Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 99

سورة بنی اسراءیل

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ قَادِرٌ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ وَ جَعَلَ لَہُمۡ اَجَلًا لَّا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَاَبَی الظّٰلِمُوۡنَ اِلَّا کُفُوۡرًا ﴿۹۹﴾

Do they not see that Allah , who created the heavens and earth, is [the one] Able to create the likes of them? And He has appointed for them a term, about which there is no doubt. But the wrongdoers refuse [anything] except disbelief.

کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ جس اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا وہ ان جیسوں کی پیدائش پر پورا قادر ہے اسی نے ان کے لئے ایک ایسا وقت مقرر کر رکھا ہے جو شک و شبہ سے یکسر خالی ہے ، لیکن ظالم لوگ انکار کئے بغیر رہتے ہی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ... See they not that Allah, Who created the heavens and the earth, is able to create the like of them. meaning, on the Day of Resurrection, He will recreate and restore their bodies, as He created them in the first place. ... وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلً لاَّ رَيْبَ فِيهِ ... And He has decreed for them an appointed term, whereof there is no doubt. means, He has set a time for them to be re-created and brought forth from their graves, an appointed time which must surely come to pass. As Allah says: وَمَا نُوَخِّرُهُ إِلاَّ لاًّجَلٍ مَّعْدُودٍ And We delay it only for a term (already) fixed. (11:104) ... فَأَبَى الظَّالِمُونَ ... But the wrongdoers refuse, -- after the proof has been established against them, ... إَلاَّ كُفُورًا (and accept nothing) but disbelief. means, they persist in their falsehood and misguidance.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہ ان جیسوں کی پیدائش یا دوبارہ انھیں زندگی دینے پر بھی قادر ہے، کیونکہ یہ تو آسمان و زمین کی تخلیق سے زیادہ آسان ہے۔ (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ) 40 ۔ المؤمن :57) ۔ المومن۔ آسمان اور زمین کی پیدائش انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا اور مشکل کام ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورة الاحقاف میں اور سورة یسین میں بھی بیان فرمایا ہے۔ 99۔ 2 اس اجل (وقت مقرر) سے مراد موت یا قیامت ہے۔ یہاں سیاق کلام کے اعتبار سے قیامت مراد لینا زیادہ صحیح ہے یعنی ہم نے انھیں دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے اٹھانے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وما تؤخرہ الا لاجل معدود۔ ہود۔ ہم ان کے معاملے کو ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی مؤخر کر رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٧] دوبارہ زندگی کا موسم :۔ مشرکین مکہ کا یہ اعتراض تھا کہ ہزاروں برس گزر چکے جو مرگیا ان میں سے کوئی دوبارہ زندہ ہو کر تو آیا نہیں۔ پھر دوبارہ زندگی کیسے ممکن ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کام کے لیے ایک مقررہ وقت ہوتا ہے وہ اسی وقت ہی ہوتا ہے۔ گندم کا بیج آپ زمین میں پھینک دیں۔ مگر وہ اگے گا اسی وقت جب اس کے اگنے کا موسم آئے گا۔ اسی طرح انسانوں کے اگنے کا وقت یا موسم نفخہ صورثانی ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب ایک طبعی عمل کے تحت زمین سے اگ آؤ گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” اَوَلَمْ يَرَوْا “ کا معنی ” أَوَلَمْ یَعْلَمُوْا “ ہے، یعنی ” کیا انھیں معلوم نہیں ؟ “ دیکھیے سورة فیل اور ابراہیم (٢٤) مطلب یہ کہ انھیں معلوم ہے۔ ” لَمْ “ کے اوپر ہمزہ استفہام برائے توبیخ آیا تو اثبات کا مفہوم پیدا ہوگیا، کیونکہ نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے۔ اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : یہ ان کے قیامت کے انکار کا عقلی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا، وہ ان جیسوں کو بھی پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، کیونکہ زمین و آسمان کی پیدائش ان کی پیدائش سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ دیکھیے سورة یس (٨١) ، احقاف (٣٣) ، مومن (٥٧) اور نازعات (٢٧) ۔ اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ : ” ان جیسوں “ سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کو دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ ” مِثْلَهُمْ “ کا لفظ تحقیر کے لیے ہے، جیسے کہا جاتا ہے، تیرے جیسے ذلیل ہی ہوتے ہیں، تیرے جیسوں کی کیا مجال ہے ؟ مطلب یہ کہ تمہاری کیا مجال ہے ؟ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ جس نے آسمان و زمین پیدا کیے وہ اس بات پر قادر ہے کہ ان کی جگہ ان جیسے اور لوگ پیدا کر دے جو اسے ایک مانیں، اس قسم کے فاسد شبہات سے پاک ہوں اور قیامت برپا کرنے میں اس کی کمال حکمت کے قائل ہوں، جیسا کہ فرمایا : ( وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ ) [ محمد : ٣٨ ] ” اور اگر تم پھر جاؤ تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے۔ “ دونوں معنی ہی درست ہیں۔ وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا ۔۔ : ” جَعَلَ “ کا عطف ” قَادِرٌ“ پر ہے جو ” قَدَرَ “ کی طرح ہے، یعنی وہ ان جیسے لوگ پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس نے ان سب کے مرنے اور دوبارہ اٹھائے جانے کا وقت مقرر کر رکھا ہے، جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں، لہٰذا محض تاخیر کو دیکھ کر دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار سراسر حماقت ہے۔ دیکھیے سورة ہود (١٠٣، ١٠٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا 99؀ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) کیا ان کفار مکہ کو اتنا معلوم ہے کہ جو تمام آسمان و کا خالق ہے وہ اس بات پر پہلے ہی کی طرح قادر ہے کہ ان جیسے آدمی دوبارہ پیدا کردے، اور اس کے لیے اس نے ایک وقت مقرر کر رکھا کہ مومنین کو اس میں ذرا بھی شک نہیں، اس کے باوجود بھی مشرکین نے اس چیز کو قبول نہیں کیا اور کفر ہی پر قائم رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ) جب تمہیں اس نے ایک دفعہ پیدا کیا ہے تو اب تمہاری طرح کے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کیونکر مشکل ہوگا ؟ (وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا) انہوں نے اللہ کے ہر حکم اور اس کی ہر آیت سے کفر اور انکار کی روش اپنائے رکھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:99) اولم یروا۔ کیا وہ نہیں دیکھتے بمعنی اولم یتفکروا۔ اور۔ اولم یعلموا۔ کیا وہ نہیں سوچتے۔ کیا وہ نہیں جانتے۔ اجلا۔ وقت مقررہ۔ مدت مقررہ۔ لا ریب فیہ۔ یعنی اس وقت مقررہ کے آجانے (واقع ہونے) میں کوئی شک نہیں ہے۔ ان یخلق مثلہم۔ کہ ایسوں کو پھر پیدا کر دے۔ کہ ان کی مثل نئی مخلوق پیدا فرما دے۔ کفورا۔ کفر یکفر سے مصدر۔ منصوب۔ کفر کرنا۔ نہ ماننا۔ انکار کرنا۔ یعنی ان ظالموں نے سوائے کفر کے اور ہر بات سے انکار کردیا۔ یعنی یہ اپنے کفر پر اڑے ہی رہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہوں اور حشر کا انکار بھی نہ کریں یا اس کے معنی مطلق دوبارہ پیدا کرنے کے ہیں۔ نبوت پر ان کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب حشر و نشر کے انکار پر ان کے شبہ کا جواب دیا۔ (بیکر) دسوری جگہ فرمایا : لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے۔ (غاقر :57)6 یعنی یعنی سب کے دوبارہ اٹھائے جانے کا ایک وقت مقرر ہے جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں۔ لہٰذا تمہارا محض تاخیر کو دیکھ کر دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرنا سراسر حماقت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکر کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں ریزہ، ریزہ ہوجانے کے بعد ہمیں کون زندہ کرے گا ؟ ایسے لوگوں کو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ آخرت کا انکار کرنے کے لیے منکرین کے پاس بڑی سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر مٹی کے ساتھ مل جائیں گی۔ تو ہمیں کس طرح زندہ کیا جائے گا ؟ قرآن مجید نے دیگر دلائل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش فرمائی ہے کیا آخرت کے منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان جیسے اور لوگ پیدا کرے۔ اس نے لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جس کے آنے میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ظالم اس دن کا انکار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کئی دفعہ قرآن نے واضح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمینوں و آسمانوں کو بغیرنمونے کے پیدا کیا ہے۔ یعنی ان کے پیدا کرنے سے پہلے نہ زمین و آسمان کا میٹریل تھا اور نہ ہی نمونہ موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ناصرف ان کا میٹریل پیدا کیا۔ بلکہ اس کے حکم سے زمین و آسمان معرض وجود میں آئے کیونکہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے۔ تو فقط اتنا فرماتا ہے کہ ” ہوجا “ وہ کام اور چیز اللہ کی منشاء کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ (البقرۃ : ١١٧) یہاں زمین و آسمان کی تخلیق کا حوالہ دے کر انسان کو اس پر غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ تاکہ اسے معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیونکر مشکل ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش زمین و آسمان کی پیدائش سے کھربوں کے حساب سے زیادہ آسان ہے۔ لیکن انسان کے ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جب وہ کسی حقیقت کا انکار کرنے پر ضد اختیار کرلے تو اسے کوئی دلیل قائل نہیں سکتی۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّی لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی ثُمَّ اسْحَقُونِی ثُمَّ ذَرُّونِی فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ )[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء، الباب الأخیر ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی تھا اللہ نے اس کو مال کے اعتبار سے بڑی فراوانی دی تھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو حاضر کرکے کہا کہ میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ انہوں نے کہا بہترین ! اس نے کہا یقیناً میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مرجاؤں تو تم مجھے جلا دینا۔ پھر میری راکھ کو دور لے جاکر ہواؤں میں اڑا دینا۔ بیٹوں نے اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کیا اور فرمایا تجھے کس چیزنے اس کام پر ابھارا تھا ؟ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت میں لے لیا۔ “ مسائل ١۔ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قاد رہے اور وہ دوبارہ پیدا کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تخلیق اور موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ٤۔ کافر قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا فرمانا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا فرمایا ہے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا کیا، اس کی نہ اولاد ہے اور نہ اس کی بیوی۔ (الانعام : ١٠١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ : ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو دو دن میں پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ : ١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے ساتوں آسمانوں کو اوپر تلے بنایا۔ (الملک : ٣) ٦۔ وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یروا……(٧١ : ٩٩) ” کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے “۔ لہٰذا بعثت بعد الموت میں کیا انہونی بات ہے ، اللہ اس عظیم کائنات کا خالق ہے۔ وہ ان جیسے آسمان و زمین کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا وہ ان کو ختم کرکے دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ وجعل ……(٧١ : ٩٩) ” اس نے ان کے حشر کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے “۔ میں ان کو مہلت دے رہا ہوں اور ان کا وقت مقرر ہے۔ فابی ……(٧١ : ٩٩) ” مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے “۔ لہٰذا ان ظالموں کو جو سزا ہوگی وہ دلائل و مشاہدات اور آیات کی وضاحت کے اعتبار سے معقول ہوگی۔ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان معجزات کا مطالبہ کرتے تھے اور یہ مطالبات نہایت ہی نامعقول تھے مثلاً یہ کہ قیمتی دھاتوں کا مکان ، کھجوروں اور انگوروں کا باغ اور زمین سے پھاڑ کر چشمے نکالنا ، مگر تم لوگ خود اس قدر بخیل ہو کہ اگر اللہ کی رحمت کے خزانوں کی کنجیاں تمہیں دے دی جائیں تو ان میں سے کچھ بھی خرچ نہ کرتے اور ہاتھ روک لیتے کہ کہیں یہ خزانے ختم نہ ہوجائیں حالانکہ اللہ کی رحمت کے خزانے ختم ہونے والے نہیں ہوتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

99 کیا یہ لوگ اتنا نہیں جانتے اور ان کو اتنا معلوم نہیں کہ جس اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ ان جیسے آدمیوں کو دوبارہ پیدا کر دے اور اس نے ان کے دوبارہ پیدا کرنے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس میں کوئی شک کرنے کی گنجائش نہیں اس پر بھی یہ ظالم انکار کئے بدوں نہ رہے۔ یعنی جو آسمان و زمین کا خالق ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ان جیسے آدمیوں کو دوبارہ پیدا کر دے یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہزارہا آدمی مرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو دوبارہ پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے اس عالم بعث کا اور سب کے زندہ ہونے کا ایک وقت اور ایک میعاد مقرر ہے اس وقت سب دوبارہ پیدا کئے جائیں گے لیکن ان کافروں کی حالت یہ ہے کہ کفر کا شیوہ جو انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اس کے علاوہ دین حق کی ہر بات کا انکار ہی کئے جاتے ہیں اور کسی معقول سے معقول بات پر کان نہیں دھرتے۔