Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 10

سورة البقرة

فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۢ ۬ ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۱۰﴾

In their hearts is disease, so Allah has increased their disease; and for them is a painful punishment because they [habitually] used to lie.

ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالٰی نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Meaning of `Disease' in this Ayah Allah said, فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ ... In their hearts is a disease and Allah has increased their disease. A painful torment is theirs, because they used to tell lies. As-Suddi narrated from Abu Malik and (also) from Abu Salih, from Ibn Abbas, and (also) Murrah Al-Hamdani from Ibn Mas`ud and other Companions that this Ayah, فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ (In their hearts is a disease), means, `doubt', and, فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً (And Allah has increased their disease) also means `doubt'. Mujahid, Ikrimah, Al-Hasan Al-Basri, Abu Al-Aliyah, Ar-Rabi bin Anas and Qatadah also said similarly. Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam commented on, فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ (In their hearts is a disease), "A disease in the religion, not a physical disease. They are the hypocrites and the disease is the doubt that they brought to Islam. فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً (And Allah has increased their disease) meaning, increased them in shameful behavior." He also recited, فَأَمَّا الَّذِينَ ءامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـناً وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ As for those who believe, it has increased their faith, and they rejoice. But as for those in whose hearts is a disease, it will add disgrace to their disgrace. (9:124-125) and commented, "Evil to their evil and deviation to their deviation." This statement by Abdur-Rahman is true, and it constitutes a punishment that is compatible to the sin, just as the earlier scholars stated. Similarly, Allah said, وَالَّذِينَ اهْتَدَوْاْ زَادَهُمْ هُدًى وَءَاتَـهُمْ تَقُوَاهُمْ While as for those who accept guidance, He increases their guidance and grants them their piety. (47:17) Allah said next, ... بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ Because they used to tell lies. The hypocrites have two characteristics, they lie and they deny the Unseen. The scholars who stated that the Prophet knew the hypocrites of his time have only the Hadith of Hudhayfah bin Al-Yaman as evidence. In it the Prophet gave him the names of fourteen hypocrites during the battle of Tabuk. These hypocrites plotted to assassinate the Prophet during the night on a hill in that area. They planned to excite the Prophet's camel, so that she would throw him down the hill. Allah informed the Prophet about their plot, and the Prophet told Hudhayfah their names. As for the other hypocrites, Allah said about them, وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الاٌّعْرَابِ مُنَـفِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النَّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ And among the Bedouins around you, some are hypocrites, and so are some among the people of Al-Madinah who persist in hypocrisy; you (O Muhammad) know them not, We know them. (9:101) and, لَّيِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَـفِقُونَ وَالَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِى الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لاَ يُجَاوِرُونَكَ فِيهَأ إِلاَّ قَلِيلً مَّلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُواْ أُخِذُواْ وَقُتِّلُواْ تَقْتِيلً If the hypocrites, and those in whose hearts is a disease, and those who spread false news among the people in Al-Madinah do not cease, We shall certainly let you overpower them, then they will not be able to stay in it as your neighbors but a little while. Accursed, they shall be seized wherever found, and killed with a (terrible) slaughter. (33:60-61) These Ayat prove that the Prophet was not informed about each and everyone among the hypocrites of his time. Rather, the Prophet was only informed about their characteristics, and he used to assume that some people possessed these characteristics. Similarly, Allah said, وَلَوْ نَشَأءُ لاَرَيْنَـكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَـهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِى لَحْنِ الْقَوْلِ Had We willed, We could have shown them to you, and you should have known them by their marks; but surely, you will know them by the tone of their speech! (47:30) The most notorious hypocrite at that time was Abdullah bin Ubayy bin Salul; Zayd bin Arqam - the Companion - gave truthful testimony to that effect. In addition, Umar bin Al-Khattab once mentioned the matter of Ibn Salul to the Prophet, who said, إِنِّي أَكْرَهُ أَنْ تَتَحَدَّثَ الْعَرَبُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَه I would not like the Arabs to say to each other that Muhammad is killing his Companions. Yet, when Ibn Salul died, the Prophet performed the funeral prayer for him and attended his funeral just as he used to do with other Muslims. It was recorded in the Sahih that the Prophet said, إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْت I was given the choice (to pray for him or not), so I chose. In another narration, the Prophet said, لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرُ لَهُ لَزِدْت If I knew that by asking (Allah to forgive Ibn Salul) more than seventy times that He would forgive him, then I would do that.

شک و شبہ بیماری ہے بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے ۔ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود اور چند صحابہ سے یہی مروی ہے ۔ حضرت مجاہد عکرمہ ، حسن بصری ، ابو العالیہ ، ربیع بن انس ، قتادہ ، کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت عکرمہ اور طاؤس نے اس کی تفسیر سے ریا اور ابن عباس سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے ۔ زید بن اسلم فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی ۔ انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالیٰ نے اور اضافہ کر دیا ۔ جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ہے ۔ آیت ( فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ١٢٤؁ وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ كٰفِرُوْنَ ١٢٥؁ ) 9 ۔ التوبہ:125-124 ) یعنی ایمان والوں کے ایمان کو تقویت پہنچاتی اور وہ خوشیاں مناتے ہیں لیکن بیماری والوں کی ناپاکی اور پلیدی کو اور زیادہ کر دیتی ہے یعنی اس کی ابدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے ، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے ۔ یہ تفسیر ہی درست ہے ، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ ) 47 ۔ محمد:17 ) یعنی ہدایت والوں کو ہدایت میں بڑھا دیتا ہے اور ان کو تقویٰ عطا فرماتا ہے ۔ آیت ( یکذبون کو یکذبون ) بھی قاریوں نے پڑھا ہے یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کیوجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں ۔ قرطبی فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ٹھیک اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت ( مولفتہ القلوب ) کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے ۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں ۔ حضرت امام مالک بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم ، قاضی اسماعیل اور ابہری نے نقل کیا ہے ۔ حضرت امام مالک سے بقول ابن ماجشون ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ آپ کی امت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ قرطبی فرماتے ہیں گو علماء کا تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا ۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہے لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری مسلم وغیرہ کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے ۔ اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احرام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الٰہی آ پہنچا ۔ غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے ۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے ۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کئے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں ۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں گے ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کرلیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے ۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ نفاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بےدینی اور زندیقیت ہے یہ بھی یاد رہے کہ زندیق جو لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں ؟ اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر ہی؟ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے؟ غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں ۔ چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا ، یہ وہ بدباطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغابازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بدکا دیں اور بھڑک کر بھاگے گی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں گر پڑیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضور حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے ۔ ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا ۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے آیت ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ ) 9 ۔ التوبہ:101 ) یعنی تمہارے آس پاس کے بعض اعرابی منافق ہیں اور بعض سرکش منافق مدینہ میں بھی ہیں تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں ۔ اور دوسری جگہ فرمایا آیت ( لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَــنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَآ اِلَّا قَلِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:60 ) اگرچہ منافق گندے دل والے اور فساد و تکبر والے اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم بھی انہیں نہ چھوڑیں گے اور مدینہ میں بہت کم باقی رہ سکیں گے بلکہ ان پر لعنت کی جائے گی جہاں پائے جائیں گے ، پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے ۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت ( وَلَوْ نَشَاۗءُ لَاَرَيْنٰكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰهُمْ ) 47 ۔ محمد:30 ) یعنی اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں ان کو دکھا دیں لیکن تم ان کی نشانیوں اور ان کی دبی بچی زبان سے ہی انہیں پہچان لو گے ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی باوجود اس کے جب وہ مر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس کے دفن میں شرکت کی ۔ ٹھیک اسی طرح اور مسلمان صحابیوں کے ساتھ بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں اور ایک صحیح روایت میں ہے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا ۔ تو میں نے استغفار کو پسند کیا ۔ ایک اور روایت میں ہے اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقینا اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 بیماری سے مراد وہی کفر و نفاق کی بیماری ہے جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] مرض سے مراد نفاق، دین اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حسد اور عناد ہے۔ پھر جوں جوں اسلام اور اہل اسلام کی شوکت بڑھتی گئی، ان کی بیماری میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ [١٥] یہ جھوٹ ان کا وہی دعویٰ تھا جو وہ کہتے تھے کہ آیت (اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ ) ۝ۘ) (2 ۔ البقرة :8) جب کہ ان کے اعمال اور ان کی حرکات و سکنات اس دعویٰ کی مخالف سمت میں تھیں۔ اسی لیے انہیں دردناک عذاب ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا ١٤٥؁ۙ ) 4 ۔ النسآء :145) بلاشبہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فِىْ قُلُوْبِهِمْ ) خبر مقدم ہے، جس سے حصر پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ترجمہ ” ان کے دلوں ہی میں “ کیا گیا ہے۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ کو دھوکا دے جو عالم الغیب ہے اور مومنوں کو دھوکا دے جن سے زیادہ فراست والا کوئی ہو نہیں سکتا اور سمجھے کہ میں دھوکا دینے میں کامیاب ہوں۔ فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل ہی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں، جس نے انھیں خود فریبی کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ وہ مرض نفاق ہے جو کفر کو چھپانے کی کوشش کا نام ہے۔ اس بیماری سے بیشمار نفسیاتی بیماریاں مزید پیدا ہوتی اور بڑھتی چلی جاتی ہیں، مثلاً جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی، بد عہدی، بد زبانی جنھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ اسی طرح فساد، خود پسندی، بےوقوفی، دو رخی جن کا ذکر آئندہ آیات میں ہے اور بہت سی دیگر بیماریاں مثلاً بزدلی، طمع، بخل، جہاد سے فرار وغیرہ جن کا ذکر سورة توبہ اور دیگر سورتوں میں ہے۔ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ ) منافقین باطن میں کافر ہونے کی وجہ سے عذاب عظیم کے مستحق تھے، اب اسلام کے جھوٹے دعوے کی وجہ سے عذاب الیم یعنی دوہرے عذاب کے حق دار ٹھہرے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third verse indicates why the hypocrites behave so foolishly and why they fail to see the folly of their course: فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَ‌ضًا In their hearts there is a malady, so Allah has made them grow in their malady. Now, illness or disease, in the general medical sense, is a state in which a man has lost the balanced proportion of the elements within him necessary to keep him healthy, so that his body can no longer function properly, which may finally lead to his total destruction. In the terminology of the Holy Qur&an and the Hadith, the word &disease& is also applied to certain mental or psychic states (we are using the two terms in the original and more comprehensive sense) which hinder man from attaining any degree of spiritual perfection, for they gradually deprive him of the ability to perform good deeds, and even of ordinary human decency, till he meets with his spiritual death. The great spiritual master, Junaid of Baghdad, has said that just as the diseases of the body arise from an imbalance among the four humours, the diseases of the heart arise from a surrender to one&s physical desires. According to the present verse, the disease hidden in their hearts is unbelief and rejection of the truth, which is as much a physical sickness as a spiritual one. It is all too obvious that being ungrateful to one&s creator and nourisher and going against His commandments is to be spiritually sick. Moreover, to keep this disbelief concealed for the sake of petty worldly gains and not to have the courage to speak out one&s mind is no less a disease of the soul. Hypocrisy is a physical disease too in so far as the hypocrite is always shuddering4for fear of being exposed. Jealousy being a necessary ingredient of hypocrisy, he cannot bear to see the Muslims growing stronger in the world, and yet the poor hypocrite cannot even have the satisfaction of unburdening his heart of the venom. No wonder that all this tension should express itself in physical ailment. The curse of telling lies (4) There is another subtle and very significant point here. According to these verses, the hypocrites would meet with a grievous punishment for having told lies. Now, their greatest crime was disbelief and hypocrisy in matters of faith, and they had been committing other crimes as well, like nursing envy and malice against Muslims in their hearts and actually conspiring against them. And yet here the grievous punishment has been connected with their habit of telling lies. This is an indication that basically this nefarious habit was their real crime, which gradually led them to hypocrisy and disbelief. In other words, although hypocrisy and disbelief are much greater crimes, yet they arise from the habit of telling lies. That is why the Holy Qur&an combines the sin of lying with the sin of idol worship in the same phrase: فَاجْتَنِبُوا الرِّ‌جْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ‌ |"Guard yourselves against the filth of idols and against telling lies|" (22:30)

تیسری آیت میں فرمایا کہ ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا، اللہ نے ان کے مرض کو مرض اور بیماری اس کیفیت کو کہتے ہیں جس سے انسان اپنے اعتدال مناسب سے نکل جائے اور اس کے افعال میں خلل پیدا ہوجائے جس کا آخری نتیجہ ہلاکت اور موت ہوتا ہے ، قرآن و حدیث کی اصطلاح میں ان نفسانی کیفیات کو بھی مرض کہا جاتا ہے جو نفس انسانی کے کمال میں خلل انداز ہوں اور جن کی وجہ سے انسان اپنے انسانی اعمال سے محروم ہوتا چلا جائے جس کا آخری نتیجہ روحانی موت و ہلاکت ہے، حضرت جنید بغدادی نے فرمایا کہ دلوں کے امراض خواہشات نفسانی کے اتباع سے پیدا ہوتے ہیں جیسے بدن انسان کے امراض اخلاط انسان کی بےاعتدالی سے پیدا ہوتے ہیں اس آیت میں ان کے دلوں میں مخفی کفر کو مرض فرمایا گیا ہے جو روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے بڑا مرض ہے روحانی مرض ہونا تو ظاہر ہے کہ اوّل تو اپنے پیدا کرنے والے پالنے والے کی ناشکری اور اس کے احکام سے سرکشی جس کا نام کفر ہے یہ خود روح انسانی کے لئے سب سے بڑا مرض اور شرافت انسانی کے لئے بدترین داغ ہے دوسرے دنیا کی اغراض کی خاطر اس کو چھپاتے رہنا اور اپنی دل کی بات کو ظاہر کرنے کی بھی جرأت نہ ہونا یہ دوسری دنائت ہے جو روح کا بہت بڑا مرض ہے اور نفاق کا جسمانی مرض ہونا اس بناء پر ہے کہ منافق کے دل میں ہمیشہ یہ دغدغہ رہتا ہے کہ کہیں میرا اصلی حال نہ کھل جائے شب و روز اس کی فکر میں رہنا خود ایک جسمانی مرض ہے اس کے علاوہ اس مرض کا لازمی نتیجہ حسد ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کو دیکھ کر منافق کو جلن ہوگی مگر وہ مسکین اپنے دل کی سوزش کا اظہار بھی نہیں کرسکتا یہ اسباب ان کے جسمانی مرض بھی بن جاتے ہیں، اور یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا مرض اور بھی بڑھادیا اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے جلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ ترقی دینا ہے اور ہر وقت اس کے مشاہدات ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان کا یہ مرض بڑہتا ہی رہتا ہے، (٦) جھوٹ بولنے کا وبال : آیات مذکورہ میں منافقین کے عذاب الیم کی وجہ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ یعنی ان کے جھوٹ بولنے کو قرار دیا ہے حالانکہ ان کے کفر ونفاق کا جرم سب سے بڑا تھا اور دوسرے جرائم مسلمانوں سے حسد ان کے خلاف سازشیں بھی بڑے جرائم تھے مگر عذاب الیم کا سبب ان کا جھوٹ بولنے کو قرار دیا اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی عادت ان کا اصلی جرم تھا اسی بری عادت نے ان کو کفر ونفاق تک پہنچا دیا تھا اس لئے جرم کی حیثیت اگرچہ کفر ونفاق کی بڑھی ہوئی ہے مگر ان سب خرابیوں کی جڑ اور بنیاد جھوٹ بولنا ہے اسی لئے قرآن کریم نے جھوٹ بولنے کو بت پرستی کے ساتھ جوڑ کر اس طرح ارشاد فرمایا ہے ، فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (٣٠: ٢٢) یعنی بچو بت پرستی کی نجاست سے اور بچو جھوٹ بولنے سے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝ ٠ ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝ ٠ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۝ ٠ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝ ١٠ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ مرض الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان : الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] . والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة . نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام : «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین . ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے ) كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دنیاوی سزائیں جرائم کے مطابق نہیں ہوتیں منافقین کی مجرمانہ روش کفر کا کھلم کھلا اظہار کرنے والے کافروں کی مجرمانہ روش سے زیادہ سنگین تھی کیونکہ انہوں نے استہزاء اور دھوکہ وہی دونوں کو یک جا کرلیا تھا، جیسا کہ قول باری : یخادعون اللہ اور انما نحن مستھزون سے واضح ہے۔ یہ بات کفر میں زیادتی ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ : فی الدرک الاسفل من النار (جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے منافقین کی سزا اور آخرت میں عذاب کے استحقاق کی خبر دیتے ہوئے دنیا میں ان کے احکام اور شرک کا کھلم کھلا اظہار کرنے والوں کے احکام کے درمیان فرق رکھا ہے، یعنی ان کی طرف سے ایمان کے اظہار کی بنا پر ان سے قتل کا حکم رفع کردیا ہے اور وراثت وغیرہ کے اندر انہیں مسلمانوں جیسا قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیاوی سزائیں جرائم کی مقدار کے مطابق نہیں مقرر کی گئیں، بلکہ ان کی بنیاد ان مصالح پر رکھی گئی ہے جن کا علم اللہ کو ہے ۔ اور اسی علم کی بنیاد پر اللہ نے اپنے احکام جاری کئے ہیں، چناچہ اللہ نے محض زانی پر رجم کی سزا واجب کردی ہے اور توبہ کی بنا پر رجم کی یہ سزا زانی سے دور نہیں کی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ماعز کو رجم کرنے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق فرمایا : اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ یہ تو بہ ٹیکس اور چنگی وصول کرنے والا کرے تو اس کی بخشش ہوجائے۔ الغا مدیہ قبیلہ غامد سے تعلق رکھنے والی ایک عورت جس نے زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا کو رجم کرنے کے بعد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح ارشاد فرمایا تھا۔ کفر زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ لیکن اگر ایک شخص کفر کرنے کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہوجائے گی، چناچہ ارشاد باری ہے : قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ماسلف ) (آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے کفر کیا کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کا سابقہ کفرکومعاف کردیا جائے گا۔ ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زنا کے قاذف کو اسی کوڑے لگانے کا حکم دیا، لیکن کفر کے قاذف پر کوئی حد اور سزا واجب نہیں کی، حالانکہ کفر زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ شراب پینے والے پر حد واجب کردی، لیکن خون پینے والے اور مردار کھانے الے پر کوئی حد واجب نہیں کی۔ ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیاوی سزائیں جرائم کی مقدار کے مطابق مقرر نہیں کی گئیں۔ جب یہ بات عقل کے نزدیک جائز ہے کہ زنا، قذف اور سرقہ کے جرائم میں سرے سے کوئی حدواجب نہ کی جائے، بلکہ ایسے مجرموں کا معاملہ آخرت میں ملنے والی سزائوں پر مئوخر کردیا جائے تو عقلی طور پر یہ بھی جائز ہے کہ ان سزائوں کے مابین فرق رکھا جائے، یعنی بعض جرائم کی سزا بعض دوسرے جرائم کی نسبت زیادہ سخت رکھی جائے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ حدود کا اثبات قیاس کے ذریعے کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ان کے اثبات کا ذریعہ توقیف ، اشارع کی طرف سے راہنمائی) یا اجماع امت ہے، زیر بحث آیات میں اللہ سبحانہ نے منافقین کا احوال بیان کر کے انہیں ان کی حالت پر برقرار رہنے دیا اور ہمیں ان کے ساتھ قتال کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یہی چیز ہمارے درج بالا قول کی اصل اور بنیاد ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کی واجب کردہ حدود اور سزائوں کا نفاذ امام المسلمین، یعنی خلیفہ اور حاکم وقت نیز شرعی امور کے نگرانوں کا فعل ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو ان آلام و تکالیف کی ہے جو اللہ کی طرف سے مجرموں کو سزا کے طور پر دی جاتی ہیں۔ جب یہ بات ممکن ہے کہ ایک منافق کو دنیا کے اندر بیماری اور فقر و فاقہ کی صورت میں کوئی سزا نہ ملے، بلکہ اس کے برعکس اس کے لئے عیش و آرام کے ساتھ زندگی گزارنے کی چھوٹ ہو اور اس کے کفر و نفاق کی زسا کو آخرت پر مئوخر کردیا جائے، تو یہ بات بھی جائز ہے کہ اللہ ہمیں دنیا کے اندر منافق کو قتل کردینے اور اس کے کفر و نفاق کی سزا میں تجیل کرنے کے حکم کا پابند نہ کرے۔ بعثت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرہ سال مکہ میں گزارے اور اس دوران میں آپ مشرکین کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اور اس کے پیغمبروں کی تصدیق کی دعوت دیتے رہے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین کے ساتھ قتال کرنے کا پابند نہیں کیا گیا، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ نرم ترین الفاظ اور لطیف ترین پیرائے میں انہیں دعوت اسلام دیں، چناچہ ارشاد ہوا : ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن صاے نبی، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو) نیز : واذا خاطبھم الجاھدن قالو اسلاماً (اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام) نیز : ادفع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم و ما یکفا ھا الا الذین صبروا وما یلقاھا الا ذوحظ عظیم۔ (آپ بدی کو ایسی نیکی سے ٹال دیا کیجیے جو بہترین ہو تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص کی آپ سے عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے رہتے ہیں اور اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہوتا ہے) اسی طرح کی دیگر آیات جن میں بہترین انداز سے دین کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہجرت کے بعد قتال کی فرضیت ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس مصلحت کا علم تھا جس کے تحت اس نے مکی زندگی میں قتال کا حکم نہیں دیا اور مدنی زندگی میں اس کا حکم دے دیا۔ چناچہ ہمارے بیان کردہ درج بالا اصول کی بنا پر یہ بات جائز ہوگئی کہ قتل و قتال کا حکم بعض قسم کے کافروں یعنی کھلم کھلا کفر کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ خاص ہوجائے اور اس حکم کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ نہ ہو جو ایمان کا اظہار کرتے اور کفر چھپائے رکھتے ہیں اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے منافق کا جرم دیگر مجرموں کے جرائم سے بڑھ کر ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) ان کے دلوں میں شک، نفاق، نافرمانی اور اندھیرا ہے رب تعالیٰ ان کے شک نفاق نافرمانی اور اندھیرے میں اضافہ فرماتا ہے اور ان لوگوں کو آخرت میں ایسا تکلیف دہ عذاب ہوگا جس کی تکلیف ان کے دلوں میں ہوگی کیوں کہ وہ پوشیدہ اور خفیہ طریقہ پر اللہ کو جھٹلاتے تھے اور یہ منافقین یعنی عبداللہ بن ابی، جدی بن قیس اور معتب بن قشیر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ) یہ روگ اور بیماری کیا ہے ؟ ایک لفظ میں اس کو ” کردار کی کمزوری “ (weakness of character) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ایک شخص وہ ہوتا ہے جو حق کو حق سمجھ کر قبول کرلیتا ہے اور پھر ” ہرچہ بادا باد “ (جو ہو سو ہو) کی کیفیت کے ساتھ اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو حق کو پہچان لینے کے باوجود ردّ کردیتا ہے۔ اسے ” کافر “ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک شخص وہ بھی ہے جو حق کو حق پہچان کر آیا تو سہی ‘ لیکن کردار کی کمزوری کی وجہ سے اس کی قوت ارادی کمزور ہے۔ ایسے لوگ آخرت بھی چاہتے ہیں لیکن دنیا بھی ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں کا بھی کوئی نقصان نہ ہو اور آخرت کا بھی سارا بھلا ہمیں مل جائے۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے دلوں میں ایک روگ ہے۔ (فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ج) یہ اللہ کی سنت ہے۔ آپ حق پر چلنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ حق کا راستہ آپ پر آسان کر دے گا ‘ لیکن اگر آپ برائی کی طرف جانا چاہیں تو بڑی سے بڑی برائی آپ کے لیے ہلکی ہوتی چلی جائے گی۔ آپ خیال کریں گے کہ کوئی خاص بات نہیں ‘ جب یہ کرلیا تو اب یہ بھی کر گزرو۔ اور اگر کوئی بین بین لٹکنا چاہے تو اللہ اس کو اسی راہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہو رہے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں اور یہودیوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھی ہیں۔ تو ان کا یہ سمجھنا کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں ‘ بالکل غلط ہے۔ حقیقت میں یہ کامیابی نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے وہ تباہ کن راستہ ان کے لیے آسان کردیا ہے جو انہوں نے خود منتخب کیا تھا۔ ان کے دلوں میں جو روگ موجود تھا اللہ نے اس میں اضافہ فرما دیا۔ ( وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا) اوپر کفار کے لیے الفاظ آئے تھے : (وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) اور یہاں عَذَابٌ اَلِیْمٌ کا لفظ آیا ہے کہ ان کے لیے دردناک اور المناک عذاب ہے۔ (بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. ' Disease' here refers to the disease of hypocrisy. The statement that 'Allah has intensified this disease' means that He does not punish the hypocrites immediately but allows them to indulge in their hypocrisy and exult in the success of their ruses. This feeling of success intensifies their hypocrisy

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :12 بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے ۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

(١٢) یہ وہی بات ہے جو پیچھے آیت نمبر ٧ میں کہی گئی تھی۔ یعنی شروع میں انہوں نے اپنے اختیار سے اس گمراہی کو اپنایا اور اس پر اڑگئے، یہ ان کے دل کی بیماری تھی، پھر ان کی ضد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا کہ اب انہیں واقعی ایمان لانے کی توفیق نہیں ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:10) مرض۔ المرض۔ کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا یہ دو قسم پر ہے۔ (1) مرض جسمانی جیسا کہ ارشاد ہے۔ ولا علی المریض حرج (24:61) اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے۔ (2) مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بھی بولا جاتا ہے اور اس سے اخلاق رذیلہ مثلاً جہالت، شک، بزدلی، نجل، نفاق وغیرہ مراد ہوتے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے کہ : واما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجسا الی رجسھم (9:125) اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا۔ آیت ہذا میں یہی دوسرے معنی لئے گئے ہیں ۔ کیونکہ جس طرح مرض جسمانی انسان کے بدن کو کمزور کردیتا ہے اسی طرح یہ اخلاق رذیلہ بھی انسان کے دین کو ضعیف کردیتے ہیں۔ فزادھم اللہ۔ ف نتیجہ کے لئے ہے۔ ای نتیجۃ۔ زاد۔ یزید۔ (باب ضرب) زبد وزیادۃ مصدر، ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس نے زیادہ کیا۔ اس نے بڑھایا۔ زاد۔ فعل لازم اور متعدی ہر دو طرھ استعمال ہوتا ہے، یہاں یہ بطور فعل متعدی استعمال ہوا ہے۔ فعل لازم کی مثال قرآن مجید میں ہے۔ وارسلناہ الی مائۃ الف او یزیدون (37:147) اور ہم نے اس کو بھیجا ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف (او یزیدون۔ یا وہ زیادہ تھے) ۔ ھم ضمیر مفعول جمعع مذکر غائب۔ اللہ فاعل۔ مرضا مفعول ثانی زاد فعل کا۔ فزادھم اللہ مرضا۔ خدا نے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا۔ مطلب یہ ہے کہ ان منافقین کے دلوں میں شک و نفاق کا مرض ہے۔ انہوں نے اس مرض کو دفع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حتی کہ وہ جڑ پکڑ گئی اور قانون قدرت کے مطابق بڑھتی گئی۔ عذاب الیم۔ موصوف صفت، الم یالم الم (باب سمع) الم۔ اسم فاعل۔ فعل لازم قرآن مجید میں ہے یالمون کما تولمون (4:104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں۔ الم یولم ایلام (افعال) دکھ درد دینا۔ مولم اسم فاعل۔ یہاں الیم بمعنی مولم ہے۔ دکھ دینے والا ۔ درد ناک ۔ (راغب) بما کانوا یکذبون ۔ ب سببیہ ہے اور ما مصدریہ۔ کانوا یکذبون ۔ ماضی استمراری جمع مذکر غائب۔ بہ سبب اس کے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔ بہ سبب ان کے کذب کے (کذب یکذب کذب جھوٹ بولنا)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی شک ونفاق ریا کاری ارومومنوں سے حسد و بغض وغیرہ کے امراض قلبیہ میں مبتلا تھے ہی اب اسلامی اقتدار کی روز افزوں ترقی سے اور جل بھن رہے ہیں ( قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بیماری یہ کہ جس دین کو دل نہ چاہتا تھا نا چار قبول کرنا پڑا۔ اور دوسری بیماری اللہ تعالیٰ نے یہ زیادہ کردی یکہ حکم دیا جہاں کا جب کے خیر خواہ تھے ان سے لڑنا پڑا۔ ( مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مرج ہیں ان کی بداعتقادی وحسد اور ہر وقت کا اندیشہ وخلجان سب کچھ آگیا چونکہ اسلام کو روزانہ رونق ہوجاتی تھی اس یے ان کے دلوں میں ساتھ ساتھ یہ امراض ترقی پاتے جاتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقت ایک روحانی بیماری ہے جس سے کئی جرائم جنم لیتے ہیں۔ منافق جھوٹ بولنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں اضافہ ہی ہوا جاتا ہے بالکل اس مریض کی طرح جس کے لیے بہترین خوراک بھی بیماری میں اضافے کا سبب بنتی ہو۔ یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسان جسمانی طور پر ہی بیمار نہیں ہوتا اس کی روح بھی بیمار ہوتی ہے جسم مادی عناصر سے بنا ہے۔ اس کا علاج مادی عوامل سے ہوتا ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کا حکم اور ملکوتی ہے۔ اس کا علاج روحانی یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے نبی کی تابعداری سے ہوتا ہے۔ (إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ کَالرَّاعِيْ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَإِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ ) (رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحَلال وترک الشبھات) ” یقیناً حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان کے درمیان کچھ متشابہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑگیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔ یہ اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے قریب جانور چراتا ہے ہوسکتا ہے وہ جانور چراگاہ میں چرنا شروع ہوجائیں۔ خبردار ! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو ! یقیناً جسم میں ایک ٹکڑا ہے وہ ٹھیک ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور وہ فاسد ہو تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے یاد رکھو ! وہ دل ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا گیا کہ کیا مومن جھوٹ بول سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں۔ (مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب أن عبداللہ بن مسعود کان یقول علیکم بالصدق ) (إِیَّاکُمْ وَ الْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِيْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِيْ إِلَی النَّارِ وَمَایَزَال الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” تم جھوٹ سے کنارہ کش رہو۔ اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔ جب ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا عادی ہوجاتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ “ دل کی حالت : (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِيْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔ ) “ مسائل ١۔ منافقت دل کی بیماری ہے۔ ٢۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ ٣۔ منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ منافق کی بیماری کو بڑھا دیتا ہے۔ ٤۔ منافق کو اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن روحانی بیماریاں : ١۔ ریاکاری۔ ( البقرۃ : ٢٦٤، النساء : ١٤٢، الأنفال : ٤٧، الماعون : ٤ تا ٦) ٢۔ قساوت قلب۔ (المائدۃ : ١٣، الزمر : ٢٢) ٣۔ کفر۔ (البقرۃ : ١٠) ٤۔ تکبر۔ (النحل : ٢٢، لقمان : ١٨، النساء : ١٧٢) ٥۔ کجی۔ ( التوبۃ : ١١٧، آل عمران : ٧، الصف : ٥) ٦۔ دل کا زنگ آلود ہونا۔ ( المطففین : ١٤) ٧۔ حسد۔ ( البقرۃ : ١٠٩، النساء : ٥٤) ٨۔ سرکشی۔ ( البقرۃ : ٩٠، ٢١٣، یونس : ٩٠) ٩۔ بغض۔ (آل عمران : ١١٨، المائدۃ : ٩١، الممتحنۃ : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیکن سوال یہ ہے کہ منافقین یہ حرکت کیوں کرتے ہیں ۔ روش نفاق اختیار کرکے وہ مومنین کو یہ دھوکہ کیوں دینا چاہتے ہیں ؟ اس لئے کہ فِی قُلُوبِھِم مَّرَضٌ” ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ “ ان کے دلوں کو یہ روگ لگ گیا ہے ۔ دماغوں پر یہ آفت آن پڑی ہے اور یہ انہیں حق کی راہ مستقیم پر چلنے نہیں دیتی ۔ اس کی وجہ سے وہ پھر اس بات کے مستحق ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت ان کے اس روگ کو اور زیادہ کردے فَزَادَھُمُ اللہ ُ مَرَضًا ” ان کی اس بیماری کو اللہ نے اور بڑھادیا۔ “ ظاہر ہے کہ ایک بیماری دوسری کو جنم دیتی ہے ۔ گمراہی ابتداء میں نہایت معمولی ہوتی ہے اور جونہی اس کے خطوط وحدود آگے بڑھتے ہیں اس کا زاویہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے ۔ یہ اللہ کا قانون قدر ہے ، جو ہر جگہ جاری وساری ہے ۔ یہ قانون فطرت انسانی سوچ اور طرز عمل تمام چیزوں اور تمام حالات میں جاری ہے ۔ وہ خود ایک معلوم ومعروف انجام کی طرف چلے جارہے ہیں ۔ وہ انجام جو ان سب لوگوں کے لئے مقدور ہے جو اللہ اور مومنین کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ وَ لَہُم عَذَابٌ اَلِیمٌم بِمَا کَانُوا یَکذِبُون ” یہ جھوٹ بولتے ہیں اور اس کی پاداش میں ان کے لئئے دردناک عذاب ہے ۔ “ ان کی اہم صفات میں سے یہ دوسری صفت ہے ، بالخصوص ان لوگوں کی جو ان میں سرکردہ تھے اور ہجرت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل اپنی قوم اور قبیلے میں سرداری کے مناسب پر فائز تھے مثلاً عبداللہ ابن ابی ابن سلول ۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مومنین کے خلاف دل میں گہراکینہ رکھتے تھے اور جو فتنہ و فساد برپا کرتے تھے اس کے لئے تاویلیں پیش کرتے اور اپنے ان کارناموں پر ہر قسم کی سزا ومواخذہ سے بچ کر پھولے نہ سماتے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16 ۔ ان کے باطن کی خرابی اور فساد عقائد کو بیماری سے تعبیر فرمایا۔ والمرض عبارۃ مستعارۃ للفساد الذی فی عقائدھم (قرطبی ص 197 ج 1 اور یہ لفظ نفاق رشک وریب، جحود و انکار، پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے عداوت اور بغض وحسد وغیرہ سب کو شامل ہے۔ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ شَک ونفاق (معالم ص 28 ج 1، ابن جریر ص 93 ج۔۔ استعیر ھھنا لما فی قلوبھم من الجھل وسوء العقیدۃ وعداوۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وغیر ذلک من فنون الکفر (ابو السعود ص 307 ج 1) ومجازا بان یستعار لبعض اعراض القلب کسوء الاعتقاد والغل والحسد والمیل الی المعاصی فان صدورھم کانت تغلی علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غکا وغبقا (تفسیر نیشا پوری ص 154 ج 1) اور بیماری عضو کی اس غیر طبعی حالت کا نام ہے جس کی وجہ سے عضو کے طبعی افعال میں خلل وفتور واقع ہوجائے۔ یہ تمام امور چونکہ دل کو خدا کی معرفت اور اس کی سچی اطاعت اور مخلصانہ عبادت سے روکتے ہیں اس لیے یہ سب روحانی اور قلبی امراض ہیں (من الکبیر بتصرف۔ 17 ۔ شک ونفاق اور بغض وحسد کی یہ بیماری جو ان کے دلوں کو لگی ہوئی تھی کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتی گئی۔ جوں جوں قرآن نازل ہوتا ان کا کفر وانفاق بڑھتا جاتا۔ کیونکہ ہر آیت کے ساتھ وہ منافقانہ سلوک کرتے۔ بظاہر اسے مانتے لیکن دل میں اس کا انکار کرتے یا جوں جوں پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو دشمنوں پر غلبہ واقتدار حاصل ہوتا گیا اور دین اسلام کی شان و شوکت میں ترقی ہوتی گئی تو ان کے دلوں کی جلن اور تکلیف اور ان کے سینوں میں بغض وحسد کی آگ بڑھتی گئی۔ اور زیادۃ اللہ تعالیٰ عرضھم اما بتضعیف حسدھم بنعم اللہ تعالیٰ علی رسولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمومنین او ظلمۃ قلوبھم بتجدد کفرھم بما ینزل سبحانہ شیئا فشیا من الایات والذکر الحکیم (روح ص 145 ۔ 150) ۔ فَزَادَھُمُ اللّٰهُ مَرَضًا میں فاء تعقیب کیلئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فاء کا مابعد ما قبل پر مرتب ہے۔ والفاء للدلالۃ علی ترتب مضمونھا ؟ ؟ (ابو السعود ص 307 ج 1) یعنی ان کی بیماری انہیں کی بد اعمالیوں اور بد پرہیزیوں کا نتیجہ ہے۔ باقی رہا اضافۂ مرض کو خدا کی طرف منسوب کرنا تو وہ محض اس لیے ہے کہ وہ مسبب الاسباب ہے اور فاعل حقیقی ہے۔ آیت کے ان دونوں حصوں میں منافقین کے انجام کی علت اور سبب کا بیان تھا ا آگے ان کے انجام کا ذکر ہے۔ 18 ۔ منافقین خبث باطن اور فساد عقیدہ کی خطرناک بیماری میں مبتلا تھے۔ خدا کی طرف سے آیات شفا لگاتار نازل ہوتی رہیں۔ مگر انہوں نے ان سے اعراض کیا اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ادنی سی کوشش نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا مرض بڑھتا گیا اور آخر ان کی ہلاکت کا باعث ہوا اور وہ دائمی عذاب اور دردناک سزا کے مستحق قرار پائے۔ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ ۔ یہاں با سببیت کے لیے اور ما مصدریہ ہے (روح ص 150 ج 1، ابو السعود ص 309 ج 1) اور فعل کانوقسد و دوام و استمرار کیلئے ہے (ابو السعود، روح ص 152 ج 1) یعنی مسلسل کذب بیانی اور نفاق پر لگاتار اصرار کی وجہ سے انہیں مذکورہ سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہاں جھوٹ بولنے سے وہی نفاق مراد ہے۔ یعنی دل میں اسلام کا انکار چھپائے ہوئے ہیں مگر زبان سے اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِکا اقرار کرتے ہیں۔ ومعناہ بکذبھم وقولھم امنا ولیسوا بمومنین (قرطبی ص 198 ج 1) ای بکذبھم فی قولھم امنا باللہ وبا لیوم الاخر (مدارک ص 16 ج 1) آگے منافقین کی مزید خباثتیں ذکر کرکے ان کے حال کو اور واضح کیا گیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4۔ اور لوگوں میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو ظاہر ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے ہیں ۔ لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں بلکہ منافق ہیں ۔ وہ اپنے خیال میں اللہ کو اور مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں حالانکہ وہ خود ہی اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کر رہے ہیں اور ان کو اس کا بالکل شعور اور تمیز نہیں ہے۔ ان لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کو ان کی جھوٹی باتیں بنانے کے باعث درد ناک سزا ملنے والی ہے۔ قلب اور زبان میں چونکہ موافقت نہ تھی اس لئے ان کو منافق فرمایا پھر جس عرض کیلئے فریب دینے کی کوشش کی تھی وہ نا کام ہوگئی تو خود ہی دھوکہ کھایا ۔ جو بات چھپانی چاہتے تھے وہ کسی نہ کسی طرح کھل گئی یہ سمجھتے تھے ہم اس ترکیب سے دھوکہ دے رہے ہیں ، حالانکہ خود دھوکے میں پڑگئے اور پھر غفلت اور گمراہی کی وجہ سے دھوکہ کا احساس بھی نہیں کر رہے اور جو عداوت اور حسد کی بیماری ان کے قلوب میں ہے وہ ان کی بےاحتیاطی اور بد پرہیزی کے باعث اور ترقی کر رہی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس میں اضافہ فرمارہا ہے ۔ جس قدر اسلام سے حسد کرتے ہیں اسی قدر اسلام اور مسلمان ترقی پذیر ہیں ۔ اس لئے بیماری میں اور اضافہ ہو رہا ہے ، حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک آزاد یہ تھا کہ جس دین کو دل نہ چاہتا تھا نا چار قبول کرنا پڑا ، دوسرا آزار اللہ نے زیادہ کیا کہ حکم کیا جہاد کا جن کے خیر خواہ تھے ان سے لڑنا پڑا۔ ( تسہیل)