Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 170

سورة البقرة

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۷۰﴾

And when it is said to them, "Follow what Allah has revealed," they say, "Rather, we will follow that which we found our fathers doing." Even though their fathers understood nothing, nor were they guided?

اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کردہ راہ ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Polytheist imitates Other Polytheists Allah says; وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ابَاءنَا ... When it is said to them: "Follow what Allah has sent down." They say: "Nay! We shall follow what we found our fathers following." Allah states that if the disbelievers and polytheists are called to follow wh... at Allah has revealed to His Messenger and abandon the practices of misguidance and ignorance that they indulge in, they will say, "Rather. We shall follow what we found our fathers following," meaning, worshipping the idols and the false deities. Allah criticized their reasoning: ... أَوَلَوْ كَانَ ابَاوُهُمْ ... (Would they do that!) even though their fathers, meaning, those whom they follow and whose practices they imitate, and: ... لااَ يَعْقِلُونَ شَيْياً وَلااَ يَهْتَدُونَ ...did not understand anything nor were they guided. meaning, they had no sound understanding or guidance. Ibn Ishaq reported that Ibn Abbas said that this was revealed about a group of Jews whom Allah's Messenger called to Islam, but they refused, saying, "Rather, we shall follow what we found our forefathers following." So Allah revealed this Ayah (2:170) above." The Disbeliever is just like an Animal Allah says;   Show more

گمراہی اور جہالت کیا ہے؟ یعنی ان کافروں اور مشرکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کرو اور اپنی ضلالت وجہالت کو چھوڑ دو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بڑوں کی راہ لگے ہوئے ہیں جن چیزوں کی وہ پوجا پاٹ کرتے تھے ہم بھی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جس کے جواب میں قرآن کہتا ہے کہ ... وہ تو فہم و ہدایت سے غافل تھے ۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے ۔ پھر ان کی مثال دی کہ جس طرح چرنے چگنے والے جانور اپنے چرواہے کی کوئی بات صحیح طور سے سمجھ نہیں سکتے صرف آواز کانوں میں پڑتی ہے اور کلام کی بھلائی برائی سے بےخبر رہتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی ہیں ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جن جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اور ان سے پانی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں وہ نہ سنتے ہیں نہ جانتے ہیں نہ ان میں زندگی ہے نہ انہیں کچھ احساس ہے ۔ کافروں کی یہ جماعت حق کی باتوں کے سننے سے بہری ہے حق کہنے سے بےزبان ہے حق کے راہ چلنے سے اندھی ہے عقل وفہم سے دور ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِي الظُّلُمٰتِ ) 6 ۔ الانعام:39 ) یعنی ہماری باتوں کو جھٹلانے والے بہرے ، گونگے اور اندھیرے میں ہیں جسے اللہ چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے سیدھی راہ لگا دے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

170۔ 1 آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباؤ جداد بھی دینی بصیرت سے بےبہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباء پرستی کی پیروی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسل... مانوں کو اس دلدل سے نکالے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢١٢] تقلید آباء گمراہی کا بہت بڑا سبب ہے۔ انسان اپنے آباء اور بزرگوں سے عقیدت کی وجہ سے یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتا کہ ان سے بھی کوئی غلطی ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر تقلید آباء کی مذمت فرمائی ہے اور اسے شرک قرار دیا ہے۔ کیونکہ آباء کا عمل کوئی شرعی دل... یل نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر کام کے متعلق یہ تحقیق ضروری ہوتی ہے کہ آیا وہ شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ خواہ اس کی زد اپنے آپ پر یا اپنے آباء پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ اگر کسی کے باپ دادا سے کوئی غلط کام ہوگیا ہو تو وہ غلطی پشت در پشت اس کی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جائے۔ حتیٰ کہ اسے عین دین کا کام سمجھا جانے لگے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے پاس اپنے شرکیہ افعال کے لیے نہ کوئی عقلی دلیل تھی اور نہ ہی اللہ کی طرف سے آنے والی کوئی نقلی دلیل، چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة احقاف (٤) میں انھیں چیلنج فرمایا کہ اللہ کی کسی کتاب میں سے کوئی نقلی دلیل تمہارے پاس ہے تو پیش کرو۔ چناچہ جب انھیں کہا جاتا کہ اس کی پیروی کرو جو...  اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے تو جواب میں ان کے پاس ایک ہی دلیل تھی کہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے، وہ ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر کسی کے آباء و اجداد کو کسی بات کی عقل نہ ہو، مثلاً انھوں نے خسارے کی تجارت کی ہو، یا غلط راستے پر چلتے رہے ہوں تو کیا تم اندھے بن کر انھی کے پیچھے چلتے رہو گے ؟ نہیں ! بلکہ خود عقل سے کام لو اور سیدھے راستے پر چلو، جو صرف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ ان آیات میں روئے سخن اگرچہ مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی طرف ہے، لیکن اگر مسلمان بھی یہی روش اختیار کریں کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں رسم و رواج پر عمل کرنے میں اپنے آباء و اجداد کی پیروی کریں، یا اپنے امام، پیشوا یا عالم دین کے قول، رائے یا فتویٰ پر عمل پیرا ہوں جس کی دلیل قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو تو وہ بھی اس آیت میں بیان کردہ مذمت اور وعید کے زمرے میں آئیں گے اور اسی کا نام تقلید ہے، کیونکہ علماء کے نزدیک تقلید کی تعریف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بجائے کسی غیر (امام، پیشوا یا عالم دین) کا قول دلیل کے بغیر لے لینا تقلید ہے۔ ایسی باتوں پر عمل کرنا حرام ہے، خواہ ایسا عمل مشرکین اور یہود و نصاریٰ کریں یا مسلمان، لیکن اگر کسی امام، پیشوا یا عالم کی رائے قرآن و حدیث کی نصوص کے خلاف نہ ہو تو ایسی رائے یا فتویٰ پر عمل کرنا تقلید کے زمرے میں نہیں آتا اور نہ ہی اسے ناجائز کہا جائے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

When these mushrik people were asked to follow the injunctions revealed by Allah through His Messenger, they refused to do so and insisted that they would rather follow the customary practice they had inherited from their fathers because, as they assumed, their models were divinely appointed to follow the way they adopted. Allah Almighty refutes this position of theirs by asking how could they go ... on following the ways of their fathers, under all conditions, to the exclusion of all other ways, even if their fathers did not understand much about the true faith, nor were they blessed with guidance given by their Lord? In their lack of understanding, the verse says that the disbelievers resemble the scenario of a person shouting his call to an animal who hears nothing meaningful or significant except a bland cry. The disbelievers, in that state, do hear but not what is intended to correct them, so they are called &deaf; and they are tight-lipped when it comes to accepting the truth, therefore, they are &dumb&; and since they do not see their benefit or loss, they are &blind&. Consequently, with their vital senses so dulled, they seem to understand nothing. Comments on the nature of Taqlid: No doubt, this verse (170) does censure the blind following of forefathers, but at the same time, it provides a rule and its attending conditions proving that following has its permissible aspect which has been indicated in لَا يَعْقِلُونَ (even though their forefathers used to understand nothing) and لَا يَهْتَدُونَ (nor had they been on the right path). It is from here that we find out that following the forefathers mentioned in the text of the Qur&an was censured because they lacked reason and guidance. &Guidance& or the right path signifies injunctions revealed by Allah Almighty, openly and clearly, while ` aql عقل or reason stands for imperative guidance deduced by the great armed vision of Ijtihad اجتھاد from the recognized sources of Islamic Shari&ah. Now we can see that following the model of those identified in the text cannot be permitted because they do not have a revealed set of laws from Allah, nor do they have the ability to deduce injunctions from the Word of Allah. There is a subtle hint here which we would do well to note. In case, we are satisfied that a certain ` alim عالِم has the perfect knowledge of the Qur&an and Sunnah and in the absence of a clear and direct instruction of the two sacred sources, he has the great expertise of a mujtahid مجتھد so that he can, by analogical deduction, arrive at rulings from the texts of the Qur&an and Sunnah - then. it is permissible to follow such mujtahid مجتھد alim عالِم . It does not mean that one has to obey &his& injunctions and follow &his person.& Instead, it means that one has to obey the injunctions of Allah alone to the total exclusion of others. But, since a direct and trustworthy knowledge of the injunctions of Allah (in all their ramifications) is not readily available to us due to our ignorance, we have to follow a mujtahid مجتھد alim عالِم in order to act in accordance with the injunctions of Allah Almighty. From what has been said above, it becomes clear that those who hasten to quote verses of this nature against following the great mujtahid imams, are themselves unaware of the proven meaning of these verses. In his comments on this verse, the great commentator, al-Qurtubi has said that the prohibition of following forefathers mentioned in this verse refers to. following them in false beliefs and deeds. The aspect of following correct beliefs and good deeds is not included here as it has been very clearly projected in Surah Yusuf in the words of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) : إِنِّي تَرَ‌كْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ هُمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ I have disassociated myself from the community of people who do not believe in Allah and who deny the Hereafter and I have chosen to follow the community of my fathers, Ibrahim and Ishaq and Ya` qub. (12:37-38) This is good enough to prove that following forefathers in what is false is forbidden while it is permissible, rather desirable, in what is true. Al-Qurtubi has taken up the issue of following the mujtahid imams within his comments on this verse. He says: تعلق قوم بھذہ الآیہ فی ذمً التقلید (الی) وھذا فی الباطل صحیح اما التقلید فی الحق فاصل من اصول الدین وعصمۃ من عصم المسلمین یلجأ اِلیھا الجاھل المقصرعن درک النظر |"Some people have quoted this verse to support their criticism against Taqlid (following). As far as following the false is con¬cerned, this is correct. But, this has nothing to do with follow¬ing what is true which is, in fact, a basic religious principle, and a great means of protecting the religion of Muslims in as much as one who does not have the ability to do Ijtihad must rely on &following& in matters of religion.|" (volume 2, page 194)   Show more

خلاصہ تفسیر : اور جب کوئی ان (مشرک) لوگوں سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم (اپنے پیغمبر کے پاس) بھیجا ہے اس پر چلو تو (جواب میں) کہتے ہیں (کہ نہیں) بلکہ ہم تو اسی (طریقہ) پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے (کیونکہ وہ لوگ اس طریقہ کے اختیار کرنے میں مامور من اللہ تھے حق تعالیٰ ان پر...  رد فرماتے ہیں) کیا (ہر حالت میں یہ لوگ اپنے باپ دادا ہی کے طریقہ پر چلیں گے) اگرچہ ان کے باپ دادا (دین کی) نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ (کسی آسمانی کتاب کی) ہدایت رکھتے ہوں۔ وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ (الی قولہ) فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ اور ان کافروں کی کیفیت (نافہمی میں) اس (جانور) کی کیفیت کے مثل ہے (جس کا ذکر اس مثال میں کیا جاتا ہے) کہ ایک شخص ہے وہ ایسے (جانور) کے پیچھے چلا رہا ہے جو بجز بلانے اور پکارنے کے کوئی (پُرمضمون) بات نہیں سنتا (اسی طرح) یہ کفار (بھی ظاہری بات چیت تو سنتے ہیں لیکن کام کی بات سے بالکل) بہرے ہیں گویا (سنا ہی نہیں) گونگے ہیں (کہ کبھی ایسی بات زبان ہی پر نہیں آتی) اندھے ہیں (کیونکہ نفع نقصان نظر ہی نہیں آتا) سو (جب سارے ہی حواس مختل ہیں تو) سمجھتے (سمجھاتے) کچھ نہیں، معارف و مسائل : اس آیت سے جس طرح باپ دادوں کی اندھی تقلید و اتباع کی مذمت ثابت ہوئی اسی طرح جائز تقلید و اتباع کے شرائط اور ایک ضابطہ بھی معلوم ہوگیا جس کی طرف دو لفظوں میں اشارہ فرمایا ہے لَا يَعْقِلُوْنَ اور لَا يَهْتَدُوْنَ کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ ان آباء و اجداد کی تقلید و اتباع کو اس لئے منع کیا گیا ہے کہ انھیں نہ عقل تھی نہ ہدایت، ہدایت سے مراد وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صریح طور پر نازل کئے گئے اور عقل سے مراد وہ جو بذریعہ اجہتاد نصوص شرعیہ سے استنباط کئے گئے، تو وجہ ان کے اتباع و تقلید کے عدم جواز کی یہ ہے کہ نہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کئے ہوئے احکام ہیں اور نہ اس کی صلاحیت کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان سے احکام نکال سکیں اس میں اشارہ پایا گیا کہ جس عالم کے متعلق یہ اطمینان ہوجائے کہ ان کے پاس قرآن وسنت کا علم ہے اور اس کو درجہ اجتہاد بھی حاصل ہے کہ جو احکام صراحۃ قرآن وسنت میں نہ ہوں ان کو نصوص قرآن وسنت سے بذریعہ قیاس نکال سکتا ہے تو ایسے عالم مجتہد کی تقلید و اتباع جائز ہے نہ اس لئے کہ اس کا حکم ماننا اور اس کا اتباع کرنا ہے بلکہ اس لئے کہ حکم اللہ کا ماننا اور اسی کا اتباع کرنا ہے مگر چونکہ ہم براہ راست اللہ کے حکم سے واقف نہیں ہوسکتے اس لئے کسی عالم مجتہد کا اتباع کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل ہوسکے، جاہلانہ تقلید اور ائمہ مجتہدین کی تقلید میں فرق : اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ مطلق تقلید ائمہ مجہتدین کے خلاف اس طرح کی آیات پڑھ دیتے ہیں وہ خود ان آیات کے صحیح مدلول سے واقف نہیں۔ امام قرطبی نے اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس آیت میں تقلید آبائی کے ممنوع ہونے کا جو ذکر ہے اس سے مراد باطل عقائد و اعمال میں آباء و اجداد کی تقلید کرنا ہے عقائد صحیحہ و اعمال صالحہ میں تقلید اس میں داخل نہیں جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کلام میں ان دونوں چیزوں کی وضاحت سورة یوسف میں اس طرح آئی ہے، (آیت) اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤ ْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَهُمْ بالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ (٣٨: ٣٧: ١٢) میں نے ان لوگوں کی ملت و مذہب کو چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور میں نے اتباع کیا اپنے آباء ابراہیم اسحاق اور یعقوب کا، اس میں پوری وضاحت سے ثابت ہوگیا کہ آباء کی تقلید باطل میں حرام ہے حق میں جائز بلکہ مستحسن ہے، امام قرطبی نے اسی آیت کے ذیل میں ائمہ مجتہدین کی تقلید کے متعلق بھی مسائل و احکام بیان کئے ہیں اور فرمایا ہے ، تعلق قوم بھذہ الایۃ فی ذم التقلید (الیٰ ) وھذا فی الباطل صحیح اما التقلید فی الحق فاصل من اصول الدین وعصمۃ من عصم المسلمین یلجاء الیھا الجاہل المقصر عن درک النظر۔ (قرطبی ص ١٩٤: ج ٢) |" کچھ لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت میں پیش کیا ہے اور یہ باطل کے معاملہ میں تو صحیح ہے لیکن حق کے معاملہ میں تقلید سے اس کا کوئی تعلق نہیں حق میں تقلید کرنا تو دین کے اصول میں سے ایک مستقل بنیاد ہے اور مسلمانوں کے دین کی حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ ہے کہ جو شخص اجتہاد کی صلاحیت نہیں کرتا وہ دین کے معاملہ سے تقلید ہی پر اعتماد کرتا ہے،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝ ٠ ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝ ١٧٠ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ... » يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا لفی أَلْفَيْتُ : وجدت . قال اللہ : قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا [ البقرة/ 170] ، وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل ف ی) الفیت کے معنی وجدت یعنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما أَلْفَيْنا عَلَيْهِ آباءَنا[ البقرة/ 170] بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں نے دروازے کے پاس اس کے شوہر کو پایا ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٠) اور جس وقت مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کھیتی اور جن جانوروں کا حلال ہونا بیان کردیا ہے ان چیزوں میں اس کے حکم کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو جن چیزوں کی حرمت پر دیکھا ہے ہم اسی پر قائم رہیں گے اور کیا ان کے باپ دادا ایسے نہیں تھے، اور یقیناً ان کے باپ دادا ایسے ہی ... تھے کہ ان کو دین اور کسی بھی نبی کی سنت کا کچھ بھی علم نہ تھا، پھر تم کیسے ان آباء کی اتباع کرتے ہو، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ ان کے آبا کو نہ امور دنیا کی عقل بھی اور نہ وہ کسی نبی کی سنت پر عمل کرنے والے تھے تو پھر یہ لوگ اپنے آباء کی کس بنیاد پر اتباع کرتے ہیں اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ ان کے آباء نہ دین سے واقف ہیں اور نہ کسی نبی کی سنت پر عمل پیرا ہیں، پھر یہ لوگ کس بنیاد پر ان کی بات مانتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” واذا قیل لہم اتبعوا “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے سعید (رح) یا عکرمہ (رح) کے حوالہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو اسلام کی طرف دعوت اور اس کی ترغیب دلائی، اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا، تو رافع بن حرملہ اور مالک بن عوف بولے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے (یعنی آپ کی بات نہیں مانیں گے) کیوں کہ وہ ہم سے زیادہ عالم اور اچھے تھے اس پر یہ آیت اتری کہ جب ان سے کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی باتوں پر ایمان لاؤ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٠ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ) (قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط) (اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ شَیْءًا وَّلاَ یَہْتَدُوْنَ ) سورۃ البقرۃ کے تیسرے رکوع کی پہلی آیت (جہاں نوع انسانی کو خطاب کر کے عبادتِ رب کی دعوت دی گئ... ی) کے ضمن میں وضاحت کی گئی تھی کہ جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی تو مخلوق تھے جیسے تم مخلوق ہو ‘ جیسے تم سے خطا ہوسکتی ہے ان سے بھی ہوئی ‘ جیسے تم غلطی کرسکتے ہو انہوں نے بھی کی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

168. The only possible argument and justification for these taboos was that they had been sanctified by the practice of their forefathers from whom they had allegedly come down generation after generation. Fickle-minded as they were, they deemed this argument to be sufficiently persuasive.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :168 یعنی ان پابندیوں کے لیے ان کے پاس کوئی سَنَد اور کوئی حجّت اس کے سوا نہیں ہے کہ باپ دادا سے یُوں ہی ہوتا چلا آیا ہے ۔ نادان سمجھتے ہیں کہ کسی طریقے کی پیروی کے لیے یہ حجّت بالکل کافی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(170 ۔ 171) ۔ یہود اور مشرکین سے جب اسلام لانے اور قرآن شریف کے موافق چلنے کو کہا جاتا تھا تو وہ یہ جواب دیتے تھے کہ ہم تو اپنے بڑوں کے قدم بقدم چلیں گے ان کی تنبیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ ان لوگوں کی مثال جانوروں کی سی ہے جس طرح ان کا چرواہا ان کو آواز دیتا ہے تو وہ اس آ... واز کے مطلب کو تو کچھ سمجھتے نہیں صرف آواز ہی آواز سن لیتے ہیں اسی طرح ان لوگوں کے کانوں میں یہ آواز ہی بسی ہوئی ہے کہ جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ ان کے باپ داداکا طریقہ ہے نیک و بد اور حق ناحق کے امتیاز سے انہوں نے جانوروں کی طرح اپنی زبان آنکھ کان کو بیکار کر رکھا ہے یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ دین کی کوئی حق بات معلوم ہوجانے کے بعد کوئی شخص تو رسم و رواج پر اڑا رہے گا تو وہ شیوہ انسانیت سے باہر ہے انسان کا کام ہمیشہ حق بات کا دریافت کرنا اور اس دریافت میں اپنے حواس صرف کرنا ہے نہ کہ حیوانوں کی طرح ناحق بات پر بلا دریافت اڑے رہنا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:170) قیل لہم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع الناس ہے جو یایھا الناس کلوا ۔۔ میں اوپر آیا ہے۔ مالا تعلمون تک الناس سے خطاب بصیغہ حاضر تھا۔ اب ان کی طرف ناگواری کے اظہار کے لئے حاضر سے بصیغہ غائب ان کا ذکر ہورہا ہے۔ اور عقلاء سے مخاطب ہوکر کہا جا رہا ہے۔ ان احمقوں کی طرف دیکھو ہماری پندونصائح کی... ا جواب دے رہے ہیں۔ اتبعوا۔ اتباع (افتعال) سے فعل امر کا صیغہ جمع مزکر حاضر ہے۔ تم پیروی کرو۔ ما انزل اللہ۔ ای القران۔ بل حرف اضراب ہے۔ یہاں ما قبل کا ابطال اور مابعد کا اثبات مقصود ہے۔ یعنی ہم ما انزل اللہ کی پیروی نہیں کریں گے بلکہ ما الفینا علیہ اباء نا کی پیروی کریں گے۔ ما الفینا۔ ما موصولہ ہے۔ الفینا۔ ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے۔ الفاء (افعال) مصدر۔ الفینا بمعنی وجدنا ہم نے پایا۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے والفیا سیدھا لدی الباب (12:25) اور دونوں نے دروازے کے پاس اس کے شوہر کو پایا۔ لفی مادہ۔ اولو کان اباء ھم لا یعقلون شیئا۔ الف استفہامیہ ہے واؤ عاطفہ ہے لو حرف شرط ہے جس کا جواب محذوف ہے۔ تقدیر یوں ہے ۔ ایتبعونھم ولو کان اباء ھم لا یعقلون شیئا۔ کیا وہ (پھر بھی) اپنے آباء و اجداد کا اتباع کریں گے۔ اگرچہ ان کے آباء و اجداد کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں (یعنی دین کے متعلق) لا یھتدون ۔ واؤ عاطفہ ہے لا یھتدون مضارعمنفی جمع مذکر غائب ۔ اور نہ ہی وہ ہدایت پاتے ہیں ۔ یعنی نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 آج کل اہل بدعت کا بھی یہی حال ہے کہ کتاب وسنت کی بجائے آباؤ اجداد کے رسوم کو سند سمجھتے ہیں۔ بقول ابن عباس (رض) یہ آیت گو یہود کے حق میں نازل ہوئی مگر اس میں ان تمام لوگوں کی سخت مذت کی گئی ہے جو اپنے مذہبی پیشواؤں کے اقوال پر کسی نظرو استدلال ک کے بغیر چلے جارہے ہیں چونکہ تقلید کی تعریف بھی یہی...  ہے کہ کسی دوسرے کی بات کو اس کی دلیل معلوم کئے بغیر قبول کرلیا جائے۔ اس لیے جو لوگ ائمہ کے مسائل قیاسہ کو ان کی دلیل معلوم کیے بغیر واجب العمل سمجھتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ آیا وہ بھی اس مذمت کے تحت نہیں آجاتے۔ ( سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت اعراف آیت 28)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تقلید آباء بھی شیطان کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ جس طرح شیطان بےحیائی اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں لایعنی گفتگو کا حکم دیتا ہے اسی طرح وہ یہ بات بھی دلیل کے طور پر آدمی کو سمجھاتا ہے کہ آخر پہلے لوگ اور بزرگ کوئی غلط اور گمراہ تھے ؟ حالانکہ یہ سوچ عقل کے خلاف اور جانوروں کا ... طریقہ ہے۔ جب انہیں حرام و حلال اور دیگر مسائل کے حوالے سے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا جائے تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو انہی روایات پر چلیں گے جن پر ہمارے آباء و اجداد چلا کرتے تھے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے بزرگ دین کی سمجھ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ہدایت یافتہ تھے۔ اس ارشاد سے یہ بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ بزرگوں کی روایات کو اس وقت اپنایا جائے گا جب وہ کتاب الٰہی کے مطابق ہوں گی۔ بصورت دیگر ہر فرد پر انہیں مسترد کرنا فرض ٹھہرے گا۔ اگر رسومات اور بزرگوں کی روایات کو من و عن قبول کرلیا جائے تو پھر شریعت کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ درحقیقت یہ وہ اندھی تقلید ہے جسے بہانہ بنا کر لوگ گمراہی کے راستہ پر چلنا اپنے لیے فخرسمجھتے ہیں۔ دین کے راستے میں یہی وہ رکاوٹ ہے جو انبیاء کرام کے سامنے سب سے پہلے پیش کی جاتی تھی۔ تقلید خاندانی روایات کی صورت میں ہو یا ائمہ کرام کے حوالے سے، مقلدین ہمیشہ سے جذباتی فضاپیدا کرتے ہوئے دو ہی جواز پیش کرتے ہیں۔ ایک جواز جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطاب کے جواب میں فرعون نے پیش کیا تھا کہ اے موسیٰ ! جو ہمارے بزرگ پہلے فوت ہوچکے ہیں کیا وہ سب کے سب گمراہ اور جہنمی تھے ؟ جس کا جواب پیغمبرانہ شان کے مطابق دیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ پہلوں کے بارے میں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ نا بھٹکا ہے اور نا بھولتا ہے۔ [ طٰہٰ : ٥١، ٥٢] دوسرا جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کیا ائمہ کرام اور بڑے بڑے علماء کو اس مسئلہ کا علم نہیں تھا ؟ اگر تقلید جامد کے مؤ یّدین کے نزدیک قرآن وسنت ہی معیار ہو تو انہیں یہ انداز گفتگو کس طرح زیب دیتا ہے ؟ بسا اوقات اس کا جواب اس قدرحساس صورت حال پیدا کردیتا ہے کہ اعتراض کرنے والا اپنے گریبان میں جھانکے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اگر یہ بزرگ واقعتًا اس اختلافی مسئلہ میں کتاب و سنت کا علم رکھتے تھے تو وہ قرآن وسنت کے واضح دلائل کے خلاف کس طرح عمل کرسکتے تھے ؟ اگر اس مسئلہ کے بارے میں قرآن وسنت کے دلائل سامنے ہونے کے باوجود انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا تو ان کی عظیم شخصیات کو کس نظر سے دیکھنا چاہیے ؟ اس نازک صورت حال میں سلامتی کا یہی راستہ ہے کہ ہم قرآن وسنت کو معیار ٹھہراتے ہوئے ان کے بارے میں یہ نقطۂ نگاہ قائم کریں کہ علم کی اشاعت کم ہونے کی وجہ سے مطلوبہ دلائل ان کی نگاہ سے اوجھل رہے۔ جس کی وجہ سے ان کی طرف منسوب موقف نظر ثانی کے لائق ہے۔ لیکن مقلدانہ ذہن رکھنے والے حضرات اہمیتِ مسئلہ اور ان کی شخصیات کا لحاظ رکھے بغیر تقلید پر اصرار کرنا دین کا حصّہ تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید اس طرز فکر کو عقل و ہدایت کا راستہ تصور نہیں کرتا۔ اس لیے اندھے مقلدین کے بارے میں یہ تبصرہ فرمایا کہ ان کی مثال تو جانوروں کی طرح ہے جو عقل وفکر اور کسی اصول کی پیروی کیے بغیر محض اپنے سے پہلے جانور کی اتباع میں چلے جا رہے ہیں اور مقلد بھی جانوروں کی طرح بات کا مفہوم سمجھے بغیر محض ایک پکار ‘ دعو ٰی اور ایک عادت کے طور چلتے ہیں۔ اب یہ سننے، بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے عقل وفہم کے دروازے ان پر بند ہیں اور یہ حقیقی عقل سے عاری ہوچکے ہیں۔ جب عقل ہی اپنے ٹھکانے نہ رہی تو ہدایت کس طرح پاسکتے ہیں ؟۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں آباء و اجداد کی اتّباع نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ کافر لوگ جانوروں کی طرح بلانے والے کی صرف آواز سنتے ہیں غور و فکر نہیں کرتے۔ ٣۔ کافر جانوروں سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اندھی تقلید کا انجام : ١۔ مشرک اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ١٧٠) ٢۔ المائدۃ : ١٠٤ ٣۔ الاعراف : ٢٨ ٤۔ یونس : ٧٨ ٥۔ الانبیاء : ٥٣ ٦۔ الشعراء : ٧٤ ٧۔ لقمان : ٢١ ٨۔ الصافات : ٦٩، ٧٠ ٩۔ الزخرف : ٢٢ تا ٢٥  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ کون لوگ تھے ، مشرکین بھی ہوسکتے ہیں جو باربار یہ ورد کرتے تھے کہ جب بھی انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جاتی اور کہا جاتا کہ وہ اپنی اقدار اور اپنے قانون کا ماخذ اسلام کو تسلیم کرلیں اور جاہلیت کی ان تمام باتوں کو ترک کردیں جنہیں اسلام نے بحال نہیں رکھا ، تو وہ یہی دلیل دیتے ۔ یہودی بھی مراد ہوسکتے ہی... ں جنہوں نے اپنی روایات کو سختی سے پکڑا ہوا تھا ، اور وہ دین اسلام کی کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے ۔ بہرحال مراد مشرکین ہوں یا یہود ، اسلام اپنے پیروکاروں کو بڑی شدت سے منع کرتا ہے کہ وہ نظریہ وعمل میں کوئی چیز ان لوگوں سے اخذ کریں ۔ مسلمان ان لوگوں کی تقلید کریں ۔ اور نہ ہی ان سے کوئی چیز سوچے سمجھے بغیر درآمد کریں۔ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلا يَهْتَدُونَ ” اگر ان کے آباء اجداد نے کسی چیز کو سمجھانہ ہو کوئی راہ نہ پائی ہو تو پھر بھی “ اگر ان کے آباء اجداد کی فہم و فراست یہ ہو تو کیا پھر بھی یہ لوگ ان کے اتباع پر اصرار کریں گے ؟ تقلید وجمود کی یہ کیا گھناؤنی مثال ہے ۔ اس تقلید وجمود کی وجہ سے ہی قرآن مجید ان کے لئے نفرت آمیز خاکہ تجویز کرتا ہے ۔ انہیں ایک ایسے حیوان سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا ۔ اگر چرواہا ہے تو وہ صرف آواز سنتا ہے ۔ کچھ نہیں سمجھتا کہ اس نے کہا کیا۔ بلکہ ان کی حالت اس حیوان سے بھی بدتر ہے ۔ حیوان بہرحال دیکھتا ہے سنتا ہے ، آواز نکالتا ہے اور یہ لوگ نپٹ اندھے ، گونگے اور بہرے ہیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

باپ داداے ہدایت پر نہ ہوں تو ان کا اتباع اوراقتداء باعث ہلاکت ہے مشرکین کا یہ طریقہ تھا اور اب بھی ہے کہ وہ اپنے باپ دادوں کو مقتدیٰ سمجھتے رہے ہیں۔ ان کو ہزار سمجھایا جائے، حق کی دعوت دی جائے، توحید کی طرف بلایا جائے، اللہ کے دین اور اس کی شریعت قبول کرنے کے لیے کہا جائے اور توحید کی دلیلیں خوب کھ... ول کر بیان کردی جائیں اور شرک و کفر کی مذمت خوب واضح کر کے بتادی جائے تو وہ کسی بھی قیمت پر اپنے باپ دادوں کا دین کفر و شرک چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے ان کا یہی ایک جواب ہوتا ہے کہ ہم اس دین اور طور طریق اور رسم و رواج کے پابند ہیں جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔ اس آیت شریفہ میں مشرکین کی یہی بات نقل فرمائی ہے اور پھر اس کی تردید کی ہے۔ تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْءًا وَّ لاَ یَھْتَدُوْنَ ) ” کیا وہ اپنے باپ دادوں کا اتباع کریں گے اگرچہ وہ کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور ہدایت پر نہ ہوں۔ “ باپ دادوں نے اپنی ناسمجھی سے شرک اختیار کیا غیر اللہ کی پرستش کی۔ برے رسم و رواج نکالے وہ لوگ کیسے لائق اتباع ہوسکتے ہیں ؟ پھر یہ معلوم ہے کہ باپ دادوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت نہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ان کے پاس تھی نہ کسی نبی سے انہوں نے ہدایت حاصل کی تھی، سراپا گمراہی میں تھے گمراہوں کا اتباع کرنا کہاں کی سمجھ داری ہے ہاں اگر باپ دادے ہدایت پر ہوں اور انہوں نے حق کی راہ بتائی ہو تو ان کا اتباع کیا جائے جیسا کہ سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قول نقل فرمایا کہ انہوں نے اپنے جیل کے ساتھیوں فرمایا (وَ اتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِ یْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ ) ” کہ میں نے اتباع کیا اپنے باپ دادوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کا۔ “ باطل میں کسی کی بھی تقلید کرنا حلال نہیں ہے۔ البتہ جو اہل حق ہو، اللہ کے دین پر چلتا ہو اور اسی کی دعوت دیتا ہو اس کا اتباع کرنا لازم ہے جیسا کہ سورة لقمان میں فرمایا (وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ) ” کہ جو شخص میری طرف رجوع ہو اس کا اتباع کرو۔ “  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

311 مشرکین اپنی طرف سے اشیاء کی تحریم کرتے تھے۔ جب انہیں کہا جاتا کہ ان آبائی رسموں کو چھوڑ کر خدا کی کتاب کی پیروی کرو تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ ہم تو اپنے باپ دادا کے دین ہی کی پیروی کرینگے اور اس کے مقابلہ میں کسی اور دین کو نہیں مانیں گے۔ یہ ان کی جہالت اور ضدوجمود کی حد تھی تو اللہ تعالیٰ نے آگے...  اس کا جواب دیا اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـاوَّلَا يَهْتَدُوْنَ ۔ یعنی اگر ان کے آباء و اجداد صاحب علم ہوتے توحید کو جانتے ہوتے اور راہ ہدایت پر ہوتے اور پھر یہ لوگ ان کا اتباع کرتے تو کوئی بات بھی تھی۔ تو کیا اگرچہ وہ دین سے ناواقف اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں پھر بھی یہ ان کا اتباع کریں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جب ان منکرین حق سے کہاجاتا ہے کہ جو احکام اور جو کتاب اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے تم اس پر چلو اور اسکی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں نہیں اسکی پیروی نہیں کرینگے بلکہ ہم تو اس طریقہ کی پیروی کرینگے جس طریقہ پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ہے اور اپنے آبائو اجداد کو جو کرتے دیکھا ہے وہ کرینگے کیا ی... ہ لوگ ان ہی کی پیروی کرینگے خواہ ان کے آبائو اجداد کی یہ حالت ہوک ہ نہ وہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ان کو صحیح راہ میسر ہوئی ہو۔ (تیسیر) یہ لوگ یا تو مشرکین ہیں یا یہود ہیں اور ہوسکتا ہے کہ دونوں ہوں کیونکہ اس مرض میں تقریباً سب ہی اہل باطل مبتلا ہیں۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں یہودیوں سے گفتگو ہورہی تھی جب یہودی جواب دینے سے عاجز ہوگئے تو انہوں نے کہا تمہاری یہ باتیں ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم اپنے آبائو اجداد کے طریقوں کو نہیں چھوڑ سکتے وہ لوگ ہم سے بہتر تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بہر حال مطلب یہ ہے کہ جب ان لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنے سے باز آئو اور اپنی طرف سے ھذا حلال و ھذا حرام نہ کہو یہ تمام مشرکانہ رسومات کو ترک کردو اور ما انزل اللہ کی اتباع اور پیروی کرو۔ ماانزل اللہ سے مراد خواہ قرآن ہو یا وہ احکام ہوں جن پر قرآن مشتمل ہے تو اس مطالبہ پر وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ما انز ل اللہ کی بجائے اپنے بڑوں کی اتباع کریں گے گویا مطلقاً اتباع کا انکار نہیں کرتے بلکہ قرآن کے مقابلے میں اپنے آبائو اجداد کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں آخر میں اس دعویٰ کا رد ہے کہ اگرچہ تمہارے بڑوں کو نہ اتنی سمجھ ہو کہ کتاب سے مسائل کا استنباط کرسکیں اور نہ کتاب میں کوئی ایسی نص ہو جو ان کے افعال کی تاکید اور رہنمائی کرتی ہو۔ یہ جواب اس تقریر پر ہے جب کہ یہود مراد مراد ہوں اور اگر مشرک ہوں تب مطلب یہ ہوگا کہ خواہ تمہارے بڑوں کو نہ دین کی سمجھ ہو اور نہ کسی آسمانی کتاب یا پیغمبر کی ان کو رہنمائی حاصل ہو تب بھی ان کی اتباع کو احکام قرآنی پر ترجیح دو گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جب معلوم ہو کہ باپ دادوں کی رسم خلاف حکم خدا کے ہے پھر اس پر نہ چلے۔ (موضح القرآن) اب آگے ان مشرکین کی بےعقلی اور ناسمجھی کی ایک مثال بیان فرماتے ہیں۔ (تسہیل)  Show more