Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 94

سورة بنی اسراءیل

وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰۤی اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا ﴿۹۴﴾

And what prevented the people from believing when guidance came to them except that they said, "Has Allah sent a human messenger?"

لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The refusal of the Idolators to believe because the Messenger was a Human -- and its refutation Allah says, وَمَا مَنَعَ النَّاسَ ... And nothing prevented men, means, most of them, ... أَن يُوْمِنُواْ ... from believing, and following the Messengers, except the fact that they found it strange that human beings would be sent as Messengers, as Allah says: أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَأ إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ ءامَنُواْ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ Is it a wonder for mankind that We have sent Our revelation to a man from among themselves (saying): "Warn mankind, and give good news to those who believe that they shall have with their Lord the rewards of their good deeds." (10:2) ... إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَرًا رَّسُولاً when the guidance came to them, except that they said: "Has Allah sent a man as (His) Messenger!" Allah says: ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَـتِ فَقَالُواْ أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا That was because there came to them their Messengers with clear proofs, but they said: "Shall mere men guide us!" (64:6) Fira`wn and his people said: أَنُوْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَـبِدُونَ They said: "Shall we believe in two men like ourselves, and their people are obedient to us with humility!" (23: 47) Similarly, the nations said to their Messengers: إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَأوُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَـنٍ مُّبِينٍ "You are no more than human beings like us! You wish to turn us away from what our fathers used to worship. Then bring us a clear authority." (14:10) And there are many other similar Ayat. Then Allah says, pointing out His kindness and mercy towards His servants, that He sends to them Messengers of their own kind so that they will understand what he says and will be able to speak to him directly. If He sent to mankind a Messenger from among the angels, they would not be able to deal with him face to face and learn from him, as Allah says: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُومِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ Indeed, Allah conferred a great favor on the believers when He sent among them a Messenger from among themselves. (3:164) لَقَدْ جَأءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ Verily, there has come unto you a Messenger from among yourselves. (10:128) كَمَأ أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنْكُمْ يَتْلُواْ عَلَيْكُمْ ايَـتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَـبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ فَاذْكُرُونِى أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ Similarly, We have sent among you a Messenger of your own, reciting to you Our verses (the Qur'an) and purifying you, and teaching you the Book and the Hikmah, and teaching you that which you used not to know. Therefore remember Me. I will remember you, and be grateful to Me and never be ungrateful to Me. (2:151-152) Allah says here:

فکری مغالطے اور کفار اکثر لوگ ایمان سے اور رسولوں کی تابعداری سے اسی بنا پر رک گئے کہ انہیں یہ سمجھ نہ آیا کہ کوئی انسان بھی رسول بن سکتا ہے ۔ وہ اس پر سخت تر متعجب ہوئے اور آخر انکار کر بیٹھے اور صاف کہہ گئے کہ کیا ایک انسان ہماری رہبری کرے گا ؟ فرعون اور اسکی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان کیسے لائیں خصوصا اس صورت میں کہ ان کی ساری قوم ہمارے ماتحتی میں ہے ۔ یہی اور امتوں نے اپنے زمانے کے نبیوں سے کہا تھا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو سوا اس کے کچھ نہیں کہ تم ہمیں اپنے بڑوں کے معبودوں سے بہکا رہے ہو اچھا لاؤ کوئی زبردست ثبوت پیش کرو ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اسکے بعد اللہ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کے بھیجنے کی وجہ کو بیان فرماتا ہے اور اس حکمت کو ظاہر فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ انکے پاس تم بیٹھ اٹھ سکتے نہ انکی باتیں پوری طرح سے سمجھ سکتے ۔ انسانی رسول چونکہ تمہارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے خلا ملا رکھ سکتے ہو ، ان کی عادات و اطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہو ، ان کا عمل دیکھ کر خود سیکھ سکتے ہو جیسے فرمان ہے آیت ( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ١٦٤؁ ) 3-آل عمران:164 ) ۔ اور آیت میں ہے ( لقد جاء کم رسول من انفسکم ) الخ ۔ اور آیت میں ہے ( كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ١٥١؀ړ ) 2- البقرة:151 ) ۔ مطلب سب کا یہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الہٰی تمہیں پڑھ کر سنائیں ، تمہارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمہیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بےعلم تھے وہ تمہیں عالم بنا دیں پس تمہیں میری یاد کی کثرت کرنی چاہئے تاکہ میں بھی تمہیں یاد کروں ۔ تمہیں میری شکر گزاری کرنی چاہئے اور ناشکری سے بچنا چاہئے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بیشک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کر بھیجتے چونکہ تم خود انسان ہو ہم نے اسی مصلحت سے انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم میں بھیجے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 یعنی کسی انسان کا رسول ہونا، کفار و مشرکین کے لئے سخت تعجب کی بات تھی، وہ یہ بات مانتے ہی نہ تھے کہ ہمارے جیسا انسان، جو ہماری طرح چلتا پھرتا ہے، ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، ہماری طرح انسانی رشتوں میں منسلک ہے، وہ رسول بن جائے۔ یہی تعجب ان کے ایمان میں مانع رہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] بشریت کی وجہ سے رسالت اور رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار :۔ انبیاء و رسل کے مخالفین کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ چونکہ یہ رسول ہماری طرح کا ہی انسان ہے، ہماری طرح ہی کھاتا پیتا، چلتا پھرتا، شادی کرتا اور صاحب اولاد ہے جو احتیاجات ہمیں لاحق ہیں وہ اسے بھی لاحق ہیں۔ پھر یہ نبی کیسے ہوسکتا ہے ؟ گویا کافر اس وجہ سے انبیاء کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ وہ بشر ہیں۔ پھر بعد میں انہی نبیوں کی امت میں سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے فرط عقیدت سے ان کی نبوت و رسالت کو تو ان کی حد سے متجاوز تسلیم کیا مگر ان کی بشریت سے انکار کردیا۔ پھر کسی نے اپنے نبی کو خدا کا درجہ دے دیا۔ کسی نے خدا کے بیٹے کا اور کسی نے یوں کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا ہے گویا ان دونوں انتہا پسندوں کی نظر میں بشریت اور رسالت کا ایک ذات میں جمع ہونا ناممکن ہی بنا رہا۔ کافروں نے بشریت کی وجہ سے رسالت کا انکار کیا اور فرط عقیدت رکھنے والوں نے رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار کردیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا ۔۔ : یعنی یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ ایک شخص بشر ہوتے ہوئے اللہ کا رسول کیسے ہوسکتا ہے، اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہونے کو جانتے تھے، آپ کے آبا و اجداد اور ازواج و اولاد، کھانے پینے، چلنے پھرنے اور دوسری تمام انسانی ضروریات کو دیکھتے تھے، اس لیے آپ کو رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اب بہت سے مسلمان کہلانے والے جو باپ دادا سے مسلمان چلے آ رہے ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول مانتے ہیں، مگر آپ کو بشر ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں، کیونکہ مشرکین عرب اور ان لوگوں کا ذہن ایک ہے۔ انھوں نے کہا، بشر رسول نہیں ہوسکتا اور انھوں نے کہا، رسول بشر نہیں ہوسکتا۔ ” فَمَا أَشْبَہَ اللَّیْلَۃَ بالْبَارِحَۃِ “ (سو آج کی رات کل رات سے کس قدر ملتی جلتی ہے) اللہ تعالیٰ نے کفار کا یہ شبہ کئی آیات میں بیان فرمایا ہے، دیکھیے سورة یونس (٢) ، تغابن (٦) ، سورة ق (١، ٢) اور انعام (٨، ٩) حقیقت یہ ہے کہ ان سب لوگوں نے اپنی بےبصیرتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں بشر کے مقام اور عزت و کرامت کو پہچانا ہی نہیں۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٧٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Only a human being can be a messenger of Allah: Angels cannot be sent as messengers to human beings Common disbelievers and polytheists thought that &bashar,& that is, a man, could not be the messenger of Allah because he is someone accus¬tomed to all human compulsions like them. When so, what edge did he have over them to make them call him the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and take him as their leader claiming that they follow him? This assumption of theirs has been answered in the Holy Qur&an, at several places in vari¬ous ways. The outcome of the answer given here in this verse: مَا مَنَعَ النَّاسَ (And nothing prevented people - 94) is that a messenger of Allah sent to a set of people has to be from their genus or race. If these people are hu¬man, the messenger should be human because mutual congruity does not exist between one genus and the other - and without congruity, guid¬ance and grooming bring no benefit. Had some angel been sent to men as their messenger, he would have known no hunger, or thirst, or sexual de-sires, nor would he have felt the effect of chill and heat, nor fatigue after hard work. He would have, then, expected human beings to act like him without having ever realized their weaknesses and limitations. Similar¬ly, when human beings knew that he was an angel, after all, they would have come to the conclusion that they just did not have the ability to do what he did. Who would have, then, followed him? Following is the fruit of correction, reform and right guidance. This benefit can be hoped for only when the messenger of Allah is from the genus of men. He should be an embodiment of human emotions and physical desires while, at the same time, he should also have an angelic majesty that could serve as a liaison - intermediary communicator - between human beings and angels, receiving revelation from angels bringing it and communicating it to his fellow human beings. This submission also removes the doubt that arises by thinking: when human beings cannot derive benefit from the angel, how would a messenger - despite being human - derive the benefit of revelation from them? As for the doubt - when the compatibility of genus is a condition between a messenger and his people, how was the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) made a messenger of the jinns for they are not from the same genus as men? - it can be answered by saying that the messenger is not simply a human being, instead, he also has an angelic majesty about him because of which jinns too could also be congruous to him.

اللہ کا رسول انسان ہی ہوسکتا ہے فرشتے انسانوں کی طرف رسول نہیں ہو سکتے : عام کفار و مشرکین کا خیال تھا کہ بشر یعنی آدمی اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو ہماری طرح تمام حوائج انسانی کا عادی ہوتا ہے پھر اس کو ہم پر کیا فوقیت حاصل ہے کہ ہم اس کو اللہ کا رسول سمجھیں اور اپنا مقتدا بنالیں ان کے اس خیال کا جواب قرآن کریم میں کئی جگہ مختلف عنوانات سے دیا گیا ہے یہاں آیت مَا مَنَعَ النَّاس میں جو جواب دیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا رسول جن لوگوں کی طرف بھیجا جائے وہ انھیں کی جنس میں سے ہونا ضروری ہے اگر یہ آدمی ہیں تو رسول بھی آدمی ہونا چاہئے کیونکہ غیر جنس کے ساتھ باہم مناسبت نہیں ہوتی اور بلا مناسبت کے رشد و ہدایت کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا اگر آدمیوں کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیں جو نہ بھوک کو جانتا ہے نہ پیاس کو نہ جنسی خواہشات کو نہ سردی گرمی کے احساس کو نہ اس کو کبھی محنت سے تکان لاحق ہوتا ہے تو وہ انسانوں سے بھی ایسے ہی عمل کی توقع رکھتا ہے ان کی کمزوری و مجبوری کا احساس نہ کرتا اسی طرح انسان جب یہ سمجھتے کہ یہ تو فرشتہ ہے ہم اس کے کاموں کی نقل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تو اس کا اتباع خاک کرتے یہ فائدہ اصلاح اور رشد و ہدایت کا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ اللہ کا رسول ہو تو جنس بشر سے جو تمام انسانی جذبات اور طبعی خواہشات کا خود بھی حامل ہو مگر ساتھ ہی اس کو ایک شان ملکیت کی بھی حاصل ہو کہ عام انسانوں اور فرشتوں کے درمیان واسطہ اور رابطہ کا کام کرسکے وحی لانے والے فرشتوں سے وحی حاصل کرے اور اپنے ہم جنس انسانوں کو پہونچائے۔ اس تقریر سے یہ شبہ بھی دور ہوگیا کہ جب انسان فرشتہ سے فیض حاصل نہیں کرسکتا تو پھر رسول باوجود انسان ہونے کے کس طرح ان سے فیض وحی حاصل کرسکے گا۔ رہا یہ شبہ کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت میں مجانست شرط ہے پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنات کا رسول کس طرح بنایا گیا جنات تو انسان کے ہم جنس نہیں تو جواب یہ ہے کہ رسول صرف انسان نہیں بلکہ اس میں ایک شان ملکیت کی بھی ہوتی ہے اس کی وجہ سے جنات کو بھی مناسبت ان سے ہو سکتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا 94؀ منع المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ الْماعُونَ [ الماعون/ 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق/ 25] ، ويقال في الحماية، ومنه : مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] أي : ما حملک ؟ وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟ يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل : مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ. ( م ن ع ) المنع ۔ یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون/ 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق / 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معیم محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قم) پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٤) اور جس وقت ان مکہ والوں کے پاس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم لے کر آچکے ہیں، اس وقت ان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے سوائے اس کے اور کیا امر مانع ہوا کہ انہوں نے کہا کہ کیا ہماری طرف آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) ان کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے ان کی طرف کوئی فرشتہ بھیجا جاتا تو بھی کوئی بات تھی۔ اب وہ اپنی ہی طرح کے ایک انسان کو آخر کیونکر اللہ کا رسول مان لیں ؟ ان کے اس اعتراض کے جواب میں جو دلیل دی جا رہی ہے وہ بہت اہم ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

107. It implies that this misunderstanding has always been common among the ignorant people of every age that a human being could not be a Messenger of Allah: They rejected a Messenger just because he was a human being and took his meals and had wife and children like themselves. In contrast to this, after the passage of the time the credulous followers of a Messenger began to claim that he was not a human being at all because he was a Messenger. That is why some people made their Messenger their God, others the son of God and still others the incarnation of God. In short, the ignorant people had never been able to understand that a human being could be a Messenger of Allah.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :107 یعنی ہر زمانے کے جاہل لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بیوی بچے رکھتا ہے ، گوشت پوست کا بنا ہوا ہے ، فیصلہ کر دیا کہ پیغمبر نہیں ہے ، کیونکہ بشر ہے ۔ اور جب وہ گزر گیا تو ایک مدت کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو گئے جو کہنے لگے کہ وہ بشر نہیں تھا ، کیونکہ پیغمبر تھا ۔ چنانچہ کسی نے اس کو خدا بنایا ، کسی نے اسے خدا کا بیٹا کہا ، اور کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا تھا ۔ غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لیے ہمیشہ ایک معما ہی بنا رہا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یس ، حاشیہ ١١ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٤۔ ٩٧:۔ اوپر کی آیتوں میں مشرکین مکہ کی سرکشی کی باتوں کا ذکر فرما کر ان آتیوں میں فرمایا بڑا سبب قرآن کی نصیحت کے نہ ماننے کا ان لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ یہ لوگ اس بات کو خلاف عقل جانتے ہیں کہ اللہ کا رسول کوئی انسان ہوسکتا ہے ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کا رسول فرشتہ ہونا چاہئے حالانکہ یہود کی باتوں کو یہ لوگ بہت مانتے ہیں اور یہود سے اکثر یہ لوگ سن چکے ہیں بنی اسرائیل کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) تھے پھر بھی شیطان کے بہکانے سے یہ لوگ ایک ظاہر بات کو خلاف عقل جانتے ہیں اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو جس طرح بنی آدم زمین پر رہتے ہیں اسی طرح فرشتے بھی اگر زمین پر بستے ہوتے اور فرشتوں کا اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر نہ ہوتا تو ان کے پاس کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیج دیا جاتا اب اگر کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا بھی جائے تو وہ ضرور انسان کی صو رت میں ہوگا اور پھر ان لوگوں کا وہی شبہ باقی رہے گا جو اس وقت ہے سورة الانعام کی آیتوں میں یہ مضمون تفصیل سے گزر چکا ہے وہ آیتیں گویا ان آیتوں کی تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا آگے فرمایا اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دو کہ فرشتہ کی گواہی کچھ اللہ کی گواہی سے بڑھ کر نہیں میں اپنے رسول ہونے پر اللہ کی گواہی پیش کرتا ہوں اور اللہ کی گواہی کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی جن باتوں کی میں نصیحت کرتا ہوں اللہ کی مدد سے ان باتوں کی روز بروز ترقی ہوتی جاتی ہے اور اسلام کے بر خلاف باتیں روز بروز دنیا سے اٹھ رہی ہیں اور یہ بھی کہہ دو کہ اللہ اپنے بندوں کے ذرا ذرا حال سے خبردار اور ان کے سب کاموں کو دیکھتا ہے میں جو تم کو نصیحت کرتا ہوں وہ بھی اس کو معلوم ہے اور تم بغیر کسی سند کے زبردستی جو مجھ کو جھٹلاتے ہو وہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے وقت مقررہ پر ان سب باتوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آگے فرمایا اللہ کے علم غیب میں جو لوگ راہ راست پر آنے والے ٹھہر چکے ہیں وہی نیک کاموں کا ارادہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں نیک کاموں کی توفیق دیتا ہے اور جو لوگ اللہ کے علم غیب میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں ان کو کوئی نصیحت کرنے والا راہ راست پر نہیں لاسکتا اس لیے وہ لوگ اسی گمراہی کی حالت میں مرجائیں گے اور قیامت کے دن وہ میدان محشر تک تو بجائے پیروں کے منہ کے بل چلیں گے اور پھر اوندھے منہ گھسیٹے جاکر دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں سوا ہر وقت کے عذاب کے آنکھوں سے کسی نجات کی صورت کے دیکھنے سے وہ اندھے اور کانوں سے سننے سے بہرے اور زبان پر لانے سے گونگے ہوں گے۔ قبروں سے میدان محشر تک ایسے لوگوں کے منہ کے بل چلنے کا حال تو ان آیتوں میں ہے اور اوندھے منہ گھسیٹے جا کر دوزخ میں ڈالے جانے کا حال سورة قمر میں آئے گا۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے صحابہ (رض) نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کے دن دوزخی لوگ منہ کے بل کس طرح چلیں گے آپ نے فرمایا جو پیروں کے بل چلانے پر قادر ہے اس دن وہی منہ کے بل چلانے پر قدرت رکھتا ہے ١ ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ حاضر پر غائب کا قیاس کر کے غیب کی باتوں میں عقل نہیں دوڑانی چاہئے عذاب قبر حشر پل صراط عذاب دوزخ یہ سب غیب کی باتیں ہیں شریعت میں جس طرح یہ باتیں آئی ہیں بغیر عقلی دخل کے ان کا یقین کرنا ایماندار آدمی کا کام ہے۔ سورة الزخرف میں آئے گا کہ دوزخ کی آگ کی تیزی کبھی کم نہ ہوگی۔ ترمذی ابن ماجہ مؤطا وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کی آگ کی تیزی قائم رہنے کے لیے اس کو تین ہزار برس تک دہکایا گیا ہے ٢ ؎۔ حاصل یہ ہے کہ دوزخ کی آگ کی ذاتی تیزی تو کبھی نہ کم ہوگی نہ وہ آگ کبھی بجھے گی لیکن دوزخیوں کے ایک کھال کے جل جانے کے سبب سے جس جلی ہوئی کھال پر آگ کی تیزی کم معلوم ہوگی تو فورا دوسری کھال بدلی جاکر آگ کو تیز کردیا جائے گا۔ اس تفسیر سے ان آیتوں اور صحیح بخاری ومسلم کی ابو سعید خدری (رض) کی روایت کے حوالہ سے یہ بھی گزر چکا ہے کہ کھالیں ان لوگوں کی بدلی جائیں گی جو حشر کے منکر ہونے کے سبب سے ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں اور جو لوگ دوزخ سے نکل کر جنت میں داخل ہونے والے ہیں ان کی کھال نہیں بدلی جائے گی بلکہ وہ ایک دفعہ کے جلنے میں مر کر کوئلے ہوجائیں گے پھر ان کوئلوں کو دوبارہ زندہ کیا جا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٣ ؎ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٦٥ ج ٣۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٢ باب صنقہ النار واہلہا۔ ٣ ؎ تفسیر ہذاص ٣٣٢ ج ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:94) وما منع الناس ان یؤمنوا اذ جاء ہم الھدی الا ان قالوا ابعث اللہ بشرا رسولا۔ ما منع۔ فعل ۔ الا ان قالوا فاعل۔ ابعث اللہ بشرا رسولا۔ صفت فاعل الناس مفعول اول منع ان یؤمنوا مفعول ثانی منع۔ اذ جاء ہم الھدی ظرف منع یا ظرف ان یؤمنوا۔ اور جب ان کے پاس ہدایت (بصورت نبوت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و قرآن) پہنچی تو لوگوں کو اس پر ایمان لانے میں کوئی امر مانع نہ ہوا سوائے اس بات کے کہ کہنے لگے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ ایک شخص بشر ہوتے ہوئے خدا کا پیغمبر کیسے ہوسکتا ہے اگر خدا کو کوئی پیغمبر بھیجنا ہوت تو کسی فرشتے کو اتار دیتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١١) اسرارومعارف انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول ماننے میں ہی رکاوٹ پیش آ رہی ہے کہ کیا اللہ جل جلالہ نے بشر کو ایک انسان کو اپنا رسول بنایا ہے یعنی ان کے خیال میں جو انسان کھاتا پیتا ہے ، سوتا جاگتا ہے گرمی سردی محسوس کرتا ہے اس کے بیوی بچے ، گھر بار اور خاندان ہے تو گویا سارے احوال میں ایسا ہی ہے ، جیسے ہم لوگ ہیں ، تو بھلا اسے اللہ کا رسول کیونکر مان لیں ، اللہ جل جلالہ تو ہمارے سامنے آنے سے رہا تو پھر اللہ جل جلالہ کا حکم اس کے رسول سے ہی ملے گا تو گویا اللہ کے نام پر بھی اقتدار تو رسول اللہ کے ہاتھ میں چلا گیا تو ہم ایسا کیوں ہونے دیں گے ہاں کوئی فرشتہ ہوتا جو عام اوصاف میں ہم سے بہت بڑھ کر ہوتا تو بات بھی تھی ، اس جاہلانہ سوچ اور محض اقتدار کی ہوس کے لیے مختلف حیلوں کا جواب بھی بہت خوبصورت انداز میں ارشاد ہوا ، بغیر غصہ کئے بغیر کسی طنز کے فرمایا ٹھیک ہے فرشتہ بھی رسول ہو سکتا تھا لیکن اس صورت میں جب زمین پر بھی فرشتے آباد ہوتے اور انسانوں کی طرح اس عالم آب وگل میں مکلف زندگی گزارتے انہیں ایسی ہی ضرورتیں لگائی جاتیں پھر ان کی تکمیل کے اسباب وذرائع کائنات میں پیدا کئے جاتے تو ان کو اپنانے یا اختیار کرنے کے طریقوں پر اللہ کی رضا مندی کا مدار ہوتا تو یقینا ان کی طرف رسول بھی فرشتوں ہی کو بنایا جاتا مگر اب جبکہ زمین پہ انسان بستے ہیں تو رسول بھی یقینا انسان ہی ہوگا جسے ویسی ہی سب ضرورتیں درپیش ہوں اور ان میں اطاعت الہی اختیار کرکے ثابت کرے کہ انسانی فلاح اسی میں ہے اور یہ سب ممکن ہے ، اتباع شریعت محال نہیں ۔ (نبی اور ولی انسان ہوتے ہیں ، اور عام انسانی زندگی گذارتے ہیں) اس آیہ کریمہ میں موجودہ دور کی بدعات کا رد بھی آگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کیا جاتا ہے حالانکہ عظمت نبوت میں یہ ہے کہ تمام انسانی ضرورتوں کے باوجود انہیں اللہ جل جلالہ کے ناپسندیدہ طریقے سے پورا نہیں فرماتا اور یہی کمال ولایت ہے کہ ولی اللہ دنیا کے معاملات کو اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق اور بحسن و خوبی ادا کرتا ہے نہ آج کے دور کی خرافات کی مانند کہ ولی کا کوئی گھر گھاٹ نہ ہو جنگل میں پایا جائے ، کھاتا پیتا نہ ہو وغیرہ ذالک من الخرافات۔ فرما دیجئے کہ اب ان سب دلائل عقلی اور نقلی کے ساتھ بیشمار معجزات اور اللہ جل جلالہ کی کتاب کے باوجود اگر تم قبول کرنے کو تیار نہیں تو پھر میرے اور تمہارے درمیان اللہ جل جلالہ ہی گواہ ہے جو میری محنت و کوشش سے بھی واقف ہے تمہارے انکار پہ اصرار کو بھی دیکھ رہا ہے کہ اپنے بندوں اور اپنی مخلوق کے ہر حال سے ہر آن باخبر بھی ہے اور خود بھی ملاحظہ فرما رہا ہے اسے کسی کے بتانے کی احتیاج نہیں ۔ (ہدایت کا مدار) ہدایت بھی اللہ جل جلالہ ہی کی دین ہے اور اس کا مدار بھی اس بات پر ہے کہ کسی کی قلبی حالت کیسی ہے اور کیا اس میں اللہ جل جلالہ کو ماننے کی استعداد جو اسے اللہ جل جلالہ سے ملی تھی باقی ہے ورنہ جس نے گناہ کرکے وہ استعداد ہی کھو دی ہو اسے اللہ جل جلالہ ہدایت نہیں دیتے لہذا ہدایت وہی پا سکتا ہے جسے اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہدایت نصیب ہو اور جو اللہ جل جلالہ کی ذات سے ہی اس قدر دوری پہ چلا جائے کہ اللہ جل جلالہ ہی اسے قریب نہ آنے دے تو پھر اللہ کے علاوہ ان کا کوئی مددگار اور معاون نہیں ہو سکتا ، نہ صرف یہ دنیا بلکہ یہ تو آخرت میں بھی اپنے الٹے کردار کے باعث جسمانی طور پر بھی الٹے ہو کر میدان حشر میں آئیں گے اور جیسے آج ہدایت کی راہ سے اندھے بہرے اور گونگے بن رہے ہیں کہ نہ حق دیکھنے کا تکلف کرتے ہیں نہ سننے اور بولنے کا ایسے ہی نجات کی راہ سے اندھے گونگے اور بہرے ہو کر جہنم میں پھینکے جائیں گے جو دم بدم بھڑکائی جاتی رہے گی ، اور جس کی تپش بڑھتی ہی رہے گی کبھی کم نہ ہوگی ، ان کے کفر کی یہی سزا ہے کہ کس دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ جب مر کر ہم گل سڑ جائیں گے تو پھر بھلا کیسے نئے سرے سے تخلیق ہو سکیں گے ۔ کیا یہ زمین وآسمان کے خالق کی عظمت سے بھی غافل ہوگئے کہ جو خالق عدم سے اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لانے والا ہے ، وہ ان جیسوں کو بنانے پہ قادر نہیں جن کو پہلے ایک قطرے سے بنا چکا انہیں مٹی گارے سے بھی بنا لے گا اور بلاشبہ اس کام کا وقت مقرر ہوچکا ہے جب وقت آئے گا تو یقینا ایسا ہوگا ۔ مگر ان ظالموں کا ظلم اور بدکرداری ہی ان کے انکار اور ناشکری کا باعث بن گئی ان سے کہئے کہ انسانی مزاج اگر اسے نور ایمان نصیب نہ ہو تو ایسا تنگ ظرف ہے کہ اگر نبوت اور کمالات نبوت کے خزانے اللہ جل جلالہ تمہارے اختیار میں دے دیتا جو کبھی کم نہیں ہوتے مگر تم شاید پھر بھی کسی کو نہ دے سکتے کہ اگر ایمان نصیب ہو تو نبی پر ہی ہوتا ہے اور نور ایمان سے ظرف انسانی میں وہ وسعت آتی ہے کہ اللہ جل جلالہ کے لیے دو عالم سے دست بردار ہو سکتا ہے مگر اس کے بغیر جس حال میں تم ہو اگر تمہیں نور نبوت اور کمالات نبوت کا خزانہ بھی مل جائے تو اس پر سانپ بن کر بیٹھ رہو گے ، اور اپنی تنگ ظرفی کے باعث کسی کو مقرر نہ کر پاؤ گے کہ پھر یہ خیال ویسے ہی تمہیں ستائے گا کہ اگر کسی کو ہمارے مشورہ پر بھی رسالت ملی تو اس کی اطاعت کرنا پڑے گی اور یوں وہ تو بادشاہ بن جائے گا اور ہم کوئی مقام و مرتبہ اس کے مقابل نہ پا سکیں گے ۔ (بیعت توڑنے والوں کا مرض) بیعت کرکے توڑنے والوں کا سبب بھی عموما ان کی ذات میں متکبرانہ خیالات اور ذاتی اقتدار کی طلب ہوتی ہے ، ورنہ تو بغیر واقفیت تو کوئی بیعت نہیں کرتا اور اگر اس کا کردار درست نہ ہو تو بیعت کرنا ہی درست نہیں اب یہ سب دیکھ کر بیعت کرلی تو پھر اپنے ذاتی تکبر پر زد پڑی تو توڑنے کے حیلے سوچے جاتے ہیں ، لہذا بیعت توڑنے والے کبھی بھی بھلے لوگ نہیں ہو سکتے ہمیشہ تنگ نظر اور تنگ ظرف ہوا کرتے ہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 94 تا 96 مامنع نہیں منع کیا۔ نہیں روکا۔ ابعث کیا بھیجا ہے ؟ ۔ یمشون وہ چلتے ہیں۔ مطمئنین اطمینان سے رہنے والے۔ ملک فرشتہ۔ کفی کافی ہے۔ شھید گواہ۔ تشریح : آیت نمبر 94 تا 96 گزشتہ آیات کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ان کفار مکہ کو جس بات نے ایمان عمل صالح اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے روک رکھا ہے ان کا یہ خیال ہے کہ اگر اللہ کو ہماری ہدایت کے لئے کسی کو بھیجنا تھا تو ایک بشر کو کیوں بھیجا کسی فرشتے کو کیوں نہ بھیج دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر روئے زمین پر فرشتے ہی ہوتے تو ممکن تھا ان کو اگر ہدایت کی ضرورت ہوتی تو وہ کسی فرشتے کو ان کی اصلاح کے لئے بھیجتا۔ جب اس روئے زمین پر انسان رہتے ہیں تو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انسانوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے اس میں نہ تو کسی تعجب اور حیرت کی ضرورت ہے اور نہ عقل سلیم ہی اس کی اجازت دیتی ہے۔ فرمایا گیا کہ اگر ہم انسانوں کی ہدایت کے لئے کسی فرشتے کو بھی بھیجتے تو وہ انسانی شکل ہی میں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ عمل کی راہوں سے بھاگتے ہیں ان کو باتیں بنانے کیلئے کسی موضوع کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ ان کفار و مشرکین کی عقل و سمجھ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اس لئے وہ فضول باتیں کر کے اپنے آپ کو مطئمن کرتے رہتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کر کے اپنی قابلیت کا سکہ اپنے آس پاس کے لوگوں پر جمانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نبی ! آپ ان لوگوں کے اعتراضات اور سوالات کے جواب میں صرف اتنا کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان صرف اللہ ہی گواہی کے لئے کافی ہے جس نے مجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے وہ اپنے بندوں کی ہر ایک حالت کی پوری طرح خبر رکھتا ہے۔ اگر اس قدر واضح اور سچی بات کے بعد بھی وہ لوگ اپنی ضد، ہٹ دھرمی پر جمے رہتے ہیں تو یہ ان کی بدنصیبی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مکہ نے متضاد قسم کے مطالبات کیے۔ جس کا جواب آپ کی زبان اطہر سے یہ دیا گیا کہ آپ فرمائیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والا ایک انسان ہوں۔ یہاں آپ کی بشریت کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ کیونکہ انبیاء کی بشریت کو بھی کفار اپنے انکا رکا بہانہ بنایا کرتے تھے۔ چنانچہ ارشادہوا کہ جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو انہوں نے یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کیا کہ عجب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بشر کو رسول بنا دیا ہے۔ یہی اعتراض کفار مکہ نے آپ پر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ارشاد فرمایا۔ کہ آپ انہیں فرمائیں کہ اگر زمین میں رہنے، سہنے والے فرشتے ہوتے۔ تو ہم ضرور ان کے پاس فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے۔ کیونکہ زمین میں انسان رہتے ہیں۔ لہٰذا نبی بھی انسان ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے تمام انبیاء انسان تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انسان اور نبی ہیں۔ اتنی سچی، ٹھوس اور عقلی دلیل کے باوجود اگر یہ لوگ نہیں مانتے۔ تو انہیں بتلائیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے اعمال کو دیکھنے والا اور ان کی نیتوں سے باخبر ہے۔ حق کے منکرانبیاء کرام (علیہ السلام) کی ذات کے بارے میں ہمیشہ سے یہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ نبی انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ گویا کہ کفار کے نزدیک نبوت انسان کی بجائے فرشتے کا حق ہے۔ ان کے نزدیک نبی کا کھانا پینا، رہنا سہنا اور انسانی حاجات کے حوالے سے دوسرے انسانوں جیسا ہونا منصب نبوت کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر زمین پر ملائکہ رہائش پذیر ہوتے تو یقیناً کسی فرشتے کو رسول بنایا جاتا۔ کیونکہ فرشتہ ہی نورانی مخلوق کی ضروریات اور مشکلات کو سمجھ سکتا ہے۔ لیکن زمین پر انسان بستے ہیں۔ لہٰذا ان کی ضروریات اور حاجات کو سمجھنے کے لیے نبی ان کا ہم جنس ہونا چاہیے تھا تاکہ کسی کو یہ بہانہ نہ مل سکے کہ نوری مخلوق کو خاکی مخلوق کی مشکلات و ضروریات کا کس طرح ادراک اور احساس ہوسکتا ہے۔ اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث فرمائے۔ ناصرف وہ انسان تھے بلکہ اپنی قوم کے ایک فرد ہوا کرتے تھے تاکہ صرف انسان کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی قوم کے مزاج اور علاقے کے حالات کے مطابق ان کی ضروریات اور مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مسائل کا قابل عمل حل پیش کریں اور زندگی کے تمام معاملات میں ان کے سامنے اپنے آپ کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کریں۔ ان حقائق کے باوجود جو لوگ انکار کرتے ہیں انہیں کان کھول کر سن لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نا صرف ان کے اعمال کو دیکھتا ہے بلکہ ان کی نیتّوں سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ مسائل ١۔ رسول کے بشرہونے کی وجہ سے کفاران کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی سب سے بڑی اور کافی ہے۔ ٢۔ اگر زمین میں فرشتے رہائش پذیر ہوتے تو فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ خبیر وبصیر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی گواہی : ١۔ فرما دیجیے میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩٦) ٢۔ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ عرض کریں گے جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر ایک پر گواہ ہے۔ (المائدۃ : ١١٧) ٣۔ ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے، پھر اللہ اس پر گواہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٦) ٤۔ یقیناً اللہ قیامت کے دن ان میں فیصلہ فرمائیں گے اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (الحج : ١٧) ٥۔ میرا اجر اللہ کے ذمّہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا : ٤٧) ٦۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (البروج : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لوگوں کے درمیان یہ وہم اس لئے پھیلا کہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ کے ہاں انسان کی انسانیت اور بشریت کی کیا قدر ہے۔ اس لئے انہوں نے اس بات کو مناسب نہ سمجھا کہ کوئی بشر اللہ کا رسول بن جائے۔ نیز انہوں نے اس کائنات کے مزاج اور فرشتوں کے مزاج اور نوعیت کے سمجھنے میں بھی غلطی کی۔ کیونکہ فرشتوں کو اللہ نے اس لئے پیدا ہی نہیں کیا کہ وہ کرہ ارض پر بسیں اور یہاں لوگ انہیں جانیں اور پہنچانیں اور وہ فرشتوں کی شکل میں ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

لوگ اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ نبوت اور بشریت میں تضاد سمجھتے ہیں اگر زمین میں فرشتے رہتے ہوتے تو ان کے لیے فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا لوگوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) جب دین حق کی دعوت دیتے اور بتاتے کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو یوں کہہ دیتے کہ انسان کا رسول ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔ سورة ابراہیم میں ہے کہ انبیاء سابقین کی امتوں نے اپنے رسولوں کی رسالت کا انکار کرنے کے لیے یوں کہا (مَا اَنْتُمْ الاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا) کہ تم تو ہماری طرح کے آدمی ہو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی مشرکین نے اسی طرح کی بات کہی تھی۔ نبیوں اور رسولوں کا انسان ہونا جو حکمت کے بالکل موافق ہے لوگوں کے لیے ہدایت سے گریز کرنے اور ایمان قبول نہ کرنے کا سبب بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا کہ زمین میں انسان بستے ہیں لہٰذا ان کے لیے انسان کو مبعوث کیا گیا اگر زمین میں فرشتے بسے ہوئے ہوتے اور سکون و اطمینان کے ساتھ یہیں رہتے اور اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم آسمان سے فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے۔ زمین میں بسنے والے انسان ہیں ان کی طرف جو رسول بھیجے گئے وہ بھی انسان ہیں کیونکہ ہم جنس سے استفادہ کرنا آسمان ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرف انسانوں کا مبعوث ہونا یہ تو عین حکمت ہے اور سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن لوگوں نے اسی کو ایمان سے دور رہنے کا ذریعہ بنالیا۔ (کَفٰی باللّٰہِ شَھِیْدًام بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ ) (آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان کافی گواہ ہے) تمہارے نہ ماننے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے رسول بنایا ہے وہ گواہ ہے کہ میں اس کا رسول ہوں تم مانو یا نہ مانو۔ نہ مانو گے تو سزا بھگتو گے۔ (اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًام بَصِیْرًا) اللہ تعالیٰ کو سب بندوں کے احوال و افعال کا علم ہے وہ باخبر ہے دانا بینا ہے اپنے علم و حکمت کے موافق سزا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82:۔ یہ بھی شکوہ ہے پہلے شکوہ کے جواب میں کہا گیا ” ھل کنت الا بشر رسولا “ تو مشرکین نے کہا ہم بشر کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے کوئی فرشتہ رسول بن کر آئے تو ہم مان لیں گے۔ ” قل لو کان فی الارض الخ “ یہ جواب شکوہ ہے اگر زمین میں فرشتے آباد ہوتے و ہم ان کی ہدایت کیلئے فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے لیکن زمین میں چونکہ انسان آباد ہیں اس لیے ان کی ہدایت کے لیے لامحالہ انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجنا قرین عقل و مصلحت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

94 اور جب لوگوں کے پاس ہدایت و رہنمائی آئی تو ان کو ایمان لانے اور ہدایت کو قبول کرنے سے صرف یہی بات مانع ہوئی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے یعنی اگرچہ اور بھی شبہات تھے لیکن سب سے اہم اور قابل توجہ یہی بات مانع ہوئی کہ وہ رسالت اور بشریت میں منافات سمجھے اور یہی کہتے رہے کہ فرشتے کیوں نہیں آیا ہماری ہدایت کو بشر کیوں آیا۔ ” فقالوآ البشر یھدوننا فکفرو “ (سورئہ تغابن)” لولا تزل علینا الملئکۃ “ (سورئہ فرقان)