Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 53

سورة بنی اسراءیل

وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا ﴿۵۳﴾

And tell My servants to say that which is best. Indeed, Satan induces [dissension] among them. Indeed Satan is ever, to mankind, a clear enemy.

اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے ۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

People should speak Good Words with Politeness Allah commands: وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُواْ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا And say to My servants that they should say those words that are best. (Because) Shaytan verily, sows a state of conflict and disagreement among them. Surely, Shaytan is to man a plain enemy. Allah commands His servant Muhammad to tell the believing servants of Allah that they should address one another in their conversations and discussions with the best and politest of words, for if they do not do that, Shaytan will sow discord among them, and words will lead to actions, so that evil and conflicts and fights will arise among them. For Shaytan is the enemy of Adam and his descendants, and has been since he refused to prostrate to Adam. His enmity is obvious and manifest. For this reason it is forbidden for a man to point at his Muslim brother with an iron instrument, for Shaytan may cause him to strike him with it. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said: "The Messenger of Allah said: لاَا يُشِيرَنَّ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ فَإِنَّهُ لاَا يَدْرِي أَحَدُكُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ أَنْ يَنْزِعَ فِي يَدِهِ فَيَقَعَ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّار No one of you should point at his brother with a weapon, for he does not know whether Shaytan will cause him to strike him with it and thus be thrown into a pit of Fire. Al-Bukhari and Muslim recorded this Hadith with the chain of narration from Abdur-Razzaq.

مسلمانو ایک دوسرے کا احترام کرو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ اچھے الفاظ ، بہتر فقروں اور تہذیب سے کلام کرتے رہیں ، ورنہ شیطان ان کے آپس میں سر پھٹول اور برائی ڈلوا دے گا ، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں گے ۔ وہ انسان کا دشمن ہے گھات میں لگا رہتا ہے ، اسی لئے حدیث میں مسلمان بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی حرام ہے کہ کہیں شیطان اسے لگا نہ دے اور یہ جہنمی نہ بن جائے ۔ ملاحظہ ہو مسند احمد ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ایک مجمع میں فرمایا کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے کوئی کسی کو بےعزت نہ کرے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقوی یہاں ہے جو دو شخص آپس میں دینی دوست ہوں پھر ان میں جدائی ہو جائے اسے ان میں سے جو بیان کرے وہ بیان کرنے والا برا ہے وہ بدتر ہے وہ نہایت شریر ہے ( مسند )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یعنی آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، اچھے کلمات بولیں، اسی طرح کفار و مشرکین اور اہل کتاب سے اگر مخاطبت کی ضرورت پیش آئے تو ان سے مشفقانہ اور نرم لہجے میں گفتگو کریں۔ 53۔ 2 زبان کی ذرا سی بےاعتدالی سے شیطان، جو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے، یا کفار یا مشرکین کے دلوں میں تمہارے لئے زیادہ بغض وعناد پیدا کرسکتا ہے۔ حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلوا دے اور وہ اس مسلمان بھائی کو جا لگے جس سے اس کی موت واقع ہوجائے پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ صحیح بخاری

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] داعی کو تلخ کلامی سے پرہیز ضروری ہے :۔ ہر شخص کو چاہیے کہ خطاب کے وقت اس کے لہجہ میں نرمی اور الفاظ میں شیرینی ہونی چاہیے تند و تیز اور غصہ والے لہجہ یا تلخ الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے خواہ یہ خطاب باہمی گفتگو کے سلسلہ میں ہو یا دعوت دین کے سلسلہ میں۔ کیونکہ لہجہ یا الفاظ میں درستی سے مخاطب کے دل میں ضد اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور اس سے دعوت دین کا کام یا اصلاح احوال کا کام پیچھے جا پڑتا ہے۔ [٦٥] اور شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ تمہاری آپس میں منافرت، ضد اور دشمنی پیدا ہو اور دعوت و تبلیغ کا کام رک جائے۔ لہذا خطاب کے وقت خصوصی احتیاط کرو۔ اور تم غصہ میں آگئے یا تلخ لہجہ یا سخت الفاظ کہناشروع کردیئے تو سمجھ لو کہ تم شیطان کی چال میں آگئے۔ اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کے بتوں یا معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر ضد میں آکر جوابی کارروائی کے طور پر اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔ (٦: ١٠٨)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۔۔ : ” نَزَغَ یَنْزَغُ “ (ف) کا معنی چوکا مارنا، فساد اور بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے جو عہد لینے کا ذکر فرمایا اس میں یہ حکم تھا : ( وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْـنًا ) [ البقرۃ : ٨٣ ] ” اور لوگوں کے لیے اچھی بات کہو۔ “ یہاں ہماری امت کو احسن یعنی سب سے اچھی بات کہنے کا حکم دیا۔ ” میرے بندوں “ سے مراد امت مسلمہ ہے، کیونکہ وہی اس کی غلامی اور بندگی کرنے والے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس سے احسن بات کہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلم ہو یا کافر، دوست ہو یا دشمن، ہر ایک سے ایسی بات کرنا لازم ہے جس سے بہتر بات آدمی نہ کہہ سکتا ہو۔ اس کے لیے لازماً اسے بولنے سے پہلے سوچنا ہوگا۔ ایک عالم نے کہا کہ میں نے جب بھی اپنی طرف سے اچھی سے اچھی بات کہی، پھر اس پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس سے بھی بہتر بات کہی جاسکتی تھی۔ یہاں احسن بات نہ کہنے کا نقصان بیان فرمایا کہ زبان سے ناہموار بات نکلنے پر شیطان آپس میں جھگڑا اور دشمنی ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا ایک دوسرے سے دلی بغض یا قطع تعلق سخت ناپسند ہے۔ بہت سی احادیث میں اس کی وعید موجود ہے۔ اسی طرح کافر سے احسن بات نہ کہنے کا نتیجہ اس کا اسلام سے مزید دوری ہوگا۔ اس لیے اس کی طرف سے برائی کا جواب بھی احسن طریقے سے دینا لازم ہے۔ دیکھیے سورة مومنون (٩٦ تا ٩٨) جب کافر کی طرف سے برائی کا جواب احسن طریقے سے دینا لازم ہے تو پھر مسلمان کی طرف سے ہونے والی برائی کا دفاع احسن طریقے سے کرنا تو بالاولیٰ لازم ہوگا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ احسن بات اور احسن رویے سے جواب کا فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن بھی دلی دوست بن جائے گا۔ مگر یہ نعمت اسی کو ملتی ہے جو صبر کرے اور بڑا صاحب نصیب ہو، جس کی علامت یہ ہے کہ وہ شیطان کی ہر اکساہٹ اور غصہ دلانے پر اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے گا اور غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے گا۔ دیکھیے سورة حم السجدہ (٣٤ تا ٣٦) شیطان کی انسان سے کھلی عداوت کے ذکر کے لیے دیکھیے سورة فاطر (٦) ، اعراف (١١ تا ٢٧) اور سورة بقرہ میں قصۂ آدم و ابلیس۔ ہمیشہ سے دشمنی کا مفہوم ” کَانَ “ سے ظاہر ہے اور آدم کو سجدہ نہ کرنے کے وقت سے لے کر قیامت تک اس کی دشمنی کا دوام اس کا شاہد ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Using foul or harsh language is not correct, even against infidels The first verse (53) prohibits Muslims from talking harshly to disbelievers. It means that a hard line should not be taken unnecessarily, and should there be the need, even killing would be in order - as succinctly put in two lines of Persian poetry: کہ بےحکم شرع آب خوردن خطاست وگر خون بفتوٰی بریزی رواست Whereas, without an injunction of the Shari` ah, to drink water is a sin, In another case, to shed blood under Fatwa is permissible! Since it is possible to suppress the aggressive might of disbelievers and their hostility to Islam through fighting and killing (as an inevitable measure of defense), therefore, it is allowed. However, by using foul lan¬guage and harsh words, neither a castle stands conquered nor anyone guided right, therefore, it has been prohibited. Imam al-Qurtubi said that this verse was revealed in the background of an event relating to Sayyidna ` Umar (رض) . It so happened that someone used foul language against Sayyidna ` Umar (رض) who retaliated harshly and wanted to kill him. This posed the danger of a war breaking out between their two tribes. Thereupon, this verse was revealed. And according to the interpretation of Imam al-Qurtubi, this verse contains a guideline for Muslims as to how they should address each oth¬er. It suggests that they should not speak harshly at the time of mutual difference, for this is a trap door through which the Shaitan pushes them into mutual infighting and disorder.

خلاصہ تفسیر : اور آپ میرے (مسلمان) بندوں سے کہہ دیجئے کہ (اگر کفار کو جواب دیں تو) ایسی بات کہا کریں جو (اخلاق کے اعتبار سے) بہتر ہو (یعنی اس میں سب و شتم اور تشدد اور اشتعال انگیزی نہ ہو کیونکہ) شیطان (سخت بات کہلوا کر) لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے واقعی شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے (اور وجہ اس تعلیم کی یہ ہے کہ سختی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور ہدایت و گمراہی تو مشیت ازلیہ کے تابع ہے) تم سب کا حال تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے (کہ کون کس قابل ہے بس) اگر وہ چاہے تو تم (میں سے جس) پر (چاہے) رحمت فرما دے (یعنی ہدایت کر دے) یا اگر وہ چاہے تو تم (میں سے جس) کو (چاہے) عذاب دینے لگے (یعنی اس کو توفیق اور ہدایت نہ دے) اور ہم نے آپ (تک) کو ان (کی ہدایت) کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا (اور جب باوجود نبی ہونے کے آپ ذمہ دار نہیں بنائے گئے تو دوسروں کی کیا مجال ہے اس لئے کسی کے درپے ہونا اور سختی کرنا بےفائدہ ہے) اور آپ کا رب خوب جانتا ہے ان کو (بھی) جو کہ آسمانوں میں ہیں اور (ان کو بھی جو کہ) زمین میں ہیں (آسمان والوں سے مراد فرشتے اور زمین والوں سے مراد انسان اور جنات ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم خوب واقف ہیں کہ ان میں سے کس کو نبی اور رسول بنانا مناسب ہے کس کو نہیں اس لئے اگر ہم نے آپ کو نبی بنادیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے) اور (اس طرح اگر ہم نے آپ کو دوسروں پر فضیلت دے دیتو تعجب کیا ہے کیونکہ) ہم نے (پہلے بھی) بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے (اور اسی طرح اگر ہم نے آپ کو قرآن دیا تو تعجب کی کیا بات ہے کیونکہ آپ سے پہلے) ہم داؤد کو زبور دے چکے ہیں۔ معارف و مسائل : بدزبانی اور سخت کلامی کفار کے ساتھ درست نہیں : پہلی آیت میں جو مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ سخت کلامی سے منع کیا گیا ہے اس کی مراد یہ ہے کہ بےضرورت سختی نہ کی جاوے اور ضرورت ہو تو قتل تک کرنے کی اجازت ہے۔ کہ بےحکم شرع آب خوردن خطاست، وگر خون بفتوی بریزی رواست قتل و قتال کے ذریعہ کفر کی شوکت اور اسلام کی مخالفت کو دبایا جاسکتا ہے اس لئے اس کی اجازت ہے گالی گلوچ اور سخت کلامی سے نہ کوئی قلعہ فتح ہوتا ہے نہ کسی کو ہدایت ہوتی ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے امام قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ایک واقعہ میں نازل ہوئی جس کی صورت یہ تھی کہ کسی شخص نے حضرت فاروق اعظم (رض) کو گالی دی اس کے جواب میں انہوں نے بھی سخت جواب دیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا اس کے نتیجہ میں خطرہ پیدا ہوگیا کہ دو قبیلوں میں جنگ چھڑ جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور قرطبی کی تحقیق یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو آپس میں خطاب کرنے کے متعلق ہدایت ہے کہ باہم اختلاف کے وقت سخت کلامی نہ کیا کریں کہ اس کے ذریعہ شیطان ان کے آپس میں جنگ و فساد پیدا کرا دیتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا 53؀ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) آپ حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ جب کفار کی باتوں کا جواب دیا کریں تو ایسی بات کہا کریں جو کہ اخلاق اور نرمی کے اعتبار سے بہتر ہو۔ کیوں کہ شیطان سخت جواب دلوا کر لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے اور واقعی وہ کھلا دشمن ہے، اور یہ حکم جہاد کے نزول سے قبل والا حکم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ) یہاں وہ نکتہ ذہن میں تازہ کر لیجیے جس کی قبل ازیں وضاحت ہوچکی ہے کہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔ ان سے براہ راست تخاطب کا سلسلہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا) تحویل قبلہ کے بعد شروع ہوا جب انہیں باقاعدہ امت مسلمہ کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ اس سے پہلے اہل ایمان کو رسول اللہ کی وساطت سے ہی مخاطب کیا جاتا رہا۔ چناچہ اسی اصول کے تحت یہاں بھی حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ میرے بندوں (مؤمنین) کو میری طرف سے یہ بتادیں کہ وہ ہر حال میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور گفتگو میں کبھی ترشی اور تلخی نہ آنے دیں۔ اس طرح آپس میں بھی شیر و شکر بن کر رہیں اور مخالفین کے سامنے بھی بہتر اخلاق کا نمونہ پیش کریں۔ اقامت دین کے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے مؤمنین کے سامنے بہت زیادہ رکاوٹیں ہیں۔ ان کے مخاطبین جہالت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے جاہلانہ اعتقادات نسلوں سے چلے آ رہے ہیں۔ اسی طرح انہیں اپنے رسم و رواج سیاسی و معاشی مفادات اور غیرت و حمیت کے جذبات بہت عزیز ہیں۔ انہیں اس سب کچھ کا دفاع کرنا ہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔ ان حالات میں داعیانِ حق کو تحمل بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اشتعال میں آکر اعلیٰ اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57. The believers. 58. The believers have been enjoined to say only the best things even in their discussion with the disbelievers and other opponents of their faith. They should neither use harsh words nor make exaggerated statements. They should be cool in their conversation and say only what is true and dignified in spite of the provoking behavior of the opponents. 59. The believers have been forewarned to guard against the provocations of Satan, as if to say: While answering your opponents, if you feel that you are being aroused to anger, you should at once understand that it is Satan who is exciting you in order to do harm to your dispute, in which he wants to engage human beings for sowing discord between them.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :57 یعنی اہل ایمان سے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :58 یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخلافین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں ۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلاف حق زبان سے نکالنی چاہیے ، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے ۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو ، برحق ہو ، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :59 یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو ، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے ، تو فورا سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تا کہ دعوت دین کا کام خراب ہو ۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کو مشغول رکھنا چاہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ جب ان کی کافروں کے ساتھ گفتگو ہو تو ان کے ساتھ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ بات کیا کریں کیونکہ غصے کے عالم میں سخت قسم کی باتوں سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور ایسی باتیں شیطان اس لئے کہلواتا ہے کہ ان سے فساد پیدا ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٣:۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت اپنے بندوں کو حکم فرمایا کہ تم اپنا برتاؤ اچھا رکھو ایسا نہ ہو کہ سخت کلامی سے شیطان تمہارے بیچ میں کود پڑے اور جھگڑا ڈال دے کیونکہ شیطان حضرت آدم اور بنی آدم کا صریح دشمن ہے احسن کی تفسیر میں مفسروں کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ نرمی اور آہستگی سے کلام کریں کوئی شخص کافر سے بھی سخت کلامی نہ کرے کیونکہ اس سے فساد پیدا ہوتا ہے اور ضعف اسلام کے زمانہ تک مشرکین اور اہل اسلام کے مابین کسی فساد کا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے خباب (رض) کی حدیث ایک جگہ گز رچ کی ہے ١ ؎ کہ ہجرت سے پہلے مشرکین مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ شیطان بےوقت مشرکین اور اہل اسلام میں جھگڑا ڈلوانا چاہتا ہے اور ضعف اسلام کے زمانہ تک اللہ تعالیٰ کو درگزر منظور ہے اس واسطے مشرک لوگ نادانی سے اگر مسلمان لوگوں کے ساتھ سخت کلامی کریں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ نیک برتاؤ سے اس کو ٹال دیں۔ ١ ؎ تفسر مذاص ٢٧٥ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 کفار کی مسلسل ایذا رسانی سے مسلمان بہت تنگ آگئے اور ان سے گالی گلوچ بھی ہوگئے۔ جس سے اشعتال بڑھ گیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی مطلب یہ ہے کہ کفایہ اگر بحث و مکالمہ میں جہالت طعن وتشنیع، الزام تراشی، اور ہنسی ٹھٹھے کی باتیں بھی کریں تب بھی مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے آپ پر قابو رکھیں اور زبان سے خلاف حق یا اشتعال انگیز بات نہ نکالیں کیونکہ اس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو باہم حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین ہو جیسا کہ حدیث میں ہے الونوا عباد اللہ اخوانا کہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٦) اسرارومعارف آپ میرے بندوں یعنی مسلمانوں سے کہئے کہ بات خوبصورت انداز میں کیا کریں اس میں سختی یا سب وشتم نہ ہو کہ سب وشتم سے یا سخت کلامی سے شیطان کو فساد پھیلانے کا موقع ملتا ہے اور انسانوں کو آپس میں لڑاتا ہے تو بلاشبہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔ (عام گفتار میں بھی اور دینی تبلیغ میں بھی سخت کلامی درست نہیں خواہ بات کفار ہی سے کیوں نہ کی جائے) مسلمانوں کو آپس میں تو بات زیب ہی اخلاق سے دیتی ہے اور پھر جب بات دین کی وہ اور اللہ جل جلالہ اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کی جائے تو اور زیادہ محتاط لب و لہجہ ضروری ہے ، خواہ مخاطب بدکار اور بےدین ہی کیوں نہ ہو یہ بات بات پہ دوسروں کو کافر کہنا اور جہنمی بتانا کبھی بھی اچھی بات نہیں ہو سکتی اور نہ سخت کلامی سے مخاطب کی اصلاح کی امید کی جاسکتی ہے لہذا مبلغین کو خصوصا احتیاط کرنا ہوگی ، کہ تمہارا پروردگار تمہارے حالات سے بہت اچھی طرح واقف ہے یہ ضروری نہیں کہ تم گلا پھاڑ پھاڑ کر کسی کا کفر ظاہر کرو یہ اللہ جل جلالہ کی مرضی چاہے تو خطا معاف کر دے اور اپنی رحمت سے نوازے ، کفار کو بھی ایمان نصیب ہوجاتا ہے اور بدکار بھی نیک بن سکتے ہیں اور اگر چاہے تو خطاؤں پہ عذاب کرے یا کافر سے توبہ کی توفیق ہی سلب کرلے یہ اس کا اور اس کے بندوں کا معاملہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کو بھی ان امور کا ذمہ دار نہیں بنایا گیا کہ کون جنت جاتا ہے اور کون جہنم یا کیوں تو کسی دوسرے کو چلانے کی کیا ضرورت ، ہاں اللہ جل جلالہ کی بات ہے خوبصورت انداز میں پہنچاتے رہو۔ آپ کا پروردگار ساری مخلوق کے حالات کو ہر آن جانتا ہے وہ آسمانوں میں بستی ہو یا زمین پر اور اگر آپ کو فضیلت دی تو پہلے بھی قانون ہے بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) کو بعض پر فضیلت دی گئی اگر آپ پر کتاب نازل ہوئی تو پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر کتب نازل کی گئیں جیسے داؤد (علیہ السلام) پر زبور نازل کی گئی جس کے بارے وہ لوگ جانتے تھے لہذا یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوئی کہ اس کا انکار کیا جائے ۔ ان کفار ومشرکین سے کہئے کہ اللہ کے علاوہ جن کو یہ اپنا مددگار جانتے ہیں ان کو خوب پکاریں ، مگر یاد رکھیں وہ ان کی مصیبت دور نہ کرسکیں گے یعنی اسلام پھیلے گا اور یہ مغلوب ہوں گے اگر ان کے باطل معبود کوئی طاقت رکھتے ہیں تو اسلام کی راہ روک کردکھائیں مگر وہ نہ مصیبت روک سکتے ہیں نہ تبدیل کرسکتے ہیں کہ راحت سے بدل دیں ، بلکہ جن فرشتوں ، نبیوں یا اولیاء اللہ کے بت بنا کر انہوں نے سجا رکھے ہیں وہ اللہ جل جلالہ کے مقابلے میں ان کی مدد کیا کریں گے ۔ (وسیلہ) وہ تو خود اللہ جل جلالہ کو راضی کرنے کے اسباب تلاش کرتے رہتے ہیں اس کی عبادت اور اطاعت کو اس کی رضا مندی کے وسیلے کے طور پر اختیار کئے ہوئے اور اس کی رحمت کے امیدوار بھی ہیں جبکہ اس کی بےنیازی سے ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ بیشک تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق ۔ (ایمان کی حالت) اور ایمان کی یہی حالت مطلوب ہے کہ اللہ جل جلالہ کی اطاعت کو اس کو رضا کا وسیلہ بنایا جائے اور امیدوار کرم رہے مگر کبھی نافرمانی پہ جرات اور دلیری نہ دکھائے کہ اس کی شان بےنیازی سخت گرفت سے ڈرتا بھی رہے ۔ رہی بات کفار کی تو نہ صرف مکہ مکرمہ یا عرب بلکہ کفار کی ہر آبادی اللہ جل جلالہ کی گرفت سے نہ بچ سکے گی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہو کر کفر تباہی سے دوچار ہو یا دنیا میں ہی اس پر عذاب نازل ہوجائے گا ورنہ قیامت کو تو اسے بہت سخت عذاب کا سامنا ہوگا کہ یہ فیصلہ ہوچکا اور بات طے ہوگئی کہ کفر پر ضرور عذاب ہوگا اور کفر کسی رعایت کا مستحق نہ ہوگا ۔ ان کا یہ مطالبہ عبث ہے کہ جو معجزہ ہم مانگتے ہیں وہ کیوں نہیں ظاہر کیا جاتا کہ پہلے کی تاریخ موجود ہے ، کفار نے معجزات طلب کئے مگر جب وہ ظاہر ہوئے تو انہیں ماننے سے انکار کردیا اور ان کی تکذیب کی چناچہ اجماعی بربادی کا شکار ہوئے جیسے ثمود نے ناقہ کا مطالبہ کیا تھا پھر وہ ظاہر ہوگئی تو اسے مار دیا ، اور خود بھی تباہ ہوگئے ، اب آپ کی بعثت کی برکات سے اجماعی بربادی کا عذاب اٹھا دیا گیا تو منہ مانگے معجزات بھی روک لیے گئے کہ معجزات سے مراد تو عظمت الہی کا احساس دلانا اور اس کے عذاب سے ڈرانا ہے تو اس غرض کے لیے آپ کے معجزات کا شمار نہیں تو کفار کے منہ مانگے معجزات کی ضرورت بھی نہ رہی ۔ (واقعہ معراج ایک آزمائش بھی ہے) بھلا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واقعہ معراج سے بڑا اور عجیب تر معجزہ اور کیا ہوگا کہ اتنا بڑا تو مطالبہ بھی نہیں سوچ سکتے مگر خود یہ واقعہ بھی ان لوگوں کے لیے بہت بڑی آزمائش بن گیا اور اسے ماننا ان کے لیے محال ہوگیا جیسے آج کل بھی جن کا ماننے کو جی نہیں چاہتا تاویلیں کرتے ہیں کہ جسمانی نہ تھا صرف روحانی تھا وغیرہ یہاں رویاء سے مراد واقعہ معراج میں جو اللہ جل جلالہ نے دکھایا اس کا دیکھنا ہے ، یہ تو بہت بڑی بات ہے انہیں تو صرف زقوم یعنی تھور کے درخت کی اتنی سی بات کہ یہ جہنم میں ہوگا اور دوزخی کھائیں گے لے بیٹھی کہ بھلا جب آگ ہوگی تو اس میں درخت کہاں وغیرہ یہ انکار انہیں بغاوت اور شرارت میں اور آگے بڑھانے کا سبب بن رہا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 53 تا 55 احسن بہترین۔ ینزغ فساد ڈالتا ہے۔ عدو دشمن۔ مبین کھلا ہوا۔ اعلم زیادہ جانتا ہے۔ یرحم وہ رحم کرتا ہے۔ یعذب وہ عذاب دیتا ہے، عذاب دے گا۔ فضلنا ہم نے فضیلت دی۔ بڑائی دی۔ تشریح : آیت نمبر 53 تا 55 شیطان جو انسان کا کھلا ازلی دشمن ہے اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ دو بھائی آپس میں محبت پیار اور میل ملاپ کے ساتھ نہ رہیں بلکہ اختلافات اور جھگڑوں میں الجھے رہیں تاکہ اس جگہ سے اللہ کی رحمتیں اٹھ جائیں۔ اختلافات کی ابتداء ہمیشہ غیر سنجیدہ گفتگو سے ہوتی ہے جوب ڑھتے بڑھتے اپنی انتہاؤں تک پہنچ جاتی ہے اور ایک دوسرے کو قتل تک کرنے سے باز نہیں آتے اور اس طرح اصلاح و تربیت کا جو بھی پروگرام ہوتا ہے وہ چوپٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان آیات میں اہل ایمان سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ سنجیدہ اور باوقار گفتگو کریں تاکہ شیطان ان کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو۔ یہ آیات اس وقت میں نازل ہوئیں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں اللہ کا پیغام پہنچانے کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ مکہ مکرمہ میں شروع شروع تو محض مذاق اڑانے اور ذہنی اذیتیں پہنچانے کی حد تک بات رہی لیکن بعد میں تو انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثاروں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کی انتہا کردی اور بد زبانی اور بد اخلاقی میں بہت آگے بڑھ گئے تھے۔ چونکہ ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کا معاملہ تھا۔ ممکن تھا کہ صحابہ کرام بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے اور اصلاح اور رشد و ہدایت کی جو تحریک چل رہی تھی اس میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی اس لئے یہ آیات نازل کی گئیں جن میں بتایا گیا کہ کسی کو ہدایت دینا، رحم کرنا یا عذاب دینا یہ اللہ کا کام ہے۔ اہل ایمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی سی کوشش میں لیگ رہیں اس کا طریقہ یہی رہا کہ اللہ کے نبی آتے رہے لوگوں کی اصلاح کرتے رہے ایک سے بڑھ کر ایک نبی آئے حضرت داؤد بھی زبور لے کر آئے سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ وہ لوگ جو اللہ کی ہدایت و رہنمائی کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں وہ اپنا بھولا ہوا سبق دوبارہ یاد کرلیں اور اپنی آخرت کو سنوار لیں۔ فرمایا کہ اب یہی ذمہ داری آخری نبی اور آخری رسول کے امتیوں کی ہے کہ وہ شیطان کے ہر مکر و فریب سے بچتے ہئے اپنی زبانوں پر قابو رکھیں اور ہمیشہ وہ بات کہیں جس میں سنجیدگی ، وقار اور متانت ہو اور ہر اختلاف کی جگہ سے بچتے ہوئے اصلاح کے کام کو آگے بڑھائیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی اس میں سب و شتم اور خشونت اور اشتعال نہ ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید اور آخرت کا انکار کرنے والے لوگ باطل عقیدہ رکھنے کے باوجود اپنے عقیدے کی حمایت میں خواہ مخواہ بحث کرتے اور جھوٹے دلائل دیتے ہیں۔ اکثر اوقات لڑنے جھگڑنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں داعی حق کو صبرو تحمل کے ساتھ بہتر سے بہترین گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ میرے بندوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ وہ لوگوں سے ایسی گفتگو کریں جو دل پذیر اور پسندیدہ ہو۔ کیونکہ شیطان اشتعال دلاکر لوگوں کے درمیان فساد برپا کرتا ہے۔ یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ داعی حق جب منکرین حق کو اخلاص اور جان سوزی کے ساتھ حق کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس کے جواب میں منکرین حق جھوٹے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جس سے داعی حق کا نہ صرف دل پسیجتا ہے بلکہ بعض دفعہ غیرت حق کی وجہ سے اسکی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف اس کی محنت رائیگاں جاتی ہے۔ بلکہ معاملہ جنگ وجدال تک پہنچ جاتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے یہاں تک حکم دیا گیا کہ مشرکین کے جھوٹے خداؤں کو گالی نہ دو ۔ کیونکہ وہ جہالت اور عداوت میں آکر تمہارے سچے رب کو گالی دیں گے۔ (الانعام : ١٠٨) اس نقصان اور برے حالات سے بچنے کے لیے قرآن مجید مبلغ کو یہ ہدایت کرتا ہے : (ادْعُ إِلَی سَبِیْلِ رَبِّکَ بالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ )[ النحل : ١٢٥] ” اپنے رب کی طرف اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ لوگوں کو بلاؤ۔ اگر کہیں بحث وتکرار کی نوبت آئے تو پھر بھی اچھا انداز اختیار کرو۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ “ جو مبلغ اس طریقہ اور انداز سے لوگوں کو حق بات کی طرف بلاتا ہے۔ اس کی ان الفاظ میں تعریف کی گئی ہے۔ دعوت دینے کی فضیلت : (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ )[ حٰم السجدۃ : ٣٣] ” اور اس شخص سے بڑھ کر کس کی بات اچھی ہوسکتی ہے ؟ جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا اور نیک عمل کرتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلُ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لَا ےَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَےْءًا وَّمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَےْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلَ اٰثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لَا ےَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اٰثَامِھِمْ شَےْءًا)[ رواہ مسلم : کتاب العلم، باب مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً أَوْ سَیِّءَۃً وَمَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی أَوْ ضَلاَلَۃٍ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ خیر کی دعوت دینے والے کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا جبکہ ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جس نے برائی کا پرچار کیا وہ اس پر عمل کرنے والے کے برابر گنہگار ہوگا۔ اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ “ مسائل ١۔ انسان کو ہمیشہ اچھی بات کہنی چاہیے۔ ٢۔ شیطان لوگوں میں فساد ڈالتا ہے۔ ٣۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ ٤۔ داعی کو ہمیشہ اچھا انداز اور بہترین الفاظ استعمال کرنے چاہییں۔ تفسیر بالقرآن داعیِ حق کے اوصاف : ١۔ میرے بندوں کو فرمادیں کہ اچھی بات کہیں۔ (بنی اسرائیل : ٥٣) ٢۔ اللہ کے راستہ کی طرف حکمت اور دانائی سے دعوت دیں۔ (النحل : ١٢٥) ٣۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہیں۔ (آل عمران : ١٥٩) ٤۔ آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ (القلم : ٤) ٥۔ اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتے۔ (حٰم السجدۃ : ٣٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ منہ سے وہی بات نکالا کریں جو بہتر ہو۔ ہر حال میں بہترین بات سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ کیونکہ بری بات سے لوگوں کا دل دکھتا ہے اور شیطان کا مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کے درمیان رخنہ ڈال دے۔ اور اس سے وہ صرف اس صورت میں بچ سکتے ہیں کہ وہ اچھی بات کریں۔ اگر کوئی بری بات منہ سے نکل جائے تو جواب بھی برا ہوگا۔ یوں نزاع شروع ہوجائے گا اور محبت اور آشتی کی فضا نہ رہے گی۔ سختی پیدا ہوگی ، پھر دشمنی ہوجائے گی۔ جبکہ اچھی بات سے دلوں کے زخم مند مل ہوجاتے ہیں اور دلوں کو خشکی اور سختی میں لچک پیدا ہوتی ہے۔ اور آخر کار اچھے کلمات سے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان الشیطن کان للانسان عدوا مبینا (٧١ : ٣٥) ” حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے “۔ شیان تاک میں رہتا ہے کہ کسی کے منہ سے بری بات نکلے ، اس کی زبان لغزش کرے اور یوں اسے بغض وعداوت کی آگ بھڑکانے کا موقعہ مل جائے اور بھائی بھائی کا دشمن ہوجائے ، جبکہ بھلی بات سے رخنے بھر جاتے ہیں ، شیان کی راہ بند ہوجاتی ہے اور اسلامی اخوت شیطان کی وسوسہ اندازیوں اور رخنہ پردازیوں سے مامون ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد روئے سخن اب انسانوں کے انجام کی طرف مڑ جاتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی ایک آواز پر یہ لوگ جمع ہوجائیں گے۔ اس دن ان کا نظام خالص اللہ کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس دن کوئی شریک نہ ہوگا۔ اللہ چاہے گا تو رحم کرے گا ، چاہے گا تو سزا گا ، اب لوگوں کا انجام اللہ ہی کے فیصلے پر ہوگا۔ اب تو رسول بھی ان کے لئے وکیل نہ ہوگا۔ وہ تو رسول تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بندوں کو اچھی باتیں کرنے کا حکم، بعض انبیاء بعض انبیاء سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی ان آیات میں اول تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے یہ حکم دیا کہ آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہی بات کہیں جو بہتر ہو، بہتر کے عموم میں نرمی سے بات کرنا اور خیر خواہی کا طریقہ اختیار کرنا اور حکمت و موعظت کی وہ سب صورتیں داخل ہیں جن سے مخاطب متاثر ہوسکے اور حق قبول کرسکے چونکہ زمانہ نزول قرآن میں مشرکین اور کفار سے باتیں ہوتی رہتی تھیں اور ان لوگوں کی طرف سے بےت کے سوال و جواب بھی ہوتے تھے، جن میں سے اوپر کی آیتوں میں بعض باتوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ اور اس سے مسلمانوں کو غصہ آجانے اور اس کی وجہ سے نامناسب صورت حال پیش آجانے کا احتمال تھا اس لیے حکم دیا کہ تبلیغ کرنے میں اچھا طریقہ اختیار کریں سختی بھی نہ ہو بدکلامی بھی نہ ہو جسے (وَ جَادِلْھُمْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) سے تعبیر فرمایا ہے جو سورة نحل کے آخری رکوع میں ہے وہاں ہم نے حکمت و موعظت کے طریقے بیان کردئیے ہیں۔ پھر فرمایا (اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ ) (بلاشبہ شیطان ان کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے) یعنی وہ منتظر رہتا ہے کہ کب کسی بات کا بہانہ ملے اور اسے مومنین اور کافرین کے درمیان ایسے بگاڑ کا ذریعہ بنا دے جس سے کافر اور زیادہ بد دل ہوجائیں اور ایمان سے مزید دور ہوتے جائیں۔ قال صاحب الروح ای یفسد ویھیج الشربین المومنین والمشرکین بالمخاشنۃ فلعل ذلک یودی الی تاکد العناد و تمادی الفساد (اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا) (بلاشبہ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے) جب اس کا یہ حال ہے تو فساد ڈالنے سے کب چوکے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ شکوہ جواب شکوہ اور تخویف اخروی کے بعد طریق تبلیغ کی تعلیم دی گئی کہ مشرکین اگر سختی اور بد زبانی سے پیش آئیں تو بھی تم نرمی اختیار کرو کیونکہ شیطان بنی آدم کا علانیہ دشمن ہے وہ معمولی باتوں سے فساد بپا کرادے گا اور توحید کی تبلیغ و اشاعت میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔ اس لیے مسئلہ توحید اور حشر و نشر کو دلائل سے واضح کرتے وقت انداز گفتگو نرم اور ناصحانہ اختیار کرو۔ اذا اردتم ایرا الحجۃ علی المخالفین فاذکروا تلک الدلائل بالطریق الاحسن وھو ان لا یکون ذکر الحجۃ مخلوطا بالشتم والسب (کبیر ج 5 ص 603) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 اور اپنے پیغمبر آپ میرے بندوں سے فرما دیجیے کہ وہ مذاکرے اور مباحثے کے دوران میں مخالفوں سے گفتگو کا اچھا اور بہتر طریقہ اختیار کریں کیونکہ شیطان سخت بات کی وجہ سے لوگوں میں باہم فساد کرانا چاہتا ہے واقعی شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ یعنی کفار کی جہالت اور کٹ حجتی کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو حسن اخلاق کی تعلیم دی کہت م نرمی اور محبت سے ان منکروں کے ساتھ گفتگو کیا کرو اور مباحثے میں ایسا طریقہ اختیار کرو جو بہتر ہو اور اس میں کسی کی دل آزاری کا پہلو نہ ہو اور شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے اس کی مراد پوری نہ ہونے دو کیونکہ وہ شیطان تو آپس میں جھگڑا کرانے اور فساد ڈلوانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مذاکرے میں سخت بات نہ کہیں کہ شیطان لڑائی ڈالتا ہے جب لڑائی پڑی تو اگلا سمجھتا بھی ہو تو نہ سمجھے۔ 12