The Greatest Losers in respect of (Their) Deeds
Al-Bukhari recorded from Amr that Mus`ab who said:
"I asked my father -- meaning Sa`d bin Abi Waqqas -- about Allah's saying,
قُلْ هَلْ نُنَبِّيُكُمْ بِالاَْخْسَرِينَ أَعْمَالاً
Say: "Shall We tell you the greatest losers in respect of (their) deeds!"
`Are they the Haruriyyah?'
He said, `No, they are the Jews and Christians.
As for the Jews, they disbelieved in Muhammad, and
as for the Christians, they disbelieved in Paradise and said that there is no food or drink there, and
the Haruriyyah are those who break Allah's covenant after ratifying it.'
Sa`d used to call them Al-Fasiqin (the corrupt).
Ali bin Abi Talib, Ad-Dahhak and others said:
"They are the Haruriyyah,"
so this means, that according to Ali, may Allah be pleased with him, this Ayah includes the Haruriyyah just as it includes the Jews, the Christians and others.
This does not mean that the Ayah was revealed concerning any of these groups in particular; it is more general than that, because the Ayah was revealed in Makkah, before the Qur'an addressed the Jews and Christians, and before the Khawarij existed at all.
So the Ayah is general and refers to everyone who worships Allah in a way that is not acceptable, thinking that he is right in doing that and that his deeds will be accepted, but he is mistaken and his deeds will be rejected, as Allah says:
وُجُوهٌ يَوْمَيِذٍ خَـشِعَةٌ
عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ
تَصْلَى نَاراً حَامِيَةً
Some faces, that Day will be humiliated. Laboring, weary. They will enter in the hot blazing Fire. (88:2-4)
وَقَدِمْنَأ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَأءً مَّنثُوراً
And We shall turn to whatever deeds they did, and We shall make such deeds as scattered floating particles of dust. (25:23)
وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْأنُ مَأءً حَتَّى إِذَا جَأءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْياً
As for those who disbelieved, their deeds are like a mirage in a desert. The thirsty one thinks it to be water, until he comes up to it, he finds it to be nothing. (24:39)
And in this Ayah Allah says:
قُلْ هَلْ نُنَبِّيُكُمْ
...
Say: "Shall We tell you..."
meaning, `Shall We inform you;'
...
بِالاْاَخْسَرِينَ أَعْمَالاًا
the greatest losers in respect of (their) deeds.
Then Allah explains who they are, and says:
عبادت واطاعت کا طریقہ ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے صاحبزادے مصعب نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہودونصاری ہیں ۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں ۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا ۔ پس حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ خارجیوں کو فاسق کہتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود ونصاری وغیرہ کفار کو شامل ہے ، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے جو بھی اللہ کی عبادت واطاعت اس طریقے سے بجالائے جوطریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہے کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے میرے نیک اعمال اللہ کے پسند یدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکے میں یہود ونصاری مخاطب نہ تھے ۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا ۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں ۔ جیسے سورہ غاشیہ میں ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا 23 ) 25- الفرقان:23 ) ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بیکار ردی کر دیا ۔ اور آیت میں ہے کافروں کی اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند پانی کی نہیں پاتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کے پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں ، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں اس لئے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہوگئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مبغوض ہوگئے ۔ اس لئے وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور مانے ہی نہیں ۔ ان کا نیکی کا پلڑا باکل خالی رہے گا ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کر لو ( فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥ ) 18- الكهف:105 ) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہوگا ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو آپ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہوگا ۔ مرفوع حدیث کی طرح حضرت کعب کا قول بھی مروی ہے ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا ، اللہ کی آیتوں کا اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا ۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا ۔