Surat Marium

Surah: 19

Verse: 20

سورة مريم

قَالَتۡ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ وَّ لَمۡ اَکُ بَغِیًّا ﴿۲۰﴾ الرّبع

She said, "How can I have a boy while no man has touched me and I have not been unchaste?"

کہنے لگیں بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے تو کسی انسان کا ہاتھ تک نہیں لگا اور نہ میں بدکار ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ ... She said: "How can I have a son..." This means that Maryam was amazed at this. She said, "How can I have a son'!' She said this to mean, "In what way would a son be born to me when I do not have a husband and I do not commit any wicked acts (i.e. fornication)." For this reason she said, ... وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا when no man has touched me, nor am I Baghiyya. The Baghiyy is a female fornicator. For this reason, a Hadith has been reported prohibiting the money earned from Baghiyy.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یعنی سیدہ مریم کا پہلا خوف تو دور ہوگیا کہ یہ کوئی بدکار آدمی نہیں بلکہ اللہ کا فرستادہ فرشتہ ہے اب حیرت اس بات پر ہوئی کہ لڑکا ہو کیسے سکتا ہے ؟ جب تک کسی مرد سے صحبت نہ ہو خواہ یہ بالجبر کی صورت میں ہو یا بالرضا کی صورت میں ؟ اور یہ دونوں باتیں یہاں مفقود تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ ۔۔ : ” بَغِيًّا “ کا معنی زانیہ ہے، اس کی جمع ” بَغَایَا “ اور مصدر ” بِغَاءٌ“ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ ) [ النور : ٣٣ ] ” اور اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو۔ “ مریم [ نے کہا کہ اولاد کے لیے تو مرد اور عورت کا ملنا ضروری ہے، جبکہ مجھے نہ کسی بشر نے نکاح کے ساتھ چھوا ہے اور نہ میں بدکار ہوں۔ ” َلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ“ میں اگرچہ نکاح یا زنا کسی بھی طریقے سے کسی مرد کے چھونے کی نفی ہے اور یہی معنی سورة آل عمران (٤٧) میں مراد ہے، مگر یہاں زنا کے مقابلے میں آنے کی وجہ سے چھونے کا مطلب نکاح کے ساتھ چھونا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَتْ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّلَمْ يَمْسَسْنِيْ بَشَرٌ وَّلَمْ اَكُ بَغِيًّا۝ ٢٠ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہارت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) حضرت مریم (علیہ السلام) نے جبریل امین (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میرے لڑکا کس طرح ہوگا حالانکہ ابھی میرا کوئی خاوند نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:20) لم یمسسنی۔ مضارع نفی حجد بلم۔ لم یمسس۔ مضارع نفی حجد بلم واحد مذکر غائب۔ ن وقایہ۔ یضمیر واحد متکلم۔ مجھے چھوا نہیں۔ مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ مجھ سے قربت نہیں کی۔ مس مصدر باب فتح۔ لم اک۔ مضارع نفی حجد بلم۔ واحد متکلم ۔ اک اصل میں اکون تھا۔ لم کے عمل سے نون ساکن ہوگیا۔ اجتماع ساکنین سے وائو حرف علت گرگیا۔ اکن رہ گیا۔ نکو اختصارا ساقط کردیا گیا اکرہ گیا۔ بغیا۔ بدکار۔ بغی سے صفت مشبہ کا صیغہ۔ بغیمیانہ روی سے بڑھنے کی خواہش کرنے کو بغی کہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی تیرے ہاں بچہ کی پیدائش عام عادت کے مطابق نہیں بلکہ معجزہ کے طور پر ہوگی۔8 یعنی بن باپ کا لڑکا پیدا ہوگا۔ اللہ کی قدرت ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالت انی یکون لی غلم ولم یمسسی بشر ولم اک بغیا (٩١ : ٠٢) مریم نے کہا میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا ، جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں۔ “ یوں وہ صراحت کے ساتھ بات کرتی ہیں ، کھلے الفاظ میں ، وہ اور یہ شخص دونوں تنہائی میں ہیں۔ اچانک اس شخص کے در آنے کی غرض وغایت بھی ظاہر ہوگئی ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہے کہ وہ اسے کس طرح بچہ دینا چاہتا ہے۔ ہاں جب اس نے کہا کہ میں تمہارے رب کافر ستادہ ہوں تو اس کے خوف میں اس سے بھی کمی نہیں اتٓی کہ وہ اسے ایک ایسا بچہ دینے والے ہیں جو اپک ہوگا ، جس کی ولادت ناجائز ذرائع سے نہ ہوگی ، اس کی سیرت بھی بری نہ ہوگی۔ اس لئے وہ اسی موقعہ پر کھل کر بات کرتی ہیں اور یہی مناسب بھی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ کس طرح یہ بچہ پیدا ہو سکتا ہے جبکہ مجھے تو کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور میں کوئی عصمت فروش عورت بھی نہیں ہوں کہ لوگ میرے بچے کو قبول کرلیں کہ یہ فاحشہ کا بچہ ہے۔ یہاں تک کے سوال و جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مریم مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدائش کے سوا کوئی اور صورت پیدائش پر یقین نہ رکھتی تھی اور ایک عام انسان کے لئے یہی قدرتی سوچ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرشتہ کا بیٹے کی خوشخبری دینا اور حضرت مریم کا متعجب ہونا اس پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تجھے اللہ کی طرف سے ایک پاکیزہ لڑکا دے دوں۔ اس پر حضرت مریم [ نے کہا تم کیا کہہ رہے ہو میرے لڑکا کیسے ہوگا ؟ نہ تو مجھے کسی ایسے شخص نے چھوا ہے جس کا چھونا حلال ہو (یعنی شوہر) اور نہ میں فاجرہ عورت ہوں بچہ تو حلال مباشرت سے یا کسی زانی کے زنا سے پیدا ہوتا ہے، اور یہاں تو دونوں میں سے کوئی بات بھی نہیں لہٰذا میرے اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فرشتہ کا جواب دینا کہ اللہ کے لیے سب کچھ آسان ہے سورة آل عمران کے سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے فرشتوں نے انھیں لڑکا ہونے کی بشارت دی تھی اور اس وقت بھی انھوں نے یہی کہا تھا کہ میرے لڑکا کیسے ہوگا حالانکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں وہاں ان کی بات کا جواب یوں نقل کیا ہے۔ (کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ) (اللہ اسی طرح پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے) (اِذَا قَضآی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ ) (جب وہ کسی امر کا فیصلہ فرمائے تو یوں فرما دیتا ہے کہ ہوجا لہٰذا ہوجاتا ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ فرشتے کی باتیں سن کر حضرت مریم کو سخت حیرت ہوئی۔ اور اس سے پوچھنے لگیں کہ میرے بیٹا کس طرح پیدا ہوگا۔ حالانکہ مجھے کسی بشر نے نہ نکاح سے ہاتھ لگایا ہے نہ میں بدکار ہی ہوں۔ اس پر فرشتے نے کہا کہ تیرے رب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مس بشر کے بغیر بیٹا پیدا کرنا میرے لیے مشکل نہیں۔ بلکہ یہ ایک آسان کام ہے اور میں اس طرح بغیر باپ بیٹا پیدا کر کے اسے اپنی قدرت کا اعجاز بناؤں گا۔ اور وہ ایمان والوں کے لیے باعث رحمت ہوگا اور یہ بات لوح محفوط میں مقدر ہوچکی ہے یا ازل میں اس کا فیصلہ ہوچکا ہے (امرا مقضیا) محکما قد تعلق بہ قضاءنا الازلی او قد رو وسطر فی اللوح لبد من جریانہ علیک البتۃ (ابو السعود ج 9 ) ۔ ” لنجعلہ ایۃ “۔ ایۃ سے یہاں معجزہ مراد ہے یا ایۃ سے علامت مراد ہے یعنی بغیر باپ اس کی پدائش کو اپنے کمال قدرت کی علامت اور دلیل بنادوں ای ولنجعل وھب الغلام ایۃ لھم و برھانا یستدلون بہ علی کمال قدرتنا (ابو السعود ج 5) ۔ مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مریم صدیقہ کو معلوم نہ ہوسکا کہ یہ فرشتہ ہے۔ جو انسانی شکل میں ان کے سامنے آیا ہے نیز بیٹا پیدا ہونے کیفیت کا علم بھی نہیں تھا۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ وہ غیب داں نہ تھیں۔ اس لیے وہ متصرف و مختار بھی نہیں ہوسکتیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 حضرت مریم (علیہ السلام) نے جواب دیا میرے ہاں لڑکا کیونکر اور کس طرح ہوجائے گا حالانکہ مجھ کو کسی آدمی نے چھوا بھی نہیں اور میں کبھی بدکاری کی مرتکب بھی نہیں ہوئی اور نہ میں کبھی بدکار تھی۔ یعنی حضرت مریم نے تعجب سے فرمایا کہ لکڑا کس طرح ہوگا لڑکا پیدا ہونے کے دو ہی سبب ہوسکتے ہیں یا میرا نکاح ہوا ہوتا اور مجھ سے کسی مرد نے مباشرت کی ہوتی اور مجھ کو حمل قرار پاتا کس طرح ہوسکتا ہے۔