Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 161

سورة البقرة

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۙ

Indeed, those who disbelieve and die while they are disbelievers - upon them will be the curse of Allah and of the angels and the people, all together,

یقیْنًا جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں ، ان پر اللہ تعالٰی کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ ... Verily, those who disbelieve, and die while they are disbelievers, then: ... أُولَيِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّهِ وَالْمَليِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے ان پر لعنت جائز ہے لیکن اس کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ کرلی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو... ۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے ان کے مرتکبین کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پاسکتے ہیں۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠٠] کفر کے معنی انکار کردینا (ایمان نہ لانا) بھی ہے۔ چھپانا بھی اور ناشکری کرنا بھی۔ یہاں موقع کے لحاظ سے یہ سب معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Cursing an individual is not permissible From the words of the text :&and died while they were disbelievers&, commentators al-Jassas, al-Qurtubi and some others have formulated the view that it is not permissible to curse an infidel about whom it is not certain that he is to die in a state of infidelity. Now that we have no way of finding out for sure that a person will die in a given stat... e, we are bound to obey the ruling that it is not permissible to curse an infidel by name. That the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has. Cursed some infidels by name is explained by the fact that their death in a state of infidelity was divinely revealed to him. As far as the infidels as a whole are concerned, including the tyrants and the unjust, it is technically correct, if cursed without any particularization. From this we also find out that the act of cursing is so grave that it has been disallowed even if the target be an infidel about whom it is not certain that he is going to die as one. If so, how can this become permissible if the target is a Muslim or, even if it is directed at an animal? Common people in Muslim societies seem to neglect this aspect of standard Muslim behaviour, specially our Muslim sisters who are prone to use very hard language about those they do not like among the circle of their acquaintances. It should be clearly understood that the act of cursing becomes effective not only by using the word, &curse& but all synonyms used are subject to the same ruling. The word &La` nah لعنہ & (curse) means: to remove away from the mercy of Allah Almighty&. Therefore, all damnatory swearing and cursing, whatever the shade, circumstance or language, falls under the purview of |"la` nah|" لعنہ or &curse&.  Show more

کسی معیین شخص پر لعنت اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کے کفر پر مرنے کا یقین نہ ہو : وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ کے لفظ سے جصاص اور قرطبی وغیرہ نے یہ استنباط کیا ہے کہ جس کافر کے کفر کی حالت میں مرنے کا یقین نہ ہو اس پر لعنت کرنا جائز نہیں اور چونکہ ہمیں کسی شخص کے خاتمہ کا یقینی علم ہونے کا اب کوئی ذر... یعہ نہیں اس لئے کسی کافر کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز نہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن کافروں پر نام لے کر لعنت کی ہے آپ کو ان کی موت علی الکفر کا منجانب اللہ علم ہوگیا تھا البتہ عام کافروں، ظالموں پر بغیر تعیین کے لعنت کرنا درست نہیں ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جب لعنت کا معاملہ اتنا شدید ہے کہ کسی کافر پر بھی اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کا یقین نہ ہوجائے کہ اس کی موت کفر ہی پر ہوگی تو کسی مسلمان پر یا کسی جانور پر لعنت کیسے جائز ہوسکتی ہے اور عوام اس سے بالکل غفلت میں ہیں خصوصاً عورتیں کہ بات بات پر لعنت کے الفاظ اپنے متعلقین کے متعلق استعمال کرتی رہتی ہیں اور لعنت صرف لفظ لعنت ہی کے کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے ہم معنی جو الفاظ ہیں وہ بھی لعنت ہی کے حکم میں ہیں لعنت کے اصلی معنی خدا تعالیٰ کی رحمت سے دور کرنے کے ہیں اس لئے کسی کو مردود، راندہ درگاہ، اللہ مارا وغیرہ کے الفاظ کہنا بھی لعنت ہی کے حکم میں ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۝ ١٦١ ۙ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو الن... ّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کافروں پر لعنت بھیجنے کا بیان قول باری ہے : ان الذین کفروا وما تو ا وھم کف اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ( جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے) آیت میں اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ کفر کی حالت میں مرجانے وا... لوں پر مسلمان لعنت کریں، نیز یہ کہ موت کی بنا پر کافر سے احکام الٰہی کے مکلف ہونے کی بات ختم ہوجانے کے باوجود اس پر لعنت کرنے اور اس سے برات کے اظہار کی بات ختم نہیں ہوتی اس لئے کہ قول باری : والناس اجمعین کافر کی موت کے بعد بھی اس پر لعنت کرنے کے حکم کی ہم سے متقضی ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کافر پاگل ہوجائے تو اس صورت میں اس کے مکلف ہونے کی بات ختم ہوجانے کے باوجود اس پر لعنت، نیز اس سے برأت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہی کیفیت اس دوستی کی ہے جو کسی کے ساتھ اس کے ایمان اور سلامت روی کی بنا پر وجود میں آتی ہے۔ اس کی موت یا دیوانگی کے بعد بھی موالات کا یہ سلسلہ قائم رہتا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ ابو العالیہ سے مروی ہے کہ زیر بحث آیت سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ مذکورہ کافر پر لعنت کریں گے جس طرح یہ قول باری ہے : ثم یوم القیامۃ یکفر بعضکم بعضاً ویلعن بعضکم بعضاً ( پھرق یا مت کے دن تم میں سے بعض بعض کا انکار کریں گے اور تم میں سے بعض بعض پر لعنت بھیجیں گے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بلا دلالت تخصیص ہے۔ اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت کی رو سے مذکورہ کافر دنیا میں اللہ اور فرشتوں کی لعنت کا مستحق ہے۔ اسی طرح وہ آخرت میں لوگوں کی لعنت کا بھی مستحق ہوگا۔ اس بارے میں اشتباہ صرف ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں اللہ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ لوگ مذکورہ کافر پر لعنت بھیجتے ہیں، حالانکہ بات یہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ مذکورہ کافر لوگوں کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے پھر خواہ لوگ اس پر لعنت کریں یا نہ کریں۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦١۔ ١٦٢) مگر جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ماننے سے انکار کیا ان پر اللہ کا عذاب اور تمام فرشتوں کی لعنت اور تمام مومنوں کی لعنت جو یہ کافر کرتے تھے، ان ہی کافروں پر نازل ہوگی اور اس لعنت میں یہ ہمیشہ رہیں گے نہ لعنت ان پر اٹھائی جائے گی اور نہ اس لعنت کو یہ الگ کرسکیں گے اور نہ ان سے ... عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ اسی کے عذاب کے متعلق ان کو کسی قسم کی چھوٹ دی جائے گی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

161. The original meaning of kufr is to conceal. This lent the word a nuance of denial and it began to be used as an antonym of iman . Iman means to believe, to accept, and to recognize. Kufr, on the contrary, denotes refusal to believe, to deny, to reject. According to the Qur'an there are several possible forms of disbelief. One is to refuse either to believe in the existence of God, to acknowle... dge His sovereignty, to recognize Him as the only Lord of the Universe and of mankind or to recognize Him as the only Lord and the only object of worship and adoration. The second form of disbelief is when a man recognizes the existence of God but still refuses to accept His ordinances and directives as the only source of true guidance, and as the true law for his life. The third form of disbelief is when even though a man recognizes in principle that he ought to follow the guidance of God he refuses to believe in the Prophets who were the means of communicating God's guidance to man. The fourth form of disbelief is to differentiate between one Prophet and another and, out of parochialism and bigotry, to accept some Prophets and reject others. The fifth form of disbelief is the refusal to recognize, either totally or partially, the teachings communicated by the Prophets, on God's behalf, concerning the beliefs, the principles of morality, and the laws for fashioning human life. The sixth form of disbelief is where a person theoretically accepts all that he should accept but wilfully disobeys God's ordinances and persists in this disobedience, and considers disobedience rather than obedience to God to be the true principle of life. All these modes of thought and action are forms of rebellion towards God and the Qur'an characterizes each of them as kufr. In addition, the term kufr is used at several places in the Qur'an in the sense of ingratitude and in this usage it signifies the exact opposite of shukr (gratitude) . Gratefulness consists in feeling thankful to one's benefactor, in duly recognizing the value of his benevolence, in making use of it in a manner pleasing to its bestower, and in being utterly loyal to him. Ingratitude denotes, on the contrary, that the man concerned has either failed to recognize the bounty of his benefactor, or considers it to be either the outcome of his own power and ability or else that of some other person's favour or intercession. Another form of ingratitude consists in failing to recognize fully the worth of the bounty received and in either allowing it to be wasted or to be used in contravention of the will of the benefactor; this ingratitude includes infidelity and treachery towards the benefactor in disregard of his benevolence and kindness. This kind of kufr is known in ordinary language as ungratefulness.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :161 ”کفر“ کے اصل معنی چھُپانے کے ہیں ۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا ۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا ، قبول کرنا ، تسلیم کرلینا ۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا ، انکار کرنا ۔ قرآن کی رُو سے کفر کے روی... ّہ کی مختلف صُورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے ، یا اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبُود ماننے سے انکار کر دے ، یا اسے واحد مالک اور معبُود نہ مانے ۔ دُوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبعِ علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ تیسرے یہ کہ اُصُولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے ، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے ، انہیں تسلیم نہ کرے ۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصّبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے ۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد ، اخلاق اور قوانینِ حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو ، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے ۔ چھٹے یہ کہ نظریّے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکامِ الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے ، اور دُنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے ۔ یہ سب مختلف طرزِ فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفرانِ نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے ۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو ، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اس کا دل اپنے مُحسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو ۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفرانِ نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے مُحسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے ۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعمُوم احسان فراموشی ، نمک حرامی ، غدّاری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے حق قبول کرنے، اخفائے حق کے گناہ کو ترک کرنے اور حق کھول کر بیان کرنے سے انکار کیا پھر اسی حالت میں مرگئے ایسے مجرموں پر اللہ تعالیٰ اور سب کی طرف سے پھٹکار ہوگی اور حق چھپانے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہودو نصارٰی کے علماء کی اکثریت کا یہ حال تھا کہ وہ دنیاوی مف... ادات کے حصول، علمی برتری اور ظاہری تقدس کے تحفظ کی خاطر کتاب الٰہی کو اپنے تک ہی محدود رکھتے تھے۔ جس طرح ہندو مذہب میں شودر کو مذہبی کتاب اور مندروں سے دور رکھا جاتا ہے۔ اہل کتاب کے علماء حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے بجائے ان کی چاپلوسی اور مدح سرائی کیا کرتے تھے تاکہ ان سے بڑے بڑے مناصب اور مفادات حاصل کرسکیں۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اخلاقی پستی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : (إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلٰی بَنِيْ إِسْرَاءِیْلَ کَان الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ فَیَقُوْلُ یَاھٰذَا اتَّقِ اللّٰہَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّہٗ لَایَحِلُّ لَکَ ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ فَلَا یَمْنَعُہٗ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ أَکِیْلَہٗ وَشَرِیْبَہٗ وَقَعِیْدَہٗ فَلَمَّا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِھِمْ بِبَعْضٍ ثُمَّ قَالَ (لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِيْ إِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ) إِلٰی قَوْلِہٖ (فَاسِقُوْنَ ) ثُمَّ قَالَ کَلَّا وَاللّٰہِ لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلٰی یَدَيِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی ] ” پہلی خرابی بنی اسرائیل میں یہ آئی تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا اللہ سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آجا ؤیہ کام تیرے لیے درست نہیں ہے۔ جب دوسرے دن اس سے ملتا تو یہ کام اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے انکے ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا دیے۔ مزید فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر داوٗد اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی۔۔۔ پھر فرمایا : ہرگز نہیں ‘ اللہ کی قسم ! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برے کاموں سے منع کرو اور ظالم کے ہاتھ پکڑ کر اس کو حق کی طرف اس طرح جھکاؤ گے جیسا اسے جھکانے کا حق ہے اور اس کو حق پر ٹھہراؤ جیسا کہ حق پر ٹھہرانے کا حق ہے۔ “ نیکی قائم کرو جس طرح قائم کرنا چاہیے۔ اور حق پر اس کی مدد کرو جب جنّتی جنت میں جلوہ افروز ہوں گے تو ایک دن جہنم کے کنارے جاکر ایسے علماء سے پوچھیں گے کہ تم کس جرم کی پاداش میں یہاں ذلیل ہورہے ہو ؟ جہنمی اپنے بیٹوں، بیٹیوں، رشتے داروں اور مقتدیوں کے سامنے زارو قطار روتے ہوئے کہیں گے کہ ہم حق چھپایا کرتے تھے۔ جنّتی ترس کھانے کے بجائے ان کو کہیں گے کہ پھر تم پر رب ذوالجلال کی مزید پھٹکار ہونی چاہیے۔ اف ! یہ کتنا ذلت آمیز اور ہیبت ناک منظرہو گا۔ انہیں ان خوفناک اور درد ناک سزاؤں میں نہ صرف ہمیشہ رہنا ہے بلکہ ان کی سزاؤں میں ذرہ برابر بھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ یہ مجبور ہو کر باربار جہنم کے نگران فرشتے سے آرزو کریں گے کہ ہمیں موت ہی آجائے جوابًا کہا جائیگا کہ اب تمہیں ہمیشہ یہاں ہی رہنا پڑے گا اور کوئی کسی اعتبار سے بھی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔ (وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ إِنَّکُمْ مَّاکِثُوْنَ ) [ الزخرف : ٧٧] ” اور جہنمی پکاریں گے کہ اے فرشتے تیرا رب ہمیں موت ہی دے دے وہ جواب دے گا یقیناً تم یہیں رہنے والے ہو۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَنْ سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَہٗ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَّارٍ ) [ رواہ ابن ماجۃ : المقدمۃ، باب من سئل عن علم فکتمہ ] ” جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا لیکن اس نے اسے چھپالیا ایسے عالم کو جہنم میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ “ مسائل ١۔ کفر کی حالت پر مرنے والوں پر اللہ تعالیٰ ، اس کے ملائکہ اور سب کی لعنت ہوتی ہے۔ ٢۔ حق چھپانے اور کفر پر مرنے والوں پر عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن ظالم کو مہلت میسر نہیں آئے گی : ١۔ نبی سے کیا جانے والا مطالبہ منظور ہونے کے بعد مہلت نہیں دی جاتی۔ (الانعام : ٨) ٢۔ کتمانِ حق کرنے والوں کو عذاب سے مہلت نہ دی جائے گی۔ (البقرۃ : ١٦٢) ٣۔ مرتدین کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (آل عمران : ٨٨) ٤۔ ظالموں کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (النحل : ٨٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور جو لوگ اپنی غلط روش پر مصر ہوتے ہیں اور مہلت اور فرصت کو غنیمت نہیں سمجھتے تو وہ یقیناً اپنے اس انجام کو پہنچیں گے جس کی وعید اللہ نے اس سے قبل ان سے فرمائی ہے ۔ اور اب زیادہ تفصیل وتاکید سے کہا جاتا ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَال... ْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (١٦١) خَالِدِينَ فِيهَا لا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلا هُمْ يُنْظَرُونَ (١٦٢) ” اور جن لوگوں نے کفر کارویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت میں جان دی ، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔ “ کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے اس کھلے دروازے کو ، خود اپنے اوپر بند کردیا ، انہوں نے فرصت کو غنیمت نہ جانا اور موقع ہاتھ سے چلا گیا اور کتمان حق ، اور کفر وضلالت پر اصرار کیا : أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ” ان پر اللہ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت۔ “ یہ ہمہ جہت لعنت ہوگی ، کسی صورت میں بھی وہ اس سے چھٹکارا نہ پاسکیں گے ۔ نہ کسی سینے میں ان کے لئے رحم ہوگا ۔ قرآن کریم نے ہمہ جہت لعنت کے سوا ان کے لئے کسی عذاب کا تذکرہ نہیں کیا ، بلکہ کہا ہے کہ اس عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی۔ نہ کوئی تاخیر ہوگی اور انہیں کسی قسم کی کوئی مہلت نہ دی جائے گی یہ ایک ایسا عذاب ہے جس سے تمام دوسرے عذاب کم ہوں گے ، دھتکارنے ، پرے پھینک دینے اور اظہار لاتعلقی کا عذاب۔ کوئی ان پر رحم کرنے والا نہ ہوگا۔ کوئی آنکھ انہیں قبول نہ کرے گی ، کسی زبان پر ان کے لئے سلام تک نہ ہوگا۔ ہر طرف سے لعنت ، دھتکار اور قطع تعلق ، انسانوں کی طرف سے بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ، زمین پر بھی اور آسمانوں پر بھی ، ہر جگہ اور ہر طرف سے ۔ یہ ہے وہ دردناک اور توہین آمیز عذاب۔ اس کے بعد سیاق کلام توحید کی طرف پھرجاتا ہے ، ایمانی تصور حیات کی بنیاد عقیدہ توحید پر رکھی جاتی ہے ۔ کائنات سے ایسے مشاہد پیش کئے جاتے ہیں ، جو عقیدہ توحید پر ناقابل تردید دلائل پیش کرتے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں ۔ ان پر تنقید ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قیامت کے دن یہ لوگ کس قدر ذلیل و خوار ہوں گے ، جب عذاب الٰہی سامنے ہوگا ، تابع متبوع سے ۔ متبوع تابع سے تبرّیٰ کررہا ہوگا ، لیکن کوئی معذرت بھی انہیں کچھ فائدہ نہ دے سکے گی ۔ ان کی پشیمانی ان کے لئے مفید نہ ہوگی نہ انہیں اس کی وجہ سے نار جہنم سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کفر پر مرنے والوں پر لعنت اور عذاب اس آیت شریفہ میں کفر پر مرنے والوں کی سزا کا ذکر ہے آیت کا عموم ان یہود کو بھی شامل ہے جو کفر پر جمے رہے اور دوسروں کو بھی کفر پر جمائے رکھا۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت اور صفت کو چھپایا اور حق کو قبول نہ کیا اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیا، اور یہو... د کے علاوہ دوسرے تمام کفار نصاریٰ مشرکین منکرین رسالت انبیاء ( علیہ السلام) اور منکرین عقائد اسلامیہ اور منکرین ضروریات دین اور ختم نبوت کے منکر اور تمام ملاحدہ اور زنادقہ اور وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا پھر کافر ہوگئے ان سب کو آیت کا عموم شامل ہے۔ حاصل یہ ہے کہ تمام کافر جو کفر پر مرجائیں ان سب پر اللہ کی لعنت ہے اور سب فرشتوں کی اور سب انسانوں کی، گزشتہ آیت کی تفسیر میں بتادیا گیا ہے کہ لعنت خدائے پاک کی رحمت سے دوری کو کہتے ہیں۔ سب سے بڑی دوری یہ ہے کہ دوزخ میں ہمیشہ کے لیے داخلہ ہوجائے کافروں کے لیے یہ سب سے بڑی لعنت ہے اس لیے خالِدِیْنَ فرمایا۔ حضرت ابو العالیہ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا خالدین فی جھنم فی اللعنۃ یعنی وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے اور لعنت میں رہیں گے۔ (در منثور ص ١٦٧ ج ١) شاید کسی کے ذہن میں یہ خیال وارد ہو کہ کافر تو ایک دوسرے پر لعنت نہیں کرتے پھر ان سب لوگوں کی لعنت کیسے ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اس دنیا میں لعنت نہیں کرتے مگر آخرت میں سب ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ سورة عنکبوت میں ہے (ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّ یَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَّ مَاْوٰیکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ) (یعنی پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے سے برگشتہ ہوجاؤ گے۔ اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا۔ اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی حمایتی نہ ہوگا۔ سورۃ اعراف میں ہے (کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا حَتّآی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰیھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھآؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ) (جب بھی کوئی جماعت دوزخ میں داخل ہوگی تو وہ دوسری جماعت پر لعنت بھیجے گی۔ یہاں تک کہ جب سب دوزخ میں ایک دوسرے کو پالیں گے تو بعد والے پہلے والوں کے بارے میں کہیں گے کہ اے ہمارے رب ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ لہٰذا ان کو آگ کا دو گنا عذاب دے۔ اور سورة احزاب میں فرمایا (وَ قَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا) (اور وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی، سو انہوں نے ہم کو راہ سے بھٹکا دیا اے ہمارے رب ان کو دہری سزا دیجیے اور ان پر بڑی لعنت فرما۔ تفسیر در منثور میں ہے کہ حضرت ابو العالیہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن کافر کھڑا کردیا جائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ پھر اس کے فرشتے لعنت کریں گے۔ پھر تمام انسان اس پر لعنت بھیجیں گے۔ پھر فرمایا (لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ ) (یعنی ان لوگوں سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ ) سورۃ نحل میں فرمایا (اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ زِدْنٰھُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْنَ ) (یعنی جو لوگ کفر کرتے تھے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے ان کے لیے ہم ایک سزا پر دوسری سزا بمقابلہ ان کے فساد کے بڑھا دیں گے۔ سورۃ زخرف میں فرمایا (اِِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ لاَ یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَھُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ ) (بلاشبہ مجرمین جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید ہو کر پڑے رہیں گے) سورۂ مومن میں فرمایا (وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَہَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ قَالُوْا اَوَ لَمْ تَکُ تَاْتِیکُمْ رُسُلُکُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا بَلٰی قَالُوْا فَادْعُوْا وَمَا دُعَاءُ الْکٰفِرِیْنَ اِِلَّا فِیْ ضَلاَلٍ ) ” اور جو لوگ دوزخ میں ہوں گے جہنم کے دارو غاؤں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے تم دعا کرو ایک دن ہمارا عذاب ہلکا فرما دے، وہ کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلے کھلے دلائل لے کر نہ آئے تھے وہ کہیں گے ہاں آئے تو تھے۔ داروغے کہیں گے کہ پھر تم ہی دعا کرلو اور کافروں کی دعا نہیں ہے مگر بےاثر۔ “ آخر میں فرمایا (وَ لاَ ھُمْ یُنْظَرُوْنَ ) (اور ان کو مہلت نہ دی جائے گی) ۔ مہلت اسے دی جاتی ہے جسے اپیل کرنے کا موقع دیا جائے۔ کافروں کو بہر حال دائمی عذاب میں رہنا ہے کسی طرح کی ان کے لیے کوئی مہلت نہیں دی جائے گی نہ ان کو کسی طرح کی معذرت خواہی کی اجازت دی جائے گی۔ سورۃ مرسلات میں فرمایا (ھٰذَا یَوْمُ لاَ یَنْطِقُوْنَ وَلاَ یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ وَیْلٌ یَّوْمَءِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ ) (یہ دن ہے جس میں وہ نہ بولیں گے اور نہ ان کو اجازت دی جائے گی کہ عذر پیش کریں۔ ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے) ۔ لعنت کرنے سے متعلقہ مسائل : مسئلہ : عام طور سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت اور ظالموں پر اللہ کی لعنت لیکن کسی خاص شخص کو مقرر کر کے یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ ملعون ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو، خاص طور پر معین کر کے صرف اسی شخص پر لعنت بھیج سکتے ہیں جس کا کفر پر مرنا یقینی ہو جیسے فرعون، ابو لہب ابو جہل وغیرہ، جو شخص اسی دنیا میں موجود ہے اور حالت کفر میں ہے اس کو بھی متعین طریقہ پر ملعون کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ یقین نہیں ہے کہ وہ کفر پر مرے گا، بہت سے لوگ اس میں بےاختیار ہوتے ہیں نہ صرف کافروں کو بلکہ مسلمانوں کو ملعون لعین کہہ دیتے ہیں۔ بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کی زبان اس میں زیادہ کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرے تو لعنت آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے۔ سو آسمان کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں پھر زمین کی طرف اتاری جاتی ہے سو زمین کے دروازے بھی بند کردیے جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں اپنا راستہ دیکھتی ہے جب کوئی جگہ نہیں پاتی تو اس پر لوٹ جاتی ہے جس نے لعنت کے لفظ زبان سے نکالے تھے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب ص ٣١٦ ج ٢) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص کی چادر ہوا نے ہٹا دی۔ اس نے ہوا پر لعنت کردی حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کر کیونکہ وہ تو اللہ کے حکم کے مطابق چلتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ جو شخص کسی چیز پر لعنت کرے اور وہ چیز اس کی اہل نہ ہو تو لعنت کرنے والے پر ہی لعنت لوٹ جاتی ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب ص ٣١٦ ج ٢) مسئلہ : لعنت کے ہم معنی جو بھی الفاظ ہوں ان کا استعمال کرنا بھی اسی وقت جائز ہے جبکہ اصول کے مطابق اس پر لعنت بھیجنا جائز ہو۔ لفظ مردود بھی ملعون کے معنی میں ہے اور پھٹکار بھی اردو میں لعنت کے معنی میں آتا ہے۔ عورتوں کو لعنت اور اس کے ہم معنی لفظ استعمال کرنے کی بہت زیادہ عادت ہوتی ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ عورتوں پر آپ کا گزر ہوا آپ نے فرمایا کہ اے عورتو ! تم صدقہ کرو مجھے دوزخ میں تمہاری تعداد زیادہ دکھائی گئی ہے۔ عورتوں نے عرض کیا کیوں یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا کہ تم لعنت زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٣ از بخاری و مسلم)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

295 حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ اسم موصول عموم کے لیے ہے اور کفروا سے تمام منکرین اور کفار مراد ہیں۔ کذا قال الامام الرازی (کبیر ص 70 ج 2) اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ۔ جملہ اسمیہ استمرار اور دوام کے لیے ہے یعنی ایسے لوگوں پر ہمیشہ خدا کی لعنت برستی ر... ہتی ہے اور فرشتے اور تمام انسان بھی ان پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi