Surat Marium

Surah: 19

Verse: 87

سورة مريم

لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۷﴾

None will have [power of] intercession except he who had taken from the Most Merciful a covenant.

کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا سوائے ان کے جنہوں نے اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی قول قرار لے لیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ ... None shall have the power of intercession, There will be no one who can intercede for them like the believers who intercede for each other. Allah says about them, فَمَا لَنَا مِن شَـفِعِينَ وَلاَ صَدِيقٍ حَمِيمٍ Now we have no intercessors, nor a close friend. (26:100-101) Allah said, ... إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا but such a one as has received permission (or promise) from the Most Gracious. This is a separate exclusion, which means, "But those who have taken a covenant with the Most Beneficent." This covenant is the testimony that none has the right to be worshipped but Allah, and upholding of its rights and implications. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا (but such a one as has received permission (or promise) from the Most Gracious). "The promise is the testimony that none has the right to be worshipped but Allah, that the person accepts that all power and strength belong to Allah and he only places his hope with Allah alone."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 قول وقرار (عہد) کا مطلب ایمان و تقوٰی ہے۔ یعنی اہل ایمان و تقوٰی میں سے جن کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، وہی شفاعت کریں گے، ان کے سوا کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] سفارش کی کڑی شرائط :۔ اس ذو معنی جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو سفارش صرف اس شخص کے حق میں کی جاسکے گی جس نے اپنے آپ کو مستحق شفاعت بنائے رکھا ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ کا عہد ہے کہ ان کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی اور یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے کبھی شرک نہ کیا ہوگا۔ اللہ کے فرمانبردار ہوں گے مگر کبھی کبھی ان سے گناہ بھی سرزد ہوگئے ہوں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سفارش صرف وہ لوگ کرسکیں گے جنہیں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دیں گے اور یہی اللہ کا عہد ہے۔ ان لوگوں کو سفارش کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی جن سے مشرکوں نے اپنی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۘلَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ ۔۔ : یعنی شفاعت کا حق دار وہ ہوگا جسے رحمٰن کے ہاں عہد نجات حاصل ہو۔ اس عہد سے مراد کلمۂ شہادت کا اقرار ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس اور ابن مسعود (رض) سے ثابت ہے۔ (ابن کثیر مع حاشیہ حکمت بن بشیر) ایک حدیث میں پنجگانہ نماز کی پابندی کو بھی عہد قرار دیا گیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْعَھْدُ الَّذِيْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمُ الصَّلَاۃُ فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ ) [ مسند أحمد : ٥؍٣٤٦، ح : ٢٣٠٠١۔ ترمذي : ٢٦٢١۔ ابن ماجہ : ١٠٧٩، عن بریدۃ (رض) و صححہ الألباني ] ” وہ عہد جو ہمارے اور ان (مشرکین) کے درمیان ہے نماز ہے، جس نے اسے ترک کردیا تو وہ بلاشبہ کافر ہوگیا۔ “ معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ایمان والوں کی تو شفاعت ہوگی مگر کافر کی کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا۔ پس ”ۘلَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ “ کے معنی یہ ہیں کہ شفاعت کے مستحق صرف وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے رحمٰن کے ہاں عہد حاصل کر رکھا ہے، کفار نہیں۔ اس معنی کی شاہد کئی آیات ہیں۔ دیکھیے سورة مدثر (٤٨) ، شعراء (١٠٠، ١٠١) ، مومن (١٨) ، انبیاء (٢٨) اور دوسری آیات۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب مجرمین کے حق میں کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا تو وہ خود دوسروں کے حق میں شفاعت کا اختیار بالاولیٰ نہیں رکھیں گے۔ دوسرا مطلب آیت کا یہ ہے کہ شفاعت کا اختیار صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دے گا، کوئی نبی یا فرشتہ اپنی مرضی سے کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا، فرمایا : (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) [ البقرۃ : ٢٥٥ ] ” کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ “ اس آیت میں تمام مشرکین کو خبردار کردیا گیا ہے کہ مشرک بت پرست ہوں یا قبر پرست، زندہ پرست ہوں یا مردہ پرست، ہر قسم کی شفاعت سے محروم رہیں گے۔ گویا یہ ” لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا “ کا جواب ہے۔ (کبیر، شوکانی، شنقیطی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّ‌حْمَـٰنِ عَهْدًا |"Except the one who has taken a covenant with the Rahman (All-Merciful) |" - 19:87. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that عَھد means a declaration of firm belief in the Unity of Allah Ta’ ala, while others say that عِھد means committing the Qur’ an to memory. In brief only those people will have the permission to intercede with Allah who stand firm by their covenant to adhere to the true faith. (Ruh)

مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ عہد سے مراد شہادت لا الہ الا اللہ ہے، بعض نے فرمایا کہ عہد سے مراد حفظ کتاب اللہ ہے خلاصہ یہ ہے کہ شفاعت کرنے کا حق ہر ایک کو نہیں ملے گا بجز ان لوگوں کے جو ایمان کے عہد پر مضبوط رہے۔ (روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا۝ ٨٧ۘ ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ) ” اس دن کوئی کسی کی شفاعت نہ کرسکے گا اور کوئی شفاعت کسی کے کام نہیں آئے گی ‘ سوائے اس شخص کے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد نبھایا ہو۔ جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ‘ اطاعت اور بندگی میں بسر کی ہو ( سوائے ان کوتاہیوں اور لغزشوں کے جو بشری کمزوریوں کے تحت سرزد ہوئی ہوں) ۔ ایسے لوگوں کے لیے تو شفاعت مفید ہوسکتی ہے ‘ لیکن وہ لوگ جو اپنی زندگیوں میں مستقلاً اللہ کے عہد کی خلاف ورزیاں کرتے رہے ‘ جنہوں نے اپنی زندگیوں کا رخ متعین کرتے ہوئے اللہ کی مرضی اور اس کے احکام کو مسلسل نظر انداز کیے رکھا ‘ ایسے لوگوں کے لیے کسی کی کوئی شفاعت کار آمد نہیں ہوسکتی۔ شفاعت کے بارے میں یہّ مسلمہ اصول ہم آیت الکرسی کے ذیل میں ملاحظہ کرچکے ہیں کہ جس کو اللہ کی طرف سے اذن شفاعت حاصل ہوگا وہ اس کے حق میں شفاعت کرسکے گا جس کے لیے اذن ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52. This implies two things: (1) Intercession will be allowed only for the one who might have received permission for it from the Merciful, that is, the one who believed in Allah in the world and made himself deserving of His pardon. (2) Only that one will be able to plead intercession who might have received permission for this from the Merciful, and not those ones whom people themselves had made their intercessors without any reason.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :52 یعنی سفارش اسی کے حق میں ہو گی جس نے پروانہ حاصل کیا ہو ، اور وہی سفارش کر سکے گا جسے پروانہ ملا ہو ۔ آیت کے الفاظ ایسے ہیں جو دونوں پہلوؤں پر یکساں روشنی ڈالتے ہیں ۔ یہ بات کہ سفارش صرف اسی کے حق میں ہو سکے گی جس نے رحمان سے پروانہ حاصل کر لیا ہو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا میں ایمان لاکر خدا سے کچھ تعلق جوڑ کر اپنے آپ کو خدا کے عفو و درگزر کا مستحق بنا لیا ہو ۔ اور یہ بات کہ سفارش وہی کر سکے گا جس کو پروانہ ملا ہو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے جن جن کو اپنا شفیع اور سفارشی سمجھ لیا ہے وہ سفارشیں کرنے کے مجاز نہ ہوں گے بلکہ خدا خود جس کو اجازت دے گا وہی شفاعت کے لیئے زبان کھول سکے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٧۔ ٩٤:۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اول تو قیامت قائم ہی نہ ہوگی اور ہم کسی عذاب میں پکڑے گئے تو جن نیک لوگوں کی مورتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ہم کو اس عذاب سے چھڑا لیں گے۔ مشرکین مکہ کی اس بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی سفارش کا ہر کسی کو مالک اور مختار نہیں بنایا ہے جو یہ مشرک جس سے چاہیں گے اپنی سفارش کرلیں گے یہ شفاعت تو اللہ کے فرشتے اس کے رسول اور نیک لوگ ایسے لوگوں کے حق میں کریں گے جو اللہ کی وحدانیت اس کے رسولوں کو سچا جاننے کے عہد پر قائم ہوں گے لیکن سوائے شرک کے اور گناہوں میں عمر بھر گرفتار رہ کر بغیر توبہ کے مرجائیں گے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوسعید خدری کی روایت سے شفاعت کی ایک بہت بڑی حدیث ہے ١ ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ شفاعت کرنے والے اللہ کے فرشتے اس کے رسول اور نیک لوگ ہوں گے اور یہ شفاعت ایسے لوگوں کے حق میں ہوگی جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اس حدیث سے شفاعت کرنے والوں کا اور جن کے حق میں شفاعت کی جائے گی ان کا حال اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ صحیح بخاری اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آزر کی شفاعت کرنی چاہیں گے مگر منظور نہ ہوگی اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ مشرک کے حق میں کسی کی شفاعت منظور نہ ہوگی جس عہد کا ذکر ان آیتوں میں ہے یہ شرک سے بچنے کا وہی عہد ہے جو تمام اولاد آدم سے عالم ارواح میں لیا گیا ہے۔ پھر جو لوگ اس عہد کے یاد دلانے والے قرآن اور رسول کو جھٹلاتے ہیں رات دن بت پرستی کے شرک میں گرفتار ہیں فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہہ کر اس کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں اور نظام الٰہی کے برخلاف قیامت کے دن شفاعت کی امید رکھتے ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے کیونکہ یہ ان کو جتلا دیا گیا ہے کہ جن نیک لوگوں کی مورتوں کو یہ مشرک پوجتے ہیں وہ نیک لوگ قیامت کے دن ان پوجا کرنے والوں کی صورت سے بیزار ہوجائیں گے اور یہ پتھر کی مورتیں دوزخ کا ایندھن بنادی جائیں گی پھر وہ کونسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت کے بھروسہ پر یہ لوگ شرک سے باز نہیں آتے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کو صاحب اولاد ٹھہرانے کا کلمہ جو یہ لوگ زبان پر لاتے ہیں یہ ایسے غضب کا کلمہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو اپنی بردباری سے وقت مقررہ تک دنیا کا چلانا منظور نہ ہوتا تو اللہ کے حکم سے ابھی اس غضب کے کلمہ کے وبال میں ان لوگوں پر آسمان پھٹ پڑے یا زمین پاش پاش ہوجائے ‘ یا پہاڑ گر پڑتے فرمایا اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کے آگے سب اس کے حقیر بندے ہیں یہ لوگ اپنے غلاموں سے تو رشتہ ناتا جوڑنا نہیں چاہتے پھر اللہ کی شان میں ایسا گستاخی کا کلمہ کیوں زبان سے نکالتے ہیں کہ اس کے حقیر بندوں کے ساتھ اس کا رشتہ ناتا ہے۔ پھر فرمایا اچھے برے سب کی گنتی اللہ تعالیٰ کو معلوم اور لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اس گنتی کے موافق جب ہر ایک شخص قیامت کے دن بےیارو بےمددگار اپنے عملوں کی جواب دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کے روبرو اکیلا کھڑا ہوگا تو اس وقت اس غضب کے کلمہ کی سزا ان لوگوں کو سنا دی جائے گی۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بردبار کون ہوسکتا ہے کیوں کہ لوگ اس کو صاحب اولاد ٹھہراتے ہیں اور وہ ان کے ہر طرح کے آرام اور راحت کے انتظام میں خلل نہیں ڈالتا ٢ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ وقت مقررہ تک دنیا کا انتظام اللہ تعالیٰ کی بردباری کے سبب سے چل رہا ہے ورنہ شرک ایسے غضب کی چیز ہے جس سے آسمان زمین اور پہاڑ سب کانپتے ہیں اور آسمان پھٹ جانے کو اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو اور پہاڑ گر پڑنے کو تیار اور حکم کے منتظر ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١١٠٧ ج ٢ باب قول اللہ وجوہ یومئذ ناضرۃ الخ۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ١٠٩٧ ج ٢ باب قول اللہ انما نا اللہ آلایہ و صحیح مسلم ص ٦٧٤ ج ٢ باب الکفار بر وایت ابوموسیٰ اشعری (رض) ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس عہدے سے مراد کلمہ شہادت کا اقرار ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی تفسیر وارد ہے۔ نیز ایک حدیث میں پنجگانہ نماز کی پابندی کو بھی عہد قرار دیاے معلوم ہوا کہ مومنین اصحاب کبائر کی تو شفاعت ہوگی مگر کافر کی کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا پس لایملکون الشفاعۃ کے معنی یہ ہیں کہ شفاعت کے مستحق صرف وہی لوگ ہونگے جنہوں نے … یا آیت کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت کا اختیار صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کی اجازت دے دی ہو یعنی کوئی نبی یا فرشتہ از خود کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا اس آیت میں تمام مشرکین کو تنبیہ کردی ہے کہ وہ مشرک خواہ سرپرست ہوں یا قبر پرست ہر قسم کی شفاعت سے محروم رہیں گے گویا لیکونوا لھم عزا کا جواب ہے (از کبیر شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ وہ انبیاء و صلحاء ہیں اور اجازت خاص ہے مومنین کے ساتھ۔ پس کفار محل شفاعت نہ ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس منظر میں فضا غضب ‘ غیرت اور ردعمل کی ہے۔ اس فضا کو الفاظ کی گونج اور گرج اور عبارات اور فقروں کی ضربات مزید تیز کردیتی ہیں۔ کائنات کے ضمیر میں ایک اشتہعال ہے۔ نفس کائنات کی تمام نفرت کرنے والی قوتوں کے اندر بھونچال آیا ہوا ہے۔ تمام تکوینی قوتوں کے اندر ‘ ذات باری کی شان میں اس قدر سخت گستاخی کرنے کی وجہ سے ‘ سخت اشتعال ہے۔ جب کسی انسان کی ذات یا اس کے محبوب شخص کی توہین کردی جائے اور اس کی عزت خطرے میں ہو تو اس کے تمام اعضاء یکدم ردعمل میں ہوتے ہیں۔ اسی رطح یہ پوری کائنات اس منظر میں نہایت ہی رد عمل میں ہے کیونکہ اس کے مالک کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے۔ اس کلمہ کفر اور شان باری کی توہین کے ردعمل میں پوری کائنات ‘ زمین ‘ آسمان ‘ درخت اور پہاڑ سب ردعمل میں ہیں۔ اور اس کے اظہار کے لئے جو الفاظ قرآن نے چنے ہیں وہ بذات خود زلزلہ انگیز ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ اس کلمہ کفر کا اظہار ہوتے ہی کہ وقالو اتخذالرحمن ولدا (٩١ : ٨٨) ” وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹاب بنایا ہے “۔ فوراً ہی ردعمل سامنے آتا ہے اور اس کی سخت مذمت کی جاتی ہے اور فوراً تردید آجاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ یہ سورت کی خصوصیت کا بیان ہے اور اس سے شفاعت قہری کی نفی مقصود ہے۔ ” اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْدًا “ شفاعت وہی کرسکے گا، جسے اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ لیکن شفاعت قہری کی اجازت تو کسی کو نہیں ہوگی۔ یا ” عھدا “ سے عہد توحید مراد ہے۔ یعنی قیامت کے دن صرف ان گنہگاروں کے حق میں شفاعت قبول ہوگی جو اہل توحید ہوں گے۔ قال ابن عباس العھد لا الہ الا اللہ۔ اس صورت میں اس سے مراد مشفوع لہ ہے یا یہ شافعین کے حق میں ہے۔ یعنی گنہگاروں کی سفارش صرف وہی لوگ کرسکیں گے جنہوں نے دنیا میں شرک نہیں کیا اور ان کا خاتمہ توحید پر ہوا۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس اور مقاتل کا قول ہے۔ وقال مقاتل و ابن عباس ایضا لا یشفع الا من شھد ان لا الہ الا اللہ و تبرا من الحول والقوۃ الا للہ ولا یرجوا الا اللہ تعالیٰ (قرطبی ج 11 ص 154) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 اس دن کسی کو سفارش کا اختیار نہ ہوگا مگر ہاں جس نے رحمان سے کوئی وعدہ اور اجازت حاصل کرلی ہو۔ یعنی جس گرفت اور عذاب کے جلدی کرنے سے پیغمب رکو منع کیا گیا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ گنتی پوری ہونے کے بعد جس دن وہ عذاب آئے گا تو اس دن حالت یہ ہوگی کہ تقوے کے پابند لوگوں کو جنت جو رحمان کی طرف سے اہل تقویٰ کے لئے مقرر کی گئی ہے اس کی طرف باعزت طریقہ سے بطور مہمان اکٹھا کر کے ہم لے جائیں گے اور جرائم پیشہ دین حق کے مجرموں کو ہانکتے ہوئے پیاسا جہنم کے گھاٹ جا اتاریں گے یعنی جس طرح ڈھور ڈنگروں کو ہنکاتے ہوئے لے جاتے ہیں اسی طرح ان منکروں کو ہانکتے ہوئے لے جائیں گے اسی دن کسی کو کسی کی سفارش کا اختیار بھی نہ ہوگا بجز ان حضرات کے جن کو رحمان کی جانب سے اجازت ہو اور انہوں نے رحمان سے وعدہ حاصل کرلیا ہوگا۔ جیسے ملائکہ ابنیاء صلحاء اور علماء یہ لوگ حسب اجازت صرف مومنین کے شفیع ہوں گے اہل انکار اور اہل کفر کا کوئی شفیع نہ ہوگا اور دین حق کے منکر شفاعت سے محروم ہوں گے ۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اللہ نے جس کو وعدہ دیا ہے وہی سفارش کرے گا۔ 12