Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 85

سورة بنی اسراءیل

وَ یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵﴾

And they ask you, [O Muhammad], about the soul. Say, "The soul is of the affair of my Lord. And mankind have not been given of knowledge except a little."

اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ جواب دے دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Ruh (spirit) Al-Bukhari recorded in his Tafsir of this Ayah that Abdullah bin Mas`ud said, "While I was walking with the Prophet on a farm, and he was resting on a palm-leaf stalk, some Jews passed by. Some of them said to the others, `Ask him about the Ruh.' Some of them said, `What urges you to ask him about that?' Others said, `Do not ask him, lest he gives you a reply which you do not like.' But they said, `Ask him.' So they asked him about the Ruh. The Prophet kept quiet and did not give them an answer, and I knew that he was receiving revelation, so I stayed where I was. When the revelation was complete, the Prophet said: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي ... And they ask you concerning the Ruh (the spirit). Say: "The Ruh (the spirit) is one of the things, the knowledge of which is only with my Lord..." This context would seem to imply that this Ayah was revealed in Al-Madinah, and that it was revealed when the Jews asked him this question in Al-Madinah, although the entire Surah was revealed in Makkah. This may be answered with the suggestion that this Ayah may have been revealed to him in Al-Madinah a second time, after having previously been revealed in Makkah, or that he was divinely inspired to respond to their question with a previously-revealed Ayah, namely the Ayah in question. Ibn Jarir recorded that Ikrimah said, "The People of the Book asked the Messenger of Allah about the Ruh, and Allah revealed: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ... And they ask you concerning the Ruh... They said, `You claim that we have only a little knowledge, but we have been given the Tawrah, which is the Hikmah, وَمَن يُوْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِىَ خَيْرًا كَثِيرًا and he, to whom Hikmah is granted, is indeed granted abundant good.' (2:269) Then the Ayah: وَلَوْ أَنَّمَا فِى الاٌّرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَمٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ And if all the trees on the earth were pens and the sea (were ink wherewith to write), with seven seas behind it to add to its (supply), (31:27) was revealed. He said, "Whatever knowledge you have been given, if Allah saves you from the Fire thereby, then it is great and good, but in comparison to the knowledge of Allah, it is very little." وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ... And they ask you concerning the Ruh. Al-Awfi reported that Ibn Abbas said, "This was when the Jews said to the Prophet, `Tell us about the Ruh and how the Ruh will be punished that is in the body - for the Ruh is something about which only Allah knows, and there was no revelation concerning it.' He did not answer them at all, then Jibril came to him and said: ... قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلً Say: "The Ruh (the spirit) is one of the things, the knowledge of which is only with my Lord. And of knowledge, you (mankind) have been given only a little." So the Prophet told them about that, and they said, `Who told you this' He said, جَاءَنِي بِهِ جِبْرِيلُ مِنْ عِنْدِ الله Jibril brought it to me from Allah. They said, `By Allah, no one has told you that except our enemy (i.e., Jibril).' Then Allah revealed: قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ Say: "Whoever is an enemy to Jibril (let him die in his fury), for indeed he has brought it (this Qur'an) down to your heart by Allah's permission, confirming what came before it." (2:97) The Ruh and the Nafs As-Suhayili mentioned the dispute among the scholars over whether the Ruh is the same as the Nafs, or something different. He stated that; it is light and soft, like air, flowing through the body like water through the veins of a tree. He states that the Ruh which the angel breathes into the fetus is the Nafs, provided that it joins the body and acquires certain qualities because of it, whether good or bad. So then it is either a soul in (complete) rest and satisfaction (89:27) or inclined to evil (12:53), just as water is the life of the tree, then by mixing with it, it produces something else, so that if it mixes with grapes and the grapes are then squeezed, it becomes juice or wine. Then it is no longer called water, except in a metaphorical sense. Thus we should understand the connection between Nafs and Ruh; the Ruh is not called Nafs except when it joins the body and is affected by it. So in conclusion we may say: the Ruh is the origin and essence, and the Nafs consists of the Ruh and its connection to the body. So they are the same in one sense but not in another. This is a good explanation, and Allah knows best. I say: people speak about the essence of the Ruh and its rulings, and many books have been written on this topic. One of the best of those who spoke of this was Al-Hafiz Ibn Mandah in a book which we have heard about the Ruh.

بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ کے ہمراہ تھا ۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں ۔ کوئی کہنے لگا اچھا ، کسی نے کہا مت پوچھو ۔ کوئی کہنے لگے تمہیں اس سے کیا نتیجہ کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو ۔ جانے دو نہ پوچھو ۔ آخر وہ آئے اور حضرت سے سوال کیا اور آپ اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکے کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو ۔ مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکے میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا ۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ آیت ( قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا ١٠٩؁ ) 18- الكهف:109 ) یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الہٰی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہو جائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ ۔ عکرمہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31- لقمان:27 ) ، کا بیان فرمایا ہے یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمین اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں جب بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ عیہ نے ذکر کیا ہے کہ مکے میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی ۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم الہٰی کے مقابلے میں یہ بھی کم ہے ۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے اور یہ آیت اتری ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31- لقمان:27 ) ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسی جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپنے انہیں کچھ نہ فرمایا اسی وقت آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور یہ آیت اتری یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97؀ ) 2- البقرة:97 ) نازل ہوئی یعنی جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے ۔ اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے ۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے ۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں ۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے ۔ یہ بھی کہا گاہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے پس وہ فرشتوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لئے یہ فرشتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے ۔ خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو جناب خضر نے فرمایا اے موسیٰ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی ۔ ( او کما قال ) بقول سہیلی بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہو گیا ۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الہٰی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہے تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کر لو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا واللہ اعلم ۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا ۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کر لیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہو جاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلا پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے مثلا انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اسے اصلی پانی نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جا سکتا اسی طرح اسے نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے ۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے ۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں ۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری (صحیح بخاری) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] روح سے مراد وحی الہی ہے :۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نبی اکرم کے ساتھ ایک کھیت میں جارہا تھا۔ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے & اس پیغمبر سے پوچھو کہ روح کیا چیز ہے & کسی نے کہا، کیوں ایسی کیا ضرورت ہے ؟ اور کسی نے کہا، ممکن ہے وہ تمہیں کوئی ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہ یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی۔ چناچہ انہوں نے آپ سے پوچھا، روح کیا چیز ہے ؟ آپ (تھوڑی دیر) خاموش رہے اور انھیں کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی آنے لگی ہے اور اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (وَیَسْئَلُوْنَکَ ۔۔ قلیلا تک (بخاری، کتاب التفسیر۔ نیز کتاب العلم۔ باب وما اوتیتم من العلم الاقلیلا) اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں & یہود یہ کہتے تھے کہ ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔ ہمیں تورات دی گئی اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ ) تا آخر ( سورة کہف کی آیت نمبر ١٠٩) (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سورة تو مکی ہے اور یہود مدینہ میں رہتے تھے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مکی سورتوں میں متعدد آیات مدنی بھی موجود ہیں جنہیں مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے مکی سورتوں میں مناسب مقام پر رکھا گیا ہے اور ہر سورت کے درمیان آیات کی ترتیب بھی توقیفی ہے یعنی یہ ترتیب بھی وحی الٰہی کے مطابق ہے نیز بعض کتب سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال دراصل قریش مکہ نے یہود کے کہنے پر کیا تھا مگر بخاری کی روایت کے واضح الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے۔ وہی توجیہ درست ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ روح اور نفس کا فرق :۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ روح سے مراد کیا ہے ؟ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر روح کو & وحی الٰہی & کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ روح کے ساتھ امر کا لفظ بھی موجود ہے جیسے یہاں موجود ہے۔ یا مثلاً فرمایا : ( یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بالرُوْحِ مِنْ اَمْرِہِ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ ) (١٦: ٢) نیز فرمایا : (یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ ) (٤٠: ١٥) نیز فرمایا : (وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا) (٤٢ : ٥٢) لہذا یہاں بھی روح سے مراد وحی الٰہی ہی ہے یا وحی لانے والا فرشتہ اور اس فرشتہ یعنی جبریل کو روح الامین بھی کہا گیا ہے۔ اور سیاق وسباق سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے اس آیت سے پہلے کی آیت میں بھی وحی الٰہی کا ذکر ہے اور بعد والی آیت میں بھی بالفاظ دیگر یہود کا دراصل سوال یہ تھا کہ وحی الٰہی کی کیفیت کیا ہے اور حصول قرآن کا اصل ماخذ کیا ہے اور وحی لانے والے کی ماہیت کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ اتنا قلیل ہے کہ ان حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بعض علماء نے یہاں روح سے مراد & جان & لی ہے۔ جو ہر جاندار کے جسم میں موجود ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ ہوتا ہے اور اس کے نکلنے سے مرجاتا ہے۔ اس مراد سے انکار بھی مشکل ہے۔ کیونکہ انسان خواہ کتنے فلسفے بکھیرے اس روح کی حقیقت کو بھی جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح انسان کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا دار و مدار وحی الٰہی پر ہے اسی طرح جسمانی زندگی کا دار و مدار روح پر ہے تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی توجیہ ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی تائید بہت سی دوسری آیات سے بھی ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت کے وقت فرشتے جو روح نکالنے آتے ہیں۔ اس کے لیے قرآن نے روح کی بجائے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے فرمایا اخرجوا انفسکم (٦: ٩٣) اور بعض یہ کہتے ہیں کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۔۔ : عبداللہ بن مسعود (رض) کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض یہود کے روح سے متعلق سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ دیکھیے بخاری، العلم، باب قول اللہ تعالیٰ : ( وما أوتیتم من العلم إلا قلیلا ) : ١٢٥۔ مسلم : ٢٧٩٤ ] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے، مگر یہ سورت مکی ہے اور ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ قریش نے یہود سے کہا : ( أَعْطُوْنَا شَیْءًا نَسْأَلُ عَنْہُ ہٰذَا الرَّجُلَ ، فَقَالُوْا سَلُوْہُ عَنِ الرُّوْحِ ، فَسَأَلُوْہُ ، فَنَزَلَتْ : (ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ) [ الإسراء : ٨٥] قَالُوْا أُوْتِیْنَا عِلْمًا کَثِیْرًا، أُوْتِیْنَا التَّوْرَاۃَ ، وَمَنْ أُوْتِيَ التَّوْرَاۃَ فَقَدْ أُوْتِيَ خَیْرًا کَثِیْرًا، قَالَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ ) [ الکھف : ١٠٩] ) ” ہمیں کوئی چیز دو جس کے متعلق ہم اس آدمی سے سوال کریں ؟ “ تو انھوں نے کہا : ” اس سے روح کے متعلق پوچھو۔ “ چناچہ انھوں نے آپ سے پوچھا تو یہ آیت اتری : (ۧوَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ) انھوں نے کہا : ” ہمیں تو کثیر علم عطا کیا گیا ہے، کیونکہ ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی۔ “ ابن عباس نے فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ ) [ مسند أحمد : ١؍٢٥٥، ح : ٢٣١٣، وصححہ الألبانی ] ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ یہ آیت پہلے مکہ میں اتری ہو (کیونکہ یہ سورت مکی ہے) پھر دوبارہ مدینہ میں اتری ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدینہ میں جب یہودیوں نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی ہو کہ آپ یہ آیت پڑھ کر سنائیں۔ روح کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے، مثلاً وحی (مومن : ١٥) ، قوت و ثابت قدمی (مجادلہ : ٢٢) جبریل (علیہ السلام) (شعراء : ١٩٣) ، قرآن (شوریٰ : ٥٢) اور مسیح (علیہ السلام) (نساء : ١٧١) زیر تفسیر آیت میں روح سے مراد وہ چیز ہے جس سے بدن کو زندگی حاصل ہوتی ہے، ہر شخص اس کا مشاہدہ کرتا ہے، کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ فرمایا ان سے کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے، یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی، وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مرگیا۔ اس کے علاوہ روح کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ اس میں نکتہ یہ بھی ہے کہ جب آدمی اللہ کے حکم سے پیدا ہونے والی اس مخلوق کی حقیقت نہیں جانتا، جو خود اس میں رہتی ہے تو وہ خالق کی حقیقت کیسے جان سکتا ہے ؟ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا : اس مفہوم کی طرف سورة کہف (١٠٩) اور لقمان (٢٧) میں بھی اشارہ ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو صرف وہ باتیں بتائی ہیں جن کی انھیں ضرورت ہے اور جو انسانی عقل و فکر میں آسکتی ہیں، اگرچہ انسانی فکر کے سوچنے پر کوئی پابندی نہیں، مگر اسے اپنی حدود میں رہنا لازم ہے۔ انسان نے ایسی ایسی ایجادات کیں جو بیان سے باہر ہیں مگر وہ اس راز (روح) کی حقیقت کو پانے سے عاجز رہا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز اور غیب کی چیز ہے، جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے ؟ کیسے آئی ؟ اور کس طرح جاتی ہے ؟ کہاں سے آئی اور کہاں جاتی ہے ؟ مخلوق کو صرف اتنا معلوم ہے جتنا اس علیم وخبیر نے بتایا ہے، اس سے آگے سب بےبس ہیں اور سب کا علم اللہ کے مقابلے میں اتنا ہے جتنا سمندر میں سے پرندے کی چونچ میں آنے والا پانی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The first verse (85) appearing above carries a question posed by disbe¬lievers about Ruh (soul, spirit) along with its answer that came from Allah Ta` ala. The word: اَلرُّوح (al-ruh) is used in the Arabic language and idiom, and in the Holy Qur&an as well, to convey several meanings. The well-recognized meaning taken from this word is common knowledge, that is, the soul on which depends life. In the Holy Qur&an, this word has also been used for the archangel, Jibra&il al-Amin (علیہ السلام) (Gabriel, the Trust-worthy): |" نَزَلَ بِهِ الرُّ‌وحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ |" (The Trustworthy Spirit has brought it down upon your heart - ash-Shu` ra& 26:193, 194). It has also been used for Sayyidna ` Isa علیہ السلام (4:171), and Wahy (revelation - 40:15), and the Qur&an too: أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُ‌وحًا مِّنْ أَمْرِ‌نَا (and We have revealed to you a spirit of Our command - 42:52). What does &Ruh& signify? Therefore, the first thing to be determined here is the intent of the questioners as to which meaning they had in mind when they had asked the question about the Ruh. Some respected early commentators have, in view of the context, declared this question as related to revelation and Qur&an, or to angel Jibra&il who brought it. The apparent reason is that the Qur&an was mentioned earlier in: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْ‌آنِ (And We reveal the Qur&an - 82) and it is again the Qur&an that finds mention in the verses after that. Given this congruity, they found it appropriate to take &Ruh& in this question too as signifying nothing but Wahy and Qur&an, or Jibra&il (علیہ السلام) . In that case, the question would be about how the Wahy or reve¬lation came to him and who brought it. In response to the question, the Holy Qur’ an considered it sufficient to say that the revelation was from the command of Allah. It elected to be silent about its details and modal¬ities that the questioners were seeking. But, the background of the revelation of this verse given in authentic Ahadith ascending to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is just about very clear in respect of the nature of the question. Those asking the question had asked about the living Ruh and the underlying purpose was to find out the reality of Ruh. What is it? How does it come in and go out of the human body? How does it make man and animal come alive? According to the Sahih of al-Bukhari and Muslim, Sayyidna ` Abdullah ibn Mas’ ud (رض) narrates: &Once I was walking with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through an unpopulat¬ed part of Madinah. He had a stick from the branch of a date palm in his blessed hand. When he passed by some Jews, they were talking among themselves: Muhammad is coming. Ask him about the Ruh. Others asked them not to do that. But, those bent on asking went ahead and asked the question. After having heard the question, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) reclined on his stick and stood silent which gave me the inkling that the revelation was about to come on him. After a little while, when the revelation had come to him, he recited the verse: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّ‌وحِ (And they ask you about the Ruh).& At this point, it is understandable that it was a terminology of the Qur&an when it called the Qur’ an, or Wahy (revelation) as Ruh. That the question asked by these people was based on it is too far out. Of course, the matter of the living Ruh, human or animal, is such as would naturally emerge in everyone&s mind. Therefore, the majority of commentators - Ibn Kathir, Ibn Jarir, al-Qurtubi, Abu Hayyan, &Alusi - confirm the view that the question related to the reality of the living Ruh. As for the continuity of references to the Qur&an in the context and that the question-answer interlude about Ruh coming in between would be incoherent, its answer is clear. Previous verses have mentioned hostile questions asked by the disbelievers and Mushriks. Their objective thereby was to test the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) concerning his claim to be a messenger of Allah. This question too is a link of the same chain. Therefore, it is not incoherent. There is yet another authentic Hadith reported about the background of the revelation of this verse particularly. The position being explained here has been covered there more explicitly, that is, the purpose of the questioner was to test the authority of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as a Messenger. Accordingly, a report of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) appearing in the Musnad of Abmad says that the Quraysh of Makkah who kept addressing all sorts of questions to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) hit upon the idea that the Jews were learned and knew about past scriptures. Why not ask them about what to ask the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and test him thereby? Therefore, they sent their men to the Jews seeking their guidance in this matter. They told them to ask about the Ruh. (Ibn Kathir) Sayyidn Ibn ` Abbas (رض) has also been reported to have said in his explanation of this verse that the Jews had also said while asking this question - &you tell us how does punishment affect the Ruh.& By that time, nothing had been revealed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about it. Therefore, he did not answer the question instantly at that time. Then, came angel Jibra&il with the verse: قُلِ الرُّ‌وحُ مِنْ أَمْرِ‌ رَ‌بِّي (Say, |"the Ruh is from the command of my Lord.|" ) (Abridged from Ibn Kathir) The incident of the question: Did it happen in Makkah or Madinah? Before we resolve this aspect of the question, we have to consider the two Hadith reports relating to the background of the revelation of this verse, that of Sayyidna Ibn Mas’ ud and Ibn ` Abbas (رض) ، referred to above. Out of the two, according to the report of Sayyidna Ibn Mas’ ud (رض) ، this incident about the question came to pass in Madinah - and that is the re¬ason why some commentators have declared this verse to be Madani, though a major portion of Surah Bani Isra&il (al-Isra& ) is Makki. As for the report from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، it places the incident at Mak¬kah. In accordance with that, this verse too remains Makki like the whole Surah. Therefore, Ibn Kathir has declared this very probability to be weightier and more acceptable. And as for the report of Sayyidna Ibn Mas’ ud (رض) ، he responds by saying that it is possible that this verse was revealed in Madinah a second time - as a repeated revelation of many verses of the Qur&an is an accepted fact in the sight of all ` Ulama&. And Tafsir Mazhari, by declaring the report of Sayyidna Ibn Mas’ ud (رض) as weightier and more acceptable, has determined the incident to be that of Madinah and the verse to be Madani. It gives two reasons for it. Firstly, this report appears in the two Sahihs of al-Bukhari and Muslim and its authority is stronger as compared to the report of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . Secondly, in this report, Sayyidna Ibn Mas’ ud (رض) is a part of the inci¬dent. He is narrating an event that was his own. This makes it contrary to the report of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) where, it is obvious, he would have heard it as told by someone (because he was too young at that time to witness the occurrence). The answer to the question asked The Holy Qur&an said: قُلِ الرُّ‌وحُ مِنْ أَمْرِ‌ رَ‌بِّي (Say, |"the Ruh is from the command of my Lord.|" ). While explaining the answer, statements and inter¬pretations given by commentators differ. The closest and the clearest of these is what Qadi Thana&ullah Panipati has preferred in his Tafsir Mahari. He says: Only what was necessary and what common people would understand has been told - and the full reality of Ruh, that the question sought, was not unfolded because it was beyond the comprehen¬sion of common people and, for that matter, nothing they needed hinged on understanding it. Here, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked to respond by saying that &the Ruh is from the command of my Lord.& In other words, it is not like the usual created that come into existence through the disper¬sal of matter and procreation. In fact, it is something created directly through the command (کُن kun: be) of Allah Ta’ ala. At least, this much of the answer makes it clear that Ruh cannot be taken on the analogy of common matter - which removes all those doubts that emerge as a result of trying to understand Ruh through the prism of materialistic inquiry. The hard truth is that this much knowledge of Ruh is sufficient for man. No business, religious or worldly, depends on knowing more than that. Therefore, taking that part of the question as redundant and unneces¬sary, it was not answered - specially when understanding its reality is so¬mething not easy even for the wisest of the wise, not to say much about the common people. Answering every question is not necessary unless religiously advisable Imam Abu Bakr al-Jassas (رح) has deduced from this answer the ruling that it is not necessary for the Mufti and ` Alim to answer every question and every aspect from it as posed by the questioner. Instead of doing that, the answer should be given with religious advisability kept in sight. Any answer that is above the comprehension of the addressee, or should there be the danger of his or her falling into misunderstanding, then, such an answer should not be given. Similarly, not to be answered are questions that are unnecessary (لَا یَعنِی :la ya` ni). Yes, should there be a person who faces a situation in which he must act one way or the other and who is no ` Alim, then, it is necessary for the Mufti and ` Alim to give an answer in the light of his knowledge. (Jassas) Imam al-Bukhari has devoted a chapter heading in Kitab al-` Ilm to highlight this point. He has said that a question the answer to which is likely to cause misunder¬standing should not be answered. Whether or not it is possible for anyone to have the knowledge of the reality of Ruh The Holy Qur&an has given an answer to this question in accordance with the need and comprehension of the addressee. It has not elected to unfold the reality of Ruh. But, it does not necessarily imply that no human being can simply understand the reality of Ruh and that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also did not know its reality. The truth of the matter is that this verse neither negates nor confirms it. If a prophet or messenger were to come to know its reality through Wahy (revelation), or a Waliyy (man of Allah) through Kashf (illumination) and Ilham (inspiration), then, it is not contrary to this verse. In fact, even if this matter is debat¬ed and investigated in terms of reason and philosophy, it would certainly be called useless and unnecessary, but it cannot be called impermissible. Therefore, many learned scholars from the early and later period of Islam have written standard books about Ruh. In our period, my venerat¬ed teacher, Shaykh al-Islam, Shabbir Ahmad Usmani has presented this issue admirably in a small tract. Here, he has explained its reality to the measure it is possible for a common person to understand and an educat¬ed one to find sufficient enough to avoid doubts and difficulties. An important note At this juncture, Imam al-Baghawi has carried a detail report from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) as follows: This verse was revealed in Makkah al-Mukarramah. It happened at a time when the Quraysh chiefs of Makkah got together and talked about the problem that Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was born amongst us and grew up into a young man. No one ever doubted his trustworthiness, honesty and truthfulness, and he was never accused by anyone of having told a lie. Yet, despite all that, we just do not understand the claim of being a prophet he was now mak¬ing. Therefore, let us do something about it, like sending our delegation to the Jewish scholars of Madinah and get a learned opinion about him from them. So, a delegation from the Quraysh met the Jewish scholars in Madinah. They advised: we tell you three things. Ask him about these three. If he answers all three, he is no prophet. Similarly, if he does not answer any of the three, he is still no prophet. And if he an¬swers two, not answering the third, be certain that he is the prophet.* They proposed three questions: (1) Ask him about those in the past who had sought refuge in a cave to stay safe from shirk - because, their account is unique. (2) Ask him about the person who had traveled through the East and West of the Earth and what had happened to him. (3) Ask him about the Ruh (soul, spirit). *. This detail is in accordance with Ma` alim al-Tanzil, p. 134, v. 4 - Muhammad Taqi Usmani. The delegation returned and posed those three questions before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He said, &I shall give you the answer to these tomorrow&- but, he did not say, |"Insha&Allah|" with it. The outcome was that the channel of Wahy (revelation) remained discontinued for a few days. There are various reports that put the number of days from twelve, fifteen to forty during which it stood stopped. The Quraysh of Makkah had their opportunity to hurl taunts - &we were promised an answer tomorrow, now so many days have passed and we have no answer!& This caused the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم too to become anxious. Then came angel Jibra&il with the verse: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ (And never say about anything: |"I will do that tomorrow,|" without [ saying ]: |"Insha&Allah|": [ If Allah wills ].& - al-Kahf, 18: 23, 24) and, after that, he recited the verse about the Ruh mentioned above. Then came the revelation of the verses relating to the people of Kahf, and the event of Dhul-Qarnain who had traveled from the East to the West which is to appear in Surah al-Kahf. A detailed answer has been given there by narrating the story of the people of Kahf and Dhul-Qarnain while the question concerned with the reality of the Ruh was not answered (which made the sign of the veracity of prophecy given by the Jews manifest). Tirmidhi has also described this event briefly. (Mazhari) Investigative observations on the reality of Ruh (soul, spirit) and Nafs (self) have appeared earlier in this volume under verse 29 of Sarah al-Hijr: نَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّ‌وحِي (I have blown into him of my spirit - 15:29). Pre¬sented with reference to Tafsir Mazhari, it makes the kinds of Ruh along with the reality of each sufficiently clear.

خلاصہ تفسیر : اور یہ لوگ آپ سے (امتحانا) روح (کی حقیقت) کو پوچھتے ہیں آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ روح (کے متعلق بس اتنا اجمالا سمجھ لو کہ وہ ایک چیز ہے جو) میرے رب کے سے بنی ہے اور (باقی اس کی مفصل حقیقت سو) تم کو بہت تھوڑا علم (بقدر تمہاری فہم اور ضرورت کے) دیا گیا ہے (اور روح کی حقیقت کا معلوم کرنا کوئی ضرورت کی چیز نہیں اور نہ اس کی حقیقت عام طور پر سمجھ میں آسکتی ہے اس لئے قرآن اس کی حقیقت کو بیان نہیں کرتا) اور اگر ہم چاہیں تو جس قدر آپ پر ہم نے وحی بھیجی ہے (اور اس کے ذریعہ آپ کو علم دیا ہے) سب سلب کرلیں پھر اس (وحی) کے (واپس لانے کے لئے) آپ کو ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی بھی نہ ملے گا مگر (یہ) آپ کے رب ہی کی رحمت ہے (کہ ایسا نہیں کیا) بیشک آپ پر اس کا بڑا فضل ہے (مطلب یہ ہے کہ انسان کو روح وغیرہ ہر چیز کی حقیقت کا تو کیا علم ہوتا اس کو جو تھوڑا سا علم بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے وہ بھی اس کی کوئی جاگیر نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو دینے کے بعد بھی سلب کرسکتا ہے مگر وہ اپنی رحمت سے ایسا کرتا نہیں وجہ یہ ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے) آپ فرما دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات کے لئے جمع ہوجاویں کہ ایسا قرآن بنا لاویں تب بھی وہ ایسا نہ کرسکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جاوے (یعنی ان میں سے ہر ایک الگ الگ کوشش کر کے تو کیا کامیاب ہوتا سب کے سب ایک دوسرے کی مدد سے کام کر کے بھی قرآن کا مثل نہیں بنا سکتے) اور ہم نے لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اس قرآن میں ہر قسم کے عمدہ مضمون طرح طرح سے بیان کیے ہیں پھر بھی اکثر لوگ بےانکار کئے نہ رہے۔ معارف و مسائل : آیات صدر میں پہلی آیت میں کفار کی طرف سے روح کے متعلق ایک سوال اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب مذکور ہے لفظ روح لغات و محاورات میں نیز قرآن کریم میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے معروف و مشہور معنی تو وہی ہیں جو عام طور پر اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں یعنی جان جس سے حیات اور زندگی قائم ہے قرآن کریم میں یہ لفظ جبرئیل امین کے لئے بھی استعمال ہوا ہے نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بھی کئی آیات میں استعمال ہوا ہے اور خود قرآن کریم اور وحی کو بھی روح کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے (آیت) اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا روح سے مراد کیا ہے : اس لئے یہاں پہلی بات غور طلب یہ ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح کا سوال کس معنی کے لحاظ سے کیا تھا بعض حضرات مفسرین نے سیاق وسباق کی رعایت سے یہ سوال وحی اور قرآن یا وحی لانے والے فرشتے جبرئیل کے متعلق قرار دیا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ میں قرآن کا ذکر تھا اور بعد کی آیات میں پھر قرآن ہی کا ذکر ہے اس کے مناسب اس کو سمجھا کہ اس سوال میں بھی روح سے مراد وحی و قرآن یا جبرئیل ہی ہیں اور مطلب سوال کا یہ ہوگا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے کون لاتا ہے قرآن کریم نے اس کے جواب میں اس پر اکتفا کیا کہ اللہ کے حکم سے وحی آتی ہے تفصیلات اور کیفیات جن کا سوال تھا وہ نہیں بتلائیں۔ لیکن احادیث صحیحہ مرفوعہ میں جو اس آیت کا شان نزول بتلایا گیا ہے وہ تقریبا اس میں صریح ہے کہ سوال کرنے والوں نے روح حیوانی کا سوال کیا تھا اور مقصد سوال کا روح کی حقیقت معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا چیز ہے بدن انسانی میں کس طرح آتی جاتی ہے اور کس طرح اس سے حیوان اور انسان زندہ ہوجاتا ہے صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ میں ایک روز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کے غیر آباد حصے میں چل رہا تھا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک میں ایک چھڑی کھجور کی شاخ کی تھی آپ کا گذر چند یہودیوں پر ہوا یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ رہے ہیں ان سے روح کے متعلق سوال کرو دوسروں نے منع کیا مگر سوال کرنے والوں نے سوال کر ہی ڈالا یہ سوال سن کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکڑی پر ٹیک لگا کر خاموش کھڑے ہوگئے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ پر وحی نازل ہونے والی ہے کچھ وقفہ کے بعد وحی نازل ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ یہاں ظاہر ہے کہ قرآن یا وحی کو روح کہنا یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح تھی ان لوگوں کے سوال کو اس پر محمول کرنا بہت بعید ہے البتہ روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہی ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی و انسانی کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کا سوال ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اسی لئے جمہور مفسرین ابن کثیر ابن جریر قرطبی بحر محیط روح المعانی سبھی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے کہ سوال روح حیوانی کی حقیقت سے تھا رہا یہ معاملہ کی سیاق وسباق میں ذکر قرآن کا چلا آیا ہے درمیان میں روح کا سوال جواب بےجوڑ ہے تو اس کا جواب واضح ہے کہ اس سے پہلی آیات میں کفار و مشرکین کی مخالفت اور معاندانہ سوالات کا ذکر آیا ہے جن سے منظور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دربارہ رسالت امتحان کرنا تھا یہ سوال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اس لئے بےجوڑ نہیں خصوصا شان نزول کے متعلق ایک دوسری حدیث صحیح منقول ہے اس میں یہ بات زیادہ وضاحت سے آگئی ہے کہ سوال کرنے والوں کا مطلب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا امتحان لینا تھا۔ چنانچہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ (قریش مکہ جو جا بےجا سوالات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے رہتے تھے ان کو خیال پیدا ہوا کہ یہود تو علم والے ہیں ان کو پچھلی کتابوں کا بھی علم ہے ان سے کچھ سوالات حاصل کئے جاویں جن کے ذریعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لیا جائے اس لئے قریش نے یہود سے دریافت کرنے کے لئے اپنے آدمی بھیجے انہوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو (ابن کثیر) اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ہی سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے سوال میں یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں یہ بتلائیں کہ روح پر عذاب کس طرح ہوتا ہے اس وقت تک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس بارے میں کوئی بات نازل نہ ہوئی تھی اس لئے اس وقت آپ نے فوری جواب نہیں دیا پھر جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ (ابن کثیر ملحضا) واقعہ سوال مکہ میں پیش آیا یا مدینہ میں : اس سے پہلے ایک بات اور قابل نظر ہے کہ شان نزول کے متعلق جو دو حدیثیں ابن مسعود و ابن عباس کی اوپر نقل کی گئیں ہیں ان میں سے ابن مسعود (رض) کی روایت کے مطابق یہ واقعہ سوال مدینہ میں پیش آیا اور اسی لئے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے کہ اگرچہ اکثر حصہ سورة بنی اسرائیل کا مکی ہے اور ابن عباس کی روایت کا تعلق مکہ مکرمہ کے واقعہ سے ہے اس کے مطابق یہ آیت بھی پوری سورت کی طرح مکی باقی رہتی ہے اسی لئے ابن کثیر نے اسی احتمال کو راجح قرار دیا ہے اور ابن مسعود (رض) کی روایت کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول مدینہ میں دوسری مرتبہ ہوا ہو جیسا کہ بہت سی آیات قرآن کا نزول مکرر سب علماء کے نزدیک مسلم ہے اور تفسیر مظہری نے ابن مسعود (رض) کی روایت کو راجح قرار دے کر واقعہ مدینہ کا اور آیت کو مدنی قرار دیا ہے جس کی دو وجہ بتلائیں ایک یہ کہ یہ روایت صحیحین میں ہے اور سند اس کی روایت ابن عباس (رض) سے زیادہ قوی ہے دوسرے یہ کہ اس میں خود صاحب واقعہ ابن مسعود (رض) اپنا واقعہ بیان کر رہے بخلاف روایت ابن عباس (رض) کے کہ اس میں ظاہر یہی ہے کہ ابن عباس (رض) نے یہ بات کسی سے سنی ہوگی ، سوال مذکور کا جواب : قرآن کریم نے یہ دیا ہے (آیت) قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ اس جواب کی تشریح میں حضرات مفسرین کے کلمات اور تعبیرات مختلف ہیں ان میں سب سے زیادہ اقرب اور واضح وہ ہے جو تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس جواب میں جتنی بات کا بتلانا ضروری تھا اور جو عام لوگوں کی سمجھ میں آنے کے قابل ہے صرف وہ بتلادی گئی اور روح کی مکمل حقیقت جس کا سوال تھا اس کو اس لئے نہیں بتلایا کہ وہ عوام کی سمجھ سے باہر بھی تھی اور ان کی کوئی ضرورت اس کے سمجھنے پر موقوف بھی نہ تھی یہاں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان کے جواب میں یہ فرما دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے یعنی وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے تطورات اور توالد و تناسل کے ذریعہ وجود میں آتی ہیں بلکہ وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کے حکم کن سے پیدا ہونے والی چیز ہے اس جواب نے یہ تو واضح کردیا کہ روح کو عام مادیات پر قیاس کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور انسان کے لئے اتنا ہی علم روح کے متعلق کافی ہے اس سے زائد علم کے ساتھ اس کا کوئی دینی یا دینوی کام اٹکا ہوا نہیں اس لئے وہ حصہ سوال فضول اور لایعنی قرار دے کر اس کا جواب نہیں دیا گیا خصوصا جبکہ اس کی حقیقت کا سمجھنا عوام کے لئے تو کیا بڑے بڑے حکماء وعقلاء کے لئے بھی آسان نہیں۔ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سائل کی دینی مصلحت کی رعایت لازم ہے : امام جصاص نے اس جواب سے یہ مسئلہ نکالا کہ مفتی اور عالم کے ذمہ یہ ضروری نہیں کہ سائل کے ہر سوال اور اس کی ہر شق کا جواب ضرور دے بلکہ دینی مصالح پر نظر رکھ کر جواب دینا چاہئے جو جواب مخاطب کے فہم سے بالاتر ہو یا اس کے غلط فہمی میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے اسی طرح بےضرورت یا لایعنی سوالات کا جواب بھی نہیں دینا چاہئے البتہ جس شخص کو کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس کے متعلق اس کو کچھ عمل کرنا لازم ہے اور خود وہ عالم نہیں تو مفتی اور عالم کو اپنے علم کے مطابق اس کا جواب دینا ضروری ہے (جصاص) امام بخاری نے کتاب العلم میں اس مسئلے کا ایک مستقل ترجمۃ الباب رکھ کر بتلایا ہے کی جس سوال کے جواب سے مغالطہ میں پڑنے کا خطرہ ہو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے۔ روح کی حقیقت کا علم کسی کو ہوسکتا ہے یا نہیں : قرآن کریم نے اس سوال کا جواب مخاطب کی ضرورت اور فہم کے مطابق دے دیاحقیقت روح کو بیان نہیں فرمایا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روح کی حقیقت کو کوئی انسان سمجھ ہی نہیں سکتا اور یہ کہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کی حقیقت معلوم نہیں تھی صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت نہ اس کی نفی کرتی ہے نہ اثبات اگر کسی نبی و رسول کو وحی کے ذریعہ یا کسی ولی کو کشف والہام کے ذریعہ اس کی حقیقت معلوم ہوجائے تو اس آیت کے خلاف نہیں بلکہ عقل و فلسفہ کی رو سے بھی اس پر کوئی بحث و تحقیق کی جائے تو اس کو فضول اور لایعنی تو کہا جائے گا مگر ناجائز نہیں کہا جاسکتا اسی لئے بہت سے علماء متقدمین و متاخرین نے روح کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں آخری دور میں ہمارے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک مختصر سے رسالے میں اس مسئلے کو بہترین انداز سے لکھا ہے اور اس میں جس قدر حقیقت سمجھنا عام انسان کے لئے ممکن ہے وہ سمجھا دی ہے جس پر ایک تعلیم یافتہ انسان قناعت کرسکتا ہے اور شبہات و اشکالات سے بچ سکتا ہے۔ فائدہ : امام بغوی نے اس جگہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک مفصل روایت اس طرح نقل فرمائی ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ مکہ کے قریشی سرداروں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے اندر پیدا ہوئے اور جوان ہوئے ان کی امانت و دیانت اور سچائی میں کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا اور کبھی ان کے متعلق جھوٹ بولنے کی تہمت بھی کسی نے نہیں لگائی اور اس کے باوجود اب جو دعویٰ نبوت کا وہ کر رہے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا اس لئے ایسا کرو کہ اپنا ایک وفد مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیج کر ان سے ان کے بارے میں تحقیقات کرو چناچہ قریش کا ایک وفد مدینہ علماء یہود کے پاس مدینہ پہنچا علماء یہود نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم تمہیں تین چیزیں بتلاتے ہیں تم ان سے ان تینوں کا سوال کرو اگر انہوں نے تینوں کا جواب دے دیاتو وہ نبی نہیں اس طرح تینوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا تو بھی نبی نہیں اور اگر دو کا جواب دیا تیسری چیز کا جواب نہ دیا تو سمجھ لو کہ وہ نبی ہیں وہ تین سوال یہ بتلائے کہ ایک تو ان سے ان لوگوں کا حال پوچھو جو قدیم زمانے میں شرک سے بچنے کے لئے کسی غار میں چھپ گئے تھے کیونکہ ان کا واقعہ عجیب ہے دوسرے اس شخص کا حال پوچھو جس نے زمین کے مشرق و مغرب کا سفر طے کیا کہ اس کا کیا واقعہ ہے تیسرے روح کے متعلق دریافت کرو۔ یہ وفد واپس آیا اور تینوں سوال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیئے آپ نے فرمایا کہ میں اس کا جواب تمہیں کل دوں گا مگر اس پر انشاء اللہ نہیں کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز تک وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا بارہ پندرہ سے لے کر چالیس دن تک کی مختلف روایات ہیں جن میں سلسلہ وحی بند رہا قریش مکہ کو طعن وتشنیع کا موقع ملا کہ کل جواب دینے کو کہا تھا آج اتنے دن ہوگئے جواب نہیں ملا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پریشانی ہوئی پھر حضرت جبرائیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے (آیت) وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا جس میں آپ کو یہ تلقین کی گئی کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ کر کیا جائے اور اس کے بعد روح کے متعلق یہ آیت سنائی جو اوپر مذکور ہوئی اور غار میں چھپنے والوں کے متعلق اصحاب کہف کا واقعہ اور مشرق سے مغرب تک سفر کرنے والے ذوالقرنین کا واقعہ جو سورة کہف میں آنے والا ہے اس کی آیات نازل ہوئیں جن میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ جواب میں بیان فرمایا گیا اور روح کے متعلق جس حقیقت کا سوال تھا اس کا جواب نہیں دیا گیا (جس سے یہود کی بتلائی ہوئی علامت صدق نبوت کی ظاہر ہوگئی اس واقعہ کو ترمذی نے بھی مختصرا بیان کیا ہے (مظہری) سورة حجر کی آیت نمبر ٢٩ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ کے تحت روح اور نفس وغیرہ کی حقیقت کے متعلق ایک تحقیق بحوالہ تفسیر مظہری پہلے گذر چکی ہے جس میں روح کی اقسام اور ہر ایک کی حقیقت کو کافی حد تک واضح کردیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا 85؀ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

روح کی کیفیت قول باری ہے (ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی۔ یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں کہو ” یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے۔ “ لوگوں نے کس روح کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تھے۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ تھا جس کے ستر ہزار چہرے ہیں اور ہر چہرے میں ستر ہزار زبانیں ہیں جن سے وہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے جاندار کی روح مراد ہے۔ کلام سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ یہود کے ایک گروہ نے روح کے متعلق سوال کیا تھا۔ جاندار کی روح اس جسم لطیف کا نام ہے جو حیوانی ڈھانچہ رکھتا ہے اور اس کے ہر جز میں زندگی ہوتی ہے۔ تاہم اس کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہر جاندار ایک روح سے البتہ بعض جاندار ایسے ہیں کہ ان میں روح غالب ہوتی ہے اور بعض میں بدن غالب ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس لئے کہ مصلحت اسی میں تھی کہ انہیں ان کی عقل و فہم کی اس دلالت کے حوالے کردیا جائے جو روح کے متعلق ان کے ادراک میں موجود تھی تاکہ انہیں اپنی عقل و فہمسے کام لے کر نتائج اخذ کرنے اور فوائد معلوم کرنے کی مہارت پیدا ہوجائے۔ یہود کی کتاب میں ایک روایت تھی کہ اگر وہ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روح کے متعلق سوال کا جواب دے دیں تو پیغمبر نہیں ہوں گے اس لئے اللہ نے ان کے اس سوال کا جواب نہیں دیا تاکہ یہ صورت ان کی کتاب میں مذکورہ بات کے مطابق ہوجائے۔ روح کا اطلاق کئی چیزوں پر ہوتا ہے، قرآن کو روح کہا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے صوکذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا اور اسی طرح ہم نے آپ کے پاس وحی یعنی اپنا حکم بھیجا) قرآن کو روح کا نام دیا گیا اس میں اسے جاندار کی روح کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی وجہ سے ایک جاندار زندہ رہتا ہے۔ اسی طرح حضرت جبرئیل امین اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اسی تشبیہ کی بنا پر روح کہا گیا ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ قول باری اقل الروح من امر ربی ) کا مفہوم یہ ہے کہ روح ایک ایسا امر ہے جس کا علم میرے رب کو ہے۔ قول باری ہے (وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے) یعنی تمہیں اس علم سے بہت کم حصہ ملا ہے جو منصوص طریقے سے لوگوں کے لئے بیان کردیا گیا ہے، تمہیں صرف اتنا ہی حصہ دیا گیا ہے جس سے تمہارا کام چل جائے۔ رہ گیا روح کا معاملہ تو اس کا تعلق اس علم سے ہے جسے نصاً بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ مصلحت کی خاطر اسے بیان کے بغیر رہنے دیا گیا ہے۔ آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کوئی سائل کسی مسئلے کے متعلق کوئی سوال پوچھے تو اس مصلحت کی خاطر کہ وہ مسئلہ معلوم کرنے کے لئے اپنی سوچ اور تدبر سے کام لے کر مسئلے کا خود ہی اسخراج کرے، اسے جواب نہ دینا جائز ہے۔ بشرطیکہ سائل میں غور و فکر اور استخراج کی اہلیت موجود ہو۔ لیکن اگر سائل پیش آمدہ کسی مسئلے کا حکم معلوم کرنے کے لئے فتویٰ پوچھے اور وہ صاحب نظر نہ ہو تو اس صورت میں اس کے حکم کا علم رکھنے والے عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں اللہ کے حکم سے اسے آگا ہ کرے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آپ سے روح کی حقیقت کو پوچھتے ہیں، اہل مکہ یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے روح کے متعلق آپ سے دریافت کیا تھا، آپ فرما دیجیے کہ وہ میرے پروردگار کے عجائبات میں سے یا یہ اس کے علم اور حکم سے بنی ہے اور علوم خدا وندی میں سے تمہیں بہت تھوڑ اعلم دیا گیا ہے۔ شان نزول : (آیت ) ”۔ ویسئلونک عن الروح “۔ (الخ) امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ منورہ میں جارہا تھا۔ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک دیے ہوئے تھے، آپ کا گزر کچھ یہودیوں کے پاس سے ہوا وہ آپس میں کہنے لگے کہ ان سے کچھ پوچھو، چناچہ وہ بولے کہ ہم سے روح کے بارے میں بیان کیجیے، آپ یہ سن کر کچھ دیر کھڑے ہوئے اور اپنا سر مبارک اوپر کو اٹھایا میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے یہاں تک کہ وحی بند ہوگئی تو آپ نے ان سے فرمایا (آیت) ” الروح من امر بن وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “۔ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتاؤ، جو ہم اس شخص یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں یہودیوں نے کہا کہ آپ روح کے بارے میں دریافت کرو، چناچہ قریش نے آپ سے دریافت کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اور یہ لوگ آپ سے روح کو پوچھتے ہیں آپ فرمادیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں میں متعدد نزول کی توجیہہ سے مطابقت پیدا کی جائے گی یہی قول حافظ ابن حجر عسقلانیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس توقع میں کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں اور مزید تفصیل بتادے، اس لیے سکوت اختیار فرمایا ہو ورنہ تو پھر صحیح بخاری کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ صیح بخاری کی روایت کو اس حیثیت سے بھی ترجیح حاصل ہے کہ اس روایت کے راوی واقعہ کے وقت موجود ہیں، برخلاف حضرت ابن عباس (رض) کے وہ واقعہ کے وقت موجود نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا) روح کے بارے میں یہ سوال ان تین سوالات میں سے تھا جو ایک مرتبہ مدینہ کے یہودیوں نے قریش مکہ کے ذریعے رسول اللہ سے پوچھ بھیجے تھے۔ ان میں سے ایک سوال اصحاب کہف کے بارے میں تھا اور دوسرا ذوالقرنین کے بارے میں۔ ان دونوں سوالات کے تفصیلی جوابات سورة الکہف میں دیے گئے ہیں مگر روح کے متعلق سوال کا انتہائی مختصر جواب اس سورت میں دیا گیا ہے ۔ اس بارے میں یہاں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے اور عالم امر چونکہ عالم غیب ہے اس لیے اس کے بارے میں تم لوگ کچھ نہیں جان سکتے۔ انسان کے علم کا ذریعہ اس کے حواس ہیں اور اپنے ان حواس کے ذریعے وہ صرف عالم خلق کی چیزوں کے بارے میں جان سکتا ہے عالم غیب (عالم امر) تک اس کا علم رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ چناچہ عالم غیب کی باتوں کو اسے ویسے ہی ماننا ہوگا جیسے قرآن اور رسول کے ذریعے سے بتائی گئی ہوں۔ اسی کا نام ایمان بالغیب ہے جس کا ذکر قرآن مجید کے آغاز میں ہی کردیا گیا ہے : (الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ) (البقرۃ) قبل ازیں سورة الاعراف کی آیت ٥٤ اور سورة النحل کی آیت ٤٠ کی تشریح کے ضمن میں عالم خلق اور عالم امر کے بارے میں تفصیلی بحث کی جاچکی ہے۔ وہاں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ فرشتوں انسانی ارواح اور وحی کا تعلق عالم امر سے ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :103 عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے ، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے ، اس لیے کہ یہ معنی صرف اس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفرد جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے ۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو روح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین قرآن کے ظالم اور کافر نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ، اور جہاں بعد کی آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہی ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے؟ ربط عبارت کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد وحی یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہو سکتا ہے ۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں سے لاتے ہو؟ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم سے یہ لوگ روح ، یعنی ماخذ قرآن ، یا ذریعہ حصول قرآن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کمزور بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شہبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے ۔ یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے ، بلکہ خود قرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ ( آیت ١۵ ) ۔ وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے“ ۔ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاْیْمَانُ ( آیت ۵۲ ) ۔ اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی ۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے ۔ سلف میں سے ابن عباس رضی اللہ عنہ ، قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے ، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے ۔ اور صاحب روح المعانی حسن اور قتادہ رحمہما اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

49: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لینے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اور جواب میں اتنی ہی بات بیان فرمائی گئی ہے جو انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے، اور وہ یہ کہ روح کی پیدائش براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی ہے، انسان کے جسم اور دوسری مخلوقات میں تو یہ بات مشاہدے میں آجاتی ہے کہ ان کی پیدائش میں کچھ ظاہری اسباب کا دخل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے، لیکن روح ایسی چیز ہے جس کی تخلیق کا کوئی عمل انسان کے مشاہدے میں نہیں آتا، یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آتی ہے، اس سے زیادہ روح کی حقیقت کو سمجھنا عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے فرمادیا گیا ہے کہ تمہیں بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے اور بہت سی چیزیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٥۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کا حال پوچھا تھا اور نجاری کی روایت میں یہ صراحت بھی آچکی ہے کہ یہود کا یہ سوال مدینہ میں تھا اس صورت میں اس آیت کا نازل ہونا مدینہ میں ہے اور یہ آیت مدنی ہے ١ ؎۔ لیکن ترمذی نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے جو روایت کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہود کے سکھلانے سے قریش نے مکہ میں آنحضرت سے روح کا سوال کیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے ٢ ؎۔ اس صورت میں یہ آیت مکی ٹھہرتی ہے اس حدیث کی سند بھی معتبر ہے اس واسطے حافظ ابن کثیر اور معتبر علماء نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ آیت قریش کے سوال پر پہلے مکہ اور یہود کے سوال پر پھر مدینہ میں دو دفعہ نازل ہوئی ہے متقدمین مفسرین صوفیہ کرام سب کا یہ قول ہے کہ روح کا حال سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا کہ روح کیا چیز ہے لیکن متاخرین میں سے کچھ مفسروں اور صوفیوں نے اپنی سمجھ کے موافق روح کا حال بیان کیا ہے یہ متاخرین کے سب قول اس کے قریب ہیں مگر ایک قول دوسرے قول کے اس طرح ضد میں ہے کہ ایک قول بھی بھروسہ کے قابل باقی نہیں رہتا سچ بات یہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں روح کا حال نہیں بتلایا آنحضرت صلعم سے کوئی روایت ایسی نہیں جس میں روح کا کچھ حال ہو پھر یہ غیب کی بات نہ اٹکل سے حل ہوسکتی ہے نہ کسی صوفی کے کشف سے حل ہوسکتی ہے اٹکل تو شریعت میں گنتی کے قابل چیز نہیں کشف والہام شریعت میں مسلم ہے لیکن کشف والہام میں اس قدر قوت کہاں ہے کہ وحی کی طرح اس سے کوئی مسئلہ شرعی ثابت ہو سکے۔ شیطانی مداخلت سے وحی کی حفاظت خدا کی طرف سے ہمیشہ فرشتے کیا کرتے ہیں جس کا ذکر سورة جن میں آئے گا اس لیے وحی سے ہی خدا کی شریعت ثابت ہوتی ہے اولیاء اللہ کے کشف والہام میں وہ باب نہیں ہے اس واسطے کشف والہام سے کوئی شرعی مسئلہ ثابت نہیں ہوسکتا ان علماء نے جن کو شریعت اور علم طریقت دونوں علموں میں مہارت ہے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں جس طرح خطا اور صحت کا گمان ہے اسی طرح علم طریقت میں صاحب کشف کے کشف کا حال ہے اور باوجود گمان خطا کے مجتہد کا اجتہاد دلیل شرعی اس وجہ سے ٹھہرا ہے کہ شارع (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کی حدیث میں اجتہاد کو دلیل شرعی قرار پانے کی اجازت دے دی ہے کشف کے لیے اس طرح کوئی شرعی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے کشف تابع شریعت ہے اور تابع شریعت کے یہ معنے ہیں کہ جس کشف کی شہادت شریعت دیوے وہ مقبول ہے نہیں تو نہیں غرض کشف کا دلیل شرعی تو ہونا درکنار بلکہ دلیل شرعی سے کشف کی صحت ہوتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح کسی کو یہ نہیں معلوم کہ قیامت کب آئے گی یا مینہ کب برسے گا ‘ یا ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی یا کل کیا ہوگا یا کون کس سر زمین پر مرے گا اسی طرح روح کا علم بھی اللہ ہی کو ہے کہ روح کیا چیز ہے جس کسی نے عقل سے یا کشف سے روح کے حال میں کچھ بحث کی ہے وہ بحث ایسی ہے جس طرح ان پانچ باتوں میں کوئی بحث کرے کیونکہ نبی وقت نے جس طرح ان پانچ چیزوں کی صراحت سے سکوت اختیار کیا ہے اسی طرح روح کی صراحت سے سکوت اختیار کیا ہے پھر ان پانچ چیزوں کے بحث کو بطریق عقل اور کشف کے منع جاننا اور روح کی بحث کو منع نہ جاننا ایک بےدلیل بات ہے اسی واسطے سہروردی (رح) نے عوارف میں لکھا ہے کہ الا قلیلا فرما کر بہت سی باتوں کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو نہیں دیا یہ روح کی حقیقت کا علم بھی انہی بہت سی باتوں میں سے ہے ٣ ؎۔ اگرچہ بعضے علماء نے اس حدیث کا ذکر اوپر گزرا یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد میں ہے۔ اگرچہ بعضے علماء نے اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابوبکر خطیب نے اس سند کو قوی ٹھہرایا ہے جس میں عبدالرحمن بن غنم (رض) نے اس حدیث کو معاذ بن جبل (رض) سے روایت کیا ہے ٤ ؎۔ یہ احمد بن علی ابوبکر خطیب بغدادی مشہور علماء میں ہیں چوتھی صدی ہجری کے علماء میں دار قطنی کے ہم پلہ علماء میں ان کا شمار ہے اور راویوں کے باب میں ان کے قول کا بڑا اعتبار ہے۔ اس تفسیر میں ان کا حال اس جگہ اور بھی بیان کردیا گیا ہے مسند امام احمد اور ابوداؤد میں براء (رض) بن عازب کی ایک صحیح حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ اچھے لوگوں کی روح کی جنت کے کپڑے میں اور برے لوگوں کی روح کو ٹاٹ کے ٹکڑے میں لپیٹ کر فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں ٥ ؎۔ اس حدیث سے اتنی بات کہہ سکتے ہیں کہ جن علماء نے روح کو جسم لطیف کہا ہے ان کا قول اس حدیث کے قریب قریب ہے کیونکہ بغیر جسم کے کسی چیز کو کپڑے یا ٹاٹ میں لپیٹنا ممکن نہیں ہے باقی جس قدر قول روح کے باب میں ہیں وہ اس حدیث کے برخلاف معلوم ہوتے ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٢٨٢ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٢ ؎ کتاب التفسیر۔ ٣ ؎ عوارف بر حاشی احیاء العلوم ص ٢٠٢ ج ٤۔ ٤ ؎ یہ پوری بحث تحفتہ الا حوذی شرح جامع ترمذی ص ٢٨٦ ج ٢ میں قابل مطالعہ ہے۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آ پڑی وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مرگیا۔ اس کے علاوہ روح کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔8 یعنی اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں تمہیں دیا ہوا علم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا ایسے امور کے متعلق سوال کرنا ہی فائدہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہوے کہ میدنہ میں چند یہودیوں کے روح کے متعلق سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری مسلم) مگر نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ یہود کے اشارے پر قریش نے آنحضرت سے یہ سوال کیا تھا۔ اس بنا پر اس آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آیت تو مکہ میں ہی نازل ہوچکی ہو مگر جب مدینہ میں یہود نے دوبارہ سوال کیا ہو تو آنحضرت نے اس آیت کو ان کے جواب میں بھی تلاوت فرما دیا ہو۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١٠) اسرارومعارف آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ یہ آخرت دوبارہ زندگی اور حساب کتاب کا سارا نظام اسی بنیاد پہ استوار ہے کہ روح سے حیات ہے اس کی مفارقت موت ہے وہ پھر لوٹے گی تو اجسام زندہ ہوجائیں گے جبکہ کفار ومشرکین کے نزدیک تو موت ایک خاتمے کا نام ہے تو یہ روح آخر کیا شے ہے ، کہاں سے آتی ہے کدھر جاتی ہے اور کس طرح زندگی کا یا موت کا باعث بنتی ہے ، مفسرین کے مطابق رؤسائے مکہ نے ایک وفد مدینہ میں علماء یہود کے پاس بھیجا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو کیسے پرکھا جائے کہ سچ ہے ، انہوں نے تین سوال بتلائے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھا جو سوائے یہود کے علماء کے کوئی نہیں جانتا تھا اس آدمی کا قصہ پوچھو جس نے مشرق ومغرب کا سفر کیا یعنی ذوالقرنین اور روح کے بارے سوال کرو اگر سچا نبی ہوا تو دو کا جواب دے گا ورنہ تینوں کا جواب دے گا یا کسی کا بھی نہ دے سکے گا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی اطلاع ہوئی دونوں قصے کتاب اللہ میں موجود ہیں جبکہ تیسرے کا مفصل جواب نہ دیا اور یوں اس آزمائش میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سچے ثابت ہوئے تو جس کا جواب مفصل نہ دیا گیا وہ یہی سوال تھا کہ روح کیا ہے ۔ (روح کیا ہے) ارشاد ہوا فرما دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تمہیں اتنا علم نصیب نہیں کہ عالم امر کے بات سمجھ سکو یا جان سکو ، اس موضوع گذشہ صفحات میں (آیت) ” نفخت فیہ من روحی “ ، کے تحت بات نقل کی جا چکی ہے یہاں اتنا فرمایا کہ روح اللہ جل جلالہ کے امر سے ہے وہ کوئی مادی شے نہیں نہ اس کا کوئی توالد وتناسل کا طریقہ ہے کہ معروف ذرائع سے تم جان سکو اس لیے تمہارا علم سارے عالم کی اشیاء کے بارے میں بھی ہو تو بھی روح کو جاننے کے لیے بہت کم ہے کہ فطری عقل و شعور جو انسان کو بحیثیت انسان عطا ہوا وہ محض مادی دنیا سے متعلق ہے اور روح عالم امر سے متعلق ہے جو مادی تخلیق سے بہت بلندی پر ہے ۔ (کیا روح کے بارے مطلق علم نہیں ہو سکتا) ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہاں انسانی فطری اور حصولی علم کی بات ہو رہی ہے جو علم بذریعہ وحی انبیاء کرام (علیہ السلام) کو نصیب ہوتا ہے نہ وہ قلیل ہے اور نہ اس کے ذریعے ان حقائق تک رسائی محال اسی طرح انبیاء کرام (علیہ السلام) کے توسط سے قرب الہی پانے والے افراد جو ولی اللہ کہلاتے ہیں کشفا یا اللہ کی عطا کے دوسرے ذرائع سے جان لیں تو درست ہے نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ روح کے بارے سرے سے تحقیق ہی نہ کی جائے بلکہ علماء نے ہر دور میں اس موضوع پر بات کی ہے اور مسائل تصنیف فرمائے ہیں اب ارشاد ہوتا ہے کہ اطاعت الہی ہی حصول علم کا سرچشمہ بھی ہے ورنہ اللہ قادر ہے کہ کجی بحثی کے نتیجہ میں جو علم تمہیں دیا ہے وہ بھی سلب کرلے اور جو ہدایت بذریعہ وحی نازل فرمائی ہے وہ بھی واپس لے لے تو کسی کی مجال نہیں کہ اللہ جل جلالہ سے یہ علم واپس دلا سکے ، نبی جو بہت عظیم ہستی اور منبع علوم مصدر برکات ہوتا ہے اگر اس سے علوم نبوت اللہ جل جلالہ واپس لے جائے تو کوئی نہیں روک سکتا ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ خود اللہ جل جلالہ کی رحمت ہے کہ وہ نبوت عطا کرتا ہے مگر واپس سلب نہیں فرماتا کہ اے نبی تجھ پر تو اللہ کا بہت ہی زیادہ فضل وکرم ہے یعنی نبوت جیسی عظیم نعمت کے عطا ہونے کے بعد اس کے سلب نہ ہونے کی ضمانت تو احسان کی حد ہوگئی جبکہ خود عطائے نبوت بہت بڑا احسان تھا (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ سب خطرے میں ہیں) مگر یہ واضح ہوگیا کہ بجز نبی ہر انسان اس خطرے سے دو چار ہے کہ اس سے علم یا مقامات ومنازل سلب ہوجائیں ، بچنے یا محفوظ رہنے کی واحد صورت یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی حدود سے باہر نہ جائے کہ ان کے اندر حفاظت الہیہ نصیب رہتی ہے ۔ اور اللہ جل جلالہ کا یہ احسان کیا کم ہے کہ علوم کا خزینہ بصورت قرآن تمہاری طرف بھیجا اور اس کا رسول تمہیں ایک لفظ پہنچانے اور سمجھانے پہ ہر آن کمر بستہ ہے ۔ (قرآن حکیم۔ کی صداقت کا بہت بڑا دعوی جس کی آج تک تردید نہ ہوسکی اور نہ کبھی ہو سکے گی) اگر تمہیں اس کی عظمت سے انکار ہے یا اسے عام کتاب جانتے ہو تو دنیا کے سبھی کے سب انسانوں اور جنوں سے کہو سب جمع ہو کر ایک دوسرے کی پوری مدد کرکے اس کی مثال بنا لیان جو ہر موضوع پر بات کرے ، اور یقینی اور حتمی بات کرے جس کی خبر کو چیلنج نہ کیا جاسکے جو دنیا وآخرت کی تمام انسانی ضرورتوں کو محیط ہو اور تجلیات باری جس کے ایک ایک حرف سے قلوب پر جلوہ ریز ہو رہی ہو تو یہ دعوی ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کبھی ایسا نہ کرسکے گی ، لہذا اس خزینہ علم کو چھوڑ کر جو زندگی کی ہر ضرورت پر خوب کھل کر اور مثالیں دے کر بات کرتا ہے پھر سوالات کرنا اور باتوں کو الجھانا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا لیکن تمہاری اصل بدنصیبی یہ ہے کہ تمہیں اس نعمت پر ہی ایمان نصیب نہیں اور کفر و انکار میں پھنسے ہوئے ہو ، پھر عجیب و غریب سوال کرتے ہیں جو محض احمقانہ اعتراضات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے مگر اللہ کریم ان پر طنز کرنے یا غصہ دکھانے کی تعلیم نہیں دیتے بلکہ ایک خوبصورت چھوٹا سا اور حقیقت کا مظہر جملہ ارشاد فرمایا جاتا ہے ۔ کہ یہ ایمان کی شرط بتاتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کر دیجئے یا اگر ہمارے لیے نہیں تو اپنے لیے ایک خوبصورت باغ پیدا فرمائیے جس میں رنگ برنگے میوے ہوں اور نہریں جاری ہوں یا پھر ہم پر عذاب ہی نازل کردیں اور آسمان کو ہم پر دے ماریں کہ جھگڑا ختم ہو یا لائیے وہ یوم حساب بپا کیجئے جس کے بارے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ فرشتے آئیں گے اور اللہ کا دربار ہوگا تو کر دیجئے ایسا یا پھر اپنے لیے ایک زر جواہر سے مرصع مکان بنائیے یہ کیا اتنا بڑا دعوی اور ایک کچے گھروندے میں قیام بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو زمین پہ رہنا نہ چاہئے چڑھ جائیے آسمانوں میں کہ اللہ کے رسول ہیں اس کی بارگاہ میں جا کر رہیں اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان پر بھی چڑھ جائیں تو ہمیں ماننے کی کیا ضرورت ہاں اگر وہاں سے ہمارے نام اللہ جل جلالہ کا خط لائیں جسے ہم کود پڑھیں تو البتہ بات ہو سکتی ہے گویا یہ سب مطالبات ایسے تھے جیسے وہ رسول کو اللہ جل جلالہ کا شریک یا ویسی ہی طاقتوں کا مالک سمجھ رہے ہوں توکتنا خوبصورت جواب ارشاد فرمایا کہ میں نے کبھی اپنے خدا ہونے کا دعوی تو نہیں کیا میں تو بشر ہوں اور تمہیں بشر کے اوصاف کا بھی علم ہے ، اس کے اختیارات سے بھی باخبر ہو اور بشری کمزوریوں سے بھی واقف ہوں ، لہذا میں صرف بشر نہیں بلکہ اللہ کا رسول بھی ہوں لہذا میری بشریت کو ضرور پرکھو کہ دعوی رسالت کے ساتھ زیب دیتی ہے یا نہیں ، ذرا کہیں انگلی رکھ کر دکھا دو ، رہی بات اللہ کے اوصاف کی تو وہ اسی کے پاس ہیں اور وہی قادر ہے جہاں چاہے چشمے جاری کرے یا باغ پیدا کرے ، عذاب بھیج دے یا قیامت قائم فرمائے یہ اس کا کام ہے ۔ (نبی کا کردار معیاری ہوتا ہے ، مرزا قادیانی کے دعوی اس سے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں) اس مختصر سے جملہ مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ بحیثیت بشر یا انسان نبی اور رسول کا کردار مثالی ہوتا ہے اس پر حضرت استاذنا المکرم (رح) فرمایا کرتے تھے کہ مرزا قادیانی کی سوانح پڑھ کر یہ دکھ ہوتا ہے کہ اگر اس ظالم کو اتنا بڑا دعوی کرنا ہی تھا تو اپنا کردار بھی اپنی نظر میں رکھا ہوتا اتنا بھی نہ سوچا کہ اس قدر گھٹیا کردار سے یہ دعوے کوئی مناسبت نہیں رکھتا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 85 یسئلون وہ پوچھتے ہیں۔ سوال کرتے ہیں۔ امر حمک۔ ما اوتیتم تمہیں نہیں دیا گیا۔ قلیل تھوڑا۔ تشریح : آیت نمبر 85 قرآن کریم فلسفہ اور منطق کی کتاب نہیں ہے جس میں ذرا ذرا سی باتوں پر طویل بحثیں کی جائیں بلکہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب زندگی ہے جو انسان کو فلسفیانہ انداز فکر سے ہٹا کر عمل کی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ درحقیقت عمل ہی سے انسان کی زندگی جنت یا جہنم بنتی ہے۔ وہ لوگ جو پوری زندگی صرف اسی میں لگے رہتے ہیں کہ یہ کیا ہے وہ کیا ہے ؟ روح کیا ہے ؟ امر کیا ہے اور عمل پر آمادہ نہیں ہوتے ایسے لوگ فلسفے کے بیمار تو لگتے ہیں لیکن ان کی زندگیاں عمل سے دور رہتی ہیں اور وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور وہ سوچتے سوچتے ہی اس دنیا سے گذر جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کر کے اپنی روح کی تابانی کو بڑھاتے رہتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی کامیاب ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی کامیاب و بامراد رہیں گے۔ ایسی بحثیں اور باتیں جن کا تعلق عمل سے نہ ہو قرآن کریم ان کو کھینچ کر پھر عمل کی طرف موڑ دیتا ہے جیسے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں (یعنی وہ کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے) اے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ وہ (چاند) لوگوں کو وقت اور حج کے متعلق بتانے کا ذریعہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے لوگوں نے چاند کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا ہے کبھی کھجور کی شاخ کی طرح باریک ہوجاتا ہے کبھی موٹا اور کبھی غائب ہوجاتا ہے اس میں حج یا ماہ وسال کا سوال نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا رخ عمل کی طرف موڑ کر فرمایا کہ وہ چاند کیسا ہے اس کی منزلیں کیا ہیں یہ ہر شخص کے غور کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ دیکھو کہ اللہ نے چاند کو کس مقصد کے لئے بنایا ہے۔ بنی اسرائیل جن کو اللہ نے اپنی لاتعداد نعمتوں سے نوازا تھا ان کی بےعملی اور بربادی کا سبب یہ بھی تھا کہ وہ بےت کے سوالات اور بحثوں میں الجھے رہتے تھے۔ طرح طرح کے سوالات کرنا، بات بات پر جھگڑنا ان کا مزاج بن چکا تھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ زندگی بھر سوالات ہی کرتے رہے اور جب عمل کا وقت آتا تو وہ بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے آپ کے فیض تربیت سے یہ بات سیکھ لی تھی کہ بےت کے سوالات کرنا پانی زندگی کو برباد کرنا ہے چناچہ تمام امتوں میں سب سے کم سوالات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام سے نقل کئے گئے ہیں کیونکہ جو کام کرتا ہے عمل کرتا ہے اس کو سوال کرنے کی فرصت کہاں ہوتی ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت یہود و نصاریٰ نے آپ کی مخالفت اور دشمنی کی انتہا کردی تھی اور ہر وقت اس سازش میں لگے رہتے تھے کہ کس طرح اہل ایمان کو بھی بےعملی کی راہوں پر ڈال دیں چناچہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کی روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ تھا کچھ شریر قسم کے یہودیوں نے آپ کو روک کر پوچھا کہ اے محمد ! یہ روح کیا چیز ہے ؟ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کی اس کیفیت کو محسوس کیا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے چناچہ آپ نے ان یہودیوں کے سامنے اس آیت کو پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نبی ! یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجیے کہ روح امر رب ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ۔ اس آیت میں ان یہودیوں کی شرارت اور سوال کا رخ کس طرح دوسری طرف پھیر دیا کہ انسان کو بہت کم علم دیا گیا ہے یعنی وہ صرف اسی بات کو سمجھ سکتا ہے جو اس کے احاطہ علم میں آسکتا ہے لیکن جو اس کے بس سے باہر ہے وہ اس کو کیسے سمجھ سکتا ہے دوسرے یہ کہ ان بحثوں میں پڑنے سے کیا فائدہ جس کا تعلق عمل سے نہ ہ۔ اس گتھی کو سلجھانے میں پوری زندگی گذارنے سے بہتر ہے کہ اپنی کم علمی اور جہالت کا اعتراف کر کے حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے۔ میں اس موقع پر اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی علم و تحقیق کا تعلق اس سے ہوتا کہ کسی گتھی کو سلجھانے میں غور و فکر کیا جائے کوئی عمل کی بہتر راہ میسر آسکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی بحثیں چھیڑنا جو صرف کام و دھن کی لذت کیلئے ہوں وہ بری راہیں ہیں لیکن اگر علم و تحقیق کے لئے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا چاہئے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آج کل کچھ لوگوں کا مشغلہ یہ ہے کہ ان کا زور خطابت صرف اس پر ختم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نور تھے یا بشر ؟ عالم الغیب تھے یا نہیں ؟ مردے ہماری بات اور فریاد کو سنتے ہیں یا نہیں وغیرہ وغیرہ ؟ غور کیجیے کیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی لئے تشریف لائے تھے کہ ان کی سیرت پاک ان کی مبارک زندگی جو ساری کائنات کے لئے قیامت تک کے لئے نمونہ عمل ہے اور نمونہ زندگی ہے اس کو تو نظر انداز کردیا جائے اور صرف پوری زندگی اسی بحث میں گذدار دی جائے کہ وہ نور تھے یا بشر یہ تو یہود و نصاریٰ کا مزاج تھا جس پر چل کر وہ قوم تباہ و برباد ہوگئی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب یہودیوں نے آپ سے روح کے متعلق سوال کیا تو اتنا فرمایا گیا کہ روح امر رب ہے یعنی اللہ کی مخلوق ہے لیکن عام مخلوق جیسی نہیں ہے بلکہ اس کے حکم ” کن “ کے نتیجہ میں یہ ” امر رب “ وجود میں آیا ہے چونکہ انسان کا علم بہت محدود اور قلیل ہے اس لئے صرف اتنا سمجھنا کافی ہے کہ اللہ نے اس کو اپنے حکم سے پیدا کیا ہے اور وہی اس کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

12۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسی روح کے متعلق سوال تھا جس سے انسان زندہ ہے کیونکہ جب روح مطلق بولتے ہیں، یہی مفہوم ہوتی ہے اور جواب سے ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ نصوص میں اس کی حقیقت ظاہر نہ کرنے کی وجہ بتلائی، اور ضروری عقیدہ اس کے حدوث کا ظاہر کردیا گیا ہے۔ اب یہ امر کہ کسی دوسرے طریقہ سے اس کا انکشاف ہوسکتا ہے، یا ہوتا ہے۔ آیت اس کے اثبات و نفی دونوں سے ساکت ہے۔ پس دونوں امر محتمل ہیں اور کوئی شق معارض نص کے نہیں۔ 13۔ یہاں جو علم کو قلیل فرمایا تو یہ نسبت علم الہی کے اور دوسری آیت میں جو علم کو خیر کثیر فرمایا تو یہ نسبتیں متاع و دنیا کے۔ پس دونوں میں تصادم نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے قرآن مجید کے فضائل اور اوصاف کا ذکر ہوا۔ اب اسی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ اس آیت میں روح کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ روح کیا چیز ہے ؟ روح کے بارے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہاں روح سے مراد نفس انسانی ہے۔ جس کے بارے میں صرف یہ جواب دیا گیا ہے۔ کہ اے پیغمبر ! لوگ آپ سے استفسار کرتے ہیں کہ ” اَلرُّوْحُ “ کیا چیز ہے ؟ انہیں فرمائیں کہ ” روح “ اللہ کا حکم ہے۔ جب چاہتا ہے اپنا حکم واپس لیلیتا ہے۔ روح نکلنے سے انسان کا جسد خاکی ایک ڈھا نچے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جسم بالآخر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے۔ اہل علم کی دوسری جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد نفس انسانی نہیں بلکہ اس سے مراد قرآن مجید ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں نفس انسانی کے لیے اکثر مقامات پر ” روح “ کی بجائے ” نفس “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس طرح کہ انسان کی موت کا ذکر کرتے ہوئے اس کی روح کے بارے میں قرآن مجیدبار بار نفس کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ (کُلُّ نَفْسٍ ذَاءِقَۃُالْمَوْت)[ اٰل عمران : ١٨٥] بے شک قرآن مجید میں ” روح “ کے لیے ” نفس “ کا لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز معنیٰ نہیں کہ قرآن میں ” نفس “ کے لیے روح کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ قرآن مجید نے آدم کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کی ہے۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو فرشتوں کو حکم دیا : (فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوحِیْ فَقَعُوْا لَہُ سَاجِدِیْنَ )[ صٓ: ٧٢] ” جب میں اس میں اپنی روح پھونک لوں تو آدم کے سامنے سجدہ کرنا “ یہاں الروح سے مراد انسان کا نفس ہے۔ لہٰذا جن اہل علم نے ” روح “ سے مراد صرف ” نفس انسانی “ لیا ہے۔ ان کا موقف مستند دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذایہاں روح سے مراد ” روح انسانی “ ہے۔ کیونکہ اگر سوال قرآن مجید کے بارے میں ہوتا تویقیناً سوال کرنے والے قرآن مجید کا نام لیتے۔ اگر یہ سوال جبریل امین کے بارے میں تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاموش رہنے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ دن رات آپ کے پاس تشریف لاتے اور آپ کو قرآن کی نئی وحی سے آگاہ فرماتے تھے۔ اس لیے یہ سوال ” انسانی روح “ کے بارے میں کیا گیا۔ جس کی تائید سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے ہوتی ہے۔ جس میں آپ کے چند لمحے خاموش رہنے کا ذکر موجود ہے۔ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک کھیت میں تھا اور آپ لکڑی کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں یہودی گزرے۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ نبی سے روح کے بارے میں سوال کرو۔ بعض نے کہا تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ بعض نے کہا وہ تمہیں ایسی بات نہ کہہ دے جو تمہیں بری لگے۔ انہوں نے کہا سوال کرو۔ پھر انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کے بارے میں سوال کیا۔ آپ کچھ دیر ٹھہرے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ میں جان گیا کہ آپ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ جب وحی کا نزول ختم ہو اتو آپ نے یہ آیت تلاوت کی (وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ وَمَا أُوتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً ) “ [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر ] اس فرمان میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کی حقیقت کو کما حقہ جاننا انسان کے بس کا روگ نہیں۔ جہاں انسان کی عقل نہ پہنچ سکتی ہو۔ اس حقیقت کو ٹھکرانے کی بجائے انسان کو اللہ تعالیٰ کے فرمان پر اکتفا کرنا چاہیے۔ یہی وہ بنیادی اصول ہے جو ایک مسلمان اور بےدین سائنسدانوں کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے۔ بےدین سا ئنسدان کو جب کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو وہ اس کے وجود کا سرے سے ہی انکار کردیتا ہے۔ اسی بنیاد پر بیشمار سائنسدان ناصرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ چیزوں کا انکار کرتے ہیں۔ بلکہ سرے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کردیتے ہیں۔ اس انکار کی وجہ سے ان کا عقیدہ ہے کہ مادہ یعنی ایٹم میں خود بخود تبدیلیاں رونما ہونے کی وجہ سے چیزیں اپنے آپ بنتی اور ختم ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشک انسان کتنی ترقی کرجائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ چیزوں کا پوری طرح احاطہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں دو ٹوک اند از میں ارشاد ہوا ہے۔ کہ لوگو ! اپنے علم پر اترانے کی کوشش نہ کرو۔ کیونکہ تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نام روح ہے۔ ٢۔ لوگوں کو بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ عقل انسانی پر روح کا انکشاف بند کردیا گیا ہے اور اسے روح کے میدان میں کام نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ یہاں عقل کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار اور اس حد تک محدود رہے جس تک وہ ادراک کرسکتا ہے ، کیونکہ بغیر حقیقی علم و ادراک کے بےتک باتیں کرنے سے حقیقت تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ پھر عقل کی قوت کو ایسے کام میں کھپانا جس کا ادراک عقل کے لئے ممکن ہی نہ ہو ، ایک بےمقصد کام ہے۔ روح در حقیقت اللہ کے غیوب میں سے ایک غیب ہ۔ اللہ کے سوا اس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں ہے۔ نہ اس کا ادراک کوئی کرسکتا ہے۔ اور نہ وہ وسائل انسان کو دئیے گئے ہیں بلکہ یہ ایک لاہوتی راز ہے ، جو اس بشری ڈھانچے میں رکھا گیا ہے ۔ اور بعض دوسری مخلوقات کو بھی دیا گیا ہے ، جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے۔ پھر انسان کا علم قادر مطلق کے علم کے مقابلے میں بہت ہی محدود ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز اس قدر گہرے ہیں کہ انسانی عقل کے دائرہ ادارک سے ماوراء ہیں۔ انسان اس کائنات کا مدبر نہیں ہے کیونکہ انسانی قوت اور طاقت اس کائنات پر حاوی نہیں ہے انسان کو تو صرف اس قدر قوت اور حکمت دی گئی ہے جس کے ساتھ وہ اس کرہ ارض پر خلافت فی الارض کا وظیفہ پورا کرسکے۔ اور یہاں وہ کام کرسکے جس کے بارے میں اللہ کی مرضی ہے کہ وہ کرے اور وہ اپنا کام اپنے محدود علم کے مطابق کرے۔ انسان نے اس کرہ ارض پر بیشمار ایجادات کی ہیں لیکن وہ آج تک روح کی حقیقت معلوم کرنے سے صاف عاجز ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ روح کیا ہے ؟ کس طرح یہ روح انسانی ڈھانچے میں ڈالی جاتی ہے۔ کس طرح یہ نکل جاتی ہے یہ پہلے کہاں تھی ، نکل کر کہاں جاتی ہے۔ الایہ کہ علیم وخبیر نے اس سلسلے میں بذریعہ وحی جو علم دیا ہے وہ انسان کا ماخذ علم ہے۔ قرآن کریم میں جو کچھ نازل ہوتا ہے وہ یقینی علم ہے کیونکہ وہ علیم وخبیر کے یقینی ذریعے سے آیا ہے ، اگر اللہ چاہتا تو انسانیت کو اس سے محروم رکھتا اور وہ پیغام ہی انسانوں کے پاس نہ بھیجتا جو اس نے بھیجا لیکن یہ اللہ کا رحم و کرم تھا کہ اس نے وحی الٰہی کے نزول کا سلسلہ شروع کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

روح کے بارے میں یہودیوں کا سوال اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے بیان فرمایا کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھیتوں کے درمیان سے گزر رہا تھا اس وقت آپ کھجور کی ٹہنی پر ٹیک لگا کر تشریف لے جا رہے تھے وہاں سے یہودیوں کا گزر ہوا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان سے روح کے بارے میں دریافت کرو۔ پھر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ دریافت کریں یا نہ کریں۔ ممکن ہے کہ ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ پھر کہنے لگے اچھا دریافت کرلو۔ چناچہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کے بارے میں دریافت کیا آپ ٹھہر گئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں اپنی جگہ کھڑا ہوگیا۔ اس وقت جب وحی نازل ہوچکی تو آپ نے آیت پڑھ کر سنائی جو اوپر مذکور ہے۔ (صحیح بخاری ص ٤٤ ص ٦٨٦) سنن ترمذی میں حضرت ابن عباس (رض) کا بیان یوں نقل کیا کہ قریش نے یہودیوں سے کہا کہ ہمیں کوئی بات بتادو جو ہم ان سے پوچھیں (جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں) یہودیوں نے کہا کہ روح کے بارے میں دریافت کرو۔ لہٰذا انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں سوال کرلیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (وَ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ دونوں روایتوں سے معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں نے اور ان کے سمجھانے سے مکہ معظمہ میں قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کے بارے میں سوال کیا تھا کہ روح کیا چیز ہے جس سے انسان کی زندگی برقرار رہتی ہے اور جس کے نکل جانے سے انسان پر موت طاری ہوجاتی ہے۔ قال القرطبی وذھب اکثر اھل التاویل الی انھم سالوہ عن الروح الذی یکون بہ حیاۃ الجسد وقال اھل النظر منھم انما سالوہ عن کیفیۃ الروح و مسل کہ فی بدن الانسان وکیفیۃ امتزاجہ بالجسم اتصال الحیاۃ بہ وھذا الشیء لا یعلمہ الا اللّٰہ عزوجل۔ آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں روح انسانی کے بارے میں بہت سی باتیں مذکور ہیں عالم ارواح میں روحوں کا مجتمع ہونا وہاں تعارف ہونا (کما رواہ البخاری) حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا تیار ہوجانے کے بعد اس میں روح پھونکا جانا (فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ ) پھر بطن مادر میں ہر انسان میں روح پھونکا جانا (کما رواہ الشیخان) اور اسی روح کے ذریعہ زندہ رہنا پھر موت کے وقت اس روح کا نکل جانا حضرت ملک الموت کا روح کو قبض کرنا پھر ان کے ہاتھ سے لیکر فرشتوں کا آسمان کی طرف جانا پھر قبر میں روح کا لوٹایا جانا اور سوال و جواب ہونا اور دنیا سے جانے والی روح کا پہلے سے برزخ میں پہنچی ہوئی روحوں کے پاس جمع ہونا (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٤١ تا ١٤٣) اور قبر میں آرام یا عذاب میں رہنا پھر صور پھونکے جانے پر روحوں کا جسموں میں داخل ہونا یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں اہل ایمان جانتے ہیں اور مانتے ہیں، یہودیوں نے اور مشرکین نے روح کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کے حکم سے ہے اس کی حقیقت ظاہر نہیں فرمائی اور یہ بتادیا کہ یہ بھی اللہ کی ایک مخلوق ہے، اس سے فلاسفہ کے اس خیال کی تردید ہوگئی جو روح کو قدیم کہتے ہیں، چونکہ احکام شرعیہ میں سے بندوں سے متعلق کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو روح کی حقیقت جاننے پر موقوف ہو اس لیے اس کی حقیقت جاننے کے درپے ہونے کی شرعاً کوئی ضرورت بھی نہیں۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ روح کی حقیقت اس لیے نہیں بتائی گئی کہ انسان کو یہ پتہ چل جائے کہ وہ تو اپنی ذات کی حقیقت جاننے سے بھی عاجز ہے خالق کائنات تبارک و تعالیٰ کی پوری معرفت سے بطریق اولیٰ عاجز ہوگا۔ علامہ بغوی نے معالم التنزیل میں روح کے بارے میں مختلف اقوال لکھے ہیں۔ پھر اخیر میں لکھا ہے۔ واولی الاقاویل ان یوکل علمہ الی اللّٰہ عزوجل وھو قول اھل السنۃ (سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اس کا علم اللہ کے ہی سپرد کیا جائے اہل سنت کا یہی قول ہے) (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا) (اور تمہیں صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے) یہ خطاب سارے انسانوں کو ہے جن کے عموم میں سوال کرنے والے یعنی یہود بھی آگئے۔ (در منثور ص ٢٠٠ ج ٤) میں حضرت ابن جریج سے (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا) کے بارے میں نقل کیا ہے کہ محمد والناس اجمعین یعنی اے محمد آپ اور آپ کے علاوہ جو لوگ ہیں سب کو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم تو بہت زیادہ ہے اور ساری مخلوق سے زیادہ ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں تھوڑا سا ہی ہے۔ تفسیر در منثور میں یہ بھی ہے کہ جب یہودیوں نے آیت شریفہ کا یہ حصہ (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا) سنا تو کہنے لگے کہ ہم تو تورات پڑھے ہوئے ہیں اس میں ہر چیز کا بیان ہے، آپ نے فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں قلیل ہی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے سورة لقمان کی آیت (وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلاَمٌ) (آخر تک) نازل فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

76:۔ شکوی ہے۔ یہ مشرکین آپ سے روح کی حقیقت پوچھتے ہیں بھلا اس کی کیا ضرورت ہے آپ کی صداقت اور سچائی کو ثابت اور واضح کرنے کے لیے معجزہ اسراء کافی نہیں ہے ؟ اور پھر قرآن بجائے خود بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا معجزہ ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ قرآن ایک ایسا بےنظیر معجزہ ہے کہ اگر تمام جن و انس مل کر بھی اس کا مقابلہ کریں تو اس کا مثل پیش نہ کرسکیں۔ یہ سوال یہود مدینہ کے سکھانے پر مشرکین مکہ نے کیا تھا۔ ” قل الروح من امر ربی الخ “ فرمایا جواب میں صرف یہی کہہ دو کہ روح ایک امر ربی ہے جو اللہ کے حکم سے ظاہر ہوتا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اللہ کے سوا اس کی حقیقت کوئی نہیں جانتا۔ ای من الامر الذی لا یعلمہ الا اللہ (قرطبی ج 10 ص 325) من امر اللہ ای مما استثر بعلمہ (مدارک ج 2 ص 251) ۔ روح کی ھقیقت اور کنہ کے بارے میں قدیم زمانہ سے بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے مگر اس کی حقیقت کو آج تک کسی نے بھی نہیں پایا اور نہ کوئی پاسکتا ہے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی روح کی اصل حقیقت معلوم نہ تھی۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے منقول ہے۔ مضی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و ما یعلم الروح (مدارک) ۔ علامہ ابو السعود رقمطراز ہیں کہ حقیقت روح کا علم اللہ کیساتھ مختص ہے۔ ای ھو من جنس ما استاثر اللہ بعلمہ من الاسرار الخفیۃ التی لا یکاد یحوم حولھا عقول البشر (ابو لسعود ج 5 ص 635) ۔ علامہ خازن لکھتے ہیں والقول الاصح ھو ان اللہ عز وجل استاثر بعلم الروح (خازن ج 4 ص 182) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 اور اے پیغمبر لوگ آپ سے روح کی حقیقت کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجیے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے لے اور میرے پروردگار کے امرکن سے بنی ہے اور تم کو علم نہیں دیا گیا مگر بہت تھوڑا۔ یعنی آپ کا امتحان لینے کی غرض سے آپ سے دریافت کرتے ہیں اور یہود ان کو سکھاتے ہیں کہ یہ سوال کرو۔ روایات میں ہے کہ کچھ لوگ مکہ معظمہ میں گئے اور وہاں کے یہود سے دریافت کیا کہ یہ شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے کوئی ایسی بات بتائو جو ہم اس سے دریافت کریں یہود نے ان کو سکھایا کہ تم ذوالقرنین اور اور اصحاب کہف اور روح انسانی کے متعلق سوال کرو ہوسکتا ہے کہ کفار مکہ اور یہود نے مل کر یہ سوال کیا ہو۔ بہرحال جواب دیا گیا کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر کن سے بنی ہے اور اس کی مخلوق ہے جب مادہ سے ایک جسم بنا اور اس میں صلاحیت آئی تو مبداً فیاض کی جانب سے اس کو روح عطا کردی گئی۔ بعض حضرات نے یہاں روح سے جبرئیل امین یا قرآن کریم یا حضرت مسیح ابن مریم (علیہ السلام) یا اور کوئی عظیم الخلقت فرشتہ مراد لیا ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس روح سے سوال ہے جس کے داخل ہونے سے انسان زندہ ہوتا ہے اور جس کے نکل جانے سے مرجاتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت کے آزمانے کو یہود نے پوچھا سو اللہ تعالیٰ نے نہ بتایا کہ ان کو سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ آگے بھی پیغمبروں نے حلق سے باریک باتیں نہ کہیں۔ اتنا جاننا بس ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آ پڑی وہ جی اٹھا جب نکل گئی مرگیا۔ 12 یہ جو تھوڑا علم فرمایا سو اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں۔