Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 57

سورة الكهف

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعۡرَضَ عَنۡہَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَدۡعُہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی فَلَنۡ یَّہۡتَدُوۡۤا اِذًا اَبَدًا ﴿۵۷﴾

And who is more unjust than one who is reminded of the verses of his Lord but turns away from them and forgets what his hands have put forth? Indeed, We have placed over their hearts coverings, lest they understand it, and in their ears deafness. And if you invite them to guidance - they will never be guided, then - ever.

اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وہ پھر بھی منہ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے ، بیشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے ( نہ ) سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے ، گو تو انہیں ہدایت کی طرف بلاتا رہے ، لیکن یہ کبھی بھی ہدایت نہیں پانے کے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Worst People are Those Who turn away after being reminded Allah says, وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِأيَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا ... And who does more wrong than he who is reminded of the Ayat (signs) of his Lord, but turns away from them, Allah says, `Who among My creatures does more wrong than one who is reminded of the signs of Allah then turns away fr... om them,' i.e., ignores them and does not listen or pay attention to them. ... وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ ... forgetting what his hands have sent forth. means, bad deeds and evil actions. ... إِنَّا جَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ ... Truly, We have set over their hearts, means, the hearts of these people, ... أَكِنَّةً ... Akinnah, means, coverings. ... أَن يَفْقَهُوهُ ... lest they should understand this, means, so that they will not understand this Qur'an and its clear Message. ... وَفِي اذَانِهِمْ وَقْرًا ... and in their ears, deafness. means that they will be deaf in an abstract way, to guidance. ... وَإِن تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَى فَلَن يَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا And if you call them to guidance, even then they will never be guided.   Show more

بد ترین شخص کون ہے ؟ فی الحقیقت اس سے بڑھ کر پاپی کون ہے ؟ جس کے سامنے اس کے پالنے پوسنے والے کا کلام پڑھا جائے اور وہ اس کی طرف التفات تک نہ کرے اس سے مانوس نہ ہو بلکہ منہ پھیر کر انکار کر جائے اور بدعملیاں اور سیاہ کاریاں اس سے پہلے کی ہیں انہیں بھی فراموش کر جائے ۔ اس ڈھٹائی کی سزا یہ ہوتی ہے...  کہ دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں پھر قرآن و بیان کا سمجھنا نصیب نہیں ہوتا کانوں میں گرانی ہو جاتی ہے بھلی بات کی طرف توجہ نہیں رہتی اب لاکھ دعوت ہدایت دو لیکن راہ یابی مشکل و محال ہے ۔ اے نبی تیرا رب بڑا ہی مہربان بہت اعلیٰ رحمت والا ہے اگر وہ گنہگار کی سزا جلدی ہی کر ڈالا کرتا ، تو زمین پر کوئی جاندار باقی نہ بچتا وہ لوگوں کے ظلم سے درگزر کر رہا ہے لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پکڑے گا ہی نہیں ۔ یاد رکھو وہ سخت عذابوں والا ہے یہ تو اس کا حلم ہے پردہ پوشی ہے معافی ہے تاکہ گمراہی والے راہ راست پر آ جائیں گناہوں والے توبہ کرلیں اور اس کے دامن رحمت کو تھام لیں ۔ لیکن جس نے اس حلم سے فائدہ اٹھایا اور اپنی سرکشی پر جما رہا تو اس کی پکڑ کا دن قریب ہے جو اتنا سخت دن ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے حمل گر جائیں گے اس دن کوئی جائے پناہ نہ ہو گی کوئی چھٹکارے کی صورت نہ ہو گی ۔ یہ ہیں تم سے پہلے کی امتیں کہ وہ بھی تمہاری طرح کفر و انکار میں پڑ گئیں اور آخرش مٹا دی گئیں ان کی ہلاکت کا مقررہ وقت آ پہنچا اور وہ تباہ برباد ہو گئیں ۔ پس اے منکرو تم بھی ڈرتے رہو تم اشرف الرسل اعظم ہی کو ستا رہے اور انہیں جھٹلا رہے ہو حالانکہ اگلے کفار سے تم قوت طاقت میں سامان اسباب میں بہت کم ہو میرے عذابوں سے ڈرو میری باتوں سے نصیحت پکڑو ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی ان کے اس ظلم عظیم کی وجہ سے کہ انسان نے رب کی آیات سے اعراض کیا اور اپنے کرتوتوں کو بھولے رہے، ان کے دلوں پر ایسے پردے اور ان کے کانوں پر ایسے بوجھ ڈال دیئے گئے ہیں، جس سے قرآن کا سمجھنا، سننا اور اس سے ہدایت قبول کرنا ان کے لئے ناممکن ہوگیا۔ ان کو کتنا بھی ہدایت کی طرف بلا لو، یہ کبھی بھ... ی ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] یعنی جب کوئی انسان ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے اور حق کے مقابلہ میں جھوٹ اور مکر و فریب کے ہتھکنڈوں سے کام لینا چاہتا ہے مگر اسے حق بات کو قبول کرلینا کسی قیمت پر گوارا نہیں ہوتا تو ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق متعدد مقامات پر مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی اللہ ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتا ہ... ے یا مہر لگا دیتا ہے یا قفل چڑھا دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب ان کے دل حق کو قبول کرنے پر قطعاً تیار نہ ہوں گے نہ ہی ان کے کان حق بات سننے پر آمادہ ہوتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ۔۔ : یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جس جس کے متعلق آیا ہے وہ سب ایسے ہیں کہ ان سے بڑا ظالم کوئی نہیں، مثلاً اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ دیکھیے سورة کہف (١٥) ۔ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً...  ۔۔ : ” اَكِنَّةً “ ” کِنَانٌ“ کی جمع ہے، پردے۔ ” وَقْرًا “ کا معنی ہے بوجھ، بہرا پن۔ یعنی جب کوئی شخص کسی کے سیدھی طرح سمجھانے سے کوئی اثر نہیں لیتا، بلکہ جانتے بوجھتے ہٹ دھرم اور جھگڑالو بن جاتا ہے، اللہ کی واضح آیات کا مذاق اڑاتا ہے اور اپنے کرتوتوں اور ان کے برے نتائج سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتا تو آخر کار اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر پردہ پڑجاتا ہے اور اس کے کان حق بات سننے سے بہرے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اسے سیدھی راہ کی طرف بلائے بھی تو ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس کی یہ کیفیت اگرچہ اس کے اپنے عمل سے پیدا ہوتی ہے، مگر خالق چونکہ ہر چیز کا اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے اس کیفیت کے پیدا کرنے کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کردیا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدٰہُ۝ ٠ۭ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝ ٠ۭ وَاِنْ تَدْعُہُمْ اِلَى الْہُدٰى فَلَنْ يَّہْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا۝ ٥٧ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّ... غة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ كن الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] . وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] . والکِنَانُ : الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ. نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة . ( ک ن ن ) الکن ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ الکنان ۔ پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔ فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ وقر الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] والوَقْرُ : الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] قيل : هو من الوَقَارِ. وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها . ( و ق ر ) الوقر ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب/ 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) اور اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جس کو اس کے رب کی آیات سے نصیحت کی جائے اور پھر اس سے انکار کے ساتھ روگردانی کرے اور جو کچھ اپنے ہاتھوں گناہ سمیٹ رہا ہے اس کے نتیجہ کو بھول جائے، ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں تاکہ یہ حق اور ہدایت کی بات ہی نہ سمجھ سکیں اور ان باتوں کے سمجھنے سے ان کے کانو... ں میں ڈاٹ دے رکھے ہے اور اگر آپ ان کو توحید کی طرف بلائیں تو یہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ ) بجائے ایمان لانے کے اور اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کرنے کے اس نے اللہ کی آیات سے روگردانی کی روش اپنائے رکھی۔ اس ضد اور ہٹ دھرمی میں وہ اپنے اعمال کے اس جھاڑ جھنکاڑ کو بھی بھول گیا جو اس نے اپ... نی آخرت کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ (اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا) یہ مضمون سورة بنی اسرائیل میں اس طرح آچکا ہے : (وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا) ” اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے لوگوں کے درمیان پردہ حائل کردیتے ہیں۔ “ (وَاِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ يَّهْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا) کیونکہ حق واضح ہوجانے بعد ان کی مسلسل ہٹ دھرمی کے سبب ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں اور اس طرح وہ اللہ کے قانون ہدایت و ضلالت کی آخری دفعہ کی زد میں آ چکے ہیں جس کے تحت جان بوجھ کر حق سے اعراض کرنے والے کو ہمیشہ کے لیے ہدایت سے محروم کردیا جاتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. Allah puts a covering over the heart of a person and makes his ears hard of hearing the truth when he adopts the attitude of contention, dispute, wrangling and argumentation towards the admonition of a well wisher and tries to defeat the truth with the weapons of falsehood and cunning. Naturally this attitude produces in him obduracy and obstinacy so that he turns a deaf ear towards guidance, ... and is unwilling to realize his error before seeing his evil end. For such people pay no heed to admonition and warning and insist on falling into the abyss of perdition: then and then alone they are convinced that it was perdition towards which they were rushing headlong.  Show more

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :54 یعنی جب کوئی شخص یا گروہ دلیل و حجت اور خیر خواہانہ نصیحت کے مقابلے میں جھگڑالو پن پر اتر آتا ہے ، اور حق کا مقابلہ جھوٹ اور مکر و فریب کے ہتھیاروں سے کرنے لگتا ہے ، اور اپنے کرتوتوں کا برا انجام دیکھنے سے پہلے کسی کے سمجھانے سے اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوتا ، تو...  اللہ تعالیٰ پھر اس کے دل پر قفل چڑھا دیتا ہے اور اس کے کان ہر صدائے حق کے لیے بہرے کر دیتا ہے ۔ ایسے لوگ نصیحت سے نہیں مانا کرتے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گر کر ہی انہیں یقین آتا ہے کہ وہ ہلاکت تھی جس کی راہ پر وہ بڑھے چلے جا رہے تھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:57) اکنۃ جمع کنان واحد۔ پردے۔ غلاف۔ الکن ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ کیا جائے کننت الشیء کنا کسی چیز کو کن میں محفوظ کردیا۔ کننت (ثلاثی مجرد) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شے کو گھر یا کپڑے میں چھپانے پر بولا جاتا ہے۔ جیسے قرآن پاک میں آتا ہے کانہن بیض مکنون (37:49) گویا وہ چھپائے ہوئے محفوظ انڈ... ے ہیں۔ باب افعال سے کسی بات کو دل میں چھپانے پر بولا جاتا ہے مثلاً او اکننتم فی انفسکم (2:235) یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو۔ ک ن ت مادہ۔ ان یفقہوہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب القران کے لئے ہے۔ کہ اسے سمجھ سکیں ۔ مراد اس سے یہ ہے لئلا یفقہوہ کہ وہ اسے سمجھ نہ سکیں۔ فی اذانہم وقرا۔ ای وجعلنا فی اذانہم وقرا۔ اور ہم نے ان کے کانوں میں ڈاٹ دے رکھی ہے۔ یا گرانی پیدا کر رکھی ہے۔ وقرا۔ اسم مصدر منصوب ۔ بمعنی ثقل۔ گرانی، بہرہ پن۔ وقار (باب کرم) عزت و عظمت۔ لن یھتدوا۔ مضارع منفی تاکید بلن۔ جمع مذکر غائب و ہ ہرگز ہدایت نہیں پائیں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی جب کوئی شخص کسی کے سیدھی طرح سمجھانے سے کوئی اثر نہیں لیتا بلکہ جانتے بوجھتے ہٹ دھرمی اور جھگڑا لو پن پر اتر آتا ہے۔ اللہ کی واضح آیات کا مذاق اڑاتا ہے اور اپنے کرتوتوں اور ان کے برے نتائج سے بھی کوئی سابق حاصل نہیں کرتا تو آخر کار اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر پردہ پڑجاتا ہے اور اس...  کے کان حق بات سننے سے بہرے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص اس کو سیدھی راہ کی طرف بلائے بھی نوٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس کی یہ کیفیت اس کے اپنے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ مگر خلاق چونکہ ہر چیز کا اللہ ہے اس لئے اس کیفیت کو پیدا کرنے کے فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 59 ذکر یاد دلایا گیا۔ اعرض اس نے منہ پھیر اپنی ۔ نسی وہ بھول گیا۔ قدمت آگے بھیجا۔ اکنۃ پردہ۔ ان یفقھوہ یہ کہ وہ اس کو سمجھے۔ اذا اس وقت۔ کسبوا انہوں نے کمایا۔ عجل اس نے جلدی کی۔ موئل بچنے کی جگہ۔ القریٰ بستیاں مھلک برباد ہونے۔ موعد وقت مقرر۔ تشریح :- آیت نمبر 57 تا 59 واقع... ی اس سے بڑھ کر زیادتی اور ظلم کیا ہوگا۔ کہ جب ایک خیر خواہ جس کی کوئی ذاتی غرض یا فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اللہ کا کلام پورے خلوص سے پیش کر رہا ہے۔ اس کی بات نہ سنی جائے اور نہ اس پر توجہ کی جائے بلکہ اس سے منہ پھیر پھیر کر چلا جائے اور اس کو ایسا بےحقیقت سمجھا جائے کہ اس کو یاد کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمیشہ سے اس کے نبی اور رسول حق و صداقت کا پیغام لے کر آتے رہے ہیں اور اب اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سچے پیغام کو لے کر آگئے ہیں اس کے لئے جدوجد ان کے خلوص کا مظہر ہے۔ وہ امت کی خیر خواہی کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ان کی باتوں اور پیغام حق سے انکار یا منہ پھیرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں اور جو انہوں نے اپنے اعمال آگے بھیجے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دین اسلام کے سچے اصولوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ حسنہ سے دوری اللہ کی توفیق سے محرومی کی علامت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کرتوتوں کے سبب ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے دلوں میں سمجھنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی ہے ورنہ ایسی کھلی حیقت کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرتے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سمجھنے سے ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا ہے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب ان کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اگر ان کو راہ راست کی طرف بلایا بھی جائے تو یہ اس کی طرف کبھی نہیں آئیں گے کیونکہ جس سے اللہ تعالیٰ حسن عمل کی توفیق چھین لیتے ہیں تو پھر وہ ہر بھلائی سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ البتہ اگر اس نے سچے دل سے توبہ کرلی تو اس کو پھر سے توفیق مل سکتی ہے اور اس پر مغفرت اور رحمت کے سائے ڈالے جاسکتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے ہر عمل پر فوراً ہی نہیں پکڑ لیتا بلکہ اس کو مہلت اور ڈھیل دی جاتی رہتی ہے۔ اگر اس نے فرصت سے فائدہ اٹھا کر توبہ کرلی تو اس کی خطاؤں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ ورنہ ایک خاص مدت کے بعد تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ تاریخ انسانی اس پر گواہ ہے کہ اللہ نے ہر قوم کو سوچنے اور سمجھنے کی کافی مدت عطا کی تھی لیکن جب انہوں نے اس مہلت اور ڈھیل سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔ ان کی دولت اور دنیا کی ترقیات ان کے کام نہ آسکیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ لوگ دراصل اللہ کی آیات اور اللہ کے رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ اسلئے ان سے یہ توقع نہ کی جائے کہ یہ لوگ قرآن کو سمجھ لیں گے۔ نہ ان سے یہ توقع کر ھی جائے کہ یہ لوگ اس کی تعلیمات سے نفع اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس روش کی وجہ سے ان دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا ک... ردی ہے۔ لہٰذا یہ نہ سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں اور ان کی اس روش مذاق اور استہزاء کی وجہ سے ان کے لئے ضلالت لکھ دی گئی ہے۔ لہٰذا اب ان کو کبھی بھی ہدایت نہیں ملے گی کیونکہ ہدایت ان لوگوں کو ملتی ہے جو کھلے دل و دماغ سے بات کو سنتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْھَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ ) (اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے رو گردانی کی اور جو اعمال اس نے آگے بھیجے ہیں ان کو بھول گیا) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ نزو... ل قرآن کے وقت چونکہ مشرکین مکہ مخاطبین اولین تھے اس لیے اولاً یہ مضمون مشرکین مکہ کو اور ثانیاً دیگر تمام مشرکین اور کافرین کو شامل ہے جن لوگوں کو ایمان لانا نہیں ان کا یہ شغل ہے کہ آیات سنتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور جو اعمال پہلے بھیج چکے ہیں یعنی کفر و شرک ان کو انہوں نے فراموش کر رکھا ہے وہ اس کا یقین نہیں رکھتے کہ ان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوں گے، جن لوگوں کو ایمان لانا نہیں ان کے بارے میں فرمایا (اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً ) (بلاشبہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں) وہ ان کی وجہ سے قرآن کو نہیں سمجھتے (وَ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَقْرًا) (اور ہم نے ان کے کانوں میں بوجھ کردیا) یعنی وہ حق کے سننے سے دور بھاگتے ہیں۔ (وقر عربی میں بوجھ کو کہتے ہیں اسی لیے بہرے پن کو ثقل سماعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اوپر جو کانوں میں ڈاٹ کردینے کا ترجمہ کیا گیا یہ محاورہ کا ترجمہ ہے۔ ) (وَ اِنْ تَدْعُھُمْ اِلَی الْھُدٰی فَلَنْ یَّھْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا) (اور اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں گے تو اس وقت وہ ہرگز ہدایت پر نہ آئیں گے) وہ آیات کا مذاق بناتے بناتے اور ان سے اعراض کرتے کرتے اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اب ان کے ہدایت پر آنے کی آپ کوئی امید نہ رکھیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم اور بےانصاف ہوسکتا ہے جس کو اس کے پروردگار کی آیتوں کے ساتھ نصیحت کی گئی پھر اس نے ان آیتوں سے اعراض کیا اور منہ پھیرلیا اور جو اس کے ہاتھ گناہ سمیٹ سمیٹ کر آگے بھیج رہے ہیں ان کو اور ان کی جزا کو فراموش کر رکھا ہو یقینا ہم نے اس کلام کو سمجھنے سے ان کے دلوں پر پردے ... ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا ہے اور اگر آپ ان کو صحیح راہ کی طرف بلائیں بھی تو ایسی حالت میں ہرگز راہ راست پر نہ آئیں گے۔ یعنی ان کے عناد اور ان کی سرکشی کے باعث ان کے دلوں پر پردے اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا گیا ہے نہ سمجھتے ہیں نہ سنتے ہیں اور ان کے ہاتھ جو کچھ کما رہے ہیں اس کے انجام کو بھول چکے ہیں تو ان کے راہ راست پر آنے کی کیا امید اور ایسے لوگوں سے بڑھ کر اور ظالم بھی کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے کلام کا اور عذاب کا تمسخر کریں اور مذاقاڑائیں۔  Show more