Surat Marium

Surah: 19

Verse: 44

سورة مريم

یٰۤاَبَتِ لَا تَعۡبُدِ الشَّیۡطٰنَ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ عَصِیًّا ﴿۴۴﴾

O my father, do not worship Satan. Indeed Satan has ever been, to the Most Merciful, disobedient.

میرے ابا جان آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان تو رحم و کرم والے اللہ تعالٰی کا بڑا ہی نافرمان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا أَبَتِ لاَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ... O my father! Worship not Shaytan. This is means, "Do not obey him by worshipping these idols. He invites to this (idolatry) and he is pleased with it." This is as Allah says, أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يبَنِى ءَادَمَ أَن لاَّ تَعْبُدُواْ الشَّيطَـنَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ Did I not command you, O Children of Adam, that you should not worship Shaytan. Verily, he is a plain enemy to you. (36:60) Allah also says, إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلاَّ إِنَـثاً وَإِن يَدْعُونَ إِلاَّ شَيْطَـناً مَّرِيداً They invoke nothing but females (idols) besides Him (Allah), and they invoke nothing but Shaytan, a persistent rebel! (4:117) Concerning Allah's statement, ... إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا Verily, Shaytan has been a rebel against the Most Gracious. This means obstinate and too arrogant to obey his Lord. Therefore, Allah expelled him and made him an outcast. Therefore, "do not follow him or you will become like him. "

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی شیطان کے وسوسے اور اس کے بہکاوے سے آپ جو ایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سننے اور دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نفع نقصان پہنچانے کی قدرت، تو یہ دراصل شیطان ہی کی پرستش ہے۔ جو اللہ کا نافرمان ہے اور دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر ان کو اپنے جیسا بنانے پر تلا رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] یعنی شیطان کی اطاعت کرنا دراصل اس کی عبادت کرنا ہے، ورنہ معروف معنوں میں تو شیطان کی کوئی بھی عبادت نہیں کرتا۔ شیطان نے تو تمہارے باپ آدم کو سجدہ کرنے کے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرلی تھی۔ مگر آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا۔ پھر بھی تم اسی کی فرمانبرداری کرتے ہو ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ ۔۔ : تیسری بات کی ابتدا بھی محبت اور ادب میں ڈوبے ہوئے الفاظ ” ابا جان “ سے کی اور اسے بت پرستی سے منع کرنے اور ہٹانے کے لیے اس کی حقیقی تصویر ایسی کھینچی کہ ہر عقلمند کو اس سے نفرت ہوجائے، یعنی یہی نہیں کہ بت پرستی کسی بھی نفع سے خالی ہے، بلکہ اس میں بیحد نقصان ہے، کیونکہ یہ درحقیقت شیطان کی عبادت ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١١٧) کیونکہ وہی اس پر آمادہ کرتا اور اسے خوش نما بنا کر دکھاتا ہے، خود شیطان کی عبادت تو کوئی نہیں کرتا۔ ”ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَان للرَّحْمٰنِ عَصِيًّا “ میں ” اِنَّ “ کے ساتھ شیطان کی عبادت سے منع کرنے کی وجہ بیان فرمائی، جو یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ سے تمہارے اس رب کا سخت نافرمان ہے جس کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے ناشکرے اور سخت نافرمان کی بات ماننے والا بھی سخت نافرمان ہوگا۔ ہمیشہ کا معنی ’ کَانَ “ سے واضح ہو رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ۝ ٠ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيًّا۝ ٤٤ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) میرے باپ بتوں کی عبادت کرنے میں شیطان کی بات ہرگز مت مانو، شیطان اللہ کی نافرمانی کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَط اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَان للرَّحْمٰنِ عَصِیًّا ) ” اس شیطان کی فرمانبرداری مت کیجیے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب کرچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27. It should be noted that the literal translation of the Arabic text is: “Do not worship Satan”, though Abraham’s father and the other people did not worship Satan in the same sense as they worshiped idols. But as they followed and obeyed Satan, he accused them of worshiping Satan. Thus it is clear that if somebody follows and obeys Satan, he virtually worships him. For Satan has never been a deity in the sense that people have made him an object of worship; nay, they have always been cursing him and following him at the same time. (For further details see (Surah Al-Kahf E.Ns 49-50). 27a. For explanation, see (Surah At-Taubah E.N. 112).

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :27 اصل الفاظ ہیں لا تعبد الشیطن ، یعنی شیطان کی عبادت نہ کریں اگرچہ حضرت ابراہیم کے والد اور قوم کے دوسرے لوگ عبادت بتوں کی کرتے تھے ، لیکن چونکہ اطاعت وہ شیطان کی کر رہے تھے ۔ اس لیئے حضرت ابراہیم نے ان کی اس اطاعت شیطان کو عبادت شیطان قرار دیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت محض پوجا اور پرستش ہی کا نام نہیں بلکہ اطاعت کا نام بھی ہے ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اس کی عبادت کا مجرم ہے ، کیونکہ شیطان بہرحال کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اس کی عبادت کا مجرم ہے ، کیونکہ شیطان بہرحال کسی زمانے میں بھی لوگوں کا معبود ( بمعنی معروف ) نہیں رہا ہے بلکہ ان کے نام پر ہر زمانے میں لوگ لعنت ہی بھیجتے رہے ہیں ۔ ( تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن معروف ) جلد سوم ، الکہف ، حاشیہ 49 ۔ 50 ۔ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: بتوں کی عبادت کرنے کا خیال درحقیقت شیطان کا ڈالا ہوا خیال تھا، اس لیے بتوں کی عبادت کا مطلب یہی تھا کہ انسان شیطان کو قابل اطاعت سمجھ کر اس کی عبادت کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 جب وہ خود خدا کا مخالف ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنا کہنا ماننے والوں کو بھی خدا کی مخالفت کی راہ پر لگائے گا۔ اس سے کسی قسم کی صحیح ہدایت کی توقع سراسر حماقت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یابت لا تعدالشیطن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عصیا (٤٤) یابت انی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولیا (٥٤) (٩١ : ٤٤۔ ٥٤) ” ابا جان ‘ آپ شیطان کی بندگی نہ کریں ‘ شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔ ابا جان ‘ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمن کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں “۔ یہ شیطان ہی ہے جو اللہ کے سوابتوں کی بندگی پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے جو لوگ بتوں کی بندگی کرتے ہیں گویا وہ شیطان کی بندگی کرتے ہیں۔ اور شیطان رحمن کا نافرمان ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کو ڈراتے ہیں کہ ان پر کہیں اللہ کا غضب نہ آجائے اور اس طرح اللہ کہیں انہیں شیطان کا دوست ہی نہ بنا دے اور وہ مستقلاً سیطان کے تابع نہ ہوجائیں۔ اللہ جب بندے کو اپنی عبادت کی توفیق دیتا ہے تو یہ اس کا انعام ہوتا ہے اور جب اللہ اپنی سنت کے مطابق کسی کے بارے میں فیصلہ کردے کہ وہ شیطان کا دوست ہوگا تو یہ اللہ کا غضب ہوتا ہے اور اس غضب کے نتیجے ہی میں پھر یہ شخص سخت عذاب اور بڑے خسارے سے دوچار ہوجاتا ہے یعنی قیامت میں۔ لیکن نہایت ہی نرم و نازک الفاظ میں یہ پرتاثیر دعوت ایک کٹٹر مشرک کے دل پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ کیونکہ یہ دل پتھر کی طرح سخت ہوگیا ہے۔ جواب میں والد ابراہیم سخت غصے میں آکر دھمکی پر اتر آتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

44 اے میرے باپ ! تو شیطان کی عبادت اور پرستش نہ کر کیونکہ شیطان تو رحمٰن کا نافرمان ہے۔ بتوں کے پجاری شیطان کے پجاری ہیں جو شیطان کی بات اور اس کے کہنے کو مانتے ہیں اور خدا کے احکام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔