Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 26

سورة الكهف

قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۚ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَبۡصِرۡ بِہٖ وَ اَسۡمِعۡ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ ۫ وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾

Say, " Allah is most knowing of how long they remained. He has [knowledge of] the unseen [aspects] of the heavens and the earth. How Seeing is He and how Hearing! They have not besides Him any protector, and He shares not His legislation with anyone."

آپ کہہ دیں اللہ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کا بخوبی علم ہے ، آسمانوں اور زمینوں کا غیب صرف اسی کو حاصل ہے وہ کیا ہی اچھا دیکھنے سننے والا ہے سوائے اللہ کے ان کا کوئی مددگار نہیں ، اللہ تعالٰی اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "Allah knows best how long they stayed..." `If you are asked about how long they stayed, and you have no knowledge of that and no revelation from Allah about it, then do not say anything. Rather say something like this: ... اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... "Allah knows best how long they stayed. With Him is (the knowledge of) the Unseen of the heavens and the earth." meaning, no one knows about that except Him, and whoever among His creatures He chooses to tell. What we have said here is the view of more than one of the scholars of Tafsir, such as Mujahid and others among the earlier and later generations. وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَثَ مِايَةٍ سِنِينَ ... And they stayed in their cave three hundred years, Qatadah said, this was the view of the People of the Book, and Allah refuted it by saying: قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ... Say: "Allah knows best how long they stayed..." meaning, that Allah knows better than what the people say. This was also the view of Mutarraf bin `Abdullah. However, this view is open to debate, because when the People of the Book said that they stayed in the cave for three hundred years, without the extra nine, they were referring to solar years, and if Allah was merely narrating what they had said, He would not have said, وَازْدَادُوا تِسْعًا (adding nine). The apparent meaning of the Ayah is that Allah is stating the facts, not narrating what was said. This is the view of Ibn Jarir (may Allah have mercy on him). And Allah knows best. ... أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ... How clearly He sees, and hears (everything)! He sees them and hears them. Ibn Jarir said, "The language used is an eloquent expression of praise." The phrase may be understood to mean, how much Allah sees of everything that exists and how much He hears of everything that is to be heard, for nothing is hidden from Him! It was narrated that Qatadah commented on this Ayah: أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ (How clearly He sees, and hears (everything)!), "No one hears or sees more than Allah." ... مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا They have no protector other than Him, and He makes none to share in His decision and His rule. meaning, He, may He be glorified, is the One Who has the power to create and to command, the One Whose ruling cannot be overturned; He has no adviser, supporter or partner, may He be exalted and hallowed.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یہ اللہ کی صفت علم و خبر کی مذید وضاحت ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی اللہ کو اصحاب کہف کی مدت قیام کا سب سے زیادہ صحیح علم اس لیے ہے کہ اس نے خود ہی تو انھیں سلایا تھا پھر خود ہی جگایا تھا ایسا تصرف و اختیار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں کہ وہ کسی بات یا واقعہ کے متعلق صحیح صحیح خبریں بتاسکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ۔۔ : یعنی اگر اہل کتاب آپ سے اس مدت میں اختلاف کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا علم تم سے زیادہ ہے، لہٰذا جو مدت اس نے بتائی ہے وہی صحیح ہے، تمہاری بات کا اعتبار نہیں۔ ۚ لَهٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ ۔۔ : یہ اللہ کے ” اَعْلَمُ “ ہونے کی دلیل ہے کہ آسمانوں کا اور زمین کا غیب صرف اس کے پاس ہے۔ رہا دیکھنے اور سننے کے ذریعے سے علم تو وہ کس قدر دیکھنے والا اور کس قدر سننے والا ہے، اس پر تعجب تو ہوسکتا ہے، بیان میں نہیں آسکتا۔ تو پھر اس کی بات درست ہے یا ان کی جو ان صفات سے خالی ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں کسی کو بھی شریک نہیں کرتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Yet another question arises here about the People of Kahf. During their time and then within the blessed period of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the Jews and Christians had their differences about two things - the number of the People of Kahf and the duration of their sleep in the Cave. The Qur&an does describe both. However, it has done so with a difference. The number was not mentioned explicitly. Rather, only a hint has been given by not refuting the view which was correct. But, the fixed duration was declared in very clear words: وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا (And they stayed in their Cave for three hundred years and added nine -25). The reason is that this very remarkable diction of the Qur&an strongly suggests that this debate on the number of the people of Kahf is virtual¬ly useless. No worldly or religious issue relates to or depends on it. Yes, this unusual sleep for such a long period of time, being healthy and fit without food and drink and then sitting up in good shape after such a long time is certainly a working model of Resurrection. That there is a Day of Judgment and that there is a Hereafter can be argued on this ba¬sis. Therefore, the period of sleep was stated very clearly. People who deny the extraordinary miracles, or people who are in the habit of explaining them away overawed by the objections of modern day Jewish and Christian orientalists, have not spared even the Qur&an. For example, in the case of this verse (25), they have tried to use the explana¬tion of Qatadah as a prop to reject the duration of three hundred nine years as the saying of those very people who were differing among them-selves. But, they have erred. The statement: (for a number of years - 11) which appears in an earlier sentence of the Qur&an cannot be called the saying of anyone other than Allah Ta’ ala! To prove the miracu¬lous nature of the event even this much is sufficient that someone remains asleep for years and years and then rises and sits up all intact, fit and alive. Allah knows best.

تیسری آیت میں جو غار میں سونے کی مدت تین سو نو سال بتلائے ہیں، ظاہر نسق قرآن سے یہی ہے کہ یہ بیان مدت حق تعالیٰ کی طرف سے ہے ابن کثیر نے اسی کو جمہور مفسرین سلف، خلف کا قول قرار دیا ہے، ابوحیان اور قرطبی وغیرہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، مگر حضرت قتادہ وغیرہ سے اس میں ایک دوسرا قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ تین سو نو سال کا قول بھی انہی اختلاف کرنے والوں میں سے بعض کا قول ہے، اور اللہ تعالیٰ کا قول صرف وہ ہے جو بعد میں فرمایا یعنی اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا کیونکہ پہلا قول تین سو نو کے متعین کرنے کا اگر اللہ کا کلام ہوتا تو اس کے بعد اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا کہنے کا موقع نہ تھا، مگر جمہور مفسرین نے فرمایا کہ یہ دونوں جملے حق تعالیٰ کا کلام ہیں پہلے میں حقیقت واقیہ کا بیان ہے اور دوسرے میں اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدت کا بیان آ گیا تو اب اس کو تسلیم کرنا لازم ہے، وہی جاننے والا ہے، محض تخمینوں اور رایوں سے اس کی مخالفت بےعقلی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بیان مدت میں پہلے تین سو سال بیان کئے اس کے بعد فرمایا کہ ان تین سو پر نو اور زیادہ ہوگئے، پہلے ہی تین سو نو نہیں فرمایا اس کا سبب حضرات مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ یہود و نصاری میں چونکہ شمسی سال کا رواج تھا اس کے حساب سے تین سو سال یہ ہونے ہیں، اور اسلام میں رواج قمری سال کا ہے اور قمری حساب میں ہر سو سال پر تین سال بڑھ جاتے ہیں، اس لئے تین سو سال شمسی پر قمری حساب سے نو سال مزید ہوگئے، ان دونوں سالوں کا امتیاز بتانے کے لئے عنوان تعبیر یہ اختیار کیا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا۝ ٠ۚ لَہٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۭ اَبْصِرْ بِہٖ وَاَسْمِعْ۝ ٠ۭ مَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِيٍّ۝ ٠ۡوَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا۝ ٢٦ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) آپ ان سے فرمادیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے غار میں رہنے کی مدت کو تم سے زیادہ جانتا ہے کہ اس بیداری کے بعد سے پھر کتنا زمانہ ہوگیا تمام آسمانوں و زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم اسی کو ہے وہ کیا کچھ دیکھنے والا ہے اور کیا کچھ سننے والا ہے اور ان کا اللہ کے علاوہ کوئی محافظ نہیں یا یہ کہ اہل مکہ کو اللہ کے علاوہ اور کوئی عذاب خداوندی سے چھڑانے والا مددگار اور رشتہ دار نہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے حکم غیب میں شریک کیا کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا) یعنی اس بحث میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں کہ وہ غار میں کتنا عرصہ سوئے رہے۔ اس کا جواب بھی آپ ان کو یہی دیں کہ اس مدت کے بارے میں بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ (مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ ۡ وَّلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖٓ اَحَدًا) اس کے سوا ان کا کوئی ساتھی کارساز مددگار حمایتی اور پشت پناہ نہیں ہے۔ لفظ ” ولی “ ان سب معانی کا احاطہ کرتا ہے۔ وہ اپنے اختیار اور اپنی حاکمیت کے حق میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا۔ یہ توحید حاکمیت ہے۔ اس بارے میں سورة یوسف (آیت ٤٠ و ٦٧) میں اس طرح ارشاد ہوا : (اِنِ الْحُکْمُ الاَّ لِلّٰہِ ) ” اختیار مطلق تو صرف اللہ ہی کا ہے “۔ جبکہ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت میں یوں فرمایا گیا : (وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ ) ” اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے بادشاہت میں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے میں یہ بتلادیا کہ وہ غار میں تین سو نو سال تک سوتے رہے، لیکن آگے پھر وہی بات ارشاد فرمائی کہ محض قیاسات کی بنیاد پر اس بحث میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر کوئی اس مدت سے اختلاف کرے تو یہ کہہ کر بحث کا دروازہ بند کردو کہ اللہ تعالیٰ ہی اس مدت کو خوب جانتا ہے، اس نے جو مدت بتادی ہے، وہی درست ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:26) ابصر بہ واسمع۔ (اسمع کے بعد بہ محذوف ہے) ہر دو افعال تعجب ہیں۔ افعال تعجب کے دو صیغے ہیں ما افعالہ وافعل بہ جیسے ما احسن زیدا زید کیا ہی اچھا ہے اور احسن بزید زید کیا ہی اچھا ہے۔ ابصر بہوہ (یعنی اللہ) کیا ہی خوب دیکھنے والا ہے اور اسمع بہ وہ کیا ہی خوب سننے والا ہے۔ لہم۔ میں ضمیر جمع مذکر غائب اھل السموت والارض کے لئے ہے۔ ولی۔ کارساز۔ ناصر، حامی۔ مددگار۔ لا یشرک۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب وہ کسی کو شریک نہیں کرتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اگر اہل کتاب آپ سے اس مدت کے بارے میں اختلاف کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا علم تم سے زیادہ ہے لہٰذا جو مدت اس نے بتائی ہے وہی صحیح ہے تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں۔ ان دو آیات کی یہ تفسیر جمہور مفسرین کے بیان کے مطابق ہے۔ قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا قول نقل رفمایا ہے جو کہتے تھے کہ اصحاب کہف تین سو سال تک سوتے رہے اور بعض اس پر نو سال کا اضافہ کرتے تھے اور اس آیت میں یہ فرما کر کہ ’ د کہہ دیجیے کہ اللہ خوب جانتا ہے وہ کتنی مدت (سوتے) رہے عین کے اس قول کی تردید فرمائی ہے واللہ علم (ابن کثیر)7 یعنی اصحاب کہف کے بارے میں جو بات آپ کو اس کتاب میں بتائی جا رہی ہے وہ بالکل کافی اور جامع و مانع ہے۔ آپ اسی کو جوں تاتوں لوگوں کو پڑھ کر سناتے رہیے یا یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے یہی ان کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی مخلافت کی پرواہ نہ کریں۔ (روح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ جو وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کریں۔ اسی میں دو ٹوک فیصلے ہیں۔ اس کے تمام فیصلے عین سچائی ہیں ، اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی۔ ہمیں صرف اللہ کو پکارنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ کی پناہ کے سوا کوئی اور پناہ نہیں ہے۔ دیکھئے اصحاب کہف اللہ کی طرف بھاگے تو اللہ نے ان پر رحمت کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا) (اس کے علاوہ ان کے لیے کوئی مددگار نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں فرماتا) اللہ کا کوئی شریک اور مزاحم نہیں۔ وہ جو چاہے فیصلہ فرمائے، سب پر لازم ہے کہ اس سے مدد مانگیں اور اس کے علاوہ کسی کو اپنا ولی اور مددگار نہ بنائیں۔ فائدہ نمبر ١: قرآن مجید کے سیاق سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ نے اصحاب کہف کی غار میں رہنے کی مدت بیان فرمائی کہ وہ تین سو نو سال ہے حضرات مفسرین کرام نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ یہ بھی اہل کتاب کا قول ہے اور یہاں یقولون مقدر ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ مدت مذکورہ بتاتے ہیں اور ان کے قول کو رد فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے (قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا) فرمایا لیکن اول تو صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ قول ثابت نہیں۔ دوسرے (قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا) سے واضح طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں پہلی بات کی تردید ہے۔ فائدہ نمبر ٢: بعض مفسرین نے یہ بات اٹھائی ہے کہ اصحاب کہف کی مدت بتاتے ہوئے جو ثلث ماءۃ سنین و ازدادوا تسعا فرمایا اور ثلث ماءۃ وتسع سنین نہیں فرمایا یہ اس وجہ سے کہ اس میں شمسی اور قمری سنین کا فرق ہے یعنی تین سو سال شمسی اعتبار سے تھے اور تین سو نو قمری اعتبار سے تھے۔ لیکن صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ یہ لفظوں سے واضح نہیں ہے پھر یہ منجمین کے حساب کے موافق بھی نہیں ہے اگر شمسی اور قمری سنین کا فرق سامنے رکھتے ہوئے حساب لگایا جائے تو تین سو سال شمسی پر نو سال تہتر دن اور نو گھنٹے اور اڑتالیس منٹ کا فرق نکلتا ہے۔ اللھم الا ان یقال ان الکسر الزائد لم یعتبر واللّٰہ تعالیٰ اعلم اور راقم الحروف کی سمجھ میں یوں آیا ہے کہ رعایت فواصل کی وجہ سے عدول فرمایا ہے اور بجائے وتسع سنین کے وازدادوا تسعا فرما دیا واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ ثمرہ واقعہ :۔ اصحاب کہف کے واقعہ سے مشرکین کو ان کے غیب داں اور مختار ہونے کا شبہہ ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے واقعہ بیان کر کے اس کے ہر پہلو سے مشرکین کے شبہہ کو رد فرمایا۔ اب آخر میں پورے واقعہ کا ثمرہ اور نتیجہ صراحت سے بیان فرما دیا کہ اس واقعہ کی تفصیل سے ثابت ہوا۔ کہ اصحاب کہف نہ غیب داں ہیں نہ مالک و مختار، عالم الغیب بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مالک و مختار بھی وہی ہے۔ ” لہ “ خبر کو مقدم کر کے حصر کے ساتھ دعوی فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور کسی کو نہیں۔ ” ابصر بہ واسمع “ یہ دونوں فعل تعجب کے صیغے ہیں یعنی وہ ایسا دیکھنے والا اور ایسا سننے والا ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی چیز اور کوئی بات اس کے علم سے باہر اور اس سے پوشیدہ نہیں۔ یہاں تک نتیجے کا ایک جزو بیان ہوا۔ کہ غیب داں صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اصحاب کہف غیب داں نہیں ہیں۔ 32:۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) ” ولی “ کا ترجمہ لفظ مختار سے کرتے ہیں۔ یہ نتیجہ کے دوسرے جزو کا بیان ہے یعنی ساری مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کارساز اور مختار نہیں اللہ ہی سب کا مددگار اور کارساز ہے اور اس نے کسی کو مختار نہیں بنایا۔ نہ اصحاب کہف کو نہ کسی اور کو جیسا کہ مشرکین نے سمجھ رکھا تھا۔ ” ولا یشرک فی حکمہ احدا “ اللہ تعالیٰ اپنے اختیار و تصرف اور اپنے حکم و قضا میں منفرد و لا شریک ہے۔ اور کوئی اس کا شریک نہیں نہ کوئی نبی یا ولی نہ کوئی فرشتہ یا جن اور نہ اصحاب کہف انہ تعالیٰ ھوالذی لہ الخلق والامر الذی لا معقب لحکمہ و لیس لہ وزیر ولا نصیر ولا شریک ولا مشیر تعالیٰ و تقدس (ابن کثیر ج 3 ص 80) ۔ بعض مفسرین نے حکم سے علم غیب مراد لیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب میں کسی کو شریک نہیں کرتا وقیل الحکم ھھنا بمعنی علم الغیب ای لا یشرک فی علم غیبہ احدا (مظہری ج 6 ص 28) اس صورت میں یہ آیت علم غیب عطائی کی نفی پر دلیل ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے مختص علم غیب یعنی ماکان ومایکون کا کلی تفصیلی علم کسی کو عطا نہیں فرمایا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26 آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے غار میں رہنے کی مدت کو بہتر اور خوب جانتا ہے یعنی تم سے زیادہ و ہ جانتا ہے تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی اللہ تعالیٰ کو ہے اللہ تعالیٰ کیا ہی دیکھنے والا اور کیا ہی سننے والا ہے اس کے سوا بندوں کا کوئی کار ساز اور بندوں پر کوئی مختار نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو ساجھی اور شریک کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جتنی مدت سو کر دے جاگے تھے تاریخ والے کئی طرح بتاتے تھے سب سے ٹھیک وہی جو اللہ تعالیٰ بتادے یہاں تک قصہ ہوچکا۔ 12 خلاصہ یہ کہ جس قدر تفصیل مقصود تھی اور ضروری تھی وہ پوری ہوگئی نہ اس کے سوا بندوں کا کوئی کار ساز و سی بات چھپی ہوئی ہے جو کچھ اس نے بتادیا وہی ٹھیک اور سچ ہے اس کے علاوہ جو کہا جائے وہ خرط القتاد ہے۔