Surat Marium

Surah: 19

Verse: 84

سورة مريم

فَلَا تَعۡجَلۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمۡ عَدًّا ﴿ۚ۸۴﴾

So be not impatient over them. We only count out to them a [limited] number.

تو ان کے بارے میں جلدی نہ کر ، ہم تو خود ہی ان کے لئے مدت شماری کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَ تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ ... So make no haste against them; We only count out to them a (limited) number. This means, "Do not be hasty with the punishment that is going to befall them, O Muhammad." ... إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا We only count out to them a number. This means, "We are only delaying them for a fixed appointment whose time is numbered. They are destined for that and there is no escaping the torment of Allah and His exemplary punishment." Allah says, وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَـفِلً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّـلِمُونَ And consider not that Allah is unaware of that which the wrongdoers do. (14:42) And He says, فَمَهِّلِ الْكَـفِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً So give a respite to the disbelievers; deal gently with them for a while. (86:17) And Allah says, إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمَاً We postpone the punishment only so that they may increase in sinfulness. (3:178) نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ We let them enjoy for a little while, then in the end We shall oblige them to (enter) a great torment. (31:24) قُلْ تَمَتَّعُواْ فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ Say: "Enjoy! But certainly, your destination is the (Hell) Fire." (14:30) As-Suddi said, إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا (We only count out to them a (limited) number), means years, months, days and hours."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 اور جب وہ مہلت ختم ہوجائے گی تو عذاب الٰہی ان کیلئے ہمیشگی کے لئے بن جائیگا۔ آپ کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] جو لوگ شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں تو پھر شیطان انھیں اپنی انگلیوں پرنچاتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کی گمراہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے وہ جو کام کرتے ہیں سرکشی اور نافرمانی کا ہی کرتے ہیں اور ہم یہ سب کچھ ان کے نامہ اعمال میں محفوظ کرتے جارہے ہیں۔ لہذا آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دن گنے جاچکے ہیں۔ لہذا آپ ان پر عذاب کے لئے جلدی نہ کریں جتنے ان کی مہلت کے دن باقی ہیں وہ پورے ہو لینے دیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۙفَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ : یعنی ایسا نہ کریں کہ جس طرح وہ شیاطین کے ابھارنے سے برائیوں میں جلدی کرتے ہیں کہ آپ بھی ان پر جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرنے لگیں، بلکہ صبر اور حوصلے سے انتظار کریں اور ان پر حجت پوری ہونے دیں۔ دیکھیے سورة احقاف (٣٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلتَّأَنِّيْ مِنَ اللّٰہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ ) [ مسند أبی یعلٰی : ٤٢٥٦۔ السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢٠٧٦٧۔ سلسلۃ الأحادیث صحیحۃ : ٤؍٢٩٤، ح : ١٧٩٥، عن أنس ] ” اناۃ (بردباری، وقار، آہستہ روی) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ “ ۭ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا : آدمی کے اطمینان، صبر و ثبات اور خوشی کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اس کا سب سے زیادہ قوت والا مددگار مسلسل اس کے دشمن کی نگرانی کر رہا ہو اور نہ دشمن کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز پریشان کن ہوسکتی ہے۔ فرمایا، ہم تو بس ان کو دی ہوئی مہلت کا ایک ایک سانس گن رہے ہیں اور گنی ہوئی چیز نے آخر ختم ہونا ہے، پھر یہ کسی صورت بچ نہیں سکیں گے، تو پھر جلدی کیسی ؟ دیکھیے سورة ہود (٨) روزوں کے جلدی گزرنے کی وجہ بھی ” اَیَّاماً مَّعْدُوْدَاتٍ “ فرمائی۔ بعض سلف یہ آیت پڑھتے تو روتے اور کہتے کہ گنتی ختم ہونے کا نتیجہ تیری جان کا نکلنا ہے، تیرا قبر میں داخل ہونا اور تیرا اہل و عیال سے جدا ہونا ہے۔ ایک اور بزرگ نے فرمایا، ہر سانس جو تجھے زندگی بخش رہا ہے تیری زندگی کے سانسوں کی گنتی کم کرتا جا رہا ہے، پھر اس شخص کی زندگی کا کیا حال ہے جسے زندہ رکھنے والی چیز ہی اس کی زندگی کے زوال کا باعث ہے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂ إِِنَّ الْحَبِیْبَ مِنَ الْأَحْبَابِ مُخْتَلَسٌ لاَ یَمْنَعُ الْمَوْتَ بَوَّابٌ وَلَا حَرَسُ وَکَیْفَ یَفْرَحُ بالدُّنْیَا وَلَذَّتِھَا فَتًی یُعَدُّ عَلَیْہِ اللَّفْظُ وَالنَّفَسُ ” ہر دوست اپنے دوستوں سے اچانک چھین لیا جانے والا ہے۔ موت کو کوئی دربان روک سکتا ہے، نہ کوئی پہرے دار۔ دنیا اور اس کی لذت کے ساتھ کیسے خوش ہوسکتا ہے وہ جوان جس کا ایک ایک لفظ اور سانس گنا جا رہا ہو۔ “ (روح المعانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا |"We are but counting for them a count down.|" - 19:84 This verse means: |"Do not be impatient about their punishment because it is going to befall upon them in any case - and very soon. We have allowed them a fixed term in this world and that term is about to end. Then will come their retribution.|" نَعُدُّ لَهُمْ means: |"We are counting for them, i.e. they do not have control on anything. Their days are numbered and We keep a count of every moment of their life and everything they do.|" Once Ma&mun Rashid read Surah Maryam. Upon reading this particular verse, he desired that Ibn Simak, one of the Islamic scholars sitting in that meeting with him, to say something on it. Thereupon Ibn Simak submitted that when our breaths are numbered and their number cannot be enhanced, they will soon come to an end. The same notion is reflected in the following poetic verse: حیاتک انفاس تعد فکلّمَا مضی نفس منک انتقصت بہ جزء اً That is, the breaths of your lifer are counted. With every passing breath, your life gets reduced to that extent. It is said that during one span of twenty-four hours, one breathes twenty-four thousand times. (Qurtubi) The following stanza explores the same context: و کیف یفرح بالدّنیاو لذّتھا فتی یُعَدّ علیہ اللفظ و النّفس That is, how can one be so engrossed and relaxed with the worldly pleasures, while his words and breaths are being counted. (Ruh)

اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا، مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے عذاب کے بارے میں جلدی نہ کریں وہ تو عنقریب ہونے ہی والا ہے کیونکہ ہم نے ان کو گنے چنے ایام اور جو مدت دنیا میں رہنے کی دی ہے وہ بہت جلدی پوری ہونے والی ہے اس کے بعد عذاب ہی عذاب ہے نَعُدُّ لَهُمْ ، یعنی ہم ان کیلئے شمار کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کوئی چیز آزاد نہیں ان کی عمر کے دن رات گنے ہوئے ہیں، ان کے سانس، ان کی نقل و حرکت کا ایک ایک قدم، ان کی لذات ان کی زندگی کا ایک ایک لحظہ ہم گن رہے ہیں، یہ گنتی پوری ہوتے ہی ان پر عذاب ٹوٹ پڑے گا۔ مامون رشید نے ایک مرتبہ سورة مریم پڑھی۔ جب اس آیت پر پہنچے تو حاضرین مجلس جو علماء فقہاء تھے ان میں سے ابن سماک کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے متعلق کچھ کہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ جب ہماری سانس گنے ہوئے ہیں ان پر زیادتی نہیں ہو سکتی تو یہ کس قدر جلد ختم ہوجائیں گے اسی کو بعض شعراء نے کہا ہے حیاتک انفاس تعد فکلما مضی نفس منک انتقصت بہ جزءًا یعنی تیری زندگی کے سانس گنے ہوئی ہیں، جب ایک سانس گزرتا ہے تو تیری زندگی کا ایک جز کم ہوجاتا ہے کہا جاتا ہے کہ انسان دن رات میں چوبیس ہزار سانس لیتا ہے۔ (قرطبی) اور بعض حضرات نے فرمایا وکیف یفرح بالدنیا ولذ تھا فتی یعد علیہ اللفظ والنفس یعنی دنیا اور اس کی لذت پر وہ شخص کیسے مگن اور بےفکر ہوسکتا ہے جس کے الفاظ اور سانس گنے جارہے ہوں (روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْہِمْ۝ ٠ۭ اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا۝ ٨٤ۚ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ عد العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ( ع د د ) العدد ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْ ط) ” عجلت کی نفی پر مبنی یہ مضمون اس سورت میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہے۔ آیت ٦٤ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید کے بارے میں جلدی کرنے سے منع فرمایا گیا تھا کہ وحی کے سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شوق اپنی جگہ مگر اللہ کی حکمت اور مشیت یہی ہے کہ اس کی تنزیل ایک خاص تدریج سے ہو۔ اب آیت زیر نظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کے بارے میں ایسا خیال اپنے دل میں نہ لائیں کہ انہوں نے ظلم و سرکشی کی انتہا کردی ہے ‘ اس لیے ان کا فیصلہ چکا دینا چاہیے۔ سورة الانعام اور اس کے بعد سب مکی سورتوں میں مسلسل قریش مکہ کی سازشوں ‘ کٹ حجتیوں اور مخالفانہ سرگرمیوں کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں ‘ مگر اس کے باوجود فرمایا جا رہا ہے کہ ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بارے میں فیصلے کے لیے جلدی نہ کیجیے۔ (اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ) ” ہمارے ہاں ہر کام ایک فطری تدریج اور باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت طے پاتا ہے۔ چناچہ ان کے بارے میں فیصلہ بھی ہم اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کریں گے۔ ان کا ایک ایک عمل لکھا جا رہا ہے ‘ ان کی ایک ایک حرکت ریکارڈ ہو رہی ہے ‘ اسی ریکارڈ کے مطابق ان سے جوابدہی ہوگی اور بالآخر ان کے کرتوتوں کی سزا انہیں مل کر رہے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51. That is: Endure their persecutions patiently a little more, for the time of their punishment is coming near, for We have given them respite for a fixed term, and let that term expire.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :51 مطلب یہ ہے کہ ان کی زیادتیوں پر تم بے صبر نہ ہو ۔ ان کی شامت قریب آلگی ہے ۔ پیمانہ بھرا چاہتا ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے کچھ دن باقی ہیں ، انہیں پورا ہو لینے دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:84) فلا تعجل علیہم۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ پس عجلت نہ کیجئے ان پر (نزول عذاب کے لئے) نعد۔ مضارع جمع متکلم۔ عدمصدر (باب نصر) ہم شمار کر رہے عدا مصدر کو دوبارہ لا کر فعل زیادہ پرزور بنایا گیا ہے۔ نعدلہم عدا۔ ہم ان کی مہلت کے ایک ایک دن کو گن رہے ہیں یا۔ ہم ان کی کارکردگیوں کو ایک ایک کر کے شمار کر رہے ہیں۔ نہ تو گنتی سے کوئی چیز چھپ سکے گی۔ اور نہ مہلت میں ذرہ برابر کمی بیشی کی جاسکے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی آپ اس بارے میں تعجب نہ کریں کہ ہم نے ان کی رسمی ڈھیلی کیوں چھوڑ رکھی ہے اور اس قدر سرکشی کے باوجود ان کی گرفتک ویں نہیں کرتے۔ بس اب مہلت کے دن پورے رہے ہیں اور ان کی شامت آیا ہی چاہتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلا تعجل علیھم (٩١ : ٤٨) ” آپ ان پر نزول عذاب کے لئے عجلت نہ کریں ’‘’۔ اپنے دل کو بھی تنگ نہ کریں ‘ پریشان نہ ہوں ‘ ان لوگوں کو تھوڑی سی مہلت دے دی گئی ہے۔ ان کے اعمال ئنے جارہے ہیں۔ ان کا حساب رکھا جارہا ہے۔ انداز بیان یہ ظاہر کررہا ہے کہ ان کے اعمال کا حساب نہایت ہی باریکی سے رکھا جارہا ہے۔ انما تعد لھم عدا (٩١ : ٤٨) ” ہم ان کے دن گن رہے ہیں “۔ کس قدر خوفناک دھمکی ہے یہ ! وہ شخص ہلاک ہوا جسکے گناہوں ‘ جس کے اعمال ‘ جس کی ہر سانس کا حساب اللہ خود رکھ رہا ہے ‘ اور نہایت باریکی سے اس کا حساب ریکارڈ کیا جارہا ہے ‘ تاکہ سختی سے اس کی گرفت ہو سکے۔ جو شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کرئہ ارض کی زندگی میں اس کا افر اس کے اعمال کی نگرانی کر رہا ہے اور اس کی غلطیاں نوٹ کی جارہی ہیں ‘ وہ ڈر جاتا ہے۔ اسے ہر وقت خوف رہتا ہے ‘ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ شاید اس سے کسی وقت کوئی غلطی سرزد ہو کر نوٹ نہ ہوجائے۔ لیکن جس شخص کی غلطیاں اللہ بذات خود نوٹ کررہا ہو تو۔۔۔۔۔۔ قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر میں اس گنتی اور حساب کا انجام دکھایا جاتا ہے۔ اہل ایمان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کے دربار میں معزز وفود کی شکل میں آرہے ہیں ‘ نہایت عزت اور احترام کے ساتھ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِنَّمَا نَعُدُّلَھُمْ عَدًّا) کی یہ تفسیر اس صورت میں ہے جبکہ نعد کا مفعول اعمال اوراقوال مراد ہوں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ نعد کا مفعول انفاس اور ایام ہیں اور مطلب ہے کہ ہم ان کی زندگی کے انفاس (سانس) اور ایام گن رہے ہیں جب ان کی اجل آجائے گی تو عذاب بھی آجائے گا اور ان کی مدت کے ایام معدودے چند ہی ہیں گو ان کے نزدیک گنتی میں زیادہ ہوں کیونکہ فنا ہونے والی زندگی بہرحال ختم ہوگی اور دنیا میں جتنی بھی مدت گزری ہو بہرحال آخرت کے مقابلہ میں کم ہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84 سو آپ ان کافروں کے لئے عذاب میں جلدی نہ کیجیے اور تعجیل سے کام نہ لیجیے ہم ان کے اعمال بد کو خوب شمار کرتے رہتے ہیں۔ یعنی ہم نے اپنی حکمت بالغہ سے ان کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ا ن کی زندگی کے دن پورے کئے جا رہے ہیں اور ان کا ایک عمل ہمارے ہاں گنا جا رہا ہے ان گناہوں کی تعداد جن سے یہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں وہ پوری ہوجائے گی تو خود ہی عذاب آجائے گا۔