Surat Marium

Surah: 19

Verse: 16

سورة مريم

وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا ﴿ۙ۱۶﴾

And mention, [O Muhammad], in the Book [the story of] Mary, when she withdrew from her family to a place toward the east.

اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کر ۔ جبکہ وہ اپنے گھر کے لوگوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی جانب آئیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Maryam and Al-Masih (`Isa) After Allah, the Exalted, mentioned the story of Zakariyya, and that He blessed him with a righteous, purified and blessed child even in his old age while his wife was barren, He then mentions the story of Maryam. Allah informs of His granting her a child named `Isa without a father being involved (in her pregnancy). Between these two stories there is an appropriate and similar relationship. Due to their closeness in meaning, Allah mentioned them here together, as well as in Surahs Al Imran and Al-Anbiya'. Allah has mentioned these stories to show His servants His ability, the might of His authority and that He has power over all things. Allah says, وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ ... And mention in the Book, Maryam, She was Maryam bint Imran from the family lineage of Dawud. She was from a good and wholesome family of the Children of Israel. Allah mentioned the story of her mother's pregnancy with her in Surah Al Imran, and that she (Maryam's mother) dedicated her freely for the service of Allah. This meant that she dedicated the child (Maryam) to the service of the Masjid of the Sacred House (in Jerusalem). Thus, they (Zakariyya, Maryam's mother and Maryam) were similar in that aspect. فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا So her Lord (Allah) accepted her with goodly acceptance. He made her grow in a good manner. (3:37) Thus, Maryam was raised among the Children of Israel in an honorable way. She was one of the female worshippers, well-known for her remarkable acts of worship, devotion and perseverance. She lived under the care of her brother-in-law, Zakariyya, who was a Prophet of the Children of Israel at that time. He was a great man among them, whom they would refer to in their religious matters. Zakariyya saw astonishing miracles occur from her that amazed him. كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا قَالَ يمَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَـذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ إنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَأءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ Every time Zakariyya entered the Mihrab to (visit) her, he found her supplied with sustenance. He said: "O Maryam! From where have you got this!" She said, "This is from Allah." Verily, Allah provides to whom He wills, without limit. (3:37) It has been mentioned that he would find her with winter fruit during the summer and summer fruit during the winter. This has already been explained in Surah Al Imran. Then, when Allah wanted to grant her His servant and Messenger, `Isa, one of the five Great Messengers. ... إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا when she withdrew in seclusion from her family to place facing east. This means that she withdrew from them and secluded herself from them. She went to the eastern side of the Sacred Masjid (in Jerusalem). It is reported from Ibn Abbas that he said, "Verily, I am the most knowledgeable of Allah's creation of why the Christians took the east as the direction of devotional worship. They did because of Allah's statement, إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (When she withdrew in seclusion from her family to a place facing east), Therefore, they took the birthplace of `Isa as their direction of worship." Concerning Allah's statement,

ناممکن کو ممکن بنانے پہ قادر اللہ تعالیٰ ۔ اوپر حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر ہوا تھا اور یہ بیان فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے پورے بڑھاپے تک بے اولاد رہے ان کی بیوی کو کچھ ہوا ہی نہ تھا بلکہ اولاد کی صلاحیت ہی نہ تھی اس پر اللہ نے اس عمر میں ان کے ہاں اپنی قدرت سے اولاد عطا فرمائی حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو نیک کار اور وفا شعار تھے اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت کا نظارہ پیش کرتا ہے ۔ حضرت مریم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ کنواری تھیں ۔ کسی مرد کا ہاتھ تک انہیں نہ لگا تھا اور بےمرد کے اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے انہیں اولاد عطا فرمائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا فرزند انہیں دیا جو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے ۔ پس چونکہ ان دو قصوں میں پوری مناسبت ہے اسی لئے یہاں بھی اور سورۃ آل عمران میں بھی اور سورۃ انبیاء میں بھی ان دونوں کو متصل بیان فرمایا ۔ تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت اور عظیم الشان سلطنت کا معائنہ کرلیں ۔ حضرت مریم علیہ السلام عمران کی صاحبزادی تھیں حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل میں سے تھیں ۔ بنو اسرا ئیل میں یہ گھرانہ طیب وطاہر تھا ۔ سورہ آل عمران میں آپ کی پیدائش وغیرہ کا مفصل بیان گزر چکا ہے اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو بیت المقدس کی مسجد اقدس کی خدمت کے لئے دنیوی کاموں سے آزاد کر دیا تھا ۔ اللہ نے یہ نذر قبول فرما لی اور حضرت مریم کی نشو ونما بہترین طور پر کی اور آپ اللہ کی عبادت میں ، ریاضت میں اور نیکیوں میں مشغول ہوگئیں ۔ آپ کی عبادت وریاضت زہد وتقوی زبان زد عوام ہوگیا ۔ آپ اپنے خالو حضرت زکریا علیہ السلام کی پرورش وتربیت میں تھیں ۔ جو اس وقت کے بنی اسرائیلی نبی تھے ۔ تمام بنی اسرائیل دینی امور میں انہی کے تابع فرمان تھے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام پر حضرت مریم علیہا السلام کی بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں خصوصا یہ کہ جب کبھی آپ ان کے عبادت خانے میں جاتے نئی قسم کے بےموسم پھل وہاں موجودپاتے دریافت کیا کرتے کہ مریم یہ کہاں سے آئے ؟ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے وہ ایسا قادر ہے کہ جسے چاہے بےحساب روزیاں عطا فرمائے ۔ اب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرے جو منجملہ پانچ اولوالعزم پیغمبروں کے ایک ہیں ۔ آپ مسجد قدس کے مشرقی جانب گئیں یا تو بوجہ کپڑے آنے کے یا کسی اور سبب سے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب پر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہونا اور حج کرنا فرض کیا گیا تھا لیکن چونکہ مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا بیت المقدس سے مشرق کی طرف گئی تھیں جیسے فرمان الہٰی ہے اس وجہ سے ان لوگوں نے مشرق رخ نمازیں شروع کر دیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت گاہ کو انہوں نے از خود قبلہ بنا لیا ۔ مروی ہے کہ جس جگہ آپ گئی تھیں ، وہ جگہ یہاں سے دور اور بے آباد تھی ۔ کہتے ہیں کہ وہاں آپ کا کھیت تھا ، جسے پانی پلانے کے لیے آپ گئی تھیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہیں حجرہ بنا لیا تھا کہ لوگوں سے الگ تھلگ عبادت الہٰی میں فراغت کے ساتھ مشغول رہیں ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ۔ جب یہ لوگوں سے دور گئیں اور ان میں اور آپ میں حجاب ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس اپنے امین فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا ، وہ پوری انسانی شکل میں آپ پر ظاہر ہوئے ۔ یہاں روح سے مراد یہی بزرگ فرشتے ہیں ۔ جیسے آیت قرآن ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣؀ۙ ) 26- الشعراء:193 ) میں ہے ۔ ابی بن کعب کہتے ہیں کہ روز ازل میں جب کہ ابن آدم کی تمام روحوں سے اللہ کا اقرار لیا گیا تھا ۔ اسی روح نے آپ سے باتیں کیں اور آپ کے جسم میں حلول کر گئی ۔ لیکن یہ قول علاوہ غریب ہونے کے بالکل ہی منکر ہے بہت ممکن ہے کہ یہ بنی اسرئیلی قول ہو ۔ آپ نے جب اس تنہائی کے مکان میں ایک غیر شخص کو دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ کہیں یہ کوئی برا آدمی نہ ہو ، اسے اللہ کا خوف دلایا کہ اگر تو پرہیزگار ہے تو اللہ کا خوف کر ۔ میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ۔ اتنا پتہ تو آپ کو ان کے بشرے سے چل گیا تھا کہ یہ کوئی بھلا انسان ہے ۔ اور یہ جانتی تھیں کہ نیک شخص کو اللہ کا ڈر اور خوف کافی ہے ۔ فرشتے نے آپ کا خوف وہراس ڈر اور گھبراہٹ دور کرنے کے لئے صاف کہہ دیا کہ اور کوئی گمان نہ کرو میں تو اللہ کا بھیجا ہوافرشتہ ہوں ، کہتے ہیں کہ اللہ کا نام سن کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کانپ اٹھے اور اپنی صورت پر آگئے اور کہہ دیا میں اللہ کا قاصد ہوں ۔ اس لئے اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ وہ تجھے ایک پاک نفس فرزند عطا کرنا چاہتا ہے لاحب کی دوسری قرأت لیھب ہے ۔ ابو عمر و بن علا جو ایک مشہور معروف قاری ہیں ۔ ان کی یہی قرأت ہے ۔ دونوں قرأت وں کی توجیہ اور مطلب بالکل صاف ہے اور دونوں میں استلزام بھی ہے ۔ یہ سن کر مریم صدیقہ علیہ السلام کو اور تعجب ہوا کہ سبحان اللہ مجھے بچہ کیسے ہوگا ؟ میرا تو نکاح ہی نہیں ہوا اور برائی کا مجھے تصور تک نہیں ہوا ۔ میرے جسم پر کسی انسان کا کبھی ہاتھ ہی نہیں لگا ۔ میں بدکار نہیں پھر میرے ہاں اولاد کیسی بغیا سے مراد زنا کار ہے جیسے حدیث میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے کہ مہر البغی زانیہ کی خرچی حرام ہے ۔ فرشتے نے آپ کے تعجب کو یہ فرما کر دور کرنا چاہا کہ یہ سب سچ ہے لیکن اللہ اس پر قادر ہے کہ بغیر خاوند کے اور بغیر کسی اور بات کے بھی اولاد دے دے ۔ وہ جو چاہے ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو اور اس واقعہ کو اپنے بندوں کی تذکیر کا سبب بنا دے گا ۔ یہ قدرت الہٰی کی ایک نشانی ہوگی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ خالق ہر طرح کی پیدائش پر قادر ہے ۔ آدم علیہ السلام کو بغیر عورت مرد کے پیدا کیا حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا ۔ باقی تمام انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کہ وہ بغیر مرد کے صرف عورت سے ہی پیدا ہوئے ۔ پس تقیسم کی یہ چار ہی صورتیں ہو سکتی تھیں جو سب پوری کر دی گئیں اور اپنی کمال قدرت اور عظیم سلطنت کی مثال قائم کر دی ۔ فی الواقع نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔ اور یہ بچہ اللہ کی رحمت بنے گا ، رب کا پیغمبر بنے گا اللہ کی عبادت کی دعوت اس کی مخلوق کو دے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوش خبری سناتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا جو دنیا اور آخرت میں آبرودار ہو گا اور ہوگا بھی اللہ کا مقرب وہ گہوارے میں ہی بولنے لگے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی ۔ اور صالح لوگوں میں سے ہوگا یعنی بچپن اور بڑھاپے میں اللہ کے دین کی دعوت دے گا ۔ مروی ہے کہ حضرت مریم نے فرمایا کہ خلوت اور تنہائی کے موقعہ پر مجھ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بولتے تھے اور مجمع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے یہ حال اس وقت کا ہے جب کہ آپ میرے پیٹ میں تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ کام علم اللہ میں مقدر اور مقرر ہو چکا ہے وہ اپنی قدرت سے یہ کام پورا کر کے ہی رہے گا ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ قول بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فرمان الہٰی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ۔ اور مراد اس سے روح کا پھونک دینا ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ عمران کی بیٹی مریم باعصمت بیوی تھیں ہم نے اس میں روح پھونکی تھی ۔ اور آیت میں ہے وہ باعصمت عورت جس میں ہم نے اپنی روح پھونک دی ۔ پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو ہو کر ہی رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ کر چکا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ : زکریا اور مریم (علیہ السلام) کے واقعات میں مناسبت کی وجہ سے ان کا ذکر سورة آل عمران (٣٥ تا ٤٠) ، سورة انبیاء (٣٩ تا ٤١) اور یہاں اکٹھا آیا ہے، کیونکہ ان میں کئی طرح سے مناسبت ہے۔ مریم [ کی کرامت بےموسم پھل دیکھ کر زکریا (علیہ السلام) کے دل میں بےوقت اولاد کی خواہش اور امید پیدا ہوئی۔ پھر زکریا (علیہ السلام) کو خلاف عادت بیٹا عطا ہوا اور مریم [ کے ہاں ان سے بھی بڑھ کر خلاف عادت بیٹا پیدا ہوا۔ دونوں قصے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہیں۔ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا : ” نَبَذَ “ کا معنی پھینکنا ہے۔ ” انْتَبَذَتْ “ الگ ہوئی، یعنی بالکل الگ ہوگئی، گویا اس نے اپنے آپ کو گھر والوں سے دور پھینک دیا۔ یاد رہے کہ مریم [ کو ان کی والدہ نے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا اور وہ اپنے بہنوئی زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں وہاں مصروف عبادت رہتی تھیں۔ حدیث معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو خالہ زاد بھائی فرمایا۔ مریم [ کی نیکی، پاکیزگی اور شرافت ضرب المثل تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ وَمَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَاءِشَۃَ عَلَی النِّسَاءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَاءِرِ الطَّعَامِ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قولہ تعالیٰ : ( وضرب اللّٰہ مثلا ۔۔ ) : ٣٤١١۔ مسلم : ٢٤٣١ ] ” مردوں میں بہت سے کامل ہوئے ہیں اور عورتوں میں سے کامل نہیں ہوئیں مگر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اس طرح ہے جیسے ثرید (گوشت کے سالن میں بھگوئی ہوئی روٹی) کی فضیلت تمام کھانوں پر۔ “ علیحدہ ہونے کا مطلب بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ایام آنے کی وجہ سے الگ ہوئیں اور بعض نے فرمایا کہ عبادت کے لیے مکمل تنہائی کی خاطر الگ ہوئیں، بظاہر ان دونوں میں سے کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وجہ بیان نہیں فرمائی۔ اصل حقیقت وہی بہتر جانتا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ نصاریٰ نے مشرق کو اسی لیے قبلہ بنا لیا کہ مریم [ کے ہاں مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش بیت المقدس کی مشرقی جانب میں ہوئی۔ [ طبري و صححہ ابن بشیر : ٢٣٧٥٧ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word انتَبَذَتْ is derived from نَبَذ which means to throw away or to cast away. Hence, the meaning of انتَباَذَ is to withdraw from the crowd. مَكَانًا شَرْ‌قِيًّا denotes that she retired to a secluded corner of the house facing east. The purpose of her shifting to a secluded corner of the house has been differently explained. Some say she had moved there to take a bath, while others say that she had moved as usual to a secluded corner on the eastern side of her place of worship for offering her prayers. Qurtubi has given preference to the second explanation. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، this is the reason why the Christians face east when offering their prayers, and revere the eastern direction.

خلاصہ تفسیر اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب (یعنی قرآن کے اس خاص حصہ یعنی سورت) میں (حضرت) مریم (علیہٰا السلام) کا قصہ بھی ذکر کیجئے (کہ وہ زکریا (علیہ السلام) کے قصہ مذکورہ سے خاص مناسبت رکھتا ہے اور وہ اسوقت واقع ہوا) جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ (ہوکر) ایک ایسے مکان میں جو مشرق کی جانب میں تھا (غسل کے لئے) گئیں پھر ان (گھروالے) لوگوں کے سامنے سے انھوں نے (درمیان میں پردہ ڈال) لیا (تاکہ اس کی آڑ میں غسل کرسکیں) پس (اس حالت میں) ہم نے اپنے فرشتہ (جبرئیل علیہٰ السلام) بھیجا اور وہ (فرشتہ) ان کے سامنے (ہاتھ پاؤں اور صورت و شکل میں) ایک پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا (چونکہ حضرت مریم نے اس کو انسان سمجھا اس لئے گھبرا کر) کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اپنے خدا کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو (کچھ) خدا ترس ہے (تو یہاں سے ہٹ جاوے گا) فرشتہ نے کہا کہ (میں بشر نہیں کہ تم مجھ سے ڈرتی ہو بلکہ) میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا (فرشتہ) ہوں (اس لئے آیا ہوں) تاکہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا دوں (یعنی تمہارے منہ میں یا گریبان میں دَم کردوں جس کے اثر سے باذن اللہ حمل رہ جاوے اور لڑکا پیدا ہو) وہ (تعجب سے) کہنے لگیں (نہ کہ انکار سے) کہ میرے لڑکا کس طرح ہوجاوے گا حالانکہ (اس کی شرائط عادیہ میں سے مرد کے ساتھ مقاربت ہے اور وہ بالکل مفقود ہے کیونکہ) مجھ کو کسی بشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا (یعنی نہ تو نکاح ہوا) اور نہ میں بدکار ہوں، فرشتہ نے کہا کہ (بس بغیر کسی بشر کے چھونے کے) یوں ہی (لڑکا) ہوجاوے گا (اور میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ) تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ بات ( کہ بغیر اسباب عادیہ کے بچہ پیدا کردوں) مجھ کو آسان ہے اور (یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم بغیر اسباب عادیہ کے) اسے خاص طور پر اس لئے پیدا کریں گے تاکہ ہم اس فرزند کو لوگوں کے لئے ایک نشانی (قدرت کی) بنادیں اور (نیز اسکے ذریعہ لوگوں کو ہدایت پانے کے لئے) اس کو باعث رحمت بنادیں اور یہ (بےشک کے اس بچہ کا پیدا ہونا) ایک طے شدہ بات ہے (جو ضرور ہو کر رہے گی) ۔ معَارف ومسَائِل انْتَبَذَتْ : نبذ سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے دور ڈالنے اور پھینکنے کے ہیں۔ انتباذ کے معنی مجمع سے ہٹ کر دور چلے جانے کے ہوئے۔ مکانا شرقیا، یعنی گھر کے اندر مشرقی جانب کے کسی گوشہ میں چلی گیئں۔ ان کا گوشہ میں جانا کس غرض کے لئے تھا اسمیں احتمالات اور اقوال مختلف ہیں بعض نے کہا کہ غسل کرنے کے لئے اس گوشہ میں گئی تھیں۔ بعض نے کہا کہ حسب عادت عبادت الہٰی میں مشغول ہونے کے لئے محراب کی شرقی جانب کے کسی گوشہ کو اختیار کیا تھا۔ قرطبی نے اسی دوسرے احتمال کو احسن قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ نصارٰی نے جو جانب مشرق کو اپنا قبلہ بنایا اور اس جانب کی تعظیم کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ ۝ ٠ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَہْلِہَا مَكَانًا شَرْقِيًّا ۝ ١٦ۙ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . نبذ النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص . ( ن ب ذ) النبذ کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔ شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم میں سے حضرت مریم (علیہ السلام) کا قصہ بھی بیان کیجیے جو وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ ایک ایسے مکان میں گئیں جو مشرق کی طرف تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ مَرْیَمَ ٧ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَہْلِہَا مَکَانًا شَرْقِیًّا) حضرت مریم (سلامٌ علیہا) نے اپنے لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ہیکل سلیمانی کے مشرقی گوشے میں خود کو مقیدّ کرلیا۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کے لیے اعتکاف کی کیفیت تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13. For comparison, see( Surah Aal-Imran, Ayats 34-57), and (Surah An-Nisa, Ayat 156) and E.Ns thereof.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :13 تقابل کے لیئے تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 42 ، 55 النساء حاشیہ 192 ۔ 191 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:16) واذکر فی الکتاب مریم۔ یہاں سے خطاب سے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے ای اقرأ علیہم یا محمد فی القران قصۃ مریم۔ ان کو پڑھ کر سنائیے قصہ حضرت مریم کا۔ جو اس کتاب میں مذکور ہے۔ الکتاب سے مراد یا قرآن ہے یا سورة ہذا۔ انتبذت۔ انتباذ (افتعال) مصدر سے۔ ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ اعتزلت۔ یک سو ہوئی۔ ایک طرف ہوگئی تخلت تخلیہ میں ہوگئی۔ جدا ہوگئی۔ نبذ مادہ۔ النبذ کے معنی اصل میں کسی چیز کو درخور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے پھینک دینے کے ہیں۔ جیسے فنبذوہ وراء ظہورہم۔ (3:178) توا نہوں نے (ناقابل التفات سمجھ کر) اسے پس پشت پھینک دیا۔ مکانا شرقیا۔ منصوب بوجہ اسم ظرف

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 حضرت زکریا کے قصہ کی مناسبت سے حضرت مریم کا قصہ ذکر فرما دیا دیکھیے سورة آل عمران رکوع 5) 3 عبادت کے لئے یا حیض سے مہارت حاصل کرنے کیلئے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ” مجھے خوب معلوم ہے کہ نصاریٰ نے مشرق کو اس آیت کی وجہ سے قبلہ بنایا ہے۔ ابن جریر جیسا کہ شاہ صاحب نے بھی کلھا ہے : وہ مکان مشرق میں تھا اب نصاریٰ مشرق کو قبلہ ٹھہرائے ہیں۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٢) اسرارومعارف اور اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے عجیب تر اور فکر انگیز واقعہ ایسی کتاب اللہ میں سنا دیجئے جو حضرت مریم (علیہا السلام) کا ہے اور جس کے متعلق یہود اور نصاری نے اپنے اپنے نظریات گھڑ رکھے ہیں کہ اس کی حقیقی اور واقعی صورت کیا ہے یہ بات تب شروع ہوتی ہے جب حضرت مریم (علیہا السلام) اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر غسل وغیرہ کرنے کے لیے پردہ میں چلی گئیں تو وہاں ان کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا جس نے انسانی شکل میں ظاہر ہو کر ان سے بات کرنا چاہی ، یاد رہے حضرت مریم (علیہا السلام) کا ذکر آل عمران میں گذر چکا ہے ۔ (اولیاء اللہ سے فرشتہ کا ہمکلام ہونا) کہ ان کی والدہ نے منت مانی تھی لہذا وہ بیت المقدس کی خادمہ کے طور پر مسجد کو دی گئیں ، اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جو ان کے بہنوئی بھی تھے ان کی کفالت کرتے تھے جنہوں نے ان سے بہت سی کرامات کا مشاہدہ فرمایا جن کا ذکر کتاب اللہ میں گزر چکا آپ بہت عابدہ زاہدہ اور نیک تھیں لہذا جیسے انسان نظر پڑا تو پکار اٹھیں کہ میں تجھ سے اللہ جو رحمن ہے کی پناہ چاہتی ہوں اگر تجھے کچھ اللہ جل جلالہ کا خوف بھی ہے تو انہوں نے فورا خود کو ظاہر کیا ۔ (اللہ کو پکارا جائے کہ گناہ سے حفاظت فرمائے) گویا اگر ایسی بھی صورت بن جائے کہ کسی سے گناہ پر مجبور کرنے کا اندیشہ ہو اور بچنے کی سبیل نظر نہ آئے تو بھی اللہ کریم کو ضرور پکارا جائے کہ ذکر الہی بھی حصول رحمت کا باعث ہے اور رحمت الہی گناہ کے سامنے ڈھال بن جاتی ہے ، چناچہ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے عرض کیا میں تیرے پروردگار کا بھیجا ہوا ہوں کہ اللہ کریم تجھے فرزند عطا فرمانا چاہتا ہے اور میری پھونک کو اس کا سبب بنا دیا ۔ (اسباب اختیار کرنا ضروری ہے اور ترک ہرگز توکل نہیں بلکہ خلاف سنت الہیہ ہے) ویسے تو اولاد کے لیے مرد وعورت کا اختلاط ضروری ہے یہ قانون ہے اور وہ جیسے چاہے پیدا کرے یہ اس کی قدرت یہاں اس قانون کے خلاف صرف ماں سے پیدا فرمایا مگر عالم اسباب میں سبب کا ہونا ترک نہ فرمایا اور جبریل (علیہ السلام) کے دم اور پھونک کو سبب بنا دیا یہ بھی ثابت ہوا کہ دم اور پھونک میں یقینا اثر ہے ۔ (دم اور پھونک میں یقینا اثر ہے) منع تب ہوگا جب کوئی ناجائز کلمات پڑھے جائیں یا ناجائز مقصد کے لیے کیا جائے ورنہ اللہ کا کلام پڑھ کر پھونکنا بھی حصول رحمت کا سبب ہے اگر پڑھ کر پھونکنے والے میں وہ اوصاف ملکوتی موجود ہوں جن کے باعث اثر پیدا ہوتا ہے کہ یہاں فرشتے کی پھونک کا تذکرہ ہے ، تو انہوں نے پوچھا بھلا میری اولاد کیسے ہوگی نہ میں نے شادی کی اور نہ کبھی گناہ کا سوچا ہے تو فرمایا یہ تیرے پروردگار کی قدرت سے ہوگی جو فرماتا ہے کہ میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں نیز یہ عام بچہ نہ ہوگا بلکہ ایک طرف میری قدرت کاملہ کا نشان اور اظہار کا سبب ہوگا تو دوسری طرف میری رحمت کے بٹنے کا ذریعہ ۔ (رحمت باری) اور مخلوق کی ہدایت کا سبب یعنی رحمت باری یہ ہے کہ انسان کو ہدایت نصیب ہوجائے اور یہ معاملہ طے ہوچکا ہے ایسا ضرور ہوگا ، اور اب آپ کے گھبرانے سے بات ٹل نہ سکے گی ، چناچہ جبرائیل (علیہ السلام) کے پھونک مارنے سے انہیں حمل رہ گیا مگر انسانی فطرت تو اپنی جگہ قائم رہتی ہے جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو بدنامی کے خوف سے آبادی سے باہر تشریف لے گئیں کہ انہیں تو حقیقت کا علم تھا مگر لوگوں کے منہ میں تو اپنی زبان ہوتی ہے ، چناچہ جب درد زہ شروع ہوا تو ایک کھجور کے تنے کا سہارا لیا اور گھبرا کر فرمایا کاش میں اس سے پہلے ہی مر چکی ہوتی ۔ (فطرت انسانی قائم رہتی ہے اور اسباب اختیار کرنا ضروری ہے) اور میری یاد تک لوگوں کو بھول چکی ہوتی ، یہاں بدنامی کے سبب لوگوں کا دین سے اعتماد اٹھنے اور کفار تک کو طعن کرنے کا موقع ملنے کا خطرہ تھا لہذا دینی نقصان سے بچنے کے لیے موتی کی آرزو بھی درست تھی ۔ (موت کی طلب) مگر اللہ کریم کو اور منظور تھا لہذا جبرائیل (علیہ السلام) نے پردہ سے آواز دی کہ حیا کے سبب ایسی حالت میں سامنے نہ آئے کہ آپ پریشان نہ ہوں ، اللہ کریم نے آپ کے لیے بہترین پانی کا چشمہ پیدا کردیا ہے اور اسی خشک اور ویران تنے کو ہلائیں تو مزیدار پکی ہوئی کھجوریں گریں گی ، کیسی عجیب بات ہے قادر مطلق نے صحرا میں چشمہ جاری فرما دیا اور خشک درخت سے پکا پھل عطا فرمایا مگر اپنے جاری کردہ فطری قوانین کا کس قدر لحاظ رکھا کہ معجزاتی طور پر بھی پانی اور کھجور عطا فرمائے ۔ (علاج اور دوا) جو ولادت کے وقت بہترین علاج بھی ہے اگر عورت کو پانی میں بھگو کر کھجور کھلائی جائے تو بچہ آسانی سے پیدا ہوجاتا ہے نیز سوکھے تنے کو ہلانے کا حکم دے کر ثابت فرمایا کہ حصول رزق کے لیے نرے وظائف نہ پڑھے جائیں ممکن حد تک کوشش اور محنت بھی ضروری ہے چناچہ چاند سا بیٹا عطا ہوا اور ارشاد ہوا کہ آپ کے پاس غذا ایسی ہے جو دوا بھی ہے کھائیں پئیں اور بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں ، خوش ہوں اور اللہ کریم کا شکر ادا کریں آخر آپ کو لوگوں میں ہی تو جانا ہے جو آپ کی بات نہ سمجھ پائیں گے لہذا اشارہ سے بتا دیں کہ میرا تو بات نہ کرنے کا روزہ ہے جو شریعت سابقہ میں تھا اسلام نے اس سے منع فرما کر فحش کلامی اور غیر ضروری باتوں سے منع فرما دیا لہذا آپ اسی بچے سے پوچھ لیں یہ کون ہے اور کیسے پیدا ہوا ، چناچہ انہیں اللہ کے حکم سے واپس قوم کے سامنے آنا پڑا ۔ (اہل اللہ کو لوگوں کے طعن سننے پڑتے ہیں) جب کہ بغیر شادی کے ایک نومولود کو بھی اٹھا رکھا تھا گویا اللہ جل جلالہ کی راہ میں کام کرنے کام کرنے والوں کو جہاں بہت سی جانی ومالی اور ذاتی آرام وغیرہ کی قربانی دینا پڑتی ہے وہاں لوگوں کے طعن بھی سننا پڑتے ہیں کہ رب جلیل دوستی کو خالص اور محض اپنی ذات کے لیے پسند فرماتے ہیں دنیا کی راحتیں تو وہ ساری مخلوق پہ بانٹا کرتے ہیں اس کا حساب الگ سے ہوگا اہل اللہ کو بھی دولت دنیا اور اقتدارومنصب بھی ضرور نصیب ہوتا ہے مگر اس وقت جب ان کے قلوب سے اس کی طلب اٹھ جاتی ہے اور محبت الہی سے دل لبریز ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو تمام دنیاوی نعمتیں اللہ جل جلالہ کے نام پر قربان کرنا پڑیں اور پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں کندن بنے تو سارا جہاں قدموں میں تھا ایسے ہی یہاں بغیر شادی کے حمل پھر جنگل میں اکیلے رہ کر بچے کی پیدائش کے عمل سے گزرنا اور پھر نومولود کو لیکر قوم کے پاس واپس جانے کیلئے الگ حوصلہ چاہیئے تھا مگر اس سب مشکل سے گزر کر ان کا نام نامی ہمیشہ کے لیے روشن اور کتاب اللہ کی زینت بنا ، آپ جب بچے کو لے کر آئیں تو لوگوں نے منہ میں انگلیاں داب لیں مریم ؟ یہ کیا ہے اتنا بڑا حادثہ اے ہارون کی بہن تم سے تو یہ امید نہ تھی کہ تمہارا تو پورا خاندان عرصۃ دراز سے نیکی میں معروف تھا اور یہ موسیٰ وہارون (علیہما السلام) کا خاندان تھا اور پھر تمہارے والدین تو بہت نیک تھے تمہارے والد کس قدر پیارے انسان تھے اور تمہاری ماں بھی تو بہت نیک تھیں تم نے یہ کیا گل کھلایا تو انہوں نے بچے کی طرف اشارہ کردیا ، والدہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح انہوں نے بھی ذاتی الہام پر عمل کیا ، (کشف والہام پر عمل) اور محققین کے نزدیک نبی کا کشف والہام حتی کہ خواب بھی وحی الہی ہوتا ہے اور ساری امت کے لیے اس پر عمل ضروری اور ولی کے لیے اگر اس کا کشف والہام نبی کے ارشاد کے خلاف نہ ہو تو خود اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ہاں البتہ دوسروں کے لیے حجت نہیں ہوتا ، تو لوگوں نے کہا یہ کیا مذاق ہے بھلا اس گود کے بچے سے ہم کیا بات کریں گے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو ماں کی گود میں تھے پکار کر کہا میں اللہ جل جلالہ کا بندہ ہوں جس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبوت عطا کی ہے یہاں سوال تو ان کی ولادت اور نسب کے بارے میں تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ اللہ جل جلالہ نے مجھے نبوت عطا کی ہے ۔ (نبوت وولایت کے لیے صحیح النسب لوگ منتخب کئے جاتے ہیں اور نبی کے والدین غیر مسلم تو ہو سکتے ہیں مگر بدکار نہیں ہوتے) گویا نبی ہونا صحیح النسب ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ (اسی طرح نبی کی بیوی اگرچہ ایمان نہ بھی لائے بدکار نہیں ہوتی) کہ جس انسان کا نسب ہی درست نہ ہو وہ بےموسم اور بےمحل پودے کی مانند ہوتا ہے جس پر کبھی پھل نہیں آتا ، لہذا جن لوگوں کا نسب ہی درست نہ ہو انہیں ولایت بھی نصیب نہیں ہوتی اور نہ وہ خلق خدا کی رہنمائی کی اہلیت رکھتے ہیں یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کی بیوی بھی بدکار نہیں ہوسکتی اور نہ والدین بدکار ہوتے ہیں ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اگرچہ بعد میں عطا ہوئی مگر اعلان اسی وقت فرما دیا کہ نبی منتخب شدہ ہوتے ہیں اور نبوت وہبی دولت ہے جس کا فیصلہ ازل میں ہی کردیا گیا ، لہذا نبی عالم امر میں پشت پدر میں ، شکم مادر میں ، دنیا اور برزخ میں ہر جگہ نبی ہی ہوتا ہے اور نبوت اس کی ذات کا وصف بن جاتی ہے اگرچہ بعثت کا وقت خاص ہوتا ہے ، چناچہ فرمایا اللہ جل جلالہ نے میرجے وجود کو برکات سے بھر دیا ہے ، میں جہاں بھی جس عالم اور جس حالت میں ہوں گا مجھ سے اللہ جل جلالہ کی برکات کا ظہور ہوگا اور مجھے دار دنیا میں ہمیشہ عبادت گذاری اور مالی اور بدنی قربانی کا حکم ہے اور اپنی ماں کا حد درجہ احترام واکرام کرنے کا نیز اللہ نے مجھے نہ تو سخت گیر پیدا فرمایا ہے اور نہ بدبخت ، یہاں صرف والدہ کا ذکر فرما کر یہ ثابت کردیا گیا کہ والد کے بغیر پیدا ہوئے مگر سب سے پہلے کلمے میں یہ بھی بتا دیا کہ اگرچہ میری پیدائش بہت عجیب واقعہ ہے مگر میں اللہ جل جلالہ کا بندہ ہوں خود قابل پرستش نہیں بلکہ اللہ جل جلالہ کی عبادت کرنے والا ہوں ، اور اللہ جل جلالہ کا اس درجہ مقرب ہوں کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے مجھ پر سلامتی ہے جس روز میں پیدا ہوا جب مروں گا اور پھر جب دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا ۔ یہ عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) کے بارے حق اور کھری بات ہے جس میں لوگوں نے افسانے تراش لیے کہ یہود نے آپ کو یوسف نجار کی ناجائز اولاد ہونے کی تہمت لگائی جسے مرزا قادیانی صاحب نے بھی اپنے دعوؤں میں دہرایا ہے ، اگرچہ انہوں نے یوسف کو جائز باپ کہا ہے اور عیسائیوں نے اللہ جل جلالہ کا بیٹا قرار دیا جو سب باطل ہے اور قول حق اللہ جل جلالہ کا بیان کردہ ہے ، اللہ کی شان سے بعید ہے اس کی اولاد ہو کہ اولاد بھی تو باپ کی صفات کی حامل ہوتی ہے اور اس کی ذات تو بےمثل وبے مثال ، واحد ویکتا ہے اور اپنے ثانی یا شریک سے پاک وہ ایسا قادر ہے کہ جب چاہے اور جو چاہے اسی کو حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے سبحان اللہ موجود کی تو بات ہی کیا اور وہ معدوم کو بھی حکم دیتا ہے اور سب سے فرما دیجئے کہ اے لوگو ! بیشک اللہ جل جلالہ ہی میرا پروردگار ہے اور تمہارا بھی لہذا صرف اسی کی عبادت کرو اور دردر جبہ سائی چھوڑ دو کہ یہی سیدھا راستہ ہے اور اس پر واضح دلائل ہونے کے باوجود لوگوں نے مختلف عقیدے ایجاد کرلیے لہذا گمراہوں اور کفر اختیار کرنے والوں کو حشر کے روز جو بہت بڑا اور حساب کتاب کا دن ہے بہت بڑی خرابی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آج جو غلط فہمیاں یہ پیدا کر رہے ہیں سب ختم ہوجائیں گی اور سب کے سب خوب اچھی طرح دیکھتے بھی ہوں گے اور سنیں گے بھی اگرچہ اب دار دنیا میں یہ ان حقائق سے منہ موڑ کر گمراہ ہوچکے ہیں انہیں اس حسرت کے دن کا خوف دلائیے جب اعمال کا فیصلہ ہوگا تو کفار کو سخت حسرت ہوگی ، کاش ایمان لائے ہوتے اور یہ تو ظاہر ہے مگر یوم حسرۃ سے مراد ہے کہ مومن بھی حسرت کریں گے ۔ (یوم الحسرۃ) حسرت کریں گے جیسا کہ حضرت معاذ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت کو بھی ان لمحات پر حسرت ہوگی جو بغیر ذکر کے گزر گئے ” او کما قال “۔ ” معارف “ آج یہ اس روز کو بھول رہے ہیں لہذا ایمان نہیں لاتے ، بیشک زمین وزمان اور جو کچھ ان میں ہے سب ہمارے ہیں اور کسی کو کتنی فرصت بھی عطا کردی جائے اسے اور سب کو پلٹ کر ہماری بارگاہ میں ہی آنا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 21 انتبذت الگ ہوگئی۔ حجاب پردہ۔ تمثل ڈھل گیا۔ سوی ٹھیک ٹھیک۔ تقی پرہیز گار۔ اھب میں دوں گا۔ زکی پاک باز، پاکیزہ۔ لم یمسسنی مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ بغنی بدکردار، بدکار، امر معاملہ، کام مقضی فیصلہ کیا گیا۔ طے شدہ۔ تشریح : آیت نمبر 16 تا 21 گزشتہ آیات میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق ارشاد فرمایا گیا تھا کہ ان کی زندگی قدرت کی کھلی ہوئی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو ایک سو بیس سال کی عمر میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا جب کہ ان کی بیوی بانجھ تھیں اور اس بڑھاپے میں اولاد ہونے کا دور دور تک امکان نہ تھا لیکن اللہ نے جو اس کائنات کے ذرے ذرے کا مالک ہے اور ہر طرح کی قدرتیں رکھتا ہے اس نے حضرت زکریا کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اسی طرح اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ اللہ نے ان کی زندگی کو ایک نشانی بنا کر ساری دنیا کو بتا دیا کہ وہ اللہ انسانوں کی طرح ظاہری اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ اگر وہ چاہے تو بغیر ماں باپ کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو پیدا کرسکتا ہے اور بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کرسکتا ہے قرآن کریم اور احادیث میں اس کی تفصیل یہ ارشاد فرمائی گئی کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے خاندان میں عمران نام کے ایک شخص تھے جو نہایت عابد و زاہد نیک پرہیز گار تھے اور ان کی بیوی جو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی حقیقی خالہ تھیں جن کا نام حنہ آتا ہے۔ عمران کی اور ان کی بیوی کی خواہش تھی کہ ان کے ہاں کوئی اولاد پیدا ہوجائے۔ کیونکہ ابھی تک وہ اولاد کی دولت سے محروم تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حنہ نے یہ منت مان لی کہ اگر ان کے گھر کوئی اولاد ہوگی تو وہ اس کو بیت المقدس کے لئے وقف کردیں گی۔ اللہ نے ان کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کے گھر میں حضرت مریم پیدا ہوئیں حضرت حنہ اس تصور سے سخت پریشان ہوگئیں کہ ان کے گھر لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔ وہ اس کو بیت المقدس کے لئے کیسے وقف کرینگی چونکہ منت مان لی گئی تھی اور اس زمانے میں دستور کے مطابق اس کو ہر حال میں بیت المقدس کے لئے وقف کرنا لازمی اور ایک بہت بڑی نیکی اور بھلائی سمجھا جاتا تھا۔ حسن اتفاق کہ اس وقت بیت المقدس کے بیت المقدس کے لئے کیسے وقف کریں گی چونکہ منت مان لی گئی تھی اور زمانے میں دستور کے مطابق اس کو ہر حال میں بیت المقدس کے لئے وقف کرنا لازمی اور ایک بہت بڑی نیکی اور بھلائی سمجھا جاتا تھا۔ حسن اتفاق کہ اس وقت بیت المقدس کے متولی اور نگران حضرت زکریا علیہ اسلام تھے جو حضرت مریم کے سگے خالو تھے۔ بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ حضرت مریم جیسی بچی کو اپنی پرورش میں لے کر نیکی اور سعادت حاصل کریں۔ اختلاف ہونے کی صورت میں قرعہ ڈالا گیا۔ طریقہ یہ تھا کہ ہر شخص پانی کے بہاؤ پر اپنے لکھنے کا قلم ڈالتا تھا۔ جس کا قلم پانی کے بہاؤ کے خلاف جاتا وہ کامیاب سمجھا جاتا۔ چناچہ سب نے اپنے اپنے قلم پانی میں ڈال دیئے حضرت زکریا کے علاوہ سب کے قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گئے اور کئی مرتبہ قرعہ اندازی میں کامیابی کے بعد حضرت مریم کو حضرت زکریا علیہ اسلام کی پرورش میں دے دیا گیا۔ بیت المقدس میں ایک کمرہ حضرت مریم کے لئے وقف کردیا گیا تھا دن بھر وہ اس کمرے میں عبادت کرتیں اور رات کو حضرت زکریا ان کو لے کر گھر چلے جاتے تھے۔ جب حضرت مریم کی عمر مبارک بارہ تیرہ سال کی ہوئی تو وہ ہر وقت اللہ کی عبادت اور بندگی میں لگی رہتی تھیں۔ حضرت مریم بچپن ہی سے نہایت پاکیزہ صفت اور نیک تھی اور اللہ کی عبادت اور بندگی کے سوا ان کو کوئی اور کام نہ تھا۔ ایک دن جب کہ حضرت مریم اپنے حجرے میں تھیں یا بعض روایات کے مطابق وہ غسل کرچکی تھیں۔ حضرت جبرئیل خوبصورت انسانی شکل میں ان کے پاس آئے حضرت مریم ایک اجنبی مرد کو دیکھ کر گھبرا گئیں اور اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے کہنے لگیں کہا گر تمہارے دل میں ذرا بھی خوف الٰہی ہے تو یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت مریم کی گھبراہٹ دیکھتے ہوئے حضرت جبرائیل نے اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تم مت گھبراؤ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ میں تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دینے آیا ہوں۔ حضرت مریم نے بےساختہ کہا کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا۔ جبکہ آج تک مجھے کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ نہ تو میرا نکاح ہوا ہے اور نہ میں برے کردار والی ہوں۔ حضرت جبرائیل نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا یہ پیغام لیکر آیا ہوں جس میں اللہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اسی طرح ہو کر رہے گا۔ اللہ کا یہ فیصلہ اس کی قدرت کا ملہ کا اظہار ہے۔ وہ تمہیں اور تمہارے بیٹے کو اپنی قدرت کا نمونہ بنا کر پیش کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنا اللہ کے لئے بہت آسان ہے کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اس واقعے کی بقیہ تفصیلات اس سے آگے کی آیات میں آرہی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا انتہائی بڑھاپے کے عالم میں زکریا (علیہ السلام) کے ہاں پیدا ہونا غیر معمولی پیدائش اور مشکلات کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ گہری مماثلت اور ان کے خالہ زاد بھائی ہونے کی وجہ سے حضرت مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے علاوہ دوسری شخصیات کے ذکر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے لوگوں کی ڈھارس بندھائی جائے۔ (وَکُلًّا نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَنْبَاء الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَکَ وَجَاءَ کَ فِیْ ہَذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) [ ھود : ١٢٠] ” رسولوں کی خبروں میں سے ہر وہ خبر جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے ہم آپ کے دل کو مضبوط کریں اور آپ کے پاس اس سلسلہ میں حق آگیا جو مومنوں کے لیے باعث نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر بعض انبیاء (علیہ السلام) اور شخصیات کا تذکرہ کرنے سے پہلے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ ۔ قرآن مجید میں سے حضرت مریم (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کا بیان کریں تاکہ حضرت مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا جزو ٹھہرانے والوں کو معلوم ہو کہ مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے۔ حضرت مریم [ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جن کی سوانح یہ ہے کہ ان کی والدہ حضرت عمران کی بیوی ہیں وہ میاں بیوی انتہائی بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھاپے کے عالم میں حضرت مریم [ کی والدہ نے منت مانی کہ میرے رب ! اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے تیرے لیے وقف کردوں گی لیکن ہوا یہ کہ بیٹے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی عنایت فرمائی جس کا نام اس نے مریم رکھا، مریم کا معنی ہے (بلند وبالا) حضرت مریم [ کی والدہ نے عرض کی کہ بار الہا ! یہ تو بیٹی پیداہوئی ہے۔ ظاہر ہے بیٹی، بیٹے کی مانند نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس بات کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں (آل عمران، آیت : ٣٦) حضرت مریم [ بڑی ہوئی تو والدہ نے اپنی منت کے مطابق اسے مسجد اقصیٰ میں اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیا۔ کیونکہ وہاں مردوں سے الگ مقام میں عورتیں اعتکاف، انجیل کی تلاوت اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہتی تھیں۔ ایک دن مریم [ پردہ میں بیٹھ کر جس طرح اعتکاف کیا جاتا ہے اللہ کے ذکر و فکر میں مشغول تھی کہ اچانک ان کے حجرہ میں نہایت ہی خوبصورت آدمی وارد ہوا۔ یہاں پردہ کا ذکر ہے لیکن تیسرے پارہ میں حضرت مریم [ کے حجرہ کا ذکر موجود ہے جس میں بیٹھ کر وہ اللہ کی عبادت کیا کرتی تھیں۔ (آل عمران : ٣٧) دونوں آیات کی تطبیق کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے کہ حضرت مریم [ ماہواری کی وجہ سے مسجد اقصیٰ سے باہر پردے میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ ان کے پاس خوبصورت انسانی شکل میں فرشتہ آیا۔ یہ بات اس لیے دل کو لگتی ہے کہ حدیث میں حائضہ عورت کو مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس وقت کی شریعت میں بھی یہی اصول ہوگا۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) کی سیرت اور صلحاء کے اچھے واقعات کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٢۔ حضرت مریم [ مسجد اقصیٰ کے مشرقی جانب پردہ میں تشریف فرما تھیں جب ان کے پاس فرشتہ آیا۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کا انسانی شکل میں آنا : ١۔ ہم نے اس کی طرف (مریم) فرشتہ بھیجا تو وہ ان کے سامنے ٹھیک انسانی شکل اختیار کر گیا۔ (مریم : ١٧) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر آئے۔ (ھود : ٦٩) ٣۔ جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے غمناک اور تنگ دل ہوئے۔ (ھود : ٧٧) ٤۔ جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو انھوں نے کہا تم تو نا آشنا سے لوگ ہو۔ (الحجر : ٦١۔ ٦٢) ٥۔ انھیں ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کے متعلق خبر دیں جب وہ سلام کہتے ہوئے داخل ہوئے تو ابراہیم نے کہا ہم تم سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ (الحجر : ٥١۔ ٥٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ پہلا منظر ہے۔ ایک کنواری نوجوان عورت ہے ، نہایت ہی پاکباز ہے ، اس کی ماں نے اسے اس وقت عبادت خانے کی خدمت کے لئے نذر کردیا تھا جب وہ ابھی ماں کے پیٹ میں تھی۔ اس کے بارے میں سب کے سب یہی جانتے تھے کہ وہ نہایت ہی پاکباز عورت ہے ، عفت ماب ہے ۔ وہ ہارون کی طرف نسبت رکھتی ہے جو اسرائیلی معبد کے متولی اور پاکباز شخص تھے۔ ان کے خاندان کی شہرت بھی یہ تھی کہ وہ نہایت ہی پاکباز لوگوں کا خاندان ہے اور زمانہ قدیم سے یہ لوگ پاک سیرت چلے آ رہے ہیں۔ یہ عورت اپنے اہل و عیال اور اپنے اس پاکیزہ خاندان سے چھپتی پھرتی ہے ، اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو رہی ہے۔ سیاق کلام میں اس حقیقت کی صراحت نہیں کی جا رہی ہے کیونکہ یہ کنواریوں کے مخصوص پوشیدہ امور کے ساتھ متعلق ہے۔ یہ اپنی اس خلوت میں ہے ، اپنی زندگی سے مطمئن ہے لیکن وہ کیا دیکھتی ہے کہ ایک نوجوان اس کے کمرے میں کھڑا ہے ، ایک مکمل نوجوان۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت مریم [ کا تذکرہ اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا واقعہ سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے کہ جناب عمران کی بیوی نے نذر مانی تھی کہ میرے اولاد ہوگی تو اسے بیت المقدس کی خدمت میں لگا دوں گی اور خواہش یہ تھی کہ لڑکا پیدا ہو اور اسی لیے منت مانی تھی جب ولادت ہوئی تو لڑکی پیدا ہوئی اس لڑکی کا نام مریم رکھا چونکہ یہ لڑکی ایک نیک عورت کی نیک منت پر پیدا ہوئی تھی اس لیے اس کا نام مریم رکھا جس کا معنی ہے عابدہ اور ان کا مطلب یہ تھا کہ لڑکی ہونے کی وجہ سے مسجد کی خدمت کے لیے نہیں تو عبادت ہی کے لیے سہی اپنی اس نذر کی وجہ سے وہ بچی کو بیت المقدس کے مقیمین کے پاس لے گئیں وہاں کے رہنے والوں نے اس بچی کی کفایت میں منافست اختیار کی اور ہر ایک چاہتا تھا کہ میں اس کی پرورش کروں جھگڑے کو نبٹانے کے لیے آپس میں قرعہ ڈالا تو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام قرعہ نکل آیا لہٰذا انھوں نے مریم کو اپنی کفالت میں لے لیا وہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں رہنے لگیں بیت المقدس میں ان کے لیے ایک کمرہ مخصوص کردیا تھا جو بلندی پر تھا اور اس میں زینہ سے چڑھتے اور اترتے تھے اللہ تعالیٰ نے مریم کو خوب اچھے طریقے سے نشوونما فرمایا جو دوسرے بچوں سے مختلف تھا۔ جب حضرت مریم بڑی ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ ان کو بشارت دی کہ تمہیں ایک بیٹا دیا جائے گا جس کا نام مسیح ہوگا وہ دنیا و آخرت میں وجیہ ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا اور وہ گہوارہ میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے بات کرے گا۔ حضرت مریم [ کا پردہ کا اہتمام اور اچانک فرشتہ کے سامنے آجانے سے فکر مند ہونا اس تفصیل کو سامنے رکھ کر اب یہاں سورة مریم کی تصریحات کو ذہن نشین کیجیے وہ ایک دن اپنے گھر والوں سے علیحدہ ہو کر گھر کے مشرقی جانب ایک جگہ چلی گئیں۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ یہ دن سخت سردی کا تھا وہاں دھوپ میں بیٹھ گئیں اور سر کی جوئیں نکالنے لگیں اور ایک قول یہ ہے کہ وہ غسل کرنے کے لیے بیٹھی تھی (فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا) سے اس دوسرے قول کی تائید ہوتی ہے، اس علیحدہ جگہ میں پردہ ڈال کر بیٹھی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیج دیا گیا (فَارْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْحَنَََا) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ایک صحیح سالم انسان کی صورت میں ان کے سامنے کھڑے ہوگئے حضرت مریم پاکباز عفت دار اور عصمت والی خاتون تھیں وہ انھیں دیکھتے ہی گھبرا گئیں اور کہنے لگیں کہ تو کون ہے جو تنہائی میں یہاں پہنچا ؟ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں تیری صورت شکل تو یہ بتارہی ہے کہ متقی آدمی ہوگا متقی کا کیا کام کہ وہ تنہائی میں کسی ایسی عورت کے پاس آئے جس کے پاس آنا حلال نہیں، میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اور تو بھی اپنے تقویٰ کی لاج رکھ اور یہاں سے چلا جا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ یہ حضرت مریم صدیقہ اور حضرت مسیح (علیہما السلام) کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہ کا جواب ہے۔ حضرت مریم کے پاس بےموسم کے پھلوں کا موجود ہونا شبہہ میں ڈالتا تھا کہ شاید یہ خارج عادت امر ان کے قبضہ قدرت میں تھا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے خارق عادت امور کا ظاہر ہونا، جن کا ذکر سورة آل عمران رکوع 5 میں کیا گیا ہے۔ شبہہ میں ڈالتا تھا کہ شاید وہ بھی متصرف و مختار ہوں۔ نیز انجیل میں ان کے لیے لفظ ابن اللہ کا وارد ہونا (انجیل کی زبان میں جس کے معنی اللہ کے پیارے اور برگزیدہ کے ہیں) ۔ اس سے بھی وہم پڑتا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات ان کے حوالے کردئیے ہوں یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا واقعہ بیان کر کے دونوں شبہوں کا رد کردیا گیا۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ 14:۔ ای تنحت وتباعدت (قرطبی ج 11 ص 90) یعنی اپنے گھر سے نکل کر دور مشرق کی جانب کسی جگہ چلی گئی۔ ” فارسلنا الیھا روحنا “ روح سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں جو نہایت خوبصورت آدمی کی شکل میں حضرت مریم کے سامنے نمودار ہوئے۔ جب حضرت مریم نے ایک غیر محرم کو اپنے سامنے دیکھا تو خیال کیا کہ شاید برے ارادے سے آیا ہے تو فوراً بول اٹھیں ” انی اعوذ الخ “۔ ” ان کنت تقیا “ کی جزاء محذوف ہے۔ ای فانی عائذہ بالرحمن منک یعنی اگر تو پرہیز گار اور متقی ہے تو بھی میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ بعض نے فاذھب اور بعض نے تتعظ جزا مقدر کی ہے۔ یعنی اگر تو نیک ہے تو میرے سامنے سے چلا جا یا میرے استعاذے سے سبق حاصل کر اور مجھ سے کسی قسم کا تعرض نہ کر (کلہ من الروح ج 16 ص 77) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 اور اے پیغمبر ! اس کتاب یعنی قرآن کریم میں حضرت مریم (علیہ السلام) کے قصے کا بھی ذکر کیجیے وہ قصہ اس وقت کا ہے جب کہ حضرت مریم (علیہ السلام) اپنے گھر والوں اور اپنی قوم کے لوگوں سے علیحدہ اور یک سو ہو کر ایک ایسے مکان میں گئیں جو مشرق کی جانب تھا۔ یعنی وہ مکان بیت المقدس کی مشرقی جانب تھا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی غسل حیض کرنے کو یہی پلہا حیض تھا تیرہ برس کی عمر تھی یا پندرہ برس کی کنارے ہوئیں شرم سے وہ مکان مشرق کو تھا اب نصاریٰ قبلہ کرتے ہیں مشرق کو۔ 12