Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 10

سورة الكهف

اِذۡ اَوَی الۡفِتۡیَۃُ اِلَی الۡکَہۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً وَّ ہَیِّیٔۡ لَنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا ﴿۱۰﴾

[Mention] when the youths retreated to the cave and said, "Our Lord, grant us from Yourself mercy and prepare for us from our affair right guidance."

ان چند نو جوانوں نے جب غار میں پناہ لی تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کو آسان کر دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Remember) when the young men fled for refuge to Al-Kahf. They said: "Our Lord! Bestow on us mercy from Yourself, and facilitate for us our affair in the right way!" Here Allah tells us about those young men who fled from their people for the sake of their religion, fearing persecution. So they fled taking refuge in the cave of a mountain, where they hid from their people. When they entered the cave, they asked Allah to show mercy and kindness towards them, رَبَّنَا اتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّيْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا Our Lord! Bestow on us mercy from Yourself, and facilitate for us our affair in the right way. ... رَبَّنَا اتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ... Our Lord! Bestow on us mercy from Yourself, meaning, `give us Your mercy and conceal us from our people.' ... وَهَيِّيْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا and facilitate for us our affair in the right way. means, direct our matter well, i.e., grant us a good end. As was reported in the Hadith: وَمَا قَضَيْتَ لَنَا مِنْ قَضَاءٍ فَاجْعَلْ عَاقِبَتَهُ رَشَدًا Whatever You have decreed for us, make its consequences good. فَضَرَبْنَا عَلَى اذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں اصحاب کہف کہا گیا، (تفصیل آگے آرہی ہے) انہوں نے جب اپنے دین کو بچاتے ہوئے غار میں پناہ لی تو یہ دعا مانگی۔ اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لئے بڑا سبق ہے، آجکل کے نوجوانوں کا بیشتر وقت فضولیات میں برباد ہوتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ کاش ! آج کے مسلمان نوجوان اپنی جوانیوں کو اللہ کی عبادت میں صرف کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٩] اصحاب کہف کا غار میں پناہ لینا۔ عام روایات، کتب سیر اور قرآن کریم کے اشارہ کے مطابق یہ نوجوان سات تھے توحید پرست تھے اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے معاشرہ میں ہر سو شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا اس وقت کا رومی بادشاہ دقیانوس (Decius) (عہد حکومت ٢٤٩ ء تا ٢٥١ ئ) خود بت پرست اور مشرک تھا عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے معاملہ میں اس کا عہد بہت بدنام ہے۔ ان ایام میں عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث تاہنوز وضع نہیں ہوا تھا یہ عقیدہ مدتوں بعد چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا لہذا ان ایام میں عیسائی توحیدپرست ہی ہوتے تھے ان نوجوانوں نے جب دیکھا کہ توحید پرستوں پر کس طرح سختیاں کرکے انھیں شرک و بت پرستی پر مجبور کیا جارہا ہے تو انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مناسب یہی سمجھا کہ لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوجائیں چناچہ انہوں نے ایک پہاڑ کی ایک کھلی غار میں روپوش ہوجانے پر اتفاق کرلیا اور اپنے گھر بار چھوڑ کر منتخب کردہ غار میں جا پناہ لی اور یہ طے کیا کہ ہم میں سے باری باری ایک شخص اپنا بھیس بدل کر شہر جایا کرے وہاں سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے اور اپنے متعلق لوگوں کی چہ میگوئیاں بھی سن آئے اور موجودہ صورت حال سے باقی ساتھیوں کو بھی مطلع کرتا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ سے دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ ہمیں اس معاملہ میں ثابت قدم رکھ اور ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہماری صحیح رہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ اَوَى الْفِتْيَةُ اِلَى الْكَهْفِ ۔۔ : ” اَوَى“ (ض) جگہ پکڑی، پناہ لی۔ ” الْفِتْيَةُ “ ” فَتًی “ کی جمع قلت ہے، جوان جو آغاز شباب میں ہوں۔ ” َهَيِّئْ “ باب تفعیل سے امر ہے، مہیا فرما، میسر فرما، ” رَشَدًا “ بھلائی، رہنمائی۔ ” اِذْ “ یا تو ” کَانُوْا “ کی ظرف ہے، یا ” عَجَباً “ کی اور یا ” أُذْکُرْ “ کی جو محذوف ہے، یعنی جب چند نوجوان جو اپنی مشرک قوم اور مشرک بادشاہ کے سامنے توحید کا برملا اظہار و اعلان کرنے کی وجہ سے انھیں مطلوب تھے، اپنے گھروں سے نکلے اور انھوں نے ایک پہاڑ کے کھلے غار میں پناہ لی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے پاس سے، یعنی محض اپنے فضل اور اپنی جناب سے کوئی بھی رحمت جو تو چاہے عطا فرما، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا تھا : (رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ) [ القصص : ٢٤ ] ” اے میرے رب ! بیشک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں۔ “ رحمت میں کھانا پینا، امن و اطمینان اور ضرورت کی ہر چیز شامل ہے۔” َهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا “ اور ہمارے لیے اس معاملے میں کوئی رہنمائی عطا فرما کہ ہم کیا کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ اَوَى الْفِتْيَۃُ اِلَى الْكَہْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً وَّہَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا۝ ١٠ أوى) ملانا) المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ، وقال تعالی: آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف/ 69] آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف/ 69] أي : ضمّه إلى نفسه . ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اور آیت کریمہ :۔ { آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ } ( سورة يوسف 69) کے معنی یہ ہیں کہ ہوسف نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملالیا فتی الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة . قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ( ف ت ی ) الفتیٰ کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، هيأ الْهَيْئَةُ : الحالة التي يكون عليها الشیء، محسوسة کانت أو معقولة، لکن في المحسوس أكثر . قال تعالی: أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران/ 49] ، وَالمُهايأَةُ : ما يَتَهَيَّأُ القوم له فيتراضون عليه علی وجه التّخمین، قال تعالی: وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً [ الكهف/ 10] ، وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف/ 16] وقیل : هَيَّاكَ أن تفعل کذا . بمعنی: إيّاك، قال الشاعر : هيّاك هيّاک وحنواء العنق ( ھ ی ء ) الھیئتہ اصل میں کسی چیز کی حالت کو کہتے ہیں عام اس سے کہ وہ حالت محسوسہ ہو یا معقولہ لیکن عموما یہ لفظ حالت محسوسہ یعنی شکل و صورت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ [ آل عمران/ 49] کہ تمہارے سامنے مٹی کی مورت بہ شکل پر ندبناتا ہوں ۔ لمھایاۃ ( مہموز ) جس کے لئے لوگ تیار ہوں ۔ اور اس پر موافقت کا اظہار کریں ۔ ھیاء کے معنی کسی معاملہ کیلئے اسباب مہیا کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهَيِّئْ لَنا مِنْ أَمْرِنا رَشَداً [ الكهف/ 10] اور ہمارے کام میں درستی ( کے سامان ) مہیا کر ۔ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقاً [ الكهف/ 16] اور تمہارے کاموں میں آسانی ( کے سامان ) مہیا کرے گا ۔ اور ایاک ان تفعل کذا میں لغت ھیاک ان تفعل کزا بھی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( ( 4 5 8 ) ھیاک ھیاک وحنواء العنق گردن مروڑنے یعنی تکبر سے دور رہو ۔ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دین کے معاملے میں فتنے سے بچنا قول باری ہے (اذ اوی الفتیۃ الی الکھف فقالوا ربنا اتنا من لدنک رحمۃ وھتی لنا من امرنا رشداً ۔ ) جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزین ہوئے اور انہوں نے کہا۔ اے پروردگار ! ہم کو اپنی رحمت خاص سے نوازا اور ہمارا معاملہ درست کر دے) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ اگر کسی انسان کو اپنے دین کے معاملے میں فتنہ کا خوف پیدا ہوجائے تو وہ اپنا دین بچانے کے لئے اس جگہ سے دور چلا جائے اور وہاں جا کر کلمہ کفر کے اظہار کی آزمائش میں اپنے آپ کو نہ پھنسا دے خواہ یہ اظہار تقیہ یعنی جان بچانے کی خاطر ہی کیوں نہ ہو۔ نیز یہ دلالت بھی ہو رہی ہے کہ جب فتنہ سے بچنے کے لئے ایک شخص اپنا دین لے کر نکل جائے تو وہ اللہ سے دعا مانگے جس کی حکایت اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے سلسلے میں کی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو اصحاب کہف کا یہ فعل پسند آگیا تھا اور ان کی دعا قبول کرلی تھی۔ اسی پسندیدگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا سارا واعہ ہم سے بیان فرمایا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) چناچہ اب اللہ تعالیٰ اجمالی طور پر یہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ وقت قابل ذکر ہے جب کہ ان نوجوانوں نے اس غار میں جا کر پناہ لی اور داخل ہونے کے وقت دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھیے اور اس سے چھٹکارے کا کوئی رستہ نکالیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (اِذْ اَوَى الْفِتْيَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا) اپنے خاص خزانہ فضل سے ہمارے لیے رحمت کا بندوبست فرما دے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:10) اذ۔ ای اذکر اذ۔ یاد کر جب۔ اوی۔ اوی سے ماضی واحد مذکر غائب ۔ وہ اترا۔ وہ جا بیٹھا۔ الماوی۔ کسی جگہ نزول کرنا یا پناہ حاصل کرنا۔ جیسے قرآن مجید میں آیا ہے قال ساوی الی جبل۔ (11:43) اس نے کہا کہ میں ابھی پہاڑ پر جا بیٹھوں گا۔ یا پہاڑ پر جا پناہ لوں گا۔ الفتیۃ۔ فتیۃ۔ فتی۔ کی جمع قلت ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ اسم جمع ہے مراد اصحاب الکہف سے ہے۔ (جب ان جوانوں نے پناہ لی) ۔ من الدنک اپنی طرف سے۔ ھیٔ لنا۔ فعل امر۔ واحد مذکر حاضر۔ ھیئا یھییٔ تھییٔ۔ (باب تفعیل) کسی معاملہ کے لئے اسباب مہیا کرنا۔ ھییٔ لنا من امرنا رشدا (آیہ ہذا) اور ہمارے کاموں میں درستی (کے سامان) مہیا کر۔ اور جگہ اس سورت میں آیا ہے۔ ویھیی لکم من امرکم مرفقا۔ (18:16) اور تمہارے کاموں میں آسانی (کے سامان) مہیا کرے گا۔ الھیئۃ اصل میں کسی چیز کی حالت کو کہتے ہیں خواہ وہ محسوسہ ہو یا معقولہ، لیکن عام طور پر حالت ِ محسوسہ یعنی شکل و صورت پر بولا جاتا ہے۔ علم الھیئۃ۔ وہ علم جس میں اجرام سماویہ سے بحث ہو، رشدا۔ رشد یرشد (باب نصر) کا مصدر ہے۔ راستی ۔ بھلائی۔ نیکی۔ راہ یابی راہ راست پانا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 تاکہ اپنی قوم کے فتنے سے اپنے دین کو محفوظ رکھ سکیں اور ان کی قوم کو پتا نہ چل سکے کہ وہ کہاں گئے ؟8 یا ” ہماری عاقبت بخیر کر۔ “ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 اور وہ وقت قابل ذکر ہے جب ان چند نوجوانوں نے ایک ظالم اور کافر بادشاہ سے بچنے کے لئے پہاڑ کی کھوہ میں پناہ لی اور اپنے پروردگار سے یوں کی۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا کر اور ہمارے لئے ہمارے کام میں صحیح رہنمائی کا سامان مہیا کر دے۔ ابن کثیر نے کہا یہ دعا اس طرح کی تھی جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اے خدا جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے اسے انجام کے لحاظ سے بہتر کر۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے۔ اللھم احسن عاقبتنا فی الامور لکلھا واجر نامن خزی الدنیا و عذاب الاخرۃ۔ یا اللہ ! ہمارے تمام کاموں کا انجام بہتر کر اور ہم کو دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لے۔ چناچہ ابتداء ایک شخص ان میں سے بھیس بدل کر شہر جایا کرے اور ضرورت کا کچھ سامان بھی لے آیا کرے اور خبر بھی معلوم کیا کرے۔ چناچہ اس شخص نے ایک دن آ کر کہا شہر میں ہماری تلاش ہو رہی ہے اور ہمارے رشتہ داروں کو تنگ کیا جا رہا ہے کہ بتائو وہ پوری جماعت کہاں ہے۔ جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کردی اور یہ سب کے سب سو گئے۔ چناچہ فرماتے ہیں۔