Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 39

سورة الكهف

وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ دَخَلۡتَ جَنَّتَکَ قُلۡتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۚ اِنۡ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنۡکَ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ۚ۳۹﴾

And why did you, when you entered your garden, not say, 'What Allah willed [has occurred]; there is no power except in Allah '? Although you see me less than you in wealth and children,

تو نے اپنے باغ میں جاتے وقت کیوں نہ کہا کہ اللہ کا چاہا ہونے والا ہے ، کوئی طاقت نہیں مگر اللہ کی مدد سے اگر تو مجھے مال و اولاد میں اپنے سے کم دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It was better for you to say, when you entered your garden, `That which Allah wills! There is no power but with Allah!' If you see me less than you in wealth, and children. Here he was urging and encouraging him to say that, as if he was saying, "When you entered your garden and looked at it and liked it, why wouldn't you praise Allah for the blessings He gave you and the wealth and children that He has given to you and not to others! Why did you not say `That which Allah wills! There is no power but with Allah!"' One of the Salaf said, "Whoever is delighted with something in his circumstances or his wealth or his children, let him say, `That which Allah wills! There is no power but with Allah!"' This is based on this Ayah. It was reported in the Sahih from Abu Musa that the Messenger of Allah said: أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ Shall I not tell you about some of the treasure of Paradise? لاَا حَوْلَ وَلاَا قُوَّةَ إِلاَّ بِالله There is no power or might but with Allah

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے کہا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت سرکشی اور غرور کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ کہا ہوتا، مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلّا باللّٰہِ یعنی جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے، وہ چاہے تو اسے باقی رکھے اور چاہے تو فنا کر دے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ جس کو کسی کا مال، اولاد یا حال اچھا لگے تو اسے مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِ لّا باللّٰہِ پڑھنا چاہیے (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ ماشاء اللہ کہنا :۔ موحد ساتھی اپنے مشرک ساتھی کو سمجھانے لگا کہ تمہیں چاہیے تو یہ تھا کہ جب تم اپنے باغ میں داخل ہو رہے تھے تو شیخیاں بگھارنے اور اپنے آپ کو مجھ سے بہتر ثابت کرنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کرتے اور کہتے کہ یہ سب کچھ اللہ کی دین ہے مگر تم نے مجھ پر اپنی برتری ثابت کرنا شروع کردی کیا یہ ممکن نہیں کہ اگر میں تمہارے خیال کے مطابق تم سے مال و اولاد میں کم تر ہوں تو اللہ مجھے تیرے باغوں سے بہتر باغ عطا فرما دے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ تمہارے اس تکبر کی سزا کے طور پر اللہ تیرے اس باغ پر کوئی آسمانی آفت بھیج کر اسے خاکستر کر دے یا اس نہر کا پانی ہی خشک کردے تو تمہارا یہ ہرا بھرا باغ تھوڑے ہی عرصہ میں مرجھا کر ویران ہوجائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو اپنی کوئی چیز اچھی لگے تو اسے یہ کلمات کہنے چاہییں : (مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : ( یَا أَبَا ھُرَیْرَۃَ ! أَفَلاَ أَدُلُّکَ عَلٰی کَنْزٍ مِنْ کَنْزِ الْجَنَّۃِ تَحْتَ الْعَرْشِ ، قَالَ قُلْتُ نَعَمْ فِدَاکَ أَبِيْ وَ أُمِّيْ ، قَالَ أَنْ تَقُوْلَ لَا قُوَّۃَ إِلاَّ باللّٰہِ ، قَالَ أَبُوْ بَلْجٍ وَأَصِبُ أَنَّہُ قَالَ : فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ أَسْلَمَ عَبْدِيْ وَاسْتَسْلَمَ ، قَالَ فَقُلْتُ لِعَمْرٍو قَالَ أَبُوْبَلْجٍ قَالَ عَمْرٌو قُلْتُ لِأَبِيْ ھُرَیْرَۃَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ فَقَالَ : لَا إِنَّھَا فِيْ سُوْرَۃِ الْکَھْفِ : (وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) [ مسند أحمد : ٢؍٣٣٥، ح : ٨٤٤٧ ] ” اے ابوہریرہ ! کیا میں تمہیں عرش کے نیچے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ بتاؤں ؟ “ میں نے کہا : ” ہاں ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ! “ فرمایا : ” تم کہو ” لَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ “ ابوبلج راوی کہتے ہیں، میرا گمان ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرا بندہ مطیع ہوگیا اور اس نے اپنا آپ میرے سپرد کردیا۔ “ ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگرد نے پوچھا : ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ “ تو انھوں نے فرمایا : ” نہیں، یہ کلمہ سورة کہف میں ہے : (وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) شعیب ارنؤوط نے کہا کہ یہ روایت عرش کے لفظ کے بغیر صحیح ہے۔ صحیح بخاری میں انس (رض) نے ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ “ کی یہی فضیلت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی ہے۔ [ بخاری، القدر، باب لا حول ولا قوۃ إلا باللہ : ٦٦١٠ ] باقی وہ روایات جن میں یہ کلمات پڑھنے سے نظر بد یا کسی بھی نقصان سے محفوظ رہنے کا ذکر ہے، وہ سب ضعیف ہیں۔ (البانی) مگر ان کی فضیلت کے لیے آیت ہی کافی ہے ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۝ ٠ۚ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا۝ ٣٩ۚ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ماشاء اللہ کہنے کی تعلیم قول باری ہے (ولا از دخلت جنتک قلت ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔ اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ ، لاقوۃ الا باللہ ) اس کی تفسیر میں دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ ” ماشاء اللہ کان (جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا) یہاں لفظ کان حذف کردیا گیا جس طرح اس قول باری میں یہ محذوف ہے (فان استطعت ان تبتخی نفقاً فی الارض او سلماً فی السمآء ۔ اگر تمہارے بس میں ہو کر زمین میں جانے کے لئے کوئی سرگن یا آسمان تک پہنچنے کے لئے کوئی زینہ ڈھونڈ لو) تو ایسا کرلو) یہاں ” فافعل “ (تو ایسا کرلو) محذوف ہے۔ دوسرا قول ہے کہ ” ھو ما شاء اللہ ( یہ وہی ہے جو اللہ نے چاہا) آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب ہم میں سے کوئی ماشاء اللہ کا فقرہ کہتا ہے تو یہ فقرہ نظر لگ جانے سے رکاوٹ بن جاتا ہے، نیز نعمت الٰہی کے تسلسل اور نفی تکبیر کے مفہوم کو متضمن ہوتا ہے اس لئے کہ آیت میں یہ بیان ہے کہ اگر باغ کا مالک یہ فقرہ اپنی زبان سے ادا کرلیتا تو اسے اپنے باغ کی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ قول باری ہے (الا ابلیس کان من الجن مگر ابلیس نے، وہ جنوں میں سے تھا) اس میں یہ بیان ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ جنتا میں سے تھا۔ ارشاد باری ہے (والجان خلقتہ من قبل من نار السموم اور ہم اس سے پہلے جنوں کو گرم آگ سے پیدا کرچکے تھے) اس لئے ابلیس کی جنس فرشتوں کی جنس سے مختلف تھی جس طرح انسان کی جنسی جنات کی جنس سے مختلف ہے۔ ایک روایت کے مطابق فرشتوں کی اصل ہوا ہے جس طرح انسان کی اصل مٹی ہے اور جنات کی اصل آگ ہے ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) تجھے جب باغ میں ہر طرف خوش کن مناظر دیکھنے کو ملے اور پورا باغ پھلوں سے لدا ہوا نظر آیا تو تیری زبان سے ” ما شاء اللہ “ کیوں نہ نکلا اور تو نے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ میرا کمال نہیں بلکہ اللہ کی دین ہے جو اصل طاقت اور اختیار کا مالک ہے ‘ اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ ” ماشاء اللہ “ وہ کلمہ ہے جس میں توحید کوٹ کوٹ کر بھری ہے ‘ کہ جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے کسی اور کے چاہنے سے یا اسباب و وسائل کے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40. That is, If we are able to do anything, it is by the help and support of Allah alone.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :40 یعنی جو کچھ اللہ چاہے وہی ہوگا ۔ میرا اور کسی کا زور نہیں ہے ۔ ہمارا اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو اللہ ہی کی توفیق و تائید سے چل سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:39) ان ترن۔ ان شرطیہ ترن مضارع واحد مذکر حاضر رای یری رای رویۃ سے دیکھنا اصل میں تراینی تھا۔ ان کے آنے سے ی جو کہ حرف علت ہے ساقط ہوگئی ن وقایہ ہے آخر میں ی ضمیر واحد متکلم محذوف ہے ۔ ان ترن اگر تو مجھے دیکھتا ہے۔ اقل منک۔ اقل قلۃ سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے بمعنی زیادہ کم۔ مالا وولدا۔ تمیز ہے۔ ان ترن انا اقل منک مالا وولدا۔ تاکید ضمیر واحد متکلم یکے لئے آیا ہے اگر تو مال واولاد میں مجھے اپنے سے کمتر دیکھتا ہے۔ فعسی ربی۔۔ حنتک۔ جملہ ان ترن۔۔ ولدا شرطیہ ہے اور جملہ فعسی۔۔ جنتک قائم مقام جواب شرط ہے ہر دو جملوں کے درمیان فلا باس مقدر ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے ان ترن انا اقل منک مالا وولدا فلا باس عسی ربی ان یؤتین خبرا من جنتک اگر تو مجھے مال اولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتا ہے۔ تو کوئی مضائقہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میرا پروردگار تیرے باغ سے کوئی بہتر چیز عطا فرما دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کسی نعمت کے حاصل ہونے یا کسی چیز کے بھلا لگنے پر ماشاء اللہ لاح ول لاقوۃ الا باللہ کہنے کی فضیلت میں متعدد احادیث اور سلف کے متعدد آثار ثابت ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ گھر مال یا اولاد کسی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو دیکھ کر یہ کلمہ پڑھ لیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہر آفت سے اس کی حفاظت فرماتا ہے گو موت سے بچائو نہیں ہوسکتا۔ نیز احادیث میں لا حول ولا قوت الا باللہ کی بہت فضیلت آئی ہے اور اسے خزانہ الٰہی کی ایک چیز قرار دیا ہے اور ہموم و افکار کا علاج بھی بتایا ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکر کو اس کے ایمان دار ساتھی کی مزید نصیحتیں۔ صاحب ایمان ساتھی نے آخرت کے منکر کو پانچ نصیحتیں کیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد ہر انسان کو اس کے باپ کے نطفے سے پیدا کیا۔ اے میرے ساتھی تجھے بھی ” اللہ “ نے ایک نطفے سے پیدا فرماکر کامل انسان بنایا ہے۔ ٢۔ تو مانے یا نہ مانے میر اعقیدہ تو یہ ہے کہ آدمی کو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٣۔ لہلہاتا ہواباغ دیکھ کر غرورو تکبر کرنے کی بجائے تجھے ” ماشاء اللہ، لاقوۃ الا باللہ “ کہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کوئی چیز پیدا کرنے اور دینے کی طاقت نہیں ہے۔ وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ ٤۔ تو مجھے غریب اور حقیر سمجھتا ہے کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے ہوسکتا ہے میر ارب مجھے تیرے باغ سے بہتر باغ عنایت فرمادے۔ ٥۔ یہ بھی ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی آفت بھیج دے کر تیرا باغ نیست و نابود کردے یا اس میں جاری چشمے کا پانی اس قدر نیچے لے جائے کہ تو اسے کسی طرح بھی حاصل نہ کرسکے۔ ” فرما دیجیے کہ دیکھو اگر تمہارا پانی خشک ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہا لائے۔ “ (الملک : ٣٠) وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمُ وَلَاجِلْدَ مَخْبَأَۃٍ قَالَ فَلَبِطَ سَہْلٌ فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقِیْلَ لَہٗ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ہَلْ لَکَ فِیْ سَہْلِ بْنِ حَنَیْفٍ ؟ وَاللّٰہِ مَا یَرْفَعُ رَأْ سَہٗ فَقَالَ ہَلْ تَتَّہِمُوْنَ لَہٗ أَحَدًا ؟ فَقَا لُوْا نَتَّہِمُ عَامِرَ بْنَ رَبِیْعَۃَ قَالَ فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَامِرًا فَتَغَلَّظَ عَلَیْہِ وَقَالَ عَلاَمَ یَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ ؟ أَلاَ بَرَکْتَ ؟ اِغْتَسِلْ لَہٗ فَغَسَلَ لَہٗ عَامِرٌ وَجَہْہٗ وَیَدَیْہِ وَمِرْفَقَیْہِ وَرُکْبَتَیْہِ وَأَطْرَافُ رِجْلَیْہِ وَدَاخِلۃٌ إِزَارُہٗ فِیْ قَدَحٍ ثُمَّ صُبَّ عَلَیْہِ فَرَاحَ مَعَ النَّاسِ لَیْسَ لَہٗ بَأْسٌ) [ رواہ فی شرح السنۃ ورواہ مالک ] ” حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے کہا۔ اللہ کی قسم ! میں نے آج تک اس جیسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ ایسا خوبصورت جسم دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں اس بات پر سہل زمین پر گرپڑے۔ سہل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا۔ لانے والوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! سہل کو دیکھیں اللہ کی قسم ! یہ سر نہیں اٹھا سکتا۔ آپ نے پوچھا کیا تم کسی کو الزام دیتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم عامر بن ربیعہ پر الزام لگاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور ڈانٹ کر فرمایا۔ کیوں تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے ؟ تم نے اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہ کی ؟ اس کے لیے غسل کرو۔ عامر نے اپنا چہرہ، ہاتھ، کہنیاں، گھٹنے اور پاؤں دھوئے اور اپنی چادر کو برتن میں ڈالا۔ وہ پانی سہل پہ انڈیلا گیا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہوگئے جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ ہو۔ “ مسائل ١۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء سے ہوتا ہے۔ ٢۔ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بہتر امید رکھنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے لہلہاتے باغات کو چٹیل مید ان بنا دے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو پانی کو نیچے لے جائے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ قطروس جب باغ میں داخل ہوا وہ دولت کے نشے میں ایسا مدہوش تھا کہ خدا کو بھی بھول گیا اور قیامت کا بھی انکار کر بیٹھا اور اپنی دولت پر لگا اترانے، اس پر اس کے بھائی نے اسے نصیحت کی کہ جب تو باغ میں داخل ہوا تھا تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا جس نے یہ سب نعمتیں تجھے عطا فرمائی ہیں۔ ” ما شاء اللہ “ اور جو کچھ اس باغ میں ہے سب اللہ کی مہربانی اور اس کی مشیت سے ہے اور یہ سب کچھ اسی کے قبضہ و تصرف میں ہے چاہے آباد رکھے چاہے برباد کردے۔ کل ما فیہا انما حصل بمشیۃ اللہ وان امرھا بیدہ ان شا 4 ترکہا عامرۃ وان شاء خر بھا (مدارک ج 3 ص 11) ۔ شاید قطروس نے مشیت میں اللہ کے ساتھ کسی اپنے معبود کو شریک کیا ہو جیسا کہ آج کل بھی جاہل لوگ کہتے ہیں ” جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے چاہا “۔ حالانکہ یہ کلمہ شرک ہے۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص کی زبان سے نکل گیا۔ کما شاء اللہ ورسولہ۔ اس پرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے تنبیہ فرمائی اور فرمایا قولوا ماشاء اللہ وحدہ یوں کہا کرو۔ جس طرح صرف اللہ نے چاہا۔ لا قوۃ الا باللہ۔ نعمتیں عطا کرنے کے بعد چھین لینے کی طاقت و قوت صرف اللہ کے پاس ہے۔ جن بزرگوں کو تو نے اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے ان کے پاس کچھ نہیں جس اللہ نے تجھے یہ باغات اور یہ سامان تعیش عطا فرمایا ہے وہ اس کے چھین لینے اور اسے آن واحد میں تباہ و برباد کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ 48:۔ یہ سب یہوذا کا کلام ہے۔ ” حسباناً “ سے عذاب الہی مراد ہے۔ ” صعیدا زلقا “ چٹیل میدان جس میں کوئی روئیدگی نہ ہو۔ و حضا الانبات فیہ (مفردات ص 214) ۔ یعنی اگر تو کثرت مال اولاد پر فخر کر رہا ہے اور مجھے ان چیزوں کی کمی کی وجہ سے حقیر سمجھتا ہے تو سن لے کہ مال و اولاد چند روزہ دنیوی زندگی کی آنی فانی اور ناپائیدار زینت ہے، یہ فخر و مباہات کی چیز نہیں، اگر آج تو زر و جواہر میں کھیل رہا ہے اور اپنے باغوں پر اتراتا پھر رہا ہے اور میں مال اولاد میں تم سے کم ہوں تو جس خدائے بلندی و پستی نے تجھے دولت دی اور مجھے نہیں وہ ایسا بھی کرسکتا ہے کہ جو کچھ اس نے تجھے دیا ہے مجھے اس سے بھی زیادہ عطا فرما دے اور تیرے باغ کو طوفانِ برق وباد سے نیست نابود کردے یا زمین کا پانی خشک کردے اور تیرے باغات اور سرسبز و شاداب کھیت برباد ہوجائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39 اور تو جس وقت اپنے باغ میں داخل ہوا تھا تو تو نے یوں کیوں نہیں کہ جو اللہ چاہتا ہے اور جو اس کو منظور ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد اور استعانت کے بغیر کسی میں کوئی زور اور قوت نہیں ہے اگر تو مجھ کو دیکھتا ہے کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم تر ہوں۔