Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 66

سورة الكهف

قَالَ لَہٗ مُوۡسٰی ہَلۡ اَتَّبِعُکَ عَلٰۤی اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا ﴿۶۶﴾

Moses said to him, "May I follow you on [the condition] that you teach me from what you have been taught of sound judgement?"

اس سے موسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa meeting with Al-Khidr and accompanying Him Allah tells us what Musa said to that learned man, who was Al-Khidr. He was one to whom Allah had given knowledge that He had not given to Musa, just as He had given Musa knowledge that He had not given to Al-Khidr. قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ ... Musa said to him: "May I follow you..." This is a question phrased in gentle terms, with no sense of force or coercion. This is the manner in which the seeker of knowledge should address the scholar. أَتَّبِعُكَ (I follow you) means, I accompany you and spend time with you. ... عَلَى أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا so that you teach me something of that knowledge which you have been taught. meaning, teach me something from that which Allah has taught you so that I may be guided by it and learn something beneficial and do righteous deeds. At this point,

شوق تعلیم و تعلم یہاں اس گفتگو کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان ہوئی تھی ۔ حضرت خضر اس علم کے ساتھ مخصوص کئے گئے تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ تھا ۔ اور حضرت موسیٰ کے پاس وہ علم تھا جس سے حضرت خضر بےخبر تھے پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ادب سے اور اس لئے کہ حضرت خضر کو مہربان کرلیں ان سے سوال کرتے ہیں ۔ شاگرد کو اسی طرح ادب کے ساتھ اپنے استاد سے دریافت کرنا چاہئے پوچھتے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو میں آپ کے ساتھ رہوں ، آپ کی خدمت کرتا رہوں اور آپ سے علم حاصل کروں جس سے مجھے نفع پہنچے اور میرے عمل نیک ہو جائیں ۔ حضرت خضر اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ تم میرا ساتھ نہیں نبھا سکتے میرے کام آپ کو اپنے علم کے خلاف نظر آئیں گے میرا علم آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ اللہ نے مجھے نہیں سکھایا پس میں اپنی ایک الگ خدمت پر مقرر ہوں اور آپ الگ خدمت پر ۔ ناممکن ہے کہ آپ اپنی معلومات کے خلاف میرے افعال دیکھیں اور پھر صبر کر سکیں ۔ اور واقعہ میں آپ اس حال میں معذور بھی ہیں ۔ کیونکہ باطنی حکمت اور مصلحت آپ کا معلوم نہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ ان پر مطلع فرما دیا کرتا ہے ۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ کریں گے میں اسے صبر سے برداشت کرتا رہوں گا کسی بات میں آپ کے خلاف نہ کروں گا ۔ پھر حضرت خضر نے ایک شرط پیش کی کہ اچھا کسی چیز کے بارے میں تم مجھ سے سوال نہ کرنا میں جو کہوں وہ سن لینا تم اپنی طرف سے کسی سوال کی ابتدا نہ کرنا ۔ ابی جریر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عز و جل سے سوال کیا کہ تجھے اپنے بندوں سے زیادہ پیارا کون ہے ؟ جواب ملا کے جو ہر وقت میری یاد میں رہے اور مجھے نہ بھلائے ۔ پوچھا کہ تمام بندوں میں سے اچھا فیصلہ کرنے ولا کون ہے ؟ فرمایا جو حق کے ساتھ فیصلے کرے اور خواہش کے پیچھے نہ پڑے ۔ دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ فرمایا وہ جو عالم زیادہ علم کی جستجو میں رہے ہر ایک سے سیکھتا رہے کہ ممک ہے کوئی ہدایت کا کلمہ مل جائے اور ممکن ہے کوئی بات گمراہی سے نکلنے کی ہاتھ لگ جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر دریافت کیا کہ کیا زمین میں تیرا کوئی بندہ مجھ سے بھی زیادہ عالم ہے ؟ فرمایا ہاں پوچھا وہ کون ہے ؟ فرمایا خضر ۔ فرمایا میں اسے کہاں تلاش کروں؟ فرمایا دریا کے کنارے پتھر کے پاس جہاں سے مچھلی بھاگ کھڑی ہو ۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی جستجو میں چلے پھر وہ ہوا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ۔ اسی پتھر کے پاس دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ اس روایت میں یہ ہے کہ سمندروں کے ملاپ کی جگہ جہاں سے زیادہ پانی کہیں بھی نہیں ۔ چڑیا نے چونچ میں پانی لیا تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان آیات اور گزشتہ آیات میں اپنے علم پر عجب سے پرہیز، طلب علم کے لیے سفر، آخری دم تک حصول علم کا عزم مصمم، استاذ کے سامنے طلب علم کے لیے درخواست کا طریقہ، استاد کا ادب، اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرنا، اپنے کسی بھی کام یا عہد میں اپنے آپ پر بھروسے کے بجائے ان شاء اللہ کہہ کر اسے اللہ کے سپرد کرنا سکھایا گیا ہے اور یہ کہ استاذ تعلیم کے لیے شاگرد پر بعض شرطیں عائد کرسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Following the teacher is incumbent on the student In verse 66: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُ‌شْدًا ، Sayyidna Musa (علیہ السلام) despite being a prophet and messenger of great resolve, has most reveren¬tially requested al-Khadir (علیہ السلام) if he could follow him to learn his knowl¬edge from him. This tells us that the etiquette of acquiring knowledge is nothing but that the student should show respect for the teacher and fol¬low him (as an individual who is eager to learn) - even if the student happens to be superior to his teacher. (Qurtubi, Mazhari)

شاگرد پر استاد کا اتباع لازم ہے : (آیت) هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓي اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے باوجود نبی و رسول اور اولو العزم پیغمبر ہونے کے حضرت خضر (علیہ السلام) سے تعظیم و تکریم کے ساتھ درخواست کی کہ میں آپ سے آپ کا علم سیکھنے کے لئے ساتھ چلنا چاہتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ تحصیل علم کا ادب یہی ہے کہ شاگرد اپنے استاذ کی تعظیم و تکریم اور اتباع کرے اگرچہ شاگرد اپنے استاذ سے افضل واعلیٰ بھی ہو (قرطبی مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَہٗ مُوْسٰي ہَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓي اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۝ ٦٦ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (قَالَ لَهٗ مُوْسٰي هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓي اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا) مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس نے آپ کو خاص حکمت اور دانائی عطا کر رکھی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں کچھ عرصہ آپ کے ساتھ رہوں اور آپ مجھے بھی اس علم خاص میں سے کچھ سکھا دیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:66) تعلمن۔ تو مجھ کو سکھا دے۔ تعلیم سے جس کے معنی سکھانے کے ہیں۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ نوقایہ ی ضمیر واحد متکلم محذوف ہے۔ رشدا۔ تعلمن کے مفعول ثانی کی صفت ہے ای علما ذا رشد۔ رشد و ہدایت کا علم رشد۔ بمعنی ہدایت۔ بھلائی۔ راستی۔ صلاحیت۔ ان تعلمن مما علمت رشدا کہ آپ سکھائیں مجھے رشدو ہدایت کا خصوصی علم جو آپ کو (منجاب اللہ) سکھایا گیا ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اگر اجازت ہو تو چند روز آپ کے ساتھ رہ کر اس علم کا کچھ حصہ حاصل کرلوں جو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے حضرت موسیٰکو اولوالعزم پیغمبر تھے لیکن بعض جزئیات کا جو علم حضرت خضر کو دیا گیا تھا وہ حضرت موسیٰ کو حاصل نہیں تھا کیونکہ ان موسیٰ کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا پیغمبر اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے مگر جن باتوں کا تعلق اس پیغمبر کی شریعت سے نہیں ہوتا ان کا نہ جاننا اس پیغمبر کی شان کے خلفا نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر آنحضرت نے فرمایا …………پھر جو علوم حضرت موسیٰ کو ملے تھے ان کا حضرت خضر کو نہ تھا جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں تصریح ہے۔ علامہ درانی نے حواشی جدید میں اس کی خوف تحقیق کی ہے۔ (روح المعانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی آپ ساتھ رہنے کی اجازت دیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہایت ہی احترام سے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ آیا آپ ہمیں کچھ سکھائیں گے ؟ یعنی آپ کو اللہ نے جو علم دیا ہے اس میں سے کوئی راہنمائی اور دانشمندی ہمیں بھی سکھائیں گے۔ لیکن اس شخص کا علم وہ علم نہ تھا جو انسانوں کو سکھایا گیا ہے اور جس کے اسباب و نتائج معلمو اور قریب الفہم ہوتے ہیں بلکہ اس کے علم کا تعلق علم لدنی اور اس کائنات کے تکوینی انتظام کے ساتھ تھا۔ یہ اللہ کے غیبی امور کا ایک حصہ تھا۔ جو اس عبدصالح کو اللہ نے اپنی مخصوص مصلحتوں اور حکمت کے تحت سکھایا ہوا تھا۔ اس لئے عبدصالح کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ اس کے تصرفات کو برداشت نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ آپ تو رسول اور نبی ہیں ۔ خلاف شریعت کسی بات کو برداشت نہ کریں گے۔ کیونکہ یہ تصرفات بظاہر شریعت کے بھی خلاف ہوں گے اور عقلی طرز عمل کے بھی خلاف ہوں گے اور اس بات کی ضرورت ہوگی کہ ان کی تہہ میں جو تکوینی حکمت پوشیدہ تھی وہ بھی ان کو بتائی جائے۔ اگر اصل حقیقت نہ بتائی جائے تو یہ قابل اعتراض ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عبدصالح اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ تم صبر نہ کرسکو گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ جو مفید اور راہ یابی اور بھلی چیز اللہ تعالیٰ کی جانب سے سکھائی گئی ہے اس میں سے کچھ مجھ کو بھی آپ سکھا دیں یعنی میں آپ کی خدمت میں رہوں مگر اس شرط پر کہ آپ کو بدون کسب و اکتساب کے محض اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوا ہے اس میں سے کچھ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔