no right to settle scores with parents. If they have been unjust, it does not follow that they too back out from obeying and serving them). 5. Al-Baihaqi has reported on the authority of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"An obedient son who looks at his parents with mercy and affection receives the reward of one ac¬cepted Hajj against every such look cast.|" People around said, |"What if he were to look at them like that a hundred times during the day?|" He said, |"Yes, a hundred times too (he will keep receiving that reward). Allah is great (His treasures never run short).|" The punishment for depriving parents of their rights comes - much before Akhirah - right here in this world too 6. In Shu&ab al-&Iman, al-Baihaqi has reported on the authority of Sayyidna Abu Bakrah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"As for all those other sins, Allah Ta` ala defers whichever He wills up to the Last Day of Qiyamah - except the sin of depriving parents of their rights and disobeying them. The punishment for that is given, much before comes the Hereafter, right here in this world as well. (All Hadith reports given here have been taken from Tafsir Mazhari) Obedience to parents: When necessary and when there is room for opposition Muslim scholars and jurists unanimously hold that the obedience to parents is wajib (necessary) only in what is permissible - and definitely not in what is impermissible or sinful. Says the Hadith: لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق There is no obedience to the created in the disobedience of the Creator. To deserve service and good treatment it is not necessary that the parents be Muslims To support this ruling, Imam al-Qurtubi has quoted an event related with Sayyidah Asma& (رض) from the Sahih of al-Bukhari. According to this report, Sayyidah Asma& asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، |"My mother, a Mushrik, comes to see me. Is it permissible for me to entertain her?|" He said,|" صِلَی اُمَّکِ |" (sili ummaki: that is, respect the bond of relationship with your mother and entertain her). And as for disbelieving parents, there is that statement of the Qur&an itself (Luqman, 31:15): صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُ‌وفًا (that is, if the parents of a person are kafirs and order him too to be-come like them, then, it is not permissible to obey them in this matter. But, while living in this world, they should be treated in the recognized manner). It is obvious that &recognized manner& means that they should be treated with courtesy. Rulings 1. As long as Jihad does not become an absolute individual obligation (Fard al-` Ain), rather remains within the degree of a collective obligation (Fard al-Kifayah), until then, it is not permissible for any son to partici¬pate in Jihad without the consent of parents. It has been reported in Sahih al-Bukhari on the authority of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) that a person presented himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in order to have his permission to participate in Jihad. He asked him, |"Are your par¬ents alive?|" He submitted, |"Yes, they are.|" He said, |" فَفِیھِمَا فَجَاھد |" (fafihima fajahid: Then you carry out Jihad in [ the service of ] them both). The sense is that &by serving them alone you will get the reward of being in Jihad.& Another report also adds that the person said, |"I have come here leaving my parents crying behind.|" Thereupon, he said, |"Go. Make them laugh as you made them cry.|" In other words, he was to go back home and tell his parents that he would not be going for Jihad without their consent. (Qurtubi) 2. From the event reported above, we learn the ruling that anything that rates as a collective obligation - and is not an individual obligation, or necessity - then, sons and daughters cannot do that without the permission of parents. Also included here is the injunction to acquire the most perfect knowledge of religion (the &ilm of din) at the highest level, and to travel to communicate and promote it (the tabligh of din). It means that anyone who has the knowledge of religion to the measure one is obligated with individually cannot travel in order to become an ` alim of din (scholar of religion), or travel for the da&wah and tabligh of din, for it is not permissible without the permission of parents. 3. Also included under the injunction of treating parents well appear¬ing in the Qur&an, and Hadith is good treatment with relatives and friends close to parents, specially when they are dead. In the Sahih of al-Bukhari, it has been reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, The noblest regard one can show to a father after his death is to treat his friends well.|" And Sayyidna Abu Usayd al-Badri رضی اللہ تعالیٰ عنہ reports that he was sitting with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) when an Ansari came and asked, |"Ya Rasulallah, is it that some right of my parents remains due against me even after they have died?|" He said, |"Yes. Praying and seeking forgiveness for them, fulfilling the promises they had made to someone, being kind and respectful to their friends and showing mercy and generosity to such relatives who are linked in kinship only through them (Silatu &r-rahim). These are the rights of your parents still due against you, even after them.|" It was the blessed habit of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he used to send gifts to lady friends of Ummal-Mu&minin Sayyidah Khadijah (رض) after her demise which was a way of fulfilling the right of Sayyidah Kha¬dijah (رض) on him. Treating parents well: Special consideration in their old age As for serving and obeying parents, as parents, it is not restricted to any given time or age. In fact, it is necessary (wajib) to treat parents well, under all conditions, and in every age. But, there are circumstances that usually impede the fulfillment of what is necessary and obligatory. Under these circumstances, the typical response pattern of the Holy Qur&an comes into action to suggest ways and means through which act¬ing according to given injunctions becomes easy. With this objective in sight, it grooms and trains minds through different angles and, at the same time, it continues to emphasize that compliance of these injunc¬tions is imperative despite such circumstances. The old age of parents, when they become helpless, depend on chil¬dren for everything they need and their life is at the mercy of children, is a terrible condition to be in. The slightest indifference shown by children at such a time breaks their heart. Then, there are those physical infir¬mities and diseases associated with old age which make one naturally ir¬ritation-prone. Furthermore, during the period of extreme old age, when usual reason and comprehension do not seem to be working, some of their wishes and demands assume the kind of proportions which chil¬dren find difficult to take care of. The Holy Qur&an takes cognizance of these circumstances, but, while giving children the instruction to comfort them, it reminds them of their own childhood. It tells them that there was a time when they too were far more helpless, far too depending on their parents than their parents were on them at that point of time. Then, was it not that their parents sacrificed their desires and comforts for them and went on bearing by the unreasonable child talk with love and affection. Now when they have become so helpless, reason and nobil¬ity demanded that the past favour done by them should be paid back. When it was said: كَمَا رَ‌بَّيَانِي صَغِيرً‌ا (as they have brought me up in my child-hood) in the verse, this is what has been alluded to. Some other impor¬tant instructions relating to the old age of parents have also been given in the verses under study. They are as follows: 1. Do not say even &uff to them. Briefly explained parenthetically in the accompanying translation as &a word of anger or contempt,& &uff cov¬ers every word or expression that shows one&s displeasure. The limit is that breathing a long breath after having heard what they said and thereby betraying displeasure against them is also included under this very word &uff.& In a Hadith narrated by Sayyidna ` Ali (رض) ، it has been reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Had there been some other de-gree of hurting lesser than the saying of &uff,& that too would have cer¬tainly been mentioned.|" (The sense is that even the thing that hurts parents in the lowest of the low degree is forbidden). 2. Do not scold them: وَلَا تَنْهَرْ‌هُمَا . This is the second instruction. The word: نھر (nahr) in the text: means &scold& or &reproach.& That it causes pain in already obvious. 3. Address them with respectable words - (وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِ‌يمًا). This is the third instruction. The first two instructions related to the negative as¬pects where bringing the least emotional pressure on parents has been prohibited. Given in this third instruction is a lesson in the art of conver¬sation with parents - talk to them softly with love, grace and concern for them. Says the revered Tabi` i, Said ibn Mussaiyyab, & like a slave talk¬ing to his strict master!&

معارف و مسائل : والدین کے ادب و احترام اور اطاعت کی بڑی اہمیت : امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورة لقمان میں اپنے لشکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ (یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے جس میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ نماز اپنے وقت (مستحب) میں اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک (قرطبی) والدین کی اطاعت و خدمت کے فضائل روایات حدیث میں : (١) مسند احمد ترمذی ابن ماجہ مستدرک حاکم میں بسند صحیح حضرت ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اب تمہیں اختیار ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا ضائع کردو (مظہری) (٢) اور جامع ترمذی ومستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) کی روایت ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی رضاء باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں۔ (٣) ابن ماجہ نے بروایت حضرت ابو امامہ (رض) نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں ہی تیری جنت یا دوزخ ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لی جاتی ہے اور ان کی بےادبی اور ناراضی دوزخ میں۔ (٤) بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لئے اپنے ماں باپ کا فرمانبردار رہا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گے اور جو ان کا نافرمان ہو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گے اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہی تھا تو ایک دروازہ (جنت یا دوزخ کا کھلا رہے گا) اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ (یہ جہنم کی وعید) کیا اس صورت میں بھی ہے کہ ماں باپ نے اس شخص پر ظلم کیا ہو تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا وان ظلما وان ظلما وان ظلما (یعنی ماں باپ کی نافرمانی اور ان کو ایذا رسانی پر جہنم کی وعید ہے خواہ ماں باپ نے ہی لڑکے پر ظلم کیا ہو جس کا حاصل یہ ہے کہ اولاد کو ماں باپ سے انتقام لینے کا حق نہیں کہ انہوں نے ظلم کیا تو یہ بھی ان کی خدمت و اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیں) (٥) بیقہی نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو خدمت گذار بیٹا اپنے والدین پر رحمت و شفقت سے نظر ڈالتا ہے تو ہر نظر کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب پاتا ہے لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر کرلے آپ نے فرمایا کہ ہاں سو مرتبہ بھی (ہر نظر پر یہی ثواب ملتا رہے گا) اللہ تعالیٰ بڑا ہے (اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی ) ۔ والدین کی حق تلفی کی سزاء آخرت سے پہلے دنیا میں بھی ملتی ہے : (٦) بہیقی نے شعب الایمان میں بروایت ابی بکرہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ سب گناہوں کی سزاء تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں قیامت تک مؤ خر کردیتے ہیں بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے کہ اس کی سزاء آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے (یہ سب روایات تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں) والدین کی اطاعت کن چیزوں میں واجب ہے اور کہاں مخالفت کی گنجائش ہے : اس پر علماء وفقہاء کا اتفاق ہے کہ والدین کی اطاعت صرف جائز کاموں میں واجب ہے ناجائز یا گناہ کے کام میں اطاعت واجب تو کیا جائز بھی نہیں حدیث میں ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق (یعنی خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں) والدین کی خدمت اور اچھے سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا ضروری نہیں : امام قرطبی نے اس مسئلہ کی شہادت میں حضرت اسماء (رض) کا یہ واقعہ صحیح بخاری سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماء (رض) نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفتار کیا کہ میری والدہ جو مشرک ہے مجھ سے ملنے کے لئے آتی ہے کیا میرے لئے جائز ہے کہ میں اس کی خاطر مدارت کروں آپ نے فرمایا صلی امک (یعنی اپنی ماں کی صلہ رحمی اور خاطر مدارات کرو) اور کافر ماں باپ کے بارے میں خود قرآن کریم کا یہ ارشاد موجود ہے۔ (آیت) وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا یعنی ماں باپ کافر ہوں اور اس کو بھی کافر ہونے کا حکم دیں تو ان کا اس معاملے میں حکم ماننا تو جائز نہیں مگر دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقہ کا برتاؤ کیا جائے ظاہر ہے کہ معروف طریقہ سے یہی مراد ہے کہ ان کے ساتھ مدارات کا معاملہ کریں۔ مسئلہ : جب تک جہاد فرض عین نہ ہوجائے فرض کفایہ کے درجے میں رہے اس وقت تک کسی لڑکے کے لئے بغیر ان کی اجازت کے جہاد میں شریک ہوجانا جائز نہیں صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شریک جہاد ہونے اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا ففیھما فجاہد یعنی بس تو اب ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو مطلب یہ ہے کہ ان کی خدمت ہی میں تمہیں جہاد کا ثواب مل جائے گا دوسری روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ اس شخص نے یہ بیان کیا کہ میں اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں اس پر آپ نے فرمایا کہ جاؤ ان کو ہنساؤ جیسا کہ ان کو رلایا ہے یعنی ان سے جا کر کہہ دو کہ میں آپ کی مرضی کے خلاف جہاد میں نہیں جاؤں گا (قرطبی) مسئلہ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی چیز فرض عین یا واجب علی العین نہ ہو کفایہ کے درجہ میں ہو تو اولاد کے لئے وہ کام بغیر ماں باپ کی اجازت کے جائز نہیں اس میں مکمل علم دین حاصل کرنا اور تبلیغ دین کے لئے سفر کرنے کا حکم بھی شامل ہے کہ بقدر فرض علم دین جس کو حاصل ہو وہ عالم بننے کے لئے سفر کرے یا لوگوں کو تبلیغ و دعوت کے لئے سفر کرے تو بغیر اجازت والدین کے جائز نہیں۔ مسئلہ : والدین کے ساتھ جو حسن سلوک کا حکم قرآن و حدیث میں آیا ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں سے والدین کی قرابت یا دوستی تھی ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کرے خصوصا ان کی وفات کے بعد صحیح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باپ کے ساتھ بڑا سلوک یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور حضرت ابو اسید بدری (رض) نے نقل کیا ہے کہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھا تھا ایک انصاری شخص آیا اور سوال کیا یارسول اللہ ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کا کوئی حق میرے ذمہ باقی ہے آپ نے فرمایا ہاں ان کے لئے دعاء اور استغفار کرنا اور جو عہد انہوں نے کسی سے کیا تھا اس کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا اور ان کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرنا جن کا رشتہ قرابت صرف انھیں کے واسطے سے ہے والدین کے یہ حقوق ہیں جو ان کے بعد بھی تمہارے ذمہ باقی ہیں۔ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی کہ حضرت خدیجہ ام المؤ منین کی وفات کے بعد ان کی سہیلیوں کے پاس ہدیہ بھیجا کرتے تھے جس سے حضرت خدیجہ کا حق ادا کرنا مقصود تھا۔ والدین کے ادب کی رعایت خصوصا بڑھاپے میں : والدین کی خدمت و اطاعت والدین ہونے کی حیثیت سے کسی زمانے اور کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں ہر حال اور ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک واجب ہے لیکن واجبات و فرائض کی ادائیگی میں جو حالات عادۃ رکاوٹ بنا کرتے ہیں ان حالات میں قرآن حکیم کا عام اسلوب یہ ہے کہ احکام پر عمل کو آسان کرنے کے لئے مختلف پہلوؤں سے ذہنوں کی تربیت بھی کرتا اور ایسے حالات میں تعمیل احکام کی پابندی کی مزید تاکید بھی۔ والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جبکہ وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوجائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر رہ جائے اس وقت اگر اولاد کی طرف سے ذرا سی بےرخی بھی محسوس ہو تو وہ ان کے دل کا زخم بن جاتی دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی طور پر انسان کو چڑچڑا بنا دیتے ہیں تیسرے بڑھاپے کے آخری دور میں جب عقل وفہم بھی جواب دینے لگتے ہیں تو ان کی خواہشات ومطالبات کچھ ایسے بھی ہوجاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لئے مشکل ہوتا ہے قرآن حکیم نے ان حالات میں والدین کی دل جوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بےعقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ اداء کرو آیت میں (آیت) كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا سے اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور آیات مذکورہ میں والدین کے بڑھاپے کی حالت کو پہنچنے کے وقت چند تاکیدی احکام دیئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ ان کو اف بھی نہ کہے لفظ اف سے مراد ہر ایسا کلمہ ہے جس سے اپنی ناگواری کا اظہار ہو یہاں تک کہ ان کی بات سن اس طرح لمبا سانس لینا جس سے ان پر ناگواری کا اظہار ہو وہ بھی اسی کلمہ اف میں داخل ہے ایک حدیث میں بروایت حضرت علی (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ایذا رسانی میں اف کہنے سے بھی کم کوئی درجہ ہوتا تو یقینا وہ بھی ذکر کیا جاتا (حاصل یہ ہے کہ جس چیز سے ماں باپ کو کم سے کم بھی اذیت پہنچے وہ بھی ممنوع ہے) دوسراحکم ہے وَلَا تَنْهَرْهُمَا لفظ لفظ لہم کے معنی جھڑکنے ڈانٹنے کے ہیں اس کا سبب ایذاء ہونا ظاہر ہے تیسرا حکم (آیت) وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ہے پہلے دو حکم منفی پہلو سے متعلق تھے جن میں والدین کی ادنی سے ادنی بار خاطر کو روکا گیا ہے اس تیسرے حکم میں مثبت انداز سے والدین کے ساتھ گفتگو کا ادب سکھلایا گیا ہے کہ ان سے محبت و شفقت کے نرم لہجہ میں بات کی جائے حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا جس طرح کوئی غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا 23؀ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ كبر ( بوڑها) فلان كَبِيرٌ ، أي : مسنّ. نحو قوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء/ 23] ، وقال : وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة/ 266] ، وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران/ 40] ( ک ب ر ) کبیر اور قرآن میں ہے : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک تمہارے سامنے پڑھاپے کو پہنچ جائیں ۔ وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة/ 266] اور اسے بڑھا آپکڑے ۔ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران/ 40] کہ میں تو بڈھا ہوگیا ہوں ۔ اور أفّ أصل الأُفِّ : كل مستقذر من وسخ وقلامة ظفر وما يجري مجراها، ويقال ذلک لکل مستخف به استقذارا له، نحو : أُفٍّ لَكُمْ وَلِما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ الأنبیاء/ 67] ، وقد أَفَّفْت لکذا : إذا قلت ذلک استقذارا له، ومنه قيل للضجر من استقذار شيء : أفّف فلان ( ا ف ف ) الاف ۔ اصل میں ہر گندی اور قابل نفرت چیز کو کہتے ہیں میل کچیل اور ناخن کا تراشہ وغیرہ اور محاورہ میں کسی بری چیز سے اظہار نفرت کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ؛ { أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ } [ الأنبیاء : 67] تف ہے تم پر اور جنہیں تم خدا کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی ۔ کسی چیز سے کراہت ظاہر کرنا اف کہنا ۔ اسی سے افف فلان کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی کسی مکروہ چیز سے دل برداشتگی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ نَّهْرُ ) جھڑکنا) والانتهارُ : الزّجر بمغالظة، يقال : نَهَرَهُ وانتهره، قال : فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما [ الإسراء/ 23] ، وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی/ 10] . النھروالانتھار ۔ سختی سے جھڑکنا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما[ الإسراء/ 23] تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا ۔ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ [ الضحی/ 10] اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معیم یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا بیان قول باری ہے (وقصی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احساناً تمہارے رب نے فیصلہ دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو۔ مگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو) قول باری (اقضی ربک) کے معنی ہیں ” امر ربک تمہارے رب نے حکم دیا ہے ) اسی طرح تمہارے رب نے والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم دیا ہے۔ “ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔ ” و اوصی بالوالدین احساناً (اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دونوں ہم معنی ہیں اس لئے کہ وصیت کے معنی بھی امر اور حکم کے ہیں۔ اللہ نے اپنی کتاب میں والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کی متعدد مقامات پر وصیت فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ احساناً اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے) نیز فرمایا : (ان اشکرلی ولوالذیک الی المصیر، وان جاھدک علی ان تشرک بی ما لیس بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفاً کہ تم میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کرو میری ہی طرف واپسی ہے اور اگر یہ دونوں تم پر دبائو ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائو جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں تو تم ان کا کہا نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے گزارہ کرو) اللہ تعالیٰ مشرک والدین کے ساتھ خوبی سے گزارہ کرنے کا حکم اور ساتھ ہی ساتھ شرک کے معاملہ میں ان کی فرمانبرداری سے منع بھی فرما دیا اس لئے کہ کسی مخلوق کی ایسی طاعت ممنوع ہے جس سے خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ (ان من الکبائر عقوق الوالدین والدین کی نافرمانی کبائر یعنی بڑے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ ) والدین کو اف تک نہ کہو قول باری ہے (اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما اف ۔ ) اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ ” اگر تم بڑے ہو جائو یعنی بالغ ہو کر احکام الٰہی کے مکلف بن جائو اور اس وقت تمہارے والدین میں سے دونوں یا ایک زندہ ہوں اور تمہارے پاس رہتے ہوں تو انہیں اف تک نہ کہو “ لیث بن سعد نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ جب والدین بڑھاپے کی اس لاچاری کی حالت کو پہنچ جائیں جو حالت کم سنی میں تم کو لاحق تھی اور وہ تمہاری دیکھ بھال کرتے تھے تو انہیں اف تک نہ کہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کا لفظ دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے اس لئے اسے ان دونوں معنوں پر محمو لکیا جائے گا ۔ اس لئے کہ بیٹے کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دینے کی شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو کیونکہ نابالغ کو مکلف بنانا اور اسے کسی حکم کا پابند کرنا سرے سے درست ہی نہیں ہے۔ جب لڑکا بلوغت کی حد میں داخل ہوجائے اور دوسری طرف اس کے والدین بڑھاپے اور ضعف کی سرحد پار کر جائیں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں ان کے ساتھ حسن سلوک اس پر واجب ہے۔ اسے اف کا کلمہ کہنے سے روکا گیا ہے اس لئے کہ یہ کلمہ بیزاری اور اکتاہٹ کی حالت پر دلالت کرتا جو آیت میں مخاطب شخص یعنی بیٹے کے دل میں اپنے والدین کے سلسلے میں پیدا ہوجاتی ہے۔ والدین سے توہین آمیز رویہ منع ہے ۔ قول باری ہے (ولا تتھوھما نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ) اس کے معنی ہیں۔” ان پر سختی کرتے ہوئے نیز ا ن کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کر کے انہیں ڈانٹ نہ پلائو۔ “ والدین سے احترام کے ساتھ بات کرو قول باری ہے (وقل لھما قولاً کریماً بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو) قتادہ کا قول ہے کہ ” ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) تیرے معبود برحق نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ اسی معبود برحق کی توحید کے قائل ہوجاؤ اور تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اگر وہ تیرے پاس ہوں اور ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو اس وقت بھی ان کے ساتھ قطعا کوئی نازیبا اور ادب کے خلاف گفتگو مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے ادب کے خلاف گفتگو مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوب نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا) اللہ کے حقوق کے فوراً بعد والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید اس سے پہلے ہم سورة البقرۃ کی آیت ٨٣ اور سورة النساء کی آیت ٣٦ میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ اس کے بعد سورة لقمان کی آیت ١٤ میں یہی حکم چوتھی مرتبہ آئے گا۔ (فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا) اگر کبھی والدین کی بات کو ٹالنا بھی پڑجائے تو حکمت اور نرمی کے ساتھ ایسا کیا جائے۔ عقل اور منطق کے بل پر سینہ تان کر یوں جواب نہ دیا جائے کہ ان کا دل دکھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. In the succeeding verses, those main basic principles have been put forward on which Islam desires to build the entire structure of human life. These form the manifesto of the invitation of the Prophet (peace be upon him) declared by him at the end of the Makki stage of his mission, and the eve of the new stage at Al-Madinah so that it should be known to all that the new Islamic society and state were going to be built on such and such ideological, moral, cultural economic and legal principles. (Please also refer to (Ayats 151-153 and E.Ns thereof of Surah Al-Anaam). 26. This commandment is very comprehensive. It prohibits not only the worship of anyone except Allah but also implies that one should obey and serve and submit to Allah alone without question. One should accept His commandments and law alone to be worthy of obedience and His authority to be supreme above all. This was not merely an instruction confined to a religious creed and individual practice but it served as the foundation of the moral, cultural, and political system which was practically established in Al-Madinah by the Prophet (peace be upon him). Its first and foremost principle was that Allah alone is the Master, Sovereign and Law-giver.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :25 یہاں وہ بڑے بڑے بنیادی اصول پیش کیے جا رہے ہیں جن پر اسلام پوری انسانی زندگی کے نظام کی عمارت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ یہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا منشور ہے جسے مکی دور کے خاتمے اور آنے والے مدنی دور کے نقطہ آغاز پر پیش کیا گیا ، تاکہ دنیا بھر کو معلوم ہو جائے کہ اس نئے اسلامی معاشرے اور ریاست کی بنیاد کن فکری ، اخلاقی ، تمدنی ، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی ۔ اس موقع پر سورہ انعام کے رکوع ١۹ اور اس کے حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہوگا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :26 اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو ، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون و چرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو ، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلی تسلیم نہ کرو ۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ ، اور صرف انفرادی طرز عمل کے لیے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اس پورے نظام اخلاق و تمدن و سیاست کا سنگ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملا قائم کیا ۔ اس کی عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے ، اور اسی کی شریعت ملک کا قانون ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٣۔ ٢٧:۔ سب سے بڑھ کر تو آدمی پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پیدا کیا ہے پھر جب ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی ہر طرح کی پرورش اور تربیت دنیا میں ماں باپ کے سبب سے ہوتی ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے حق کے ساتھ ماں باپ کے حق کے ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور ماں باپ کا دنیوی حق یہ ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ ان بڑھاپے میں حسن سلوک سے پیش آوے اور دینی حق یہ فرمایا ان کے لیے دعا خیر کرتا رہے اگر ماں باپ کفر کی حالت میں مرجاویں اور اولاد مسلمان ہو تو ایسے ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت بموجب آیت (ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی) منع ہے حدیث شریف میں بھی ماں باپ کی تابعداری کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت سے پوچھا کہ دنیا میں کس کا حق مجھ پر زیادہ ہے آپ نے فرمایا کہ پہلے تیری ماں پھر تیرے باپ کا ١ ؎۔ صحیح مسلم اور الادب المفرد بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز فرمایا بڑا بدنصیب ہے بڑا بدنصیب ہے صحابہ (رض) نے پوچھا حضرت کون بڑا بد نصیب ہے ‘ آپ نے فرمایا وہ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان دونوں میں سب ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت گزاری کے سبب سے جنت میں نہ گیا ٢ ؎۔ صحیحین میں عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت سے لڑائی پر چلنے کی اجازت چاہی آپ نے پوچھا کہ تیرے ماں باپ زندہ ہیں اس نے جواب دیا کہ جی ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا تیرا بڑا جہاد ان کی خدمت گزاری میں ہے ٣ ؎۔ الادب المفرد بخاری اور معتبر سند سے مستدرک حاکم اور بیہقی میں عبداللہ (رض) بن عمر کی حدیث میں ہے کہ اللہ کی رضا مندی ماں باپ کی رضا مندی کے ساتھ ہے ٤ ؎۔ اب ماں باپ کے حق کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت میں اور رشتہ داروں کا حق اور محتاج اور مسافروں کا حق ذکر فرمایا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے بعد بہن کا حق ہے پھر بھائی کا پھر درجہ بدرجہ اور رشتہ داروں کا حق ہے۔ صحیحین میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ منظور ہو کہ اس کے رزق میں کشائش ہو اور اس کی عمر بڑھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آوے ٥ ؎۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا جس خدا تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو قرابت داری نے خدا تعالیٰ سے فرمایا کہ دنیا میں اگر لوگ میرا واسطہ قطع کریں گے تو کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھ کو قطع کرے گا میں اس کو قطع کروں گا ٦ ؎۔ اب قرابت داروں محتاج مسافروں کی خبر گیری میں مال خرچ کرنے کی ہدایت فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ہر خرچ میں میانہ روی چاہیے اسراف اور فضول خرچی نہیں چاہیے کہ مال کی ناقدری اور فضول خرچی ناشکری کا موجب ہے اور ناشکری شیطان کا کام ہے کہ اس نے خدا کی اس نعمت کا کہ خدا نے اس کو فرشتہ بنا کر رکھا تھا شکر نہیں کیا اور نافرمانی کر کے اپنے آپ کو مردود ٹھہرا لیا۔ اگرچہ وقضی ربک کی تفسیر میں چند قول ہیں لیکن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول میں قضی ربک کی تفسیر امر ربک آئی ہے ترجمہ میں یہی قول لیا گیا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ایک جگہ گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی ظاہری حالت کو نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کے دلی ارادہ پر ہے ٧ ؎۔ اس حدیث کو آیت ربکم اعلم بما فی نفوسکم کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اولاد کے دل میں تو ماں باپ کا ادب ہوگا لیکن بغیر دلی ارادہ کے ماں باپ کی شان کے برخلاف کوئی بات اولاد کی زبان سے نکل جاویگی اور پھر اس کا پچھتاوا ہوگا تو اللہ ایسی بھول کو بخش دیویگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر ہمیشہ انسان کے دلی ارادہ پر ہے اوابین کے معنیٰ اکثر سلف نے توابین کے لکھے ہیں۔ عرب کے محاورہ میں ایک طرح کی عادت کے دو شخصوں کو بھائی کہتے ہیں اس کے موافق بےجا مال اڑانے والوں کو ناشکری کی عادت میں شیطان کا بھائی فرمایا ہے۔ ١ ؎ کتاب البروالصلۃ۔ ٢ ؎ و صحیح مسلم ص ٣١٤ ج ٢ باب تقدیم برالوالدین ١٢۔ ٣ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٣ کتاب البروالصلہ۔ ٤ ؎ الترغیب ص ١٢٦ ج ٢ کتاب البر والصلۃ ١٢۔ ٥ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٥ ج ٢ باب صلۃ الرحم۔ ٦ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٥ ج ٢ باب صلۃ الرحم۔ ٧ ؎ دیکھئے ص ٢٨ جلد ہذا ١٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:23) قضی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ قضاء وقضاء مصدر۔ قضا قولی ہو یا عملی۔ بشری ہو یا الٰہی۔ بہرحال اس میں فیصلہ کردینا یا فیصلہ کرلینا۔ کسی بات کے متعلق ارادہ کرلینا۔ حکم دینا۔ یا عمل کو ختم کردینا۔ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ صلہ یا سیاق کی مناسبت سے اس کے مختلف معانی ہیں۔ حکم دینا۔ پورا کرنا۔ عزم کرنا۔ فیصلہ کرنا۔ مقدر کرنا۔ مقرر کرنا۔ قضی حاجتہ ضرورت پوری کرنا اور اس سے فارغ ہونا قضی وطرہ اپنی حاجت پوری کرلی۔ اپنی مراد پالی۔ قضی زید منھا وطرا۔ (33:37) زید کا دل اس عورت سے بھر گیا۔ یعنی بےتعلق ہوگیا۔ اس نے طلاق دے دی) قضی نجہ مرجانا۔ کنایۃً موت مراد ہے اصل استعمال منت پوری کرنا کے لئے ہے۔ وبالوالدین احسانا۔ ای احسنوا بالوالدین احسانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اما۔ ان ما ہے ان شرطیہ ہے ما زائدہ ہے تاکید کے لئے آیا ہے۔ اگر۔ یبلغن۔ بلغ یبلغ (نصر) سے مضارع بانون ثقیلہ واحد مذکر غائب وہ پہنچ جائے الکبراسم مصدر منصوب۔ پیرانہ سالی۔ بڑھاپا کلا۔ تاکید۔ تثنیہ مذکر کے لئے آتا ہے یعنی دونوں (مذکر) یہ لفظ لفظاً مفرد ہے اور معنی کے اعتبار سے تثنیہ۔ اس لئے مفرد بھی مستعمل ہے اور تثنیہ بھی۔ بغیر مضاف الیہ کے مستعمل نہیں۔ اگر مضاف الیہ اسم ظاہر ہو تو رفع، نصب، جر۔ ہر حالت میں اس کا الف باقی رہتا ہے۔ جیسے جاء کلا الرجلان ورأیت کلا الرجلین ومررت بکلا الرجلین۔ مگر جب مضاف الیہ ضمیر ہو تو حالت رفع میں کلاہما اور حالت نصب وجر میں کلیھما (یاء کے ساتھ ) آئے گا۔ جیسے رأیت الرجلین کلیھما۔ کلتا۔ دونوں (مؤنث) تاکید مؤنث کے لئے ہے۔ اس کا استعمال بھی کلا کی طرح ہے لیکن جب ان (کلا۔ کلتا) کی طرف ضمیر راجع ہو تو ان کا لفظ مفرد ہونے کی وجہ سے مفرد کا صیغہ لایا جاتا ہے جیسے زید وعمروکلاہما قائم یا کلتا الجنتین اتت اکلھا (18:33) دونوں باغ اپنا پورا پورا پھل لائے۔ لا تنھر۔ فعل نہی۔ واحد مذکر حاضر، تو مت ڈانٹ۔ تو مت جھڑک۔ نھرمصدر باب فتح۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 بظاہر خطاب تو آنحضرت کو ہے لیکن مراد آپ کی امت کو سمجھاتا ہے کہ شرک معاف نہیں ہوگا اور ہر مشرک اللہ کے ہاں ذلیل و خوار ہوگا۔16 یعنی قطعی حکم دیا اور فیصلہ کردیا ہے۔17 یا اس کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہو۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم پوجا کا بھی ہے اور بندگی کا بھی۔ 1 ماں باپ چاہے بوڑھے ہوں یا جوان، ہرحال میں ان کا ادب کرنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا فرض اور انہیں جھڑکنا گناہ ہے۔ مگر چونکہ بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے اس لئے خاص طور پر بڑھاپے کا ذکر فرمای اگیا۔2 جو اکتاہٹ اور بےادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے۔ پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہوسکتا ہے3 سعید بن مسیب فرماتے ہیں : ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار نوکر اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔ (معالم التنزیل)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرار و معارف حقوق اللہ میں سب سے مقدم توحید ہے کہ جس نے توحید باری کو ہی کھو دیا اور عقیدہ درست نہ رکھا وہ بھلا اور کیا اطاعت کرسکے گا اور حقوق العباد میں سب سے پہلا والدین کا ہے کہ تیرے پروردگار نے یہ طے فرما دیا کہ اس کی ذات کے علاوہ کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ، (ماں باپ کے حقوق) جس طرح کتاب اللہ میں والدین سے حسن سلوک کا حکم ہے اسی طرح حدیث شریف میں اس کے بےپناہ فضائل ارشاد ہوئے ہیں ، بلکہ یہاں تک ارشاد ہے کہ والدین تیری جنت یا دوزخ ہیں یعنی ان کی اطاعت میں جنت اور بےادبی میں دوزخ ہے اور یہ بھی ارشاد ہے کہ سب گناہوں کی سزا مؤخر ہو سکتی ہے مگر والدین کی حق تلفی کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی ملتی ہے ۔ (اللہ جل جلالہ کی نافرمانی میں والدین کی اطاعت نہ ہوگی) یہ بات متفق علیہ ہے کہ ” لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق “۔ کہ والدین کی اطاعت بھی صرف جائز امور میں ہوگی ، گناہ یا اللہ کی نافرمانی میں جائز نہ ہوگی ۔ (والدین سے حسن سلوک کے لیے ان کا مسلمان ہونا ضروری نہیں) والدین اگر غیر مسلم بھی ہوں تو بھی ان کی خدمت کرنا فرض ہے ، حتی کہ ان کی ہدایت کے لیے یا دنیا کی بہتری کے لیے دعا بھی کی جانی چاہئے اور اگر والدین اجازت نہ دیں تو جو کام فرض عین نہ ہو اس کا کرنا درست نہ ہوگا جیسے جہاد اگر فرض عین نہ فرض کفایہ ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر نہ جائے ۔ (علم دین اور تبلیغ) اگر بقدر فرض علم دین حاصل ہو تو عالم بننے کے لیے یا دین کی تبلیغ کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر سفر جائز نہ ہوگا یہی حال ان لوگوں کا ہے جو ازواج یا اولاد کی ذمہ داری ادھوری چھوڑ کر جو ان کا حق ہے تبلیغ کا بہانہ کرتے ہیں اور سفر کے لیے نکل جاتے ہیں ۔ (والدین کے دوستوں سے معاملہ) والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے احباب سے اچھا معاملہ بھی کرے جیسا کہ ان کی حیات میں کرنا ضروری ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنی محبوبہ بیوی حضرت خدیجہ (رض) کی وفات کے بعد بھی ان کی سہیلیوں کو ہدیہ بھیجا کرتے تھے ۔ (اولاد اور اس کا مال دونوں والدین ہی کے ہیں) والدین اولاد کا مال اس کی اجازت کے بغیر بھی لے سکتے ہیں کہ وہ انہی کا ہے ، جیسے ایک شخص کے والد کی شکایت پر کہ اس نے میرا مال لے لیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” انت ومالک لا بیک “ کہ تو اور تیرا مال بھی سب باپ ہی کا ہے ۔ تو فرمایا وہ دونوں یا ان میں سے ایک اگر بوڑھے ہوجائیں تو انہیں بوجھ نہ سمجھ اور نہ ہی ان کی خدمت میں کوتاہی کر ، نہ لہجہ سخت اختیار کر بلکہ اف تک مت کر اور انہیں سخت الفاظ مت کہہ بلکہ ہمیشہ لطف و محبت سے بات کیا کرو ، بلکہ ان کی خدمت کے لیے ہر آن خود کو تیار رکھو ، اور محبت و شفقت سے ان کی خدمت میں جھکے جھکے رہو ، اور ان کا حق بنتا ہے کہ ان کے لیے دعا بھی کیا کرو کہ اے پروردگار جس طرح انہوں نے مجھے میرے بچپن میں آرام پہنچایا تو انہیں بڑھاپے اور کمزوری میں اپنی رحمت سے نواز۔ اللہ کریم تمہارے دلوں کے بھید جانتا ہے ، اگر دانستہ یا غلطی سے کوئی گستاخی سرزد ہو بھی گئی ، مگر دلی طور پر ایسا کرنا نہ چاہتا ہو تو اللہ کریم خوب جانتے ہیں ، ارادہ نیک رکھو تو کوتاہی معاف کردیتا ہے ، جب انسان کو احساس ندامت ہو اور اس سے باز آجائے ۔ والدین کے بعد قرابت داروں کا حق ہے کہ ان سے حسن سلوک کیا جائے ، اگر محتاج ہوں تو مال سے مدد کی جائے یا محتاج ہوں تو خیال رکھا جائے ورنہ عزت واحترام ان پر احسان نہیں ان کا حق ہے ، ایسے ہی مساکین وغرباء کا خیال رکھو کہ ان سے شفقت ، ان کی دیکھ بھال اور ان کی مالی مدد یہ سب ان کا حق ہے جو ایک مسلمان کے ذمہ ہے اور مسافر غریب الوطن بھی تمہارے حسن سلوک کا مستحق ہے ، اللہ کریم نے ان کی خدمت بقدر استطاعت ان کا حق قرار دی ہے ان پر احسان نہیں جتایا جاسکتا اور اللہ جل جلالہ کے دیئے ہوئے مال کو بےموقع اور غیر ضروری امور میں خرچ مت کرو کہ فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں محض اپنی بڑائی منوانے کو اللہ جل جلالہ کا دیا ہوا مال ناجائز امور اور غلط مواقع پہ ضائع کرتے ہیں ، اور شیطان تو اپنے پروردگار کا نافرمان ہے ، ہاں اپنی جائز خواہشات کو اپنی حیثیت کے مطابق پورا کرنا فضول خرچی میں داخل نہ ہوگا ، لیکن اگر تمہارے پاس دینے کو کچھ نہ ہو کہ کسی مستحق کی مدد کرسکو ، تو ان سے بات بہت نرم لہجے میں اور محبت و شفقت سے کرو سختی سے یا ڈانٹ کر مت بولو ، کہ اسلامی اخلاق کو تو ضائع نہ ہونے دو ، اور مال خرچ کرنے میں حسن انتظام کا اہتمام کرو کسی بدنظمی کا شکار نہ ہونا چاہئے کہ یا تو اس قدر کنجوس بن جائے کہ گویا اس کے ہاتھ اپنی ہی گردن سے بندھے ہوں یعنی جائز امور میں بھی خرچ نہ کرے یا بالکل کھول دے اور ناروا امور میں بھی دولت ضائع کرتا رہے حتی کہ خود قلاش اور مفلس ہو کر ٹھوکریں کھانے لگے ، غرض ایک اعتدال ہونا ضروری ہے کہ مال میں تنگی یا فراخی ہوتی رہتی ہے تو خرچ کا انداز بھی اسی حیثیت کے مطابق اپنایا جائے کہ یہ پروردگار کا نظام ہے جو روزی کو بڑھا بھی دیتا ہے اور جس کے لیے وہ چاہے تنگ بھی کردیتا ہے ، لہذا فراخی کی حالت میں فضول خرچی کرکے تکبر کا اظہار نہ کرے اور تنگی میں ناروا طریقے اپنا کر نافرمان نہ بنے بلکہ زندگی اور معاملات واخراجات کو اعتدال کی راہ پہ رکھے ، کہ بلاشبہ رب کریم اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں ہر آن دیکھ رہا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 23 تا 25 قضیٰ فیصلہ کردیا، حکم دیا۔ ایاہ اسی کا۔ احسان نیکی، حسن سلوک۔ یبلغن وہ پہنچ جائیں۔ الکبر بڑھاپا۔ کلاھما وہ دونوں۔ لاتقل تم مت کہو۔ لاتنھر نہ ڈانٹو، نہ جھڑکو۔ اخفض جھکا دے۔ جناح بازو۔ الذل عاجزی، انکساری۔ ربینی مجھے پرورش کیا، پالا۔ صغیر چھوٹا پن، بچپن۔ نفوس دل ، جانیں۔ اوابین لوٹنے والے، رجوع کرنے الے۔ غفور بخشنے والا، معاف کرنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 23 تا 25 اس سورت میں معراج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور ان پر عذاب الٰہی اور چند انتہائی ضروری بنیادی باتوں کے بعد آنے والے دورکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ ساتھ آدمی کے والدین، اعزاء و اقرباء سے حسن سلوک اور معاشرہ کی بہتری کے وہ بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں جن پر عمل کرنے سے ایک معاشرہ بہترین انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق بن جاتا ہے دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اور نیکیاں حاصل کرنے کی سعادت مل جاتی ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد والدین کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاؤ کا حکم دیا ہے جس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بعد بندوں کے حقوق کو ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن بندوں کے حقوق میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان سے ادب اور نرمی کا ایسا معاملہ کرنا چاہئے کہ ان کو غیر محسوس تکلیف بھی نہ پہنچنے پائے۔ ان سے ہمیشہ اس طرح بات کی جائے جس سے ان کا دل خوش ہوجائے۔ ان کی بعض بڑھاپے کی کمزوریوں کی وجہ سے انہیں ڈانٹنے یا اف تک کہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے ایسا خیر خواہانہ جذبہ موجود ہونا چاہئے کہ ان کے سامنے خدمت کے لئے کاندھے جھکانے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے یہ دعا بھی کرتا رہے کہ الٰہی جس طرح انہوں نے ہمیں اس وقت پرورش کیا تھا جب ہم کمزور تھے الٰہی اب ہمارے ماں باپ کمزور ہیں ان کی خدمت کر کے ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرما۔ فرمایا کہ اللہ کو یہ بات تو اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کس جذبے سے والدین کی خدمت کرتا ہے لیکن اگر واقعی اللہ کی رضا و خوشنودی کے جذبے سے والدین کی خدمت کی جائے گی تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نہ صرف دین و دنیا کی بھلائیاں عطا کرے گا بلکہ ان کی مغفرت اور رحمت کا سامان بھی عطا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس بات کو بھی واضح طریقے پر ارشاد فرما دیا کہ اگر کسی کے والدین کافر و مشرک ہیں تب بھی ان کے ادب و احترام اور خدمت میں کوئی کمی نہ کی جائے البتہ اگر وہ اپنی اولاد کو اللہ کی نافرمانی یا کسی گناہ کا حکم دیں تو اس سے انکار کردینا خلاف ادب نہیں ہے کیونکہ معصیت اور گناہ کے کسی کام میں کسی کی اطاعت و فرماں برداری کی اجازت نہیں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لاتعداد حدیثیں وہ ہیں جن میں نہ صرف والدین کی اطاعت و فرماں برداری اور ان سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر والدین ظالم بھی ہوں تب بھی ان کی اطاعت کرنا فرض اور لازم ہے۔ یقینا وہی لوگ جنت کے مستحق ہیں جو اپنے والدین کی خدمت اور حسن سلوک کا معاملہ کرتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ 1- وہ شخص بڑا خوش قسمت ہے جس کو والدین کا بڑھاپا ملا اور وہ خدمت کر کے جنت کا مستحق بن گیا۔ 2- فرمایا کہ والدین کی خدمت میں اللہ کی رضا و خوشنودی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ 3- آپ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا سب گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ اگر چاہیں گے تو قیامت تک موخر کردیں گے۔ لیکن والدین کے حقوق میں کمی اور نافرمانی کرنے والے کو آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی سزا دیدی جائے گی۔ 4 - حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے ماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری کرتا رہا تو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جس نے نافرمانی کی اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر والدین میں سے کوئی ایک ہو تو اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ اور نافرمان کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ کسی صحابی رسول نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہ جہنم کی وعید اس صورت میں بھی ہے جب کہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو آپ نے تین دفعہ فرمایا کہ اگر وہ دونوں ظلم بھی کرتے ہوں۔ ان مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں والدین کا احترام، ان کی خدمت اور ان کے ساتھ زبان سے اور ہاتھ پیر سے بہتر معاملہ کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اگر والدین مشرک بھی ہوں تو جائز امور میں ان کی اطاعت کرنا لازم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے بعد بندوں میں سے والدین کی اطاعت کو ہر حال میں لازمی قرار دیا ہے۔ اس موقع پر میں یہ بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو جو احترام کا مقام عطا کیا ہے اس پر انہیں شکر ادا کرتے ہوئے اپنی اولاد کے بھی ہر جذبے کا خیال رکھنا چاہئے اور ایسے تمام راستوں کو بند کرنا بھی ضروری ہے جس سے ان میں نافرمانی کے جذبات پیدا ہونے کا امکان ہے ۔ موجودہ دور میں یہ تجربات سب کے سامنے ہیں کہ والدین یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے ان کے ہر سپید و سیاہ کے فیصلے کو مانا جائے لیکن وہ اپنے اس فرض کو بھول جاتے ہیں کہ جوان اولاد کے اپنے بھی کچھ جذبات ہوتے ہیں اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو یقینا اس سے نافرمانی کے جذبات ابھریں گے اور اس کی اولاد جہنم کی مستحق بن جائے گی۔ دنیا میں کون ماں باپ یہ چاہیں گے کہ وہ خود تو جنت میں جائیں اور ان کی اولاد جہنم کا ایندھن بن جائے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ جس کو بڑائی عطا فرمائے اس کو بڑا بن کر ہی رہنا چاہئے اس سے ان کا وقار بلند ہوتا ہے اور بچے بھی مارے باندھے خدمت نہیں کرتے بلکہ وہ دل کی خوشی سے خدمت کرنے کو فخر سمجھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے بعد والدین کا احترام اور تابعداری کرنے کا حکم۔ البقرۃ آیت ٨٣ کی تفسیر کرتے ہوئے عرض کیا ہے : ہر دور میں دین کے بنیادی ارکان و احکام ایک اور ان کی ترتیب بھی ایک جیسی ہی رہی ہے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا ہے۔ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اللہ کے حق کے بعد والدین کی تابعداری اور ان کے ساتھ احسان کرنا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ رب اور خالق ہے لیکن اس نے اپنی تخلیق اور ربوبیت کا ذریعہ والدین کو بنایا ہے۔ اس لیے اپنی ذات کے بعد اس نے اس مقدس رشتہ کو تقدیس و تکریم دیتے ہوئے ہدایات فرمائیں کہ اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ ہر دم اچھا سلوک کرتی رہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کی اسی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے ارشادات فرمائے : (عن عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلاَۃُ عَلَی وَقْتِہَاقَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوٰۃ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز وقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا : والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ (عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیمٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ )[ رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب فی برالوالدین ] ” بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں کس سے اچھا سلوک کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔ “ والدہ کی خدمت پہلے کیوں ؟ (وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَأَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ إِنِّیْ تُبْتُ إِلَیْکَ وَإِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ )[ الاحقاف : ١٥] ” ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے۔ اس کی ماں نے مشقت سے اسے پیٹ میں رکھا اور پھر مشقت سے اسے جنا۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگے۔ جب وہ اپنی بھر پور جوانی کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوا تو کہنے لگا۔ اے میرے رب ! مجھے تو فیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا۔ یہ کہ میں نیک اعمال کروں جو تجھے پسند ہوں اور میری اور میری اولاد کی اصلاح فرما ! میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور یقیناً میں فرمانبر دار ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ نے والدین کا احترام اور ان کی تابعداری کے لیے قرآن مجید میں پانچ الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا مختصر مفہوم پیش خدمت ہے۔ ١۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا : احسان کا لفظ حقوق العباد کے متعلق استعمال کیا جائے تو اس کا معنیٰ ہے کہ کسی کی بھلائی کے بدلہ کے بغیر اور اس کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اگر عبادت کے لیے استعمال ہو تو احسان کا معنیٰ یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَارِزًا یَوْمًا للنَّاسِ ، فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ .. .. مَا الإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا احسان کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔ “ ٢۔ والدین کو ” اُف “ کا لفظ کہنے اور ڈانٹنے کی ہرگز اجازت نہیں : والدین کو ان کی عمر کے کسی حصہ میں بھی اف کہنے اور ڈانٹ پلانے کی اجازت نہیں۔ جب وہ بڑھاپا کی عمر میں داخل ہوجائیں تو بالخصوص ان کے سامنے ان کی کسی حرکت اور عادت پر اف کہنا یعنی تاسف کا اظہار کرنا یا کرخت آواز سے بولنا ہرگز جائز نہیں۔ بڑھاپے میں والدین اکثر طور پر اولاد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ محتاجی اور جسمانی ضعف کی وجہ سے ان کا دل انتہائی حساس ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ” اُف “ کا لفظ بھی ان کے کلیجہ پر نشتر بن کر اترتا ہے۔ اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ اگر عربی میں اس سے بھی کوئی ہلکا لفظ ہوتا تو وہ بھی یہاں استعمال کیا جاتا۔ لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی کسی خطا اور کمزوری پر ایسا انداز نہ اپنائے۔ جس سے ان کے دل کو دکھ پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ٣۔ قول کریم اختیار کرنا : والدین کے مرتبہ و مقام اور ان کے احترام و اکرام کی خاطر مزید ارشاد ہوا۔ کہ ناصرف ان کے سامنے ” اُف “ کہنے سے اجتناب کرنا ہے بلکہ جب ان کے ساتھ بات کی جائے تو اس میں ادب و احترام، محبت و عقیدت، نرمی اور شفقت کا پہلو غالب ہونا چاہیے تاکہ ان کی کمزور طبیعت کو سہارا اور دکھی دل کو تسکین حاصل ہو۔ ٤۔ والدین کے سامنے جھکتے ہوئے پیش ہونا : اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے سوا کسی دوسرے کے سامنے عاجزی کے ساتھ پیش ہونے کا حکم نہیں دیا۔ سوائے والدین کے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو اپنی ربوبیت کا پر تو ٹھہرایا ہے اس لیے حکم دیا ہے کہ اولاد اپنے ماں باپ کے سامنے انکساری کے ساتھ پیش ہوا کرے۔ یہاں صرف انکساری اختیار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید حکم دیا ہے کہ والدین کے سامنے انکساری، اور ادب و احترام کے کندھے جھکے ہوئے ہونے چاہییں یعنی اولاد ماں، باپ کے سامنے اس طرح پیش ہو جیسے غلام اپنے آقا کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ ٥۔ والدین کے لیے دعا کرنا : اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو صرف اپنی بار گاہ سے مانگنے کا حکم دیا ہے۔ انسان کو اپنے لیے مانگنے کے بعد جس شخصیت کے لیے مانگنے کا سب سے پہلے حکم دیا وہ والدین کی ذات ہے۔ والدین کے لیے مانگتے وقت اولاد کے جو جذبات اور احساسات ہونے چاہئیں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب اپنے رب سے والدین کے لیے مانگو تو تمہیں اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے ان کی شفقت، محبت اور مشقت کا پوری طرح احساس ہونا چاہیے۔ والدین کے لیے دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو جو الفاظ پسند ہیں ان کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے اے رب ! میرے والدین پر اس طرح مہربانی اور شفقت فرما جس طرح انہوں نے مجھے شفقت اور محبت سے پالا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ احساس دلایا جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے اگر تم نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ صالح بننے کی کوشش کرو گے۔ تو وہ اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو معاف کردینے والا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صالح شخص وہ ہوگا جو صحیح عقیدہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اپنے والدین کی تابعداری کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ ٣۔ والدین کو اف تک نہیں کہنا چاہیے۔ ٤۔ والدین کو جھڑکنا نہیں چاہیے۔ ٥۔ والدین کے ساتھ ادب سے گفتگو کرنی چاہیے۔ ٦۔ والدین کے سامنے محبت و انکساری کے ساتھ جھکے رہنا چاہیے۔ ٧۔ والدین کے لیے رحمت کی دعا کرنی چاہیے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو معاف کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم : ١۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٢۔ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف : ١٠) ٣۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ (النساء : ٢٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور والدین سے حسن سلوک کریں۔ (البقرۃ : ٨٣) ٥۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔ (الانعام : ١٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ ” تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ : تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ، مگر صرف اس کی “۔ شرک کے بعد اب یہ حکم بھی دے دیا کہ بندگی بھی صرف اللہ کی کرو ، اور یہ حکم فیصلے کی صورت میں دیا گیا ہے۔ یعنی جس طرح فیصلہ ایک حتمی امر ہوتا ہے اور اس کی تعمیل ضروری ہوتی ہے ، اسی طرح اس حکم کی تعمیل بھی ضروری ہے۔ لفظ قضی سے حکم کو مزید تاکیدی کردیا گیا ، اس کے علاوہ نفی اور استثنی بذات خود ایک تاکیدی اور حصری انداز ہے کہ یہی کچھ ہو اور اس کے سوا کچھ نہ ہو۔ چناچہ انداز بیان کے اندر تاکید مزید کا طریقہ اختیار کیا گیا کیونکہ توحید فی العقیدہ اور توحید فی العبادۃ نہایت ہی اساسی مسائل ہیں۔ اور جب یہ قاعدہ اور بنیاد اور اساس رکھ دی گئی تو اب انفرادی احکام صادر ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اجتماعی احکام اور قوانین وضع ہونے لگتے ہیں۔ اس سے قبل ذہنوں میں عقیدہ توحید بٹھا دیا گیا ہے۔ اس عقیدے کے ذریعے اعمال اور فرائض و قوانین کا داعیہ بھی نفوس کے اندر پیدا ہوچکا ہے۔ انسان کے لئے سب سے پہلا راطہ رابطہ عقیدہ ہے۔ عقیدے اور نظریات ہی انسانوں کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ عقائد و نظریات کے بعد انسانیت کے لئے پہلا یونٹ خاندان کا یونٹ ہے اور خاندان کی تشکیل والدین سے ہوتی ہے ، اس لئے پہلا حکم یہ دیا جاتا ہے کہ اللہ وحدہ کی بندگی کے پہلا حکم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اسلام میں اس کی بہت اہمیت ہے ، یہ پہلی قدر ہے۔ وبالوالدین احسانا……صغیرا۔ (٤٢) ۔ نہایت ہی خوبصورت انداز کلام اور نہایت ہی نرم اور پرسوز الفاظ کے ساتھ قرآن کریم اولاد کے دلوں میں والدین کے حق میں عزت و احترام پیدا کرتا ہے اور ان کے وجدان اور ان کے دل میں جذبات عطوفت کو موجزن کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب زندگی اپنی راہوں پر رواں دواں ہوتی ہے تو تمام لوگوں کی نظریں ، جذبات اور اہتمام اور توجہ آگے کی طرف ہوتی ہے۔ ہر انسان پیچھے والدین کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے آگے اپنی اولاد کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اگلی نسل کی فکر یہ سب کو ہوتی ہے ، کم لوگ ہوتے ہیں جو پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں۔ والد والدہ اور گزرنے والوں کی طرف توجہ کم لوگوں کی ہوتی ہے ، چناچہ قرآن کریم نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ والدین اور جانے والی نسل کی بابت اولاد کے وجدان اور شعور کو جگایا جائے تا کہ وہ پیچھے دیکھ کر والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ تمام والدین کے اندر فطری داعیہ ہوتا ہے کہ وہ اولاد کا غم کھائیں ، والدین تو بچوں کے لئے اپنی جان تک دے دیتے ہیں ، جس طرح ایک دانہ خاک میں مل کر ایک پوردے کی شک میں اختیار کتا ہے اور خود گم ہوجاتا ہے اور انڈے کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کچھ بچے کی شکل اختیار کر لیت ا ہے۔ اس طرح بچے اپنے والدین سے تمام رس ، تمام قوت ، تمام اہتمام اور تمام طاقت نچوڑ لیتے ہیں اور والدین ناتواں اور بوڑھے ہوجاتے ہیں ، بسا اوقات موت اپنی مہلت دے دیتی ہے ، اور وہ نہایت ہی بےبسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے تو وہ بہت جلد یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں اور وہ آگے کو دیکھتے ہیں اور خود اپنے فرائض منصبی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ان کی توجہ اپنی بیوی بچوں کی طرف ہوتی ہے اور یوں زندگی کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ والد اور والدہ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کا خیال رکھیں بلکہ اولاد کو اس تلقین کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ضعیف والدین کا خیال رکھیں اور اس سلسلے میں ان کے شعور و وجدان کو جگانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس نسل کی بہبود کا بھی خیال رکھیں جس نے اپنے خون کا آخری قطرہ خشک کرے ان کو پروان چڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ خود خشک اور ضعیف ہوگئے۔ والدین کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا حکم اللہ نے قضا اور فیصلہ کی شکل میں دیا۔ یعنی یہ اللہ کا فیصلہ ہے ، اور ہر حاکم اپنے فیصلہ کو نافذ کراتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ حکم نہایت ہی تاکیدی ہے جو ڈگری کی شکل میں ہے۔ جس طرح اس سے قبل یہ کہا گیا تھا کہ اللہ نے فیصلہ دیا ہے کہ صرف اس کی بندگی کرو۔ اس کے بعد والدین کے بارے میں نہایت ہی رحیانہ وکریمانہ اور شفیقانہ انداز گفتگو ہے۔ نہایت ہی جذباتی انداز میں ایام طفولیت میں والدین کی مشقتوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ بچے کے ساتھ کس قدر پیار و محبت کا سلوک انہوں نے کیا تھا۔ اما یبلغن عندک الکبر احدھما و کلھما (٧١ : ٣٢) ” اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں “۔ بڑھاپے کا خود اپنا وقار ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں جو ضعف ہوتا ہے وہ بھی لفظ (کبر) میں شامل ہے۔ اور عندک سے یہ اشارہ ہے کہ بڑھاپے میں والدین بچوں کے ہاں پناہ بھی لیتے ہیں اور حالت ناتوالی میں حمایت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ………(٧١ : ٣٢) ” توا نہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑک کر جواب دو “۔ والدین کے احترام اور ادب کا یہ پہلا مرحلہ ہے کہ اولاد کی طرف سے والدین کے حق میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا جائے جس میں تنقید ، زجر ، توسیخ ، اور جھڑکی آتی ہو ، یا اس میں کوئی چیز تو ہیں آمیز اور سوئے ادب کے زمرے میں آتی ہو۔ وقل لھما قولا کریما (٧١ : ٣٢) ” بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو “۔ بات کی حد تک یہ نہایت ہی اعلیٰ مقام ہے کہ والدین کے ساتھ نہایت ہی احترام کا سلوک کیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

والدین کے ساتھ حسن سلوک اور شفقت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم اس آیت کریمہ میں حق سبحانہ و تعالیٰ نے اول تو یہ حکم فرمایا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، انبیاء ( علیہ السلام) کی تمام شرائع کا سب سے بڑا یہی حکم ہے اور اس حکم کی تعمیل کرانے کے لیے اللہ جل شانہ نے تمام نبیوں اور رسولوں کو بھیجا، اور کتابیں نازل فرمائیں اور صحیفے اتارے اللہ جل شانہ کو عقیدہ سے ایک ماننا اور صرف اسی کی عبادت کرنا اور کسی بھی چیز کو اس کی ذات وصفات اور تعظیم و عبادت میں شریک نہ کرنا خداوند قدوس کا سب سے بڑا حکم ہے۔ دوم : یہ فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اللہ جل شانہ خالق ہے، اسی نے سب کو وجود بخشا ہے اس کی عبادت اور شکر گزاری بہرحال فرض اور لازم ہے اور اس نے چونکہ انسانوں کو وجود بخشنے کا ذریعہ ان کے ماں باپ کو بنایا اور ماں باپ اولاد کی پرورش میں بہت کچھ دکھ تکلیف اٹھاتے ہیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم فرمایا جو قرآن مجید میں جگہ جگہ مذکور ہے۔ لفظ ” حسن سلوک “ میں سب باتیں آجاتی ہیں جس کو سورة بقرہ میں اور سورة انعام اور یہاں سورة الاسراء میں (وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) سے تعبیر فرمایا ہے، ماں باپ کی فرمانبرداری، دلداری، راحت رسانی، نرم گفتاری اور ہر طرح کی خدمت گزاری ان لفظوں کے عموم میں آجاتی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری جائز نہیں۔ سوم : یہ کہ ماں باپ دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بوڑھا ہوجائے تو ان کو اف بھی نہ کہو، مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا کلمہ ان کی شان میں زبان سے نہ نکالو جس سے ان کی تعظیم میں فرق آتا ہو یا جس کلمہ سے ان کے دل کو رنج پہنچتا ہو۔ لفظ اف بطور مثال کے فرمایا ہے، بیان القرآن میں اردو کے محاورہ کے مطابق اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” ان کو ہوں بھی مت کہو “ دوسری زبان میں ان کے مطابق ترجمہ ہوگا۔ حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ کے علم میں کلمہ اف سے نیچے بھی کوئی درجہ ماں باپ کے تکلیف دینے کا ہوتا تو اللہ جل شانہ اس کو بھی ضرور حرام قرار دے دیتا۔ (درمنثور) ماں باپ کی تعظیم و تکریم اور فرمانبرداری ہمیشہ واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان ہوں، جیسا کہ آیات اور احادیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے اس لیے فرمایا کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور ان کو بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں اولاد کو ان کا اگالدان صاف کرنا پڑتا ہے، میلے اور ناپاک کپڑے دھونے پڑتے ہیں جس سے طبیعت بور ہونے لگتی ہے اور بعض مرتبہ تنگ دل ہو کر زبان سے الٹے سیدھے الفاظ بھی نکلنے لگتے ہیں اس موقع پر صبر اور برداشت سے کام لینا اور ماں باپ کا دل خوش رکھنا اور رنج دینے والے ذرا سے لفظ سے بھی پرہیز کرنا بہت بڑی سعادت ہوتی ہے۔ حضرت مجاہد نے فرمایا کہ تو جو ان کے کپڑے وغیرہ سے گندگی اور پیشاب پاخانہ صاف کرتا ہے، تو اس موقع پر اف بھی نہ کہہ، جیسا کہ وہ بھی اف نہ کہتے تھے جب تیرے بچپن میں تیرا پیشاب پاخانہ وغیرہ دھوتے تھے۔ (درمنثور) چہارم : (اف کہنے کی ممانعت کے بعد) یہ بھی فرمایا کہ ان کو مت جھڑکو، جھڑکنا اف کہنے سے بھی زیادہ برا ہے، جب اف کہنا منع ہے تو جھڑکنا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ پھر بھی واضح فرمانے کے لیے خاص طور پر جھڑکنے کی صاف اور صریح لفظوں میں ممانعت فرما دی۔ پنجم : حکم فرمایا (وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا) (ماں باپ سے خوب ادب سے بات کرنا) اچھی باتیں کرنا، لب و لہجہ میں نرمی اور الفاظ میں توقیر و تکریم کا خیال رکھنا یہ سب (قَوْلًا کَرِیْمًا) میں داخل ہے۔ حضرت سعید بن المسیب نے فرمایا کہ خطاکار زر خرید غلام جس کا آقا بہت سخت مزاج ہو یہ غلام جس طرح اپنے آقا سے بات کرتا ہے اسی طرح ماں باپ سے بات کی جائے تو (قَوْلًا کَرِیْمًا) پر عمل ہوسکتا ہے۔ حضرت زہیر بن محمد نے قولا کریما کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا اذا دعواک فقل لبیکما وسعدیکما (یعنی جب تجھے ماں باپ بلائیں تو کہنا کہ میں حاضر ہوں اور تعمیل ارشاد کے لیے موجود ہوں) ان اکابر کے یہ اقوال تفسیر (درمنثور ص ١٧١ ج ٤) میں مذکور ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” و قضی ربک “ تا ” عند ربک مکروھا “ (رکوع 4) ۔ چونک معجزہ اسراء کے بعد انکار توحید پر عذاب الٰہی آنے والا تھا اس لیے اب یہاں دفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا ذکر کیا گیا یعنی شرک نہ کرو، احسان کرو اور طلم نہ کرو۔ ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ “ میں امر اول کا ذکر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کی عبادت اور پکار میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ یہ دلائل ماقبل کا ثمرہ بھی ہے یعنی مزکورہ بالا دلائل عقل و نقل اور وحی سے ثابت ہوگیا کہ کارساز اور متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا اس کے سوا کسی نبی مرسل، کسی ملک مقرب اور کسی ولی کامل کے لیے کسی قسم کی عبادت بجا نہ لاؤ اور نہ اس کے سوا حاجات و مصائب میں مافوق الاسباب کسی کو پکارو۔ اگر اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو۔ 23:۔ ” و بالوالدین احسانا “ یہ امر ثانی ہے یعنی عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے دوسرا کام یہ کرو کہ مخلوق خدا کے ساتھ احسان کرو چار جماعتوں کو احسان کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اول والدین۔ دوم باقی تمام رشتہ دار۔ سوم مساکین و غربا اور چہارم مسافر پردیسی ان چاروں میں تقریباً سب ہی آجاتے ہیں۔ والدین کا حق چونکہ سب پر فائق اور مقدم تھا اس لیے ان کا ذکر مقدم کیا گیا نیز ان کے حقوق و آداب قدرے تفصیل سے ذکر کیے گئے۔ ” احسانا “ فعل مقدر کا مفعول مطلق ہے۔ ای احسنوا بالوالدین احسانا (مدارک ج 2 ص 240) ۔ یعنی والدین کے ساتھ کما حقہ احسان کرو، حسن سلوک اور ادب و احترام سے پیش آؤ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے توحید کے ساتھ متصل بلا فصل والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور ان کے حقوق بیان فرمائے ہیں اور سورة لقمان رکوع 2 میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کا شکر کرنے کا حکم فرمایا ہے ” ان اشکر لی ولوالدیک الی المصیر “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے حقوق اور ان سے حسن معاشرت کس قدر ضروری اور اہم ہے۔ 24:۔ والدین کے حقوق و آداب کی قدرے تفصیل ہے۔ فرمایا اگر تمہاری زندگی میں ماں یا باپ یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو اب وہ تمہارے بہترین اور نرم سلوک کے مستحق ہیں اس عمر میں ذرا ذرا سی بات سے ان کا دل آزردہ اور دکھی ہوسکتا ہے اس لیے بڑھاپے میں ان سے بات کرتے وقت بہت نرمی اور پیار سے کام لینا ہوگا ” فلا تقل لھما اف “ یعنی ان سے کوئی ایسی بات مت کرو جس میں ذرا بھی تکلیف اور ایذاء کا کوئی پہلو نکل سکتا ہو تاکہ اس بڑھاپے میں ان کے دل کو تکلیف نہ پہنچے۔ ” ولا تنھرھما “ اور ان سے ڈانٹ کر اور جھڑک کر بات مت کرو ” و قل لھما قولا کریما “ بلکہ نہایت نرمی اور ادب و احترام کے ساتھ ان سے بات کرو۔ ” واخفض لھما الخ “ یہ شفقت اور مہربانی سے کنایہ ہے۔ ھذہ استعارۃ فی الشفقۃ والرحمۃ بھما (قرطبی ج 10 ص 243) ۔ اور والدین کے ساتھ بالکل اسی طرح شفقت اور مہربانی سے پیش آؤ جس طرح وہ تمہارے ساتھ بچپن میں شفقت اور مہربانی کیا کرتے تھے۔ ” و قل رب ارحمھما کما “ میں کاف تشبیہ کے لیے ہے یا تعلیل کے لیے اور والدین کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ اے اللہ میرے ماں باپ پر مہربانی اور رحمت فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں شفقت سے میری تربیت کی تھی مطلب یہ ہے ان پر رحمت فرما اس لیے کہ انہوں نے بچپن میں رحمت و شفقت سے میری تربیت کی تھی اور اب میں ان کی اس شفقت کے شکر کے طور ان کے لیے دعا مانگ رہا ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 اور اے مخاطب تیرے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ بجز اس معبود برحق کے کسی کی پوجا نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اور اگر ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں تیرے پاس اور تیرے سامنے پڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اس وقت بھی ان کو ہوں تک نہ کہہ اور نہ ان کو جھڑک اور ان سے جو بات کہہ نہایت نرمی اور ادب سے کہہ۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا معبود بنانے کو منع فرمایا۔ اس آیت میں اسی کی تاکید فرمائی کہ سوائے معبود برحق کے کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو عبادت انتہائی تذلل کو کہتے ہیں۔ اس عبادت کا وہی مستحق ہے جو نہایت عظمت کا مالک ہو اور یہ ظاہر ہے کہ انتہائی عظمت کا وہی مالک ہے لہٰذا وہی عبادت کا مستحق ہے۔ دوسری بات ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے بڑھاپے میں چونکہ وہ خدمت کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں اور ان کی خدمت کرنی طبیعت کو بھاتی نہیں اس لئے بڑھاپے کا خاص طور سے ذکر فرمایا کہ خواہ طبیعت کو ناگوار ہو لیکن ان کو ہوں بھی نہ کہو۔ یعنی کوئی لفظ جھڑکی یا غصہ آمیز نہ نکلنے پائے پھر جھڑکنے کی ممانعت فرمائی پھر ہر بات میں نرمی اور ادب کا حکم دیا۔ غرض ماں باپ خواہ وہ ایک ہو یا دونوں ان کے حقوق کی بہت تاکید اور رعایت فرمائی آگے بھی ان ہی کے ساتھ نیک برتائو کا حکم ہے۔