Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 6

سورة بنی اسراءیل

ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا ﴿۶﴾

Then We gave back to you a return victory over them. And We reinforced you with wealth and sons and made you more numerous in manpower

پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جتھے والا بنا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then We gave you a return of victory over them. And We helped you with wealth and children and made you more numerous in manpower. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی بخت نصر یا جالوت کے قتل کے بعد ہم نے تمہیں پھر مال اور دولت، بیٹوں اور جاہ حشمت سے نوازا، جب کہ یہ ساری چیزیں تم سے چھن چکی تھیں۔ اور تمہیں پھر زیادہ جتھے والا اور طاقتور بنادیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی جب تم نے اچھے کام کیے تھے تو ہم نے تمہیں غلبہ بھی دیا اور مال و اولاد میں بھی برکت عطا کی اور تم بگڑے اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو ہم نے تمہیں اس کی سزا دے دی اور یہی ہمارا دستور ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا ۝ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . والاسْتِنْفَارُ : حَثُّ القومِ علی النَّفْرِ إلى الحربِ ، والاسْتِنْفَارُ : حَمْلُ القومِ علی أن يَنْفِرُوا . أي : من الحربِ ، والاسْتِنْفَارُ أيضا : طَلَبُ النِّفَارِ ، وقوله تعالی: كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر/ 50] قُرِئَ : بفَتْحِ الفاء وکسرِها «3» ، فإذا كُسِرَ الفاءُ فمعناه : نَافِرَةٌ ، وإذا فُتِحَ فمعناه : مُنَفَّرَةٌ. والنَّفَرُ والنَّفِيرُ والنَّفَرَةُ : عِدَّةُ رجالٍ يُمْكِنُهُم النَّفْرُ. والمُنَافَرَةُ : المُحَاكَمَةُ في المُفَاخَرَةِ ، وقد أُنْفِرَ فلانٌ: إذا فُضِّلَ في المُنافرةِ ، وتقول العَرَبُ : نُفِّرَ فلانٌ إذا سُمِّيَ باسمٍ يَزْعُمُون أنّ الشّيطانَ يَنْفِرُ عنه، قال أعرابيٌّ: قيل لأبي لَمَّا وُلِدْتُ : نَفِّرْ عنه، فسَمَّانِي قُنْفُذاً وكَنَّانِي أبا العَدَّاء . ونَفَرَ الجِلْدُ : وَرِمَ. قال أبو عبیدة : هو من نِفَارِ الشیءِ عن الشیء . أي : تَبَاعُدِهِ عنه وتَجَافِيهِ ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معیو کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے الا ستنفار جنگ کے لئے نکلنے کی ترغیب دینا ( 2 ) لوگوں کو لڑائی سے بھاگ جانے پر اکسانا ( 3 ) ڈر بھاگ جانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر/ 50] گویا گدھی ہیں کہ بدک جاتے ہیں ۔ میں مستنفرۃ اگر کسرہ فاء کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی نافرۃ یعنی ڈر کر بھاگنے والا کے ہوں گے اور فتح فاء کے ساتھ ہو تو منفرۃ مکہ کے ہم معنی ہوگا یعنی بھگا یا ہوا ۔ النفر والنفرۃ بھاگنے والے آدمیوں کا گروہ ۔ المنا فرۃ مفا خترہ میں محاکمہ کرنا اسی سے انفر فلان ہے جس کے معنی مفاخرۃ میں غالب ہونے کا فیصلہ دیئے گئے کے ہیں مشہور مقولہ ہے ۔ نفر فلان ( بزعم اہل جاہلیت ) شیطان کو بھگانے کے لئے بچے کا کوئی نام رکھنا چناچہ ایک اعرابی کا بیان ہے کہ میری پیدائش پر کسی نے میرے والد سے کہا نفر عنہ کہ اس سے شیطان کو بھگاؤ ۔ تو والد نے میرا نام قنفذ اور کنیت ابوا لعدا ر کھ دی ۔ نفر الجلد جلد میں دوم ہوجانا ۔ ابو عبید کا قول ہے کہ یہ نفار الشئی عن الشئی سے ہے جس کے معنی ایک چیز کے دوسری سے دور اور الگ ہونے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) پھر اللہ تعالیٰ نے کو رش ہمدانی بادشاہ کے ذریعے ان کی مدد فرمائی اور بخت نصر پر کو رش ہمدانی کو غلبہ دیا یعنی پھر ہم تمہیں دولت دے کر تم پر مہربانی فرمائیں گے اور مال اور بیٹوں سے تمہاری امداد فرمائی گے اور تمہاری جماعت اور تعداد کو بڑھا دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ ) یعنی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر تمہیں سہارا دیا اور ان پر غلبے کا موقع عطا کردیا۔ اس سہارے کا باعث ایرانی بادشاہ کیخورس (Cyrus) یا ذوالقرنین بنا۔ اس نے عراق (بابل) پر تسلط حاصل کرلینے کے بعد تمہیں آزاد کر کے واپس یروشلم جانے اور اس شہر کو ایک دفعہ پھر سے آباد کرنے کی اجازت دے دی۔ پھر جب تم نے واپس آکر یروشلم کو آباد کیا تو ہم نے ایک دفعہ پھر تمہاری مدد کی : (وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا) ہم نے تمہیں مال و اولاد میں برکت دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔ تم لوگ خوب پھلے پھولے اور جلد ہی ایک مضبوط قوم بن کر ابھرے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. This refers to the lease of time that the Israelites (That is the people of Judah) got after their release from the captivity of Babylon. As for the people of Israel and Samaria, they did not rise again after their moral and spiritual degeneration. But among the people of Judah there still were some people who practiced the truth and invited others also to follow it. They carried on their work of invitation to the truth among the remaining Israelites in Judah and also exhorted those who had been driven out into Babylon and other lands to repent and follow the truth. At last the mercy of Allah came to their help. The downfall of Babylon started. The Persian king, Cyrus, took Babylon in 539 B.C. and in the following year issued a decree allowing the Israelites to return to and resettle in their homeland. The Israelites began to return home in caravan after caravan, and this continued for a long time. Cyrus also allowed the Israelites to rebuild the Temple of Solomon but the neighboring communities who had settled in this land resisted it. At last Darfius appointed Zerubbabel, a grandson of the last king of Judah as the governor of Judah in 522 B.C., who got the Temple rebuilt under the care of Prophet Haggai, Prophet Zechariah and Joshua. In 458 B.C. Ezra arrived in Judah along with an exiled group and the Persian king Artaxerxes made the following decree: And thou, Ezra, after the wisdom of thy God that is in thine hand, set magistrates and judges, which may judge all the people that are beyond the river, all such as know the laws of thy God; and teach ye them that know them not. And whosoever will not do the law of thy God and the law of the king let judgment be executed speedily upon him whether it be unto death, or to banishment, or to confiscation of goods, or to imprisonment. (Ezra, 7:25-26). Taking advantage of this decree, Ezra carried out the revival of the religion of Prophet Moses (peace be upon him). He gathered together all the righteous and good people from the Israelites and set up a strong organization. He compiled and spread the Pentateuch which contained the Torah, made arrangements for the religious education of the Israelites, enforced the law and started purging the people of moral and ideological weaknesses which they had adopted by intermixing with the other communities. He compelled the Jews to divorce the idolatrous wives they had married, and took a covenant from them that they would worship God alone and follow His law only. In 455 B.C. an exiled group came back to Judah under Nehemiah whom the Persian king appointed as the ruler of Jerusalem and ordered him to build the wall round the city. Thus, after 150 years the Holy city was fully restored and became the center of Jewish religion and culture, But the Israelites of northern Palestine, and Samaria did not benefit from the work of revival done by Ezra. They built a rival sanctuary on Mount Gerizim and tried to make it the religious center for the people of the Book. This caused a further, and perhaps the final, split between the Jews and the Samaritans. The Jews suffered a setback for a while with the fall of the Persian Empire and the conquests of Alexander the Great and the rise of the Greeks. After the death of Alexander, his kingdom was subdivided into three empires. Syria fell to the lot of the Seleucide empire, with Antioch as its capital, whose ruler Antiochus III incorporated Palestine into his dominions in 198 B.C. These Greek conquerors who were idolatrous by precept and freelance morally felt greatly ill at ease with the Jewish religion and culture. So, they began to propagate the rival Greek way of life and culture by political and economic pressure, and were able to win over a strong section of the Israelites who became their helpers. This external interference caused a split in the Jewish nation. One group among them readily adopted the Greek dress, the Greek language, the Greek way of life and the Greek sports, while the other persistently stuck to their own culture and way of life. In 175 B.C. when Antiochus IV (who was called Epiphanes, that is, the manifestation of God) came to the throne, he used all his power and authority to stamp out the Jewish religion and culture. He got idols installed in the Holy Temple at Jerusalem and forced the Jews to prostrate themselves before them. He strictly forbade the rite of offering the sacrifices at the altar, and commanded the Jews to offer sacrifices to idolatrous deities instead. He proposed death penalty for those who would keep the Torah in their houses, or observe the Sabbath or perform circumcision of their children. But the Jews did not yield to this coercion, and started a powerful resistance movement, known in history as the revolt of the Maccabees. Though in this struggle the sympathies of the Greeck oriented Jews were with the Greeks, and they fully cooperated with the despots of Antioch to crush the Maccabean revolt, the common Jews who still retained the religious fervor of the days of Ezra sided with the Maccabees, who were ultimately able to drive out the Greeks and establish a free religious state which remained in power till 67 B.C This state prospered and in time extended to all those territories which had once been under the control the kingdoms of Judah and Israel. It was able to annex a part of the land of the Philistines which had remained unconquered even in the days of Prophets David and Solomon (Peace be upon them). This is the historical background of the verse of the Quran under commentary.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :8 یہ اشارہ ہے اس مہلت کی طرف جو یہودیوں ( یعنی اہل یہودیہ ) کو بابل کی اسیری سے رہائی کے بعد عطا کی گئی ۔ جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے ، وہ تو اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اٹھے ، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والا تھا ۔ اس نے ان لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے ، اور ان لوگوں کو بھی توبہ و انابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلا وطن کر دیے گئے تھے ۔ آخرکار رحمت الہی ان کی مدد گار ہوئی ۔ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا ۔ سن ۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس ( خورس یا خسرو ) نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہو گئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا ۔ سائرس نے یہودیوں کی ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی اجازت بھی دی ، مگر ایک عرصے تک ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آباد ہو گئی تھیں ، مزاحمت کرتی رہیں ۔ آخر داریوس ( وارا ) اول نے سن ۵۲۲ ق م یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زرو بابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حِجِّی نبی ، زکریا نبی اور سردار کاہن یشوع کی نگرانی میں ہیکل مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا ۔ پھر سن٤۵۷ ق م میں ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ حضرت عزیر ( عزرا ) یہودیہ پہنچے اور شاہ ایران ارتخششتا ( ارٹا کسر سزیا اردشیر ) نے ایک فرمان کی رو سے ان کو مجاز کیا کہ: ” تو اپنے خدا کی اس دانش کے مطابق جو تجھ کو عنایت ہوئی ، حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کرا تاکہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خدا کی شریعت کو جانتے ہیں انصاف کریں ، اور تم اس کو جو نہ جانتا ہو سکھاؤ ، اور جو کوئی تیرے خدا کی شریعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اس کو بلا توقف قانونی سزا دی جائے ، خواہ موت ہو ، یا جلاوطنی ، یا مال کی ضبطی ، یا قید“ ۔ ( عزرا ۔ باب۸ ۔ آیت۲۵ ۔ ۲٦ ) اس فرمان سے فائدہ اٹھا کر حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا ۔ انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر و صلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا ۔ بائیبل کی کتب خمسہ کو ، جن میں توراة تھی ، مرتب کر کے شائع کیا ، یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا ، قوانین شریعت کو نافذ کر کے ان اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں ، ان تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے ، اور بنی اسرائیل سے از سرِ نو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا ۔ سن ٤٤۵ ق م میں نحمیاہ کے زیر قیادت ایک اور جلا وطن گروہ یہودیہ واپس آیا اور شاہ ایران نے تحمیاہ کو یروشلم کا حاکم مقرر کر کے اس امر کی اجازت دی کہ وہ اس کی شہر پناہ تعمیر کرے ۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیت المقدس پھر سے آباد ہوا اور یہودی مذہب و تہذیب کا مرکز بن گیا ۔ مگر شمالی فلسطین اور سامریہ کے اسرائیلیوں نے حضرت عزیر کی اصلاح و تجدید سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا ، بلکہ بیت المقدس کے مقابلہ میں اپنا ایک مذہبی مرکز کوہ جرزیم پر تعمیر کر کے اس کو قبلہ اہل کتاب بنانے کی کوشش کی ۔ اس طرح یہودیوں اور سامریوں کے درمیان بُعد اور زیادہ بڑھ گیا ۔ ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے ایک سخت دھکا لگا ۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی ، ان میں سے شام کا علاقہ اس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے سن ١۹۸ ق م میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ یہ یونانی فاتح ، جو مذہبا مشرک ، اور اخلاقا اباحیت پسند تھے ، یہودی مذہب و تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے ۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصا عنصر ان کا آلہ کار بن گیا ۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا ۔ ایک گروہ نے یونانی لباس ، یونانی زبان ، یونانی طرزِ معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا ۔ سن ١۵۷ ق م میں انٹیوکس چہارم ( جس کا اپنی فائنیس یعنی مظہر خدا ) تھا ، جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی ۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبر دستی بت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ ان کو سجدہ کریں ۔ اس نے قربان گاہ پر قربانی بند کرائی ۔ اس نے یہودیوں کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے ان سب لوگوں کے لیے سزائے موت تجویز کی جو اپنے گھروں میں توراة کا نسخہ رکھیں ، یا سَبت کے احکام پر عمل کریں ، یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں ۔ لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں مُکّابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے ۔ اگرچہ اس کشمکش میں یو نانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمدردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں ، اور انہوں نے عملا مُکّابی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا ، لیکن عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روح دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہو گئے اور آخرکار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کر لی جو سن ٦۷ ق م تک قائم رہی ۔ اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہو گئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگین تھے ، بلکہ فِلسِتیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا ۔ انہی واقعات کی طرف قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت اشارہ کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: تقریباً ستر سال تک بخت نصر کی غلامی میں رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اس طرح رحم فرمایا کہ ایران کے بادشاہ اخسویرس نے بابل پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا، اس موقع پر اسے ان یہودیوں کی حالت زار پر رحم آیا اور اس نے ان کو آزاد کرکے دوبارہ فلسطین میں بسادیا، اس طرح ان کو دوبارہ خوشحالی ملی، اور ایک مدت تک وہ بڑی تعداد میں وہاں آباد رہے، مگر جب خوشحالی ملنے پرانہوں نے دوبارہ بد اعمالیوں پر کمر باندھی تو وہ دوسرا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:6) رددنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم نے پھیر دیا۔ ہم نے لوٹا دیا۔ ہم نے واپس کردیا۔ ہم نے پلٹا دیا۔ لکم تمہارے حق میں۔ الکرۃ۔ الکر کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو بالذات بالفعل پلٹانا یا موڑ دینا۔ یہ اصل میں مصدر ہے مگر بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع کرو رہے (مادہ کرر) اسی سے الکرۃ بمعنی دوسری بار ثم رددنا لکم الکرۃ علیہم پھر ہم نے دوسری بار تم کو ان پر غلبہ دیا۔ امددناکم۔ ماضی جمع متکلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہم نے تمہاری مدد کی امداد (افعال) سے۔ نفیرا۔ منصوب بوجہ تمیز کے ہے اکثر سے نفیر کنبہ یا قبیلہ کے افراد۔ یا یہ نفر کی جمع ہے جیسے عبد کی جمع عبید ہے اور کلب کی جمع کلب کی جمع کلیب ہے۔ یا نفر ینفر (ضرب) سے مصدر ہے۔ لڑائی کے لئے نکلنا۔ نفر القوم للقتال قوم لڑائی کے لئے نکلی اکثرہم بفیرا۔ ای اکثر عددا۔ جعلنکم اکثر نفیرا۔ ہم نے تم کو کثیر التعداد بنادیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی تاکہ تمہیں ڈھنڈ ڈھونڈ کر قتل کریں، لوٹ مار کریں اور قیدی بنائیں۔ یہاں ” عبادا “ سے بابل کے بادشاہ بخت نصر اور انکے ساتھی مراد ہیں۔ یا جالوت اور اس کے فوجی انہوں نے بنی اسرائیل کو خوب قتل کیا تو رات کو جلا ڈالا اور بیت المقدس کی مسجد مسمار کردی اور پھر ستر ہزار یہودیوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی یہ چیزیں تم کو واپس ملیں گی اور ان سے تم کو قوت پہنچے گی۔ 3۔ پس جاہ اور مال اور اولاد اور اتباع سب میں ترقی ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم رددنا لکم الکرۃ علیھم وامددنکم باومال وبنین وجعلنکم اکثر نفیرا (٧١ : ٦) ” اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبہ کا موقعہ دلایا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدددی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی “۔ اس کے بعد یہی عمل از سر نو دہرایا جاتا ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ اس پیشن گوئی کا دوسرا حصہ روبعمل آئے اور جو وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہو ، اللہ تعالیٰ یہاں ایک نہایت ہی اہم اساسی قانون مکافات عمل بیان کردیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد قتادہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر پہلی بار جالوت کو مسلط فرما دیا تھا اس نے انہیں قید کیا اور قتل کیا اور برباد کیا پھر اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں انہیں قوت و طاقت عطا فرما دی جس کا (ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْھِمْ ) میں ذکر فرمایا ہے پھر دوسری بار جب شرو فساد میں منہمک ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو بھیج دیا جس نے ان کو قید کیا اور برباد کیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا جس کا (عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ ) میں تذکرہ فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے پھر ان پر رحمت فرمائی لیکن ان لوگوں نے برائی کو اختیار کیا اور نافرمانیوں میں لگ گئے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب بھیج دیا (یہ خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے کے واقعات ہیں) پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اہل عرب کو مسلط فرما دیا سورة انفال میں ارشاد ہے۔ (وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْھِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُھُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ) (اور جب آپ کے رب نے یہ بات بتادی کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو بھیجتا رہے گا جو انہیں بری تکلیف پہنچاتے رہیں گے) لہٰذا یہودی قیامت تک عذاب میں ہیں اس کا یہ معنی نہیں کہ ہر دن ہر رات اور ہر سال تکلیف ہی میں رہیں گے مطلب یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً ان پر دشمن مسلط ہوتے رہیں گے جرمنی میں نازیوں نے پچاس سال پہلے جو ان کا ناس کھویا تھا وہ تاریخ دان جانتے ہی ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 پھر ان دشمنوں پر ہم نے تم کو دوبارہ غلبہ دیا اور تمہاری باری اور تمہارے دن پھر دیئے یعنی تمہاری توبہ کرنے کے بعد اور تمہاری مال سے اور بیٹوں سے مدد کی اور تم کو لشکر کے اعتبار سے زیادہ کردیا یعنی دوسروں کی غلامی کے بعد جب تم کو احساس ہوا اور تم نے توبہ کی اور ناشائستہ اعمال ترک کردیئے تو ہم نے تمہارے نقصانات کی تلافی کردی اور تمہاری باری لوٹا دی اور مال و اولاد کی فراوانی سے نواز دیا اور جب اولاد بڑھی تو لشکر کی زیادتی ہوگئی۔