Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 54

سورة بنی اسراءیل

رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّشَاۡ یَرۡحَمۡکُمۡ اَوۡ اِنۡ یَّشَاۡ یُعَذِّبۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ وَکِیۡلًا ﴿۵۴﴾

Your Lord is most knowing of you. If He wills, He will have mercy upon you; or if He wills, He will punish you. And We have not sent you, [O Muhammad], over them as a manager.

تمہارا رب تم سے بہ نسبت تمہارے بہت زیادہ جاننے والا ہے ، وہ اگر چاہے تو تم پر رحم کر دے یا اگر وہ چاہے تمہیں عذاب دے ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار ٹھہرا کر نہیں بھیجا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ... Your Lord knows you best; O mankind, meaning, He knows best who among you deserves to be guided and who does not deserve to be guided. ... إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ ... if He wills, He will have mercy on you, by helping you to obey Him and turn to Him. ... أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ ... or if He wills, He will punish you. And We have not sent you (- O Muhammad -). ... عَلَيْهِمْ وَكِيلً as a guardian over them. meaning, `We have sent you as a warner, so whoever obeys you, will enter Paradise and whoever disobeys you, will enter Hell.'

افضل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام تمہارا رب تم سے بخوبی واقف ہے وہ ہدایت کے مستحق لوگوں کو بخوبی جانتا ہے ۔ وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے ، اپنی اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور اپنی جانب جھکا لیتا ہے ۔ اسی طرح جسے چاہے بد اعمالی پر پکڑ لیتا ہے اور سزا دیتا ہے ۔ ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا تیرا کام ہوشیار کر دینا ہے تیری ماننے والے جنتی ہوں گے اور نہ ماننے والے دوزخی بنیں گے ۔ زمین و آسمان کے تمام انسان جنات فرشتوں کا اسے علم ہے ، ہر ایک کے مراتب کا اسے علم ہے ، ایک کو ایک پر فضیلت ہے ، نبیوں میں بھی درجے ہیں ، کوئی کلیم اللہ ہے ، کوئی بلند درجہ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کیا کرو ، اس سے مطلب صرف تعصب اور نفس پرستی سے اپنے طور پر فضیلت قائم کرنا ہے نہ یہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ فضیلت سے بھی انکار ۔ جو فضیلت جس نبی کی از روئے دلیل ثابت ہو جائے گی اس کا ماننا واجب ہے مانی ہوئی بات ہے کہ تمام انبیاء سے رسول افضل ہیں اور رسولوں میں پانچ اولو العزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا نام سورۃ احزاب کی آیت میں ہے یعنی محمد ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ صلوۃ اللہ علیہم اجمعین ۔ سورہ شوریٰ کی آیت ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ 13؀ ) 42- الشورى:13 ) میں بھی ان پانچوں کے نام موجود ہیں ۔ جس طرح یہ سب چیزیں ساری امت مانتی ہے ، اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا کہ مشہور ہے ہم نے اس کے دلائل دوسری جگہ تفصیل سے بیان کئے ہیں واللہ الموفق ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے داؤد پیغمبر علیہ السلام کو زبور دی ۔ یہ بھی ان کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن اتنا آسان کر دیا گیا تھا کہ جانور پر زین کسی جائے اتنی سی دیر میں آپ قرآن پڑھ لیا کرتے تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 اگر خطاب مشرکین سے ہو تو رحم کے معنی قبول اسلام کی توفیق کے ہونگے اور عذاب سے مراد شرک پر ہی موت ہے، جس پر وہ عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر خطاب مومنین سے ہو تو رحم کے معنی ہوں گے کہ وہ کفار سے تمہاری حفاظت فرمائے گا اور عذاب کا مطلب ہے کفار کا مسلمانوں پر غلبہ و تسلط۔ 54۔ 2 کہ آپ انھیں ضرور کفر کی دلدل سے نکالیں یا ان کے کفر پر جمے رہنے پر آپ سے باز پرس ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] کوئی شخص کسی کو نجات اخروی کی ضمانت نہیں دے سکتا :۔ ہم یوں تو کہہ سکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار ہیں وہ جنت میں اور نافرمان دوزخ میں جائیں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں (معین) شخص جنت میں یا دوزخ میں جائے گا۔ نہ ہی اپنے متعلق کوئی شخص ایسا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ کوئی فرقہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی حقیقت حال اور اس کا انجام صرف اللہ ہی کو معلوم ہے حتیٰ کہ نبی آخر الزمان بھی کسی کی ہدایت اور اخروی نجات کے ضامن نہیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا خارجہ بن زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ام العلاء ایک انصاری عورت تھی جس نے رسول اللہ سے بیعت کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ مہاجرین قرعہ سے ہم انصار کو بانٹ دیئے گئے۔ ہمارے حصہ میں عثمان بن مظعون (رض) آئے۔ ہم نے انھیں اپنے گھروں میں اتارا۔ پھر وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے جن میں ان کی وفات ہوگئی۔ جب انھیں غسل دیا اور کفن پہنایا گیا اس وقت رسول اللہ تشریف لائے۔ میں نے کہا && اے ابو السائب (یہ عثمان بن مظعون (رض) کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں یہ گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تم کو عزت دی۔ رسول اللہ نے اسے فرمایا && (ام العلائ) تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی ؟ && میں نے کہا && یارسول اللہ ! میرا باپ آپ پر قربان ہو، پھر اللہ کس کو عزت دے گا ؟ && آپ نے فرمایا && عثمان فوت ہوگیا اور اللہ کی قسم ! میں اس کے حق میں بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم ! میں حتمی طور پر یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں && ام العلاء کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم ! اس کے بعد میں کبھی کسی کی بزرگی بیان نہیں کروں گی۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہارے متعلق علم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے جتنا خود تمہیں اپنے متعلق ہے، اب اگر وہ چاہے تو تمہاری نامناسب باتوں اور کاموں کے باوجود اپنے فضل سے تم پر رحم فرمائے، چاہے تو تمہارے گناہوں کی پاداش میں اپنے عدل کی بنا پر عذاب دے۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے، اپنی ملکیت کے ساتھ جو چاہے کرے، نہ اس میں کوئی ظلم ہے اور نہ کسی کو اس سے پوچھنے کی جرأت ہے۔ دیکھیے سورة انبیاء (٢٣) ۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا : ” وَكِيْلًا “ بمعنی ” اَلْمَوْکُوْلُ إِلَیْہِ “ ہے، یعنی جس کے سپرد کیا جائے، ذمہ دار بنایا جائے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو آپ سے کوئی باز پرس نہیں، نہ آپ ان کے ذمہ دار ہیں، آپ کا کام پیغام پہنچانا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ ۭ اِنْ يَّشَاْ يَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ يَّشَاْ يُعَذِّبْكُمْ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا 54؀ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) تمہارا پروردگار تمہاری صلاحیتوں کو خوب جانتا ہے اگر وہ چاہے تو تمہیں اہل مکہ سے نجات دے دے اور وہ چاہے تو ان لوگوں کو تم پر مسلط کر دے اور ہم نے آپ کو ان لوگوں کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا کہ ان کے ایمان نہ لانے پر آپ سے کچھ باز پرس ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا) ہدایت کو قبول کرنا یا نہ کرنا ہر شخص کا ذاتی معاملہ اور ذاتی انتخاب ہے۔ آپ ان تک پیغام پہنچانے کے ذمہ دار ہیں انہیں ہدایت پر لانے کے مکلف نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. This is to warn the believers to refrain from making claims of piety so as to assign Paradise to themselves and Hell to their opponents. It is Allah alone Who has the power to decide these things because He is fully aware of the known and secret and the present and future things about all human beings. It is He Who will decide whether to show mercy to anyone or give chastisement. However, a man may say in the light of the divine Book that a certain kind of human beings deserve mercy and another kind of people incur chastisement but none has any right to say specifically that a particular man will be given chastisement and another will get salvation. 61. This is to declare that a Prophet is sent to convey the message and not to decide whether a person will receive mercy or get chastisement. It does not, however, mean that, God forbid, the Prophet (peace be upon him) himself did such a thing and Allah had to warn him. In fact, this is to warn the Muslims that when the Prophet himself is not in a position as to decide the fates of the people, they should never think of such a thing as to assign Paradise and Hell to anyone.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :60 یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے ۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے ۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے ۔ اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے ۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق ۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا اور فلاں شخص بخشا جائے گا ۔ غالبا یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آکر مسلمان کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے ، یا تم کو خدا عذاب دے گا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :61 یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے ۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کہ حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالی نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی ۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے ۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤۔ ٥٥:۔ اوپر کی آیت میں مسلمانوں کو سخت کلامی سے منع فرما کر اس کے بعد اب مشرکوں کا حال بیان فرمایا کہ اے رسول اللہ کے مشرکین مکہ میں کے کچھ لوگ راہ راست پر نہ آویں تو اس کا کچھ بوجھ بار تمہارے ذمہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جس طرح بعضے نبیوں کی بزرگی اور فضیلت بعضوں پر ٹھہر چکی ہے اسی طرح یہ بات بھی ٹھہر چکی ہے کہ ان مشرکوں میں سے کچھ لوگ راہ راست پر آکر اللہ کی رحمت کے قابل ٹھہریں گے اور کچھ حالت کفر پر مر کر عذاب کے مستحق ہونگے۔ بدر کی لڑائی میں ابوجہل کا کفر کی حالت پر مرنا اور فتح مکہ پر ابوسفیان کا اسلام کی فضیلت کو حاصل کرنا مشرکین مکہ کی اس حالت کی تفسیر ہے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ زبور میں امت محمدیہ کا جو حال ہے اس کا ذکر سورة الانبیاء میں آویگا اس واسطے امت محمدیہ کے لوگوں کے ذکر میں خاص طور پر زبور کا ذکر فرمایا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں معراج کی حدیثوں میں ہے کہ معراج کی رات آدم (علیہ السلام) اول آسمان پر تھے اور ابراہیم (علیہ السلام) ساتویں آسمان پر صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھ باتوں کو ذکر فرما کر یہ فرمایا ہے کہ ان چھ باتوں کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو سب انبیاء پر فضیلت دی ہے ١ ؎۔ یہ چھ باتوں کی پوری حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے۔ آیتوں میں بعضے انبیاء کو بعضوں پر فضیلت دینے کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے ‘ کہ بعضے انبیاء کو بعضوں پر اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب انبیاء پر اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی ہے سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کے لوگوں کو انبیا ( علیہ السلام) کی فضیلت میں بحث کرنے سے منع کیا ہے تاکہ اس بحث سے کسی نبی کی کسر شان نہ لازم آوے۔ صحیح بخاری ومسلم میں اس بحث سے ممانعت کی تفصیلی روایتیں ہیں ٢ ؎۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٥١٢ باب علامات النبوۃ۔ ٢ ؎ مثلا دیکھئے مشکوٰۃ باب بدء الخلق (ذکر الانبیاء) فصل اول۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:54) یرحمکم اور یعذبکم میں مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط کے ہے۔ وکیلا۔ صفت مشبہ منصوب۔ کارساز۔ ذمہ دار۔ زعمتم۔ ای ادعوا الذین تعبدون من دون اللہ وزعمتم انہم الھۃ۔ بلائو ان کو جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو اور جنہیں تم گمان کرتے ہو کہ وہ خدا ہیں۔ زعمتم۔ زعم مصدر (باب نصر) تم نے زعم کیا۔ تم نے گمان کیا۔ تم نے سمجھا۔ تحویلا۔ تحویل مصدر بروزن تفعیل۔ تبدیلی ۔ تغیر۔ تفاوت۔ حال یحرک (نصر) حائل ہونا بیچ میں آپڑنا۔ حول کے معنی کسی شے کے متغیر ہونے اور دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں۔ چونکہ بیچ میں آپڑنے سے جدائی ضروری ہے اس لئے اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ حول بمعنی سال بھی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے کہ اگر یہ راہ ہدایت پر نہ آئیں تو آپ غم نہ کریں کیونکہ راہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مراد اس سے بےضرورت سختی کرتا ہے، جیسا کہ اکثر مجادلات میں ہوجاتی ہے ورنہ ضرورت اور مصلحت کے موقع پر اس سے زیادہ قتال تک کی اجازت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے داعی کو صبر و استقامت اور حسن گفتار کا حکم دیا گیا ہے۔ اب دوسرے انداز میں داعی کو یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس نے اپنے رسول کو الداعی بناکر بھیجا ہے۔ کسی پر چوکیدار بنا کر مبعوث نہیں فرمایا۔ لہٰذا داعی کو لڑنے جھگڑنے کی بجائے اپنا کام اچھے انداز میں کرتے رہنا چاہیے۔ اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کس پر کرم فرمانا چاہیے اور کس کو اس کے گناہوں اور جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔ آپ کا رب زمینوں آسمانوں کی ہر چیز کی پوری طرح خبر رکھے ہوئے ہے۔ اسی نے بعض انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت عنایت فرمائی۔ اس کا ارشاد ہے کہ ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ اس فرمان میں ہدایت کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے ” رحم “ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ گناہ سے بچ کر نیکی کا راستہ اختیار کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مہربانی سے ممکن ہوا کرتا ہے۔ اس حقیقت کی ترجمانی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کی تھی۔ جب ایک مدت کے بعد جیل کی کال کوٹھری سے نکلے اور ہر طرف سے ان کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ عزیزمصر کی بیوی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئی۔ (قَالَتِ امْرَأَۃُ الْعَزِیْزِ الْاٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُہُ عَنْ نَفْسِہِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ )[ یوسف : ٥١] ” عزیز مصر کی بیوی نے کہا اب تو حق واضح ہوا۔ میں نے ہی اسے اپنی طرف ورغلانے کی کوشش کی تھی اور یقیناً وہ سچے لوگوں میں سے ہے۔ “ اس موقعہ پر پوری عاجزی کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : ” اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے، بیشک میرا پروردگار بخشنے والا، مہربان ہے۔ “ [ یوسف : ٥٣] یہی حقیقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے داعی حق کو سمجھائی جا رہی ہے کہ برائی کے مقابلے میں صبر کرنا اور ہر حال میں اچھی بات کہنی چاہیے۔ داعی کو یہ حقیقت بھی ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ جانتا ہے کو ن، کس نیت کے ساتھ حق کی مخالفت کررہا ہے۔ گویا یہ بات بھی ایک لحاظ سے داعی کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ آخر میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے بعض انبیاء کو ایک دوسرے پر فضلیت عنایت فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک داعی کو اس بات سے بےپرواہ ہو کر دین حق کی تبلیغ کرنا ہے۔ کہ اس کی بات قبول کرنے والے کتنے لوگ ہیں ؟ کیونکہ کئی انبیاء ایسے تھے کہ جن کی بات کو بہت سے لوگوں نے قبول کیا اور کچھ ایسے تھے جن کے اخلاص اور محنت کے باوجود لوگوں نے ان کی دعوت کو مسترد کردیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی داعی کو وسائل کی کم مائیگی کی طرف دھیان نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ وسائل کی دستیابی کی صورت میں دعوت حق کو پذیرائی ہوجائے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے وقت کے پیغمبر اور بادشاہ ہونے کے باوجود سب لوگوں کو عقیدہ توحید منوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا اس حوالے سے بھی ذکر کیا کہ اہل مکہ اور یہودی یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے ؟ کہ بال بچہ بھی رکھتا ہے اور کاروبار بھی کرتا ہے۔ ان کے بقول رسول تو تارک الدنیا شخص ہونا چاہیے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ناصرف وقت کے صاحب کتاب رسول تھے بلکہ بادشاہ بھی تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ بعض انبیاء (علیہ السلام) کو بعض پر فضیلت دی گئی۔ ٤۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زبورعطا کی گئی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے، جسے چاہے معاف کرے : ١۔ تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اگر چاہے تو رحم کرے، اگر چاہے تو عذاب دے۔ (بنی اسرائیل : ٥٤) ٢۔ اللہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم کرے تم اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے۔ (العنکبوت : ٢١) ٣۔ اللہ جسے چاہے معاف کر دے جسے چاہے عذاب دے، اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٩) ٤۔ جسے چاہے بخش دے جسے چاہے عذاب دے زمین و آسمان کی بادشاہت اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کا ہے۔ (المائدۃ : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بےقید علم اللہ ہی کا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے جامع علم کی بنا پر لوگوں کے ساتھ رحیمانہ سلوک کرے گا یا عذاب دے گا۔ جہاں تک رسول کا تعلق ہے تو لوگوں تک پیغام پہنچانے کے بعد اس کی ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ کا جامع علم آسمان اور زمینوں کے درمیان موجود تمام مخلوقات کے ساتھ وابستہ ہے ، خواہ ملائکہ ہوں ، جن ہوں ، انس ہوں یا دوسری مخلوقات جن کو اللہ کے سوا ابھی تک کوئی نہیں جانتا۔ نہ اس مخلوق کی مقدار سے لوگ باخبر ہیں نہ اس کی اہمیت سے بیخبر ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا علم اپنی مخلوقات کے بارے میں مکمل ہے ، اس لئے اس نے اپنے علم ہی کی بنا پر بعض انبیاء پر بعض کو فضیلت دی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِکُمْ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْکُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْکُمْ ) یعنی تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے اگر چاہے تم پر رحم فرمائے یا اگر چاہے تم کو عذاب دے۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ مسلمان مشرکین سے یہ بات کہیں کہ ایمان کی توفیق دیکر رحم فرمانا یا کفر پر موت دیکر عذاب دینا یہ سب تمہارے رب کی مشیت کے تحت ہے یہ ایک عمومی بات کافروں اور مشرکوں سے کہی جائے تو وہ اس میں غور کریں گے اگر بالتصریح یوں کہو گے کہ تم دوزخی ہو تو ممکن ہے کہ وہ مزید دور کرنے کا ذریعہ بن جائے عام مضمون مومنین اور کافرین کے لیے ہو اس میں کوئی بعد نہیں۔ پھر فرمایا (وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ وَکِیْلًا) (اور ہم نے آپ کو ان پر ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا) صاحب روح المعانی اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کا کام بات پہنچانا ہے زبردستی بات منوانا اور اسلام قبول کروانا آپ کے ذمہ نہیں آپ اور آپ کے ساتھی مدارات سے کام لیں اور ان سے جو تکلیفیں پہنچیں انہیں برداشت کریں۔ ثم قال صاحب الروح ھذا قبل نزول آیۃ السیف اہ وھذا لا یحتاج الیہ فی ھذا المقام لان اللین المداراۃ مرغوب فی مقام الدعوۃ والارشاد اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس میں اہل ایمان کو خطاب ہے کہ آپس میں میل محبت اخوت اور نرم مزاجی کے ساتھ رہیں اور شیطان کو اپنے درمیان شر و فساد داخل کرنے کا موقعہ نہ دیں۔ (ذکرہ القرطبی ج ١٠ ص ٢٧٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ اس میں التفات ہے غیبت سے خطاب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مراد مشرکین مکہ ہیں مگر تعمیم کے لیے صیغہ خطاب سے تعبیر کیا گیا کہ اے ایمان والو ! اور اے مشرکینِ مکہ ! تم سب کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 تم سب کا حال تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اگر وہ چاہے تو تم پر رحم فرمائے اور اپنی رحمت تم پر فرما دے اگر وہ چاہے تو تم کو عذاب کر دے اور تم کو رحمت سے دور کر دے اور ہم نے اسے پیغمبر آپ کو ان پر کوئی مختار اور ذمہ دار مقرر کر کے نہیں بھیجا۔ منکروں کی ضد بحث پر کبھی کبھی تبلیغ کرنے والوں کو غصہ آجاتا ہے کہ یہ لوگ حق بات کو نہیں مانتے۔ اس کی اصلاح فرمائی کہ تم غصہ نہ کیا کرو ہر شخص کی اہلیت اور قابلیت کو تمہارا پروردگار جانتا ہے وہ اگر چاہے تو تم کو ہدایت کی توفیق دے کر رحم فرمائے اور چاہے تو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دے اور عذاب کرے۔ آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرما کر ذمہ داری کی نفی فرمائی کہ جب مبلغ اعظم جناب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی وکالت اور ذمہ داری نہیں دی گئی تو دوسرے لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے اس لئے نہ ماننے پر آزردہ ہونے اور بگڑنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مذاکرے میں حق والا جھنجھلاتا ہے کہ دوسرا صریح حق کو نہیں مانتا سو فرمایا کہ تم پر ان کا ذمہ نہیں اللہ بہتر جانے جس کو چاہے راہ سمجھا دے۔ 12