Surat Marium

Surah: 19

Verse: 78

سورة مريم

اَطَّلَعَ الۡغَیۡبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۙ۷۸﴾

Has he looked into the unseen, or has he taken from the Most Merciful a promise?

کیا وہ غیب پر مطلع ہے یا اللہ کا کوئی وعدہ لے چکا ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَاطَّلَعَ الْغَيْبَ ... Has he known the Unseen, This is a rejection of the person who says, ... أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا or has he taken a covenant from the Most Gracious! Or has he received a promise from Allah that he will be given these things It has already been stated that in Sahih Al-Bukhari it is mentioned that covenant means an agreement. Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] یعنی کیا اسے غیب کے حالات پر، جو دوسری زندگی میں پیش آنے والے ہیں۔ یہ اطلاع ہوگئی ہے کہ واقعی اسے اس دوسرے عالم میں بھی ایسے ہی مال و دولت ملے گا۔ جیسا اس دنیا میں اس کے پاس موجود ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ اسے دوسرے عالم میں ضرور مال و دولت عطا کرے گا اور وہاں وہ اپنے قرض خواہ کا حساب بےباق کرسکے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَطَّلَعَ الْغَيْبَ اَمِ اتَّخَذَ ۔۔ : یعنی یہ بات تو ” کہ وہ جنت میں جائے گا اور خوب مال و دولت پائے گا “ وہی کرسکتا ہے جس نے غیب پر اطلاع پائی ہو، یا اس بیحد رحم والی ذات پاک سے کوئی عہد لے رکھا ہو جس نے اپنی بیحد رحمت کی بنا پر اپنے فرماں بردار بندوں سے انعام کا عہد کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ علم غیب جب پوری مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں تو اسے کیسے حاصل ہوگیا ؟ رہا قیامت کے دن نعمتوں کا عہد، تو وہ رحمت کے حق داروں ہی سے ہے، جو ایمان دار ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١٨) اس کافر سے وہ عہد کب اور کیسے ہوا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This verse is an answer to ` As Ibn Wa’ ils boastful claim. How does he know that when he is brought back to life he will still have his wealth and children? أَطَّلَعَ الْغَيْبَ (Has he peeped in the unseen - 19:78) It is obvious that nothing of this kind has happened. Then why has he considered it as a surety? أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّ‌حْمَـٰنِ عَهْدًا “ Or taken a covenant with The Rahman (All-Mercifull)” Or has he entered into a covenant with Allah Ta` ala and obtained a promise from Him for his wealth and his children?

قرآن کریم نے اس احمق کے جواب میں فرمایا کہ اسے یہ کیسے معلوم ہوا کہ دوبارہ زندہ ہونے کے وقت بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہوں گے، اَطَّلَعَ الْغَيْبَ ، کیا اس نے غیب کی باتوں کو جھانک کر معلوم کرلیا ہے، اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا، یا اللہ رحمٰن سے اس نے مال و اولاد کے لئے کوئی عہد اور وعدہ لے لیا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی بات ہوئی نہیں۔ پھر اس نے یہ خیال کیسے پکا لیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَطَّلَعَ الْغَيْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا۝ ٧٨ۙ طلع طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر/ 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ. ( ط ل ع ) طلع ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨) اللہ تعالیٰ اس کی تردید فرما رہا ہے کہ کیا اس نے لوح محفوظ کو دیکھ لیا ہے کہ اس کو مال واولاد ملے گا، یا اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ “۔ کا یقین کر کے اللہ تعالیٰ سے اس چیز کا وعدہ لے لیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ) ” جو شخص ایسے دعوے کرتا ہے آخر اس کے ان دعو وں کی دلیل کیا ہے ؟ کیا اس نے غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے ؟ یا اللہ تعالیٰ سے وہ کوئی قول و اقرار لے چکا ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:78) اطلع۔ اس میں أ اطلع ہمزہ وصل کو تخفیفاً حذف کیاء ہمزہ استفہام قائم رہا۔ اطلع ہوا۔ کیا اس کو اطلاع ہوگئی ہے (غیب کی) کیا وہ مطلع ہوگیا ہے۔ کیا اس نے جھانک لیا ہے۔ (یعنی جھانک کر دیکھ لیا ہے) اطلاع (افتعال) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اطلاع مصدر بمعنی جھانکنا۔ مطلع ہونا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اوپر کی آیات میں صحت حشر کے دلائل بیان فرمائے اور ان ن کے شبہات کا ازالہ فرمایا اب ان کا قوال نقل فرمایا جو حشر میں طعن کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے تھے صحیحین میں ہے کہ حضرت خباب بن ادت لوہار کا کام کرنے تھے اور ان کا عاص بن وائل (ایک ملدار کافر) پر کچھ قرض تھا۔ وہ ایک روز) تقاضے کے لئے اس کے پاس گئے کافر کہنے لگا ” میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک تم محمد (ﷺ) کی رسالت سے انکار نہ کردو “ خباب نے کہا ” اللہ کی قسم میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے ہرگز انکار نہ کروں گا یہاں تک کہ تم مر کردو بد “ زندہ ہوجائو ” کافر کہنے لگا “ جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو تم میرے پاس آنا، اس وقت میرے پاس خوب مال بھی ہوگا اور اولاد بھی میں تمہارا قرض ادا کردوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ چار آیات فرداً تک نازل فرمائیں۔ پہلی آیت میں اس کے طعن کو نقل فرمایا اور پھر ” اطلع الغیب سے اس کے استہزا کا جواب دیا۔ (کبیر)8 یعنی یہ بات ” کہ وہ جنت میں جائے گا اور واں دولت پائے گا تو ہہی کرسکتا ہے جس نے علم غیب پر اطلاع پالی ہو یا ” عالم الغیب نے خود اسے اطلاع دے دی ہو۔ (کسیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اطلع الغیب (٩١ : ٨٧) ” کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے “۔ کیا اسے قبل ازوقت معلوم ہے کہ وہاں کیا ہوگا۔ ام اتخذ۔۔۔۔۔۔۔۔ عھدا (٩١ : ٨٧) ” یا اس نے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے “ اور اسے یقین ہے کہ اللہ اپنے عہد کا پابند ہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے۔ کلا ” ہر گز نہیں “ کلا نفی اور زجر کا لفظ ہے۔ نہ اسے غیب کا علم ہے اور نہ اس نے اللہ سے کوئی وعدہ لے رکھا ہے بلکہ یہکفر پر تل گیا ہے اور محض مذاق کرتا ہے۔ ایسے مقامات پر ایسے کافروں کے لائق یہی ہے کہ انہیں تہدیدآمیز تنبیہ کردی جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ چند صحابہ کا عاص بن وائل پر قرضہ تھا اور وہ اس کے پاس تقاضا کرنے کے لیے آئے تو اس نے کہا کہ آپ لوگ یوں کہتے ہیں کہ جنت میں سونا ہے چاندی ہے اور ریشم ہے اور ہر طرح کے پھل ہیں صحابہ کرام (رض) نے جواب کہا کہ ہاں ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں، کہنے لگا بس تو میں تمہارے قرضے آخرت میں ہی چکاؤں گا اللہ کی قسم ! مجھے مال بھی دیا جائے گا اور اولاد بھی اور جو کتاب تمہیں دی گئی ہے مجھے بھی مل جائے گی اس پر آیت بالا نازل ہوئی، بات یہ ہے کہ ایسی باتیں وہی شخص کیا کرتا ہے جو ایمان کا مذاق بناتا ہے اور جو اپنے بارے میں یہ خیال کرتا ہے میں اللہ کا مقبول بندہ ہوں چونکہ اس نے مجھے یہاں مال اولاد سے نوازا ہے اس لیے اگر قیامت آ ہی گئی اور وہاں حاضری ہوئی تو مجھے وہاں بھی ایسا ہی ملے گا جیسے یہاں ملا ہوا ہے، اس نے یہ سب باتیں غریبوں کی تحقیر اور وقوع قیامت کی تکذیب اور نادہندگی کے بہانہ کے طور پر کہیں اللہ تعالیٰ شانہ نے اس کی تردید فرمائی جس میں عاص بن وائل اور اس جیسی باتیں کرنے والوں کی بےہودگیوں کا جواب ہوگیا، اللہ تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا (اَطَّلَعَ الْغَیْبَ ) یعنی اس نے یہ دعویٰ کیسے کیا کہ قیامت کے دن اسے مال اور اولاد سے نوازا جائے گا کیا اسے غیب کی خبر ہے ؟ اپنی طرف سے خود ہی باتیں بناتا ہے اور غیب کی خبریں دیتا ہے کہ میرے ساتھ ایسا ایسا ہوگا اور خبر بھی اس چیز کی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو، مطلب یہ ہے کہ اس کا جو یہ دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسے ایسے دے گا بلا دلیل بلا علم اور بلا اطلاع ہے سب کچھ اس نے اپنے پاس سے بنا لیا۔ (اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْدًا) (کیا اس نے رحمن سے کچھ عہد لے لیا ہے) کہ اسے یہ چیزیں دی جائیں گی اس کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی عہد نہیں ہے، وہ اپنے پاس سے باتیں بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ اپنی طرف سے یہ بات لگاتا ہے کہ مجھے وہاں بھی مال عطا فرمائے گا۔ کلا یہ کلمہ زجر اور توبیخ کے لیے ہے مطلب یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے جیسا کہ اس نے خیال کیا ہے اس نے جو کچھ اپنے بارے میں سوچا اور کہا یہ سب غلط ہے اور گمراہی ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کو نعمتیں ملیں گی اور کافرین ان سے محروم رہیں گے آتش دوزخ میں جلیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ ” اَطَّلَعَ “ اصل میں ” ءَ اِطْتَلَعَ “ بروزن افتعل تھا۔ فائے افتعال کے مقابلے میں طاء واقعہ ہونے کی وجہ سے تائے افتعال کو طاء سے بدل دیا گیا۔ اور اول کو ثانی میں ادغام کردیا گیا۔ اور ہمزہ وصل مابین سے ساقط ہوگیا۔ تو ” اَطَّلَعَ “ ہوگیا۔ یعنی جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ اگر قیامت آئی تو اس وقت بھی اس کے پاس دولت بکثرت ہوگی۔ کیا وہ غیب جانتا ہے کہ اسے یہ بات معلوم ہے یا خدا سے اس نے کوئی اس بات کا عہد لے لیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی اس لیے اس کا دعوی غلط ہے۔ ” سَنَکْتُبُ مَا یَقُوْلُ “ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ہم اسے لکھوا رہی ہیں اور کفر و انکار کے علاوہ ہمارے احکام سے استہزاء اور تمسخر کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کیا جائے گا اور جس مال و اولاد کا اسے گھمنڈ ہے۔ وہ سب کچھ ہم اس سے سلب کرلیں گے اور قیامت کے دن تن تنہا ہمارے پاس حاضر ہوگا اس کے ساتھ نہ اولاد ہوگی، نہ قبیلہ، نہ دولت، ای منفردا لا مال لہ ولا ولد ولا عشیرۃ تنصرہ (قرطبی ج 11 ص 148) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

78 کیا اس نے غیب کی اطلاع پا لی ہے اور غیب پر مطلع ہوگیا ہے اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد حاصل کرلیا ہے اور خدا سے کوئی وعدہ لے لیا ہے۔ یعنی اس نے کیا غیب کا حال معلوم کرلیا ہے کہ اس کو مال اور اولاد ملے گی یا اس نے خدا سے کوئی وعدہ اور قارار لے لیا ہے کہ قیامت میں تجھ کو مال اور اولاد عطا کروں گا دونوں باتیں عقلاً منتقی ہیں۔