Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 27

سورة الكهف

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚ ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿۲۷﴾

And recite, [O Muhammad], what has been revealed to you of the Book of your Lord. There is no changer of His words, and never will you find in other than Him a refuge.

تیری جانب جو تیرے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا رہ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں تو اس کے سوا ہرگز ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہ پائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to recite the Qur'an and to patiently keep Company with the Believers Allah says, وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ... And recite what has been revealed to you (O Muhammad) of your Lord's Book. Commanding His Messenger to recite His Holy Book and convey it to mankind, Allah says, ... لاَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ... None can change His Words, meaning, no one can alter them, distort them or misinterpret them. ... وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا and none will you find as a refuge other than Him. It was reported that Mujahid said, "A shelter," and that Qatadah said, "A helper or supporter." Ibn Jarir said: "Allah is saying, `if you O Muhammad, do not recite what is revealed to you of the Book of your Lord, then you will have no refuge from Allah."' As Allah says: يَـأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَأ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ O Messenger! Proclaim (the Message) which has been sent down to you from your Lord. And if you do not, then you have not conveyed His Message. Allah will protect you from mankind. (5:67) إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْءَانَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ Verily, He Who has given you the Qur'an, will surely bring you back to the place of return. (28:85) meaning, `He will call you to account for the duty of conveying the Message which He entrusted you with.'

تلاوت و تبلیغ اللہ کریم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے ، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے ، نہ ادھر ادھر کر سکے ، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں ، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا ۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بِالْهُدٰى وَمَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 85؀ ) 28- القصص:85 ) یعنی اللہ تعالیٰ تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52؀ ) 6- الانعام:52 ) یعنی صبح شام یاد الہٰی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ غریب غرباء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے سعد بن ابی وقاص ، ابن مسعود ، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص ، بلال اور دو آدمی اور اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جی میں کیا آیا ؟ جو اس وقت آیت ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52؀ ) 6- الانعام:52 ) اتری ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا جاؤں ، یہ مجھے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے ، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھے آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں ، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوے ہزار کی ہوئی ۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ غلام فرمائے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے ایک صاحب سورہ کہف کی قرأت کر رہے تھے آپ کو دیکھ کر خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے ، جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الہٰی ہوا ہے اور روایت میں ہے کہ یا تو سورہ حج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورہ کہف کی ۔ مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لئے جو مجلس جمع ہو نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں ۔ طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری آپ اپنے کسی گھر میں تھے ، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے ۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا ، جنکے بال بکھرے ہوئے تھے ، کھالیں خشک تھیں ، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا ، فورا ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں ، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں ، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں ، جو عبادت سے دور ہیں ، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں ، جن کے اعمال حماقت کے ہیں تو ان کی پیروی نہ کرنا ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا ، ان کی نعمیتں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88؀ ) 15- الحجر:88 ) ، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لئے ہے ۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا ، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 ویسے تو یہ حکم عام ہے کہ جس چیز کی بھی وحی آپ کی طرف کی جائے، اس کی تلاوت فرمائیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں۔ لیکن اصحاب کہف کے قصے کے خاتمے پر اس حکم سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں لوگ جو چاہیں، کہتے پھریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اپنی کتاب میں جو کچھ اور جتنا کچھ بیان فرما دیا ہے، وہی صحیح ہے، وہی لوگوں کو پڑھ کر سنا دیجئے، اس سے زیادہ دیگر باتوں کی طرف دھیان نہ دیجئے۔ 27۔ 2 یعنی اگر اسے بیان کرنے سے گریز و انحراف کیا، یا اس کے کلمات میں تغیر و تبدیلی کی کوشش کی، تو اللہ سے آپ کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، لیکن اصل مخاطب امت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] کافروں کا سمجھوتہ کی بات کرنا :۔ اصحاب کہف کا قصہ ختم ہونے کے بعد اب خطاب اگرچہ رسول اللہ کو ہے تاہم یہ ارشاد ان سرداران قریش کو سنایا جارہا ہے جو آپ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتہ کرنا چاہتے تھے وہ یہ کہتے تھے کہ ہم آپ کی بہت سی باتیں مان لیتے ہیں تم ہماری یہ بات مان لو کہ جن آیات میں ہمارے معبودوں کا ذکر ہے وہ نہ پڑھا کرو اس طرح ہم سب برادری میں پھوٹ پڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبہ پر جواب دیا کہ اس کے احکام اور ارشادات میں کسی قسم کے ردو بدل یا ترمیم و تنسیخ کا کسی کو کچھ بھی اختیار نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکے گا۔ اگرچہ یہ موقع خاص تھا تاہم الفاظ میں عمومیت ہے یعنی جس دور میں بھی اور جو شخص بھی ایسی حرکت کرے گا اس کے لیے یہی حکم ہے حق اور باطل میں سمجھوتہ کی کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ : باطل دوئی پرست ہے حق لا شریک ہے۔۔ شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ : یعنی اصحاب کہف کے بارے میں جو بات آپ کو اس کتاب میں بتائی جا رہی ہے وہ بالکل کافی اور جامع مانع ہے۔ آپ اسی کو جوں کا توں پڑھ کر سناتے رہیے، یا یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے، یہی ان کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی مخالفت کی پروا نہ کریں۔ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ ۔۔ : ’ مُلْتَحَدًا “ کا معنی التحاد کی جگہ ہے، جو ” لَحْدٌ“ سے باب افتعال ہے، جس کا معنی مائل ہونا ہے۔ قبر کو بھی اسی لیے لحد کہتے ہیں کہ وہ ایک طرف ہٹی ہوتی ہے۔ چناچہ ” مُلْتَحَدًا “ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں آدمی ایک طرف جا کر پناہ لے لے۔ یعنی اگر آپ کسی کی خاطر داری سے اس کتاب کی تبلیغ میں کوتاہی کریں گے، یا اس میں کوئی رد و بدل کریں گے تو آپ کو اس کے سوا کہیں پناہ نہ ملے گی۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٦٧) اور یونس (١٥) یہ خطاب بظاہر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر مقصود اہل کتاب اور کفار مکہ سب کو متنبہ کرنا ہے کہ تمہاری خاطر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مالک کی کتاب میں کوئی رد و بدل کرنے والے نہیں۔ 3 اس آیت پر اور بعض علمائے تفسیر کے قول کے مطابق اوپر کی آیت پر اصحاب کہف کا قصہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ان دنوں مکہ میں درپیش تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور (آپ کا کام صرف اس قدر ہے کہ) آپ کے پاس جو آپ کے رب کی کتاب وحی کے ذریعہ آئی ہے وہ (لوگوں کے سامنے) پڑھ دیا کیجئے (اس سے زیادہ اس کی فکر میں نہ پڑیں کہ دنیا کے بڑے لوگ اگر اسلام کی مخالفت کرتے رہے تو دین کو ترقی کس طرح ہوگی، کیونکہ اس کا اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ فرما لیا ہے اور) اس کی باتوں کو (یعنی وعدوں کو) کوئی نہیں بدل سکتا (یعنی ساری دنیا کے مخالف بھی مل کر اللہ کو وعدہ پورا کرنے سے نہیں روک سکتے اور اللہ تعالیٰ خود اگرچہ تبدیلی پر قدرت رکھتے ہیں مگر وہ تبدیل نہیں کریں گے) اور (اگر آپ نے ان بڑے لوگوں کی دل جوئی اس طرح کی جس سے احکام الہی ترک ہوجاویں تو پھر) آپ خدا کے سوا کوئی پناہ نہ پاویں گے (اگرچہ احکام آلہیہ کا ترک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدلائل شرعیہ محال ہے، یہاں مبالغہ اور تاکید کے لئے بفرض محال یہ کہا گیا ہے) اور (جیسا کہ کفار کے امیروں اور رئیسوں سے آپ کو مستغنی رہنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح فقراء مسلمین کے حال پر مزید توجہ کا آپ کو حکم ہے پس) آپ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ (بیٹھنے میں) مقید رکھا کیجئے جو صبح و شام (یعنی علی الدوام) اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کے لئے کرتے ہیں (کوئی غرض دنیوی نہیں) اور دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے آپ کی آنکھیں (یعنی توجہات) ان سے ہٹنے پاویں (رونق دنیا کے خیال سے مراد یہ ہے کہ رئیس لوگ مسلمان ہوجاویں تو اسلام کی رونق بڑھے گی، اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ اسلام کی رونق مال و متاع سے نہیں بلکہ اخلاص و اطاعت سے ہے وہ غریب فقیر لوگوں میں ہو تو بھی رونق اسلام کی بڑھے گی) اور ایسے شخص کا کہنا ( غریبوں کو مجلس سے ہٹا دینے کے متعلق) نہ مانئے جس کے قلب کو ہم نے ( اس کے عناد کی سزا میں) اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہے، اور اس کا یہ حال ( یعنی اتباع ہوی) حد سے گزر گیا ہے اور آپ ( ان رؤ سا کفار سے صاف) کہہ دیجئے کہ ( یہ دین) حق تمہارے رب کی طرف سے (آیا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لاوے اور جس کا جی چاہے کافر رہے (ہمارا کوئی نفع نقصان نہیں، بلکہ نفع نقصان خود اس کا ہے جس کا بیان یہ ہے کہ) بیشک ہم نے ایسے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے کہ اس آگ کی قناتیں ان کو گھیرے ہوں گی (یعنی وہ قناتیں بھی آگ ہی کی ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ یہ لوگ اس گھیرے سے نہ نکل سکیں گے) اور اگر (پیاس سے) فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جاوے گی جو (مکروہ صورت ہونے میں تو) تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا (اور تیز گرم ایسا ہوگا کہ پاس لاتے ہی) مونہوں کو بھون ڈالے گا (یہاں تک کہ چہرے کی کھال اتر کر گر پڑے گی جیسا کہ حدیث میں ہے) کیا یہی برا پانی ہوگا اور وہ دوزخ بھی کیا ہی بری جگہ ہوگی (یہ تو ایمان نہ لانے کا ضرر ہوا، اور ایمان لانے کا نفع یہ ہے کہ) بیشک جو اچھی طرح کام کو کرے، ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں ان کے (مساکن کے نیچے) نہریں بہتی ہوں گی ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور سبز رنگ کے کپڑے باریک اور دبیز ریشم کے پہنیں گے (اور) وہاں مسہریوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، کیا ہی اچھا صلہ ہے اور (جنت) کیا ہی اچھی جگہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ۝ ٠ۭۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ۝ ٠ۣۚ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا۝ ٢٧ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ لحد اللَّحْدُ : حفرة مائلة عن الوسط، وقد لَحَدَ القبرَ : حفره، کذلک وأَلْحَدَهُ ، وقد لَحَدْتُ الميّت وأَلْحَدْتُهُ : جعلته في اللّحد، ويسمّى اللَّحْدُ مُلْحَداً ، وذلک اسم موضع من : ألحدته، ولَحَدَ بلسانه إلى كذا : مال . قال تعالی: لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل/ 103] من : لحد، وقرئ : يلحدون من : ألحد، وأَلْحَدَ فلان : مال عن الحقّ ، والْإِلْحَادُ ضربان : إلحاد إلى الشّرک بالله، وإلحاد إلى الشّرک بالأسباب . فالأوّل ينافي الإيمان ويبطله . والثاني : يوهن عراه ولا يبطله . ومن هذا النحو قوله : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج/ 25] ، وقوله : وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف/ 180] والْإِلْحَادُ في أسمائه علی وجهين : أحدهما أن يوصف بما لا يصحّ وصفه به . والثاني : أن يتأوّل أوصافه علی ما لا يليق به، والْتَحدَ إلى كذا : مال إليه . قال تعالی: وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف/ 27] أي : التجاء، أو موضع التجاء . وأَلْحَدَ السّهم الهدف : مال في أحد جانبيه . ( ل ح د ) اللحد ۔ اس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں جو قبر کی ایک جانب میں بنانا کے ہیں ۔ لحد المیت والحدہ میت کو لحد میں دفن کرنا اور لحد کو ملحد بھی کہا جاتا ہے جو کہ الحد تہ ( افعال ) اسے اسم ظرف ہے ۔ لحد بلسانہ الیٰ کذا زبان سے کسی کی طرف جھکنے یعنی غلط بات کہنا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل/ 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں ۔ میں یلحدون لحد سے ہے اور ایک قرات میں یلحدون ( الحد سے ) ہے ۔ کہا جاتا ہے الحد فلان ۔ فلاں حق سے پھر گیا ۔ الحاد دو قسم پر ہے ۔ ایک شرک باللہ کی طرف مائل ہونا دوم شرک بالا سباب کی طرف مائل ہونا ۔ اول قسم کا الحا و ایمان کے منافی ہے اور انسان کے ایمان و عقیدہ کو باطل کردیتا ہے ۔ اور دوسری قسم کا الحاد ایمان کو تو باطل نہیں کرتا لیکن اس کے عروۃ ( حلقہ ) کو کمزور ضرور کردیتا ہے چناچہ آیات : ۔ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج/ 25] اور جو اس میں شرارت سے کجروی وکفر کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف/ 180] ، جو لوگ اس کے ناموں کے وصف میں کجروی اختیار کرتے ہیں ۔ میں یہی دوسری قسم کا الحاد مراد ہے اور الحاد فی اسمآ ئہ یعنی صفات خدا وندی میں الحاد کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ کو ان اوٖاف کے ساتھ متصف ماننا جو شان الو ہیت کے منافی ہوں دوم یہ کہ صفات الہیٰ کی ایسی تاویل کرنا جو اس کی شان کے ذیبا نہ ہو ۔ التحد فلان الٰی کذا ۔ وہ راستہ سے ہٹ کر ایک جانب مائل ہوگیا اور آیت کریمہ : وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف/ 27] اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے میں ملتحد ا مصدر میمی بمعنی التحاد بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی اور اس کے معنی پناہ گاہ کے ہیں التحد السھم عن الھدف تیر نشانے سے ایک جانب مائل ہوگیا یعنی ہٹ گیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧) اور آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ آپ ان کو قرآن کریم پڑھ کر سنادیا کیجیے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کیا کیجیے اور اس کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور آپ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی پناہ بھی نہ پائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ) یعنی اس وقت آپ بہت مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کیفیت میں آپ کو صبر و استقامت کی سخت ضرورت ہے : (وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ الاَّ باللّٰہِ ) ( النحل : ١٢٧) ” اور (اے نبی ! ) آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ کے سہارے پر ہی ہے “۔ یہ سہارا آپ کو اللہ کے ساتھ اپنا قلبی تعلق اور ذہنی رشتہ استوار کرنے سے میسر ہوگا اور یہ تعلق مضبوط کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ّ تمسک بالقرآن کا یہ مضمون سورة العنکبوت میں (اکیسویں پارے کے آغاز میں ) دوبارہ آئے گا۔ حق و باطل کی کشمکش میں جب بھی کوئی مشکل وقت آیا تو رسول اللہ کو خصوصی طور پر تمسک بالقرآن کی ہدایت کی گئی ‘ اور آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت اس کے ساتھ صرف کریں۔ اسی طرح وہ مشکلات و شدائد کو برداشت کرنے اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ (لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا) یقیناً یہ راستہ بہت کٹھن ہے اور اس راستہ کے مسافروں نے سختیوں کو بہر حال برداشت کرنا ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے جو کسی کے لیے تبدیل نہیں کیا جاتا۔ اس مہم میں واحد سہارا اللہ کی مدد اور نصرت ہے۔ چناچہ اگر آپ کو کہیں پناہ ملے گی تو اللہ ہی کے دامن میں ملے گی اس در کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اسی مضمون کی ترجمانی اپنے اس شعر میں کی ہے : نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی میرے جرم خانہ خراب کو ‘ تیرے عفو بندہ نواز میں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. After relating the story of the sleepers of the cave, the Quran begins to review the condition of the Muslims of Makkah at the time of the revelation of the Surah. 27. This does not mean at all that, God forbid, the Prophet (peace be upon him) was inclined to make any changes in the Quran to please the disbelievers of Makkah and was thinking of some formula of compromise with the chiefs of the Quraish which necessitated a warning that he was not authorized to do so. As a matter of tact, though this was apparently addressed to the Prophet (peace be upon him), it was really meant for the disbelievers that they should not entertain any hope whatsoever for anything like this, as if to say: You must understand it once and for all that Our Messenger is not authorized to make any changes in Our revelation, for he has to precisely convey it just as it is sent down to him. If you want to accept it, you will have to accept it in its entirety as it is being sent by the Lord of the Universe. And if you want to reject it, you may do so but you must understand it well that no modification, even in the least, will be made in it to please you. This was the answer to the repeated demand of the disbelievers: If you do insist, O Muhammad (peace be upon him), that we should accept your message in its entirety, then make certain modifications in it to accommodate some creeds and customs of our forefathers, and we will accept your message. This is our offer for a compromise and this will save our people from divsion. This demand of the disbelievers has been cited in the Quran at several places and the same answer has been given, e.g. When Our clear revelations are recited to them, those who do not expect to meet Us, say: Bring another Quran in its stead or make some amendments in it. (Surah Younus, Ayat 15).

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :26 اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :27 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا ۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بےکم و کاست پہنچا دیں ۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے ۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو ۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی ، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو ۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بات مان لیں ۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو ۔ کچھ تم ہماری مان لو ، کچھ ہم تمہاری مان لیں ۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے ۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو : وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَاائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہ ۔ جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خطاب در حقیقت ان کافروں کو سنانے کے لئے ہے جو آپ سے یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ آپ اس قرآن میں ہماری خواہش اور عقیدے کے مطابق تبدیلیاں کرلیں تو ہم آپ کو ماننے کے لئے تیار ہیں، ان کا یہ مطالبہ پیچھے سورۂ یونس (١٠۔ ١٥) میں گزرچکا ہے، یہاں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں تبدیلی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ میسر نہیں آسکتی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧۔ ٢٨:۔ صحیح مسلم میں سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے مالدار مکہ مشرکوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خواہش کی تھی کہ ہمارے آپ کے پاس آنے کے وقت غریب مسلمان آپ کی مجلس میں نہ بیٹھیں گے تو ہم آپ کی مجلس میں آن کر قرآن کی آیتیں سنا کریں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ١ ؎۔ اور فرمایا اللہ کا حکم نہیں بدل سکتا اس کا حکم یہی ہے کہ غریب امیر سب کو یکساں ایک ہی مجلس میں قرآن کی آیتیں نصیحت کے طور پر سنائی جائیں اور اے رسول اللہ کے تم کو اللہ کی پناہ نہیں ہے اس واسطے اللہ کی مرضی کے موافق تم اپنا کام کیے جاؤ پھر فرمایا غریبوں کی مجلس میں اگر یہ مالدار مشرک نہ آئیں تو اس کی کچھ پروا نہ کرو کیونکہ ان کے آنے سے فقط دنیا کی زیب وزینت ہے جو اللہ کو پسند نہیں بلکہ اللہ کو تو یہ پسند ہے کہ خالص اللہ کے واسطے جو غریب مسلمان قرآن کی آیتوں کی نصیحت سننے کو تمہارے پاس آتے ہیں اور پھر اس نصیحت کے موافق خالص عقبیٰ کی بہبودی کی نیت سے صبح شام اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے تم کام رکھو اور جن لوگوں کے دل اللہ کی یاد سے غافل اور شرک میں گرفتار ہیں ان کی کوئی بات نہ مانو کس لیے کہ ایسے لوگ اپنی مالداری کے غرور میں انسانیت کی حد سے بڑھ گئے ہیں کہ غریب مسلمانوں کو انسان نہیں گنتے اس لیے ان کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھنے سے گھبراتے ہیں ایسے لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا جی چاہے اس کو مانے جس کا جی نہ چاہے وہ نہ مانے اب آگے کی آیتوں میں قرآن کی نصیحت کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا نتیجہ بیان فرمایا۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٨٠ ج ٣

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:27) اتل۔ تلاوۃ سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو پڑھ۔ تو تلاوت کر۔ اوحی۔ ماضی مجہول ۔ وحی کی گئی ۔ حکم بھیجا گیا۔ صیغہ واحد مذکر غائب۔ من کتاب ربک ای من القران۔ مبدل۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر۔ تبدیل مصدر۔ بدلنے والا۔ منصوب بوجہ عمل لا کے ہے۔ ملتحدا۔ اسم ظرف ۔ بروزن اسم مفعول التحاد (افتعال) مصدر۔ پناہ کی جگہ ۔ یا باب افتعال سے مصدر میمی ہے۔ بمعنی پناہ۔ اللحد۔ اس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں کہ جو قبر کی ایک جانب بنایا جاتا ہے۔ الحدالی۔ کسی کی طرف مائل ہونا۔ کسی کی طرف نسبت کرنا۔ جیسے لسان الذی یلحدون الیہ (16:103) اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کرتے ہیں (عجمی ہے) الحدعن۔ پھرنا مثلاً الحد عن الدین وہ دین سے پھر گیا۔ اسی سے ملحد جو دین سے پھر گیا ہو۔ اور الحاد (باب افعال) دین سے پھرجانا ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اگر آپ کسی کی خاطر داری سے اس کی کتاب میں کوئی رد و بدل کریں گے تو آپ کو اس کے سوا کہیں پناہ نہ ملے گی۔ یہ خطاب بظاہر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر مقصود اہل کتاب اور کفار مکہ سب کو متنبہ کرنا ہے کہ تمہاری خاطر آنحضرت اپنے ملاک کی کتاب میں کئیو رد و بدل کرنے والے نہیں ہیں … اس آیت پر اور بعض علمائے تفسیر کے قول کے مطابق اوپر کی آیت پر اصحاب کہف کا قصہ ختم ہوگیا اس کے بعد دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ان دنوں مکہ میں درپیش تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 27 تا 29 اتل پڑھئے، سنائیے۔ ملتحد پناہ کی جگہ۔ لاتعد نہ پھریں۔ ترید تو چاہتا ہے۔ لاتطع کہنا مت مان۔ ھواہ اس کی خواہش۔ فرطاً حد سے آگے بڑھنے والے۔ احاط گھیر لیا۔ سرادق پردہ کی دیوار، قنات۔ یستغیثوا وہ مدد چاہیں گے۔ مھل وہ چیز جو طبیعت پر ناگوار ہو۔ یشوی بھون ڈالتی ہے۔ الشراب پینے کی چیز۔ مرتفق آرام کرنے کی جگہ۔ تشریح :- آیت نمبر 27 تا 29 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدید دلی خواہش تھی کہ اگر عرب کے سردار اور با اثر لوگ ایمان لے آئیں تو سارا عرب اسلام کی دولت سے مالا مال ہوجائے گا اور کفر و شرک کی کمر ٹوٹ کر رہ جائے گی۔ آپ اللہ کا دین پھیلانے کی جدوجہد میں رات دن کوششیں فرماتے رہتے تھے۔ ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے نتیجے میں اکابر صحابہ کے علاوہ اکثر ان چند لوگوں نے اسلام قبول کیا جو معاشرہ کے انتہائی غریب، بےکس اور غلام تھے۔ جب آپ کفار مکہ کو اسلام کی دعوت دیتے تو ان کا یہ عذر ہوتا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کے پاس آنا تو چاہتے ہیں مگر آپ کے پاس ایسے غریب نادار اور غلام بیٹھے رہتے ہیں جن کے پاس بیٹھنا ہماری توہین ہے۔ پہلے آپ اپنی مجلس سے ایسے لوگوں کو نکالئے تب ہم آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے ان آیات کو نازل فرمایا جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کیجیے جس میں انسانی زندگی کی سچائیاں ہیں جو کبھی نہ تبدیل ہونے والی ہیں اور انسان کے لئے آخری پناہ گاہ اللہ ہی کی ذات ہے۔ فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑیئے جو اللہ پر ایمان کے سچے جذبے کے ساتھ آپ پر ایمان لائے ہیں جیسے حضرت عمار، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت ابن مسعود وغیرہ جو صبح و شام اپنے پروردگار کی عبادت و بندگی اور اس کی رضا و خوشنودی کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ان سے کبھی منہ نہ پھیریئے اور جو لوگ زندگی کی سچائیوں سے منہم وڑ کر چلتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں ان کی رفاقت اور قرب اختیار نہ کیجیے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کے ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے ایسے لوگ اپنی خواہشات نفس کے غلام بنے ہوئے ہیں اور وہ کسی حد پر جا کر رکنے والے نہیں ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ فرما دیجیے کہ یہ سچائی میرے رب کی طرف سے ہے جس کا دل چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے وہ کفر کا راستہ اختیار کرلے۔ لیکن ایسے لوگ اس بات کو ضرور اپنے ذہن میں رکھ لیں کہ جس نے بھی کفر و شرک کا راستہ اختیار کیا اس کے لئے ایسی جہنم تیار ہے جس کی لپٹیں ان کو گھیر لیں گی اور جب وہ اس آگ میں اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی مانگیں گے تو ان کو تیل کی تلچھٹ یا لہو پیپ دیا جائے گا جو ان کے منہ کو جلا کر دے گا اور اس وقت ان کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ جہنم کا کھانا اور ٹھکانا بدترین چیز ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ حاکم ہے اور اس کا حکم قرآن مجید کی صورت میں مکمل ہوا، اس لیے اس کے حکم کو جاننے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے ذریعے قرآن مجید نازل فرمایا جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میں کوئی ردوبدل نہیں کرسکتا۔ اس میں ردو بدل اور ترمیم واضافہ کرنے کی کسی کو ہرگز اجازت نہیں یہاں تک کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کی زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے احکام حق پر مبنی، حق کے ترجمان اور قیامت تک قائم دائم رہنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ (الحجر : ٩) اللہ کے کلام میں تبدیلی نہ ہونے کا یہ بھی مقصد ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگ اسے پسند کریں یا نہ کریں آپ نے ہر حال میں انہیں قرآن سنانا ہے۔ دنیا میں یہ واحد کتاب ہے جو شخص ایمان کی حالت میں اس کی تلاوت کرے گا۔ اسے ایک ایک حرف کے بدلے اجروثواب دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَعْمَلُ بِہِ کَالأُتْرُجَّۃِ ، طَعْمُہَا طَیِّبٌ وَرِیحُہَا طَیِّبٌ، وَالْمُؤْمِنُ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ وَیَعْمَلُ بِہِ کَالتَّمْرَۃِ ، طَعْمُہَا طَیِّبٌ وَلاَ رِیْحَ لَہَا، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَالرَّیْحَانَۃِ ، رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعْمُہَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ کَالْحَنْظَلَۃِ ، طَعْمُہَا مُرٌّ أَوْخَبِیْثٌ وَرِیحُہَا مُرٌّ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القرآن، باب مَنْ رَایَا بِقِرَاءَ ۃِ الْقُرْآنِ أَوْ تَأَکَّلَ بِہِ أَوْ فَخَرَ بِہِ ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مومن وہ ہے جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ وہ سنگترے کی طرح ہے اس کا کھانا بھی پاکیزہ ہے اور اس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا لیکن اس پر عمل کرتا ہے وہ اس کھجور کی طرح ہے۔ اس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال پھول کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے مگر اس کا ذائقہ کڑوا ہے اور جو منافق قرآن نہیں پڑھتا۔ وہ اندرائن کے پھل کی طرح ہے اس کا ذائقہ گندہ ہے اور اس کی بو بھی بڑی ہے۔ “ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہُ بِہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا لاَ أَقُول الم حَرْفٌ وَلَکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِیمٌ حَرْفٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اسکے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہ تاکہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم دوسرا حرف اور لام تیسراحرف ہے۔ “ قیامت کے دن حافظ قرآن کا اعزاز : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَإِنَّ مَنْزِلَکَ عِنْدَ اٰخِرِ اٰیَۃٍ تَقْرَؤُہَا )[ رواہ ابوداود : باب اسْتِحْبَاب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حافظ قرآن کو کہا جائے گا قرآن کو پڑھتے جاؤ اور اوپر چڑھتے جاؤ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھا کرتے تھے۔ قرآن مجید کی آخری آیت کے اختتام پر تیری منزل ہوگی۔ “ مسائل ١۔ کتاب اللہ کی تلاوت کرنی چاہیے۔ ٢۔ کتاب اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے آداب : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھیے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ (الکھف : ٢٧) ٢۔ ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (بنی اسرائیل : ١٠٥) ٣۔ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں۔ (المزمل : ٤) ٤۔ جب قرآن پڑھاجائے تو اسے خاموشی سے سنو۔ (الاعراف : ٢٠٤) ٥۔ قرآن بڑی شان والا ہے اور لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ (الواقعۃ : ٧٧ تا ٧٩) ٦۔ جن کو کتاب دی گئی وہ اس کی تلاوت اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرۃ : ١٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوں یہ قصہ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے اس کے آغاز میں اس کے درمیان میں اور اس کی انتہا میں جا بجا وہ ہدایات ہیں جن کی وجہ سے اس قصے کو قرآن میں جگہ دی گئی ہے۔ دینی اور نظریاتی ہدایات ساتھ ساتھ قصے کا فنی انداز بیان بھی نہایت اعلیٰ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب اللہ تلاوت کرنے اور اللہ سے لو لگانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہنے کا حکم در منثور صفحہ ٢١٣ ج ٤ میں حضرت سلمان فارسی (رض) سے نقل کیا ہے کہ عیینہ بن بدر اوراقرع بن حابس جو مولفتہ القلوب میں سے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ صدر مجلس میں بیٹھتے اور یہ لوگ یعنی سلمان اور ابوذر اور دیگر فقرائے مسلمین سے دور رہتے تاکہ ان کے اونی کپڑوں کی بو نہ آتی تو ہم آپ کے ساتھ بیٹھتے اور آپ سے باتیں کرتے اور آپ سے کچھ حاصل کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے (وَ اتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ سے اَعْتَدْنَا للظّٰلِمِیْنَ نَارًا) تک آیات شریفہ نازل فرمائیں۔ اور حضرت سہل بن حنیف (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ایک گھر میں تھے آپ پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ ) نازل فرمائی اس پر آپ باہر تشریف لائے اور ان لوگوں کو تلاش کیا جن کا آیت کریمہ میں ذکر ہے یعنی جو لوگ صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں یہ فقراء صحابہ تھے ان میں وہ لوگ تھے جن کے بال بکھرے ہوئے تھے اور کھال سوکھی ہوئی تھی اور صرف ایک ہی کپڑا پہنے ہوئے تھے جب آپ نے ان کو دیکھا تو ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور ساتھ ہی یوں کہا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا فرما دئیے جن کے ساتھ مجھے جم کر بیٹھنے کا حکم فرمایا۔ قوموں کے سرداروں اور مالداروں کو اپنی سرداری اور مالداری پر جو غرور اور گھمنڈ ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ اللہ کے نیک بندوں کو حقیر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ چیزیں عارضی ہیں اور فانی ہیں اور ایمان اور اعمال صالحہ آخرت میں کام آنے والی چیزیں ہیں جہاں دائمی زندگی ہوگی اور ایسی نعمتیں ہونگی جو ختم ہونے والی نہیں فانی پر غور کرکے اعمال صالحہ کی مشغولیت رکھنے والوں کو حقیر جاننا بہت بڑی حماقت ہے، جو لوگ چودھری قسم کے تھے اور پوری طرح اسلام قبول نہیں کیا تھا تالیف قلب کے لیے انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دیتے رہتے تھے ایسے لوگوں کو مولفۃ القلوب کہا جاتا تھا ان میں سے بعض وہ لوگ بھی تھے جن کا اوپر ذکر ہوا انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یہ غریب لوگ آپ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں ان کے اون کے کپڑے ہیں ان میں سے بدبو آتی ہے ان کے ساتھ آپ نہ بیٹھیں اگر بیٹھنے کی الگ جگہ ہو تو ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوجایا کریں گے اللہ جل شانہ نے ان لوگوں کی درخواست قبول کرنے سے منع فرما دیا اور یوں فرمایا کہ آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب نازل کی گئی ہے آپ اس کی تلاوت کیا کریں اس کتاب کا تلاوت کرنا لوگوں کو پہنچانا یہ آپ کا کام ہے جو لوگ دنیاوی اعتبار سے بڑے لوگ ہیں اگر ایمان نہ لائیں اور آپ کے پاس بیٹھنے کے لیے کوئی ایسی شرط لگائیں جس میں اہل ایمان کو دور رکھنا پڑتا ہو تو اسے قبول نہ کیجیے اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اللہ تعالیٰ نے جو آپ سے وعدے کیے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے آپ اللہ کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ دلیل وحی :۔ اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس کا ثمرہ بیان فرمایا۔ جس میں دو باتیں واضح کی گئیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر نہیں دوم یہ کہ اللہ کے سوا کوئی مختار و متصرف نہیں۔ گویا کہ یہ ایک دعوی ہے جو دو شقوں پر مشتمل ہے اب یہاں سے اس پر دلیل وحی پیش کی گئی ہے۔ ” اتل “ امر ایجاد فعل کے لیے نہیں بلکہ ابقاء فعل کے لیے ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ اللہ کی وحی سے دلائل توحید پڑھ کر سنانا شروع کردیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وحی اور اللہ کی کتاب سے جس طرح آپ پہلے مسئلہ توحید بیان کر رہے تھے اسی طرح اب بھی کرتے رہیں اور اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ ای لازم تلاوۃ ذلک علی اصحابک (روح ج 15 ص 257) امرہ (علیہ السلام) بالمداومۃ علی دراستہ (ابو السعود ج 5 ص 702) ۔ 34:۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات اور اس کی آیات جن میں مسئلہ توحید بیان کیا گیا ہے وہ اٹل اور محکم ہیں اور انہیں کوئی بدل نہیں سکتا۔ ” و لن تجد من دونہ ملتحدا “ واؤ تعلیل کے لیے ہے اور یہ جملہ ماقبل کی علت ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ اور اس کے سوا کوئی مختار و متصرف نہیں تو اس کی آیات کو بھی کوئی بدلنے والا نہیں۔ ” ملتحدا “ کے معنی جائے پناہ اور ملجا و ماوی کے ہیں یعنی اگر بالفرض آپ یا کوئی اور اللہ کے کلمات میں تبدل و تغیر کا ارادہ کرے تو اسے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ ای ملجا تعدل الیہ ان ہممت بذالک (مدارک ج 3 ص 9) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 اور اے پیغمبر ! آپ کا کام تو صرف اسی قدر ہے کہ آپ کے رب کی جو کتاب وحی کے ذریعے آپ کی جانب اتاری گئی ہے اور آپ کے پاس آئی ہے اس کو پڑھ کر سناتے رہئے اللہ تعالیٰ کی باتوں کو اور اس کے وعدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور آپ اس کے سوا کہیں پناہ کی اور چھپنے کی جگہ نہ پائیں گے۔ یعنی مجرموں اور نافرمانوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ فرمانبرداروں کے لئے البتہ اس کی رحمت وسیع ہے۔ جیسا کہ اصحاب کہف کی مدد اور حمایت کی گئی ہے کسی کے انکار کی جانب توجہ نہ کیجیے ان کو قرآن کریم پڑھ کر سنائیے خدا کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔