Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 19

سورة الكهف

وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالُوۡا رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ؕ فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمۡ ہٰذِہٖۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ فَلۡیَنۡظُرۡ اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ وَ لۡـیَؔ‍‍‍تَلَطَّفۡ وَ لَا یُشۡعِرَنَّ بِکُمۡ اَحَدًا ﴿۱۹﴾

And similarly, We awakened them that they might question one another. Said a speaker from among them, "How long have you remained [here]?" They said, "We have remained a day or part of a day." They said, "Your Lord is most knowing of how long you remained. So send one of you with this silver coin of yours to the city and let him look to which is the best of food and bring you provision from it and let him be cautious. And let no one be aware of you.

اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں ۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم کہنے لگے کہ تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالٰی ہی کو ہے ۔ اب توتم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کونسا کھانا پاکیزہ تر ہے پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لئے لے آئے ، اور وہ بہت احتیاط اور نرمی برتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Their awakening and sending One of Themselves to buy Food Allah says: وَكَذَلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءلُوا بَيْنَهُمْ قَالَ قَايِلٌ مِّنْهُمْ ... Likewise, We woke them that they might question one another. A speaker among them said: Allah says: `just as We caused them to sleep, We resurrected them with their bodies, hair and skin intact, and nothing lacking in their form and appearance.' This was after three hundred and nine years. This is why they asked each other, ... كَمْ لَبِثْتُمْ ... How long have you stayed (here), meaning, `how long have you slept!' ... قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ... They said: "We have stayed a day or part of a day." because they entered the cave at the beginning of the day, and they woke up at the end of the day, which is why they then said, ... أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ... "...or a part of a day." They said: "Your Lord knows best how long you have stayed..." meaning, `Allah knows best about your situation.' It seems that they were not sure about how long they had slept, and Allah knows best. Then they turned their attention to more pressing matters, like their need for food and drink, so they said: ... فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ ... So send one of you with this silver coin of yours, They had brought with them some Dirhams (silver coins) from their homes, to buy whatever they might need, and they had given some in charity and kept some, so they said: ... فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ ... So send one of you with this silver coin of yours to the town, meaning to their city, which they had left. The definite article indicates that they were referring to a known city. ... فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا ... and let him find out which is the Azka food. Azka means "purest", as Allah says elsewhere, وَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَداً And had it not been for the grace of Allah and His mercy on you, not one of you would ever have been pure (Zaka) from sins. (24:21) and قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى Indeed whosoever purifies himself (Tazakka) shall achieve success. (87:14) From the same root also comes the word Zakah, which makes one's wealth good and purifies it. ... فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ ... and bring some of that to you. ... وَلْيَتَلَطَّفْ ... And let him be careful, meaning when he goes out buying food and coming back. They were telling him to conceal himself as much as he could, ... وَلاَ يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا

موت کے بعد زندگی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا ، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا ۔ تین سو نو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے ۔ جیسے سوتے وقت تھے ، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے ۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے ۔ کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لئے انہیں یہی خیال ہوا ۔ لیکن پھر خود انہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لئے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لئے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی ۔ دام ان کے پاس تھے ۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے ۔ کچھ موجود تھے ۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو ، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت ( وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 21؀ ) 24- النور:21 ) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14۝ۙ ) 87- الأعلى:14 ) وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی ۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لئے کا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کر دیتی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں زکا الزرع اور جیسے شاعر کا قول ہے قبائلنا سبع وانتم ثلاثۃ واسبع ازکی من ثلاث والطیب پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لئے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا ۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہئے ، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کر لے ۔ اگر انہیں علم ہو گیا تو پھر خیر نہیں ۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگہ کی خبر پا گئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کر دیں ۔ اگر تم ان کے دین میں جا ملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہو گئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لئے محال ہو جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے انھیں اپنی قدرت سے سلا دیا تھا، اسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انھیں اٹھا دیا اور اس حال میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے، اسی لئے آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے سوال کیا۔ 19۔ 2 گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا، یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم، دن کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ 19۔ 3 تاہم کثرت نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر معاملہ اللہ کے سپرد کردیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔ 19۔ 4 بیدار ہونے کے بعد، خوراک جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس کا سر و سامان کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ 19۔ 5 احتیاط اور نرمی کی تاکید اسی اندیشے کے پیش نظر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل کر ایک ویرانے میں آئے تھے۔ اسے تاکید کی کہ کہیں اس کے روپے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہوجائے اور کوئی نئی افتاد ہم پر نہ آپڑے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] طویل نیند کے بعد بیداری & کھانے کی فکر اور ایک آدمی کو شہر بھیجنا :۔ جس طرح ہم نے مشکل وقت میں ان پر ایک طویل عرصہ کے لیے نیند طاری کی تھی۔ اسی طرح جب حالات ان کے حق میں ساز گار ہوئے تو انھیں جگا بھی دیا جاگنے پر سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہن میں آیا یہ تھا کہ ہم کتنا عرصہ سوئے رہے انہوں نے اس عرصہ کو عام حالات پر قیاس کیا کہ انسان خواہ کتنا ہی تھکا ماندہ ہو ایک دن سے زیادہ سو نہیں سکتا اور عام حالات میں یہی کوئی آٹھ نو گھنٹے سو لیتا ہے۔ لہذا کسی نے کہا کہ ہم دن بھر سوئے رہے ہیں اور کسی نے کہا اتنا کب سوئے ہیں بس کوئی چند گھنٹے ہی سوئے ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آخر اس بحث کا کوئی فائدہ بھی ہے ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم اس مدت کی صحیح تعیین کرسکیں یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اب جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں بھوک ستا رہی ہے لہذا کھانا لانے کے لیے کسی کو شہربھیجو جو کسی صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنے والے دکاندار سے کھانا لائے اور جو شخص بھی شہر جائے وہ بھیس بدل کر جائے اور اس سکہ کے بدلے جو کچھ بھی مل سکے وہ لے آئے۔ دکاندار سے کچھ جھگڑا نہ کرے نہ کسی دوسرے آدمی سے کوئی بات یا جھگڑا کرے اور اگر اس نے ایسا نرم رویہ اختیار نہ کیا تو ممکن ہے کہ لوگوں کو ہمارا پتہ چل جائے تو وہ ہمارے لیے کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیں گے اور پہلے کی طرح ہمیں بت پرستی پر مجبور کردیں گے یا ہماری جان کے لاگو بن جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ ۔۔ : یعنی جیسے ہم نے انھیں ایک حیرت انگیز طریقے سے غار کے اندر سلایا تھا اسی طرح انھیں اٹھا دیا کہ ان کے جسم صحیح سالم تھے، ان میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی، تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں اور جب انھیں پتا چلے کہ وہ اتنی لمبی مدت سونے کے بعد بیدار ہوئے ہیں تو انھیں ہماری قدرت کا اور مردوں کو زندہ کرنے کا اپنی ذات میں عملی مشاہدہ ہوجائے، ان کا ایمان و یقین مزید مضبوط ہوجائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کریں۔ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۔۔ : حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” معلوم ہوتا ہے کہ وہ غار میں دن کے پہلے پہر داخل ہوئے تھے اور دن کے آخری حصے میں بیدار ہوئے۔ اس لیے اس سوال کے جواب میں کہ تم کتنی مدت یہاں ٹھہرے، کسی نے ایک دن اور کسی نے دن کا کچھ حصہ کہا، مگر جب غار کے اردگرد کا عالم بالکل ہی بدلا ہوا نظر آیا تو کہنے لگے، تمہارا رب زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنی مدت ٹھہرے ہو۔ “ 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ نہ پہلے سوال کرنے والے ولی کو وہاں ٹھہرنے کی مدت کا علم تھا، نہ دوسرے ولیوں کو، جب کہ کئی لوگ اپنے ائمہ اور اولیاء کو ” مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ “ (جو ہوچکا اور جو ہوگا) کا جاننے والا سمجھتے ہیں۔ 3 یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندے بھی بعض اوقات اندازے اور گمان سے کوئی بات کہہ دیتے ہیں، مگر ایسی بات میں وہ اصل علم اللہ کے حوالے کرنے سے غفلت نہیں کرتے۔ ۭ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖٓ ۔۔ : غار میں ٹھہرنے کی مدت پر بحث کے بعد جب وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو انھوں نے اصل مدت کے اندازے کے لیے اپنے کسی ایک ساتھی کو چاندی (کا سکہ) دے کر شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اسے چند باتوں کا خیال رکھنے کی تاکید کی۔ ایک یہ کہ کھانا لاتے وقت یہ دیکھ لے کہ شہر میں سب سے ستھرا کھانا کس کا ہے، اس سے تمہارے لیے کچھ کھانا لے آئے۔ ” اَزْکٰی “ کا معنی سب سے پاکیزہ، سب سے ستھرا ہے، اس میں کھانے کا حلال و طیب ہونا بھی شامل ہے اور سب سے صاف ستھرا ہونا بھی۔ معلوم ہوا کہ یہ نوجوان شہزادے تھے، یا امراء و وزراء کے چشم و چراغ تھے، جو شہر کے سب سے ستھرے ہوٹل سے کم پر راضی نہ تھے۔ دوسری بات یہ کہ نرمی اور باریک بینی کی کوشش کرے، کیونکہ سختی سے کام بگڑ جاتے ہیں اور باریک بینی اختیار نہ کرنے سے راز کھل جاتے ہیں اور مطلوبہ معلومات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ کوشش کا مفہوم ” وَلْيَتَلَطَّفْ “ (باب تفعل) سے ظاہر ہو رہا ہے اور ” لطف “ کے مفہوم میں نرمی اور باریک بینی دونوں شامل ہیں۔ تیسری تاکید یہ کی کہ تمہارے بارے میں کسی کو ہرگز معلوم نہ ہونے دے۔ کیونکہ اگر مشرکین کو تمہارا پتا چل گیا تو وہ تمہیں سنگ سار کردیں گے، یا جبراً تمہیں دوبارہ اپنے مشرکانہ دین میں واپس لے آئیں گے۔ ایسی صورت میں تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے، کیونکہ مشرکوں پر اللہ نے جنت حرام کردی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: کَذٰلِک (kadhalik) in the first sentence is for comparison. The purpose at this place is to describe the mutual likeness of two events. One of these is the event of the long sleep of the People of Kahf for an equally long period of time mentioned in the beginning of the story under the verse: فَضَرَ‌بْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا : |"So, We veiled their hearing (putting them to sleep) in the Cave for a number of years - 11.|" The second event relates to the rising of these people from that long drawn sleep - intact, healthy and fit despite the absence of any energy-giving intake - and becoming wide awake. Both are alike in being signs of the power of Allah Ta` ala. For this reason, when &raising them up& was mentioned in this verse, the word: کَذٰلِک (kadhalik: &And similarly& ) was used to indicate that the way their sleep was not like the habitual sleep of common people, very similarly, their rising too was distinct from natural habit. Then, as for the next statement after that: لِيَتَسَاءَلُوا ، meaning &so that they ask each other [ as to how long the sleep was ],& it is not the reason of &raising them up.& Instead, it is a mention of a usual phenomenon. Therefore, the particle: لام (lam) in: لِيَتَسَاءَلُوا (liyatasa&alu: so that they ask) has been identified as the lam of ` aqibah (consequence) or sairurah (result) meaning that which naturally follows as a sequel. (Abu Hayyan, al-Qurtubi) In short, their long sleep was a Divine sign. Similarly, sitting up all awake after hundreds of years - fit and healthy without usual nourish¬ment - was also another perfect Divine sign. And it was also Divinely in-tended that they too should come to know that they have been sleeping through hundreds of years, therefore, it began with questions asked between each other and ended at the incident mentioned in the next verse: وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْ‌نَا (And in this way We made them known - 21). It means that the people of the city knew their secret and, despite the difference in determining the period of their stay, everyone believed that they had been sleeping in the Cave for a long period of time. Given in: قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ (One of them said - 19) is the detail of what was said briefly at the beginning of the story (12) - that they differed about the period of their stay in the Cave and that one of them did say the right thing. According to this detail, one person from among the People of the Cave ventured to pose the question as to how long did they sleep. Then, came the response from some that said, &a day, or part of a day& - because, these people had entered the Cave in the morning and when they woke up, it was evening. Therefore, they thought, that was the day they had entered the Cave and the duration of their sleep was just about a day. But, some from among these very people realized that, perhaps, this was not the day they had entered the Cave. If so, who knows how many days have gone by? Therefore, they decided to let this particular knowledge about the event rest with Allah. By saying: قَالُوا رَ‌بُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ (Your Lord knows best how long you stayed - 19), they dismissed this debate as unnecessary and turned their attention to the need of the hour, that is, to send a man to the city to bring some food from there. The word: الْمَدِينَةِ (al-madinah) in the phrase: إِلَى الْمَدِينَةِ (ila al-madinah: to the city) proves at least this much that there used to be a big city close to the Cave where they had stayed. In his Tafsir al-Bahr al-Muhit, Abu Hayyan has said that the name of the city at the time the People of Kahf left was Ifsus and now, the name was Tarsus. Al-Qurtubi has said in his Tafsir that during the time idol-worship and ignorance prevailed in this city, its name was Ifsus. But, when the believers of that time, that is, the followers of Sayyidna Masih (علیہ السلام) overtook it, they renamed it as Tarsus. The word: بِوَرِ‌قِكُمْ with this silver [ coin ] of yours - 19) tells us that these good men had also brought some money with them when they came to the Cave. From here we know that the procurement and management of essential expenditures in life is not contrary to the norms of Zuhd (abstention from worldly desires) and Tawakkul (trust in Allah). (Al-Bahr al-Muhit) The word: أَزْكَىٰ (azka) in: أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا (which are the purest - 19) means what is clean and pure. According to the Tafsir of Ibn Jubayr, it denotes Halal food. They were alert to the need for such precaution because at the time they had left the city, people used to slaughter animals in the name of idols and that was what they sold in the market. Therefore, they stressed upon the man going out to bring food only after making sure that it was Halal. Ruling This tells us that eating food in any city, bazaar or hotel, where most of the food available is حرام Haram, is not permissible without prior investiga¬tion.

خلاصہ تفسیر : اور (جس طرح ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کو اتنے زمانہ دراز تک سلایا) اسی طرح (اس طویل نیند کے بعد) ہم نے ان کو جگا دیا تاکہ وہ آپس میں پوچھ پاچھ کریں (تا کہ باہمی سوال و جواب کے بعد ان کو حق تعالیٰ کی قدرت اور حکمت منکشف ہو چنانچہ) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ( اس نیند کی حالت میں) تم کس قدر رہے ہو گے (جواب میں) بعض نے کہا کہ (غالبا) ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم رہے ہوں گے، دوسرے بعض نے کہا کہ (اس کی تفتیش کی کیا ضرورت ہے) یہ تو (ٹھیک ٹھیک ( تمہارے رب ہی کو خبر ہے کہ تم کس قدر (سوتے) رہے اب ( اس فضول بحث کو چھوڑ کر ضروری کام کرنا چاہئے وہ یہ کہ) اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ (جو کہنے والے کے پاس ہوگا، کیونکہ یہ لوگ کچھ خرچ کے لئے رقم بھی لے کر چلے تھے، غرض کہ کسی کو یہ روپیہ) دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر ( وہ وہاں پہنچ کر) تحقیق کرے کہ کونسا کھانا حلال ہے ( اس جگہ لفظ ازکی کی تفسیر بروایت ابن جریر حضرت سعید بن جبیر (رض) سے یہی منقول ہے کہ مراد اس سے حلال کھانا ہے، اور اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان کی قوم بت پرست بکثرت اپنے بتوں کے نام ذبح کیا کرتی تھی اور بازار میں بکثرت یہی حرام گوشت بکتا تھا) تو وہ اس میں سے تمہارے پاس کچھ کھانا لے آوئے اور کام خوش تدبیری سے کرے (کہ ایسی وضع ہیئت سے جاوے کہ کوئی اس کو پہچانے نہیں اور کھانے کی تحقیق کرنے میں بھی یہ ظاہر نہ ہونے دے کہ بت کے نام کے ذبیحہ کو حرام سمجھتا ہے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے (کیونکہ) اگر وہ لوگ (یعنی اہل شہر جن کو اپنے خیال میں اپنے زمانے کے مشرکین سمجھے ہوئے تھے) کہیں تمہاری خبر پاجائیں گے تو تم کو یا پتھراؤ کر کے مار ڈالیں گے یا (جبرا) تم کو اپنے مذہب میں پھر داخل کرلیں گے اور ایسا ہوا تو تم کو کبھی فلاح نہ ہوگئی۔ معارف و مسائل : كَذٰلِكَ یہ لفظ تشبیہ، تمثیل کے لئے ہے، مراد اس جگہ دو واقعوں کی باہم تشبیہ بیان کرنا ہے ایک واقعہ اصحاب کہف کی نوم طویل اور زمانہ دراز تک سونے رہنے کا ہے، جس کا ذکر شروع قصے میں آیا ہے (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۔ دوسرا واقعہ اس زمانہ دراز کی نیند کے بعد صحیح سالم اور باوجود غذا نہ پہنچنے کے قوی اور تندرست اٹھنے اور بیدار ہونے کا ہے، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی آیات قدرت ہونے میں متماثل ہیں، اسی لئے اس آیت میں جو ان کے بیدار کرنے کا ذکر فرمایا تو لفظ كَذٰلِكَ اشارہ کردیا کہ جس طرح ان کی نیند عام انسانوں کی عادی نیند کی طرح نہیں تھی، اسی طرح ان کی بیداری بھی عام عادت طبعی سے ممتاز تھی، اور اس کے بعد جو لِيَتَسَاۗءَلُوْا فرمایا جس کے معنی ہیں تاکہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں کہ نیند کتنے زمانے رہی یہ ان کے بیدار کرنے کی علت نہیں، بلکہ عادی طور پر پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر ہے، اسی لئے اس کے لام کو حضرات مفسرین نے لام عاقبت یا لام صیرورت کا نام دیا ہے (ابوحیان، قرطبی) خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ان کی نوم طویل ایک نشانی قدرت کی تھی، اسی طرح سینکڑوں سال کے بعد بغیر کسی غذا کے قوی، تندرست بیدار ہو کر بیٹھ جانا بھی قدرت کاملہ کی نشانی تھی، اور چونکہ قدرت کو یہ بھی منظور تھا کہ خود ان لوگوں پر بھی یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ سینکڑوں برس سوتے رہے تو اس کی ابتداء باہمی سوالات سے ہوئی، اور انتہا اس واقعہ سے ہوئی جس کا ذکر اگلی آیت میں وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا میں آیا ہے کہ شہر کے لوگوں پر ان کا راز کھل گیا، اور تعیین مدت میں اختلاف کے باوجود زمانہ دراز تک غار میں سوتے رہنے کا سب کو یقین ہوگیا۔ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ شروع قصہ میں جو بات اجمالا کہی گئی تھی کہ غار میں رہنے کی مدت کے متعلق باہم اختلاف رائے ہوا ان میں سے ایک جماعت کا قول صحیح تھا یہ اس کی تفصیل ہے کہ اصحاب کہف میں سے ایک شخص نے سوال اٹھایا کہ تم کتنا سوئے ہو، تو بعض نے جواب دیا کہ ایک دن یا دن کا ایک حصہ، کیونکہ یہ لوگ صبح کے وقت غار میں داخل ہوئے تھے، اور بیدار ہونے کا وقت شام کا وقت تھا، اس لئے خیال یہ ہوا کہ یہ وہی دن ہے جس میں ہم غار میں داخل ہوئے تھے، اور سونے کی مدت تقریبا ایک دن ہے، مگر انہی میں سے دوسرے لوگوں کو کچھ احساس ہوا کہ شاید یہ وہ دن نہیں جس میں داخل ہوئے تھے، پھر معلوم نہیں کتنے دن ہوگئے، اس لئے اس کے علم کو حوالہ بخدا کیا، قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ اور اس بحث کو غیر ضروری سمجھ کر اصل کام کی طرف توجہ دلائی کہ شہر سے کچھ لانے کے لئے ایک آدمی کو بھیج دیا جائے۔ اِلَى الْمَدِيْنَةِ اس لفظ سے اتنا تو ثابت ہوا کہ قریب بڑا شہر تھا، جہاں یہ لوگ رہتے تھے اس شہر کے نام کے متعلق ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ جس زمانے میں اصحاب کہف یہاں سے نکلے تھے، اس وقت اس شہر کا نام افسوس تھا، اور اب اس کا نام طرسوس ہے، قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ بت پرستوں کے اس شہر پر غلبہ اور جاہلیت کے زمانے میں اس کا نام افسوس تھا، جب اس زمانے کے مسلمان یعنی مسیحی اس پر غالب آئے تو اس کا نام طرسوس رکھ دیا۔ بِوَرِقِكُمْ سے معلوم ہوا کہ یہ حضرات غار میں آنے کے وقت اپنے ساتھ کچھ رقم روپیہ پیسہ بھی ساتھ لائے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ضروری نفقہ کا اہتمام کرنا زہد و توکل کے خلاف نہیں (بحر محیط) اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا لفظ ازکی کے لفظی معنی پاک صاف کے ہیں، مراد اس سے حسب تفسیر ابن جبیر حلال کھانا ہے، اور اس کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ جس زمانے میں یہ لوگ شہر سے نکلے تھے وہاں بتوں کے نام کا ذبیحہ ہوتا، اور وہی بازاروں میں فروخت ہوتا تھا، اس لئے جانے والے کو یہ تاکید کی کہ اس کی تحقیق کر کے کھانا لائے کہ یہ کھانا حلال بھی ہے یا نہیں۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جس شہر یا جس بازار، ہوٹل میں اکثریت حرام کھانے کی ہو وہاں کا کھانا بغیر تحقیق کے کھانا جائز نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰہُمْ لِيَتَسَاۗءَلُوْا بَيْنَہُمْ۝ ٠ۭ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ۝ ٠ۭ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۝ ٠ۭ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ۝ ٠ۭ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ ہٰذِہٖٓ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ فَلْيَنْظُرْ اَيُّہَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا۝ ١٩ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قم) پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ ورق وَرَقُ الشّجرِ. جمعه : أَوْرَاقٌ ، الواحدة : وَرَقَةٌ. قال تعالی: وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام/ 59] ، ووَرَّقْتُ الشّجرةَ : أخذت وَرَقَهَا، والوَارِقَةُ : الشّجرةُ الخضراءُ الوَرَقِ الحسنةُ ، وعامٌ أَوْرَقُ : لا مطر له، وأَوْرَقَ فلانٌ:إذا أخفق ولم ينل الحاجة، كأنه صار ذا وَرَقٍ بلا ثمر، ألا تری أنه عبّر عن المال بالثّمر في قوله : وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف/ 34] قال ابن عباس رضي اللہ عنه : هو المال «1» . وباعتبار لونه في حال نضارته قيل : بَعِيرٌ أَوْرَقُ : إذا صار علی لونه، وبعیرٌ أَوْرَقُ : لونه لون الرّماد، وحمامةٌ وَرْقَاءُ. وعبّر به عن المال الکثير تشبيها في الکثرة بالوَرَقِ ، كما عبّر عنه بالثّرى، وکما شبّه بالتّراب وبالسّيل كما يقال : له مال کالتّراب والسّيل والثری، قال الشاعر : واغفر خطایاي وثمّر وَرَقِي«2» والوَرِقُ بالکسر : الدّراهم . قال تعالی: فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف/ 19] وقرئ : بِوَرِقِكُمْ «3» و ( بِوِرْقِكُمْ ) «4» ، ويقال : وَرْقٌ ووَرِقٌ ووِرْقٌ ، نحو كَبْد وكَبِد، وكِبْد . ( و ر ق ) الورق ۔ درخت کے پتے اس کی جمع اوراق اور واحد ورقتہ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام/ 59] اور کوئی پتہ نہیں جھڑ تا مگر وہ اس کو جانتا ہے ۔ اور ورقت الشجرۃ کے معنی درخت کا پتے دار ہونا کے ہیں اور سر سبز خوبصورت پتے دار درخت کو وارقتہ کہا جاتا ہے ۔ عام اورق کے معنی قحط سالی کے ہیں ۔ اور اورق فلان کے معنی ناکام ہونے کے ہیں گویا وہ پتے دار درخت ہے جو بدوں ثمر کے ہے اور اس کے بالمقابل آیت : ۔ وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف/ 34] اور اس کو پیدا وار ( ملتی رہتی) تھی ۔ میں مال کو ثمر کہا ہے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے اور رنگ کی ترو تازگی کے لحاظ سے خاکستری رنگ کے اونٹ کو بعیر اورق کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح حمامتہ ورقاء کا محاورہ ہے جس کے معنی خاکی رنگ کی کبوتری یا فاختہ کے ہیں ۔ اورق ( ایضا ) مال دار ہونا گویا کثرت کے لحاظ گئی ہے جیسا کہ مال کو ثٰری تراب یاسیل کے ساتھ تشبیہ دے کر اس معنی میں کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ لہ مال کالتراب اوالسیل اوالترٰی : یعنی وہ بہت زیادہ مالدار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الرجز ) ( 447 ) واغفر خطایای وثمرورنی میری خطائیں معاف فرما اور میرا مال بڑھا دے اور الورق ( بکسر الراء ) خصوصیت کے ساتھ دراہم کو کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف/ 19] تو اپنے میں سے کسی کو یہ سکہ دے کر شہر بھیجو ۔ ایک قرات میں بورقکم وبورقکم ہے اور یہ ورق وورق دونوں طرح بولاجاتا ہے ۔ جیسے کبد وکبد ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :«للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :«للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ طمع الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ. قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] ، ( ط م ع ) الطمع کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو لطف اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، ( ل ط ف ) اللطیف ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

غار میں ان کی مدت قیام قول باری ہے (قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم۔ دوسروں نے کہا شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے) جب اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ بات نقل کرتے ہوئے اس کی تردید نہیں کی تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا اس لئے کہ ان کے اس قول کی بنیاد ان کے اپنے خیال کے مطابق وہ مدت تھی جس میں وہ نماز میں قیام پذیر رہے۔ انہوں نے یہ بات قیام کی حقیقی مدت کے متعلق نہیں کہی تھی کیونکہ یہ مدت تو ان کی نظروں سے اوجھل تھی۔ یہی مفہوم اس قول باری کا ہے (فاما تہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ قال کم لبثت قال لبثت یوماً او بعض یوم۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی حالت میں رکھا پھر اسے زندہ کیا اور پوچھا کتنے عرصے رہے ہو۔ اس نے جواب دیا شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہا ہوں گا) اللہ تعالیٰ نے اس کے اس قومل کی تردید نہیں کی، اس لئے کہ اس شخص نے اپنے خیال اور اعتقاد کے مطابق بات بیان کی تھی، اس بات کا اظہار نہیں کیا تھا جو اس کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول بھی اسی مفہوم پر محمول ہے جو آپ نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا تھا (اقتلت نفساً زکیۃ بغیر نفس لقد جبئت شیئاً نکراً ) آپ نے ایک بےگناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کا خون نہیں کیا تھا یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا) نیز فرمایا (لقد حیث شیئاً امراً ۔ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی) یعنی میرے خیال کے مطابق اسی طرح جب حضرت ذوالیدین نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آیا نماز مختصر ہوگئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا (کل ذلک لم یکن ) ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی) بنا بریں مناہدئہ سفر جائز ہے قول باری ہے (فابعثوا بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا ازکی طعاماً فلیاتکم برزق منہ۔ چلو ، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکر دے کہ شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لئے لائے) یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی جگہ لوگوں کی کوئی جماعت اپنے پیسے یکجا کرلے اور اس سے کھانا وغیرہ منگا کر سب اکٹھے ہو کر وہ کھانا کھالیں تو اس کا جواز ہے خواہ کھاتے وقت ان میں کچھ لوگ دوسروں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ کیوں نہ کھا لیں۔ لوگ اس طریقے کو مناہدہ کے نام سے پکارتے ہیں اور عام طور پر اکٹھے سفر کے دوران یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ جواز کی وجہ یہ ہے کہ اصحاب کہف نے کہا کہ ا ن میں سے ایک آدمی کو چاندی کا سکہ دے کر شہر کھانا لانے کے لئے بھیج دیا جائے۔ یہاں سکے کی نسبت پوری جماعت کی طرف کی گئی ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (وان تخالطوا ھم فاخرانکم۔ اگر تم انہیں اپنے ساتھ شامل کرلو گے تو وہ تمہارے بھائی ہیں) اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یتیم کے طعام کو اپنے طعام کے ساتھ ملا لینے کو مباح کردیا اور یہ جائز کردیا کہ یتیم بھی ان کے ساتھ مل کر کھائے جبکہ یہاں یہ بات ممکن تھی کہ کھانے والوں میں بعض افراد دوسروں کی بہ نسبت زیادہ کھالیتے۔ خریداری میں وکیل بنانا جائز ہے آیت میں خریداری کے لئے وکیل بنانے کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے اس لئے کہ اصحاب کہف نے اپنے میں سے جس شخص کو شہر بھیجا تھا وہ ان کا وکیل اور کار پرداز بن کر گیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) اور اسی طرح تین سو نوسال گزر جانے کے بعد ہم نے ان کو جگایا تاکہ آپس میں بات کریں چناچہ مکسلیمنا نامی نے جو ان کا سردار اور ان سب سے بڑا تھا کہا کہ تم حالت نیند میں اس غار کے اندر کس قدر رہے ہو گے بعض بولے غالبا ایک دن رہے ہوں گے مگر جب غار سے باہر نکل کر سورج دیکھا کہ وہ ابھی غروب ہونے کے قریب ہے تو بولے ایک دن سے بھی کچھ کم رہے ہوں گے مکسلیمنا سردار کہنے لگا یہ تو صحیح خبر تمہارے اللہ ہی کو ہے کہ تم کس قدر آب تملیخا کو افسوس شہر کی طرف یہ روپیہ دے کر بھیجو وہ تحقیق کرے کہ کون سا کھانا زیادہ آئے گا اور کون سا کھانا پاکیزہ اور حلال ہے تاکہ وہ اس میں سے تمہارے لیے کچھ کھانا لے آئے اور سب کام خوش اسلوبی سے کرے تاکہ کسی کو ان مجوسیوں میں سے تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ) جب کچھ ساتھیوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ انہوں نے ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت نیند میں گزارا ہے تو ان کے جواب پر کچھ دوسرے ساتھی بول پڑے کہ اس بحث کو چھوڑ دو اللہ کو سب پتا ہے کہ تم لوگ یہاں کتنا عرصہ تک سوئے رہے ہو۔ (فَلْيَنْظُرْ اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ ) ظاہر ہے کہ اپنے اعتقاد اور نظریے کے مطابق انہیں پاکیزہ کھانا ہی چاہیے تھا۔ (وَلْيَتَلَطَّفْ ) یعنی جو ساتھی کھانا لینے کے لیے جائے وہ لوگوں سے بات چیت اور لین دین کرتے ہوئے خصوصی طور پر اپنا رویہ نرم رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی سے جھگڑ پڑے اور اس طرح ہم سب کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے۔ یہاں پر نوٹ کر لیجیے کہ قرآن کے حروف کی گنتی کے اعتبار سے لفظ وَلْیَتَلَطَّفْ کی ” ت “ پر قرآن کا نصف اوّل پورا ہوگیا ہے اور اس کے بعد لفظ ” ل “ سے نصف ثانی شروع ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. They were awakened from their sleep in the same miraculous way that was employed in sending them to sleep and keeping them hidden from the outer world.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :16 یعنی جیسے عجیب طریقے سے وہ سلائے گئے تھے اور دنیا کو ان کے حال سے بے خبر رکھا گیا تھا ، ویسا ہی عجیب کرشمہ قدرت ان کا ایک طویل مدت کے بعد جاگنا بھی تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: پاکیزہ کھانے سے مراد بظاہر حلال کھانا ہے ان حضرات کو فکر یہ تھی کہ بت پرستوں کے شہر میں حلال کھانا ملنا آسان نہیں۔ اس لیے جانے والے کو یہ تاکید کی کہ وہ ایسی جگہ سے کھانا لائے جہاں حلال کھانا میسر ہو۔ نیز چونکہ ان کے خیال میں ابھی تک اسی بت پرست بادشاہ کی حکومت تھی، اس لیے انہیں دوسری فکر یہ تھی کہ کہیں کسی کو ان کے غار میں چھپنے کا پتہ نہ لگ جائے۔ اس لیے جانے والے کو دوسری تاکید یہ کی کہ ہوشیاری سے جا کر کھانا لائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ ٢٠:۔ ان آیتوں میں تین سو برس کے بعد ان جوانوں کے جاگنے کا ذکر ہے ان کے جاگنے سے پہلے انتظام الٰہی کے موافق ایک بکریاں چرانے والے شخص نے اپنی بکریوں کو اس غار میں رکھنے کا ارادہ کر کے غار کے منہ پر کی دیوار کو ڈھا ڈالا مگر اس غار میں اللہ تعالیٰ نے دہشت جو پیدا کردی تھی اس کے سبب سے وہ بکریاں چرانے والا شخص غار کے اندر نہیں گیا اور اپنی بکریاں اس نے وہاں نہیں رکھیں۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تین سو نو برس تک ان جوانوں کو سلایا اب ان کو اسی طرح اس صاحب قدرت نے اٹھا بٹھایا تاکہ ان کو اللہ کی قدرت معلوم ہوجائے کہ بےآب و دانہ کتنی مدت تک وہ کیوں کر سوئے اور اٹھنے کے ساتھ ہی بھوک ان کو کیوں کر لگ آئی۔ اتنی مدت تک ان کے جسم اور کپڑوں کو زمین نے کیوں کر نہیں کھایا سوتے سے اٹھتے ہی ان میں سے ایک نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے اس کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ دن بھر یا پھر دوپہر سوئے ہوں گے مگر جب انہوں نے اپنے بال اور ناخن بڑھے ہوئے دیکھے تو کہنے لگے اللہ ہی کو خوب معلوم ہے کہ کتنی دیر سوئے اب تو بھوک لگ رہی ہے ہم میں سے ایک شخص کو ایک روپیہ لے کر بستی کو جانا اور کچھ اچھا سا کھانا لانا چاہے مگر جو کوئی جائے ذرا ہوشیاری سے جائے تاکہ دقیانوس کے سپاہیوں یا شہر کے لوگوں کو ہماری کچھ خبر معلوم ہوجائے گی تو وہ ہم کو پکڑ لیویں گے اور بغیر جان سے مار ڈالنے کے بت پرست بنانے کے نہ چھوڑیں گے اور اگر ہم نے جان کے خوف سے بت پرستی اختیار کرلی اور اسی حالت میں مرگئے تو پھر عقبیٰ کی بہبودی بالکل ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ یہ تین سو برس کا عرصہ اس طرح ان جوانوں کو اللہ کی قدرت سے تھوڑا معلوم ہوا جس طرح عزیر (علیہ السلام) کو سو برس کا عرصہ تھوڑا معلوم ہوا تھا جس کا قصہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مسند ابی یعلی میں ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید خدری (رح) سے جو صحیح روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ قیامت کا ایک دن پچاس ہزار برس کا ہوگا تو صحابہ کو اس دن کا بڑا ہونا شاق گزرا یہ حال دیکھ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار لوگوں کو وہ اتنا بڑا دن ایسا معلوم ہوگا جیسے قریب غروب سے مغرب تک میں یا ایک وقت کی فرض نماز کے پڑھنے میں دیر لگتی ہے ١ ؎۔ تین سو نو برس کا عرصہ ان جوانوں کو یا سو برس کا عرصہ عزیر (علیہ السلام) کو تھوڑا معلوم ہوا اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا جس کا حاصل یہ ہے کہ جو ایماندار لوگ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا پورا یقین کرتے ہیں کہ وہ صاحب قدرت جب چاہتا ہے لوگوں کی نگاہ میں بڑی مدت کو چھوٹا کر کے دکھا دیتا ہے قیامت کے دن اللہ کی اس قدرت کو وہ ایمان دار خود دیکھ لیں گے کہ پچاس ہزار برس کی مدت ان کو گھڑی کی مدت نظر آئے گی۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٠٦ ج ٢ فصل فی الحشر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:19) وکذلک بعثناہم۔ یعنی کماا نمناہم فی الکھف وحفظناہم من البلاء علی طور الزمان بعثناہم من النومۃ التی تشبہ الموت۔ یعنی جس طرح ہم نے ان کو غار (کہف) میں سلا دیا تھا اور طویل مدت تک ان کی ہر بلا سے حفاظت کر رکھی تھی اسی طرح ہم نے ان کو اس نیند سے جو بمشابہ موت کے تھی پھر اٹھا کھڑا کیا۔ لبثتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ تم رہے (باب سمع) فلبث فیہم الف سنۃ۔ (29:24) تو وہ ان میں ہزار برس رہے۔ ابعثوا۔ بعث سے۔ امر جمع مذکر حاضر۔ تم بھیجو۔ ورقکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا ورق۔ بمعنی چاندی کا سکہ۔ فلینظر۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ پس چاہیے کہ وہ دیکھے (یعنی وہ آدمی جس کو بھیجا جائے۔ وہ دیکھے) ۔ ایھا۔ ای ای اھلہا۔ اس کے (یعنی شہر کے) اہالیان میں سے کونسا۔ ازکی طعاما۔ ازکی۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے ای اطیب۔ زیادہ پاک وستھرا و پاکیزہ، ایھا ازکی طعاما۔ کہ اہل شہر میں سے کون زیادہ پاکیزہ وستھرا کھانا مہیا کرتا ہے۔ ولیتلطف۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب (باب تفعل) تلطف سے۔ اسے چاہیے کہ خوش خلقی اور حسن تدبیر سے کام لے ۔ اس کا عطف فلینظر پر ہے۔ لا یشعرن۔ فعل نہی واحد مذکر غائب با نون ثقیلہ۔ اشعار (افعال) مصدر۔ اس کا عطف بھی فلینظر پر ہے ۔ اور وہ (کسی کو تمہاری) خبر نہ ہونے دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ایک الگ تھلگ غار میں ان کا اس طرح لیٹا ہونا اور چوکھٹ پر کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا تھا اگر کوئی شخص اندر جھانکنے کی کوشش بھی کرنا تو خوف کے مارے بھاگ کھڑا ہوتا۔ یہ سب ان کی ایک لمبی مدت تک آرام و سکون سے سلائے رکھنے کے لئے خدائی انتظامات تھے۔2 یعنی جیسے ہم نے ایک حیرت انگیز طریقہ سے انہیں غار کے اندر سلایا اسی طرح …3 اور جب اس پوچھ گچھ کے نتیجہ میں آخر کار انہیں پتہ چلے کہ وہ کتنی مدت سوتے رہے تو انہیں ہماری قدرت کا عملی طور پر ہلکا سا اندازہ ہوجائے۔ (کبیر)4 یعنی حلال اور پاکیزہ کھاتا۔ (شوکانی)5 یعنی شہر میں داخل ہونے اور کھانا خریدنے میں ہوشیاری اور نرمی سے کام لے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 21 لیتساء لوا تاکہ وہ آپ میں پوچھیں۔ ابعثوا بھیجو۔ ورق سکہ، روپیہ پیسہ۔ ازکی حلال اور عمدہ۔ ولیتلطف اور دبے پاؤں جائے۔ لایشعرن خبر نہ دینا۔ ان یظھروا یہ کہ انہوں نے خبر پائی۔ یرجمون وہ پتھر ماریں گے۔ سنگسار کردیں گے۔ یعیدون وہ لوٹائیں گے۔ لن تفلحوا تم ہرگز فلاح نہ پاؤں گے۔ ابداً ہمیشہ۔ اعثرنا ہم نے مطلع کردیا ۔ یتنازعون وہ آپس میں جھگڑتے ہیں۔ غلبوا جو غالب ہوگئے۔ تشریح : آیت نمبر 19 تا 21 اصحاب کہف عرصے تک پرسکون نید سوتے رہے۔ پھر اللہ نے ان کو گہری نیند سے جگا دیا۔ جب وہ سو کر اٹھے تو انہیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ وہ تین سو نو سال تک اتنی گہری نیند سوتے رہے ہیں کہ اس عرصہ میں ان کے ملک اور شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ یہ نوجوان جن کو اصحاب کہف فرمایا گیا ہے دقیانوس بادشاہ کے ظلم و زیادتی سے تنگ آ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے تھے جب وہ بیدار ہوئے اس وقت نہ صرف ان کے ملک کی حالت بدل گئی تھی بلکہ ایک مومن بادشاہ بیدوسیس کی حکومت آ چکی تھی۔ ان کا وہ شہر جس کو تاریخ میں شہر افسوس لکھا گیا ہے اس کا نام بھی طرسوس ہوگیا تھا (تفسیر قرطبی) ۔ انہوں نے جاگتے ہی آپس میں پوچھنا شروع کیا کہ ہم کتنی دیر تک سوتے رہے ہوں گے۔ کسی نے کہا دن بھریا آدھے دن تک سوتے رہے ہیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے کہ ان بحثوں کو چھوڑو بھوک لگ رہی ہے کسی کو شہر بھیج کر کھانا منگویا جائے۔ چناچہ انہوں نے ایک شخص جس کا نام یملیخا تھا اس سے کہا کہ دیکھو پوری ہوشیاری اور احتیاط سے شہر میں داخل ہو کر کھانا لے آنا کسی کو معلوم نہ ہو کہ تم کون ہوا گر بادشاہ وقت یا اس کے لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ ہمیں پتھر مار کر ہلاک کردیں گے یا اپنے دین میں لوٹانے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یقینا ہماری دنیا اور آخرت برباد ہو کر رہ جائے گیا ور ہمیں کوئی فلاح و کامیابی نصیب ہوگی۔ یملیخا چند سکے لے کر نہایت احتیاط سے شہر پہنچ گیا۔ اسے شہر اور لوگوں کی بدلی ہوئی حالت پر حیرت تو ہوئی لیکن اس کھانا لے جانے کی جلدی تھی۔ اس نے کھانا لیا جب اس نے کھانے کے بدلے میں اپنا سکہ دینا چاہا تو اس دوکاندار نے بڑی حیرت سے اس سکہ کو دیکھا کچھ اور لوگوں کو بھی جمع کرلیا وہ سب یہ سمجھے کہ اس نوجوان کو پرانے زمان کا کوئی خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔ بات ہوتے ہوتے حکمرانوں اور پھر بادشاہ تک پہنچ گئی۔ بادشاہ جس کو یہ بات معلوم تھی کہ کئی سو سال پہلے کچھ نوجوان اچانک غائب ہوگئے تھے۔ جب حالات معلوم ہوئے تو اس کو یقین ہوگیا کہ یہی وہ نوجوان ہیں جوا پنے ایمان کی حفاظت کے لئے شہر کو چھوڑ کر پہاڑوں میں گم ہوگئے تھے۔ بادشاہ نے یملیخا کا بہت احترام کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بقیہ ساتھیوں سے بھی ملنا چاہتا ہے۔ بادشاہ، اس کے وزیر اور شہر کے ہزاروں آدمی جن کو اصحاب کہف کے حالات کی اطلاع ہوگئی تھی وہ سب پہاڑوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب دور سے اصحاب کہف نے دیکھا کہ یملیخا کے ساتھ بادشاہ اور ہزاروں شہری ہیں وہ یہ سمجھے کہ شاید ظالم بادشاہ اور اس کے درباریوں کو ہمارے متعلق معلوم ہوگیا ہے اور وہ ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں وہ پہاڑوں کی طرف چلے گئے۔ جب بادشاہ اور اس کے ساتھی وہاں پہنچے اور وہ نہ ملے تو یملیخا نے کہا کہ میں ان کو تلاش کرتا ہوں آپ سب لوگ یہیں ٹھہریں۔ چناچہ یملیخا چلا گیا اور اللہ نے ان سب اصحاب کہف پر پھر سے نیند کو غالب کردیا جب بادشاہ اور اس کے ساتھ آنے والے اصحاب کہف کو نہ پاسکے تب ارباب اقتدار نے فیصلہ کیا کہ یہاں یادگار کے طور پر مسجد بنا دی جائے۔ چناچہ انہوں نے اپنے گمان کے مطابق اس جگہ ایک مسجد تعمیر کردی۔ اس واقعہ کے مزید پہلوؤں کا بیان تو آئندہ آیات میں آئے گا۔ یہاں ان آیتوں کی چند باتوں کو سمجھ لیا جائے۔ 1- اصحاب کہف پر طویل نیند طاری کی گئی تو وہ تین سو نو سال تک پڑے سوتے رہے اس عرصہ میں انہوں نے کسی غذا کو اسعتمال نہیں کیا لیکن جب وہ بیدار ہوئے تو نہایت چست اور تندرست تھے اور بیدار ہوتے ہی ان کو بھوک پیاس نے ستانا شروع کردیا یہ قدرت کی اتنی بڑی نشانی ہے جس پر غور کرنے سے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ 2 - دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ موت فنا کا نام نہیں ہے بلکہ ایک طویل نیند کا نام ہے جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی قیامت شروع ہوجاتی ہے کیونکہ اب اس کو ایک طویل نیند کے بعد اٹھ کر کھڑا ہو جا ا ہے اور حشر کے دن اس کی آنکھ کھلے گی اور اس کو اپنی زندگی میں کئے ہوئے ہر کام کا حساب پیش کرنا ہوگا ۔ ایک طویل عرصے تک قبر میں سوتے رہنے کے باوجود اس کو جاگنے کے بعد ایسا محسوس ہوگا۔ جیسے بس وہ ابھی سویا تھا اور وہ ایک نیند لے کر کھڑا ہوگیا ہے۔ البتہ کفار مشرکین اور فاسق جب بیدار ہوں گے تو ان کو یہ نیند بہت لمبی محسوس ہوگی۔ 3- جب یملیخا کھانا لینے جا رہے تھے تو بقیہ ساتھیوں نے کہا کہ ” ازکی طعاماً “ یعنی حلال اور پاکیزہ کھانا لانا۔ انہوں نے یہ احتیاط اس لئے برتی کہ اس زمانہ میں اخلاقی و مذہبی بگاڑ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام پر جانوروں کو ذبح کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مومن کو ہر حال میں حلال اور پاکیزہ رزق کی فکر رہنی چاہئے۔ 4- یرجموکم، یعنی اگر بادشاہ وقت کو ہمارا پتہ چل گیا تو وہ ہمیں سنگسار کر دے گا یعنی پتھر مار مار کو ہلاک کر دے گا یا وہ زبردستی ہمیں بت پرستی پر مجبور کر دیگا۔ انہوں نے کہا اگر ایسا ہوا تو ہمیں دنیا اور آخرت میں کوئی فلاح اور کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی فلاح اور کامیابی صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی میں ہے غیر اللہ کی عبادت و بندگی انسان کو دنیا اور آخرت میں برباد کردینے والی چیز ہے۔ 5- بیدوسس بادشاہ اور اس کے درباریوں کو جب اصحاب کہف کا کچھ بھی پتہ نہ چلا تب انہوں نے اس جگہ ایک مسجد تعمیر کردی تاکہ یہ جگہ یاد رہے لیکن اگر کچھ لوگ اس واقعہ سے مردوں کے قبے اور مقبرے بنانے کی دلیل لینا شروع کردیں تو ان کی عقلوں پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اول تو اس دور کی بات ہے جب شریعت مصطفوی نہ تھی بلکہ عیسائیت کے قوانین رائج تھے ممکن ہے اس شریعت میں اس کی گنجائش ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے ٹھیک اسی جگہ مسجد نہیں بنائی تھی جہاں اصحاب کہف غائب ہوگئے تھے بلکہ کسی پہاڑ پر یادگار کے طور پر مسجد بنا دی تھی۔ اس سے قبروں پر قبے اور مقبرے بنانے کی دلیل کیسے لی جاسکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس شریعت کو لے کر تشریف لائے ہیں ہم اس کی اطاعت کے ذمے دار ہیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں قبروں پر قبے، مقبرے بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی یہ ہے ۔ ” ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ اگر ان میں سے کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیا کرتے تھے اور اس کی تصویریں بھی بنا دیا کرتے تھے۔ قیامت کے دن وہ بدترین مخلوق میں سے ہوں گے۔ (بخاری، مسلم، نسائی، مسند احمد) اس موقع پر مزید تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اس کے لئے بزرگان دین کی کتابوں سے رجوع کرلیا جائے تو انشاء اللہ اس کی تفصیل بخوبی معلوم ہو سکے گی۔ اللہ ہمیں ہر طرح کی گمراہیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ ان کے زمانہ پوشیدگی غار میں بتوں کا ذبیحہ بکثرت بکتا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس قصے کے بیان میں سرپرائز کا عمل جاری ہے۔ اچانک جب یہ منظر سامنے آتا ہے تو نوجوان اب جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ یہ اندازہ صحیح اندازہ نہیں کرسکتے کہ انہوں نے اس غار میں کتنا وقت گزارا ۔ اور کتنی دیر تک سوتے رہے۔ یہ آنکھیں ملتے ہیں ، ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ پوچھتے ہیں بھائی کتنی دیر ہوگئی۔ طویل نند سے جاگ کر ہر شخ پہلا سوال یہی کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایک طویل نیند کے کچھ آثار بھی پا رہے تھے۔ تو انہوں نے یہی اندازہ لگایا۔ لبثنا یوما او بعض یوم (٨١ : ٩١) ” شاید ایک دن یا اس سے کچھ کم “ اس کے بعد انہوں نے یہ موضوع سخن ترک کردیا ، جس پر بحث کا کوئی عملی فائدہ نہ تھا۔ اور اس مسئلے کو اللہ کے علم کے حوالے کر کے انہوں نے عملی کام میں مشغول ہونا مناسب سمجھا۔ یہ اہل ایمان کی شان اور عادت ہوتی ہے کہ وہ ان معاملات میں طویل دلچسپی نہیں لیتے ، جن میں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ بھوکے تھے اور ان کے پاس چاندی کے روپے تھے جنہیں وہ شہر سے لے کر نکلے تھے۔ قالوا ربکم اعلم بما لبتتم فابعثوآ احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا از کی طعاماً فلیاتکم برزق منہ (٨١ : ٩١) ” پھر وہ بولے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتن اوقت اسی حالت میں گزرا ، چلو اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے ، وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لئے لائے۔ “ یعنی وہ پاکیزہ اور اچھا کھانا شہر میں تلاش کرے اور اس میں سے کچھ خرید کرلے آئے۔ وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ ان کی جائے پناہ کسی کو معلوم نہ ہوجائے اور انہیں شہر کے حکمران پکڑ نہ لیں اور اس طرح ان کو سنگسار کر کے قتل نہ کردیں۔ کیونکہ ان حکمرانوں کے خیال میں وہ مروجہ دین سے خارج ہوگئے تھے۔ اس لئے کہا یک مشرک گائوں میں وہ ایک خدا کو پوجنے تھے یا انہیں اس کا ڈر تھا کہ انہیں ان کے عقائد کی وجہ سے سزا دے کر فتنے میں نہ ڈال دیں۔ یہی وہ بات تھی جس سے وہ ڈرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ اس شخص جن کو جو شہر جا رہا تھا ، سخت احتیاط کرنے کی تاکید کر رہے تھے۔ ولیتلطف ولایشعرن بکم احداً (٩١) انھم ان یظھروا علیکم یرجموکم او یعبدوکم فی ملتھم ولن تفلحوا اذا ابداً (٠٢) (٨١ : ٩١-٠٢) ” اور چاہئے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے ، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اگر کہیں ان لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑگیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے ، یا پھر زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے ، اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے۔ “ ظاہر ہے کہ جو شخص ایمان کی راہ چھوڑ کر شرک کی راہ اختیار کرے وہ کب فلاح پا سکتا ہے۔ یہ تو عظیم خسارہ ہے ۔ ہم اس منظر میں دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ اس طرح ہم کلام ہیں ، ڈر رہے ہیں ، پکڑے جانے کا خوف ہے اور سہمے ہوئے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ زمانہ گزر گیا۔ سال و ماہ ایک عرصہ تک گردش کرچکے ہیں۔ صدیوں کے بعد نئے لوگ پیدا ہوگئے ہیں او نیا زمانہ ہے۔ وہ شہر جس کے وہ باشندے تھے اس کے در و دیوار بدل گئے ہیں اور جن حکمرانوں سے وہ ڈر رہے ہیں ان کا دور ہی چلا گیا ہے اور وہ قصہ کہ اس طرح فلاح صدی میں فلاں حکمران کے ظلم سے تنگ آ کر نوجوانوں کا ایک گرو شہر چھوڑ گیا تھا۔ وہ باپ دادا سے لوگوں میں نقل ہوتا چلا آ رہا تھا اور لوگوں کے درمیان ان کے بارے میں اختلاف رائے بھی نقل در نقل ہوتا ہوتا چلا آ رہا تھا۔ ان کی تعداد ان کے عقائد کے بارے میں اور یہ کہ کتنا رصہ ہوا ہے ان کا اس شہر کو چھوڑنے کا اور یہ کہ کب سے وہ لوگ روپوش ہیں۔ یہاں آ کر پردہ گر جاتا ہے ، غار کے اندر ان کی گفتگو ختم ہو جای ہے۔ یہاں سیاق کلام میں پھر ایک خلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ذہن انسانی خود اسے بھر دیتا ہے او ایک دوسرا منظر سامنے آجاتا ہے۔ اب معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل شراب سب کے سب مومن ہوچکے ہیں اور اہل شہر کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اصحاب کیف میں سے ہے جو مدت دراز ہوئی ایمان یجذبے سے شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے تو وہ ان لوگوں کا غایت درجہ احترام کرتے ہیں لیکن ہم یہاں سوچ سکتے ہیں کہ جب اس شخص کو معلوم ہوگا کہ وہ جب شہر چھوڑ کر گئے ہیں تو صدیوں کا عرصہ گزر گیا ہے۔ نیز اس شخص نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ شہر بدل گیا ہے۔ جب سے انہوں نے چھوڑا ہے ، بہت ہی طویل عرصہ گزر گیا ہے۔ ان کے اردگرد کی دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ اس لئے ان کے لئے ہر چیز ایک عجوبہ ہے۔ وہ جب اپنے آپ کو دیکھ رہے تھے تو وہ زمانہ قدیم کے لوگ نظر آتے تھے۔ بلکہ لوگوں کے احساس اور ان کی نظر میں وہ عجوبہ تھے۔ اس لئے لوگوں نے بھی ان کے ساتھ عام انسانوں جیسا سلوک نہ کیا ہوگا اور ان کے اپنے دور میں جو رابطے ، رشتہ داریاں ، رسم و رواج کے عادات واطوار سب کے سب بدل گئے ہیں ، گویا وہ زمانہ قدیم کی ایک زندہ یاد گار ہیں۔ جو واقعی زندہ اس معاشرے میں لا کر کھڑے کردیئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں پر اللہ کا مزید کرم یہی ہو سکتا ہے کہ ان کو فوراً اس دنیا سے اٹھا لے۔ چناچہ یہ لوگ فی الفور فوت ہوجاتے ہیں۔ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم یہ سب واقعات تصور کرلیں۔ کیونکہ قرآن ان واقعات کو چھوڑ کر اب آخری منظر پیش کرتا ہے۔ یہ لوگ فوت ہوگئے ہیں اور لوگ اس غار کے بہر جمع ہیں اور ان کے بارے میں باہم گفتگو اور تکرار کر رہے ہیں۔ لوگوں کا تنازعہ یہ تھا کہ یہ لوگ کس دین پر تھے۔ اب ان کو کس طرح دوام بخشا جائے اور کیا ذرائع اختیار کئے جائیں کہ ان کا ذکر دائما رہ جائے اور اگلی نسلیں بھی انہیں یاد رکھیں تاکہ ان کے اس عجیب واقعہ سے اگلی نسلیں بھی عبرت لیں اور اصحاب کہف ، سب کے لئے مشعل راہ ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب کہف کا بیدار ہو کر آپس میں اپنی مدت قیام کے بارے میں سوال و جواب کرنا اور اپنے ایک آدمی کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجنا اصحاب کہف مدت دراز تک غار میں سوتے رہے پھر جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوئی تو انہیں جگا دیا ان کا اتنی لمبی مدت تک سلا دینا بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر دلالت کرتا ہے پھر ان کا جگا دینا۔ قال صاحب الروح ووجہ الشبہ کون کل منھا آیۃ دالۃ علی کمال قدرتہ الباھرۃ عزوجل۔ جب یہ لوگ جاگ گئے تو ان میں سے ایک شخص نے یہ سوال اٹھایا کہ تم یہاں کتنے دن ٹھہرے ہو ؟ پھر آپس میں جواب دیا کہ ہاں ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں، مطلب یہ تھا کہ ہم یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اندازہ ہے کہ بہت سے بہت ایک دن سوئے ہیں اور احتمال یہ ہے کہ ایک دن سے بھی کم سوئے ہوں، بعض حضرات نے فرمایا کہ وہ صبح کو سوئے تھے اور جب بیدار ہوئے تو شام کا وقت تھا جیسے دن جا رہا ہو اس لیے ایک یا ایک دن سے کچھ کم سمجھ کر سوال کرنے والے کو جواب دیدیا پھر کہنے لگے کہ بھئی ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے تمہارے رب کو ہمارے سونے کی صحیح مدت معلوم ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت زیادہ سونے کی وجہ سے جو دماغ میں ایک قسم کا بھاری پن ہوتا ہے وہ اسے محسوس کر رہے تھے اس لیے ان میں سے بعض نے یہ سمجھا کہ ایک دن کی مدت والی بات ٹھیک نہیں معلوم ہوتی لہٰذا ہمیں اپنے پاس سے کچھ تجویز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ چونکہ ان کے بال و ناخن زیادہ بڑھے ہوئے تھے اس لیے یہ محسوس ہوا کہ ہمارا یہ سونا ایک دن کی مدت سے زیادہ تھا۔ اس گفتگو کے بعد کہ کتنے دن سوتے رہے کھانے پینے کا سوال پیدا ہوا، جب انسان سو کر اٹھتا ہے تو عام طور پر بھوک لگی ہوتی ہے پھر ان کا کیا حال ہوگا جو عرصہ دراز تک سوتے رہے ہوں، کہنے لگے کہ اپنے میں سے ایک شخص کو بھیجو جو شہر میں جائے اور ہمارے پاس جو یہ چاندی کے سکے ہیں ان کو لے جائے اور کھانا لے کر واپس آجائے ذرا اچھی طرح دھیان سے خریدے پاکیزہ اور حلال کھانا لے کر آئے شہر میں جو بتوں کے نام پر ذبح کیا ہوا گوشت ملتا ہے اس میں سے نہ لائے اور شہر میں جانے اور کھانا خریدنے میں سمجھداری اور خوش تدبیری سے کام لے اور کسی کو یہ نہ بتائے کہ ہم کون ہیں اور کہاں ہیں۔ جس وقت یہ غار میں داخل ہو کر سوئے تھے اس وقت مشرکوں اور بت پرستوں کی حکومت تھی اور بادشاہ جبراً مشرک بنالیتا تھا اور اہل توحید کو جان سے مارتا اور سزائیں دیتا تھا، ان حضرات نے یہ سمجھ کر کہ شہر میں ابھی اسی دین شرک کا چرچا ہوگا اور بادشاہ بھی وہی بت پرست ہوگا کھانا خریدنے کے لیے جانے والے سے کہا کہ حلال کھانا لانا اور اس کا دھیان رکھنا کہ لوگوں کو ہمارا پتہ نہ چل جائے ورنہ شہر والے ہمیں بری طرح قتل کردیں گے اور سنگسار کردیں گے یا اپنے دین میں واپس کرلیں گے ایمان چھوڑ کر کفر میں چلا جانا سب سے بڑے خسارہ کی بات اور سب سے بڑی ناکامی ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اگر کوئی شخص کسی مومن کو کفر پر مجبور کرے اور ظاہری طور پر کفر کا کلمہ کہہ دے تو کافر نہیں ہوجاتا اگر وہ لوگ کفر پر مجبور کرتے اور اصحاب کہف کفر کا کلمہ کہہ دیتے تو حقیقت میں کافر نہ ہوجاتے اور اس سے ناکامی اور تباہی لازم نہیں آتی، جب دل میں ایمان باقی ہے تو اخروی ناکامی کی کوئی وجہ نہیں لہٰذا انہوں نے (وَ لَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا) کیوں کہا ؟ احقر کے خیال میں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ محقق نہیں تھے کسی نبی یا کسی فقیہ کی صحبت نہیں اٹھائی تھی لہٰذا انہوں نے حالت اکراہ میں کلمہ کفر کہہ دینے کو بھی تباہی سے تعبیر کیا، یہ سب ان کے اپنے خیال کے مطابق تھا اس کی نظیر یہ ہے کہ حضرت حنظلہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہی عرض کیا کہ حنظلہ منافق ہوگیا آپ نے فرمایا کیوں ؟ کہنے لگے کہ ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں آپ ہمیں جنت دوزخ کی باتیں سناتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے پھر جب ہم اپنے گھروں کو جاتے ہیں تو بیوی بچوں میں گھل مل جاتے ہیں اور آپ کے بہت سے ارشادات بھول جاتے ہیں آپ نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم ہر وقت اسی حالت میں رہو جو میرے پاس تمہاری حالت ہوتی ہے تو تم سے فرشتے بچھونوں میں اور راستوں میں مصافحہ کرتے، لیکن اے حنظلہ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے (یعنی جو تمہاری حالت میرے پاس ہوتی ہے وہ ہمیشہ باقی نہیں رہتی) جس طرح حضرت حنظلہ (رض) نے اپنے خیال میں اپنے کو منافق خیال کرلیا اسی طرح اصحاب کہف نے زبان سے کلمہ کفر کہنے کو بھی کفر سمجھ لیا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے فلاح کامل مراد ہے اکراہ کے وقت کلمہ کفر زبان سے جاری کرنا جائز ہے اور یہ رخصت ہے، اور عزیمت یہ ہے کہ قتل ہوجائے اور کلمہ کفر زبان پر نہ لائے، اس اعتبار سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہم نے حالت اکراہ میں کلمہ کفر کہہ کر جان بچا بھی لی تو عزیمت سے محروم ہوجائیں گے، ادھر تو آپس میں یہ مشورہ ہوا کہ ہمیں چھپ کر رہنا ہے اور اہل مدینہ کو اپنا حال اور اپنی جگہ نہیں بتانی اور ادھر ان میں سے جو ایک شخص کھانا خریدنے کے لیے رقم لے کر گیا اس نے بازار میں جاکر کچھ خریدا پرانا سکہ دیکھ کر دکاندار حیران پڑگیا اور لوگوں میں بھی اس کا چرچا شروع ہوگیا، اس عرصہ دراز میں حکومت بدل چکی تھی اور جو شخص بادشاہ تھا وہ مسلمان تھا جب اسے پتہ چلا کہ ایسا ایسا واقعہ ہے تو وہ شہر والوں کے ساتھ سوار ہو کر غار کی طرف چلا وہ ایک شخص جو کھانا لینے کے لیے آیا تھا جس کا نام یملیخا بتایا جاتا ہے وہ جلدی سے غار کے اندر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو بتادیا کہ بات کھل چکی ہے اور بادشاہ تک پہنچ گئی ہے اور اس وقت جو لوگ شہر میں ہیں وہ مسلمان ہیں یہ تحریر فرما کر علامہ قرطبی (صفحہ ٣٨٩ ج ١٠) نے دو روایتیں لکھی ہیں اول یہ کہ اصحاب کہف کو اس کی بہت خوشی ہوئی باہر نکلے بادشاہ سے ملاقات کی بادشاہ نے ان کا اور انہوں نے بادشاہ کا اکرام کیا اور دوسری روایت یہ نقل کی ہے کہ جب یملیخا نے انہیں واقعہ بتایا تو وہ اسی وقت وہیں غار میں مرگئے قرآن کریم میں ان باتوں کا ذکر نہیں ہے جس کسی نے جو کچھ بتایا وہ اسرائیلی روایات پر مبنی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ یہ ” ثم بعثناھم الخ “ کی تفصیل ہے۔ حضرت شیخ (رح) نے فرمایا ” کذلک “ میں کاف تشبیہ کے لیے نہیں بلکہ بیان کمال کے لیے ہے۔ یعنی اس قدرت طویل عرصہ کے بعد یوں ہم نے ان کو بیدار کیا۔ یہ ہماری قدرت کا کمال تھا اس میں ان کے اختیار و تصرف کا دخل نہیں تھا۔ ” لیتساء لوا “ میں لام ” بعثنا “ سے متعلق ہے۔ یعنی ہم نے ان کو عرصہ دراز کے بعد بیدار کیا۔ تاکہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ انہیں سوئے ہوئے کتنی مدت ہوئی۔ چناچہ جب وہ بیدار ہوئے تو رئیس بولا ” کم لبثتم “ باقیوں نے کہا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ تم کتنا عرصہ سوتے ہو۔ اس سوال و جواب سے معلوم ہوا کہ اصحاب کہف اپنی مدت خواب کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں جانتے تھے۔ جب ان کے اپنے حالات کے بارے میں ان کی لاعلمی کا یہ حال تھا تو وہ دوسروں کی پکاریں اور فریادیں کیونکر سن سکتے تھے۔ نکتہ :۔ حبر الامۃ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اصحاب کہف سات نفر تھے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ” قال کم لبثتم “ سے معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک نے سوال کیا ” قالوا لبثنا الخ “ اس سے پتہ چلا۔ جنہوں نے پہلا جواب دیا تھا وہ کم از کم تین تھے۔ کیونکہ قالوا جمع ہے اور عربی جمع کا اقل رتبہ تین ہے۔ ” قالوا ربکم اعلم “ یہاں بھی قالوا جمع ہے اس سے معلوم ہوا کہ دوسرا جواب دینے والے بھی کم از کم تین تھے۔ اس طرح کل سات ہوئے۔ (مدارک ج 3 ص 5 6) ۔ 20:۔ یہ بھی ماقبل ہی سے متعلق ہے۔ ماقبل سے اصحاب کہف کے غیب داں ہونے کی نفی کی گئی۔ یہاں اس کے ساتھ ان کے مختار و متصرف ہونے کی نفی بھی کی گئی ہے۔ بیدار ہو کر انہوں نے ایک ساتھی کو شہر میں کھانا خرید کر لانے کے لیے بھیجا۔ معلوم ہوا۔ وہ تو خود کھانے پینے کے محتاج ہیں دوسروں کی کیا حاجت بر آری کریں گے۔ ” فلینظر ایھا ازکی طعاما “ انہوں نے اپنے ساتھی کو ہدایت کی کہ کھانا دیکھ بھال کر خریدے کہیں کسی مشرک کے ہاتھ کا ذبیحہ نہ لے آئے کیونکہ وہ اپنے طواغیت کے نام پر جانوروں کو ذبح کرتے تھے۔ عن ابن عباس فی قولہ ازکی طعاما قال احل ذبیحۃ وکانوا یذبحون للطواغیت (الدر المنثور ج 4 ص 216) اصحاب کہف غیر اللہ کے ذبیحوں سے دور بھاگتے تھے۔ تو وہ اپنے لیے کس طرح نذریں نیازیں پسند کرسکتے تھے۔ اسی طرح اگر بازار میں جانے والا نوجوان غیب داں ہوتا تو بھیجنے والوں کو یہ اندیشہ کبھی نہ ہوتا کہ وہ حرام گوشت خرید لائے گا۔ ” ول یتلطف ولا یشعرن بکم احدا “ اسے یہ بھی ہدایت کی کہ وہ خریدو فروخت میں دکاندار سے نرمی کا برتاؤ کرے کہیں جھگڑے کی صورت پیدا ہو کر ہمارا راز منکشف نہ ہوجائے۔ اگر خدانخواستہ اس کا راز فاش ہوجائے تو وہ دوسروں کا حال کسی کو نہ بتائے۔ ” انھم ان یظھرو علیکم “ یہاں ” ان “ تعلیلیہ ہے کیونکہ اگر لوگوں کو تمہارا علم ہوگیا۔ تو وہ تمہیں جان سے مار ڈالیں گے۔ یا پھر تمہیں دوبارہ اپنے دین شرک میں لوٹا لیں گے۔ اصحاب کہف کا یہ خوف و ہراس ان کے عجز کی واضح دلیل ہے۔ اس لیے وہ کارساز بننے کے لائق نہیں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 اور جس طرح ہم نے ان کو اپنی قدرت کاملہ سے سلایا اسی طرح ہم نے ان کو جگا دیا اور اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں پوچھ گچھ کریں چناچہ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ تم اس حالت میں یعنی نیند میں یا کھوہ میں کتنی مدت رہے ایک فریق نے جواب دیا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہوں گے دوسرے فریق نے کہا یہ تو تمہارا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ تم کتنے عرصے اور کتنی مدت رہے۔ اب تم اپنے میں سے کسی شخص کو یہ روپیہ دے کر بھیجو وہ جا کر دیکھے کہ کون سا کھانا عمدہ اور حلال و پاکیزہ ہے سوا س حلال کھانے میں سے ہمارے پاس کچھ کھانا لے آئے اور یہ کام خوش تدبیری نرمی اور ہوشیاری سے کرے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔ یعنی جب آنکھ کھلی تو آپس میں یہ گفتگو کرنے لگے کہ تم کو سوتے ہوئے اور یہاں رہنے میں کتنا عرصہ گزرا۔ بعض نے کچھ کہا اور بعض نے کچھ اندازہ لگایا آخر میں ایک فریق نے بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا ہوگا یہ تو تمہارا پروردگار ہی خوب جانتا ہے اور چونکہ جاگتے ہی بھوک محسوس ہوئی تو روپیہ نکال کردیا اور کھانے کے ساتھ حلال و پاکیزہ کی قید لگائی کیونکہ وہاں بتوں کے نام کاذبیحہ بکتا ہوگا اور تاکید کردی کہ بھیس بدل کر جائے اور کسی کو ہمارا معاملہ ظاہر نہ ہونے دے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں سینکڑوں برس رہنا ان کو ایک دن معلوم ہوا مردہ اور سوتا برابر ہے۔ کیونکہ اگر تمہاری قوم کے لوگ کہیں تمہاری خبر پاجائیں گے تو تم کو سنگسار کردیں گے اور پتھر مار مار کر تمہیں قتل کردیں گے یا تم کو زبردستی اپنے دین میں لوٹالیں گے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا کہ تم نے کفر اختیار کرلیا تم کو تو کبھی فلاح نصیب نہ ہوگی اور کبھی خیر میسر نہ ائٓے گی چونکہ وقت کا صحیح اندازہ نہ تھا اس لئے انہوں نے یہ خیال کیا کہ شہر میں دقیانوس اور اسی کی پارٹی حکمراں ہوگی اور وہی لوگ ہوں گے جن کے فتنہ سے ہم بچ کر نکلے تھے حالانکہ شہر کے تمام حالات بدل چکے تھے اور چونکہ وہ لوگ سخت سزائیں دینے اور قتل کرنے کے عادی تھے۔ اسی خیال سے یہ کہا کہ دیکھو ہماری خبر نہ ہو ورنہ یا قتل کئے جائو گے یا کافر بنا لئے جائو گے عود اس لئے فرمایا کہ جس بت پرستی سے نفرت ہوئی تھی اور ایمان لائی تھے وہی پھر اختیار کرنی پڑے گی خواہ جبراً ہی ہو لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد کفر سے آدمی مانوس ہوجاتا ہے اور ایمان کو بھول جاتا ہے اور یہ جو کہا کہ فلاح نصیب نہ ہوگی تو مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں تو خیر ہاتھ سے نکل جائے گی اور کفر کے عادی ہو جائو گے اور قیامت میں کفر کا جو انجام ہوگا وہ جانتے ہی ہو اس لئے نہ دنیا میں فلاح ملے گی نہ آخرت میں ۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ایک ان میں روپیہ لے کر گیا وہاں سب چیز اوپری دیکھی اس مدت میں کئی قرن بدل گئے شہر کے لوگ اس روپیہ کا سکھ دیکھ کر حیران ہوئے کہ کس بادشاہ کا نام ہے اور کس عہد کا ہے جانا کہ اس شخص نے گڑا مال پایا قدیم کا۔ آخر پادشاہ تک پہنچا اس سے پوچھ کر سب احوال معلوم کیا اور اس وقت اس شہر میں دو مذہب کے لوگ تھے ایک آخرت میں جینے کے قائل دوسرے منکر جھگڑا پڑ رہا تھا پادشاہ منصف تھا چاہتا تھا کہ ایک طرف کی کوئی سند ہاتھ لگے تو دوسروں کو سمجھا دیوے اللہ تعالیٰ نے یہ سند بھیج دی پادشاہ آپ جا کر غار میں سب کو دیکھ آیا ہر ایک سے احوال سن آیا تب اس شہر کے لوگ آخرت پر یقین لائے کہ یہ قصہ بھی دوسرے بار جینے سے کم نہیں۔ 12