Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 103

سورة الكهف

قُلۡ ہَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا ﴿۱۰۳﴾ؕ

Say, [O Muhammad], "Shall we [believers] inform you of the greatest losers as to [their] deeds?

کہہ دیجئے کہ اگر ( تم کہو تو ) میں تمہیں بتادوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Greatest Losers in respect of (Their) Deeds Al-Bukhari recorded from Amr that Mus`ab who said: "I asked my father -- meaning Sa`d bin Abi Waqqas -- about Allah's saying, قُلْ هَلْ نُنَبِّيُكُمْ بِالاَْخْسَرِينَ أَعْمَالاً Say: "Shall We tell you the greatest losers in respect of (their) deeds!" `Are they the Haruriyyah?' He said, `No, they are the Jews and Christians. As for the Jews, they disbelieved in Muhammad, and as for the Christians, they disbelieved in Paradise and said that there is no food or drink there, and the Haruriyyah are those who break Allah's covenant after ratifying it.' Sa`d used to call them Al-Fasiqin (the corrupt). Ali bin Abi Talib, Ad-Dahhak and others said: "They are the Haruriyyah," so this means, that according to Ali, may Allah be pleased with him, this Ayah includes the Haruriyyah just as it includes the Jews, the Christians and others. This does not mean that the Ayah was revealed concerning any of these groups in particular; it is more general than that, because the Ayah was revealed in Makkah, before the Qur'an addressed the Jews and Christians, and before the Khawarij existed at all. So the Ayah is general and refers to everyone who worships Allah in a way that is not acceptable, thinking that he is right in doing that and that his deeds will be accepted, but he is mistaken and his deeds will be rejected, as Allah says: وُجُوهٌ يَوْمَيِذٍ خَـشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلَى نَاراً حَامِيَةً Some faces, that Day will be humiliated. Laboring, weary. They will enter in the hot blazing Fire. (88:2-4) وَقَدِمْنَأ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَأءً مَّنثُوراً And We shall turn to whatever deeds they did, and We shall make such deeds as scattered floating particles of dust. (25:23) وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْأنُ مَأءً حَتَّى إِذَا جَأءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْياً As for those who disbelieved, their deeds are like a mirage in a desert. The thirsty one thinks it to be water, until he comes up to it, he finds it to be nothing. (24:39) And in this Ayah Allah says: قُلْ هَلْ نُنَبِّيُكُمْ ... Say: "Shall We tell you..." meaning, `Shall We inform you;' ... بِالاْاَخْسَرِينَ أَعْمَالاًا the greatest losers in respect of (their) deeds. Then Allah explains who they are, and says:

عبادت واطاعت کا طریقہ ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے صاحبزادے مصعب نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہودونصاری ہیں ۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں ۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا ۔ پس حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ خارجیوں کو فاسق کہتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود ونصاری وغیرہ کفار کو شامل ہے ، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے جو بھی اللہ کی عبادت واطاعت اس طریقے سے بجالائے جوطریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہے کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے میرے نیک اعمال اللہ کے پسند یدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکے میں یہود ونصاری مخاطب نہ تھے ۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا ۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں ۔ جیسے سورہ غاشیہ میں ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا 23؀ ) 25- الفرقان:23 ) ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بیکار ردی کر دیا ۔ اور آیت میں ہے کافروں کی اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند پانی کی نہیں پاتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کے پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں ، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں اس لئے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہوگئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مبغوض ہوگئے ۔ اس لئے وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور مانے ہی نہیں ۔ ان کا نیکی کا پلڑا باکل خالی رہے گا ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کر لو ( فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥؁ ) 18- الكهف:105 ) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہوگا ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو آپ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہوگا ۔ مرفوع حدیث کی طرح حضرت کعب کا قول بھی مروی ہے ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا ، اللہ کی آیتوں کا اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا ۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Who are those referred to as: الْأَخْسَرِ‌ينَ أَعْمَالًا (The greatest losers in re¬spect of [ their ] deeds - 103)? At this place, the first two verses (101, 102) are, in terms of their general sense, inclusive of every individual or group that would put in a lot of effort in some deeds taking them to be good, but with Allah their effort is ruined and their deed, wasted. Al-Qurtubi said that this situation is caused due to two things. One: Corruption in Belief. Two: Hypocrisy. It means that a person whose very Belief and Faith is not correct - no matter how good he is in his deeds and how painstaking in his effort - will find all this useless and wasted in the Hereafter. Similarly, the deed of anyone who acts for the pleasure of the created by way of hypocrisy, that deed too will remain deprived of thawab (reward). It is in terms of this general sense that some revered Sahabah have declared the Kharjites as the substantiation of this verse. Then, there are some commentators who take the Mu&tazilah, the Rawafid and some others as the groups who have strayed away from the straight path. But, in the next verse (105), it has been determined that meant at this place are those particular disbelievers who deny the verses of Allah Ta’ ala and the coming of Qiyamah and Akhirah. It was said: الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِآيَاتِ رَ‌بِّهِمْ وَلِقَائِهِ (Those are the ones who disbelieved in the signs of their Lord and in the meeting with Him). Therefore, al-Qurtubi, Abu Hayyan, Mazhari and others prefer the view that really meant at this place are particular disbelievers who deny Allah, the Last Day and the Reckoning of deeds. But, apparently too, even those people whose deeds were ruined by their corrupted beliefs and whose effort had gone waste cannot remain unaffected by its general sense. As for the related sayings re-ported from Sayyidna ` Ali and Sa` d (رض) ، this is precisely what they mean. (Qurtubi)

(آیت) اَلْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اس جگہ پہلی دو آیتیں اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے ہر اس فرد یا جماعت کو شامل ہیں جو کچھ اعمال کو نیک سمجھ کر اس میں جدوجہد اور محنت کرتے ہیں مگر اللہ کے نزدیک ان کی محنت برباد اور عمل ضائع ہے قرطبی نے فرمایا کہ یہ صورت دو چیزوں سے پیدا ہوتی ہے ایک فساد اعتقاد، دوسرے ریاء کاری یعنی جس شخص کا عقیدہ اور ایمان درست نہ ہو وہ عمل کتنے ہی اچھے کرے اور کتنی ہی محنت اٹھائے وہ آخرت میں بیکار اور ضائع ہے۔ اسی طرح جس کا عمل مخلوق کو خوش کرنے کے لئے ریاکاری سے ہو وہ بھی عمل کے ثواب سے محروم ہے اسی مفہوم عام کے اعتبار سے بعض حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس کا مصداق خوارج کو اور بعض مفسرین نے معتزلہ اور روافض وغیرہ گمراہ فرقوں کو قرار دیا مگر اگلی آیت میں یہ متعین کردیا گیا ہے کہ اس جگہ مراد وہ کفار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور قیامت و آخرت کے منکر ہوں (آیت) اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ اس لئے قرطبی ابوحیان مظہری وغیرہ میں ترجیح اس کو دی گئی ہے کہ اصل مراد اس جگہ وہی کفار ہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت اور حساب و کتاب کے منکر ہوں مگر صورۃً وہ لوگ بھی اس کے مفہوم عام سے بےتعلق نہیں ہو سکتے جن کے اعمال ان کے عقائد فاسدہ نے برباد کردیئے اور ان کی محنت رائیگاں ہوگئی بعض صحابہ کرام (رض) اجمعین حضرت علی (رض) اور سعد (رض) سے جو ایسے اقوال منقول ہیں ان کا یہی مطلب ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا۝ ١٠٣ۭ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٣۔ ١٠٤) اے نبی کریم آپ ان سے فرمائیے کہ کیا ہم آپ کو ایسے لوگوں کے بارے میں بتائیں جو آخرت میں خسارہ میں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں تمام محنت سب اکارت گئی، جیسا کہ خوارج اور گرجاؤں والے اسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا) یہ ہے وہ مضمون جسے ابتدا میں اس سورت کا عمود قرار دیا گیا تھا یعنی دنیا اور اس کی زیب وزینت ! اس مضمون کے سائبان کا ایک کھونٹا سورت کے آغاز میں نصب ہے جبکہ دوسرا کھونٹا یہاں ان آیات کی صورت میں۔ ابتدائی آیات میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ دنیا کی زیب وزینت اور رونقوں پر مشتمل یہ خوبصورت محفل سجائی ہی انسانوں کی آزمائش کے لیے گئی ہے۔ اس کے ذریعے سے انسانوں کے رویوں کی پرکھ پڑتال کرنا اور ان کی جدو جہد کی غرض وغایت کا تعین کرنا مقصود ہے : (اِنَّاجَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) ۔ اب یہاں آیت زیر نظر میں ان لوگوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے جو اپنے اعمال اپنی محنت و مشقت بھاگ دوڑ اور سعی وجہد میں سب سے زیادہ گھاٹا کھانے والے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر دنیا کی زیب وزینت ہی میں کھو گئے ہیں۔ جہاں تک محنت اور مشقت کا تعلق ہے وہ تو ہر شخص کرتا ہے۔ جیسے حضور نے فرمایا : (کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَاءِعٌ نَفْسَہٗ ‘ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا) ” ہر انسان جب صبح کرتا ہے تو خود کو بیچنا شروع کرتا ہے پھر یا تو وہ اسے آزاد کرا لیتا ہے یا (گناہوں سے) ہلاک کردیتا ہے “۔ چناچہ ہر کوئی اپنے آپ کو بیچتا ہے۔ کوئی اپنی طاقت اور قوت بیچتا ہے کوئی اپنی ذہانت اور صلاحیت بیچتا ہے اور کوئی اپنا وقت اور ہنر بیچتا ہے۔ گویا یہ دنیا محنت عمل اور کوشش کی دوڑ کا میدان ہے اور ہر انسان اپنے مفاد کے لیے بقدر ہمت اس دوڑ میں شامل ہے۔ مگر بدقسمتی سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی پوری کوشش اور محنت کے باوجود گھاٹے میں رہتے ہیں۔ ان کے لیے خود کو بیچنے کے اس عمل میں کچھ بھی نفع نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے خسارا ہی خسارا ہے۔ تو اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے یہ کون لوگ ہیں ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٣۔ ١٠٧ حضرت علی (رض) سے مستدرک حاکم اور تفسیر ابن مردویہ وغیرہ میں یہ جو روایت ہے کہ یہ آیت خارجی لوگوں کی شان میں ہے یا حضرت سعد بن ابی وقاص سے صحیح بخاری اور نسائی میں یہ جو روایت ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری کی شان میں ہے ان روایتوں کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خارجیوں یا یہودو نصاری کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو نہ یہود و نصاری سے آپ کو کچھ واسطہ تھا نہ قرآن شریف یہود و نصاری کی شان میں نازل ہوتا تھا یہودو نصاری سے جو کچھ واسطہ آپ کو پیدا ہوا ہے وہ آپ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد پیدا ہوا ہے اور خارجی لوگ تو آنحضرت کے بعد حضرت علی (رض) کی خلافت کے زمانہ میں ظاہر ہوئے ہیں اس لیے حضرت علی (رض) اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ آیت مکی ہے اور کفار مکہ کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن مضمون آیت کا ایسا عام ہے کہ توراۃ اور انجیل کی مخالفت کے سبب سے یہود اور نصاری پر اور قرآن شریف کی مخالفت کر کے صاحب کبیرہ گناہ کو کافر بتلانے سے خارجیوں پر سب پر آیت کا مضمون صادق آتا ہے۔ حضرت علی (رض) اور سعد بن ابی وقاص کے اس قول کی تائید میں حضرت ثوبان (رض) کی وہ صحیح حدیث ہے جس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ١ ؎۔ حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بعضے لوگ میری امت کے قیامت کے روز پہاڑ کے برابر نیک عمل رکھتے ہوں گے مگر ان کے سب عمل اللہ تعالیٰ ایسے اکارت کر دے گا جیسے ہوا میں ریت اڑ جاتی ہے حضرت ثوبان (رض) نے عرض کیا کہ ایسے لوگوں کی کچھ نشانی تو فرمائیے ایسا نہ ہو کہ انجانی میں ہم لوگوں میں بھی ان کی سی عادتیں پیدا ہوجاویں آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ بھی تمہارے بھائی مسلمان ہوں گے مگر گناہوں سے بچنے کی ان کو پرواہ نہ ہوگی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آیت میں نیک عمل کا اکارت ہونے کا جو ذکر ہے وہ نہ مشرکین کے ساتھ مخصوص ہے نہ یہود و نصاری وخارجیوں کے ساتھ بلکہ جو عمل اللہ کی مرضی کے مخالف ہوں گے خواہ کسی فرقہ کے ہوں ان کو اللہ تعالیٰ اکارت کرے گا اور عمل کے مرضی الٰہی کے موافق نہ ہونے کی یہی صورتیں ہیں کہ خرابی عقیدہ کے سبب سے یا تو عمل اصول شرعیہ کے موافق نہ ہوں جس طرح اہل کفر اہل نفاق اہل بدعت کے عمل یا وہ عمل اصول شرع کے موافق تو ہوں لیکن خاص اللہ کے واسطے نہ ہوں جس طرح ریا کاروں کے عمل یہ سب عمل آیت کے حکم میں داخل ہیں۔ چناچہ اور حدیثوں میں بھی اہل بدعت اور ریا کاروں کے عمل نیک کے اکارت ہونے کی صراحت صاف لفظوں میں آئی ہے۔ چناچہ معتبر سند سے مسند امام احمد بن حنبل (رح) میں محمود بن لبید سے اور صحیح ابن حبان میں سعید بن فضالہ سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قیامت کے روز سب لوگ جمع ہوں گے تو حساب کتاب سے پہلے ہی ایک فرشتہ پکارے گا کہ جس کسی نے دنیا کے دکھاوے کے لیے کوئی نیک کام کیا ہے اس کے ثواب کی امید خدا کی درگاہ سے بےسود ہے۔ ایسے نیک کام کا اجر اس سے مانگنا چاہیے جس کے دکھانے کو وہ نیک کام کیا گیا ہے ٢ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا اس کا حاصل یہ چاہئے کہ جو نیک عمل شرعی حکم کے موافق نہ ہوگا وہ اکارت ہے ٣ ؎۔ ان روایتوں سے ثوبان (رض) کی روایت کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ ثوبان (رض) کی روایت میں ان لوگوں کے نیک عملوں کے رائیگاں ہوجانے کا ذکر ہے جو لوگ گناہوں سے بچنے کی پرواہ نہیں کرتے اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ جو لوگ عام گناہوں سے بچنے کی پروانہ کریں گے وہ ریا کاری اور بدعت سے بچنے کی کیا پروا کرسکتے ہیں۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ اٹکل کے طور پر اپنے طریقہ کو اچھا جان کر اے رسول اللہ کے تم سے طرح طرح کی جھگڑے کی باتیں جو نکالتے ہیں اور یہود سے پوچھ پوچھ کر تم سے طرح طرح کی باتوں کے سوالات کرتے ہیں اور عقبیٰ کی جزا و سزا کے انکار کے سبب سے ان نیک عملوں کو رائیگاں گنتے ہیں جو عمل عقبیٰ کے اجر کی نیت سے کیے جاتے ہیں تو اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ جن لوگوں کے نیک عمل اکارت ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے سارے کاموں کا دارو مدار دنیا کی زندگی پر ہے اور اسی کو وہ اچھا جان کر عقبیٰ کی سزا و جزا کی قرآن کی آیتوں کو مسخراپن میں اڑاتے ہیں اور قرآن کی آیتوں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت کے نہ ماننے پر ہر وقت کمر باندھے رہتے ہیں ایسے عقبیٰ کی جزا کے منکر لوگ اگر کوئی نیک کام کرتے بھی ہیں تو دنیا کی نمود کے طور پر کرتے ہی اس واسطے ایسے لوگوں کے نیک عملوں کا جو بدلہ ہے وہ ان کو دنیا ہی میں مل جاتا ہے کہ ان کی دنیا اچھی کٹتی ہے اور آخرت کے اجر حساب سے ان کے عمل رائیگاں ہیں اس لیے قیامت کے دن ان کے عملوں کے تولنے کے لیے ترازو بھی نہ کھڑی کی جائے گی کیونکہ ترازو تو ایسے لوگوں کے عملوں کے تولنے کے لیے کھڑی کی جائے گی جن کی نیکی کے پلہ میں چڑہانے کے لیے کچھ نیک عمل بھی ہوں گے جن کے نیک عملوں کا بدلہ دنیا کی زندگی میں مل گیا اور قیامت کے دن کے لیے ان کا کوئی نیک عمل باقی نہیں رہا ان کے عملوں کے لیے ترازو کیا کھڑی کی جاسکتی ہے اگر ہوگا تو بعضے سلف کے قول کے موافق اتنا ہی ہوگا کہ ایسے لوگوں کے قائل کرنے کے لیے ہڈی کے پلڑے میں ان کے بداعمال رکھے جاکر نیکی کا خالی پلڑا ان کو دکھا دیا جائے گا غرض کہ ایسے لوگوں کے نیک عمل عقبیٰ کے اجر کے حساب سے اکارت ہو کر فقط بدعمل باقی رہ جائیں گے جن کی سزا بھگتنے کے لیے ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ صحیح مسلم میں انس بن مالک سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حشر کے منکر لوگ جو دنیا میں کچھ نیک عمل کرتے ہیں تو اس کا بدلہ ان کو یہیں دنیا میں مل جاتا ہے عقبیٰ کے اجر کے لیے ان کا نیک عمل نہیں رکھا جاتا۔ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ عملوں کے تولے جانے کے بعد جن کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جنتی قرار پائیں گے اور جن کا بدعملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ دوزخ میں جاویں گے اور جن کے نیک عمل اور بدعمل برابر ہوں گے ان کو جنتیوں اور دوزخیوں کے فیصلہ آخر تک جنت اور دوزخ کے درمیان کی دیوار پر کھڑا کردیا جائے گا پھر آخر کو یہ لوگ بھی جنت میں چلے جائیں گے حاصل کلام یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہاں ذکر ہے۔ انس بن مالک کی حدیث کے موافق ان کا کوئی نیک عمل عقبیٰ کے اجر کے لیے باقی نہ رہے گا اس لیے سورة الاعراف کی آیتوں کے موافق یہ لوگ دوزخی قرار پائیں گے۔ ١ ؎ سنن ابن ماجہ باب ذکر الذنوب (کتاب الزہد) ٢ ؎ تفسیر ہذاص ٨٢ ج ٣ و تفسیر ابن کثیرص ١٠٩ ج ٣ ٣ ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب السنتہ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:103) اخسرین اعمالا۔ اخسرین۔ افعل التفضیل کا صیغہ بحالت جر۔ اخسر کی جمع خسران وخسارۃ مصدر۔ زیادہ نقصان میں رہنے والے۔ زیادہ گھاٹا پانے والے۔ اعمالا منصوب بوجہ تمیز کے ۔ بلحاظ عمل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کے اعمال کی دنیا اور آخرت میں حیثیت۔ اللہ تعالیٰ کو مشرکین کے ساتھ اس قدر نفرت ہے کہ انھیں براہ راست مخاطب کرنے کی بجائے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ استفسار کرنے کی صورت میں انہیں بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے بندوں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھنے والو ! کیا میں تمہیں یہ نہ بتلاؤں کہ فکر و عمل کے اعتبار سے کون لوگ سب سے زیادہ نقصان پانے والے ہیں۔ ہاں یہ وہی لوگ ہیں جن کے دنیا اور آخرت میں تمام اعمال ضائع ہوئے حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے نیکی کے کام کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جو ہمیں اچھی شہرت اور مال و اسباب دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو کافر، مشرک، حرام خو اور باغی انسان اپنی زبان سے اکثر کہتے ہیں کہ ہم پر اللہ کا بڑا ہی فضل و کرم ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ فراوانی اس لیے عنایت کی ہوتی ہے تاکہ یہ لوگ کھل کر برے اعمال کرسکیں۔ دنیا میں ان کے اعمال ضائع ہونے کا یہ بھی ایک مفہوم ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، مشرک کو ان کے اچھے اعمال کا قیامت کے دن کوئی صلہ نہیں ملے گا کیونکہ ان کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں تھا۔ جس طرح دنیا کی ہر چیز بالآخر فنا ہوجائے گی اسی طرح ہی ان کے اعمال اس دنیا میں ہی مٹ جائیں گے۔ یعنی ان کا نیکی کے حوالے سے ذکر خیر کرنے والا کوئی نہیں ہوگا یہی وجہ ہے کہ جن غیر مسلموں نے کار خیر کے جو کام کیے ان کا ذکر نیکی کے طور پر نہیں بلکہ محض یاد گار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بظاہر نیکی کے کام کرتے ہیں لیکن ان کے اعمال سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں بتلایا گیا ہے۔ (عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ۔ تَصْلَی نَارًا حَامِیَۃً )[ الغاشیہ : ٣۔ ٤] ” سخت محنت کرنے والے تھکے ہوں گے۔ لیکن دہکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابن جدعان زمانہء جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اس کو اس کے اعمال کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں، کیونکہ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطائیں معاف کرنا۔ “ گویا کہ وہ آخرت کا منکر تھا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَےْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ) [ رواہ مسلم : باب نَقْضِ الأَحْکَامِ الْبَاطِلَۃِ وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہمارے دین میں نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ ردّ کردی جائے گی۔ “ (عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ لاَ یَقْبَلُ اللَّہُ لِصَاحِبِ بِدْعَۃٍ صَوْمًا وَلاَ صَلاَۃً وَلاَ صَدَقَۃً وَلاَ حَجًّا وَلاَ عُمْرَۃً وَلاَ جِہَادًا وَلاَ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً یَخْرُجُ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَۃُ مِنَ الْعَجِینِ ) [ رواہ ابن ماجہ : باب اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ ] ” حضرت حذیفۃ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، حج، عمرہ، جہاد، اور کوئی چھوٹی بڑی نیکی قبول نہیں کرتا ایسا شخص اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ بعض لوگوں کے دنیا اور آخرت میں اعمال ضائع کردیے جاتے ہیں۔ ٢۔ جن کے دنیا اور آخرت میں اعمال ضائع ہوئے وہ بڑا ہی نقصان پائیں گے۔ ٣۔ بد قسمت ہے وہ انسان جو برائی کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

88:۔ یہ مشرکین کے انجام بد اور حال شر کا بیان ہے کہ آخرت میں وہ سب سے زیادہ خسارہ اور نقصان میں ہوں گے۔ ان کے تمام اعمال برباد اور رائیگاں ہیں۔ دنیا میں وہ مشرکانہ اعمال بجالاتے ہیں۔ غیر اللہ کو متصرف و کارساز سمجھ کر غائبانہ حاجات میں پکارتے اور ان کے نام کی نذریں نیازیں دیتے ہیں۔ اور ان تمام اعمال و افعال کو عین کار ہائے ثواب اور اعمال صالحہ سمجھتے ہیں۔ ” اولئک الذین کفروا الخ “ یہ لوگ چونکہ اللہ تعالیٰ کی آیت توحید اور قیامت کے منکر ہیں۔ اس لیے ان کے تمام اعمال ضائع اور بےفائدہ ہیں۔ اور آخرت میں ان کے اعمال کو تولا تک نہیں جائے گا۔ کیونکہ وزن سے نیکیوں اور برائیوں کا اندازہ کرنا مقصود ہوگا۔ اور مشرکین کے پہلے نیکی تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان کی تمام عبادتیں، ان کی نمازیں، روزے اور حج اور دیگر اعمال صالحہ تو شرک کی وجہ سے دنیا ہی میں ضائع ہوچکے ہیں۔ لان المیزان انما یوضع لاھل الحسنات و السیئات من الموحدین لتمییرز مقدار الطاعات ومقدار السیات (کبیر ج 5 ص 760) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

103 آپ ان سے فرمائے کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو با اعتبار اعمال کے سخت نقصان اور خسارے میں ہوں گے۔ یعنی جن کے تمام اعمال اکارت ہوجائیں گے اور اعمال کے اعتبار سے گھاٹے ہی گھاٹے میں رہیں گے۔