Surat Marium

Surah: 19

Verse: 90

سورة مريم

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿ۙ۹۰﴾

The heavens almost rupture therefrom and the earth splits open and the mountains collapse in devastation

قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَتَخِرُّ‌ الْجِبَالُ هَدًّا |"And the mountains to fall down crumbling|" - 19:90. These verses suggest that the earth, the mountains and everything that grows thereon possess a certain degree of knowledge and intelligence though in their case these perceptions are not of the same extent as that bestowed on human beings. This explains the fact that everything in the world glorifies Allah Ta’ ala as will be evident from the verse. وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ |"Arid there is not a single thing that does not extol His purity and praise.|" - 17:44. These verses refer to this very perception of these things that to associate anything or being with Allah Ta` ala, specially to assert that He has children is a sin which makes the earth and the mountains quake with fear. Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) has said that except humans every created thing is terrified of any suggestion of association with Allah (Ruh, -ul-Ma` ani).

معارف ومسائل وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، ان آیات سے معلوم ہوا کہ زمین اور پہاڑ اور اس کی تمام چیزوں میں ایک خاص قسم کا عقل و شعور موجود ہے اگرچہ وہ اس درجہ کا نہ ہو جس پر احکام الٰہی مرتب ہوتے ہیں جیسے انسان کی عقل و شعور۔ یہی عقل و شعور ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ہر چیز اللہ کے نام کی تسبیح کرتی ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ ، یعنی کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو ان چیزوں کا یہی شعور و ادراک ہے جس کا ذکر ان آیات مذکورہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیتے خصوصًا اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد قرار دینے سے زمین اور پہاڑ وغیرہ سخت گھبراتے اور ڈرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ جن و انس کے علاوہ تمام مخلوقات خدا تعالیٰ کے ساتھ شرک سے بہت ڈرتی ہیں اور یہ خطرہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۝ ٩٠ۙ كَادَ ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] ، تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس . ( ک و د ) کاد ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء/ 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء/ 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم/ 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة/ 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج/ 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة/ 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء/ 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا شق الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] ( ش ق ق ) الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شففتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ خر فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ/ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ. وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] ( خ ر ر ) خر ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ هدد الهَدُّ : هدم له وقع، وسقوط شيء ثقیل، والهَدَّة : صوت وقعه . قال تعالی: وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا[ مریم/ 90] وهدّدت البقرة : إذا أوقعتها للذّبح، والهِدُّ : المهدود کالذّبح للمذبوح، ويعبّر به عن الضّعيف والجبان، وقیل : مررت برجل هَدَّكَ من رجل کقولک : حسبک، وتحقیقه : يَهُدُّكَ ويزعجک وجود مثله، وهَدَّدْتُ فلانا وتَهَدَّدْتُهُ : إذا زعزعته بالوعید، والهَدْهَدَة : تحريك الصّبيّ لينام، والهُدْهُدُ : طائر معروف . قال تعالی: ما لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ [ النمل/ 20] وجمعه : هَدَاهِد، والهُدَاهِد بالضّمّ واحد، قال الشاعر : كهداهد کسر الرّماة جناحه ... يدعو بقارعة الطریق هديلا ( ھ دد ) الھد کے معنی کسی چیز کو زور کی آواز کے ساتھ گرادینے یا کسی بھاری چیز کے گرپڑنے کے ہیں اور کسی چزی کے گرنے کی آواز کو ھدۃ کہا جاتا ہے : ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا[ مریم/ 90] زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر گرپڑیں ۔ اور ھدوت البقرۃ کے معنی گائے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر گرانے کے ہیں اور ھد بمعنی مھد ود یعنی گرائی ہوئی چیز کے آتا ہے جیسے ذبح بمعنی مذبوح اور کمزور بزدل آدمی کو بھی ھد کہا جاتا ہے ۔ ایک محاورہ ہے : ۔ مررت برجل ھدک من رجل میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو تیرے لئے فلاں سے کافی ہے ۔ اصل میں اس کے معنی ہیں کہ وجود تجھے بےچین اور مضطرب کرتا ہے ۔ ھددت فلانا وتھددتہ میں نے اسے دھکایا اور ڈاریا ۔ الھد ھدۃ بچے کو سلانے کے لئے تھپکی دینا اور ہلا نا الھد ھد ۔ ایک جانور کا نام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ [ النمل/ 20] کیا سبب ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا ۔ اس کی جمع ھدا ھد آتی ہے اور ھد ا ھد ضمہ کے ساتھ واحد ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( المکامل ) ( 451 ) کھد اھد کسرا الرماۃ جناحتہ بدعو لقارعتہ الطریق ھدیلا وہ اس حمام کی طرح پریشان تھا جس کے بازو شکاریوں نے توڑدیئے ہوں اور وہ راستہ میں کھڑا وادیلا کررہاہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:90) تکاد۔ افعال مقاربہ میں سے ہے۔ مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ کاد یکاد کود سے اس کے معنی ہیں کام کرنے کے قریب ہونا اور نہ کرنا۔ جیسے کاد یضرب وہ مارنے ہی والا تھا مگر مارا نہیں۔ یا قرآن حکیم میں ہے یکاد البرق یخطف ابصارہم (2:20) قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے۔ یہاں بھی بمعنی ” قریب “ ہے آیا ہے۔ یتفطرن۔ مضارع جمع مؤنث غائب تفطر (تفعل) مصدر پھٹ جاویں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاویں۔ باب انفعال سے بھی اسی معنی میں آیا ہے جیسے السماء منفطر بہ (73:18) جس سے آسمان پھٹ جائے گا۔ تکاد یتفطرن قریب ہے کہ پھٹ جاویں یا شق ہوجائیں۔ منہ۔ میں ہضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع کفار کا قول اتخذ الرحمن ولدا ہے۔ تنشق۔ مضارع واحد مؤنث غائب وہ پھٹ جائے۔ وہ شق ہوجائے۔ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے یا وہ پھٹتی ہے۔ شق ہوتی ہے۔ یا ہوجائے گی۔ انشقاق انفعال مصدر ۔ تخر۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ خر یخر (ضرب) خروخریر۔ وہ گرپڑے۔ وہ گر پڑتی ہے وہ گرپڑے گی۔ خریر کسی چیز کا آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں۔ الخریر۔ پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہا ہو !۔ ھدا۔ مصدر بمعنی اسم مفعول۔ گرایا ہوا۔ منہدم۔ ڈھیا ہوا۔ یا یہ مفعول مطلق ہے اور تخر فعل اس کا عامل ہے۔ الھد کے معنی کسی چیز کو زور کی آواز کے ساتھ گرا دینے یا کسی بھاری چیز کے گر پڑنے کے ہیں۔ کسی چیز کے گر پڑنے کی آواز کو ھدۃ کہتے ہیں وتخر الجبال ھدا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گرپڑیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تکاد السموات۔۔۔۔۔۔۔۔ ھدا (٠٩) ان دعوا۔۔۔۔ ولدا (٩) (٩١ : ٠٩۔ ١٩) ” قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ‘ زمین شق ہوجائے ‘ اور پہاڑ گر جائیں ‘ اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لئے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا۔ رحمن کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے “۔ اس خوفناک ماحول میں یہ قرار داد پیش کردی جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

90 قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور زمین کے ٹکڑے اڑ جائیں اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گرپڑیں۔ یعنی اس بات سے غضب الٰہی حرکت میں آجائے اور تمام کائنات کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا کر رکھ دے یا عذاب اکبر یعنی قیامت آجائے اور سارا عالم درہم برہم ہوجائے۔