Surat Marium

Surah: 19

Verse: 18

سورة مريم

قَالَتۡ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا ﴿۱۸﴾

She said, "Indeed, I seek refuge in the Most Merciful from you, [so leave me], if you should be fearing of Allah ."

یہ کہنے لگیں میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو کچھ بھی اللہ سے ڈرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

She said: "Verily, I seek refuge with the Most Gracious from you, if you do fear Allah." This means that when the angel (Jibril) appeared to her in the form of a man, while she was in a place secluded by herself with a partition between her and her people, she was afraid of him and thought that he wanted to rape her. Therefore, she said, إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا (Verily, I seek refuge with the Most Gracious from you, if you do fear Allah). She meant, "If you fear Allah," as a means of reminding him of Allah. This is what is legislated in defense against (evil), so that it may be repulsed with ease. Therefore, the first thing she did was try to make him fear Allah, the Mighty and Sublime. Ibn Jarir reported from Asim that Abu Wa'il said when mentioning the story of Maryam, "She knew that the pious person would refrain (from committing evil) when she said, إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ("Verily, I seek refuge with the Most Gracious from you, if you do fear Allah."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] سیدہ مریم اور جبرئیل کا مکالمہ :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدہ مریم ( علیہ السلام) سخت خوفزدہ ہوگئیں اور ان کے لئے یہ انتہائی نازک وقت تھا۔ خود بھی نوجوان تھیں، سامنے نوجوان اور خوش شکل مرد کھڑا تھا۔ تنہائی تھی، کوئی دوسرا پاس موجود بھی نہ تھا۔ نووارد کا نورانی چہرہ دیکھ کر اندازہ کیا کہ آدمی تو کوئی پرہیزگار ہی معلوم ہوتا ہے۔ لہذا اسے اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ میں تیری طرف سے رحمن کی پناہ میں آتی ہوں۔ یعنی اس بات سے کہ تو مجھ پر کسی قسم کی دست درازی کرے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بالرَّحْمٰنِ مِنْكَ ۔۔ : تنہائی میں ایک کامل حسین و جوان مرد کو دیکھ کر مریم [ سخت گھبرا گئیں کہ کہیں اس کی نیت بری نہ ہو۔ اس لیے بچاؤ کا کوئی اقدام کرنے سے پہلے اس ذات کی پناہ پکڑی جس کے رحم کی کوئی حد نہیں، تاکہ وہ اپنی بندی پر رحم فرما کر اس کی عصمت محفوظ رکھے۔ ساتھ ہی اس مرد کو اللہ کا خوف دلایا کہ اگر تجھ میں اللہ تعالیٰ کا ذرا برابر بھی ڈر ہے تو میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ پکڑتی ہوں۔ ” تَقِیّاً “ کو نکرہ لانے سے یہ مفہوم پیدا ہوا کہ اگر تجھ میں کسی بھی قسم کا اللہ کا خوف ہے، کیونکہ اللہ کا خوف انسان کو برائی سے ہٹا دیتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّ‌حْمَـٰنِ مِنكَ seek refuge of the Rahman (All-Merciful), against you.|" (19:18) Some reports have it that when Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) heard these words he retreated a little in reverence of Allah&s name. إِن كُنتَ تَقِيًّا |"If you are God-fearing.|" - 19:18. These are the words which a helpless person would utter to a cruel oppressor begging him that if he is a believer then he should desist from tormenting him. The intention is that Sayyidah Maryam (علیہا السلام) entreated Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) who stood before her in the guise of a man, that he should fear Allah and abstain from evil deeds. In short, the expressionإِن كُنتَ تَقِيًّا (if you are God-fearing - 19:18) is not a precondition for seeking the protection of Allah but a condition to make her prayer more effective and inducing. Some other commentators have said that this expression is used for emphasis, meaning that even if you fear Allah I seek His protection; and if the position is otherwise then I shall seek Allah&s refuge with added vehemence. (Mazhari)

اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بالرَّحْمٰنِ مِنْكَ : (میں اللہ رحمن کی پناہ مانگتی ہوں تجھ سے) بعض روایات میں ہے کہ جبرئیل امین نے یہ کلمہ سنا تو اللہ کے نام کی تعظیم کے لئے کچھ پیچھے ہٹ گئے۔ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا : یہ کلمہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص کسی ظالم سے مجبور ہو کر فریاد کرے کہ اگر تو مومن ہے تو مجھ پر ظلم نہ کر۔ ترا ایمان اس ظلم سے روکنے کے لئے کافی ہونا چاہئیے۔ مطلب یہ ہوا کہ تمہارے لئے مناسب ہے کہ اللہ سے ڈرو، غلط اقدام سے بچو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا، استعاذہ کی شرط نہیں بلکہ استعاذہ کے مؤ ثر ہونے کی شرط برائے ترغیب ہے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ کلمہ بطور مبالغہ کے لایا گیا ہے کہ اگر تم متقی بھی ہو تب بھی میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اور اسکے خلاف ہو تو معاملہ ظاہر ہے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا۝ ١٨ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) یہ دیکھ کر حضرت مریم (علیہ السلام) کہنے لگیں کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو اللہ کا فرمانبردار ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ متقی ایک برے آدمی کا نام تھا حضرت مریم (علیہ السلام) گھبراہٹ میں اسی کو سمجھیں اور کہنے لگیں کہ اگر تو متقی ہے تو میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّا) اچانک ایک مرد کو اپنی خلوت گاہ میں دیکھ کر حضرت مریم (سلامٌ علیہا) گھبرا گئیں کہ وہ کسی بری نیت سے نہ آیا ہو۔ چناچہ انہوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں ‘ اور اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو ‘ تمہارے دل میں اللہ کا کچھ بھی خوف ہے تو کسی برے ارادے سے باز رہنا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی دیکھنے میں تم نہایت پاکباز اور پرہیز گار نظر آرہے ہو اگر تم واقعی خدا سے ڈرنے والے ہو تو میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ میرے پاس سے چلے جائو اور مجھ سے کوئی تعرض نہ کرو۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) نے حجرہ میں وارد ہونے والے انسان سے سختی کے ساتھ پوچھا تم کون ہو ؟ میں تجھے رب رحمن کا واسطہ دے کر کہتی ہوں اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔ فرشتہ نے جواب دیا کہ میں آپ کے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ آپ کو پاکباز بیٹے کی خوشخبری دوں۔ حضرت مریم [ پہلے سے زیادہ حیران اور سراسیمگی کے عالم میں پوچھتی ہیں کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا ؟ نہ کسی مرد نے مجھے چھوا اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اسی حالت میں تجھے بیٹا عطا کیا جائے گا کیونکہ تیرے رب کا فرمان ہے اس طرح بیٹا عطا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانی ظاہر کرنا چاہتا ہے سمجھ لو کہ یہ کام ہوچکا ہے۔ یہاں روح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے کئی معانی ہیں جن میں ایک معنٰی جبرائیل امین (علیہ السلام) ہے۔ کیونکہ ان کا دوسرا نام روح الامین ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) مسائل ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ کو بتلا دیا گیا تھا کہ تیرے ہاں پاکباز بیٹا پیدا ہوگا۔ ٢۔ حضرت مریم [ پاکدامن بی بی تھیں اور انھیں زندگی بھر کسی مرد نے نہیں چھوا۔ ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بن باپ پیدا فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنی انوکھی قدرت کا ثبوت دیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے لیے بن باپ بیٹا پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسان کے طرق : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو بن باپ اور ماں کے پیدا کیا۔ ( ص : ٧٠) ٢۔ حضرت حوّاماں کی بجائے حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ (النساء : ١) ٣۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ ( آل عمران : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالت انی اعوذ بالرحمٰن منک ان کنت تقیاً (٩١ : ٨١) ” مریم کی ایک بول اٹھی کہ اگر تو کوئی خدا ترس آدمی ہے تو میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں۔ “ کسی بھی مت قی آدمی کے سامنے اگر خدا کا ذکر کیا جائے تو اس کا شعور تقویٰ بیدار ہوتا ہے اور وہ شیطانی وسوسہ اور شہوت کی اکساہٹ سے باز آجاتا ہے۔ یہ پاک فطرت دوشیزہ ، نہایت ہی اچھی تربیت یافتہ ، نہایت ہی پاک ماحول میں رہنے والی ، جس کی کفالت کی ذمہ داری زکریا جیسے پاکباز شخص کے ذمہ ہے۔ جب وہ جنین کی حالت میں تھی تو اسے اس معبد کے لئے نذر کردیا گیا تھا۔ اس کے لئے یہ پہلا جھٹکا تھا ۔ ذرا سوچئے کہ یہ فرشتہ یا یہ نوجوان اسے یوں جواب دیتا ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18 حضرت مریم (علیہ السلام) اس بشری صورت کو دیکھ کر کہنے لگیں میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو خدا سے ڈرنے والا ہے۔ یعنی اگر تو متقی ہے تو مجھے ایذا مت دے اور یہاں سے ہٹ جا اور یہ مطلب بھی بعض نے بیان کیا ہے کہ اگر تو خدا ترس ہے تب بھی تجھ سے رحمٰن کی پناہ میں آتی ہوں اور متقی نہیں ہے تو پھر اور بھی تجھ سے پرہیز کرنا ضروری ہے اور تجھ سے خدا کی پناہ کیسے نہ مانگوں۔