Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 181

سورة البقرة

فَمَنۡۢ بَدَّلَہٗ بَعۡدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَاۤ اِثۡمُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یُبَدِّلُوۡنَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۸۱﴾ؕ

Then whoever alters the bequest after he has heard it - the sin is only upon those who have altered it. Indeed, Allah is Hearing and Knowing.

اب جو شخص اسے سننے کے بعد بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگاواقعی اللہ تعالٰی سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ... Then whoever changes it after hearing it, the sin shall be on those who make the change. means, whoever changed the will and testament or altered it by addition or deletion, including hiding the will as is obvious, then فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ (the sin shall be on those who make the change). Ibn Abbas and others said, "The dead person's reward will be preserved for him by Allah, while the sin is acquired by those who change the will." ... إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ Truly, Allah is All-Hearer, All-Knower. means, Allah knows what the dead person has bequeathed and what the beneficiaries (or others) have changed in the will. Allah's statement: فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَ إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢٧] یعنی مرنے والے نے تو وصیت انصاف کے ساتھ کی ہو۔ مگر کوئی بااختیار وارث اس میں ترمیم و تنسیخ کر دے یا چند وارث ملکر تبدیلی کردیں تو وہ سب گنہگار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے خودغرض لوگوں کی باتوں کو سننے والا اور ان کے ارادوں تک کو جاننے والا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وصیت کا بدلنا بڑا گناہ ہے، اس میں وصیت کا چھپانا بھی داخل ہے۔ ” جَنَفًا “ ” مائل ہونا “ یعنی اگر کسی کی طرف دلی میلان کی وجہ سے وصیت میں اس کی نامناسب طرف داری ہو۔ ” اَوْ اِثْمًـا “ یا ناجائز کام کی وصیت ہو، مثلاً شراب پلانے کی، ناچ کرانے کی، کسی قبر پر چراغاں کرنے یا میلہ اور عرس کرانے کی تو ایسی وصیت کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ ” جَنَفًا “ سے مراد دلی میلان کی بنا پر غلطی یا بھول چوک سے طرف داری ہوجائے اور ” اِثْمًـا “ سے مراد جان بوجھ کر کسی کی حق تلفی ہو۔ ” فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ “ یعنی وارثوں کو سمجھا بجھا کر ان میں صلح کرا دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَنْۢ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَي الَّذِيْنَ يُبَدِّلُوْنَہٗ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ١٨١ ۭ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

وصیت تبدیل کرنے کا بیان ارشاد باری ہے : فمن بدلہ بعد ما سمعہ فانما اتمہ علی الذین یبدلونہ پھر جنہوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہوگا) نیز قول باری : فمن بدلہ میں ہائے ضمیر وصیت کی طرف راجع ہے، اس کے لیے مذکر ضمیر جائز ہے۔ کیونکہ وصیت اور ایصاء دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ قول باری : اثمُہ میں ہائے ضمیر تبدیل کی طرف راجع ہے جس پر قول باری : فمن بدلہ سے دلالت ہو رہی ہے۔ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سمعہ میں احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وصیت پر گواہ ہو۔ اس صورت میں آیت میں اسے وصیت تبدیل کرنے سے روکا گیا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ذلک ادنی ان یا تو باشھادہ علی وجھھا ( اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے) زیر بحث آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وصی مراد ہو کیونکہ وہی اس وصیت کو جاری کرنے کا نگران اور اس کی تنقید کا مال ہوتا ہے اور اسی بنا پر وصیت تبدیل کرنے کا موقعہ اسے میسر ہوتا ہے۔ یہ بات بعید ہے کہ آیت میں تمام لوگ مراد ہوں کیونکہ اس معاملے میں انہیں کوئی دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سلسلے میں انہیں کسی تصرف کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک آیت مذکورہ بالا پہلے دو معنوں، یعنی گواہ اور وصی پر محمول ہے، کیونکہ آیت میں ان دونوں کا احتمال ہے۔ گواہ کی گواہی کی جب ضرورت پڑے تو وہ ٹھیک اسی طرح گواہی دینے کا پابند ہے جس طرح ان سے سنا تھا۔ وہ اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کرسکتا۔ وصی وصیت کی اسی طرح تنفیذ کا پابند ہے جس طرح اس نے سنا تھا ، بشرطیکہ وصیت کا تعلق ایسی چیز سے ہو جس ک بارے میں وصیت جائز ہے، عطاء اور مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں ن کہا : یہی وہ وصیت ہے جو شاہد ولی کو پہنچتی ہو۔ حسن بصری نے کہا ہے : یہی وصیت ہے ، جو شخص وصیت سنے اور سننے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اس کا گناہ بدل ڈالنے والے پر ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں حاکم مراد لینا بھی جائز ہے۔ کیونکہ جب وصیت کا معاملہ اس کے سامنے پیش ہو تو اسے اس پر ولایت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ تصرف بھی کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ اس وصیت کے نفاذ کا پابند ہوگا اگر یہ جائز ہو اور اسے تبدیل کرنے کی اس کو اجازت نہیں ہوگی۔ آیت میں وصیت کو حق و صداقت کی بنیاد پر جاری اور نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سمعہ وصی کی طرف سے وصیت کو اسی طرح جاری کرنے کے جواز کا مقتضی ہے جس طرح اس نے وصی سے یہ وصیت سنی ہو۔ خواہ اس پر گواہ قائم کیے گئے ہوں یا نہ کیے گئے ہوں۔ یہ بات اس امر کی بنیاد اور اصل ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بات سنے تو حاکم کے حکم اور گواہوں کی گواہی کے بغیر اس کے لیے عندالامکان اسے اس کے مقتضا اور موجَب کے مطابق جاری کردینا جائز ہے۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اگر مرنے والے نے وصی کے سامنے کسی شخص کے حق دین کا اقرار کیا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وارث یا حاکم یا کسی اور کے علم میں لائے بغیر وہ یہ دین ادا کر دے کیونکہ اگر وہ دین کی بات سننے کے بعد اس کی ادائیگی نہیں کرے گا تو اس کی یہ کوتاہی موصی کی وصیت میں تبدیلی کی مترادف ہوگی۔ قول باری : فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ کئی معانی کو متضمن ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ یہ فقرہ اس فرض شدہ وصیت پر عطف ہے جو والدین اور رشتہ داروں کے لیے تھی اور وہ لا محلہ اس فقرے میں پوشیدہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کلام درست نہیں ہوگا کیونکہ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سبعہ فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ ایجاب فائدہ کے اعتبار سے مستقل بنفسہ کلام نہیں ہے کیونکہ یہ کنایہ اور ضمیر پر مشتمل ہے جن کے لیے ایک مذکور اور مظہر کا ہونا ضروری ہے ۔ جبکہ آیت میں کوئی مظہر لفظ نہیں ہے سوائے اس کے جس کا ذکر آیت کی ابتدا میں ہے۔ اس وضاحت کے تحت آیت اس امر کا افادہ کرے گی کہ نفس وصیت کے ساتھ موصی کا فرض پورا ہوجاتا ہے اور اگر اس کی موت کے بعد اس وصیت میں کوئی تغیر و تبدل کیا جائے تو اس کا گناہ اسے لاحق نہیں ہوگا۔ آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت موجود ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ آیا کے گناہوں کی سزا ان کے بچوں کو دی جاسکتی ہے۔ یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے : ولا تکسب کل نفس الا علیھا ولا تزروازرۃ وزرا اخری ( ہر شخص جو بھی کمائے گا اس کی ذمہ داری اس پر ڈالی جائے گی اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ اگر کسی پر قرض کا بوجھ ہو اور وہ اس کی ادائیگی کی وصییت کر جائے تو وہ آخرت کی پکڑ سے بری الذمہ ہوجائے گا۔ اگر اس کے ورثا اس کی موت کے بعد اس کے مذکورہ دین کی ادائیگی نہ کریں تو اسے کوئی گناہ لاحق نہیں ہوگا۔ یہ گناہ اس پر ہوگا جس نے اس وصیت کو بدل ڈالا ہو۔ آیت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ جس شخص پر اپنے مال میں زکوٰۃ فرض ہو اور پھر اس کی ادائیگی کی وصیت کیے بغیر مرجائے، تو وہ کوتاہی کرنے والا نیز زکوٰۃ نادہندہ شمار ہوگا اور مانعین زکوٰۃ کے حکم کا سزا وار قرار پائے گا۔ اس لیے کہ اگر زکوٰۃ کی ادائیگی اس کے مال میں حلول کر جاتی جس طرح اس کے دیوان ان کے مال میں حلول کر جاتے ہیں تو اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجاتی جس نے موت کے وقت زکوٰۃ کی ادائیگی کی وصیت کی ہو۔ پھر وہ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کے گناہ سے بچ جاتا اور وصیت تبدیل کرنے والا اس گناہ کا مستحق قرار پاتا۔ لیکن چونکہ زکوٰۃ کا تحول اس کے مال میں نہیں ہوا اس لیے وہ عدم ادائیگی کے گناہ سے نہیں بچ سکے گا۔ اللہ سبحانہ نے مانع زکوٰۃ کے اس سوال اور التجا کو نقل فرمایا ہے جو وہ موت کے وقت واپسی کے سلسلے میں کرے گا۔ چناچہ ارشاد ہے : وانفقوا مما رزقناکم من قبل ان یاتی احدکم الموت فیقول رب لولا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق واکن من الصالحین ( اور ہم نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے چرچ کرلو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہو، پھر وہ کہنے لگے۔ اے میرے پروردگار مجھے اور کچھ مہلت کیوں نہ دی کہ میں خیر خیرات دے لیتا اور نیک کاروں میں شامل ہوجاتا) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے بتادیا کہ اس شخص سے کوتاہی ہوئی ہے اور ادائیگی کا موقعہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ کیونکہ اگر میت کی میراث سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری وارث یا وصی پر باقی ہوتی تو ادائیگی نہ کرنے پر وہ اس ملامت اور ڈانٹ کے مستحق قرار پاتے اور مرنے والا اس کی کوتاہی کے حکم سے خارج ہوتا۔ یہ بات ہمارے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ مرنے والے کی وصیت کے بغیر اس کے مال اور ترکہ سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا وجوب ممتنع ہے۔ اگر پوچھا جائے کو موصی کیی وصیت کی تنفیذ یا تبدیلی کی صورت میں اللہ کے نزدیک موصی کے حکم میں کوئی فرق پڑے گا یا دونوں حالتوں کے اندر وہ یکساں طور پر ثواب کا مستحق ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ موصی کی وصیت دو باتوں کو متضمن ہوتی ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اپنی وصیت کی وجہ سے اسے اللہ سبحانہ سے ثواب حاصل کرنے کا استحقاق ہوجائے گا اور دوسری بات یہ کو موصیٰ لہ، تک وصیت پہنچ جانے کی صورت میں وہ اللہ کا شکر کرے گا نیز موصی کے حق میں دعائے خیر کرے گا۔ یہ بات اگرچہ موصی کے لیے ثواب کا باعث نہیں ہوگی، لیکن موصیٰ لہ کی طرف سے اس کے حق میں دعائے خیر اور اللہ کے لیے شکر کی بنا پر وہ ثواب تک رسائی حاصل کرلے گا۔ اس طرح موصی کو دو وجوہ سے فائدہ ہوگا بشرطیکہ اس کی وصیت نافذ کردی گئی ہو۔ لیکن اگر وصیت نافذ نہ کی جائے تو موصی کا فائدہ صرف اس ثواب تک محدود رہے گا جس کا وہ اپنی وصیت کی بنا پر مستحق قرار پائے گا۔ اگر پوچھا جائے کہ جب ایک شخص پر دین ہو، لیکن وہ اس کی ادائیگی کی وصیت نہ کرے اور پھر اس کے ورثا دین کی ادائگی کردیں تو اس صورت میں کیا مرنے والا گناہ سے بری الذمہ ہوجائے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کی ادائیگی سے اس کا باز رہنا دو باتوں کی متضمن تھا۔ ایک تو اللہ کا حق اور دسورا آدمی کا حق ۔ جب آدمی اپنا حق وصول کرلے گا تو مرنے والا سزا سے بری ہوجائے گا، تا ہم اس پر آدمی کا وہ حق باقی رہے گا جو دین کی ادائیگی میں تاخیر نیز ظالمانہ رویہ کی بنا پر اس پر لازم ہوگا۔ اگر اس نے اس ظلم اور زیادتی سے توبہ نہ کی ہوگی تو آخرت میں اس سے مواخذہ ہوگا۔ وہ گیا اللہ کا حق یعنی زندگی کے دوران میں اس ظالمانہ رویہ جس کا اظہار اس نے دین کی ادائیگی میں تاخیر کے ذریعے کیا تھا اور جس سے اس نے توبہ نہیں کی تھی، وہ اس پر مواخذہ کا معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص کسی کا مال غصب کرلے اور اسے واپس نہ کرنے پر اڑا رہے تو اپنے اس رویے سے وہ دو وجوہ سے گناہگار ہوگا۔ ایک تو اللہ کے حخق کا گناہ جس کا وہ مرکتب ہوا اور دوسرا آدمی ک حق کا گناہ جس پر اس نے ظلم کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اگر مغصوب منہ غاصب سے اپنی چیز واپس لے لے جبکہ غاصب کو اس کی واپس یکا ارادہ نہ ہو، تو وہ اس کے حق سے بری الذمہ ہوجائے گا لیکن اللہ کا حق باقی رہے گا جس کے لیے اسے اللہ سے توبہ کی ضرورت ہوگی۔ اگر وہ توبہ کیے بغیر مرجائے گا، تو اس گناہ کا بوجھ اس کے ذمے باقی رہے گا اور یہ گناہ اس کے ساتھ چپکا رہے گا۔ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سمعہ فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ کا اطلاق اس شخص پر ہے جو ایس وصیت میں تبدیلی کرے جو جائز اور بمنی بر انصاف ہو، لیکن اگر وصیت ظلم اور جور پر مبنی ہو، تو اسے تبدیل کر کے مبنی بر انصاف کرنا واجب ہوگا۔ ارشاد باری ہے : غیر مضار وصیۃ من اللہ ( بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو، یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے) وصیت کا نفاذ اسی صورت میں واجب ہے جب وہ جائز اور مبنی بر انصاف ہو۔ اللہ سبحانہ نے یہ بات اگلی آیت میں بیان فرما دی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨١ (فَمَنْم بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ ) (فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ ط) وصیت کرنے والا ان کے اس گناہ سے َ بری ہے ‘ اس نے تو صحیح وصیت کی تھی۔ اگر گواہوں نے بعد میں وصیت میں تحریف اور تبدیلی کی تو اس کا وبال اور اس کا بوجھ ان ہی پر آئے گا۔ (اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

113: یعنی جن لوگوں نے مرنے والے کی زبان سے کوئی وصیت سنی ہو ان کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ اس میں کوئی کمی بیشی کریں۔ اس کے بجائے ان کے لئے وصیت پر عمل کرنا واجب ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:181) فمن بدلہ۔ میں ضمیر ہ۔ ایصاء (نصیحت کرنا) کی طرف راجع ہے ۔ اور ایصاء الوصیۃ میں ضمنا مذکور ہے من شرطیہ ہے اور فمن بدلہ بعد ما سمعہ جملہ شرطیہ ہے فانما اثمہ علی الدین یبدلونہ جواب شرط ہے پس جو کوئی وصیت کو بدل دے بعد اس کے کہ وہ اسے سن چکا ہو تو اس کا گناہ انہی لوگوں پر ہے جو اس کو بدل دیں گے۔ اثمہ میں ہ کی ضمیر یا تو تبدیل شدہ ابصاء کی طرف راجع ہے یا خود تبدیل کی طرف۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جو شخص بھی وصیت سنے اس کا فرض ہے کہ وہ بےکم وکاست فریقین تک پہنچادے ۔ اگر وہ اس میں تبدیلی کرے گا ، تو اسے سخت گناہ ہوگا اور اگر سننے والے اپنی طرف سے تبدیلی کریں گے تو متوفیٰ بری الذمہ ہوگا۔ فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” پھر جنہوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا ، تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہوگا۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ “ اس شخص نے جو سنا اور جس کا اسے علم ہے اس خود اللہ گواہ ہے ۔ وصیت کنندہ کے لئے بھی اللہ گواہ ہے ۔ لہٰذا میت پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور چونکہ تبدیل کنندہ کے خلاف بھی اللہ گواہ ہے ، لہٰذا ناجائز تغیر وتبدل پر اس سے مواخذہ ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

وصیت کو بدلنے کا گناہ : جب وصیت کرنے والا وصیت کرکے وفات پا جائے تو اس کے ورثاء اور جس کو اس نے وصی یا مختار بنایا ہو اسی طرح حاکم اور قاضی ان لوگوں پر ضروری ہے کہ مرنے والے نے جو وصیت کی اس کے مطابق شرعی اصول پر نافذ کردیں۔ وصیت کرنے والا تو دنیا سے چلا گیا اس کے اختیارات ختم ہو گے۔ اب مال دوسروں کے قبضہ میں ہے۔ ان لوگوں پر لازم ہے کہ وصیت کو صحیح طریقہ پر نافذ کریں جس کو جتنا دینا ہے، اس کو دینے سے دریغ نہ کریں۔ فقراء اور مساکین کے لیے وصیت کی ہے انہیں معلوم بھی نہیں کہ ہمارے لیے کوئی وصیت کی گئی ہے۔ اور بعض رشتہ دار جو دور رہتے ہیں ان کے لیے وصیت کی اور انہیں اس کا پتہ نہیں ہے یہ لوگ خود سے تقاضا کریں گے نہیں۔ اب جن کے قبضہ میں مال ہے وہ دیں یا نہ دیں کم دیں زیادہ دیں، نصیحت کو چھپائیں یا ظاہر کریں۔ یہ سب ان کے اختیار میں ہے اب وصیت نافذ کرنے اور مال تقسیم کرنے کی ذمہ داری انہیں پر ہے۔ یہ لوگ آخرت کو سامنے رکھتے ہوئے سارا کام انجام دیں۔ وصیت کو ادل بدل نہ کریں۔ اگر وصیت میں تبدیلی کریں گے تو گنہگار ہوں گے اور آخرت میں باز پرس ہوگی۔ (فَمَنْ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ ) میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص وصیت کرکے مرجائے اور ادائیگی کے لیے مال بھی چھوڑا ہو تو اس کی آخرت کی ذمہ داری ختم ہوگئی اب ذمہ داری وارثوں پر آگئی۔ اگر انہوں نے ادائیگی نہ کی تو وہ گنہگار ہوں گے ان کا ادا نہ کرنا تبدیل وصیت کی ایک صورت ہے۔ نیز علامہ جصاص لکھتے ہیں کہ جس کسی پر زکوٰۃ فرض ہوئی اور اس کی ادائیگی کے بغیر مرگیا تو وہ گنہگار ہوگا اور زکوٰۃ روکنے والوں کے حکم میں داخل ہوگا۔ اگر اس نے ادائیگی زکوٰۃ کی وصیت کردی اور ورثاء نے وصیت نافذ نہ کی تو وہ گنہگار سے بری ہوگیا اور اب وصیت بدلنے والے گنہگار ہوں گے۔ علامہ جصاص نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر وصیت میں ظلم کیا گیا ہو (مثلاً پورے مال کی وصیت کردی یا ورثاء کی اجازت کے بغیر تہائی مال سے زائد کی وصیت کردی تو اس کا بدل دینا واجب ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جن لوگوں نے اس وصیت کوسنا خواہ وہ وصی ہوں یا گواہ ہوں یا اور دوسرے لوگ ہوں پھر سننے کے بعد اس وصیت کے مضمون کو تبدیل کردیا اور اس تبدیل و تغیر کی وجہ سے موصی لہم میں سے جس کو نقصان پہنچے گا تو سوائے اس کے نہیں کہ اس نقصان اور حق تلفی کا گناہ ان ہی لوگوں پر ہوگا جو اس تبدیل و تغیر کے ذمہ دار ہوں گے مرنے والے پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ سب سنتا اور سب کو جانتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ کسی مرنے والے کی وصیت کو سننے کے بعد اس میں کچھ کاٹ چھانٹ کرنا اور اس کے مضمون کو بدل دینا اور حاکم کے سامنے جھوٹا بیان دے کر غلط فیصلہ کرالینا اور جن کے لئے مرنے والے نے وصیت کی تھی ان میں سے کسی کو نقصان پہنچا دینا ان سب امور کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس قسم کی حرکات کے مرتکب ہونگے مرنے والے سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ گواہی دینے والوں کی گواہی کو سنتا ہے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی جانتا ہے کہ انہوں نے قصداً غلط فیصلہ کیا ہے یا شہادتوں کی بنا پر فیصلہ کرنے میں معذور ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مردہ کہہ مرا تھا پر دینے والوں نے نہ دیا تو مردے پر گناہ نہیں وہی ہیں گناہ گار (موضح القرآن) اب آگے ایک اور شکل کو صاف فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر مرنے والے ہی سے کوئی کوتاہی ہوگئی اور اس کے مرنے کے بعد موصی لہم میں جھگڑا ہوا اور کسی شخص نے فریقین کو رضا مند کرکے باہم فیصلہ کرا دیا اور وصیت میں کچھ ایسا رد و بدل کردیا جس سے فریقین مطمئن ہوگئے تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں گو ظاہر میں وصیت کا مضمون اس شکل میں بھی تبدیل ہوگیا لیکن تبدیلی قابل مواخذہ نہیں۔ ( تسہیل )