Refuting the Disbelievers Who claim that They will be given Wealth and Children in the Hereafter
Imam Ahmad reported from Khabbab bin Al-Aratt that he said,
"I was a blacksmith and `As bin Wa'il owed me a debt. So I went to him to collect my debt from him. He said to me, `No, by Allah, I will not pay my debt to you until you disbelieve in Muhammad.'
I replied to him, `No, by Allah, I will not disbelieve in Muhammad until you die and are resurrected again.'
He then said to me, `Verily, if I die and am resurrected, and you come to me, I will also have abundance of wealth and children and I will repay you then.'
Then, Allah revealed these Ayat,
أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِأيَاتِنَا وَقَالَ لاَُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًا
Have you seen him who disbelieved in Our Ayat and said: "I shall certainly be given wealth and children." until,
وَيَأْتِينَا فَرْدًا
(and he shall come to Us alone. Ayah 80).
This was also recorded by the two compilers of the Sahihs and other collections as well.
In the wording of Al-Bukhari it states that Khabbab said,
"I used to be a blacksmith in Makkah and I made a sword for `As bin Wa'il. So I went to him to collect my pay from him..."
then he mentioned the rest of the Hadith and he said,
أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا
(or has he taken a covenant from the Most Gracious),
"This means an agreement. "
Concerning Allah's statement,
...
لاَأُوتَيَنَّ مَالاًأ وَوَلَدًا
I shall certainly be given wealth and children.
Meaning, on the Day of Resurrection.
In other words, "Does he know what he will have in the Hereafter, to such an extent that he can swear to it!"
عیار مقروض اور حضرت خباب ۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں لوہار تھا اور میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا میں اس سے تقاضا کرنے کو گیا تو اس نے کہا میں تو تیرا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک کہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری سے نہ نکل جائے میں نے کہا میں تو یہ کفر اس وقت تک بھی نہیں کر سکتا کہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہو ۔ اس کافر نے کہا بس تو پھر یہی رہی جب میں مرنے کے بعد زندہ ہوں گا تو ضرور مجھے میرا مال اور میری اولاد بھی ملے گی وہیں تیرا قرض بھی ادا کردوں گا تو آجانا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ( بخاری مسلم ) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے مکے میں اس کی تلوار بنائی تھی اس کی اجرت میری ادھار تھی ۔ فرماتا ہے کہ کیا اسے غیب کی خبر مل گئی ؟ یا اس نے اللہ رحمان سے کوئی قول قرار لے لیا ؟ اور روایت میں ہے کہ اس پر میرے بہت سے درہم بطور قرض کے چڑھ گئے اس لئے مجھے جو جواب دیا میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اس پر یہ آیتیں آتری اور روایت میں ہے کہ کئی ایک مسلمانوں کا قرض اس کے ذمے تھا ان کے تقاضوں پر اس نے کہاکہ کیا تمہارے دین میں یہ نہیں کہ جنت میں سونا چاندی ریشم پھل پھول وغیرہ ہوں گے ؟ ہم نے کہا ہاں ہے تو کہا بس تو یہ چیزیں مجھے ضرور ملیں گی میں وہیں تم سب کو دے دوں گا ۔ پس یہ آیتیں فردا تک اتریں ۔ ولدا کی دوسری قرأت واؤ کے پیش سے بھی ہے معنی دونوں کے ایک ہی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبر سے تو مفرد کے معنی میں ہے اور پیش سے جمع کے معنی میں ہے ۔ قیس قبیلے کی یہی لغت ہے واللہ اعلم ۔ اس مغرور کو جواب ملتا ہے کہ کیا اسے غیب پر اطلاع ہے ؟ اسے آخرت کے اپنے انجام کی خبر ہے ؟ جو یہ قسمیں کھا کر کہہ رہا ہے ؟ یا اس نے اللہ سے کوئی قول وقرار ، عہد وپیمان لیا ہے یا اس نے اللہ کی توحید مان لی ہے کہ اس کی وجہ سے اسے دخول جنت کا یقین ہو ؟ چنانچہ آیت ( لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا 87ۘ ) 19-مريم:87 ) میں اللہ کی وحدانیت کے کلمے کا قائل ہو جانا ہی مراد لیا گیا ہے ۔ پھر اس کے کلام کی تاکید کے ساتھ نفی کی جاتی ہے ۔ اور اس کے خلاف موکد بیان ہو رہا ہے کہ اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ہمارے ہاں لکھا جا چکا ہے اس کا کفر بھی ملنا تو کجا اس کے برعکس دنیا کا مال ومتاع اور اولاد وکنبہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا اور وہ تن تنہا ہمارے حضور میں پیش ہو گا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں ( ونرثہ ماعندہ ) ہے ۔ اس کی جمع جتھا اور اس کے عمل ہمارے قبضے میں ہیں ۔ یہ تو خالی ہاتھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ہمارے سامنے پیش ہو گا ۔