Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 108

سورة الكهف

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا لَا یَبۡغُوۡنَ عَنۡہَا حِوَلًا ﴿۱۰۸﴾

Wherein they abide eternally. They will not desire from it any transfer.

جہاں وہ ہمیشہ رہا کریں گے جس جگہ کو بدلنے کا کبھی بھی ان کا ارادہ ہی نہ ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خَالِدِينَ فِيهَا ... Wherein they shall dwell (forever). means, they will stay there and never leave. ... لاَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلاًا No desire will they have for removal therefrom. means, they will never choose or want anything else. This Ayah tells us how much they love and desire it, even though one might imagine that a person who is to stay in one place forever would get tired and bored of it. But Allah tells us that despite this eternal stay, they will never choose to change or move from where they are.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 یعنی اہل جنت، جنت اور اس کی نعمتوں سے کبھی نہ اکتائیں گے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] یعنی رہائش کے لحاظ سے جنت الفردوس اتنی پسند آئے گی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونا قطعاً گوارا نہ کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا : ایک جگہ زیادہ دیر رہنے سے آدمی اکتا جاتا ہے، مگر جنتی جنت سے کبھی دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں چاہیں گے، کیونکہ اس سے بہتر عیش کی کوئی جگہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَۭ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ ) [ حٰآ السجدۃ : ٣١، ٣٢ ] ” اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمہارے دل چاہیں گے اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ یہ بیحد بخشنے والے، نہایت مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔ “ اور حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيْ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ) [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ۔۔ : ٣٢٤٤۔ مسلم : ٢٨٢٤ ] ” میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کیا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ “ اور ان سب نعمتوں سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگی، پھر جنت کی نعمتیں ہر آن نئی سے نئی ہوتی رہیں گی، نہ ختم ہوں گی نہ کہیں رکیں گی، کیونکہ وہ اللہ کے کلمۂ کن سے وجود میں آئیں گی اور اللہ کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں، دیکھیے اس سے اگلی آیت۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The purpose of the last sentence: لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا (and will not wish to move from there - 108) is to tell that this station of Jannah is a never-end¬ing, ever-lasting blessing for them. The reason is that Allah Ta’ ala has promulgated His command to the effect that whoever has entered Jan¬nah will never be expelled from there. But, there was the possibility of some doubt crossing someone&s heart, for human beings naturally get fed up by living at one place. They wish to move out and go to other places. Now, if they were not allowed to go elsewhere out of Jannah, they might start feeling the pinch of a sort of restriction. This was answered in the verse by saying that taking Jannah on the analogy of other places is rank ignorance. Once a person goes into the Jannah, everything he saw and lived within the mortal world would find all that trifling in the pres¬ence of the bliss and beauty of Jannah and - so blessed in that manner - no one would ever even think of going out of here.

(آیت) لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا مقصد یہ بتلانا ہے کہ جنت کا یہ مقام ان کے لئے لازوال دائمی نعمت ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے یہ حکم جاری فرما دیا ہے کہ جو شخص جنت میں داخل ہوگیا وہ وہاں سے کبھی نکالا نہ جائے گا مگر یہاں ایک خطرہ کسی کے دل میں یہ گذر سکتا تھا کہ انسان کی فطری عادت یہ ہے کہ ایک جگہ رہتے رہتے اکتا جاتا ہے وہاں سے باہر دوسرے مقامات پر جانے کی خواہش ہوتی ہے اگر جنت سے باہر کہیں جانے کی اجازت نہ ہوتی تو ایک قید محسوس ہونے لگے گی اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا کہ جنت کو دوسرے مقامات پر قیاس کرنا جہالت ہے جو شخص جنت میں چلا گیا پھر جو کچھ دنیا میں دیکھا اور برتا تھا جنت کی نعمتوں اور دل کش فضاؤں کے سامنے اس کو وہ سب چیزیں لغو معلوم ہوں گی اور یہاں سے کہیں باہر جانے کا کبھی کسی کے دل میں خیال بھی نہ آئے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خٰلِدِيْنَ فِيْہَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا۝ ١٠٨ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہا ات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (خٰلِدِيْنَ فِيْهَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا) یعنی جنت ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں رہتے رہتے کسی کا جی اکتا جائے۔ دنیا میں انسان ہر وقت تغیر و تبدیلی کا خواہاں ہے۔ تبدیلی کی اسی خواہش کے تحت بری سے بری جگہ پر بھی کچھ دیر کے لیے انسان کا دل بہل جاتا ہے جبکہ اچھی سے اچھی جگہ پر بھی مستقل طور پر رہنا پڑے تو بہت جلد اسے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم کشمیر اور سوئزر لینڈ کو ” فردوس بر روئے زمین “ گمان کرتے ہیں لیکن وہاں کے رہنے والے وہاں کی زمینی و آسمانی آفات سے تنگ ہیں۔ اہل جنت مستقل طور پر ایک ہی جگہ رہنے کے باعث اکتائیں گے نہیں اور وہاں سے جگہ بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔ اب اس سورت کی آخری دو آیات آرہی ہیں جو گویا توحید کے دو بہت بڑے خزانے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. “No desire will they have to be removed there from” because they will find no place and no condition better than those in Paradise.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :79 یعنی اس حالت سے بہتر اور کوئی حالت ہوگی ہی نہیں کہ جنت کی زندگی کو اس سے بدل لینے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی خواہش پیدا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٨۔ اوپر ذکر تھا کہ عقبیٰ کے اجر کے حساب سے منکرین حشر کے سارے نیک عمل اس واسطے اکارت ہیں کہ یہ لوگ حشر اور اس دن کی سزا و جزا کے قائل نہیں ریا کاروں اور بددعا کے اس قدر نیک عمل اکارت ہیں جن میں ریا کاری اور بدعت کا دخل ہے کیونکہ ریا کاری کے نیک عمل دنیا کے دکھاوے کے لیے کیے ہیں اور بدعت کے دخل کے عمل شریعت کے حکم کے موافق نہیں ہیں ان آیتوں میں فرمایا جن لوگوں کے نیک عملوں کے بدلہ میں جنت الفردوس دی جائے گی وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور اللہ کے رسول کے سچے ہونے کے یقین دل میں رکھتے ہیں اور زبان سے اس کا اقرار اور اس یقین اور اقرار کے موافق ہاتھ پیروں سے نیک عمل بھی کرتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فردوس اعلی درجہ کی جنت ہے ١ ؎ اس میں سے جنت کی نہریں نکلی ہیں اور اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جب تم جنت کے ملنے کی دعا اللہ تعالیٰ سے کیا کرو تو اسی جنت کی دعا مانگا کرو جنت کی نہریں دودھ شہد شراب اور پانی کی ہیں جن کا ذکر سورة محمد میں آئے گا۔ ترمذی میں معاذ بن جبل (رض) کی صحیح روایت ہے کہ جنت کے سو درجہ ہیں جن میں فردوس اعلیٰ درجہ کی جنت ہے ٢ ؎۔ ان روایتوں سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ فردوس اعلیٰ درجہ کی جنت ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیک لوگوں کے لیے میں نے جنت میں وہ نعمتیں پیدا کی ہیں جو کسی نے نہ آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنین نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ٣ ؎۔ ان آیتوں میں یہ جو فرمایا کہ جنتی لوگ جنت میں ہمیشہ اس طرح رہیں گے کہ وہاں کے رہنے سے اکتا کر کسی دوسری جگہ چلے جانے کو ان کا دل نہ چاہے گا اس کا مطلب اس حدیث قدسی سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جنت کی نعمتوں کے سبب سے کسی کا دل اس کو چھوڑنے کو نہ چاہے گا۔ ١ ؎ تفسیر الدر المنثورص ٢٥٤ ج ٤ ٢ ؎ جامع ترمذی ص ٧٦ باب جاء فی درجات الجنۃ ٣ ؎ تفسر ہذاص ١٢ ج ٣

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:108) لا یبغون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ وہ نہیں چاہیں گے۔ بغیمصدر۔ بغی یبغی (ضرب) بغی۔ حولا۔ اس کا مادہ حول ہے۔ حال یحول حول حوول (نصر) بمعنی کسی چیز کا متغیر ہونا حول یحول تحویل (تفعیل) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا۔ تحول یتحول تحول (تفعیل) پھرنا۔ یہاں حول بمعنی تحولآیا ہے۔ یعنی پھرنا۔ لا یبغون عنھا حولا۔ وہاں سے وہ مکان بدلنا نہ چاہیں گے۔ حولامصدر۔ جگہ بدلنی۔ تبدیلی۔ پلٹنا۔ حولبمعنی سال۔ حال (انسان وغیرہ کی وہ حالت جو نفس۔ جسم اور مال کے اعتبار سے بدلتی رہے) اسی مادہ سے مشتق ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 کیونکہ اس سے بہتر یش کا مقام کوئی نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لایبغون عنھا حولاً (٨١ : ٨٠١) ” کہ کبھی اس جگہ سے نکل جانے کو ان کا جی نہ چاہے گا۔ “ اس انسانی نفسیاتی اشارے میں جو گہرائی ہے ، اس پر ہمیں چاہئے کہ قدرے غور کریں۔ یہ لوگ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے لیکن نفس انسانی ہمیشہ تغیر طلب ہے۔ کسی کام کا تسلسل اسے ملول کردیتا ہے۔ کسی ایک جگہ ہمیشہ رہتے رہتے اور کسی ایک ہی حالت میں ہوتے ہوئے وہ تنگ آجاتا ہے اور جب انسانی نعمتوں میں ڈوبا ہوتا ہے اور اسے یہ خطرہ نہیں رہتا کہ اس نعمت کا زوال بھی ہوگا تو اس کے دل میں کوئی حرص اور لالچ نہیں رہتی اور جب انسان ایک ہی ڈگر پر چلتا رہتا ہے تو وہ اکتا جاتا ہے بلکہ یہ اکتاہٹ دل کی تنگی میں بدل جاتی ہے اور انسان پھر چاہتا ہے کہ اس سے کسی طرح جان چھوٹ جائے۔ ذائقہ بدل جائے۔ یہ ایک حکمت ہے ، نہایت ہی گہری حکمت ، جس پر اللہ نے انسان کی جبلت تیار کی ہے اور یہ گہری فطرت وجبلت اللہ نے انسان کے اندر اس لئے پیدا کی ہے کہ یہ انسان کے فریضہ خلافت ارضی کی انجام دہی کے لئے لابدی تھی۔ اس سلسلے میں انسان کو جو کردار سپرد کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہر وقت زندگی کے شب و روز کو بدلتا رہے اور بہتر سے بہتر بنا کر اسے ترقی دیتا رہے۔ یہاں تک کہ وہ اس معیار پہ پنچ جائے جو تقدیر الٰہی میں مقدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان فطرتاً تغیر پسند ہے۔ وہ نئے نئے انکشافات اور نئی نئی اطلاعات کا دلدادہ ہے۔ ہر حال سے دوسرے حال میں داخل ہونا چاہئے ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اس کا من پسند مشغلہ ہے۔ ایک منظر سے دوسرے منظر ایک نظام سے دوسرا نظام وغیرہ تاکہ انسان یہ سفر کرتے کرتے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے زندگی کے اندر حقیقی تبدیلی لاتا رہے اور زمین کے اندر پوشیدہ رازوں تک آئے دن پہنچتا رہے۔ زمین کی مادی شکل اور نظام کی نئی نئی شکلیں وضع کرے۔ انکشافات ان ایجادات اور علم کی اس ترقی کے نتیجے میں زندگی بھی بدلتی رہے اور یوں آہستہ آہستہ یہ اس کمال تک پہنچ جائے جو اللہ نے اس کے لئے مقدر کیا ہوا ہے۔ اور پھر فطرت کا ایک دوسرا رنگ بھی ہے۔ ہم بعض اوقات قدیم سے بھی محبت کرتے ہیں۔ پرانی روایات کو بھی سینے سے لگاتے ہیں۔ بعض اوقات اپنی عادت کو بدلنا بھی نہیں چاہتے جبکہ ہماری یہ عادات بعض اوقات ہمیں جامد بھی بنا دیتی ہیں۔ شوق تغیر کے ساتھ ساتھ عادات و تقالید کا یہ جمود دراصل جوش تغیر کے اندر ایک توازن پیدا کردیتا ہے۔ جب بھی یہ توازن ختم ہوتا ہے تو جمود ڈیرے ڈال دیتا ہے۔ جب جمود حد سے بڑھتا ہے تو ردعمل میں انقلاب آتا ہے اور یہ انقلاب زنگدی کی گاڑی کو کبھی کبھار اس قدر تیز کردیتا ہے کہ توازن قائم نہیں رہتا۔ انسانی زندگی کا بہترین دور وہ ہوتا ہے کہ جب تغیر و ثبات اور ترقی اور جمود اور حرکت و قیام کی قوتوں کے درمیان توازن ہو۔ یاد رکھئے کہ جب کسی سوسائٹی پر جمود طاری ہوجاتا ہے تو زنگدی کی وہ قوتیں جو اسے آگے بڑھانے والی ہوتی ہیں وہ محدود ہو کر رہ جاتی ہیں اور سوسائٹی پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس کے افراد بھی مردہ تصور ہوتے ہیں۔ یہ ہے انسانی فطرت جس کو اس کے فریضہ خلافت ارضی کے لئے موزوں بنایا گیا ہے۔ رہی جنت تو وہ ترقی کا منتہائے کمال ہے۔ وہاں تغیر کی تو ضرورت نہ ہوگی ، بلکہ اس سے اونچا کوئی معیار ہی نہیں ہے۔ اس سے آگے کوئی منزل نہیں ہے۔ اگر وہاں بھی انسان کو زمین کی فطرت پر قائم رکھا گیا اور صورت یہ ہوگئی کہ جنت تو نعیم مقیم ہے ، اس کے ختم ہونے کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ وہاں تغیر کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی واقعہ نہ ہوگی اور حالات جوں کے توں رہیں گے جبکہ انسان جنت میں بھی سیماب فطرت ہے تو پھر یہ جنت اس کے لئے جہنم بن جائے گی۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد یہ انسان اکتا جائے گا بلکہ جنت کو قید خانہ سمجھے گا اور یہ انسان کوشش کرے گا کہ اسے اس جنت کو چھوڑنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ وہ ایک تھوڑے عرصے کے لئے باہر جانا چاہتا ہے اگرچہ باہر جہنم ہی کیوں نہ ہوتا کہ وہ اپنے جذبہ تغیر اور تبدیلی کو تسکین دے سکے۔ لیکن جس انسان کو اللہ نے اس جہان میں پیدا کر کے بھیجا ہے وہ اس کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ وہ وہاں انسان کے ان دنیاوی جذبات کو بدل دے گا۔ انسان وہاں تغیر اور تبدیلی کی چاہت ہی نہ رکھے گا۔ یہ اس لئے کہ وہاں انسانی فطرت حالات خلود کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے گی کیونکہ اس نے وہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ اب ذرا انسانی شعور و آگاہی کی تاروں پر ایک دوسری ضرب لگائی جاتی ہے۔ اس سے انسانی شعور کو یہ آگاہی دینا مقصود ہے کہ انسانی علم محدود ہے۔ اس کی فہم و ادراک کی قوت اور دائرہ محدود ہے۔ لیکن اس معنوی مفہوم کو قرآن کریم نہایت ہی محسوس اور عام فہم انداز میں پیش کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلًا) اہل ایمان و اعمال صالحہ والے مذکورہ جنتوں میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے وہاں سے کہیں جانا نہ چاہیں گے کیونکہ اس سے بہتر کہیں بھی کوئی جگہ کبھی بھی نہ ہوگی۔ اور وہاں سے نکالے بھی نہ جائیں گے۔ سورة حجر میں فرمایا ہے۔ (لَا یَمَسُّھُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّ مَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ ) (نہ انہیں وہاں کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

108 وہ حضرات ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی خواہش نہ کریں گے۔ مطلب یہ ہے کہ بہشت کے باغوں میں ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے اکتا کر کسی دوسری جگہ جانے اور منتقل ہونے کی خواہش اور آرزو نہ کریں گے۔