Commentary The word: کَذٰلِک (kadhalik) in the first sentence is for comparison. The purpose at this place is to describe the mutual likeness of two events. One of these is the event of the long sleep of the People of Kahf for an equally long period of time mentioned in the beginning of the story under the verse: فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا : |"So, We veiled their hearing (putting them to sleep) in the Cave for a number of years - 11.|" The second event relates to the rising of these people from that long drawn sleep - intact, healthy and fit despite the absence of any energy-giving intake - and becoming wide awake. Both are alike in being signs of the power of Allah Ta` ala. For this reason, when &raising them up& was mentioned in this verse, the word: کَذٰلِک (kadhalik: &And similarly& ) was used to indicate that the way their sleep was not like the habitual sleep of common people, very similarly, their rising too was distinct from natural habit. Then, as for the next statement after that: لِيَتَسَاءَلُوا ، meaning &so that they ask each other [ as to how long the sleep was ],& it is not the reason of &raising them up.& Instead, it is a mention of a usual phenomenon. Therefore, the particle: لام (lam) in: لِيَتَسَاءَلُوا (liyatasa&alu: so that they ask) has been identified as the lam of ` aqibah (consequence) or sairurah (result) meaning that which naturally follows as a sequel. (Abu Hayyan, al-Qurtubi) In short, their long sleep was a Divine sign. Similarly, sitting up all awake after hundreds of years - fit and healthy without usual nourish¬ment - was also another perfect Divine sign. And it was also Divinely in-tended that they too should come to know that they have been sleeping through hundreds of years, therefore, it began with questions asked between each other and ended at the incident mentioned in the next verse: وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا (And in this way We made them known - 21). It means that the people of the city knew their secret and, despite the difference in determining the period of their stay, everyone believed that they had been sleeping in the Cave for a long period of time. Given in: قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ (One of them said - 19) is the detail of what was said briefly at the beginning of the story (12) - that they differed about the period of their stay in the Cave and that one of them did say the right thing. According to this detail, one person from among the People of the Cave ventured to pose the question as to how long did they sleep. Then, came the response from some that said, &a day, or part of a day& - because, these people had entered the Cave in the morning and when they woke up, it was evening. Therefore, they thought, that was the day they had entered the Cave and the duration of their sleep was just about a day. But, some from among these very people realized that, perhaps, this was not the day they had entered the Cave. If so, who knows how many days have gone by? Therefore, they decided to let this particular knowledge about the event rest with Allah. By saying: قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ (Your Lord knows best how long you stayed - 19), they dismissed this debate as unnecessary and turned their attention to the need of the hour, that is, to send a man to the city to bring some food from there. The word: الْمَدِينَةِ (al-madinah) in the phrase: إِلَى الْمَدِينَةِ (ila al-madinah: to the city) proves at least this much that there used to be a big city close to the Cave where they had stayed. In his Tafsir al-Bahr al-Muhit, Abu Hayyan has said that the name of the city at the time the People of Kahf left was Ifsus and now, the name was Tarsus. Al-Qurtubi has said in his Tafsir that during the time idol-worship and ignorance prevailed in this city, its name was Ifsus. But, when the believers of that time, that is, the followers of Sayyidna Masih (علیہ السلام) overtook it, they renamed it as Tarsus. The word: بِوَرِقِكُمْ with this silver [ coin ] of yours - 19) tells us that these good men had also brought some money with them when they came to the Cave. From here we know that the procurement and management of essential expenditures in life is not contrary to the norms of Zuhd (abstention from worldly desires) and Tawakkul (trust in Allah). (Al-Bahr al-Muhit) The word: أَزْكَىٰ (azka) in: أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا (which are the purest - 19) means what is clean and pure. According to the Tafsir of Ibn Jubayr, it denotes Halal food. They were alert to the need for such precaution because at the time they had left the city, people used to slaughter animals in the name of idols and that was what they sold in the market. Therefore, they stressed upon the man going out to bring food only after making sure that it was Halal. Ruling This tells us that eating food in any city, bazaar or hotel, where most of the food available is حرام Haram, is not permissible without prior investiga¬tion.
خلاصہ تفسیر : اور (جس طرح ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کو اتنے زمانہ دراز تک سلایا) اسی طرح (اس طویل نیند کے بعد) ہم نے ان کو جگا دیا تاکہ وہ آپس میں پوچھ پاچھ کریں (تا کہ باہمی سوال و جواب کے بعد ان کو حق تعالیٰ کی قدرت اور حکمت منکشف ہو چنانچہ) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ( اس نیند کی حالت میں) تم کس قدر رہے ہو گے (جواب میں) بعض نے کہا کہ (غالبا) ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم رہے ہوں گے، دوسرے بعض نے کہا کہ (اس کی تفتیش کی کیا ضرورت ہے) یہ تو (ٹھیک ٹھیک ( تمہارے رب ہی کو خبر ہے کہ تم کس قدر (سوتے) رہے اب ( اس فضول بحث کو چھوڑ کر ضروری کام کرنا چاہئے وہ یہ کہ) اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ (جو کہنے والے کے پاس ہوگا، کیونکہ یہ لوگ کچھ خرچ کے لئے رقم بھی لے کر چلے تھے، غرض کہ کسی کو یہ روپیہ) دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر ( وہ وہاں پہنچ کر) تحقیق کرے کہ کونسا کھانا حلال ہے ( اس جگہ لفظ ازکی کی تفسیر بروایت ابن جریر حضرت سعید بن جبیر (رض) سے یہی منقول ہے کہ مراد اس سے حلال کھانا ہے، اور اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان کی قوم بت پرست بکثرت اپنے بتوں کے نام ذبح کیا کرتی تھی اور بازار میں بکثرت یہی حرام گوشت بکتا تھا) تو وہ اس میں سے تمہارے پاس کچھ کھانا لے آوئے اور کام خوش تدبیری سے کرے (کہ ایسی وضع ہیئت سے جاوے کہ کوئی اس کو پہچانے نہیں اور کھانے کی تحقیق کرنے میں بھی یہ ظاہر نہ ہونے دے کہ بت کے نام کے ذبیحہ کو حرام سمجھتا ہے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے (کیونکہ) اگر وہ لوگ (یعنی اہل شہر جن کو اپنے خیال میں اپنے زمانے کے مشرکین سمجھے ہوئے تھے) کہیں تمہاری خبر پاجائیں گے تو تم کو یا پتھراؤ کر کے مار ڈالیں گے یا (جبرا) تم کو اپنے مذہب میں پھر داخل کرلیں گے اور ایسا ہوا تو تم کو کبھی فلاح نہ ہوگئی۔ معارف و مسائل : كَذٰلِكَ یہ لفظ تشبیہ، تمثیل کے لئے ہے، مراد اس جگہ دو واقعوں کی باہم تشبیہ بیان کرنا ہے ایک واقعہ اصحاب کہف کی نوم طویل اور زمانہ دراز تک سونے رہنے کا ہے، جس کا ذکر شروع قصے میں آیا ہے (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۔ دوسرا واقعہ اس زمانہ دراز کی نیند کے بعد صحیح سالم اور باوجود غذا نہ پہنچنے کے قوی اور تندرست اٹھنے اور بیدار ہونے کا ہے، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی آیات قدرت ہونے میں متماثل ہیں، اسی لئے اس آیت میں جو ان کے بیدار کرنے کا ذکر فرمایا تو لفظ كَذٰلِكَ اشارہ کردیا کہ جس طرح ان کی نیند عام انسانوں کی عادی نیند کی طرح نہیں تھی، اسی طرح ان کی بیداری بھی عام عادت طبعی سے ممتاز تھی، اور اس کے بعد جو لِيَتَسَاۗءَلُوْا فرمایا جس کے معنی ہیں تاکہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں کہ نیند کتنے زمانے رہی یہ ان کے بیدار کرنے کی علت نہیں، بلکہ عادی طور پر پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر ہے، اسی لئے اس کے لام کو حضرات مفسرین نے لام عاقبت یا لام صیرورت کا نام دیا ہے (ابوحیان، قرطبی) خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ان کی نوم طویل ایک نشانی قدرت کی تھی، اسی طرح سینکڑوں سال کے بعد بغیر کسی غذا کے قوی، تندرست بیدار ہو کر بیٹھ جانا بھی قدرت کاملہ کی نشانی تھی، اور چونکہ قدرت کو یہ بھی منظور تھا کہ خود ان لوگوں پر بھی یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ سینکڑوں برس سوتے رہے تو اس کی ابتداء باہمی سوالات سے ہوئی، اور انتہا اس واقعہ سے ہوئی جس کا ذکر اگلی آیت میں وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا میں آیا ہے کہ شہر کے لوگوں پر ان کا راز کھل گیا، اور تعیین مدت میں اختلاف کے باوجود زمانہ دراز تک غار میں سوتے رہنے کا سب کو یقین ہوگیا۔ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ شروع قصہ میں جو بات اجمالا کہی گئی تھی کہ غار میں رہنے کی مدت کے متعلق باہم اختلاف رائے ہوا ان میں سے ایک جماعت کا قول صحیح تھا یہ اس کی تفصیل ہے کہ اصحاب کہف میں سے ایک شخص نے سوال اٹھایا کہ تم کتنا سوئے ہو، تو بعض نے جواب دیا کہ ایک دن یا دن کا ایک حصہ، کیونکہ یہ لوگ صبح کے وقت غار میں داخل ہوئے تھے، اور بیدار ہونے کا وقت شام کا وقت تھا، اس لئے خیال یہ ہوا کہ یہ وہی دن ہے جس میں ہم غار میں داخل ہوئے تھے، اور سونے کی مدت تقریبا ایک دن ہے، مگر انہی میں سے دوسرے لوگوں کو کچھ احساس ہوا کہ شاید یہ وہ دن نہیں جس میں داخل ہوئے تھے، پھر معلوم نہیں کتنے دن ہوگئے، اس لئے اس کے علم کو حوالہ بخدا کیا، قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ اور اس بحث کو غیر ضروری سمجھ کر اصل کام کی طرف توجہ دلائی کہ شہر سے کچھ لانے کے لئے ایک آدمی کو بھیج دیا جائے۔ اِلَى الْمَدِيْنَةِ اس لفظ سے اتنا تو ثابت ہوا کہ قریب بڑا شہر تھا، جہاں یہ لوگ رہتے تھے اس شہر کے نام کے متعلق ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ جس زمانے میں اصحاب کہف یہاں سے نکلے تھے، اس وقت اس شہر کا نام افسوس تھا، اور اب اس کا نام طرسوس ہے، قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ بت پرستوں کے اس شہر پر غلبہ اور جاہلیت کے زمانے میں اس کا نام افسوس تھا، جب اس زمانے کے مسلمان یعنی مسیحی اس پر غالب آئے تو اس کا نام طرسوس رکھ دیا۔ بِوَرِقِكُمْ سے معلوم ہوا کہ یہ حضرات غار میں آنے کے وقت اپنے ساتھ کچھ رقم روپیہ پیسہ بھی ساتھ لائے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ضروری نفقہ کا اہتمام کرنا زہد و توکل کے خلاف نہیں (بحر محیط) اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا لفظ ازکی کے لفظی معنی پاک صاف کے ہیں، مراد اس سے حسب تفسیر ابن جبیر حلال کھانا ہے، اور اس کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ جس زمانے میں یہ لوگ شہر سے نکلے تھے وہاں بتوں کے نام کا ذبیحہ ہوتا، اور وہی بازاروں میں فروخت ہوتا تھا، اس لئے جانے والے کو یہ تاکید کی کہ اس کی تحقیق کر کے کھانا لائے کہ یہ کھانا حلال بھی ہے یا نہیں۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جس شہر یا جس بازار، ہوٹل میں اکثریت حرام کھانے کی ہو وہاں کا کھانا بغیر تحقیق کے کھانا جائز نہیں۔