Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 46

سورة بنی اسراءیل

وَّ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِذَا ذَکَرۡتَ رَبَّکَ فِی الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَہٗ وَلَّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ نُفُوۡرًا ﴿۴۶﴾

And We have placed over their hearts coverings, lest they understand it, and in their ears deafness. And when you mention your Lord alone in the Qur'an, they turn back in aversion.

اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ اور جب تو صرف اللہ ہی کا ذکر اس کی توحید کے ساتھ ، اس قرآن میں کرتا ہے تو وہ روگردانی کرتے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً ... And We have put coverings over their hearts, Akinnah (coverings) is the plural of Kinan, which covers the heart. ... أَن يَفْقَهُوهُ ... lest they should understand it, means, lest they should understand the Qur'an. ... وَفِي اذَانِهِمْ وَقْرًا ... and in their ears deafness, something that will stop them from...  hearing the Qur'an in such a way that they will understand it and be guided by it. ... وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْانِ وَحْدَهُ ... And when you make mention of your Lord Alone in the Qur'an, means, when you declare Allah to be One in your recitation, and say La Ilaha Illallah, ... وَلَّوْاْ ... they turn, means they turn away , ... عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا on their backs, fleeing in extreme dislike. As Allah says: وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِالاٌّخِرَةِ And when Allah Alone is mentioned, the hearts of those who believe not in the Hereafter are filled with disgust (from the Oneness of Allah).(39:45) ... وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْانِ وَحْدَهُ ... And when you make mention of your Lord Alone in the Qur'an, Commenting on this Ayah, Qatadah said that; when the Muslims said La Ilaha Illallah, the idolators disliked this and found it intolerable. Iblis and his troops hated it, but Allah insisted on supporting it so that it would prevail over those who opposed it. Whoever uses it against his opponent will prevail, and whoever fights for it will be victorious. Only the Muslims of the Arabian Peninsula, which can be traversed by a rider in a few nights, knew it and accepted it, out of all mankind.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 اکنۃ، کنان کی جمع ہے ایسا پردہ جو دلوں پر پڑجائے وقر کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے انھیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر تو بھاگ ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان افعال کی ن... سبت اللہ کی طرف، بہ اعتبار خلق کے ہے۔ ورنہ ہدایت سے محرومی ان کے جمود وعناد ہی کا نتیجہ تھا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] یہ چھپا ہوا پردہ اور دلوں پر پڑا ہوا پردہ ہونا یا ان کا ایسا محفوظ ہونا کہ کوئی بیرونی چیز ان پراثر نہ کرسکے اور کانوں کی ثقل سماعت ہونا۔ یہ سب باتیں قریش مکہ نے خود ہی بڑے فخر سے اپنے متعلق کہی تھیں۔ جیسا کہ یہی باتیں سورة حم السجدہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی یہی کچھ چاہتے...  تھے لہذا اللہ نے انھیں ویسا ہی بنادیا۔ قریشی سرداروں نے مسلمانوں کے علاوہ اپنے آپ پر بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو اسے کوئی بھی نہ سنے لیکن وہ خود بھی اپنی اس عائد کردہ پابندی کو نبھا نہ سکے۔ تاہم مخالفت میں پہلے سے بھی بڑھتے گئے۔ [٥٦] مشرکوں کی توحید سے نفرت کی ایک نشانی :۔ کیونکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے ان کے معبودوں کی از خود نفی ہوجاتی تھی جسے وہ صرف اپنے معبودوں کی ہی توہین نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی بھی توہین سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے معبودوں کی نفی کرنے یا انھیں بالکل بےاختیار کہنے کا صاف مطلب یہ نکلتا تھا کہ یہ سرداران قریش اور ان کے آباء و اجداد سب کے سب بیوقوف ہی تھے جو ان کو بااختیار سمجھ کر ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے۔ لہذا اکیلے اللہ کا ذکر سنتے تو غصہ اور نفرت کی بنا پر وہاں سے بھاگ اٹھتے۔ اور یہ بات کچھ دور نبوی کے مکہ سے مخصوص نہیں۔ آج کل کے مشرکوں کا بھی یہی حال ہے۔ آپ ان حضرات کے خطبات جمعہ اور تقریریں وغیرہ سنیں تو ان کا اکثر حصہ ان کے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی کرامات اور تصرفات کا ذکر آئے گا۔ ابتدا میں رسمی طور پر تبرکا |" کوئی آیت ضرور پڑھ لی جاتی ہے۔ لیکن بعد کی تقریر بس ان بزرگوں کی مدح وثناء اور کرامات وغیرہ بیان کی جاتی ہیں اور ان کے پیرو کار پسند بھی ایسی ہی تقریر کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں اور درمیان میں اللہ کا ذکر آجائے تو اسے بھی گوارا ہونے کی حد تک برداشت کرلیتے ہیں لیکن اگر صرف توحید باری تعالیٰ کا بیان ہو تو اس بیکیف اور کئی بار سنی ہوئی تقریر سے ان کی طبیعت بور ہوجاتی ہے۔ اور خطبہ جمعہ کے علاوہ کسی جلسہ وغیرہ میں تقریر ہو رہی ہو تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ۭ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا 46؀ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَ... يْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ كن الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] . وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] . والکِنَانُ : الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ. نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة . ( ک ن ن ) الکن ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ الکنان ۔ پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔ فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ وقر الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] والوَقْرُ : الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] قيل : هو من الوَقَارِ. وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها . ( و ق ر ) الوقر ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رتا کے ایک خاص حصے میں اس بات سے روک دیا تھا تاکہ ان کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا رسانی ممکن نہ رہے۔ ایک قول کے مطابق ہم ... نے ان پر یہ حکم لگا کر کہ وہ گمراہی کے اسی مقام پر رہیں گے ان کے دلوں کو قرآن فہمی کے لئے ناکارہ بنادیا تھا۔ اس میں ان کی ایک طرح مذمت تھی جس کی بنیاد یہ تھی کہ وہ نہ صرف حق کو سمجھنے اور اس کی طرف کان دھرنے سے پہلے بچاتے ہیں بلکہ اس سے منہ پھیر لیتے اور بدکتے بھی ہیں۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) اور جب آپ کلمہ لاالہ الا اللہ “۔ کا ذکر کرتے ہیں تو یہ لوگ اپنے بتوں کی طرف لوٹ جاتے اور ان کی عبادت کی طرف جھک جاتے اور آپ کے فرمان سے دور بھاگ جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا) یہ لوگ اپنے تعصب کی وجہ سے اکیلے اللہ کا ذکر بطور معبود برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ ساتھ ان کے معبودوں کا بھی کبھی کبھار ذکر ہوا کرے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں وہ اکیلے اللہ کا ذکر ... سننے کو تیار نہیں ہیں۔ چناچہ وہ بدک کر نفرت کے ساتھ پیٹھ موڑ کر چلے جاتے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51. This refers to the divine law according to which those people, who do not believe in the Hereafter, cannot benefit from the Quran. Allah has attributed this law to Himself, as if to say: The natural result of disbelief in the Hereafter is that the heart of such a man becomes dull and his ears become deaf to the message of the Quran, for Quran bases its invitation on the belief in the Hereafter... . So it warns the people that they should not be deluded by this apparent aspect of the worldly life if there appears to be none to call them to account here; for it does not mean they are not at all accountable and answerable to anyone. Likewise if Allah allows freedom of belief to practice shirk, atheism, disbelief or Tauhid with impunity in this world, and their practice does not appear to make any practical difference in this world, it does not mean that these things do not produce any results at all. For, in fact, everyone shall be accountable and answerable after death in the next world. Then everyone will realize that the doctrine of Tauhid alone is true and all other doctrines are false. For, if at present the consequences of deeds do not appear after death, they shall inevitably appear, but the reality has now been hidden behind an invisible curtain. There is an inevitable moral law according to which submission to it will bear its fruit and disobedience shall incur its losses. As decisions according to this moral law will be made in the Hereafter. You should not be enticed by the charms of this transitory life. You should, therefore, keep in view that ultimately you shall have to render an account of all your deeds in this world before your Lord, and adopt that true creed and moral attitude which may be conducive to your success in the Hereafter. From this it must have become obvious that if a man does not believe in the Hereafter, he will never consider the message of the Quran worth his while but will hanker after this world and its joys which he can feel and experience. Naturally his ears will not listen to the message and it will never reach the depths of his heart. Allah has stated this psychological fact in this verse. In this connection, it should be remembered that the words contained in this verse were uttered by the disbelievers of Makkah as quoted in (Ayat 5 of Surah HamimSajdah): “They say, O Muhammad, a covering has fallen over our hearts, and our ears are deaf for the message you give and there is a curtain between you and us. You may go on with your work and we will do whatever we desire.” Here the same words have been cited, as if to say: You consider this state of yours to be a virtue, whereas this is a curse which has fallen on you according to the divine law because of your disbelief of the Hereafter. 52. That is, they do not like it at all that you should consider Allah alone as your Lord and not mention the Lords they have set up. They seem to think it strange that one should go on praising Allah and never mention the miracles of their elders and saints nor praise them for their favors. For, according to them, Allah has delegated the powers of His Godhead to their great ones. Therefore, they say: What a strange fellow he is! He believes that the knowledge of the unknown, and all the power and authority belong to One Allah alone. Why does he not pay tribute to those who give us children, cure us of diseases, and help make our commerce flourish, in short, fulfill all our wishes and desires.  Show more

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :51 یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کے دل پر کفل چڑھ جائیں اور اس کے کان اس دعوت کے لیے بند ہو جائیں جو قرآن پیش کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تو دعوت ہی اس بنیاد پر ہے کہ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ نہ کھاؤ ۔ یہاں اگر کوئی حساب ل... ینے والا جواب طلب کرنے والا نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھو کہ تم کسی کے سامنے ذمہ وار و جواب دہ ہو ہی نہیں ۔ یہاں اگر شرک ، دہریت ، کفر ، توحید ، سب ہی نظریے آزادی سے اختیار کیے جاسکتے ہیں ، اور دنیوی لحاظ سے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا ، تو نہ سمجھو کہ ان کے کوئی الگ الگ مستقل نتائج ہیں ہی نہیں ۔ یہاں اگر فسق و فجور اور اطاعت وتقوی ، ہر قسم کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور عملا ان میں سے کسی رویے کا کوئی ایک لازمی نتیجہ رونما نہیں ہوتا تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی اٹل اخلاقی قانون سرے سے ہے ہی نہیں ۔ دراصل حساب طلبی و جواب دہی سب کچھ ہے ، مگر وہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہوگی ۔ توحید کا نظریہ برحق اور باقی سب نظریات باطل ہیں ، مگر ان کے اصلی اور قطعی نتائج حیات بعد الموت میں ظاہر ہوں گے اور وہیں وہ حقیقت بے نقاب ہوگی جو اس پر وہ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے ۔ ایک اٹل اخلاقی قانون ضرور ہے جس کے لحاظ سے فسق و نقصان رساں اور طاعت فائدہ بخش ہے ، مگر اس قانون کے مطابق آخری اور قطعی فیصلے بھی بعد کی زندگی ہی میں ہوں گے ۔ لہٰذا تم دنیا کی اس عارضی زندگی پر فریفتہ نہ ہو اور اس کے مشکوک نتائج پر اعتماد نہ کرو ، بلکہ اس جواب دہی پر نگاہ رکھو جو تمہیں آخرکار اپنے خدا کے سامنے کرنی ہوگی ، اور وہ صحیح اعتقادی اور اخلاقی رویہ اختیار کرو جو تمہیں آخرت کے امتحان میں کامیاب کرے ۔ یہ ہے قرآن کی دعوت ۔ اب یہ بالکل ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو شخص سرے سے آخرت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کا سارا اعتماد اسی دنیا کے مظاہر اور محسوسات و تجربات پر ہے ، وہ کبھی قرآن کی اس دعوت کو ناقابل التفات نہیں سمجھ سکتا ۔ اس کے پردہ گوش سے تو یہ آواز ٹکرا ٹکرا کر ہمیشہ اچٹتی ہی رہے گی ، کبھی دل تک پہنچنے کی راہ نہ پائے گی ۔ اسی نفسیاتی حقیقت کو اللہ تعالی ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو آخرت کو نہیں مانتا ، ہم اس کے دل اور اس کے کان قرآن کی دعوت کے لیے بند کر دیتے ہیں ۔ یعنی یہ ہمارا قانون فطرت ہے جو اس پر یوں نافذ ہوتا ہے ۔ یہ بھی خیال رہے کہ کفار مکہ کا اپنا قول تھا جسے اللہ تعالی نے ان پر الٹ دیا ہے ۔ سورہ حم سجدہ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا اِلَیْہِ وَفِی ْاٰذَانِنَا وَقْرٌوَّ مِنْۢ بَینِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ( آیت ۵ ) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تو جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہو گیا ہے ۔ پس تو اپنا کام کر ، ہم اپنا کام کیے جا رہے ہیں“ ۔ یہاں ان کے اس قول کو دہرا کر اللہ تعالی یہ بتا رہا ہے کہ یہ کیفییت جسے تم اپنی خوبی سمجھ کر بیان کر رہے ہو ، تو دراصل ایک پھٹکار ہے جو تمہارے انکار آخرت کی بدولت ٹھیک قانون فطرت کے مطابق تم پر پڑی ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :52 یعنی انہیں یہ بات سخت ناگوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو رب قرار دیتے ہو ، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے ۔ ان کو یہ وہابیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے ۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر ۔ نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف ۔ نہ ان شخصیتوں کی خدمت میں کوئی خراج تحسین جن پر ، ان کے خیال میں ، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علم غیب ہے تو اللہ کو ، قدرت ہے تو اللہ کی ، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے ۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے ، بیماریوں کو شفا نصیب ہوتی ہے ، کاروبار چمکتے ہیں ، اور منہ مانگی مرادیں بر آتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزمر ، آیت ٤۵ ، حاشیہ ٤٦ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:46) اکنۃ۔ کنان کی جمع پردے۔ غلاف۔ کن یکن (نصر) کن وکنون۔ مصدر۔ مکنون چھپایا ہوا۔ سیپ میں محفوظ۔ وقرا۔ اسم مصدر۔ منصوب ۔ ثقل ۔ بہرہ پن ۔ گرانی۔ ولوا۔ ماضی جمع مذکر غائب تولیۃ مصدر۔ منہ موڑ کر ۔ پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں۔ علی ادبارہم پیٹھ موڑ کر ادبار دبر کی جمع بمعنی پیٹھ۔ نفورا۔ نفرت کرتے ہوئے۔...  ضمیر فاعل ولوا سے حال ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جب انہوں نے آخرت سے انکار کیا اور پھر ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے کہ ہزار سمجھانے کے باوجود انکار کرتے ہی چلے گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اور آنحضرت کے مابین ایک دبیز پردہ حائل ہوگیا۔ ان کے دلوں پر غلاف چڑھ گئے اور انکے کان ہر نصیحت کرنے والے کی بات سننے سے بہرے ہوگئے مگر وہ ب... دبخت اس پردے اور بوجھ کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔ (دیکھیے السجدہ :5) لیکن چونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اس لئے ان تمام چیزوں کی خلق کی نسبت بھی اسی کی طرف کردی گئی ہے۔10 کیونکہ وہ تو شرک ہی کو پسند کرتے ہیں اور توحید سے انہیں چڑ ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی وہ پردہ عدم فہم اور عدم رادہ فہم ہے، جس سے وہ آپ کی شان نبوت کا ادراک نہیں کرسکتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اذا ذکرت ربک فی القران وحدہ ولا علی ادبار ھم نفورا (٧١ : ٦٤) ۔ ترجمہ : ” اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں “۔ یہ نفرت ان کو لفظ وحدہ سے تھی۔ کیونکہ عقیدہ توحید ان کے اجتماعی نظام کو ختم کر رہا تھا۔ ان کا اجتماعی نظام بت پرستی اور جاہلیت کے رسم و رواج پر...  قائم تھا ، جس میں قریش کی امتیازی حیثیت تھی ، ورنہ وہ خود جانتے تھے کہ ان کے عقائد میں کس قدر جھول ہے اور اسلام کے نظریات کس قدر پختہ ہیں۔ نیز وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن ایک نہایت ہی بلند پایہ پیغام و کلام ہے۔ اور اس کی ایک امتیازی شان ہے۔ اور قرآن کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ وہ اس کی طرف کھینچے چلے جاتے تھے حالانکہ وہ اس سے اپنے آپ کو بچانے کی سعی بھی کرتے تھے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے میں جدوجہد بھی کرتے تھے۔ ان کا ضمیر اور ان کی فطرت ان کو اس بات پر مجبور کررہی تھی کہ وہ بات سنیں ، متاثر ہوں ، لیکن غرور کی وجہ سے وہ تسلیم کرنے اور یقین کرنے سے باز رو رہے تھے۔ اپنی ہٹ دھرمی اور مکابرہ کو وہ یوں چھپاتے تھے کہ رسول اللہ پر مختلف قسم کے الزامات عائد کرتے تھے۔ مثلاً یہ کہ آپ جادوگر ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ یہ مشرکین کے حق کو نہ ماننے اور مسئلہ توحید کا انکار کرنے کی علت ہے۔ جب آپ قرآن مجید کی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں تو آپ کے اور ان کے درمیان پردہ لٹکا دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ قرآن سن ہی نہیں پاتے۔ پردہ سے ضد وعناد کا معنوہ پردہ مراد ہے مشرکین محض ضد و حسد اور تعصب وعناد کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ ... علیہ وآلہ وسلم) کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، آپ سے دور رہتے اور نفرت کرتے تھے یہی معنوی پردہ درمیان میں حائل تھا جو انہیںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آنے نہیں دیتا تھا ” و جعلنا علی قلوبھم اکنۃ الخ “ ضد وعناد اور انکار و جحود کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے اور ان سے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوچکی ہے اس لیے اہل لسان ہونے کے باوجود قرٓان کو سمجھ نہیں سکتے۔ ” ان یفقہوہ ای کراھۃ ان یفقہوہ (قرطبی) “۔” و اذا ذکرت ربک الخ “ جب قرآن میں اللہ کی توحید کا ذکر آتا ہے اور آپ توحید کی آیتیں ان کو پڑھ کر سناتے ہیں تو وہ نفرت سے دور بھاگتے ہیں وہ چاہتے کہ اللہ کے ساتھ ان کے معبودان باطلہ کا بھی ذکر کیا جائے۔ ای یحبون ان تذکر معہ الھتہم لانھم مشرکون فاذا سمعوا بالتوحید نفروا (مدارک ج 2 ص 244) ۔ جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” و اذا ذکر اللہ وحدہ اشمازت قلوب الذین لا یومنون بالاخرۃ واذا ذکر الذین من دونہ اذا ھم یستبشرون “ (زمر رکوع 5) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

46 اور وہ یہ کہ ہم ان کے دلوں پر پردے ڈالتے ہیں تاکہ وہ اس قرآن کریم کو سمجھ نہ سکیں اور ہم ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیتے ہیں اور جب آپ قرآن کریم میں صرف اپنے پروردگار کی خوبیاں اور اس کے اوصاف و کمالات کا ذکر کرتے ہیں تو وہ کافر پیٹھ پھیر کر نفرت ظاہر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ یعنی کفر و عصیان موجب...  ہوتا ہے۔ عدم فہم اور عدم ارادئہ فہم کا اسی کو پر وہ اور ثقل فرمایا ہے یہ باتیں مومنین پر بھی کبھی ظاہر ہوتی ہیں۔ جب کوئی غلطی اور گناہ ہوجاتا ہے تو عبادت کی لذت سلب ہوجاتی ہے یا جماعت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ اور جہاں بالکل ہی عناد اور سرکشی ہو اور دین کا مقابلہ ہو اس کا اثر بھی اتنا سخت ہونا چاہئے جہاں صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نفرت ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کی تعریف و توصیف کی خواہش ہو اور جہاں یہ دعوے ہوں۔ ” وقالوا قلوبنا فی آکنہ مما تدعونآ الیہ وفی آذاننا و قرومن م بیننا و بینک حجاب “۔ وہاں جتنے بھی پردے ہوں اور جتنی بھی رکاوٹ ہو وہ کم ہے۔ بہرحال ! انسان کی نافرمانی اور طغیانی اور سرکشی ہی کا نام پردہ ہے اور اسی کا نام ثقل ہے۔ اعاذنا اللہ منہ،  Show more