Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 4

سورة بنی اسراءیل

وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴﴾

And We conveyed to the Children of Israel in the Scripture that, "You will surely cause corruption on the earth twice, and you will surely reach [a degree of] great haughtiness.

ہم نے بنو اسرائیل کے لئے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It was mentioned in the Tawrah that the Jews would spread Mischief twice Allah tells; وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَايِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا And We decreed for the Children of Israel in the Scripture: "Indeed you would do mischief in the land twice and you will become tyrants and extremely arrogant!" Allah tells us that He made a declaration to the Children of Israel in the Scripture, meaning that He had already told them in the Book which He revealed to them, that they would cause mischief on the earth twice, and would become tyrants and extremely arrogant, meaning they would become shameless oppressors of people, Allah says: وَقَضَيْنَأ إِلَيْهِ ذَلِكَ الاٌّمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَـوُلاْءِ مَقْطُوعٌ مُّصْبِحِينَ And We made known this decree to him, that the root of those (sinners) was to be cut off in the early morning. (15:66), meaning, We already told him about that and informed him of it. The First Episode of Mischief caused by the Jews, and their Punishment for it Allah tells;

پیشین گوئی ۔ جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں گے پس یہاں پر قضینا کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں ۔ جیسے آیت ( وقضینا الیہ ذالک الامر ) میں یہی معنی ہیں ۔ بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لئے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بےخوف و خطر واپس چلے گئے ، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا ۔ پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ حضرت طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سخایرب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے ۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھے ۔ اولاً یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بےدریخ قتل کیا ۔ این جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا ۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے حضرت امام صاحب نے یہ حدیث وارد کر دی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے ۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے ۔ اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بےفائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بےنیاز کر دینے والی ہے ۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر و ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی ۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے ، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا ۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کر دیا وہاں کم باشندوں کو قتل کیا پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزرا مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں یہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا ۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بید ردی سے قتل کیا ان میں کوئی بہی حافظ تورات نہ بچا ۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے ۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لئے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا دراصل اپنے لئے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے ۔ آیت ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ 46؀ ) 41- فصلت:46 ) جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔ پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بےباکی اور بےحیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھی اب پھر دوبارہ کرلیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا ۔ تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے ، بہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا ۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا ۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا ۔ ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے ۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکین نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں ۔ ہمیشہ کے لئے ان کا اوڑھنا بچونا یہی ہے ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الہٰی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ ۔۔ : ” لَتُفْسِدُنَّ “ اور ” وَلَتَعْلُنَّ “ اصل میں ” لَتُفْسِدُوْنَنَّ “ اور ” لَتَعْلُوُوْنَنَّ “ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا علم بندوں کی طرح محدود نہیں کہ اسے صرف گزشتہ اور موجودہ باتوں ہی کا علم ہو، بلکہ اسے آئندہ کسی بھی وقت ہونے والی ہر بات کا اسی طرح علم ہے جس طرح گزشتہ یا موجودہ کا پوری طرح علم ہے اور ہر گزشتہ یا آنے والا کام اس کے کمال علم و حکمت کے مطابق طے شدہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی محکم و مضبوط تدبیر و تقدیر کی وجہ سے کوئی خرابی، کوئی حادثہ پیش نہیں آتا۔ اسی تقدیر کے مطابق انسان کو کچھ اختیار دے کر آزمایا گیا ہے اور وہ اپنے اختیار کو کس طرح استعمال کرے گا، اللہ تعالیٰ کو اس کا بھی پہلے سے علم ہے۔ اس علم کے مطابق اس نے بنی اسرائیل کو تورات سے پہلے ہی آگاہ کردیا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور بہت بڑی سرکشی کرو گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو پہلے بتانے کا اور ہماری امت کو یہ خبر دینے کا کیا فائدہ ؟ تو جواب یہ ہے کہ مقصد انھیں بتانے کا اور ہمیں اس کی خبر دینے کا یہ ہے کہ فساد اور سرکشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے، تاکہ ہر شخص اس سے بچنے کی پوری جدوجہد کرے۔ ” اَلْاَرضِ “ سے مراد سرزمین شام ہے اور لام عہد کا ہے۔ پچھلی تفسیری آیات یعنی سورة انبیاء (٨١) میں مذکور ” اَلْاَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فیھَا “ سے بھی شام ہی مراد ہے، یا مراد ساری زمین ہے اور یہودیوں کا فساد اور ان کو ملنے والی سزا شام میں بھی واقع ہوئی اور دوسرے علاقوں میں بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence of Verses Verses 2 and 3 featuring the statement: (We made it guidance for the children of Bani Isra&il) exhorted the Bani Isra&il to fol¬low and obey the Divine Law. The verses that follow warn and admonish them on their disobedience. These verses mention two events relating to the Bani Isra&il so that they serve as a lesson. Tuned to sin and disobedi¬ence, first they increased the tempo of their hostility. Allah Ta` ala set their enemies upon them. They shook them up. The Jews got the mes¬sage, cut down on their mischief and gave the impression of having been corrected. But, soon after, the same lust for mischief and misdeeds overtook them. So then, Allah Ta’ ala had them punished at the hands of their enemies. The Qur&an mentions two events while history carries six like these: 1. The first event came to pass some time after the demise of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) ، the founder of Al-Masjid al-Aqsa, when the ruler of Baytul-maqdis became irreligious and corrupt. The ruler of Egypt attacked him and took away the gold and silver of Baytul-maqdis. But, he did not demolish the city and the Masjid. 2. The second event relates to the period nearly four hundred years after that. Some Jews settled in Baytul-maqdis started idol-worship while the rest began disputing among themselves. This ill omen prompted another ruler of Egypt to attack them which somewhat af¬fected the city and the Masjid both. After that, their condition took a turn for the better. 3. The third event came to pass after some years when Nebuchadnez¬zar, the King of Babylon ransacked Baytul-maqdis. He conquered the city, looted property and took back a lot of people as prisoners of war. When he left, he had a member of the family of the former king ap¬pointed a ruler of the city as his deputy. 4. When this new king, who worshipped idols and was corrupt, rebelled against Nebuchadnezzar, he returned, killed people, destroyed property en masse and burned the city razing it to rubbles. This hap¬pened nearly four hundred and fifteen years after the construction of the Masjid. After that, the Jews went out as exiles to Babylon where they lived in disgrace for seventy years. After that, the King of Iran attacked the King of Babylon and conquered it. Then the King of Iran showed mercy to the Jewish expatriates and ordered that they should be sent back to Syria along with things looted from them. Now the Jews had re¬pented having forsaken their habitual sins and misdeeds. When they resettled there, they restored the original structure of Al-Masjid al-Aqsa with the support of the King of Iran. 5. Then came the fifth event. When the Jews had peace and prosper¬ity once again, the first thing they forgot was their past. They returned to the kind of evil deeds they were used to. Then, it so happened that, one hundred and seventy years before the birth of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) ، the king who had founded Antakiah (Antioch) attacked, killed forty thousand Jews and took with him another forty thousand as prisoners and slaves, even desecrated the Masjid though its structure remained safe. But, later, the successors of that king rendered the city and the Masjid totally denuded. Soon after this, Baytul-maqdis came under the author¬ity of Roman kings. They put the Masjid back into shape and it was after eight years that Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) was born. 6. Forty years after the physical ascension of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) ، the Jews chose to rebel against their Roman rulers. The Romans destroyed the city and the Masjid once again relegating it to what it was. The king at that time was called Titus who was neither Jewish nor Christian because long after him Constantine I was a Christian. From that time to the time of Sayyidna ` Umar (رض) ، this Masjid lay desolate until he had it reconstructed. These six events have been reported in Tafsir Bayan al-Qur&an with reference to Tafsir Haqqani. Now, it is difficult to precisely determine as to which two out of those mentioned above are the two events mentioned by the Holy Qur’ an. But, as obvious, the events that are major and serious among these, in which the Jews were far too wicked and more seriously punished too, should be taken as the likely ones. The fourth and the sixth event seem to be fit for such application. At this point, a lengthy Hadith narrated by Sayyidna Hudhayfah (رض) ، with its chains of authority ascending to the Holy Proph¬et (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، has been reported in Tafsir al-Qurtubi. It also helps in determin¬ing that these two events mean the fourth and the sixth event. The translation of this lengthy Hadith is given below: Sayyidna Hudhayfah (رض) says that he asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) if Baytul-maqdis was a great Masjid in the sight of Allah. He said that it was the most distinct house of Worship in the world, the greatest of all houses, which Allah Ta’ ala made for Sulayman (علیہ السلام) ، the son of Dawud, peace be on both, with gold, silver and precious stones like ruby and emerald. The manner in which this happened was, when Sulayman (علیہ السلام) started its construction, Allah Ta` ala made the Jinn subservient to him. The Jinn collected this gold, silver and precious stones and used them in the making of the Masjid. Sayyidna Hudhayfah (رض) & says that he, then, asked as to where and how did all that gold, silver and precious stones go out of Baytul-Maqdis? The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: When the Bani Isra&il disobeyed Allah Ta` ala, got involved in sins and misdeeds and killed their noble prophets, Allah Ta` ala set King Nebuchadnezzar on them. He was a fire-worshipper who ruled Baytul-Maqdis for seven hundred years. And when the Qur’ an says: فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ (So, when came the time appointed for the first of the two, We sent upon you some servants belonging to Us having strong aggressive power - 17:5), it means this event. The army of Nebuchadnezzar entered the Masjid of al-Quds, killed men, took women and children prisoners and carried away with him all gold, silver and everything of value belonging to Bay¬tul-maqdis loaded on one hundred and seventy thousand vehicles. He kept the treasure in his country, Babylon and kept the children of Isra&il as his serfs and slaves for a hundred years making them do hard labor in utter disgrace. Then Allah Ta’ ala made a king from among the kings of Persia to stand up against him. He conquered Babylon, freed the remnants of Bani Isra&il from the bondage of Nebuchadnezzar and made arrange¬ments to have all valuables he had brought from Baytul-maqdis returned back to it. Then he sternly told the Bani Isra&il that should they, in future, return to disobedience and sin, he too will return the punish¬ment of killing and prison back on them. This is what the verse of the Qur&an: عَسَىٰ رَ‌بُّكُمْ أَن يَرْ‌حَمَكُمْ ۚ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (May be your Lord would bestow mercy upon you. And if you do this again, We shall do that again - 17:8) means. Later, when the Bani Isra&il had come back to Baytul-maqdis (with lost wealth and property in their possession), they went back to the life of sins and misdeeds. At that time, Allah Ta` ala set the Roman Emperor, Caesar upon them. This is what the verse: فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَ‌ةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ (Lat¬er, when came the time appointed for the second, [ We sent others ] so that they spoil your faces - 17:7) means. The Roman Emperor launched a two-pronged attack, from the land and the sea. He killed many and many were those he took prisoners. Then he had all this wealth of Bay¬tul-maqdis loaded on one hundred and seventy thousand vehicles and took it home. There he had it deposited in the Temple of Gold. This wealth is still there, and there it will remain until comes the Mahdi who would bring these back to Baytul-maqdis on one hundred and seventy thousand boats and it will be at this place that Allah Ta’ ala will assem¬ble everyone, former and later. (Lengthy Hadith as reported by al-Qurtubi in his Tafsir) It appears in Bayan al-Qur&an, that the two events mentioned in the Qur&an refer to the disobedience of two Divine Codes of Law, first the disobedience to the Code brought by Sayyidna Musa (علیہ السلام) and, then, after the advent of Sayyidna &Isa (علیہ السلام) the disobedience to the Code brought by him. Thus, all events described above can be considered as relevant to the first disobedience. Now that we have gone through the details of the events, we can turn to the explanation of the verses cited above. Commentary The outcome of the events mentioned above is that Allah Ta’ ala had decreed that the Bani Isra&il will be successful, having the best of both worlds, the material and the spiritual, as long as they continue to obey Allah. But, whenever they deviate from the dictates of Faith, they shall be put to disgrace, and that they would be subjected to punishment at the hands of enemies and disbelievers. Then, not only that the enemies will run over them destroying their lives and properties, but it would also happen that their Qiblah, their sacred Baytul-Maqdis, will also not remain safe against the onslaught of that enemy. Their disbelieving enemies will barge into the Mosque of Baytul-Maqdis and defile and damage it. This too will be a part of the punishment of Bani Isra&il themselves. The Holy Qur&an has told us about two events relating to them. The first one dates back to the time of Mosaic religious law while the second pertains to the Christian. During both these periods, the Bani Isra&il rebelled against the divine law of the time. In the first case, a disbelieving Magian monarch was made to sit over them, and Baytul-Maqdis, who brought great destruction upon them. In the second case, a Roman emperor was set against them who killed and pillaged and made Baytul-Maqdis all demolished and rendered desolate. And along with this description, it has also been mentioned that the Bani Isra&il - when, on both occasions, they repented from their misdeeds resolving not to go near them again - Allah Ta` ala reinstated their country, wealth and children.

خلاصہ تفسیر : اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں (خواہ توریت میں یا دوسرے انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کے صیحیفوں میں) یہ بات (بطور پیشن گوئی کے) بتلادی تھی کہ تم سر زمین (شام) میں دو مرتبہ (گناہوں کی کثرت سے) خرابی کرو گے (ایک مرتبہ شریعت موسویہ کی مخالفت اور دوسری مرتبہ شریعت عیسویہ کی مخالفت) اور دوسروں پر بھی بڑا زور چلانے لگو گے (یعنی ظلم و زیادتی کرو گے اس طرح لَتُفْسِدُنَّ میں حقوق اللہ کے ضائع کرنے کی طرف اور لَتَعْلُنّ میں حقوق العباد ضائع کرنے کی طرف اشارہ ہے اور یہ بھی بتلا دیا تھا کہ دونوں مرتبہ سخت سزاؤں میں بتلا کئے جاؤ گے) پھر جب ان دو مرتبہ میں پہلی مرتبہ کی میعاد آئے گی تو ہم تم پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کردیں گے جو بڑے جنگجو ہوں گے پھر وہ (تمہارے) گھروں میں گھس پڑیں گے (اور تم کو قتل و قید اور غارت کردیں گے اور یہ (وعدہ سزا) ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا پھر (جب تم اپنے کئے پر نادم وتائب ہوجاؤ گے) تو ہم پھر ان پر تمہارا غلبہ کردیں گے (گو بواسطہ سہی کہ جو قوم ان پر غالب آئے گی وہ تمہاری حامی ہوجائے گی اس طرح تمہارے دشمن اس قوم سے اور تم سے دونوں سے مغلوب ہوجائیں گے) اور مال اور بیٹوں سے (جو کہ قید اور غارت کئے گئے تھے) ہم تمہاری امداد کریں گے (یعنی یہ چیزیں تم کو واپس مل جائیں گی جن سے تمہیں قوت پہنچے گی) اور ہم تمہاری جماعت (یعنی تابعین) کو بڑھا دیں گے (پس جاہ ومال اور اولاد ومتبعین سب میں ترقی ہوگی اور اس کتاب میں بطور نصیحت یہ بھی لکھا تھا کہ) اگر (اب آئندہ) اچھے کام کرتے رہو گے تو اپنے ہی نفع کے لئے اچھے کام کرو گے (یعنی دنیا وآخرت میں اس کا نفع حاصل ہوگا) اور اگر (پھر) تم برے کام کرو گے تو بھی اپنے ہی لئے (برائی کرو گے یعنی پھر سزا ہوگی چناچہ ایسا ہی ہوا جس کا آگے بیان ہے کہ) پھر جب (مذکورہ دو مرتبہ کے فساد میں سے) آخری مرتبہ کا وقت آئے گا (اور اس وقت تم شریعت عیسویہ کی مخالفت کرو گے) تو پھر ہم دوسروں کو تم پر مسلط کردیں گے تاکہ (وہ تمہیں مار مار کر) تمہارا چہرہ بگاڑ دیں اور جس طرح وہ (پہلے) لوگ مسجد (بیت المقدس) میں (لوٹ مار کے ساتھ) گھسے تھے یہ (پچھلے) لوگ بھی اس میں گھس پڑیں گے اور جس طرح وہ (پہلے) لوگ مسجد (بیت المقدس) میں (لوٹ مار کے ساتھ) گھسے تھے یہ (پچھلے) لوگ بھی اس میں گھس پڑیں گے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے سب کو (ہلاک و برباد کر ڈالیں (اور اس کتاب میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر اس دوسری مرتبہ کے بعد جب دور شریعت محمدیہ کا ہو تم مخالفت و معصیت سے باز کر شریعت محمدیہ کا اتباع کرلو تو) عجب نہیں (یعنی امید بمعنی وعدہ ہے) کہ تمہارا رب تم پر رحم فرماوے (اور تم کو ادبار وذلت سے نکال دے) اور اگر تم پھر وہی (شرارت) کرو گے تو ہم بھی وہی (سزا کا برتاؤ) کریں گے (چنانچہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں انہوں نے آپ کی مخالفت کی تو پھر قتل وقید اور ذلیل ہوئے یہ تو دنیا کی سزا ہوگئی) اور (آخرت میں) ہم نے جہنم کو (ایسے) کافروں کا جی خانہ بنا ہی رکھا ہے۔ ربط آیات : اس سے پہلی آیات (آیت) جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ میں احکام شرعیہ اور ہدایات الہیہ کے اتباع و اطاعت کی ترغیب تھی اور مذکور الصدر آیات میں ان کی مخالفت سے ترہیب وزجر کا مضمون ہے ان آیات میں بنی اسرائیل کے دو واقعے عبرت و نصیحت کے لئے ذکر کئے گئے کہ انہوں نے ایک مرتبہ معاصی اور حکم ربانی کی مخالفت میں انہماک کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جنہوں نے ان کو تباہ کیا پھر ان کو کچھ تنبہیہ ہوگئی اور شرارت کم کردی تو سنبھل گئے کچھ عرصہ کے بعد پھر وہی شرارتیں اور بداعمالیاں ان میں پھیل گئیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے دشمن کے ہاتھ سے سزا دلائی قرآن کریم میں دو واقعوں کا ذکر ہے مگر تاریخ میں اس اس طرح کے چھ واقعات مذکور ہیں۔ پہلا واقعہ : حضرت (علیہ السلام) بانی مسجد اقصی کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد پیش آیا کہ بیت المقدس کے حاکم نے بےدینی اور بدعملی اختیار کرلی تو مصر کا ایک بادشاہ اس پر چڑھ آیا اور بیت المقدس کا سامان سونے چاندی کا لوٹ کرلے گیا مگر شہر اور مسجد کو منہدم نہیں کیا۔ دوسرا واقعہ : اس سے تقریبا چار سو سال بعد کا ہے کہ بیت المقدس میں بسنے والے بعض یہودیوں نے بت پرستی شروع کردی اور باقیوں میں نااتفاقی اور باہمی جھگڑے ہونے لگے اس نحوست سے پھر مصر کے کسی بادشاہ نے ان پر چڑھائی کردی اور کسی قدر شہر اور مسجد کی عمارت کو بھی نقصان پہنچایا پھر ان کی حالت کچھ سنبھل گئی۔ تیسرا واقعہ : اسکے چند سال بعد جب بخت نصر شاہ بابل نے بیت المقدس پر چڑھائی کردی اور شہر کو فتح کر کے بہت سا مال لوٹ لیا اور بہت سے لوگوں کو قیدی بنا کرلے گیا اور پہلے بادشاہ کے خاندان کے ایک فرد کو اپنے قائمقام کی حیثیت سے اس شہر کا حاکم بنادیا۔ چوتھا واقعہ : اس نئے بادشاہ نے جو بت پرست اور بدعمل تھا بخت نصر سے بغاوت کی تو بخت نصر دوبارہ چڑھ آیا اور کشت وخون اور قتل و غارت کی کوئی حد نہ رہی شہر میں آگ لگا کر میدان کردیا یہ حادثہ تعمیر مسجد سے تقریبا چار سو پندرہ سال کے بعد پیش آیا اس کے بعد یہود یہاں سے جلاوطن ہو کر بابل چلے گئے جہاں نہایت ذلت و خواری سے رہتے ہوئے ستر سال گذر گئے اس کے بعد شاہ ایران نے شاہ بابل پر چڑھائی کر کے بابل فتح کرلیا پھر شاہ ایران کو ان جلاوطن یہودیوں پر رحم آیا اور ان کو واپس ملک شام میں پہنچا دیا اور ان کا لوٹا ہوا سامان بھی واپس کردیا اب یہود اپنے اعمال بد اور معاصی سے تائب ہوچکے تھے یہاں نئے سرے سے آباد ہوئے تو شاہ ایران کے تعاون سے پھر مسجد اقصی کو سابق نمونہ کے مطابق بنادیا۔ پانچواں واقعہ : یہ پیش آیا کہ جب یہود کو یہاں اطمینان اور آسودگی دوبارہ حاصل ہوگئی تو اپنے ماضی کو بھول گئے اور پھر بدکاری اور بد اعمالی میں منہمک ہوگئے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش سے ایک سو ستر سال پہلے یہ واقعہ پیش آیا کہ جس بادشاہ نے انطاکیہ آباد کیا تھا اس نے چڑھائی کردی اور چالیس ہزار یہودیوں کو قتل کیا چالیس ہزار کو قیدی اور غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا اور مسجد کی بھی بہت بےحرمتی کی مگر عمارت مسجد کی بچ گئی مگر پھر اس بادشاہ کے جانشینوں نے شہر اور مسجد کو بالکل میدان کردیا اس کے کچھ عرصہ کے بعد بیت المقدس پر سلاطین روم کی حکومت ہوگئی انہوں نے مسجد کو پھر درست کیا اور اس کے آٹھ سال بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ چھٹا واقعہ : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صعود اور رفع جسمانی کے چالیس برس بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ یہودیوں نے اپنے حکمران سلاطین روم سے بغاوت اختیار کرلی رومیوں نے پھر شہر اور مسجد کو تباہ کر کے وہی حالت بنادی جو پہلے تھی اس وقت کے بادشاہ کا نام طیطس تھا جو نہ یہودی تھا نہ نصرانی کیونکہ اس کے بہت روز کے بعد قسطنطین اول عیسائی ہوا ہے اور اس کے بعد سے حضرت عمر بن خطاب کے زمانہ تک یہ مسجد ویران پڑی رہی یہاں تک کہ آپ نے اس کی تعمیر کرائی یہ چھ واقعات تفسیر بیان القرآن میں بحوالہ تفسیر حقانی لکھے گئے ہیں ، اب یہ بات کہ قرآن کریم نے جن دو واقعوں کا ذکر کیا ہے وہ ان میں سے کون سے ہیں اس کی قطعی تعیین تو مشکل ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ ان میں جو واقعات زیادہ سنگین اور بڑے ہیں جن میں یہود کی شرارتیں بھی زیادہ ہوئیں اور سزا بھی سخت ملی ان پر محمول کیا جائے اور وہ چوتھا اور چھٹا واقعہ ہے تفسیر قرطبی میں یہاں ایک طویل حدیث مرفوع بروایت حذیفہ نقل کی ہے اس سے بھی اس کی تعیین ہوتی ہے کہ ان دو واقعوں سے مراد چوتھا اور چھٹا واقعہ ہے اس طویل حدیث کا ترجمہ یہ ہے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ بیت المقدس اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظیم القدر مسجد ہے آپ نے فرمایا کہ وہ دنیا کے سب گھروں میں ایک ممتاز عظمت والا گھر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے لئے سونے چاندی اور جواہرات یا قوت و زمرد سے بنایا تھا اور یہ اس طرح کہ جب سیلمان (علیہ السلام) نے اس کی تعمیر شروع کی تو حق تعالیٰ نے جنات کو ان کے تابع کردیا جنات نے یہ تمام جواہرات اور سونے اور چاندی جمع کر کے ان سے مسجد بنائی حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر بیت المقدس سے یہ سونا چاندی اور جواہرات کہاں اور کس طرح گئے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور گناہوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہوگئے انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر بادشاہ کو مسلط کردیا جو مجوسی تھا اس نے سات سو برس بیت المقدس پر حکومت کی اور قرآن کریم میں (آیت) فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ ۔ سے یہی واقعہ مراد ہے بخت نصر کا لشکر مسجد قدس میں داخل ہوا مردوں کو قتل اور عورتوں بچوں کو قید کیا اور بیت المقدس کے تمام اموال اور سونے چاندی جواہرات کو ایک لاکھ ستر ہزار گاڑیوں میں بھر کرلے گیا اور اپنے ملک بابل میں رکھ لیا اور سو برس تک ان بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا کر طرح طرح کی بامشقت خدمت ذلت کے ساتھ ان سے لیتا رہا پھر اللہ تعالیٰ نے فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو اس کے مقابلے کے لئے کھڑا کردیا جس نے بابل کو فتح کیا اور باقیماندہ بنی اسرائیل کو بخت نصر کی قید سے آزاد کرایا اور جتنے اموال وہ بیت المقدس سے لایا تھا وہ سب واپس بیت المقدس میں پہنچا دئیے اور پھر بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اگر تم پھر نافرمانی اور گناہوں کی طرف لوٹ جاؤ گے تو ہم بھی پھر قتل وقید کا عذاب تم پر لوٹا دیں گے آیت قرآنی (آیت) عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا سے یہی مراد ہے۔ پھر جب بنی اسرائیل بیت المقدس میں لوٹ آئے (اور سب اموال و سامان بھی قبضہ میں آگیا) تو پھر معاصی اور بداعمالیوں کی طرف لوٹ گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر شاہ روم قیصر کو مسلط کردیا (آیت) فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ سے یہی مراد ہے شاہ روم نے ان لوگوں سے بری اور بحری دونوں راستوں پر جنگ کی اور بہت سے لوگوں کو قتل اور قید کیا اور پھر تمام ان اموال بیت المقدس کو ایک لاکھ ستر ہزار گاڑیوں پر لاد کرلے گئے اور اپنے کنیسۃ الذہب میں رکھ دیا یہ سب اموال ابھی تک وہیں ہیں اور وہیں رہیں گے یہاں تک کہ حضرت مہدی پھر ان کو بیت المقدس میں ایک لاکھ ستر ہزار کشتیوں میں واپس لائینگے اور اسی جگہ اللہ تعالیٰ تمام اولین وآخرین کو جمع کردیں گے۔ (الحدیث بطولہ رواہ القرطبی فی تفسیرہ) بیان القرآن میں ہے کہ دو واقعے جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے اس سے مراد دو شریعتوں کی مخالفت ہے پہلے شریعت موسوی کی مخالفت اور پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد شریعت عیسویہ کی مخالفت ہے اس طرح پہلی مخالفت میں وہ سب واقعات درج ہو سکتے ہیں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں واقعات کی تفصیل کے بعد آیات مذکورہ کی تفسیر دیکھئے۔ معارف و مسائل : مذکورہ الصدر واقعات کا حاصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے متعلق حق تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیا تھا کہ وہ جب تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے دین و دنیا میں فائز المرام اور کامیاب رہیں گے اور جب کبھی دین سے انحراف کریں گے ذلیل و خوار کئے جاویں گے اور دشمنوں کافروں کے ہاتھوں ان پر مار ڈالی جائے گی اور صرف یہی نہیں کہ دشمن ان پر غالب ہو کر ان کی جان ومال کو نقصان پہنچائیں بلکہ ان کے ساتھ ان کا قبلہ جو بیت المقدس ہے وہ بھی اس دشمن کی زد سے محفوظ نہیں رہے گا ان کے کافر دشمن مسجد بیت المقدس میں گھس کر اس کی بےحرمتی اور توڑ پھوڑ کریں گے یہ بھی بنی اسرائیل کی سزا ہی کا ایک جز ہوگا قرآن کریم نے ان کے دو واقعے بیان فرمائے پہلا واقعہ شریعت موسویہ کے زمانے کا ہے دوسرا شریعت عیسویہ کے زمانہ کا ان دونوں میں بنی اسرائیل نے اپنے کی شریعت الہیہ سے انحراف کر کے سرکشی اختیار کی تو پہلے واقعہ میں ایک مجوسی کافر بادشاہ کو ان پر اور بیت المقدس پر مسلط کردیا گیا جس نے تباہی مچائی اور دوسرے واقعہ میں ایک رومی بادشاہ کو مسلط کیا جس نے ان کو قتل و غارت کیا اور بیت المقدس کو منہدم اور ویران کیا اسی کے ساتھ یہ بھی ذکر کردیا گیا ہے کہ دونوں مرتبہ جب بنی اسرائیل اپنی بداعمالیوں پر نادم ہو کر تائب ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ملک و دولت اور آل واولاد کو بحال کردیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا ۝ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین سب درہم برہم ہوجائیں ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اور ہم نے توریت میں بنی اسرائیل کو یہ بات بتادی تھی کہ تم زمین میں دوبارہ خرابی کرو گے اور بڑا زور چلانے لگوگے اور بہت زیادتیاں کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا) یعنی تم پر دو ادوار ایسے آئیں گے کہ تم زمین میں سرکشی کرو گے فساد برپا کرو گے دین سے دور ہوجاؤ گے لہو و لعب میں مبتلا ہوجاؤ گے اور پھر اس کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے تم پر عذاب کے کوڑے برسیں گے۔ یہاں پر بین السطور یہ اشارہ بھی ہے کہ اس سے پہلے بنی اسرائیل پر ایک بہتر دور بھی آیا تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا تھا۔ سورة البقرۃ میں ان کے اس اچھے دور کی کچھ تفصیلات ہم پڑھ آئے ہیں۔ یاد دہانی کے طور پر اہم واقعات اختصار کے ساتھ یہاں پھر تازہ کرلیں۔ حضرت موسیٰ 1400 قبل مسیح میں بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تھے۔ صحرائے سینا میں جبل طور کے پاس پڑاؤ کے زمانے میں آپ کو تورات عطا کی گئی۔ وہاں سے پھر شمال مشرق کی طرف کوچ کرنے اور فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا گیا۔ جہاد کے اس حکم سے انکار کی پاداش میں بنی اسرائیل کو صحرا نوردی کی سزا ملی۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوگیا۔ صحرا نوردی کے دوران پروان چڑھنے والی نسل بہادر اور جفاکش تھی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد کیا جس کے نتیجے میں فلسطین فتح ہوگیا۔ فلسطین کا جو شہر سب سے پہلے فتح ہوا وہ اریحا (Jericho) تھا۔ فلسطین کی فتح کے بعد ایک بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ایک مضبوط مرکزی حکومت بنانے کے بجائے یہ علاقہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں نے آپس میں بانٹ لیا اور ہر قبیلے نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں نہ صرف بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں بہت کمزور تھیں بلکہ بہت جلد انہوں نے آپس میں بھی لڑنا جھگڑنا شروع کردیا ‘ جس کے نتیجے میں ان کے زیر تسلط علاقے بہت جلد انتشار اور طوائف الملوکی کا شکار ہوگئے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے شام اور اردن کے ہمسایہ علاقوں میں بسنے والی مشرک اقوام نے ان پر تسلط حاصل کر کے ان کی بیشتر آبادی کو اس علاقے سے نکال باہر کیا۔ اس حالت کو پہنچنے پر انہوں نے اپنے نبی حضرت سموئیل سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے ایک بادشاہ یا سپہ سالار مقرر کردیں تاکہ اس کی قیادت میں تمام قبیلے اکٹھے ہو کر جہاد کریں۔ اس مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ حضرت طالوت نے دشمن افواج کے خلاف لشکر کشی کی ‘ جن کا سپہ سالار جالوت تھا۔ اس جنگ میں حضرت داؤد بھی شامل تھے۔ آپ نے جالوت کو قتل کردیا ‘ جس کے نتیجے میں دشمن لشکر پر بنی اسرائیل کو فتح نصیب ہوئی اور وہ علاقے میں ایک مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ حضرت طالوت کے بعد حضرت داؤد ان کے جانشین ہوئے اور حضرت داؤد کے بعد آپ کے بیٹے حضرت سلیمان بادشاہ بنے۔ حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کے فتح ہونے سے لے کر طالوت اور جالوت کی جنگ تک تین سو سال کا وقفہ ہے۔ حضرت سلیمان کا عہد حکومت اس تین سو سالہ دور کا نقطہ عروج تھا۔ حضرت طالوت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا دور اقتدار تقریباً ایک سو سال کے عرصے پر محیط تھا۔ سولہ برس تک حضرت طالوت نے حکومت کی ‘ اس کے بعد چالیس برس تک حضرت داؤد اور پھر چالیس برس تک ہی حضرت سلیمان برسر اقتدار رہے۔ یہ دور گویا بنی اسرائیل کی خلافت راشدہ کا دور تھا جو ہمارے دور خلافت راشدہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگرچہ ان کی پہلی تین خلافتیں ایک سو برس کے عرصے پر محیط تھیں اور ہماری امت کی پہلی تین خلافتوں کا عرصہ چوبیس برس تھا لیکن جس طرح ان کے پہلے خلیفہ کا دور اقتدار مختصر اور بعد کے دونوں خلفاء کا دور نسبتاً طویل تھا اسی طرح ہمارے ہاں بھی حضرت ابوبکر کا دور خلافت مختصر جبکہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کا دور نسبتاً طویل تھا۔ اس کے بعد حضرت علی کی خلافت کو امیر معاویہ نے قبول نہیں کیا تھا چناچہ شام اور مصر کے علاقے علیحدہ رہے تھے بالکل اسی طرح بنی اسرائیل کی مملکت بھی حضرت سلیمان کی وفات کے بعد آپ کے دو بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگئی۔ شمالی مملکت کا نام اسرائیل تھا جس کا دار الخلافہ سامریہ تھا جبکہ جنوبی مملکت کا نام یہودیہ تھا اور اس کا دار الخلافہ یروشلم تھا۔ اس عظیم سلطنت کی تقسیم کے بعد بھی مادی اعتبار سے ایک عرصے تک بنی اسرائیل کا عروج برقرار رہا لیکن رفتہ رفتہ عوام میں مشرکانہ عقائد اوہام پرستی اور ہوس دنیا جیسی نظریاتی و اخلاقی بیماریاں پیدا ہوگئیں اور احکام شریعت کا استہزا ان کا اجتماعی وطیرہ بن گیا۔ چناچہ اخلاق و کردار کا یہ زوال منطقی طور پر ان کے مادی زوال پر منتج ہوا۔ بنی اسرائیل کا یہ عہد زوال بھی تقریباً تین سو سال ہی کے عرصے میں اپنی انتہا کو پہنچا۔ سب سے پہلے آشوریوں کے ہاتھوں ان کی شمالی سلطنت ” اسرائیل “ (سات آٹھ سو قبل مسیح کے لگ بھگ) تباہ ہوئی۔ اس کے بعد 587 قبل مسیح میں عراق کے نمرود بخت نصر (Nebukadnezar) نے ان کی جنوبی سلطنت ” یہودیہ “ پر حملہ کیا اور پوری سلطنت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا گیا کہ کسی عمارت کی دو اینٹیں بھی سلامت نہیں رہنے دی گئیں۔ ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے اس کی بنیادیں تک کھود ڈالی گئیں۔ اس دوران بخت نصر نے چھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا جبکہ چھ لاکھ مردوں عورتوں اور بچوں کو جانوروں کی طرح ہانکتا ہوا بابل لے گیا جہاں یہ لوگ سوا سو سال تک اسیری (Captivity) کی حالت میں رہے۔ ذلت و رسوائی کے اعتبار سے یہ ان کی تاریخ کا بد ترین دور تھا۔ بنی اسرائیل کے دوسرے دور عروج کا آغاز حضرت عزیر کی اصلاحی کوششوں سے ہوا۔ آپ کو بنی اسرائیل کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔ 539 ق م میں ایران کے بادشاہ کیخورس (Cyrus) یا ذوالقرنین نے عراق (بابل) فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ چناچہ یہودیوں کے قافلے فلسطین جانے شروع ہوگئے اور یہ سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ 458 ق م میں حضرت عزیر بھی ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ یروشلم پہنچے اور اس شہر کو آباد کرنا شروع کیا اور ہیکل سلیمانی کی ازسر نو تعمیر کی۔ اس سے قبل حضرت عزیر کو اللہ تعالیٰ نے سو برس تک سلائی بھی رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سو سال کے لیے موت طاری کردی تھی اور پھر انہیں زندہ کیا اور انہیں بچشم سر ان کے مردہ گدھے کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرایا جس کے بارے میں ہم سورة البقرۃ (آیت ٢٥٩) میں پڑھ آئے ہیں۔ بہر حال حضرت عزیر نے توبہ کی منادی کے ذریعے ایک زبردست تجدیدی اور اصلاحی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ان کے نظریات اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہونا شروع ہوئی۔ حضرت عزیر نے تورات کو بھی یادداشتوں کی مدد سے ازسرنو مرتب کیا جو بخت نصر کے حملے کے دوران گم ہوگئی تھی۔ ایرانی سلطنت کے زوال سکندر مقدونی کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے شدید دھچکا لگا۔ یونانی سپہ سالار انیٹوکس ثالث نے 198 ق م میں فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ یونانی فاتحین نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنا چاہی ‘ لیکن بنی اسرائیل اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں ” مکابی بغاوت “ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روح دینداری کا اثر تھا کہ انہوں نے بالآخر یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک عظیم آزاد ریاست قائم کرلی جو ” مکابی سلطنت “ کہلاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے دوسرے دور عروج میں قائم ہونے والی یہ سلطنت 170 ق م سے لے کر 67 ق م تک پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی۔ مکابی سلطنت اپنے وقت کی معلوم دنیا کے تمام علاقوں پر محیط تھی۔ چناچہ رقبے کے اعتبار سے یہ حضرت سلیمان کی سلطنت سے بھی وسیع تھی۔ اس زمانہ عروج میں پھر سے ان کی نظریاتی و اخلاقی حالت بگڑنے لگی۔ مشرکانہ عقائد سمیت بہت سی اخلاقی برائیاں پھر سے ان میں پیدا ہوگئیں جن کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر یہ قوم عذاب خداوندی کی زد میں آگئی۔ مکابی تحریک جس اخلاقی ودینی روح کے ساتھ اٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بےروح ظاہر داری نے لے لی۔ آخر کار ان کے درمیان پھوٹ پڑگئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپئی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔ چناچہ پومپئی نے 63 ق م میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کردیا۔ رومیوں نے فلسطین میں اپنے زیرسایہ ایک دیسی ریاست قائم کردی جو بالآخر 40 ق م میں ہیرود نامی ایک ہوشیار یہودی کے قبضے میں آئی۔ یہ شخص ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے اور اس کی فرماں روائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر 40 سے 4 ق م تک رہی۔ اس شخص نے رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی خوشنودی حاصل کرلی تھی۔ اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ گئی تھی۔ ہیرود اعظم کے بعد اس کی ریاست اس کے تین بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوگئی۔ لیکن 4 ء میں قیصر آگسٹس نے ہیرود کے بیٹے ارخلاؤس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کردی اور 41 ء تک یہی انتظام قائم رہا۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اٹھے تو یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور انہیں واجب القتل قرار دے کر رومی گورنر پونٹس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی اور اپنے خیال کے مطابق تو ان کو سولی پر چڑھوا ہی دیا۔ رومیوں نے 41 ء میں ہیرود اعظم کے پوتے ” ہیرود اگر پا “ کو ان تمام علاقوں کا حکمران بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔ اس شخص نے برسراقتدار آکر مسیح کے پیروؤں پر مظالم کی انتہا کردی۔ کچھ ہی عرصے بعد یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہوگئی اور 64 ء تا 66 ء کے دوران یہودیوں نے رومیوں کے خلاف کھلی بغاوت کردی ‘ جو ان کے عروج ثانی کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ یہودیوں کی بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیے بالآخر رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کارروائی کی اور 70 ء میں ٹائٹس (Titus) نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کرلیا۔ ہیکل سلیمانی ایک دفعہ پھر مسمار کردیا گیا۔ جنرل ٹائیٹس کے حکم پر شہر میں قتل عام ہوا۔ ایک دن میں ایک لاکھ 33 ہزار یہودی قتل ہوئے ‘ جبکہ 67 ہزار کو غلام بنا لیا گیا۔ اس طرح رومیوں نے پورے شہر میں کوئی متنفس باقی نہ چھوڑا۔ اس کے ساتھ ہی ارض فلسطین سے بنی اسرائیل کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ بیسویں صدی کے شروع تک پورے دو ہزار برس یہ لوگ جلا وطنی اور انتشار (Diaspora) کی حالت میں ہی رہے۔ جنرل ٹائیٹس کے ہاتھوں 70 ء میں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا تو آج تک تعمیر نہ ہوسکا۔ حضور کی پیدائش (571 ء) کے وقت اسے مسمار ہوئے پانچ سو برس گزر چکے تھے۔ یہ خلاصہ ہے اس قوم کی داستان عبرت کا جو اپنے وقت کی امت مسلمہ تھی۔ جس کے اندر چودہ سو برس تک مسلسل نبوت رہی۔ جس کو تین الہامی کتابوں سے نوازا گیا اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) (البقرۃ) ” اے بنی اسرائیل یاد کرو میری وہ نعمت جو میں نے تم لوگوں کو عطا کی اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت دی تمام جہانوں والوں پر۔ “ آخر کار بنی اسرائیل کو امت مسلمہ کے منصب سے معزول کر کے محمد رسول اللہ کی امت کو اس مسند فضیلت پر متمکن کیا گیا۔ حضور نے اپنی امت کے بارے میں فرمایا کہ تم لوگوں پر بھی عین وہی حالات وارد ہوں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے تھے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ مسلمانوں کو پہلا عروج عربوں کے زیر قیادت نصیب ہوا۔ اس کے بعد جب زوال آیا تو صلیبیوں کی یلغار کی صورت میں ان پر عذاب کے کوڑے برسے۔ پھر تاتاریوں نے ہلاکو خان اور چنگیز خاں کی قیادت میں عالم اسلام کو تاخت و تاراج کیا۔ اس کے بعد قدرت نے عالم اسلام کی قیادت عربوں سے چھین کر انہی تاتاریوں کے ہاتھوں میں دے دی جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا تھا ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے چنانچہ ترکوں کی قیادت میں اس امت کو ایک دفعہ پھر عروج نصیب ہوا۔ ترکان تیموری ترکان صفوی ترکان سلجوقی اور ترکان عثمانی نے دنیا میں عظیم الشان حکومتیں قائم کیں۔ اس کے بعد امت مسلمہ پر دوسرا دور زوال آیا۔ بنی اسرائیل پر دوسرا دور عذاب یونانیوں اور رومیوں کے ہاتھوں آیا تھا جبکہ امت مسلمہ پر دوسرا عذاب اقوام یورپ کے تسلط کی صورت میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریز فرانسیسی اطالوی ہسپانوی اور ولندیزی (Dutch) پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں عظیم عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ ان حالات وو اقعات کا خلاصہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے آیت زیر نظر میں فرمایا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی بنی اسرائیل کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ تم لوگ اپنی تاریخ میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور سرکشی دکھاؤ گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. The original Arabic word Al-kitab does not stand here for the Torah but for all the divine Books. 6. Such warnings have been given in different Books of the Bible. As regards to their first mischief and its evil consequences, the Israelites were warned in the Psalms, Isaiah, Jeremiah and Ezekiel and the warnings about their second mischief and its severe punishments are found in Matthew and Luke. Given below are some extracts to confirm this statement of the Quran. Prophet David was the first to warn the Israelites in his Psalms of their first mischief: They did not destroy the nations, concerning whom the Lord commanded them. But were mingled among the heathen, and learned their works. And they served their idols which were a snare unto them. Yea, they sacrificed their sons and their daughters unto devils, And shed innocent blood, even the blood of their sons and of their daughters. Therefore, was the wrath of the Lord kindled against his people, insomuch that he abhorred his own inheritance. And he gave them into the hand of the heathen; Psalms: Chapter 106, vv. 34-38, 40, 41. The above events have been described in the past tense as if they had already actually happened. The Scriptures employ this mode of expression to emphasize the importance of the prophesies. When this mischief actually came to pass, Prophet lsaiah warned them of its ruinous consequences: Ah sinful nation, a people laden with iniquity, a seed of evil doers, children that are corrupters: they have forsaken the Lord, they have provoked the Holy One of Israel unto anger, they are gone away backward. Why should ye be stricken anymore? Ye will revolt more and more: How is the faithful city become an harlot! It was full of judgment; righteousness lodged in it; but now murderers. Thy princes are rebellious, and companions of thieves: everyone loveth gifts, and followeth after rewards: they judge not the fatherless, neither doth the cause of the widow come unto them. Therefore, saith the Lord, the Lord of hosts, the mighty One of Israel. Ah I will ease me of mine adversaries, and avenge me of mine enemies: they be replenished from the east, and are soothsayers like the Philistines, and they please themselves in the children of strangers. Their land also is full of idols; they worship the work of their own hands, that which their own fingers have made: Moreover the Lord saith, Because the daughters of Zion are haughty, and walk with stretched forth necks and wanton eyes, walking and mincing as they go, and making a tinkling with their feet: Therefore, the Lord will smite with a scab the crown of the head of the daughters of Zion, and the Lord will discover their secret parts. Thy men shall fall by the sword, and thy mighty in the war. And her gates shall lament and mourn: and she being desolate shall sit upon the ground. Now therefore, behold, the Lord bringeth up upon them the waters of the river, strong and many, even the king of Assyria, and all his glory: and he shall come up over all his channels, and go over all his banks: That this is a rebellious people, lying children, children that will not hear the law of the Lord: Which say to the seers, See not; and to the prophets, Prophesy not unto us right things, speak unto us smooth things, prophesy deceits: Wherefore thus saith the Holy One of Israel, Because ye despise this word, and trust in oppression and perverseness, and stay thereon: Therefore, this iniquity shall be to you as a breach ready to fall. And he shall break it as the breaking of the potters’vessel that is broken in pieces; he shall not spare: so that there shall not be found in the bursting of it a shred to take fire from the hearth, or to take water withal out of the pit. (lsaiah, Chapter 1: verses 4-5, 21-24; Chapter 2: verses 6,8; Chapter 3: verses 16-17, 25-26; Chapter 8: verse 7; Chapter 30: verses 9-10, 12-14). After this Prophet Jeremiah raised his voice when the flood of corruption swept away everything before it. Thus saith the Lord, What iniquity have your fathers found in me, that they are gone far from me, and have walked after vanity and are become vain? And I brought you into a plentiful country to eat the fruit thereof and the goodness thereof; but when ye entered, ye defiled my land, and made my heritage an abomination. For of old time I have broken thy yoke, and burst thy hands: and thou saidst, I will not transgress; when upon every high hill and under every green tree thou wanderest, playing the harlot. As the thief is ashamed when he is found, so is the house of Israel ashamed: they, their kings, their princes, and their priests, and their prophets, Saying to a stock, Thou art my father; and to a stone, Thou hast brought me forth: for they have turned their back unto me, and not their face but in the time of their trouble they will say, Arise, and save us. But where are thy gods that thou hast made thee? Let them arise, if they can save thee in the time of thy trouble; for according to the number of thy cities are thy gods, O Judah. The Lord said also unto me in the days of Josiah the king, Hast thou seen that which backsliding Israel hath done? She is gone up upon every high mountain and under every green tree, and there hath played the harlot. And her treacherous sister Judah saw it. And I saw, when for all the causes whereby backsliding Israel committed adultery I had put her away, and given her a bill of divorce; yet her treacherous sister Judah feared not, but went and played the harlot also. And it came to pass through the lightness of her whoredom, that she defiled the land, and committed adultery with stones and with sticks. Run ye to and fro through the streets of Jerusalem, and see now, and know, and seek in the broad places thereof, if can find a man, if there be any that executeth judgments that seeketh the truth; and I will pardon it. How shall I pardon thee for this? Thy children have forsaken me, and sworn by them that are no gods: when I had fed them to the full, they then committed adultery, and assembled themselves by troops in the harlots’houses. They were as fed horses in the morning: every one neighed after his neighbor’s wife. Shall I not visit for these things? Saith the Lord: and shall not my soul be avenged on such a nation as this? Lo, I will bring a nation upon you from far, O house of Israel, saith the Lord: it is a mighty nation, it is an ancient nation, a nation whose language thou knowest not, neither understand what they say. Their quiver is an open sepulchre, they are all mighty men. And they shall eat up thine harvest, and thy bread, which thy sons and thy daughters should eat: they shall eat up thy flocks and thine herds; they shall eat up thy vines and thy fig trees: they shall impoverish thy fenced cities, wherein thou trustedst, with the sword. And the carcases of this people shall be meat for the fowls of the heaven, and for the beasts of the earth; and none shall fray them away. Then will I cause to cease from the cities of Judah, and from the streets of Jerusalem, the voice of mirth and the voice of gladness, the voice of the bridegroom and the voice of the bride: for the land shall be desolate. And it shall come to pass, if they say unto thee, Whither shall we go forth? then thou shalt tell them, Thus saith the Lord; Such as are for death, to death; and such as are for the sword, to the sword; and such as are for the famine, to the famine; and such as are for the captivity, to the captivity. And I will appoint over them four kinds, saith the Lord: the sword to slay, and the dogs to tear, and the fowls of the heaven, and the beasts of the earth, to devour and destroy. (Jeremiah, Chapter 2: verses 5-7, 20, 26-28; Chapter 3: verses 6-9; Chapter 5: verses 1, 7-9 15-17; Chapter 7: verses 33, 34; Chapter 15: verses 2, 3). Then Prophet Ezekiel was raised to warn them in time. Addressing Jerusalem he said: The city sheddeth blood in the midst of it, that her time may come, and maketh idols against herself to defile herself. Behold, the princes of Israel, every one were in thee to their power to shed blood. In thee they have set light by father and mother: in the midst of thee have they dealt by oppression with the stranger: in thee have they vexed the fatherless and the widow. Thou hast despised mine holy things, and hast profaned my Sabbaths. In thee are men that carry tales to shed blood: and in thee they eat upon the mountains: in the midst of thee they commit lewdness. In thee have they discovered their fathers’nakedness: in thee have they humbled her that was set apart for pollution. And one hath committed abomination with his neighbor’s wife; and another hath lewdly defiled his daughter in law; and another in thee hath humbled his sister, his father’s daughter. In thee have they taken gifts to shed blood; thou hast taken usury and increase, and thou hast greedily gained of thy neighbors by extortion and hast forgotten me, can thine hands be strong, in the days that I shall deal with thee? And I will scatter thee among the heathen, and disperse thee in the countries, and will consume thy filthiness out of thee. And thou shalt take thine inheritance in thyself in the sight of the heathen, and thou shalt know that I am the Lord." (Ezekiel, Chapter 22: verses 3, 6-12, 14-16). Besides the above mentioned warnings which were given to Israelites at the time of their first mischief, Prophet Jesus (peace be upon him) warned them of the consequences of their second great mischief. In a forceful address he criticized their morel degeneration like this: O Jerusalem, Jerusalem, thou that killest the prophets, and stonest them which are sent unto thee, how often would I have gathered thy children together, even as a hen gatherth her chickens under her wings, and ye would not! Behold, your house is left unto you desolate. Verily I say unto you, There shall not be left here one stone upon another that shall not be thrown down. (Matthew, Chapter 23: verses 37, 38; Chapter 24: verse 2). Then, when the Roman officials were taking Prophet Jesus (peace be upon him) out for crucifixion, and a great company of people including women were following him bewailing and lamenting, he addressed them and gave his final warnings: But Jesus turning unto them said, Daughters of Jerusalem, weep not for me, but weep for yourselves, and for your children. For, behold, the days are coming, in which they shall say; Blessed are the barren, and the wombs that never bore, and the paps which never gave suck. Then shall they begin to say to the mountains, fall on us; and to the hills, cover us. (Luke, Chapter 23: verses 2830).

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :5 کتاب سے مراد یہاں تورات نہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ الکتاب کئی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :6 بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں ۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور ، یسعیاہ ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے ، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے ۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہو جائے ۔ پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد علیہ السلام نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں: ” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنےلگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے ۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا ، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کر دیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمراں بن گئے“ ( زبور ، باب ١۰٦ ۔ آیات۳٤ ۔ ٤١ ) اس عبارت میں ان واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے ، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے ، گویا کہ وہ ہو چکے ۔ یہ کتب آسمانی کا خاص انداز بیان ہے ۔ پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں: ” آہ ، خطاکار گروہ ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم ، بدکرداروں کی نسل ، مکار اولاد ، جنہوں نے خدا وند کو ترک کیا ، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہو گئے ، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے“؟ ( باب١ ۔ آیت٤ ۔ ۵ ) ”وفادار بستی کیسی بدکار ہوگئی! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی ، لیکن اب خونی رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے سردار گردن گش اور چوروں کے ساتھی ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے ۔ وہ یتیموں کا انصان نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی ۔ اس لیے خداوند رب الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا“ ۔ ( باب ١ ۔ آیت۲١ ۔ ۲٤ ) ”وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلستیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کیسر زمین بتوں سے بھی پر ہے ۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت ، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں“ ۔ ( باب۲ ۔ آیت٦ ۔ ۷ ) ”اور خداوند فرماتا ہے ، چونکہ صہیون کی بیٹیاں ( یعنی یروشلم کی رہنے والیاں ) متکبر ہیں اور گردن گشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بے پردہ کر دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے ۔ اس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی “ ۔ ( باب۳ ۔ آیت١٦ ۔ ۲٦ ) ” اب دیکھ ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب ، یعنی شاہ اسور ( اسیریا ) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا “ ۔ ( باب ۸ ۔ آیت۷ ) ”یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں ، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو ، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو ۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسے کہا رکے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا ، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا ، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے“ ۔ ( باب ۳۰ ۔ آیت۹ ۔ ١٤ ) پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا: ” خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بے انصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سےدور ہو گئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کر دیا ، اور میری میراث کو مکروہ بنایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی ۔ ہاں ، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی ( یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہربت کو سجدہ کیا ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا ، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور ( جھوٹے ) نبی ، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نے مجھے جنم دیا ، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی ، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اٹھ کر ہم کو بچا ۔ لیکن تیرے وہ بت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا ؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اٹھیں ، کیونکہ اے یہوداہ! جتنےتیرے شہر میں اتنے ہی تیرےمعبود ہیں“ ۔ ( باب۲ ۔ آیت۵ ۔ ۲۸ ) ”خدا وند نے مجھ سے فرمایا ، کیا تو نے دیکھا کہ بر گشتہ اسرائیل ( یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست ) نے کیا کیا ؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری ( یعنی بت پرستی ) کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی بے وفا بہن یہودا ۔ ( یعنی یروشلم کی یہودی ریاست ) نے یہ حال دیکھا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب بر گشتہ اسرائیل کی زنا کاری ( یعنی شرک ) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا ( یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا ) تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری ( یعنی بت پرستی ) کی“ ۔ ( باب ۳ ۔ آیت٦ ۔ ۹ ) ”یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو ، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تجھے کیسے معاف کروں ، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں ۔ جب میں نے ان کو سیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے ۔ وہ پیٹ بھرے گھوڑوں کے مانند ہوئے ، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر بن بنانے لگا ۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی“؟ ( باب۵ ۔ آیت١ ۔ ۹ ) ”اے اسرائیل کے گھرانے! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑ ھا لاؤں گا ۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے ۔ وہ قدیم قوم ہے ۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا ۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں ۔ وہ سب بہادر مرد ہیں ۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے ۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے ۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے ۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسہ ہے تلوار سے ویران کر دیں گے“ ۔ ( باب۵ ۔ آیت١۵ ۔ ا۷ ) ”اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کی کوئی نہ ہنکائے گا ۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شاد مانی کی آواز ، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہو جائےگا“ ۔ ( باب۷ ۔ آیت۳۳ ۔ ۳٤ ) ”ان کو میرے سامنے سے نکال دے کہ چلے جائیں ۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف ، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف ، اور جو کال کےلیے ہیں وہ کال کو ، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں“ ۔ ( باب ١۵ ۔ آیت۲ ۔ ۳ ) پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا: ”اے شہر ، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بُت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے ۔ تیرے اندر انہوں نے ماں پاک کا حقیر جانا ۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا ۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا ، تو نے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا ، تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کرکے خون کرواتے ہیں ، تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں ، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں ، تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی ، تجھ میں انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خورای کی ، تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا ، کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا ؟ ہں میں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ سے نابود کردوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں ۔ ( باب۲۲ ۔ آیت ۳ ۔ ۱٦ ) یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو خبردار کیا ۔ متی باب ۲۳ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اے یروشلم ! اے یرو شلم! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں ، مگر تونے نہ چاہا ، دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے ۔ ( آیت۲۷ ۔ ۳۸ ) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے ( باب ۲٤ ۔ آیت۲ ) پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جس میں عورتیں بھی تھیں ، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں ، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا: اے یروشلم کی بیٹیو! میرے لیے نہ روؤ بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روؤ ، کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا ، اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤۔ ٨:۔ اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے حال سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبردی کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں اس بات کی خبر بنی اسرائیل کو دیدی تھی کہ وہ دو بار دنیا میں فساد برپا کریں گے اور دونوں دفعہ ذلیل و خوار ہوں گے اور ویسا ہی ہوا۔ ایک دفعہ انہوں نے توریت کی مخالفت کی اور ذکریا (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے قتل کیا اللہ پاک نے اپنے قوی اور زور آور بندوں کو ان پر مقرر اور مسلط کردیا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ جالوت اور اس کا لشکر تھا اس نے یہود کے علماء کو چن چن کر قتل کر ڈالا اور توریت کو آگ میں جلا دیا اور مسجد اور گھروں میں گھس گھس کر لوگوں کو قتل و غارت کرنا شروع کیا اور ستر ہزار آدمی انہوں نے قید کرلیے جاسو خلل الدیار کے معنے یہ ہیں کہ شہروں میں گھس گھس کر اور ہر گلی کوچہ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بنی اسرائیل کو تباہ وبرباد کیا اور یہ وعدہ اللہ پاک کا ضرور ہونے والا تھا اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں کہ رک جاتا پھر اللہ پاک نے یہ بات فرمائی کہ جب بنی اسرائیل اپنے کردار بد سے تائب ہوئے اور فساد کرنے سے باز آئے تو ہم نے ان کی باری پھیری اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اٹھایا انہوں نے جالوت کو قتل کیا بنی اسرائیل صاحب مال دولت ہوئے اور ان کی اولاد دوبارہ بڑھی ان کے لشکر پھر فراہم ہونے لگے پھر وہی قوت ان کو حاصل ہوگئی پہلی مرتبہ ان کے بہت سے لوگ قتل ہوئے تھے اور کثیر التعداد آدمی گرفتار ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کی حمیت میں کمی ہوگئی تھی اور بہت سے مال ضائع وبرباد ہوگئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا فضل کیا اور دوبارہ از سرنو وہی سازو سامان ان کے لیے مہیا کردیا لیکن ان کو یہ بات جتلا دی تھی کہ دیکھو یاد رکھو اب بھی اگر ٹھیک راہ پر رہے اور نیکو کار بنے رہے تو تمہاری ہی جان کو اس سے فائدہ پہنچے گا تم کبھی ذلیل و خوار نہ ہوگے اور نہ کبھی تباہ وبرباد ہوگے اور اگر پھر اگلی سی حرکت کی اور وہی فساد برپا کیا تو پھر تمہاری جان کے لالے پڑجائیں گے یہ خطاب اگرچہ بنی اسرائیل کو تھا مگر کفار قریش بھی اس میں شامل ہیں کہ اگر تم بھی ویسا ہی فساد کرو گے اور کتاب اللہ کی مخالفت پر آمادہ ہو کر نبی برحق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاؤ گے تو اس کا وبال تمہاری گردن پر پڑے گا بہرحال بنی اسرئیل پھر بھی راہ راست پر نہیں آئے اور پھر وہی فساد اٹھانے لگے اور حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو ایک عورت کی فرمائش سے ایک بادشاہ نے جو بنی اسرائیل کی قوم میں سے تھا قتل کروا ڈالا۔ حضرت یحییٰ کا نام انجیل میں یوحنا ہے اور یہ قصہ انجیل میں مذکور ہے پھر تو اللہ پاک نے فارس کے لوگوں میں سے ایک شخص بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا اس نے وہ قتل و غارت کیا کہ پناہ بخدا اس نے بیت المقدس کو ویران کردیا اور جب تک اس کا غلبہ رہا یہی برتاؤ بنی اسرائیل کے ساتھ کرتا رہا پھر اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو فرمایا کہ تمہارا رب برسر رحم آگیا ہے اگر راہ راست پر آگئے تو پھر وہی شان و شوکت تمہیں دے گا اور پھر وہی دولت تمہیں مل جائے گی۔ ضحاک نے کہا ہے کہ یہ رحمت جس کا اللہ پاک نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا جناب سرور کائنات فخر موجودات صلعم ہیں اور یہ بھی اللہ پاک نے انہیں جتلا دیا تھا کہ اگر پھر تیسری دفعہ وہی کام کرو گے اور وہی فساد اٹھاؤ گے تو یاد رکھو ہم وہی عذاب تم پر نازل کریں گے ہمارے ہاتھ سے تمہیں رہائی نہیں مل سکتی اہل تاریخ کہتے ہیں کہ تیسری بار پھر انہوں نے وہی حرکت کی جو انہیں لائق نہیں تھی کہ ان کی کتاب میں جو کچھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثناو صفت تھی اسے بدل ڈالا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلایا اس واسطے اللہ پاک نے بھی وہی برتاؤ ان کے ساتھ کیا اور وہی بربادی ان پر نازل کی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصحاب رسول صلعم کے ہاتھوں سے یہ بہت ہی ذلیل و خوار ہوئے۔ خود قتل ہوئے اور ان کی عورتیں اور بچے لونڈیاں اور غلام بنائے گئے ان کے مال و دولت غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ جزیہ ان کی بربادی بیان فرما کر آخرت کی سزا کا ذکر فرمایا کہ ان کفار کا حال دنیا میں جو کچھ ہوا وہ ہوا آخرت میں بہت ہی برا گھر ان کے واسطے تیار ہے وہاں جہنم کے قید خانہ میں یہ قید رہیں گے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی روایت ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو پھر ان کو کسی ایسے عذاب میں پکڑ لیتا ہے جس سے وہ بالکل ہلاک ہوجاتے ہیں ١ ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہود کی مہلت اور مہلت کے بعد خرابی کا حال بیان کر کے قریش کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم لوگ بھی مہلت کے زمانہ میں اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو وہی انجام تمہارا بھی ہوگا جو یہود کا ہوا۔ اللہ سچا ہے اور اللہ کا وعدہ سچا ہے اس وعدہ کا ظہور فتح بدر اور فتح مکہ کے وقت ہوا۔ جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایتوں کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ ١ ؎ تفسرا ہذا جلد دوم ص ٢٠٥ بحوالہ صحیح بخاری ص ٦٧٨ ج ٦ وکذلک اخذربک الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:4 ) قضینا الی۔ ای اعلمناہم واخبرنا ہم۔ ہم نے (بنی اسرائیل کو ) آگاہ کردیا تھا ۔ بتادیا تھا۔ (قضی الی) کسی کو بتانا۔ کسی کو وضاحت کے ساتھ بتانا۔ قضینا۔ ماضی جمع متکلم۔ الکتب۔ ای التوارۃ۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ لتفدن فی الارض۔ لتفسدن۔ مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ۔ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ افساد (افعال) تم ضرور فساد کرو گے۔ تم ضرور خرابی پھیلائو گے۔ بعض کے نزدیک لام، لام قسم ہے ! اور تقدیر کلام ہے واللہ لتفسدن۔ خدا کی قسم تم ضرور فساد مچائو گے۔ فی الارض۔ زمین میں ۔ یہاں ارض سے مراد ارض شام اور بیت المقدس ہے۔ ولتعلن۔ مضارع بلام تاکیدونون ثقیلہ جمع مذکر حاضر۔ علو (باب نصر) سے۔ تم چڑھ جائو گے۔ تم سرکشی کرو گے۔ لتفسدن کی لتعلن میں بھی۔ لام للقسم ہوسکتی ہے۔ العلو۔ کسی چیز کا بلند ترین حصہ ۔ العلو۔ کسی چیز کا بلند ترین حصہ۔ یہ سفل کی ضد ہے العلو۔ بلند ہونا۔ مذموم معنوں میں فساد کرنا۔ سرکشی کرنا۔ جیسے اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے لا یریدون علوا فی الارض (28:83) جو زمین میں سرکشی کرنا نہیں چاہتے۔ ولتعلن علوا کبیرا اور تم بڑی سرکشی کا ارتکاب کرو گے (خلق پر ظلم وستم کر کے اور خالق کے قانون سے بغاوت کر کے) ۔ آیات 4 ۔۔ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ 1 ۔ 4 کے بعد۔ اور اس کے بعد نتیجۃً تمہیں سخت عذاب دیا جائے گا۔ کے الفاظ محذوف ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 تو تم بھی نوح کی راہ اتخیار کرو

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 4 تا 10 قضینا صاف صاف بتا دیا۔ مرتین دو مرتبہ تعلن تم ضرور ظلم / تکبر/سرکشی کرو گے۔ اولیٰ پہلا۔ بعثنا ہم نے بھیجا۔ اولی باس لڑنے والے۔ جاسوا وہ گھس گئے۔ وہ پھیل گئے۔ الدیار (دیر) گھر، آبادیاں، شہر۔ مفعولاً کیا جانے اولا۔ رددنا ہم نے لوٹایا۔ کرۃ بار بار۔ نفیر لوگ۔ مددگار۔ احسنتم تم نے اچھا کیا۔ اساتم تم نے برا کیا۔ لیسوء تاکہ وہ بگاڑ دیں۔ لیتبروا تاکہ وہ تباہ کردیں گے۔ عدتم تم پلٹے۔ حصیر گھیر لے، روک لے، قید خانہ۔ یھدی رہنمائی کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ اقوم بالکل سیدھا، سب سے بہتر ۔ تشریح :- آیت نمبر 4 تا 10 تاریخ کے دھارے، دنیا کے حالات، رنگ ڈھنگ اور طرز فکر و عمل بدلتے رہتے ہیں لیکن تاریخی سچائیاں کبھی تبدیل نہیں ہوتیں۔ سورة بنی اسرائیل کی ان چند آیات میں قوم بنی اسرائیل کی ایک ہزار سالہ تاریخ کو نہایت جامع انداز میں بیان کر کے اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ جب بھی کسی قوم کو دین و دنیا کی بھلائیاں اور کامیابیاں نصیب ہوئیں ان کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیمات اور انبیاء کرام کی شریعت کو ماننے کا عظیم جذبہ کار فرما رہا ہے۔ اسی سے ان کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ اس کے برخلاف جس قوم نے بھی اللہ کی تعلیمات سے روگردانی اور انبیاء کرام کی شریعت سے منہ موڑا ہے دین و دنیا کی بدنصیبیاں ان کا مقدر بن گئی ہیں۔ یہ اللہ کی ایک ایسی سنت اور طریقہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں آتی۔ جب حضرت موسیٰ کو قوم بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا گیا اس وقت بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم نے ذلتوں کے اس مقام تک پہنچا دیا تھا جہاں انسانیت بھی شرما جاتی ہے، دنیا پرستی اور اللہ کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے اس قوم کی یہ حالت ہوچکی تھی کہ ان کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لئے ذلیل سے ذلیل کام کرنے پڑتے تھے۔ ملک کی اکثریت ہونے کے باوجود ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوجاتے۔ اگر ان کے لخت جگر بیٹوں کو ان کی ماؤں کی گود سے چھین کر ذبح کردیا جاتا تو ان کو اف تک کرنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ اللہ جو اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے اس نے بنی اسرائیل کی اس مظلومیت کو دیکھتے ہوئے ان ہی میں سے حضرت موسیٰ کو بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی اصلاح کا کام شروع کردیا۔ حضرت موسیٰ کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کو ایک نئی زندگی مل گئی اور ان میں اس بات کا شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا کہ ہماری تباہی و بربادی کا اصل سبب اللہ کے دین اور اپنے مرکز سے دوری ہے۔ چناچہ حضرت موسیٰ پوری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے۔ فرعون نے ان کا پیچھا کیا مگر اللہ نے فرعون، اس کے لشکر اور حکومت و سلطنت کو سمندر میں ڈبو دیا اور اس طرح اس قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات مل گئی۔ صحرائے سینا میں اللہ نے اس قوم پر بڑے بڑے انعامات کئے۔ سب سے بڑا انعام یہ تھا کہ ان کی رہبری و رہنمائی کے لئے تو ریت جیسی کتاب عطا کی گئی لیکن اس قوم کا جو مزاج بن چکا تھا اس نے ان کو پھر سے نافرمانیوں پر آمادہ کردیا اور ایک دفعہ پھر وہ چالیس سال کے لئے میدان تیہ میں بھٹکا دیئے گئے۔ اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ان سے اس طرح گم ہوگیا کہ صبح کو چلتے چلتے جب رات ہوجاتی تو وہ سمجھتے کہ ہم نے راستہ معلوم کرلیا ہے لیکن اگلے دن وہ وہیں پر ہوتے جہاں سے وہ چلے تھے۔ ان سب نافرمانیوں کے باوجود اللہ نے ان کو اس لق و دق صحرا میں کھانے، پینے اور سائے سے محروم نہیں فرمایا بلکہ حضرت موسیٰ کی دعا سے کھانے کے لئے من وسلویٰ ، پینے کیلئے بارہ چشمے سائے کے لئے بادل عطا کئے۔ اسی کشمکش میں یہ قوم فلسطین کی طرف بڑھتی رہی۔ حضرت ہارون کا اسی راستے میں وصال ہوگیا۔ پھر ایرجا کے مقام پر حضرت موسیٰ بھی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور حضرت شمعون قوم بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین میں داخل ہوگئے۔ حضرت شمعون جو حضرت موسیٰ کے بعد اس قوم کی رہنمائی کے لئے مقام نبوت پر فائز ہوئے انہوں نے اس قوم کو بہت سمجھایا مگر انہوں نے نہ صرف ان کی نبوت کا انکار کردیا بلکہ ایک دوسرے کی ضد میں بارہ قبیلوں نے بارہ سلطنتیں قائم کرلیں ان پر دنیا داری اور قوم پرستی کا اس قدر غلبہ ہوگیا تھا کہ وہ کتاب الٰہی کو بھول گئے۔ اس انتشار کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کفار و مشرکین جو ان علاقوں میں رہتے بستے تھے انہوں نے آہستہ آہستہ ان کی منتشر حکومتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی سرحدوں پر حملے شروع کردیئے اور بد اخلاقیوں کو رواج دینا شروع کردیا چناچہ ان کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوگیا۔ ان سلطنتوں کی حیثیت بارہ قبیلوں جیسی ہوگئی جو ایک دوسرے سے الجھتے رہتے تھے۔ ایک پٹتا تو دوسرا دور کھڑے ہو کر صرف تماشا دیکھتا تھا۔ کفار و مشرکین نے ایک ایسا متحدہ پلیٹ فارم بنا لیا تھا کہ بنی اسرائیل کی کوئی ریاست ان کے شر سے محفوظ نہ رہی۔ سرحدی جھڑپوں کے بعد آہستہ آہستہ ان کی ایک ایک ریاست کو کفار و مشرکین نے ہڑپ کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ جالوت جیسے ظالم بادشاہ نے اس قوم بنی اسرائیل سے صندوق سکینہ تک چھین لیا جس میں توریت کی تختیاں اور حضرت موسیٰ کا عصا جیسے تبرکات تھے۔ جب ان پر ہر طرف سے حملے کر کے ان کی کمزور ریاستوں کو تباہ و برباد کردیا گیا تب اس قوم کو ہوش آیا اور انہوں نے جالوت کے جبر و ظلم اور ظاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت کے نبی سے درخواست کی کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کردیجیے تاکہ ہم اس کے ساتھ مل کر جالوت کا مقابلہ کرسکیں۔ اللہ نے حضرت طالوت کو جو بن یا مین کے قبیلے سے تھے اس قوم کا سربراہ مقرر فرمایا۔ اتنی تباہی و بربادی کے باوجود بھی بنی اسرائیل نے حضرت طالوت کی قیادت سے صاف انکار کردیا اور کہنے لگے کہ یہ ایک بہت چھوٹے سے خاندان کا ایک غریب آدمی ہے یہ ہمارے اوپر حکمرانی کیسے کرسکتا ہے ؟ لیکن اللہ نے ان پر ثابت کردیا کہ اب اس قوم کی نجات اسی میں ہے کہ حضرت طالوت کی قیادت کو تسلیم کیا جائے چناچہ حضرت طالوت معمولی سے لشکر کے ساتھ آگے بڑھے۔ اللہ نے ان کی غیب سے مدد فرمائی صندوق سکینہ بھی واپس مل گیا۔ جالوت کو قتل کردیا گیا اور اس کے لشکر کو شکست ہوئی اور اہل ایمان کا دوبارہ غلبہ ہوگیا۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی عظیم سلطنتیں ایک سو سال تک قائم رہیں جن میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنات، چرند، پرند پر حکومت الٰہی قائم ہوگئی۔ حضرت سلیمان کو جانوروں تک کی بولیاں سکھا دی گئیں تاکہ اگر ایک چیونٹی بھی فریاد کرنے والی ہو تو وہ سن کر اس کی فریاد کو پہنچ سکیں۔ حضرت سلیمان کے وصال کے بعد بنی اسرائیل پر ایک دفعہ پھر دنیا پرستی کا غلبہ ہوگیا اور باہمی انتشار اور اختلافات کی وجہ سے ایک اسلامی ریاست دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن پر سلطنت اسرائیل قائم ہوگئی اور یروشلم میں سلطنت یہودیہ قائم ہوگئی۔ سلطنت اسرائیل میں مشرکانہ تہذیب و عقائد کو سا قدر زیادہ فروغ حاصل ہوچکا تھا کہ وہ اپنی عیش پرستیوں اور بدمستیوں میں پوری طرح ڈوب گئے کہ ان کے بازوؤں میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی سکت و قوت ختم ہو کر رہ گئی۔ اشوریوں نے سلطنت اسرائیل پر مسلسل حملے کر کے اس سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ بنی اسرائیل کے خون سے ارض فلسطین رنگین ہوگئی۔ تیس ہزار بنی اسرائیل کے با اثر لوگوں کو ملک بدر کردیا گیا۔ ان کی عبادت گاہوں کو تباہ و برباد کر کے کھ دیا گیا اور اس طرح سلطنت اسرائیل اشوریوں کی غلام بن کر رہ گئی۔ بنی اسرائیل کی دوسری سلطنت جو انبیاء کی تعلیمات کی وجہ سے ابھی اس قدر عیاشیوں اور بدکرداریوں میں مبتلا نہیں ہوئی تھی لیکن کفر و شرک کی وجہ سے وہ بھی انتہائی کمزور ہوچکے تھے مگر انبیاء کرام کی تعلیمات کی وجہ سے ان کے بازوؤں میں دشمن کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ باقی تھا۔ وہ خوب لڑے مگر وہ بھی اشوریوں کے باج گذار بن کر رہنے پر مجبور ہوگئے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے تقریباً چھ سو سال پہلے بخت نصر نے اپنی پوری قوت و طاقت سے سلطنت یہودیہ پر قبضہ کرلیا۔ ان کے بادشاہ کو گرفتار کر کے جیل خانہ میں ڈال دیا گیا۔ ان کے شہروں کو تباہ و برباد کردیا گیا اور ہیکل سلیمانی کی اینٹ سے این بجا کر رکھ دی گئی یہاں تک کہ اس کی دیواریں بھی سلامت نہ رہیں۔ لاکھوں یہودیوں کو ملک سے نکال دیا گیا ۔ جو لوگ اس سلطنت میں رہ گئے تھے ان کو اس قدر ذلیل و خوار کردیا گیا کہا نہیں اپنے وجود پر شرم آنے لگی۔ اگر یہ لوگ انبیاء کرام کی اطاعت کرتے جو قدم قدم پر ان کو سمجھاتے رہے، برے انجام سے ڈراتے رہے تو انہیں اس بدترین تباہی سے واسطہ نہ پڑتا مگر اللہ اور اس کے رسولوں کی تعلیمات سے منہ موڑنے والی قوم کا انجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے تک یہ وہ فساد عظیم تھا جس کا قرآن کریم نے ان آیات میں تذکرہ فرمایا ہے۔ دوسرا فساد اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، انکساری اور توبہ استغفار سب سے بڑی سعادت اور نیکی ہے۔ چناچہ یہودیوں کی وہ حکومت جو سلطنت یہودیہ کے نام سے مشہور ہے اس میں انبیاء کرام کی تعلیمات کی وجہ سے اتنی جان موجود تھی کہ وہ کفار و مشرکین کے عقائد اور غلط نظریات کا مقابلہ کرسکے۔ ان کی اس جدوجہد اور توبہ استغفار کا نتیجہ یہ نکلا کہ ” بابل کی سلطنت “ زوال پیذر ہونا شروع ہوگئی اور ایران کے سائرس نے بابل کی سلطنت کو شکست دے کر فتح کرلیا۔ ایرانی فاتح کی اجازت سے ایک مرتبہ پھر بنی اسرائیل کو وطن آنے کی اجازت مل گئی اور یہودیوں کے قافلے بڑی تیزی سے فلسطین آنا شروع ہوگئے۔ ہیکل سلیمان کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت کے ساتھ ہی اس علاقے کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ جب سلطنت یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے کو بابل کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے اس وقت کے موجود انبیاء اور علماء کو اپنے ارگرد جمع کرلیا اور ان کی نگرانی میں ہیکل سلیمان کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ بعد میں حضرت عزیز کو شاہ ایران نے ایک خصوصی فرمان کے ذریعہ حکومت کا نگران مقرر کردیا۔ حضرت عزیز نے اس قدر تیزی کے ساتھ اصلاحات کا آغاز کیا کہ قوم بنی اسرائیل ایک دفعہ پھر خواب غفلت سے بیدار ہو بیٹھی۔ حضرت عزیز نے بائبل کی ترتیب، عوام کے لئے تعلیم کا انتظام، قوانین شریعت کا نفاذ اور اخلاق و اعتقاد کی اصلاح کے لئے انقلابی اقدامات کئے۔ حضرت عذیر کے بعد بھی ہیکل سلیمانی (بیت المقدس) کی آباد کاری کا کام جاری رہا اس طرح بنی اسرائیل کو ابھر کر کام کرنے کا موقع مل گیا لیکن ایرانی سلطنت کے زوال، سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج نے اس پوری قوم کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا۔ یونانیوں کی حکومت نے بنی اسرائیل کے اخلاق کو اتنی تیزی سے بگاڑنا شروع کردیا کہ حکومت کی کوشش سے ہر بد اخلاقی اور بد کرداری کو قوت سے رواج دینا شروع کردیا۔ بنی اسرائیل پر اور مذہبی طبقہ پر ظلم و جبر کا ایک نیا باب کھل گیا۔ بنی اسرائیل کی بےدینی اور کھیل کود میں لگ جانے کی وجہ سے کافر کو اس حد تک ہمت پیدا ہوگئی کہ حکومت وقت نے بیت المقدس میں بت رکھوا کر ان کی عبادت کرنے کو لازمی قرار دیدیا۔ اس مذہبی ظلم و ستم نے یہودیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ بنی اسرائیل نے متحد ہو کر حالات کا مقابلہ اس تحریک کے نتیجے میں انہوں نے کفار و مشریکن کی صفوں کو ابلٹ کر رکھ دیا۔ لیکن کچھ زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ بنی اسرائیل پر ایک مرتبہ پھر دنیا کی دولت عیش و آرام اور بدکرداریوں نے غلبہ حاصل کرلیا اور اس طرح رومی فاتح نے یہودیوں کی سلطنت پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے بعد یہودیوں کی بدقسمتی کا دور شروع ہوا۔ ان کی سلطنت لٹ گئی لاکھوں یہودیوں کو یا تو قتل کردیا گیا یا ان کو وطن سے بےوطن کر کے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا گیا۔ یہ ہے وہ دوسرا فساد عظیم جس نے یہودیوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کی طرف اشارہ کر کے یہ بتا دیا ہے کہ اب ان یہودیوں کی سربلندی اسی میں ہے کہ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین پر چلنے کی مخلصانہ جدوجہد کریں اسی سے ان کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ ایک بار شریعت موسویہ کی مخالفت، دوسری بات شریعت عیسویہ کی مخالفت۔ 1۔ یعنی زیادتیاں کرو گے، پس لتفسدن میں حقوق اللہ کے اور لتعلن میں حقوق العباد کے ضائع کرنے کی طرف اشارہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بائبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا۔ دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیشین گوئی حضرت مسیح (علیہ السلام) نے کی ہے جو متٰی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی تصدیق ہوجائے۔ پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں : ” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان جیسے کام سیکھ لیے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں یعنی اپنے بیٹیوں کا خون بہایا۔۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا یا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے۔ “ [ زبور : باب ١٠٦ آیات ٣٤۔ ١٤] جب یہ فساد عظیم رونما ہوا۔ تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ ( علیہ السلام) نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں : ” آہ ! خطا کار گروہ، بدکرداری سے لدی ہوئی قوم، بدکرداروں کی نسل مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ وبرگشتہ ہوگئے، تم زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے۔ “ [ باب : ١، آیت ٤۔ ٥] ” وفادار بستی کیسی بد کار ہوگئی ! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راست بازی اس میں بستی تھی لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔ تیرے سردار گردن کش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے۔ وہ یتیموں سے انصاف نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خدا وند رب الافواج اسرائیل کا قادر فرماتا ہے کہ آہ میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا۔ “ [ باب : ١، آیت ٢١ تا ٢٤] ” وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلسفیوں کی مانند شگون لیتے ہیں اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔ اور ان کی سر زمین بتوں سے پُر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں۔ “ [ زبور : باب ٢ آیت ٦۔ ٨] ” اے بنو اسرائیل کے گھرانے ! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑھالاؤں گا۔ خداوند فرماتا ہے وہ زبر دست قوم ہے وہ قدیم قوم ہے وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں وہ تیری فصل کا ناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلوار سے ویران کردیں گے۔ “ [ زبور : باب ٥ آیت ١٥۔ ١٧] ” اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوارک ہوں گی اور ان کو کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یروشلم کے بازاروں میں خوشی اور شادمانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا تاکہ یہ ملک ویران ہوجائے۔ “ [ زبور : باب ٧ آیت ٣٣۔ ٣٤] ” ان کو میرے سامنے نکال دے کہ چلے جائیں اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خدا وند فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے وہ موت کی طرف اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف اور جو قحط کے لیے وہ قحط کی طرف اور جو اسیری کے لیے وہ اسیری میں۔ “ [ زبور : باب ٥ آیت ٢۔ ٣] یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کے پہلے فساد عظیم کے موقع پر کی گئی۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن ) مسائل ١۔ بنی اسرائیل زمین میں فساد کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر سخت گیر بندے مسلط فرمائے۔ ٣۔ بنی اسرائیل کے گھروں کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے مال اور بیٹے عطا فرماتا ہے۔ ٥۔ نیکی کا صلہ نیکی کرنے والے کو ہی ملے گا۔ ٦۔ برے کو اس کی برائی کا بدلہ ضرور ملے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت کا نزول کرتا ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے جہنم قید خانہ بنایا۔ تفسیر بالقرآن کفار کا ٹھکانہ : ١۔ کفار سے فرما دیں کہ عنقریب تم مغلوب ہوگے اور تمہیں جہنم کی طرف اکٹھا کیا جائے گا۔ (آل عمران : ١٢) ٢۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔ (النساء : ٩٧) ٣۔ کفار کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ اس میں انہیں موت نہیں آئے گی۔ (فاطر : ٣٦) ٤۔ کفار کو جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکا جائے گا۔ (الزمر : ٧١) ٥۔ مجرم لوگ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ٦۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے جب اس کی آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٧۔ سرکشوں کے لیے انتہائی بری جگہ ہے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور برا ہے ان کا بچھونا۔ (ص : ٥٦) ٨۔ وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البینۃ : ٦) ٩۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اس سے بچنے کی جگہ نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٢١) ١٠۔ اے نبی ! کفا رکے خلاف جہاد کیجیے اور ان پر سختی کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (التحریم : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب لتفسدون فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیرا (٧١ : ٤) ” پھر ہم اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے “۔ یہ تنبیہ ان کو دراصل اس بات کی پیشگی اطلاع تھی کہ تمہارے ساتھ یہ یہ ہونے والا ہے۔ کیونکہ اللہ ان کے ہونے والے انجام سے پیشگی باخبر تھا۔ یہ اطلاع محض پیشگی علم کی وجہ سے تھی۔ اس میں ان کے لئے جبر کا کوئی پہلو نہ تھا۔ یا یہ کہ ان کے اندر جو فساد بعد میں پیدا ہوا ، وہ محض اس پیشگی اطلاع کی وجہ سے پیدا ہوا ، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کسی کو فساد پر مجبور کرے۔ قل ان اللہ لا یا مر بالفحشاء ” کہہ دو ، اللہ فحاشی پھیلانے کا حکم نہیں دیتا “۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والے تھے۔ اللہ کے علم میں جو بات ہوتی ہے ، اگرچہ بشر کو اس کا علم نہیں ہوتا اور پردہ تب اٹھتا ہے جو بشر اس کام کو کر بیٹھتا ہے۔ اللہ کا فیصلہ یہ تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب میں بتا بھی دیا تھا کہ بنی اسرائیل اپنی تاریخ میں دو مرتبہ فساد برپا کریں گے۔ اور اس طرح وہ زمین میں سرکشی اختیار کرلیں گے۔ بیت المقدس پر ان کا غلبہ ہوگا۔ لیکن اپنے اس غلبے کو دوہ ذریعہ فساد بتائیں گے۔ جن لوگوں پر ان کو برتری حاصل ہوگی ان کی جان اور آبرو کے نزدیک مباح ہوجائے گی اور یہ لوگوں کو تباہ کردیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ تخویف دنیوی کا ایک نمونہ ہے۔ بنی اسرائیل کو ہم نے تورات میں بتادیا تھا کہ تم دو بار زمین میں شر و فساد بپا کرو گے پہلی بار تم پر ایک سخت گیر اور جابر قوم کو مسلط کر کے تمہیں ذلیل کریں گے اس کے بعد تم پر انعام کریں گے اس کے بعد اگر تم نے پھر فساد کیا تو دنیا و آخرت میں سخت عذاب دیں گے۔ اے مشرکین مکہ اسی طرح پہلے ہم نے تم پر قحط مسلط کیا پھر قحط اٹھا کر تم پر مہربانی کی مگر تم شرک سے باز نہ آئے تو پھر معجزہ معراج دکھایا گیا اس لیے اگر اب بھی شرک سے باز نہ آؤ گے اور توحید سے اعراض کروگے تو دنیا و آخرت میں رسوا کن عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے۔ ” لتفسدن فی الارض الخ “ فساد فی الارض سے احکام تورات کی مخالفت مراد ہے یرید المعاصی و خلاف احکام التوراۃ (کبیر ج 5 ص 548) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 اور ہم نے بنی اسرائیل پر کتاب میں یہ بات واضح کردی تھی اور ان کو یہ بات بتادی تھی کہ تم یقینا ملک میں دوبارہ فساد برپا کرو گے اور چڑھ جائو گے بری طرح کا چڑھنا اور تم بڑی سخت سرکشی کا ارتکاب کرو گے۔ یعنی توریت میں یا لوح محفوظ میں یہ بات بنی اسرائیل کو صاف طور پر بتادی تھی کہ بخدا تم ملک میں دو دفعہ فساد برپا کرو گے اور صحیح تعلیم سے ہٹ جائو گے اور تکبر کے مرتکب ہو کر بہت اونچے ہو جائو گے اور اپنے کو بہت بلند سمجھنے لگو گے۔ اور جب دنیا کی قوموں میں نافرمانی، کفران نعمت، غیر اللہ پرستی اور خصائل قبیحہ مذمومہ پیدا ہوجاتے ہیں تو اس قوم پر مختلف عذاب نازل ہوتے ہیں اسی کا آگے ذکر فرمایا۔