Surat Marium
Surah: 19
Verse: 57
سورة مريم
وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ﴿۵۷﴾
And We raised him to a high station.
ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھا لیا ۔
وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ﴿۵۷﴾
And We raised him to a high station.
ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھا لیا ۔
And mention in the Book, Idris. Verily, he was a man of truth, (and) a Prophet.And We raised him to a high station. Allah complimented Idris for being a truthful Prophet and He mentioned that he raised him to a high station. It has previously been mentioned that in the Sahih it is recorded that the Messenger of Allah passed by Idris on the night of the Isra (Night Journey) and he (Idris) was in the fourth heaven. Sufyan reported from Mansur that Mujahid said, وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا (And We raised him to a high station), "This means the fourth heaven." Al-Hasan and others said concerning Allah's statement, وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا (And We raised him to a high station), "This means Paradise."
57۔ 1 حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، بلندی مکان سے مراد ؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ اِلَی السَّمَآء سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح انھیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انھیں عطا کی گئی۔ واللہ اعلم
وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا : حدیث معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چوتھے آسمان پر ان سے ملاقات مذکور ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) نے فرمایا کہ اس مقام کے ” مَكَانًا عَلِيًّا “ (بہت اونچا مقام) ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ انھیں زندہ آسمان پر اٹھایا گیا، تو یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی قوی سند کے ساتھ ثابت نہیں بلکہ صرف کعب کا قول ہے جو اسرائیلی روایات بیان کرتے ہیں۔
وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا |"And We raised him to a high place.|" - 19:57. It means that he was granted a special position among prophets and was close to Allah Ta` ala. There are also other versions about his ascent to the sky, about which Ibn-e-Kathir has said ھٰذا من اخبار کعب الاحبار الاسرایٔلیات وفی بعضہ نکارۃ |"This is taken from the traditions of the Israelites as reported by Ka&ab Al-Ahbar, some of which are disputed, and unfamiliar.|" The Qur&anic words are not specific on the subject whether he was given a sublime position or was physically lifted to the sky. Therefore, his physical ascent to the sky is not definite. In any case commentary of the Holy Qur&an is not dependent on this issue. (Bayan ul-Qur’ an) From Bayan ul-Qur&an - The difference between the definition of &Rasul& and &Nabi& and their inter-relationship. |"The words Rasul and Nabi have been variously explained. Having considered all possibilities I have come to the conclusion that the relationship between the two is on being specific or general on the basis of their application. Rasul is one who delivers a new code to those among whom he is sent, even though the code may be new to himself as well, like Torah to Sayyidna Musa (علیہ السلام) or the code be new only to his people, as was the case with Sayyidna Ismail (علیہ السلام) . The code that he was preaching was in fact given to his father, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، but it was new for the tribe of Jurhum who did not know about it beforehand, and learnt its details from Sayyidna Ismail (علیہ السلام) only, who was sent to them for this purpose. It, therefore, follows that it is not necessary for a Rasul to be Nabi just as the angels who are Rasul but not Nabi or the messengers sent to Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) who are referred in Qur&an as Rasul, although they were not Nabi. إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ (36:13). On the other hand Nabi is the one who is the bearer of Wahy (Allah&s message) regardless of whether he preaches an old or a new religious code. Many a prophets from Bani Isra&il fall under this category, as they preached the religious code given to Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، therefore, follows that the word Rasul is more general compared to Nabi. But in certain other ways converse is the case. Where the two words are used together, as in the case of this verse where they appear as رَسُولًا نَّبِيًّا ، there is no problem in that they can be taken both in specific or in general term, and there will not be any contradiction. But in such situations where the two words appear separately one against the other, then having regard to the relative position of the two words in the verse the term Nabi will denote someone who is following the religious code brought by someone else.
ڎوَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا، یعنی ہم نے ادریس (علیہ السلام) کو مقام بلند پر اٹھا لیا معنی یہ ہیں کہ ان کو نبوت و رسالت اور قرب الہٰی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا۔ اور بعض روایات میں جو ان کا آسمان پر اٹھانا منقول ہے ان کے متعلق ابن کثیر نے فرمایا : ھذا من اخبار کعب الاحبار الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارة یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہے اور ان میں سے بعض میں نکارت و اجنبیت ہے۔ اور قرآن کریم کے الفاظ مذکورہ بہرحال اس معاملہ میں صریح نہیں کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لئے ان کا رفع الی السماء قطعی نہیں اور تفسیر قرآن اس پر موقف نہیں۔ (بیان القرآن) فائدہ از بیان القرآن رسول اور نبی کی تعریف میں فرق اور باہمی نسبت : رسول اور نبی کی تعریف میں متعدد اقوال ہیں، آیات مختلف میں غور کرنے سے جو بات احقر کے نزدیک محقق ہوئی وہ یہ ہے کہ ان دونوں کے مفہوم میں نسبت عموم و خصوص من وجہ کی ہے۔ رسول وہ ہے جو مخاطبین کو شریعت جدیدہ پہنچائے خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے اسماعیل (علیہ السلام) کی شریعت وہ دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قدیم شریعت ہی تھی لیکن قوم جرہم جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لئے نبی ہونا ضروری نہیں جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں یا جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے فرستادہ قاصد جن کو آیت قرآن ۘاِذْ جَاۗءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ میں رسول گہا گیا ہے حالانکہ وہ انبیاء نہیں تھے۔ اور نبی وہ ہے جو صاحب وحی ہو خواہ شریعت جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعت قدیمہ کی جیسے اکثر انبیاء بنی اسرائیل شریعت موسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کئے گئے جیسا کہ آیات مذکورہ میں رسولاً نبیاً ، آیا ہے وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں کوئی تضاد نہیں لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ میں تو اس جگہ بقرینہ مقام لفظ نبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعت سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے۔
وَّرَفَعْنٰہُ مَكَانًا عَلِيًّا ٥٧ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔
آیت ٥٧ (وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ) ” اسرائیلی روایات کے زیر اثربعض لوگوں نے اس سے رفع سماوی مراد لیا ہے کہ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی طرح زندہ اٹھا لیا تھا۔ معراج کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ( علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں الفاظ قرآنی بہت واضح ہیں : (رَافِعُکَ اِلَیَّ ) (آل عمران : ٥٥) کہ میں آپ ( علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ ان الفاظ سے رفع سماوی کا مفہوم متعین ہوجاتا ہے ‘ جبکہ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے بارے میں آیت زیر نظر میں لفظ ” رفع “ کے ساتھ ” اِلٰی “ کی عدم موجودگی میں یہ مفہومّ متعین نہیں ہوتا۔ چناچہ یہاں پر اس لفظ کا یہی مفہوم مراد لیا جاسکتا ہے کہ ہم نے انہیں بلند مقام عطا کیا۔
34. The plain meaning is that God had favored Idris with a high rank, but according to the Israelite traditions, God took up Idris (Enoch) to heavens. The Bible says: And he was not; for God took him, but the Talmud has a long story to tell, which ends with the words: Enoch ascended to heaven in a whirlwind, with chariot and horses of fire.
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :34 اس کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ادریس کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا ، لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہوگئی کہ اللہ تعالی نے حضرت ادریس کو آسمان پر اٹھا لیا ۔ بائیبل میں تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ خدا نے ان کو اٹھا لیا مگر تلمود میں اس کا ایک طویل قصہ بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ۔ حنوک ایک بگولے میں آتش رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے ۔
28: اس سے مراد نبوّت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کا اعلی مرتبہ ہے جو ان کے زمانے میں انہی کو عطا ہوا۔ بائبل میں ان کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اِنہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی ایسی کچھ روایتیں آئی ہیں جن کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ اِس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔
(19:57) مکانا علیا۔ بلند مقام ۔ یعنی شان ومرتبت میں بلند ۔ یعنی مرتبہ نبوت و تقرب الی اللہ۔
ف 10 یعنی بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے جیسا کہ حدیث معراج میں ہے کہ چاہیے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں رونا جائز ہے (ابن کثیر)
57 اور ہم نے اس کو بلند مقام پر پہنچایا اور اس کو مقام عالی پر اٹھا لیا۔ مکان اعلیٰ کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ اکثر ا ن میں سے اسرائیلی ہیں جن پر علما نے سخت تنقید کی ہے خصوصاً ابن کثیر سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ان کے درجات عالیہ اور مراتب علیا کا ذکر فرمایا ہے اور اس بلندی سے ان کی معنوی بلندی مراد ہے ۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں لکھا ہے کہ حضرت ادریس پہلے تھے حضرت نوح سے حساب ستاروں کی چال کا اور لکھنا اور سینا کہتے ہیں انہیں سے سکیھا خلق نے ملک الموت ان سے آشنا تھا ایک بار آزمانے کو اپنی جان بدن سے نکلوائی پھر ڈال دی اور بہشت کی سیر مانگی پھر وہاں رہ گئے اللہ کے حکم سے، حضرت سے ملنے تھے معراج کی رات آسمان پر اور بعضے کہتے ہیں حضرت الیاس کا لقب ہے ادریس اور وہ نبی اسرائیل میں پیغمبر ہوئے تھے خضر کی طرح وہ بھی زندہ رہ گئے۔