Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 56

سورة الكهف

وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ وَ یُجَادِلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِیُدۡحِضُوۡا بِہِ الۡحَقَّ وَ اتَّخَذُوۡۤا اٰیٰتِیۡ وَ مَاۤ اُنۡذِرُوۡا ہُزُوًا ﴿۵۶﴾

And We send not the messengers except as bringers of good tidings and warners. And those who disbelieve dispute by [using] falsehood to [attempt to] invalidate thereby the truth and have taken My verses, and that of which they are warned, in ridicule.

ہم تو اپنے رسولوں کو صرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبریاں سنا دیں اور ڈرادیں ۔ کافر لوگ باطل کے سہارے جھگڑتے ہیں اور ( چاہتے ہیں ) کہ اس سے حق کو لڑا کھڑا دیں ، انہوں نے میری آیتوں کو اور جس چیز سے ڈرایا جائے سے مذاق بنا ڈالا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلاَّ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ... And We send not the Messengers except as bearers of good news and warners. before the punishment they give good news to those who believe in them and follow them, and warnings to those who reject them and oppose them. Then Allah tells us about the disbelievers: ... وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا ... But those who disbelieve, argue ... بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ ... with falsehood, in order to refute the truth thereby. they try to weaken the truth that the Messengers brought, but they cannot achieve that. ... وَاتَّخَذُوا ايَاتِي وَمَا أُنذِرُوا هُزُوًا And they take My Ayat and that which they are warned for jest! they take the proof, evidence and miracles sent with the Messengers to warn them, and make them fear the punishment; هُزُوًا (as a jest and mockery), and they make fun of them, which is the worst type of disbelief.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 اور اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑانا، یہ جھٹلانے کی بدترین قسم ہے۔ اس طرح جدال بالباطل کے ذریعہ سے (یعنی باطل طریقے اختیار کر کے) حق کو باطل ثابت کرنے کی سعی کرنا بھی نہایت مذموم حرکت ہے۔ اس جدال بالباطل کی ایک صورت یہ ہے جو کافر رسولوں کو یہ کہہ کر ان کی رسالت انکار کردیتے رہے ہیں کہ تم ہمارے جیسے ہی انسان ہو۔ ما انتم الا بشر مثلنا۔ یسین۔ ہم تمہیں رسول کس طرح تسلیم کرلیں ؟ دحض۔ کے اصل معنی پھسلنے کے ہیں کہا جاتا ہے دحضت رجلہ اس کا پیر پھسل گیا یہاں سے یہ کسی چیز کے زوال اور بطلان کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہتے ہیں دحضت حجتۃ دحوضا ای بطلت اس کی حجت باطل ہوگئی اس لحاظ سے ادحض یدحض کے معنی ہوں گے باطل کرنا (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] کافروں کا بےہودہ سوالوں سے رسولوں سے جھگڑا کرنا :۔ رسولوں کا اصل کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر جو پیغام نازل ہوا اس کے مطابق فرماں برداروں کو جنت کی خوش خبری سنائیں اور نافرمانوں کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ یا اللہ کے احکام پر عمل کرکے لوگوں کو دکھادیں ان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ کافروں کے مطلوبہ معجزے پورے کرکے دکھائیں اور کافر اور منکرین حق جو پیغمبروں سے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں یا ان کا امتحان لینے کے لیے ان سے طرح طرح کے سوال کرتے ہیں تو اس سے ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ اگر وہ معجزہ دکھلا دیا جائے یا ان کے سوالوں کا جواب دے دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے بلکہ وہ تو اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح پیغمبر اور اس کی دعوت کو جھٹلایا جاسکے یا اگر ایسا نہ ہوسکے تو آیات الٰہی کا مذاق اڑا کر اور مسلمانوں پر پھبتیاں کس کر اپنا جی ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ ۔۔ : یعنی رسولوں کا کام بشارت و نذارت ہے، عذاب لانا یا نہ لانا ان کے اختیار میں نہیں اور کافر لوگ باطل کے ذریعے سے جھگڑا کرکے حق کو شکست دینا چاہتے ہیں، مثلاً یہ کہ تم رسول ہو تو صفا پہاڑ سونے کا بنادو وغیرہ، حالانکہ یہ نہ رسول کا کام ہے نہ اس کے اختیار میں ہے۔ دوسرے کئی مقامات پر فرمایا کہ کافروں کی یہ خواہش نہ کبھی پوری ہوگی اور نہ اللہ کا نور پھونکوں سے بجھایا جاسکے گا۔ دیکھیے توبہ (٣٢) اور شوریٰ (١٦) ۔ وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ ۔۔ : اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کو مذاق بنا لینا جھٹلانے کی بد ترین صورت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝ ٠ۚ وَيُجَادِلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوْٓا اٰيٰتِيْ وَمَآ اُنْذِرُوْا ہُزُوًا۝ ٥٦ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ دحض قال تعالی: حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] ، أي : باطلة زائلة، يقال : أدحضت فلانا في حجّته فَدَحَضَ ، قال تعالی: وَيُجادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْباطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ [ الكهف/ 56] ، وأدحضت حجّته فَدَحَضَتْ ، وأصله من دحض الرّجل، وعلی نحوه في وصف المناظرة نظرا يزيل مواقع الأقدام ... «3» ودحضت الشمس مستعار من ذلك . ( د ح ض ) داحضۃ ۔ اسم فاعل ) باطل اور زائل ہونے والی ( دلیل ) قرآن میں ہے :۔ حُجَّتُهُمْ داحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الشوری/ 16] ان کے پروردگار کے نزدیک ان کی دلیل بالکل بودی ہے ۔ کہاجاتا ہے ادحضت فلانا فی حجتہ فدحض وادحضت حجتہ ۔ فدحضت ( میں نے اس کی دلیل کو باطل کیا تو وہ باطل ہوگئی ) قرآن میں ہے :۔ وَيُجادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْباطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ [ الكهف/ 56] اور جو کافر ہیں ، وہ باطل ( سے استدلال کرکے ) جھگڑا کرتے ہیں تاکہ اس سے حق کو اس کے مقام سے پھسلا دیں ۔ اصل میں یہ دحض الرجل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی پاؤں پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کے ہیں ۔ اس بنا پر مناظرہ کے بارے میں کسی نے کہا ہے ع ( الکامل ) (151) نظرا یزیل مواقع الاقدام ایسی نظر جو قدموں کو ان کی جگہ سے پھسلا دے ۔ اور بطور استعارہ دحضت الشمس کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معني سورج ڈھلنے کے ہیں حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ هزؤ والاسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ( ھ ز ء ) الھزء الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) اور رسولوں کو تو ہم صرف مسلمانوں کو جنت کی بشارت دینے اور کافروں کو دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا کرتے ہیں۔ اور رسولوں اور کتابوں کے منکر شرکیہ باتیں تراش کر جھگڑے نکالتے ہیں تاکہ اس باطل کے ذریعے حق اور ہدایت کو بچلا دیں اور انہوں نے میری کتاب اور میرے رسول کو اور جس عذاب سے ان کو ڈرایا گیا ہے محض دل لگی اور مذاق بنا رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ) یہ مضمون جو یہاں سب رسولوں کے متعلق جمع کے صیغے میں آیا ہے سورة بنی اسرائیل میں حضور کے لیے صیغۂ واحد میں یوں آیا ہے : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ الاَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا) ” اور (اے محمد ! ) ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر مبشر اور نذیر بنا کر۔ “ (وَيُجَادِلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ ) یہ لوگ باطل کے ساتھ کھڑے ہو کر حق کو شکست دینے کے لیے مناظرے اور کٹ حجتیاں کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. This verse has two meanings. (1) We send Our Messengers to forewarn the people before the coming of the judgment of the good results of obedience and the evil consequences of disobedience. But these foolish people are not taking advantage of these forewarnings and insist on seeing the same evil end from which the Messengers desire to save them. (2) If they insist on meeting with the scourge, they should not demand this from the Messenger because the Messenger is sent not to bring a scourge but to warn the people beforehand to escape from it.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :53 اس آیت کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں چسپاں ہوتے ہیں : ایک یہ کہ رسولوں کو ہم اسی لیے بھیجتے ہیں کہ فیصلے کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو فرماں برداری کے اچھے اور نافرمانی کے برے انجام سے خبردار کریں ۔ مگر یہ بے وقوف لوگ ان پیشگی تنبیہات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے اور اسی انجام بد کو دیکھنے پر مصر ہیں جس سے رسول انہیں بچانا چاہتے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو عذاب ہی دیکھنا منظور ہے تو پیغمبر سے اس کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ پیغمبر عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ عذاب سے پہلے صرف خبردار کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:56) لیدحضوا۔ لام تعلیل کا۔ یدحضوا مضارع جمع مذکر منصوب۔ بوجہ عمل لام۔ بمعنی لیزیلوا ویبطلوا کہ وہ زائل کردیں یا باطل کردیں ادحاض (افعال) سے مصدر باطل کرنا۔ یا زائل کرنا۔ بہ میں ہٖ ضمیر واحد مذکر غائب کافرین کے مجادلہ کے لئے ہے۔ ای بالجدال۔ الحق۔ منصوب بوجہ مفعول ہونے کے ہے کہ اپنی کٹ حجتی سے حق کو باطل کردیں۔ وما انذروا۔ میں بہ مضمر ہے عبارت یوں ہے وما انذروا بہ ای القرآن۔ جس سے ان کو ان کے اعمال بد کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ انذروا ماضی مجہول جمع مذکر غائب ان کو ڈرایا گیا۔ یا وہ ڈرائے گئے۔ انذار۔ مصدر۔ ھزوا۔ مصدر۔ بمعنی اسم مفعول۔ وہ جس کا مذاق اڑایا جائے۔ ھزء مذاق۔ دل لگی۔ ھزء مادہ۔ الھزء کے معنی اندرونی طور پر کسی کا مذاق اڑانا کے ہیں اور کبھی یہ مذاق کی طرح گفتگو پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ قصدامذاق اڑانے کے معنی میں آیا ہے اتخذوھا ھزوا ولعبا (5:58) یہ اسے بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔ باب استفعال سے استھزاء کے معنی اصل میں طلب ھزء کو کہتے ہیں لیکن اس کے معنی مذاق اڑانا کے بھی آتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کی اکثر مثالیں ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 مثلاً یہ کہ رسولوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری طرح کے انسان ہو۔ بھلا انسان کو بھی اللہ اپنا رسول بنا کر بھیج سکتا ہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اقوام کو دنیا کی ہلاکت اور آخرت کے عذاب سے بچانے کے لیے انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ لیکن لوگوں نے ان کے ساتھ جھگڑا کیا۔ قرآن مجید نے انبیاء کی تشریف آوری کا مقصد بیان کرتے ہوئے کئی بار وضاحت فرمائی ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ وہ حق قبول کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دیں اور حق ٹھکرانے والوں کو دنیا میں ہلاکت اور آخرت کے عذاب سے ڈرائیں۔ لیکن حق کا انکار کرنے والے ناجائز طریقوں اور باطل دلیلوں کے ساتھ انبیاء کرام کے ساتھ جھگڑتے رہے تاکہ حق کو ناحق ثابت کرسکیں۔ انبیاء جو باتیں ڈرانے کے لیے ان سے کرتے تھے۔ انہوں نے اس کو بھی استہزاء کا کا نشانہ بنایا۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے اور قیامت کے حوالے سے اپنے اعمال اور انجام کو بھول جائے اس سے بڑھ کر بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے ؟ ایسے لوگ جھوٹے دلائل اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ساتھ حق کو اس لیے دباتے اور انبیاء سے استہزاء کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ناراض ہو کر ان کے کا نوں میں حق کے بارے میں ناگواری کا بوجھ ڈال اور ان کے دلوں کو فہم و فراست کی صلاحیت سے عاری کردیا ہے اب ان کے دلوں پر پردہ ہے ان کے کان حق بات سننے کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ اگر تم ان کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ کبھی بھی ہدایت قبول نہیں کریں گے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمان ہے۔ مسائل ١۔ رسولوں کو خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے بھیجا گیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور رسولوں سے کفار مذاق کرتے تھے۔ ٣۔ اس شخص سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ کی آیات سے اعراض کرتا ہے۔ ٤۔ کفار کے دل اور کانوں پر پردے ہیں وہ حق کو سنتے اور پہچانتے نہیں۔ ٥۔ اگر کفار کو ہدایت کی طرف بلایا جائے تو وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن سب سے بڑا ظالم کون ؟ ١۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جسے اللہ کی آیات سمجھائی گئیں لیکن اس نے اعراض کیا۔ (الکھف : ٥٧) ٢۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ کی مسجدوں سے روکتا ہے کہ ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے۔ (البقرۃ : ١١٤) ٣۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو شہادت حق کو چھپاتا ہے۔ (البقرۃ : ١٤٠) ٤۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الانعام : ٢١) ٥۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حق واضح ہے ، لیکن اہل کفر باطل ہتھیاروں سے حق کو مغلوب کرنا چاہتے ہیں اور حق کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اہل باطل جو خارق عادت معجزات طلب کرتے ہیں یا یہ لوگ عذاب کے مطالبے میں جلدی کرتے ہیں۔ یہ اس لئے نہیں کرتے کہ ان کو اطمینان ہوجائے بلکہ یہ لوگ اللہ کی آیات کے ساتھ مذاقک رتے ہیں اور رسولوں کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ یہ سوال مقدر کا جواب ہے، مشرکین نے کہا جب ہم نہیں مانتے تو ہمیں فوری عذاب سے ہلاک کیوں نہیں کردیا جاتا تو فرمایا ہم رسول اس لیے بھیجتے ہیں تاکہ وہ ہمارے احکام کی تبلیغ کریں ماننے والوں کو خوشخبری سنائیں اور منکرین کو عذاب سے ڈرائیں تاکہ ان پر ہماری حجت قائم ہوجائے اس کے بعد بھی نہ مانیں تو پھر عذاب آئے گا۔ 61:۔ یہ کفار مجادلین پر زجر ہے، ” بالباطل “ میں با سببیہ ہے اور باطل سے شبہات واہیہ، شکوک باطلہ اور من گھڑت قصے مراد ہیں۔ یعنی یہ لوگ باطل شے پیش کر کے حق کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے میری آیتوں کو اور میری طرف سے عذاب و عقاب کی دھمکیوں کو محض استہزاء و تمسخر کا نشانہ بنا رکھا ہے، ” و ما انذروا “ میں واؤ بمعنی مع اور عائد محذوف ہے یعنی ” بہ “ اور ” ما انذروا بہ “ سے مراد عذاب ہے یا قرآن مجید اس صورت میں آیات سے مراد معجزات ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56 اور ہم رسولوں کو نہیں بھیجا کرتے مگر بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا کرتے ہیں اور کافر لوگ لغو اور ناحق کی باتیں اور رکیک شبہات پیدا کر کے جھگڑے کرتے ہیں تاکہ اس جھگڑے کی وجہ سے حق کو اس کی جگہ سے ہٹا دیں اور بچلا دیں اور ان کافروں نے میری آیتوں اور اس عذاب کو جس سے ان کو ڈرایا گیا ہے ایک مذاق اور دل لگی بنا رکھا ہے۔ یعنی رسولوں کا عذاب کے آنے یا نہ آنے سے کوئی تعلق نہیں ان کا کام تو صرف بشارت اور انداز ہے یعنی جھوٹی باتیں نکال کر جھگڑا کرتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ جھوٹے جھگڑوں سے حق کو ڈگمگا دیں اور حق کی آواز کو پست کردیں تو ایسا ہونے والا نہیں اور کلام الٰہی اور عذاب الٰہی کا مذاق اڑانے کا انہوں نے شیوہ اختیار کر رکھا ہے۔