Surat Marium

Surah: 19

Verse: 77

سورة مريم

اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوۡتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ؕ۷۷﴾

Then, have you seen he who disbelieved in Our verses and said, "I will surely be given wealth and children [in the next life]?"

کیا تو نے اسے بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہا کہ مجھے تو مال و اولاد ضرور ہی دی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refuting the Disbelievers Who claim that They will be given Wealth and Children in the Hereafter Imam Ahmad reported from Khabbab bin Al-Aratt that he said, "I was a blacksmith and `As bin Wa'il owed me a debt. So I went to him to collect my debt from him. He said to me, `No, by Allah, I will not pay my debt to you until you disbelieve in Muhammad.' I replied to him, `No, by Allah, I will not disbelieve in Muhammad until you die and are resurrected again.' He then said to me, `Verily, if I die and am resurrected, and you come to me, I will also have abundance of wealth and children and I will repay you then.' Then, Allah revealed these Ayat, أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِأيَاتِنَا وَقَالَ لاَُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًا Have you seen him who disbelieved in Our Ayat and said: "I shall certainly be given wealth and children." until, وَيَأْتِينَا فَرْدًا (and he shall come to Us alone. Ayah 80). This was also recorded by the two compilers of the Sahihs and other collections as well. In the wording of Al-Bukhari it states that Khabbab said, "I used to be a blacksmith in Makkah and I made a sword for `As bin Wa'il. So I went to him to collect my pay from him..." then he mentioned the rest of the Hadith and he said, أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا (or has he taken a covenant from the Most Gracious), "This means an agreement. " Concerning Allah's statement, ... لاَأُوتَيَنَّ مَالاًأ وَوَلَدًا I shall certainly be given wealth and children. Meaning, on the Day of Resurrection. In other words, "Does he know what he will have in the Hereafter, to such an extent that he can swear to it!"

عیار مقروض اور حضرت خباب ۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں لوہار تھا اور میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا میں اس سے تقاضا کرنے کو گیا تو اس نے کہا میں تو تیرا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک کہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری سے نہ نکل جائے میں نے کہا میں تو یہ کفر اس وقت تک بھی نہیں کر سکتا کہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہو ۔ اس کافر نے کہا بس تو پھر یہی رہی جب میں مرنے کے بعد زندہ ہوں گا تو ضرور مجھے میرا مال اور میری اولاد بھی ملے گی وہیں تیرا قرض بھی ادا کردوں گا تو آجانا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ( بخاری مسلم ) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے مکے میں اس کی تلوار بنائی تھی اس کی اجرت میری ادھار تھی ۔ فرماتا ہے کہ کیا اسے غیب کی خبر مل گئی ؟ یا اس نے اللہ رحمان سے کوئی قول قرار لے لیا ؟ اور روایت میں ہے کہ اس پر میرے بہت سے درہم بطور قرض کے چڑھ گئے اس لئے مجھے جو جواب دیا میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اس پر یہ آیتیں آتری اور روایت میں ہے کہ کئی ایک مسلمانوں کا قرض اس کے ذمے تھا ان کے تقاضوں پر اس نے کہاکہ کیا تمہارے دین میں یہ نہیں کہ جنت میں سونا چاندی ریشم پھل پھول وغیرہ ہوں گے ؟ ہم نے کہا ہاں ہے تو کہا بس تو یہ چیزیں مجھے ضرور ملیں گی میں وہیں تم سب کو دے دوں گا ۔ پس یہ آیتیں فردا تک اتریں ۔ ولدا کی دوسری قرأت واؤ کے پیش سے بھی ہے معنی دونوں کے ایک ہی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبر سے تو مفرد کے معنی میں ہے اور پیش سے جمع کے معنی میں ہے ۔ قیس قبیلے کی یہی لغت ہے واللہ اعلم ۔ اس مغرور کو جواب ملتا ہے کہ کیا اسے غیب پر اطلاع ہے ؟ اسے آخرت کے اپنے انجام کی خبر ہے ؟ جو یہ قسمیں کھا کر کہہ رہا ہے ؟ یا اس نے اللہ سے کوئی قول وقرار ، عہد وپیمان لیا ہے یا اس نے اللہ کی توحید مان لی ہے کہ اس کی وجہ سے اسے دخول جنت کا یقین ہو ؟ چنانچہ آیت ( لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا 87؀ۘ ) 19-مريم:87 ) میں اللہ کی وحدانیت کے کلمے کا قائل ہو جانا ہی مراد لیا گیا ہے ۔ پھر اس کے کلام کی تاکید کے ساتھ نفی کی جاتی ہے ۔ اور اس کے خلاف موکد بیان ہو رہا ہے کہ اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ہمارے ہاں لکھا جا چکا ہے اس کا کفر بھی ملنا تو کجا اس کے برعکس دنیا کا مال ومتاع اور اولاد وکنبہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا اور وہ تن تنہا ہمارے حضور میں پیش ہو گا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں ( ونرثہ ماعندہ ) ہے ۔ اس کی جمع جتھا اور اس کے عمل ہمارے قبضے میں ہیں ۔ یہ تو خالی ہاتھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ہمارے سامنے پیش ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] خباب بن ارت کی مزدوری آخرت کو دینے والا :۔ اس آیت کا روئے سخن ایک قریشی سردار عاص بن وائل سہمی سے ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : && سیدنا خباب بن ارت کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار کا پیشہ کیا کرتا تھا۔ میں نے عاص بن وائل سہمی کے لئے ایک تلوار بنائی۔ میں اس کی مزدوری مانگنے کے لئے عاص کے پاس گیا وہ کہنے لگا۔ میں اس وقت تک تجھے مزدوری نہیں دوں گا۔ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر نہ جائے۔ میں نے کہا && جب اللہ تجھے موت دے گا پھر تجھے زندہ کرے گا، میں تو اس وقت تک بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار نہیں کروں گا &&۔ وہ کہنے لگا : && اچھا اگر اللہ مجھے مرنے کے بعد زندہ کرے گا تو پھر مجھے مال اور اولاد بھی دے گا (اس وقت میں تمہارا حساب چکا دوں گا) اس وقت اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں & (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اسی عاص بن وائل کے بیٹے سیدنا عمرو بن عاص ہیں۔ جب یہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے تو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے قریشی وفد کے نمائندے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو اسلام کی بیش بہا خدمات سرانجام دی تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا ۔۔ : اوپر کی آیات میں حشر کے یقینی ہونے کے دلائل بیان فرمائے اور کفار کے شبہات کا جواب دیا تھا، اب ان لوگوں کا قول نقل فرمایا جو حشر میں طعن کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ صحیحین میں ہے، خباب بن ارت (رض) بیان کرتے ہیں : (کُنْتُ قَیْنًا فِي الْجَاھِلِیَّۃِ وَکَانَ لِيْ عَلَی الْعَاصِ بْنِ وَاءِلٍ دَیْنٌ فَأَتَیْتُہُ أَتَقَاضَاہٗ ، قَالَ : لاَ أُعْطِیْکَ حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ لاَ أَکْفُرُ حتّٰی یُمِیْتَکَ اللّٰہُ ثُمَّ تُبْعَثَ ، قَالَ دَعْنِيْ حتّٰی أَمُوْتَ وَ أُبْعَثَ فَسَأُوْتِیْ مَالًا وَوَلدًا فَأَقْضِیْکَ فَنَزَلَتْ : (اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا 77؀ۭاَطَّلَعَ الْغَيْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا ) [ بخاری، البیوع، باب ذکر الفین والحداد : ٢٠٩١۔ مسلم، : ٣٥، ٣٦؍ ٢٧٩٥ ] ” میں زمانۂ جاہلیت میں لوہار کا کام کیا کرتا تھا اور میرا عاص بن وائل (ایک مال دار کافر) پر کچھ قرض تھا۔ میں (ایک دن) تقاضے کے لیے اس کے پاس گیا، وہ کہنے لگا : ” میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہیں کروں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے انکار نہ کرو۔ “ خباب (رض) نے کہا : ” اللہ کی قسم ! میں (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے) ہرگز انکار نہیں کروں گا، یہاں تک کہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہوجائے۔ “ کافر کہنے لگا : ” جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو تم میرے پاس آنا، اس وقت میرے پاس خوب مال بھی ہوگا اور اولاد بھی، میں تمہارا قرض ادا کروں گا۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ (چار آیات ” فَرْداً “ تک) نازل فرمائیں۔ “ اس واقعہ میں کفار کا قیامت سے مذاق کی صورت میں انکار کرنا بھی ہے اور اس کے خیال میں بالفرض قائم ہونے کی صورت میں دنیا پر قیاس کرتے ہوئے وہاں بھی مال و اولاد ملنے کے یقین کا اظہار بھی ہے۔ ایک ہی سانس میں اللہ تعالیٰ کے قیامت قائم کرنے پر قادر ہونے سے انکار ہے اور اسی سانس میں قیامت کے دن اسے مال و اولاد دینے پر قادر ہونے کا اظہار ہے۔ مشرک ایسے ہی جاہل ہوتے ہیں۔ یہاں چونکہ زیادہ نمایاں قیامت کے دن دنیا کی طرح مال و اولاد ملنے کے یقین کا اظہار ہے، اس لیے اس سے پہلے آیات (٧٣، ٧٤) میں اس کا رد کیا ہے، اب مزید تین آیات میں اس کا رد فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا (|"I shall certainly be given wealth and children|". - 19:77) Bukhari and Muslim relate the story of Sayyidna Khabab Ibn Al-&Aratt (رض) who had lent some money to ` As Ibn Wa’ il. When pressed to return the loan, ` As Ibn Wa’ il said that he would not make the payment until he (Sayyidna Khabab (رض) dissociated himself from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Sayyidna Khabab (رض) replied that he would never do that - not until ` As was dead and rose to life again. At this ` As Ibn Wa’ il said, |"What? Will I be brought to life again after I am dead? If so I will repay the loan only after I am brought back to life again because even then I will have my wealth and my children.|" (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھلا آپ نے اس شخص (کی حالت) کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کے ساتھ (جن کا حق یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جاتا جن میں سے آیات بعث بھی ہیں) کفر کرتا ہے اور (علیٰ سبیل الاستہزاء) کہتا ہے کہ مجھ کو (آخرت میں) مال اور اولاد ملیں گے (مطلب یہ کہ اس کی حالت بھی قابل تعجب ہے آگے اس کا رد ہے کہ) کیا یہ شخص غیب پر مطلع ہوگیا ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد (اس بات کا) لے لیا ہے (یعنی اس دعوے کا علم آیا بلا واسطہ اسباب ہوا ہے کہ علم غیب ہے یا بواسطہ اسباب ہوا ہے پھر چونکہ وہ دعویٰ حکم عقلی تو ہے نہیں بلکہ امر نقلی ہے۔ اس لئے صرف دلیل نقلی کہ اخبار خداوندی ہے اس کی دلیل ہو سکتی ہے سو دونوں طریق مفقود ہیں اول تو عقلاً بھی ممتنع ہے اور دوسرا وقوعاً منتفی ہے) ہرگز نہیں (محض غلط کہتا ہے اور) ہم اس کا کہا ہوا بھی لکھ لیتے ہیں (اور وقت پر یہ سزا دیں گے کہ) اس کے لئے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے اور اس کی کہی ہوئی چیزوں کے ہم مالک رہ جاویں گے (یعنی وہ تو دنیا سے مر جاوے گا اور اموال و اولاد پر کوئی اس کا اختیار نہ رہے گا ہم ہی سب کے مالک رہیں گے اور قیامت میں ہم اس کو نہ دیں گے بلکہ) وہ ہمارے پاس (مال و اولاد سے) تنہا ہو کر آوے گا اور لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود تجویز کر رکھے ہیں تاکہ ان کے لئے وہ (عند اللہ) باعث عزت ہوں (جیسا اس آیت میں حکایت ہے یَقُولُونَ ھٓوُلَآءِ شُفَعَآوُنَا عند اللّٰہِ سو ایسا) ہرگز نہیں ہوگا بلکہ وہ تو (قیامت میں خود) ان کی عبادت ہی کا انکار کر بیٹھیں گے (جیسا سورة یونس کے تیسرے رکوع میں گزر چکا قال شُرَکَآوُھُم مَا کُنتُم اِیَّانَا تَعبُدُونَ ) اور (الٹے) ان کے مخالف ہوجاویں گے، (قالاً بھی جیسا گزرا اور حالاً بھی کہ بجائے عزت کے سبب ذلت ہوجاویں گے اور معبودین میں اصنام بھی ہوں گے سو ان کا ناطق ہونا جیسا یکفرون کا مقتضا ہے مثل نطق جوارح کے مستبعد و مستغرب نہیں) معارف و مسائل لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا، بخاری و مسلم میں حضرت خباب بن الارت کی روایت ہے کہ ان کا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمہ تھا یہ ان کے پاس تقاضہ کے لئے گئے اس نے کہا میں تو تمہارا قرض اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر و انکار کا معاملہ نہ کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا جب تک کہ تم مرو پھر زندہ ہو۔ عاص بن وائل نے کہا کہ اچھا کیا میں مر کر پھر زندہ ہوں گا۔ اگر ایسا ہے تو بس تمہارا قرض بھی اسی وقت چکاؤں گا جب دوبارہ زندہ ہوں گا کیونکہ اس وقت بھی میرے پاس مال اور اولاد ہوں گے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا۝ ٧٧ۭ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) اور کیا آپ نے عاص بن وائل کی حالت کو بھی دیکھا جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخرت کے بارے میں جو بیان کرتے ہیں اگر وہ ٹھیک ہے تو مجھے وہاں بھی مال واولاد ملے گا۔ شان نزول : ( آیت) ”۔ افرء یت الذی کفر بایتنا “۔ (الخ) امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے حضرت خباب بن ارت سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں عاص بن وائل سہمی کے پاس اپنے قرض کی واپسی کے لیے آیا تو عاص کہنے لگا کہ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر نہ کرے گا تیرے قرض نہ ادا کروں گا، حضرت خباب نے فرمایا کہ اگر تو مر کر پھر زندہ ہوجائے گا تب بھی کفر نہ کروں گا اس پر عاص نے کہا کہ میں مروں گا پھر زندہ ہوں گا، حضرت خباب (رض) نے فرمایا ہاں عاص کہنے لگا تو میرے پاس جب ہی آنا میرے پاس اس وقت بھی مال واولاد سب کچھ ہوگا، تیرا قرض ادا کروں گا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی کیا بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (اَفَرَءَ یْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا ) ” یہ بھی وہی مضمون ہے جو سورة الکہف کے پانچویں رکوع میں دو اشخاص کے مکالمے کے سلسلے میں گزر چکا ہے۔ وہاں بھی بالکل اسی سوچ کے حامل مالدار شخص کا ذکر ہے جس نے اللہ کے نیک بندے کو مخاطب کر کے کہا تھا : (وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآءِمَۃً لا وَّلَءِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا ) کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ قیامت واقعی برپا ہوگی ‘ لیکن بالفرض اگر ایسا ہوا بھی تو میں دنیا کی طرح وہاں بھی نوازا جاؤں گا اور تم جو یہاں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہو وہاں بھی اسی حال میں رہو گے۔ آیت زیر نظر میں یہی نظریہ قریش مکہ کے حوالے سے دہرایا گیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم جوُ پر تعیش زندگی کے مزے لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہم سے خوش ہے۔ چناچہ ہمیں آخرت میں بھی اسی طرح سے کثرت مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ وہ اسی دنیا میں آئندہ بھی کثرت مال و اولاد کی توقع لیے بیٹھے تھے ‘ مگر مجھے ان مفسرین کی رائے سے اتفاق ہے جن کے نزدیک یہ ان کی آخرت کی توقع کا ذکر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. The boastful person was not a particular man but a typical chief of the disbelievers of Makkah. Everyone of them claimed: Howsoever you may call me an erroneous and un-righteous person and threaten me with the divine scourge, the fact is that I am more prosperous than you today and shall continue being blessed with favors in future as well. Just have a look at my riches, at my grandeur and at my estate, and at my well-known sons, and then say where you see any signs of the wrath of God.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :47 یعنی وہ کہتا ہے کہ تم مجھے خواہ کتنا ہی گمراہ و بدکار کہتے رہو اور عذاب الہی کے ڈراوے دیا کرو ، میں تو آج بھی تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور آئندہ بھی مجھ پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی ۔ میری دولت دیکھو ، میری وجاہت اور ریاست دیکھو ، میرے نامور بیٹوں کو دیکھو ، میری زندگی میں آخر تمھیں کہاں یہ آثار نظر آتے ہیں کہ خدا کا مغضوب ہوں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مکے میں کسی ایک شخص کے خیالات نہ تھے بلکہ کفار مکہ کا ہر شیخ اور سردار اسی خبط میں مبتلا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: صحیح بخاری میں حضرت خباب بن ارت (رض) نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے مکہ مکرمہ میں لوہار کا پیشہ اختیار کر رکھا تھا اور (اسی سلسلے میں) میرے کچھ پیسے مکہ مکرمہ کے ایک کافر سردار عاص بن وائل کے ذمے واجب ہوگئے تھے۔ میں اس سے اپنا حق مانگنے کے لیے گیا تو اس نے قسم کھا کر کہا کہ : میں تمہارے پیسے اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ جھٹلاؤ۔ میں نے کہا کہ تم مر کر دوبارہ زندہ ہوجاؤ تب بھی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا۔ اچھا جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو وہاں بھی میرے پاس بہت سا مال اور اولاد ہوگی، اس وقت میں تمہارے پیسے ادا کردوں گا۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٧۔ ٨٢:۔ صحیح بخاری ومسلم میں خباب بن ارت (رض) کی روایت سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس میں خباب (رض) کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ میں کے ایک شخص عاص بن وائل پر میرا کچھ قرضہ آتا تھا میں جب اپنا قرضہ مانگنے کو اس کے پاس گیا تو اس نے کہا ادا کردوں گا، عاص بن دائل نے یہ سن کر کہا کہ اگر مر کر پھر جان سچ ہے تو تم مسلمانوں کے عقیدہ کے موافق وہاں جنت میں میرے پاس مال و اولاد سب کچھ ہوگا پھر وہیں میں تمہارا قرضہ ادا کروں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ١ ؎ اور فرمایا اے رسول اللہ کے تم نے ان منکرین قرآن کا حال دیکھا اور ان کی باتیں سنیں کہ یہ لوگ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں اور پھر اس امید میں ہیں کہ عقبیٰ میں ان کو مال واولاد سب کچھ مل جائے۔ ایسی باتیں مسخراپن کے طور پر یہ لوگ اسی واسطے کرتے ہیں کہ عقبیٰ کی باتیں ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں آئیں جب مرنے کے ساتھ ہی دوزخ میں کا اپنا ٹھکانا دیکھ لیں گے تو انہیں ان باتوں کی قدر کھل جائے گی۔ پھر فرمایا عقبیٰ کی باتیں تو انسان کی نگاہ سے غائب ہیں پھر کیا عاص بن وائل غیب کا حال دیکھ آیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس سے کوئی وعدہ کرلیا ہے جو یہ عقبیٰ میں مال واولاد سب کچھ مل جانے کی امید رکھتا ہے پھر فرمایا نہ یہ غیب کی باتیں دیکھ آیا ہے نہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی اس کے پاس کوئی سند ہے مسخراپن کے طور پر یہ جھوٹی باتیں کرتا ہے جس سے علاوہ کفر کے اس جھوٹ کی سزا اس نے اپنے ذمہ اور بڑھالی کیونکہ اس کی یہ سب جھوٹی باتیں اللہ کے حکم سے فرشتے لکھ رہے ہیں پھر فرمایا مرنے کے بعد تمام دنیا کا مال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں آجائے گا اس کے پاس وہاں عقبیٰ میں کیا ہوگا جو یہ قرضہ ادا کرے گا پھر فرمایا ان لوگوں نے بتوں کو اپنا سفارشی جو ٹھہرایا ہے یہ بھی ان لوگوں کا ایک جھوٹا خیال ہے کیونکہ جن نیک لوگوں کی مورتوں کو یہ مشرک پوجتے ہیں قیامت کے دن وہ نیک لوگ اپنے پوجا کرنے والوں کے دشمن بن جائیں گے اس دشمنی کا ذکر سورة یونس میں گزر چکا ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے شداد بن اوس کی معتبر روایت کئی جگہ گزر چکی ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کا کچھ سامان کرلے اور عقل سے بےبہرہ وہ ہے جو عمر بھر برے کاموں میں لگا رہے اور مرنے کے بعد بہبودی کی امید رکھے۔ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ عاص بن وائل کی طرح جو شخص برے کاموں میں لگا رہے اور عقبیٰ کی بہبودی کی امید رکھے وہ عقل سے بالکل بےبہرہ ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ١٣٥ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:77) افرأیت۔ أ استفہام کے لئے ہے ف تعقیب کے لئے ہے یعنی ازاں بعد۔ ف کے استعمال برائے تعقیب کی مثال حسبہ فقتلہ۔ اس نے اس کو قید کیا پھر اس نے اس کو قتل کردیا۔ یا دخلت البصرۃ فبغداد میں بصرہ میں داخل ہوا پھر بغداد میں۔ یہاں اس آیت میں اس سے یہ مطلب لیا جائے گا۔ اخبر بقصۃ ھذا الکافر عقیب حدیث اولئک الذین قالوا : ای الفریقین خیر مقاما (آیۃ 73) وعقیب من قال : ء اذا ما مت الخ (آیۃ 66) یعنی ان لوگوں کے قصہ کے بعد جنہوں نے کہا : ای الفریقینالخ یا اس شخص کے قصہ کے بعد جا نے کہا۔ ء اذا ما متالخ اب اس شخص کا قصہ بتائیے (الذی کفر بایتنا) جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا صاحب الاتقان فرماتے ہیں : جب ہمزہ استفہام ” رأیت “ پر داخل ہوتا ہے تو اس حالت میں رأیت کا آنکھوں یا دل سے دیکھنے کے معنی میں آنا ممنوع ہوتا ہے اور اس کے معنی ” اخبرنی “ (مجھ کو خبر دو ) کے ہوتے ہیں۔ لیکن ارایت کے اردو ترجمہ ” کیا تو نے دیکھا “ میں بھی مراد رویت بچشم یا بہ دل نہیں ہے بلکہ کہنے والا مابعد کے کلام کے متعلق خبر ہی چاہتا ہے۔ اکثر مفسرین نے اس کا ترجمہ یہی کیا ہے۔ الذی۔ یہاں کون شخص مراد ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ لیکن تفصیلات میں اختلاف کے باوجود نفس مضمون میں کوئی فرق نہیں۔ ایک روایت ہے کہ اصحاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے چند اصحاب نے عاص بن وائل سے قرض دی ہوئی رقم لینی تھی جب انہوں نے اس سے تقاضا کیا تو اس نے کہا الستم تزعمون ان فی الجنۃ ذھبا وفضۃ وحریرا ومن کل الثمرات قالوا بلی قال موعدکم الاخرۃ واللہ لاوتین مالا وولدا (کیا آپ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ جنت میں سونا۔ چاندی ریشم اور جملہ ثمرات ملیں گے۔ انہوں نے کہا ہاں کہنے لگا پھر تمہارے ساتھ آخرت کا وعدہ رہا۔ خدا کی قسم میں (وہاں) ضرور مال واولاد سے نوازا جائوں گا (اور اس میں سے آپ کا قرضہ چکادوں گا) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لاوتین۔ لام تاکید کے لئے ہے اوتین مضارع مجہول بانون ثقیلہ۔ صیغہ واحد متکلم میں ضرور بالضرور دیا جائوں گا۔ مجھے یقینا دئیے جائیں گے (مال واولاد) ایتاء مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ خباب بن ارت صحابی لوہار کا کام کرتے تھے، ان کا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمہ رہ گیا تھا، انہوں نے ایک بار تقاضا کیا تو عاص نے جواب دیا کہ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر نہ کرے گا تیرے دام نہ دوں گا، انہوں نے کہا کہ اگر تو مر کر بھی زندہ ہوگا جب بھی کفر نہ کروں گا، اس نے کہا پس جب یہ بات ہے کہ میں مر کر بھی زندہ ہونے والا ہوں تو میرے پاس جب ہی آنا، میرے پاس اس وقت بھی مال اولاد سب کچھ ہوگا۔ تیرے دام بھگتا دوں گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں کفر اور سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کی جا رہی تھی۔ جس میں یہ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ظالموں کو مہلت دیتا ہے اس کے بعد مختصر طور پر ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر اور ان کے بہترین انجام کا بیان فرمایا۔ اب پھر کفر و شرک اور سرمایہ دارانہ ذہن کی ترجمانی کی جا رہی ہے۔ کفر و شرک اور سرمایہ دارانہ خیال رکھنے والا شخص یہ سوچتا ہے کہ جس طرح دنیا میں اسے نوازا گیا ہے اسی طرح ہی آخرت میں اسے نوازا جائے گا۔ مکہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو نہ صرف یہ ذہن رکھتے تھے بلکہ اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے جس بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا ہے کیا آپ نے اس شخص کی گفتگو نہیں سنی جو یہ کہتا ہے کہ میں آخرت میں بھی مال اور اولاد میں زیادہ ہوں گا۔ اس سے پوچھیے کیا اس نے پردہ غیب سے سب کچھ دیکھ لیا ہے یا رب رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے ؟ کہ وہ اسے آخرت میں بھی نوازے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ البتہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے ہم لکھ رہے ہیں اور ہم اس کے لیے عذاب کو بڑھائیں گے۔ جس مال اور اسباب کے بارے میں یہ غرور کرتا ہے اس کے ہم ہی حقیقی مالک ہیں اور وارث ہوں گے۔ قیامت کے دن اسے تنہا ہمارے پاس حاضر ہونا ہوگا۔ اس کا مال اور اولاد اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اللہ کے ہاں انسان کا ہر اچھا اور برا عمل لکھا جاتا ہے، اس کے باوجود لکھنے کا کا ذکر کیا ہے۔ جس کا مقصد ایک تنبیہ اور دھمکی ہے۔ مسائل ١۔ کافر یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی نوازا جائے گا۔ ٣۔ انسان جو کچھ بولتا اور کرتا ہے اسے لکھ لیا جاتا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کا مال اور اولاد اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت کے شان نزول میں حضرت خباب ابن الارت کی یہ روایت آئی ہے :” میں ایک لوہار تھا۔ عاص ابن وائل پر میرا قرض تھا۔ میں اس کے پاس آیا اور اس سے اپنے قرضے کا تقاضا کیا تو اس نے کہا خدا کی قسم میں تجھے ہر گز تمہارا قرض نہ دوں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار نہ کردو۔ تو میں نے کہا خدا کی قسمایسا نہیں ہوسکتا۔ میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ تم ایک بار مرکر دوبارہ زندہ نہ ہو جائو۔ اس نے کہا اچھا پھر جب میں مر گیا اور دوبارہ زندہ ہوگیا تو وہ وہاں میرے پاس بہت مال ہوگا ‘ میری اولاد ہوگی ‘ وہاں آنا میرے پاس میں آپ کو قرض دے دوں گا۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ افرء یت الذی۔۔۔۔۔۔ ما لاو ولدا (٩١ : ٧٧) ” تو نے دیکھا اس شخص کو ‘ جو ہماری آیات کے ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال اور اولاد سے نوازا ہی جاتارہوں گا “۔ عاص ابن وائل کی یہ بات کفار قریش کے اس ذاق کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے جو وہ بعث بعد الموت کے نظر یہ کے ساتھ کرتے تھے۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کی سوچ پر تعجب سے یہ تبصرہ اور گرفت کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بعض منکرین کے اس دعوے کی تردید کہ مجھے قیامت کے دن بھی اموال دیے جائیں گے پہلی آیت کا سبب نزول حضرت خباب بن ارت (رض) سے یوں مروی ہے کہ میں ایک سنار تھا اور عاص بن وائل مشرک پر میرا قرضہ تھا۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے کے لیے آیا اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک تیرا قرضہ ادا نہیں کروں گا جب تک کہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار نہ کر دے، میں نے جواب میں کہا کہ اللہ کی قسم میں کبھی بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماننے سے منکر نہ ہوں گا یہاں تک کہ تو مرجائے پھر دوبارہ اٹھایا جائے اس پر عاص بن وائل نے کہا کہ کیا میں مرنے کے بعد اٹھایا جاؤں گا میں نے کہا ہاں تو ضرور اٹھایا جائے گا اس پر وہ کہنے لگا کہ اگر میں مرنے کے بعد اٹھایا جاؤں گا تو میں وہیں تیرے قرضہ کی ادائیگی کر دوں گا کیونکہ مجھے وہاں بھی مال ملے گا اور مجھے وہاں بھی اولاد دے دی جائے گی اس پر آیت شریفہ (اَفَرَءَ یْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا) (الایہ) نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری ص ٦٩١۔ ٦٩٢ ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ شکوی مع تخویف۔ ائمہ ستہ نے حضرت خباب (رض) سے روایت کیا ہے کہ عاص بن وائل کے ذمہ ان کی کچھ مزدوری تھی وہ ایک دن اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے گئے تو عاص نے کہا۔ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر نہیں کرے گا اور خدا کے ساتھ شریک نہیں بنائے گا۔ اس وقت تک میں تمہیں مزدوری نہیں دوں گا۔ جوابا حضرت خباب نے کہا میں تو کبھی کفر نہیں کروں گا۔ اگرچہ کہ تو مرجائے اور پھر دوبارہ زندہ ہوجائے۔ عاص بول اٹھا۔ کیا مرنے کے بعد مجھے پھر زندہ کیا جائے گا ؟ اگر ایسا ہے تو میں وہیں تمہارا قرض ادا کردوں گا۔ کیونکہ یہاں کی طرح وہاں بھی میرے پاس آل و اولاد اور مال و زر کی کثرت ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

77 اے پیغمبر ! بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیات کے ساتھ کفر و انکار کی روش اختیار کرتا یعنی جن آیات الٰہی پر ایمان لانا چاہئے یہ ان کا انکار کرتا ہے اور باوجود کفر کے یوں کہتا ہے کہ مجھ کو یقینا مال اور اولاد مل کر رہے گا۔ یہ عاص بن وائل کا قول ہے جو اس نے ایک مسلمان جناب بن ارت کی مزدوری مانگنے پر بطور استہزاء کہا تھا یا مشروط طور پر کہا ہوگا کہ اگر دوبارہ زندگی ہوئی اور قیامت میں اٹھنا ہوا تو وہاں میرا سب کچھ مل جائے گا وہاں تجھ کو مزدوری دیدوں گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ایک کافرمال دار ایک لوہار کو کہنے لگا تو مسلمانی سے منکر ہو تو میں تیری مزدوری دوں اس نے کہا کہ تو مرے پھر جیوے تو بھی منکر نہ ہوں۔ اس نے کہا اگر پھر جیوں گا تو بھی مال اور اولاد وہاں بھی ہوگا تجھ کو مزدوری وہاں دیدوں گا اسی پر یہ فرمایا یعنی وہاں دولت ملتی ہے ایمان سے کافر چاہے کہ یہاں کی دولت وہاں ملے سو نہیں۔ 12