Surat Marium

Surah: 19

Verse: 65

سورة مريم

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فَاعۡبُدۡہُ وَ اصۡطَبِرۡ لِعِبَادَتِہٖ ؕ ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا ﴿٪۶۵﴾  7

Lord of the heavens and the earth and whatever is between them - so worship Him and have patience for His worship. Do you know of any similarity to Him?"

آسمانوں کا ، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا ۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہم نام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ... Lord of the heavens and the earth, and all that is between them, He created all of that, He is the Disposer of its affairs, He is the Legislator over it and He is in absolute control of it, having no one to oppose His decisions. ... فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا so worship Him and abide patiently in his worship. Do you know of any who is similar to Him! Ali bin Abi Talhah related that Ibn Abbas said that this means, "Do you know any comparison or something similar to the Lord!" Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Qatadah, Ibn Jurayj and others all said the same. Ikrimah related that Ibn Abbas said, "There is no one named Ar-Rahman (the Most Beneficent) other than Him, Blessed and Exalted is He. Most Holy is His Name."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 یعنی نہیں ہے، جب اس کی مثل کوئی اور نہیں تو پھر عبادت بھی کسی اور کی جائز نہیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ میں بیان ہوا ہے کہ پورے عزم و استقلال سے اس کی عبادت کرتے رہئے اور اس کے احکام بجا لاتے رہئے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرنے کی راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انھیں صبرو استقلال اور ثابت قدمی سے برداشت کیجئے۔ [٦٢] کوئی چیز اللہ کی ہم نام نہیں :۔ یعنی اللہ کسی دوسری ہستی یا چیز کا نام نہیں۔ اللہ صرف اس ہستی کا نام ہے جو خالق ومالک ارض و سماوات ہے۔ کوئی دوسرا اس کا ہم نام نہیں اور اگر لفظ اسم کو صفت کے معنی میں لیا جائے جیسے کہ (وللہ الاسماء الحسنیٰ ) میں لیا جاسکتا ہے اور اللہ کے جتنے اچھے اچھے نام ہیں وہ ایک دو کے سوا سب صفاتی ہی ہیں تو اس صورت میں اس کا معنی اس کا && ہم پلہ && یا && ہم پایہ && یا && جوڑ کا && ہوگا۔ یعنی کوئی دوسری ایسی ہستی موجود نہیں جس میں اللہ کی سی صفات پائی جاتی ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَاصْطَبِرْ‌ لِعِبَادَتِهِ (|"and-persevere in His worship.|" - 19:65) The word اِصطِبَار & means perseverance in the face of acute distress and hardship. The point here is that anyone who wishes to be constant and steadfast in. his prayers must be prepared to undergo pain and suffering. هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا (|"Do you know any one worthy of His name?|" - 19:65). In the generally accepted sense the word applies to persons bearing the same name. The polytheists and idolaters had included many humans, angels, stones and idols along with Allah Ta` ala in their worship and designated all of them as سَمِیُّ i.e. as objects of worship but it is a strange and extraordinary coincidence that none of their false gods was ever named as Allah. This matter was preordained, and no idol or deity bore the name Allah. Thus, the literal meaning of the word would adequately explain the meaning of this verse which is that there is no object in the world bearing Allah&s name. Many commentators, among them Mujahid, Ibn Zubair, Qatadah, and Ibn ` Abbas (رض) ، are of the view that in the present context the word means |"a like|" or |"comparable|" and the sense of the verse is that in the entire pantheon of false gods none is equal or comparable to Allah Ta` ala in so far as divine attributes are concerned.

معارف ومسائل وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ ، لفظ اضطبار کے معنے مشقت و تکلیف پر ثابت قدم رہنا ہے اس میں اشارہ ہے کہ عبادت پر دوام و ثبات مشقت چاہتا ہے عبادت گزار کو اس کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا، لفظ سمی کے مشہور معنے ہم نام کے ہیں اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ مشرکین اور بت پرستوں نے اگرچہ عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت سے انسانوں، فرشتوں پتھروں اور بتوں کو شریک کر ڈالا تھا اور ان سب کو الٰہ یعنی معبود کہتے تھے مگر کسی نے لفظ اللہ معبود باطل کا نام کبھی نہیں رکھا۔ یہ ایک تکوینی اور تقدیری امر تھا کہ دنیا میں اللہ کے نام سے کوئی بت اور کوئی الٰہ باطل موسوم نہیں ہوا اس لئے اس معنے کے اعتبار سے بھی مضمون آیت کا واضح ہے کہ دنیا میں اللہ کا کائی ہمنام نہیں۔ اور اکثر مفسرین مجاہد، ابن جبیر، قتادہ، ابن عباس سے اس جگہ اس لفظ کے معنی مثل اور شبیہ کے منقول ہیں اس کا مطلب واضح ہے کہ صفات کمال میں اللہ تعالیٰ کا کائی مثیل و عدیل یا نظیر نہیں ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۝ ٠ۭ ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِيًّا۝ ٦٥ۧ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ھل تعلم لہ سمیاً کیا ہے کہ کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ ؟ ) حضرت بن عباس مجاہد اور ابن جریج کا قول ہے کہ ” مثل اور مشابہ “ قول باری ہے (لم نجعل لہ من قبل سمیاً ہم نے اس نام کا کوئی اور آدمی اس سے پہلے نہیں پیدا کیا) حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ بانجھ عورتوں نے اس جیسا بچہ نہیں جنا۔ مجاہد کا قول ہے کہ ہم نے اس سے پہلے اس جیسا کوئی نہیں بنایا۔ قتادہ وغیرہ دیگر حضرات کا قول ہے کہ ہم نے اس سے پہلے اس نام کا کوئی آدمی نہیں پیدا کیا۔ قول باری (ھل تعلم لہ سمیعاً ) کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو الہ کہلانے کا کوئی استحقاق نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) اور وہ آسمانوں اور زمین کا اور ان کے در میان جو مخلوقات اور عجائبات ہیں سب کا خالق ہے سوا سی کی عبادت کیا کرو اور اسی کی عبادت پر قائم رہو۔ بھلا آپ کسی کو اللہ تعالیٰ کے مانند اور اس کا ہم صفت پاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖط ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا ) ” ظاہر ہے جو اللہ کی صفات ہیں ‘ جو اس کی شان ہے ‘ ایسی صفات اور ایسی شان رکھنے والی کوئی ہستی کائنات میں موجود نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40. That is, you should not only follow strictly the way of service and face all the obstacles and afflictions with patience, but also should not get uneasy, if there is a delay in revelation and help. You should rest content with His service as an obedient servant and perform persistently the duties and responsibilities entrusted to you as a servant and Messenger. 41. The word Samiya literally means a name sake. Here it implies: Allah is the only Deity. Do you know of any other deity besides Him? If there is none, and you know that there is none, then you do not have any alternative but to serve Him and obey His commands.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :40 یعنی اس کی بندگی کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ چلو اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرو ۔ اگر اس کی طرف سے یاد فرمائی اور مدد اور تسلی میں کبھی دیر لگ جایا کرے تو اس پر گھبراؤ نہیں ۔ ایک مطیع فرمان بندے کی طرح ہر حال میں اس کی مشیت پر راضی رہو اور پورے عزم کے ساتھ وہ خدمت انجام دیے چلے جاؤ جو ایک بندے اور رسول کی حیثیت سے تمہارے سپرد کی گئی ہے ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :41 اصل میں لفظ سمی استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہم نام کے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تو الٰہ ہے ۔ کیا کوئی دوسرا الٰہ بھی تمہارے علم میں ہے؟ اگر نہیں ہے اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے تو پھر تمہارے لیئے اس کے سوا اور راستہ ہی کونسا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے حکم کے بندے بن کر رہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:65) رب السموت والارض وما بینہما۔ میں ربخبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ یعنی ھو رب السموتالخ یا یہ ربک (آیہ 64) کا بدل ہے۔ اصطبر۔ امر۔ واحد مذکر حاضر۔ اصطبار (افتعال) مصدر۔ تو قائم رہ۔ تو سہتا رہ تو صبر کر۔ سمیا۔ نظیر ۔ ہمنام۔ ھل تعلم لہ سمیا۔ (کیا تم کوئی اس کا ہمنام جانتے ہو) میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں جو اس نام کی مستحق ہو اور حقیقۃً اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ متصف ہو۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ کیا تم کسی کو ایسا بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہو کیونکہ ایسے تو اللہ کے بہت سارے نام ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان سے معنی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں۔ آیات 64 و 65 ۔ پورا پیراگراف ایک جملہ معترضہ ہے جو ایک سلسلۂ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلہ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اس کی شان نزول میں مختلف اقوال ہیں۔ لیکن جمہو رمفسرین کے نزدیک اس کی شان نزول کے متعلق وہ روایت ہے جو کہ بخاری نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ آپ میرے پاس جلدی جلدی کیوں نہیں آیا کرتے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا خدا تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سے جواب دیا کہ ہم خود نہیں آتے بلکہ تمہارے رب کے حکم سے آیا کرتے ہیں۔۔ الخ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اس کی بندگی کرتے رہیے اور اس راہ میں جو مصائب و مشکلات پیش آئیں ان کا پورے صبر کے ساتھ مقابلہ کیجیے اگر ہماری طرف سے کبھی یاد فرمای یا مدد اور تسلی دینے میں کچھ تاخیر ہوجائے تو گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔9 اور جب اس کے جوڑ کا آپ کسی کو نہیں سمجھتے تو پھر اس کے سوا چارہ کیا ہے کہ اس کی بندگی کے راستے پر چلتے رہیے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی کوئی اس کا ہم صفت نہیں تو لائق عبادت بھی کوئی نہیں، پس اسی کی عبادت کرنا ضرور ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں موجود ہے اور جو وہ پیدا کرنے والا ہے، سب کو جانتا ہے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مخالفوں کی مخالفت اور دشمنوں کی دشمنی کی طرف توجہ کرنے کی بجائے میری عبادت میں مصروف رہیے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈھارس بندھانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ جب بھی کفار اور مشرکین کی مخالفت اور ہٹ دھرمی کا ذکر ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے یا ذکر و اذکار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ ان لوگوں سے الجھنے اور پریشان ہونے کی بجائے آپ اپنے رب کے ذکر و فکر میں مصروف ہوجایا کریں۔ تاکہ آپ پر اس کی رحمت نازل ہو جس سے آپ کا غم دور ہوجائے۔ اسی اسلوب اور ضرورت کے پیش نظر یہاں آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کی عبادت کرنے پر قائم رہیں اسی کا نام لیتے رہیں۔ وہ ایسی لازوال اور بےمثال ہستی ہے جس کا ہمسر ہونا تو درکنار کوئی اس کا ہم نام ہی نہیں۔ اسم ” اللہ “ کی خصوصیت : (اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زیادہ اسمائے گرامی ہیں۔ اس کا ہر نام اس کی خاص صفت کا ترجمان ہے لیکن قرآن مجید میں تین اسماء گرامی ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، وہ اسماء گرامی یہ ہیں اللہ، الٰہ، رب، ذات کبریا کا اسم اعظم ” اللہ “ ہے۔ باقی دو نام صفاتی ہیں قرآن مجید میں انہیں ناموں کے ساتھ ان تمام صفات کا ذکر پایا جاتا ہے جو اللہ کے نام کے ساتھ ذکر کئی گئی ہیں یہاں رب کا اسم استعمال ہوا ہے جس میں پہلی صفت ربوبیت ہے جس میں اللہ کا اپنے بندے کے ساتھ اپنا ئیت کا تعلق نمایاں ہوتا ہے کیونکہ رب کا معنٰی خالق اور پالنہار ہے اس کے سوا کوئی خالق اور مخلوق کی ضروریات پوری کرنے والا نہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ہمیشگی اختیار کرنے کے لیے ” وَاصْطَبِرْ “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنی ہے ” مشکل اور پریشانی کے باوجود مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہنا۔ “ جس کے لیے یہ تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے اور جاننے والا ہے۔ اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ جب اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے تو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی ریاضت و عبادت، پریشانیوں اور مسائل سے آپ کا رب کس طرح غافل ہوسکتا ہے۔ کائنات کے رب نے اپنی مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور اس کی بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے ہوا میں، ستارے فضا میں، اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک اور ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور ہر بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی عناصر ہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات و نشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ) [ المؤمنون : ١٤] ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ ٢۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں ہمیشگی ہونی چاہیے۔ ٤۔ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ان میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا ہمسر اور ہم نام نہیں۔ تفسیر بالقرآن رب کا معنٰی اور اس کی صفات : ١۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٢۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ٣۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٤۔ یہ تمہارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام : ١٠٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رب السموت والارض وما بینھما (٩١ : ٥٦) ” وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان ساری چیزوں کا “۔ اس کے سوا کوئی رب نہیں ‘ اس عظیم کائنات میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ فاعبدہ واصبر لعبادتہ (٩١ : ٥٦) ” اسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو “۔ اسلام میں عبادت صرف مراسم پرستش کا نام نہیں ہے۔ ہر تصور ‘ ہر ارادہ ‘ ہر ہر حرکت اور ہر سرگرمی عبادت کے دائرے میں آتی ہے اور یہ نہایت ہی مشکل کام ہے کہ انسان زندگی کے پورے معاملات میں صرف اللہ کی بندگی کرتا ہے ‘ اس لیے اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے اور بڑے صبر اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے اس لیے ضروری ہے اس زمین کی تمام سرگرمیوں میں انسان آسمان کی طرف متوجہ رہے۔ زمین کی آلودگیوں میں ‘ مادی ضروریات کی کشاکش میں ‘ خواہشات نفس کے دبائو میں اور زندگی کے گونا گوں نشیب و فراز میں۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ انسان کو اس کے مابق زندگی گزارنا ہے۔ اسے اپنے اندر یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے معاملے میں وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت کرکے عبادت کررہا ہے۔ اس طرح اس کی پوری زندگی اور اس کی ہر حرکت ہر روش عالم بالا سے مل کر طاہر اور پاکیزہ ہوجاتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو بہت بڑے صبر ‘ بہت بڑی جدوجہد اور بہت بڑی محنت کا طلبگار ہے۔ ” اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کی بندگی پر جم جائو کیونکہ اللہ ہی وہ واحد ذلت ہے جو اس لائق ہے کہ دل و دماغ اس کی طرف متوجہ ہوں ‘ کیونکہ کوئی اس کا ہمسر ‘ کوئی اس کا ہم نام نہیں اور کوئی اس کا ہم پایہ نہیں ہے۔ کیا اللہ کی کوئی نظیر ہے ؟ ہر گز نہیں ‘ وہ نظیر اور شبیہ سے پاک ہے۔ صدق اللہ العظیم !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا (رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا) (وہ آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے) وہ اپنی مخلوق کے احوال کو پوری طرح جانتا ہے اور اپنی حکمت کے مطابق تصرف فرماتا ہے۔ (فَاعْبُدْہُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ ) جب وہ آسمان کا اور ان کے درمیان ہر چیز کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرنا لازم ہے اسی کی عبادت کیجیے اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہیے اس بارے میں جو مشقتیں آئیں انھیں برداشت کیجیے وحی جو دیر میں آئی اس سے رنجیدہ نہ ہوجایئے اور کافروں کی باتوں کا خیال نہ کیجیے قال صاحب الروح ص ١١٥ ج ١٦ فاقبل علی عبادتہ واصطبر علی مشاقھا ولا تحزن بابطاء الوحی و کلام الکفرۃ سبحانہ یراقبک ویراعیک ویلطف بک فی الدنیا والاخرۃ۔ (ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا) (کیا آپ اس کا کوئی ہم نام جانتے ہیں) لفظ سمی (بتشدید الیاء) کا مشہور ترجمہ وہی ہے جو ہم نے اوپر لکھا ہے یعنی ہم نام۔ اللہ تعالیٰ کا ہم نام کوئی نہیں۔ اہل ایمان تو اللہ کے ہم نام کسی کا نام رکھ ہی نہیں سکتے۔ مشرکین کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اپنے کسی معبود باطل کو اسم جلیل یعنی لفظ اللہ کے ساتھ موسوم کرنے کی ہمت کرتے اور بعض مفسرین نے سمی کو بمعنی مسامی لیا ہے ان حضرات کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل اور برابر کوئی نہیں ہے یہ معنی بھی درست ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ شبہات دور کرنے کے بعد دعوی سورت کو بیان فرمایا کہ زمین و آسمان یعنی ساری کائنات کا مالک و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لہذا اسی کی عبادت کرو اور صرف اسی ہی کو پکارو۔ ” وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ “ اور اسی کی عبادت اور پکار پر پابند ہوجاؤ۔ کیونکہ متصرف اور کارساز وہی ہے۔ اور کوئی نہیں۔ ” ھَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا “ یعنی ہم صفت اور مثل۔ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی وہ اپنی صفات کارسازی میں یکتا اور بےمثل ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 وہ تمام آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے اور جو کچھ آسمان و زمین کے درمیان ہے اس کا پروردگار بھی وہی ہے پس تو اس کی عبادت اور اطاعت کیا کر اور اس کی عبادت پر قائم اور ثابت قدم رہ بھلا آپ کے علم میں اس کا ہم صفت اور ہم نام کوئی اور بھی ہے۔ یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ خطاب عام ہو اور ہر مخاطب مراد ہو۔ بہرحال وہی ہر چیز کا مالک ہے صرف اسی کی عبادت کر اور اسی کی عبادت و بندگی پر قائم رہ کسی کے کہنے سننے او اعتراض کرنے کا خیال نہ کرو اور پرواہ مت کرو بھلا تم کسی اور کو بھی اس کا ہم صفات جانتے ہو جب ان صفات کا کوئی دوسرا مالک ہی نہیں تو عبادت کا بھی اس کے سوا کوئی مستحق نہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اللہ کے نام سب اس کی صفت ہیں یعنی کوئی ہے اس صفت کا 12