Commentary Using foul or harsh language is not correct, even against infidels The first verse (53) prohibits Muslims from talking harshly to disbelievers. It means that a hard line should not be taken unnecessarily, and should there be the need, even killing would be in order - as succinctly put in two lines of Persian poetry: کہ بےحکم شرع آب خوردن خطاست وگر خون بفتوٰی بریزی رواست Whereas, without an injunction of the Shari` ah, to drink water is a sin, In another case, to shed blood under Fatwa is permissible! Since it is possible to suppress the aggressive might of disbelievers and their hostility to Islam through fighting and killing (as an inevitable measure of defense), therefore, it is allowed. However, by using foul lan¬guage and harsh words, neither a castle stands conquered nor anyone guided right, therefore, it has been prohibited. Imam al-Qurtubi said that this verse was revealed in the background of an event relating to Sayyidna ` Umar (رض) . It so happened that someone used foul language against Sayyidna ` Umar (رض) who retaliated harshly and wanted to kill him. This posed the danger of a war breaking out between their two tribes. Thereupon, this verse was revealed. And according to the interpretation of Imam al-Qurtubi, this verse contains a guideline for Muslims as to how they should address each oth¬er. It suggests that they should not speak harshly at the time of mutual difference, for this is a trap door through which the Shaitan pushes them into mutual infighting and disorder.
خلاصہ تفسیر : اور آپ میرے (مسلمان) بندوں سے کہہ دیجئے کہ (اگر کفار کو جواب دیں تو) ایسی بات کہا کریں جو (اخلاق کے اعتبار سے) بہتر ہو (یعنی اس میں سب و شتم اور تشدد اور اشتعال انگیزی نہ ہو کیونکہ) شیطان (سخت بات کہلوا کر) لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے واقعی شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے (اور وجہ اس تعلیم کی یہ ہے کہ سختی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور ہدایت و گمراہی تو مشیت ازلیہ کے تابع ہے) تم سب کا حال تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے (کہ کون کس قابل ہے بس) اگر وہ چاہے تو تم (میں سے جس) پر (چاہے) رحمت فرما دے (یعنی ہدایت کر دے) یا اگر وہ چاہے تو تم (میں سے جس) کو (چاہے) عذاب دینے لگے (یعنی اس کو توفیق اور ہدایت نہ دے) اور ہم نے آپ (تک) کو ان (کی ہدایت) کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا (اور جب باوجود نبی ہونے کے آپ ذمہ دار نہیں بنائے گئے تو دوسروں کی کیا مجال ہے اس لئے کسی کے درپے ہونا اور سختی کرنا بےفائدہ ہے) اور آپ کا رب خوب جانتا ہے ان کو (بھی) جو کہ آسمانوں میں ہیں اور (ان کو بھی جو کہ) زمین میں ہیں (آسمان والوں سے مراد فرشتے اور زمین والوں سے مراد انسان اور جنات ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم خوب واقف ہیں کہ ان میں سے کس کو نبی اور رسول بنانا مناسب ہے کس کو نہیں اس لئے اگر ہم نے آپ کو نبی بنادیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے) اور (اس طرح اگر ہم نے آپ کو دوسروں پر فضیلت دے دیتو تعجب کیا ہے کیونکہ) ہم نے (پہلے بھی) بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے (اور اسی طرح اگر ہم نے آپ کو قرآن دیا تو تعجب کی کیا بات ہے کیونکہ آپ سے پہلے) ہم داؤد کو زبور دے چکے ہیں۔ معارف و مسائل : بدزبانی اور سخت کلامی کفار کے ساتھ درست نہیں : پہلی آیت میں جو مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ سخت کلامی سے منع کیا گیا ہے اس کی مراد یہ ہے کہ بےضرورت سختی نہ کی جاوے اور ضرورت ہو تو قتل تک کرنے کی اجازت ہے۔ کہ بےحکم شرع آب خوردن خطاست، وگر خون بفتوی بریزی رواست قتل و قتال کے ذریعہ کفر کی شوکت اور اسلام کی مخالفت کو دبایا جاسکتا ہے اس لئے اس کی اجازت ہے گالی گلوچ اور سخت کلامی سے نہ کوئی قلعہ فتح ہوتا ہے نہ کسی کو ہدایت ہوتی ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے امام قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ایک واقعہ میں نازل ہوئی جس کی صورت یہ تھی کہ کسی شخص نے حضرت فاروق اعظم (رض) کو گالی دی اس کے جواب میں انہوں نے بھی سخت جواب دیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا اس کے نتیجہ میں خطرہ پیدا ہوگیا کہ دو قبیلوں میں جنگ چھڑ جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور قرطبی کی تحقیق یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو آپس میں خطاب کرنے کے متعلق ہدایت ہے کہ باہم اختلاف کے وقت سخت کلامی نہ کیا کریں کہ اس کے ذریعہ شیطان ان کے آپس میں جنگ و فساد پیدا کرا دیتا ہے۔