Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 87

سورة بنی اسراءیل

اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ﴿۸۷﴾

Except [We have left it with you] as a mercy from your Lord. Indeed, His favor upon you has ever been great.

سوائے آپ کے رب کی رحمت کے یقیناً آپ پر اس کا بڑا ہی فضل ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And if We willed, We could surely take away that which We have revealed to you. Then you would find no protector for you against Us in that respect. Except as a mercy from your Lord. Verily, His grace unto you is ever great. Allah mentions the blessing and great bounty that He has bestowed upon His servant and Messenger Muhammad by revealing to Him the Noble Qur'an to which falsehood cannot come, from before it or behind it, (it is) sent down by the All-Wise, Worthy of all praise. Ibn Mas`ud said, "A red wind will come to the people, meaning at the end of time, from the direction of Syria, and there will be nothing left in a man's Mushaf (copy of the Qur'an) or in his heart, not even one Ayah." Then Ibn Mas`ud recited: وَلَيِن شِيْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ And if We willed, We could surely take away that which We have revealed to you. Challenging by the Qur'an Allah says: قُل لَّيِنِ اجْتَمَعَتِ الاِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْانِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 کہ اس نے نازل کردہ وحی کو سلب نہیں کیا یا وحی سے آپ کو مشرف فرمایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا 87؀ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) یہ آپ کے رب ہی کا انعام ہے کہ اس نے قرآن کریم کو آپ کے قلب مبارک میں محفوظ کردیا ہے۔ بیشک آپ پر نبوت اور اسلام کے ذریعے اس نے بڑا فضل فرمایا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا) یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے جس کے مطابق بظاہر خطاب تو حضور سے ہے مگر اصل میں لوگوں کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ آپ کا اصل مقام و مرتبہ کیا ہے۔ اسی مقصد کے لیے آپ سے بار بار اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ کا اعلان کرایا گیا کہ اے لوگو ! میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ یہاں اسی بات کی تاکید کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ہماری عطا اور مہربانی ہے کہ ہم نے بذریعہ وحی آپ پر یہ عظیم الشان کلام نازل کیا ہے۔ اگرچہ اس کا ہرگز ہرگز کوئی امکان نہیں تھا مگر محض ایک اصولی بات سمجھانے کے لیے فرمایا گیا کہ جس طرح ہم نے یہ کلام نازل کیا ہے اسی طرح ہم اسے واپس بھی لے سکتے ہیں اسے سلب بھی کرسکتے ہیں۔ یہ کلام نہ تو آپ کا خود ساختہ ہے اور نہ ہی آپ اسے اپنے پاس رکھنے پر قادر ہیں۔ یہ تو سراسر اللہ کی مہربانی اور اس کی رحمت کا مظہر ہے اور وہی اسے آپ کے سینے میں جمع کر کے محفوظ فرمارہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104. Though these words are apparently addressed by the Prophet (peace be upon him), they are in fact meant for the disbelievers who considered the Quran to be either the invention of the Prophet (peace be upon him) himself or of some other man, who secretly taught him the Quran. They are being told that this is the Word of Allah, as if to say: Our Prophet has not fabricated the Quran but We have bestowed this on him, and if We take it back from him, the Prophet has no power to invent such a thing nor has any other man the power to help the Prophet to present such a miraculous Book.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :104 خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر مقصود دراصل کفار کو سنانا ہے جو قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گھڑا ہوا یا کسی انسان کا درپردہ سکھایا ہوا کلام کہتے تھے ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کلام پیغمبر نے نہیں گھڑا بلکہ ہم نے عطا کیا ہے اور اگر ہم اسے چھین لیں تو نہ پیغمبر کی یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کلام تصنیف کر کے لا سکے اور نہ کوئی دوسری طاقت ایسی ہے جو اس کو ایسی معجزانہ کتاب پیش کرنے کے قابل بنا سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 کہ اس نے آپ کو اپنا رسول منتخب کیا آپ پر اپنی آخری کتاب نازل فرمائی۔ تمام بنی نوع انسان کا سردار قرار دیا۔ آپ کو مقام محمود اور دوسرے بےانتہا انعامات سے سرفراز کیا۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 مگر یہ آپ کے پروردگار ہی کی رحمت ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا بلاشبہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل یہ۔ یعنی قرآن شریف ایک نعمت عظمیٰ ہے اگر اللہ تعالیٰ چ ہے تو اس کی نعمت کو سلب کرسکتا ہے یعنی نہ وجود خارجی باقی رہے نہ وجود ذہنی اور اگر یہ چیز سلب ہوجائے تو تمہارا کوئی حمایتی ہم سے واپس بھی نہیں دلا سکتا مگر آپ کے پروردگار کی مہربانی سے ایسا نہیں ہوگا کیونکہ آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ شاید یہاں سلب وحی کا ذکر اس لئے فرمایا کہ کوئی روح خواہ کتنی ہی کامل ہو اس کے سب اوصاف و کمالات اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے ہیں اور مستعار ہیں کوئی کمال کسی کا ذاتی نہیں ہے۔