Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 194

سورة البقرة

اَلشَّہۡرُ الۡحَرَامُ بِالشَّہۡرِ الۡحَرَامِ وَ الۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۹۴﴾

[Fighting in] the sacred month is for [aggression committed in] the sacred month, and for [all] violations is legal retribution. So whoever has assaulted you, then assault him in the same way that he has assaulted you. And fear Allah and know that Allah is with those who fear Him.

حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fighting during the Sacred Months is prohibited, except in Self-Defense Allah says, الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ... The sacred month is for the sacred month, and for the prohibited things, there is the Law of equality (Qisas). Ibn Abbas, Ad-Dahhak, As-Suddi, Qatadah, Miqsam, Ar-Rabi bin Anas and Ata said, "Allah's Messenger went for Umrah on the sixth year of Hijrah. Then, the idolators prevented him from entering the Sacred House (the Ka`bah in Makkah) along with the Muslims who came with him. This incident occurred during the sacred month of Dhul-Qadah. The idolators agreed to allow them to enter the House the next year. Hence, the Prophet entered the House the following year, along with the Muslims who accompanied him, and Allah permitted him to avenge the idolators' treatment of him, when He said: الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ (The sacred month is for the sacred month, and for the prohibited things, there is the Law of equality (Qisas). Imam Ahmad recorded that Jabir bin Abdullah said, "Allah's Messenger would not engage in warfare during the Sacred Month unless he was first attacked, then he would march forth. He would otherwise remain idle until the end of the Sacred Months." This Hadith has an authentic chain of narrators. Hence, when the Prophet was told that Uthman was killed (in Makkah) when he was camped at the area of Al-Hudaybiyyah, after he had sent Uthman as his emissary to the polytheists, he accepted the pledge from his Companions under the tree to fight the polytheists. They were one thousand and four hundred then. When the Prophet was informed that Uthman was not killed, he abandoned the fight and reverted to peace. When the Prophet finished fighting with (the tribes of) Hawazin during the battle of Hunayn and Hawazin took refuge in (the city of) At-Ta'if, he laid siege to that city. Then, the (sacred) month of Dhul-Qadah started, while At-Ta'if was still under siege. The siege went on for the rest of the forty days (rather, from the day the battle of Hunayn started until the Prophet went back to Al-Madinah from Al-Jiranah, were forty days), as reported in the Two Sahihs and narrated by Anas. When the Companions suffered mounting casualties (during the siege), the Prophet ended the siege before conquering At-Ta'if. He then went back to Makkah, performed Umrah from Al-Jiranah, where he divided the war booty of Hunayn. This Umrah occurred during Dhul-Qadah of the eighth year of Al-Hijrah. Allah's statement: ... فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ... ...whoever transgresses against you, you transgress likewise against him. ordains justice even with the polytheists. Allah also said in another Ayah: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ And if you punish, then punish them with the like of that with which you were afflicted. (16:126) Allah's statement: ... وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ And fear Allah, and know that Allah is with Al-Muttaqin (the pious). commands that Allah be obeyed and feared out of Taqwa. The Ayah informs us that Allah is with those who have Taqwa by His aid and support in this life and the Hereafter.

بیعت رضوان ذوالقعدہ سن ٦ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرے کے لئے صحابہ کرام سمیت مکہ کو تشریف لے چلے لیکن مشرکین نے آپ کو حدیبیہ والے میدان میں روک لیا بالآخر اس بات پر صلح ہوئی کہ آئندہ سال آپ عمرہ کریں اور اس سال واپس تشریف لے جائیں چونکہ ذی القعدہ کا مہینہ بھی حرمت والا مہینہ ہے اس لئے یہ آیت نازل ہوئی مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرمت والے مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے ہاں اگر کوئی آپ پر چڑھائی کرے تو اور بات ہے بلکہ جنگ کرتے ہوئے اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو آپ لڑائی موقوف کر دیتے ، حدیبیہ کے میدان میں بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو مشرکین نے قتل کر دیا جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر مکہ شریف میں گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چودہ سو صحابہ سے ایک درخت تلے مشرکوں سے جہاد کرنے کی بیعت لی پھر جب معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے تو آپ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور صلح کی طرف مائل ہو گئے ۔ پھر جو واقعہ ہوا وہ ہوا ۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوازن کی لڑائی سے حنین والے دن فارغ ہوئے اور مشرکین طائف میں جا کر قلعہ بند ہو گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کر لیا چالیس دن تک یہ محاصرہ رہا بالآخر کچھ صحابہ کی شہادت کے بعد محاصرہ اٹھا کر آپ مکہ کی طرف لوٹ گئے اور جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا یہیں حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں اور یہ عمرہ آپ کا ذوالقعدہ میں ہوا یہ سن ٨ ہجری کا واقعہ ہے ، اللہ تعالیٰ آپ پر درود وسلام بھیجے ۔ پھر فرماتا ہے جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر لو ، یعنی مشرکین سے بھی عدل کا خیال رکھو ، یہاں بھی زیادتی کے بدلے کو زیادتی سے تعبیر کرنا ویسا ہی ہے جیسے اور جگہ عذاب وسزا کے بدلے میں برائی کے لفظ سے بیان کیا گیا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ آیت مکہ شریف میں اتری جہاں مسلمانوں میں کوئی شوکت وشان نہ تھی نہ جہاد کا حکم تھا پھر یہ آیت مدینہ شریف میں جہاد کے حکم سے منسوخ ہو گئی ، لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی تردید کی ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ آیت مدنی ہے عمرہ قضا کے بعد نازل ہوئی ہے حضرت مجاہد کا قول بھی یہی ہے ۔ ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پرہیز گاری اختیار کرو اور اسے جان لو کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ دین و دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت رہتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

194۔ 1۔ 6 ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو صحابہ (رض) اجمعین کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ میں نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آسکیں گے یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جب دوسرے سال حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کر کے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کر کے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کر کے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ (ابن کثیر) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥٧] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے لے کر عرب میں یہ دستور چلا آیا تھا کہ ذی قعد ذی الحجہ اور محرم کے مہینے حج کرنے والوں کی وجہ سے قابل احترام قرار دیئے گئے تھے اور ان کے درمیان رجب کا مہینہ عمرہ کرنے والوں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تاکہ حج اور عمرہ کرنے والے امن وامان سے سفر کرسکیں۔ ان مہینوں میں جدال و قتال بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ چونکہ یہ ایک اچھا دستور تھا۔ لہذا اسلام نے اسے بحال رکھا۔ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ اگر ان مہینوں میں کافر تم سے جنگ کرتے ہیں تو پھر تمہیں بھی ان سے جنگ کی اجازت ہے، ورنہ نہیں۔ مگر یہ خیال رہے کہ جتنی زیادتی تم پر ہوئی اتنی ہی تم کرسکتے ہو۔ اس سے زیادہ نہیں اور اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ذوالقعدہ ٦ ھ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے، تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا، مگر آخرکار صلح ہوگئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرلیں۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے، پھر جب دوسرے سال ٧ ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو انھیں اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں تو لڑائی منع ہے، لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ سے روک دیا تو ہم کیا کریں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) یعنی (حرمت والے مہینوں کی حرمت کی پاس داری کفار کی طرف سے ان کی حرمت کی پاس داری کے مقابلے میں ہے) اگر وہ حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بدعہدی کریں تو تم بھی حرم کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی، ابن کثیر) واضح رہے کہ حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ اگرچہ زیادتی کے جواب کو زیادتی نہیں کہا جاتا، بلکہ وہ عین حق ہے، مگر یہ صرف لفظ کی حد تک مشابہت ہے کہ ” فَمَنِ اعْتَدٰى“ کے مقابلے میں لفظ ” ْ فَاعْتَدُوْا “ آیا ہے، جیسے فرمایا : (وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ ) [ الشوریٰ : ٤٠ ] ” اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Ruling There are four &sacred months&: Dhul-Qa&dah, Dhul-Hijjah, Muhar¬ram which are consecutive and the fourth is Rajab. Even before Islam, fighting in these months was considered unlawful and the disbelievers of Makkah too used to observe their sanctity. Even in the early days of Islam, right through the year 7 A.H., this law was in force which is why the noble Companions were perplexed. Later, according to the consensus of the Ummah, this unlawfulness of fighting was abrogated and the permission to fight was given, but it is still preferable not to initiate fighting in these four months without the need to defend. Therefore, it can be said that the sanctity of the &sacred months& has not been abrogated totally, but it holds good like the sanctity of Haram. Both of them have been subjected to an exception for the sake of defence.

معارف و مسائل : ٧ ہجری میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے قانون کے مطابق فوت شدہ عمرہ ادا کرنے کے لئے بہ معیت صحابہ کرام (رض) اجمعین مکہ کے سفر کا ارادہ کیا تو صحابہ کرام جانتے تھے کہ ان کفار کے معاہدوں اور صلح کا کچھ اعتبار نہیں ممکن ہے کہ وہ جنگ کرنے لگیں تو اس جنگ میں صحابہ کرام (رض) اجمعین کے لئے ایک اشکال تو یہ تھا کہ حرم مکہ میں جنگ کی نوبت آئے گی جو اسلام میں ناجائز ہے اس کا جواب پچھلی آیت میں دے دیا گیا کہ حرم مکہ کی حرمت مسلمانوں پر ضرور لازم ہے لیکن اگر کفار حدود حرم میں ہی مسلمانوں سے جنگ کرنے لگیں تو ان کو بھی مدافعت میں جنگ کرنا جائز ہے۔ دوسرا اشکال یہ تھا کہ یہ مہینہ ذیقعدہ کا ہے جو ان چار مہینوں میں سے ہے جن کو اشہر حرم کہا جاتا ہے اور ان میں کسی سے کسی جگہ جنگ کرنا جائز نہیں تو اگر مشرکین مکہ نے ہمارے خلاف جنگ شروع کردی تو ہم اس مہینے میں دفاعی جنگ کیسے کرسکتے ہیں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ جیسے حرم مکہ کی حرمت سے حالت دفاع مستثنی ہے اسی طرح اگر اشہر حرم میں کافر ہم سے قتال کرنے لگیں تو ہم کو بھی ان سے دفاعی جنگ لڑناجائز ہے۔ مسئلہ : اشہر حرم چار مہینے ہیں، ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم یہ تین ماہ تو مسلسل ہیں چوتھا مہینہ رجب کا ہے اسلام سے پہلے بھی ان چار مہینوں میں جنگ کو حرام سمجھا جاتا تھا اور مشرکین مکہ بھی اس کے پابند تھے ابتداء اسلام میں بھی ٧ ہجری تک یہی قانون نافذ تھا اسی لئے صحابہ کرام کو اشکال پیش آیا اس کے بعد یہ حرمت قتال منسوخ کرکے عام قتال کی اجازت باجماع امت دے دیگئی مگر افضل اب بھی یہی ہے کہ ان چار مہینوں میں ابتداء بالقتال نہ کی جائے صرف مدافعت کی ضرورت سے قتال کیا جائے اس لحاظ سے یہ کہنا بھی فی الجملہ درست ہے کہ اشہر حرم کی حرمت منسوخ نہیں باقی ہے جیسے حرم مکہ میں قتال کی اجازت بضرورت مدافعت دینے سے حرم مکہ کی حرمت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ صرف ایک استثنائی صورت پر عمل ہوا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۝ ٠ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ۝ ٠ ۠ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ۝ ١٩٤ شهر الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185] ، ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ قِصاصُ : تتبّع الدّم بالقود . قال تعالی: وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة/ 179] وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] ويقال : قَصَّ فلان فلانا، وضربه ضربا فَأَقَصَّهُ ، أي : أدناه من الموت، والْقَصُّ : الجصّ ، و «نهى رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم عن تَقْصِيصِ القبور» القصاص کے معنی خون کا بدلہ دینے کے ہیں چناچہ فرمایا : وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة/ 179] حکم قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے ۔ محاورہ ہے قص فلان فلانا وضربہ ضربا فاقصہ فلاں کو ( مار مار کر ) مرنے کے قریب کردیا ۔ القص کے معنی چونہ کے ہیں ۔ حدیث میں ہے (181) نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن تقصیص القبور کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں کو گچ کرنے سے منع فرمایا ۔ عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٤) وہ مہینہ جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ کی قضا کے لیے تشریف لے جارہے ہیں وہ اس مہینے کا بدل ہے جس میں کفار نے آپ کو عمرہ کرنے سے منع کردیا تھا اور اگر یہ کفار حدود حرم میں آپ لڑائی کی پہل کریں تو آپ بھی اسی قدر ان کے ساتھ لڑائی کریں اور قتل و غارت میں پہل کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ڈریں، اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٤ (اَلشَّہْرُ الْحَرَام بالشَّہْرِ الْحَرَامِ ) (وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ط) یعنی اگر انہوں نے اشہر حرم کی بےحرمتی کی ہے تو اس کے بدلے میں یہ نہیں ہوگا کہ ہم تو ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں کہ یہ تو اشہر حرم ہیں۔ حدود حرم اور اشہر حرم کی حرمت اہل عرب کے ہاں مسلّم تھی۔ ان کے ہاں یہ طے تھا کہ ان چار مہینوں میں کوئی خونریزی ‘ کوئی جنگ نہیں ہوگی ‘ یہاں تک کہ کوئی اپنے باپ کے قاتل کو پالے تو وہ اس کو بھی قتل نہیں کرے گا۔ یہاں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اشہرحرم اور حدود حرم میں جنگ واقعتا بہت بڑا گناہ ہے ‘ لیکن اگر کفار کی طرف سے ان کی حرمت کا لحاظ نہ رکھا جائے اور وہ اقدام کریں تو اب یہ نہیں ہوگا کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنے آپ کو پیش کردیا جائے ‘ بلکہ جوابی کارروائی کرنا ہوگی۔ اس جوابی اقدام میں اگر حدود حرم یا اشہر حرم کی بےحرمتی کرنی پڑے تو اس کا وبال بھی ان پر آئے گا جنہوں نے اس معاملے میں پہل کی۔ (فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ) (وَاتَّقُوا اللّٰہَ ) (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ) یعنی اللہ کی تائید و نصرت اور اس کی مدد اہل تقویٰ کے لیے آئے گی۔ اب آگے انفاق کا حکم آ رہا ہے جو مضامین کی چار لڑیوں میں سے تیسری لڑی ہے۔ قتال کے لیے انفاق مال لازم ہے۔ اگر فوج کے لیے ساز و سامان نہ ہو ‘ رسد کا اہتمام نہ ہو ‘ ہتھیار نہ ہوں ‘ سواریاں نہ ہوں تو جنگ کیسے ہوگی ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

206. From the time of Abraham three months - Dhu al-Qa'dah, Dhu al-Hijjah and Muharram - were consecrated for Hajj, and the month of Rajab was consecrated for 'Umrah. For the duration of these four months warfare, killing and pillage were prohibited so that people could perform Pilgrimage and return home safely. For this reason these months were cajied the 'sacred months'. The purpose of the verse is to stress that if the unbelievers respect the sanctity of the sacred months, the Muslims should do the same. If, however, they violate this sanctity and subject the Muslims to aggression, then the Muslims are also entitled to retribution even during the 'sacred months'. The permission mentioned here was called forth by the introduction of nasi', a practice which had been introduced by the Arabs in order to have an advantage over others in their battles and raids. The manner in which the Arabs used nasi' was such that whenever they wished either to start a conflict in order to satisfy their vendetta or to loot and plunder they carried out their raid in one of the sacred months and then later on tried to compensate for this violation by treating one of the non-sacred months as a sacred month. The Muslims were, therefore, concerned as to what they should do in case the unbelievers resorted to this artifice and surprised them by an attack in one of the recognized sacred months. The verse refers to this problem.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :206 اہل عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آ رہا تھا کہ ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا ، اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین کعبہ امن و امان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں ۔ اس بنا پر ان مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا ، یعنی حرمت والے مہینے ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کا لحاظ کفار کریں ، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں ، تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں ۔ اس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے پیش آگئی تھی کہ اہل عرب نے جنگ و جدل اور لوٹ مار کی خاطر نسی کا قاعدہ بنا رکھا تھا ، جس کی رو سے وہ اگر کسی سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے ، تو کسی حرام مہینے میں اس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اس مہینے کی جگہ کسی دوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اس حرمت کا بدلہ پورا کر دیتے تھے ۔ اس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفار اپنے نسی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کاروائی کر بیٹھیں ، تو اس صورت میں کیا کیا جائے ۔ اسی سوال کا جواب آیت میں دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

124: یعنی اگر کوئی شخص مہینے کی حرمت پامال کرکے تم سے لڑائی کرے تو تم بھی اس سے بدلہ لے سکتے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

ہجرت کے چھٹے سال ذیقعدہ کے مہینے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ سے زیارت مکہ کا قصد کیا تھا۔ اور جب مکہ کے قریب ایک جگہ حدیبیہ ہے وہاں آپ کا مقام ہوا تو مشرکین مکہ نے وہاں آکر آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا۔ آخر صلح اس بات پر ہوئی کہ اس سال تو آپ مدینہ کو واپس اور آئندہ سال پھر آئیں۔ اور مکہ کی زیارت کریں۔ اس صلح کا نام صلح حدیبیہ ہے اور اس کا ذکر تفصیل سے سورة انا فتحنا میں آئے گا یہ ذکر اس وقت کا ہے کہ جب تک مکہ کی فتح نہیں ہوئی تھی۔ اور مشرکین مکہ کا زور باقی تھا اب اس صلح کے موافق ہجرت کے ساتوں جب آپ نے ذیقعدہ کے مہینے میں زیارت مکہ کا قصد کیا تو صحابہ کرام کے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر اب کے بھی مشرکین مکہ نے صلح کو قائم نہ رکھا اور ہمیں داخل ہونے سے روکا۔ اور اس پر باہم لڑائی کا موقع پیش آگیا تو ذیقعدہ کے مہینے میں لڑنا پڑے گا۔ حالانکہ رجب، ذیقعدہ، ذوالحجہ، محرم، یہ چاروں مہینے حرمت والے کہلاتے ہیں اور ان چاروں مہینوں میں لڑائی منع ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو جتلا دیا کہ اللہ کے عدل اور انصاف میں حرمتوں کا بدلہ ہے جب صلح حدیبیہ کے وقت اسی ذیقعدہ حرمت والے مہینے میں اس مشرکوں نے اس مہینے کی حرمت کو اور حرم کی حد کی حرمت کو قائم نہ رکھا تو اگر لڑائی کا موقع پیش آجائے تو کچھ خدشہ کی بات نہیں ہے اللہ کی طرف سے بدلے کے طور پر تم کو لڑنے کی اجازت ہے۔ مگر اتنا کرنا کہ جس قدر تم پر کسی کی طرف سے زیادتی ہو اتنا ہی اس سے بدلہ لینا حد سے بڑھ کر زیادتی سے پرہیز کرنا اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:194) الشھر الحرام۔ موصوف صفت۔ حرمت والا مہنیہ الحرمت۔ حرمتیں۔ بزرگیاں۔ حرمۃ کی جمع۔ حرمت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا ادب ضروری ہو۔ قصاص۔ بدلہ۔ قتل کا بدلہ قتل قاتل۔ ہر عضو کا بدلہ عضو، ہر چوٹ کا بدلہ ویسی ہی چوٹ۔ ادب کی چیزوں میں مساوات۔ یعنی ماہ حرام میں اگر دشمن قتال کرے اور اس کی حرمت کا لحاظ نہ کرے تو تم بھی دفاعی جنگ کرو (آیت ہذا) خون کا بدلہ خون۔ خون بہا۔ الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص۔ ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری سے ہوگا۔ یعنی حرمتوں کے بارے میں دشمن جتنی زیادتی کا مرتکب ہوگا۔ دوسرا فریق اس دشمن کے خلاف اس زیادتی کے برابر اس کا توڑ کرنے میں حق بجانب ہوگا۔ فائدہ : اہل عرب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آتا تھا کہ ذی القعدہ۔ ذی الحجہ اور محرم کے تین مہینے حج کے لئے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عمرہ کے لئے خاص کیا گیا تھا ۔ ان چار مہینوں میں جنگ وجدل۔ قتل و غاری گری ممنوع تھی تاکہ زائرین کعبہ امن و امان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں۔ اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں۔ اسی بناء پر ان مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا۔ یعنی حرمت والے مہینے۔ آیت کا منشاء یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کا لحاظ کفار کریں تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کرکے کسی حرام مہینہ میں مسلمانوں پر دست اندازی کریں تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔ (اقتباس از تفہیم القرآن) فمن اعتدی علیکم۔ جملہ شرطیہ ہے۔ اعتدی ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اعتداء (افتعال) مصدر۔ اس نے زیادتی کی (تم پر) ۔ فاعتدوا علیکم۔ جواب شرط۔ ف جواب شرط کا ہے۔ اعتدوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ۔ تم زیادہ کرو۔ اعتدائ۔ (زیادتی) کی جزاء کو اعتداء کہنا صرف لفظی مشابہت ہے۔ مطلب یہ کہ زیادہ کرنے والے کی زیادتی کی حد تک اس زیادتی کا توڑ کرنا جائز ہے۔ ما اعتدی میں ما موصولہ ہے۔ المتقین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ تقویٰ کرنے والے۔ ڈرنے والے۔ پرہیز کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذع القعدہ 2 ھ میں جب عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا مگر آخر کار صلح ہوگئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کریں یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ پھر جب دو سرے سال 7 ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے ان کو اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں لڑائی ممنوع ہے لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ نہ کرنے دیا تو ہم کیا کریں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر کبیر) یعنی اگر کفار حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بد عہدی کریں تو تم بھی حرم مکہ کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) فائدہ واضح رہے کہ اشہر حرم (حرام مہینے) چار ہیں۔۔ ذوالقعدہ، 2 ۔ ذولعقدہ، 3 ۔ محرم، 4 ۔ رجبیعنی اللہ کی راہ میں جہاد اور مال خرچ کرنے سے دریغ کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈلنا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اسلام پھیل گیا اور اسے قوت حاصل ہوگئی تو انصار جمع ہوئے اور نہوں نے آپس میں مشہو رہ کیا کہ اب لڑائی بند ہوچکی ہے لہذا اگر ہم اہل و عیال میں رہ کر کچھ گھر کا دھندہ کرلیں تو اچھا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن کثیر) مگر آیت اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اور سب نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا حکم ہے اور دینی اور دینوی خطروں سے دور رہنے کا حکم ہے۔ (شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کفار کے ساتھ جبکہ شرائط جواز کے پائے جاویں ابتداء قتال شروع کرنا درست ہے۔ 2۔ جزیرہ عرب کے اندر کفار کو وطن بنانے کی اجازت نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ان بارہ ہدایات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کفار حرمتوں کی آڑ میں تم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کریں تو تم بھی کسی حرمت کی پروا کیے بغیر ان کے خلاف برسر پیکار ہوجاؤ۔ کفار کے مقابلے میں حرمت کے بدلے ہی عزت و حرمت کا خیال رکھاجاسکتا ہے کیونکہ اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی سے روکنا، کفر کو دین حق پر مسلط کرنا، کمزوروں پر ظلم ڈھانا اور مشرکوں کا بیت اللہ پر قبضہ جمانے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہوسکتا اگر کفار مزاحم ہونے اور لوگوں پر ظلم کرنے سے باز آجائیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار نے اٹھارہ سال تمہارے اوپر ظلم کیے ہیں لیکن یاد رکھنا کسی لمحہ بھی تمہیں زیادتی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے غفور رحیم صفت بیان فرما کر اشارہ دیا ہے کہ اگر تم معاف کردو تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس حکم سے واضح ہوا کہ اسلام کسی صورت میں بھی کسی پر زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوات میں ہدایات جاری فرماتے کہ کسی بوڑھے، بچے اور عورت یہاں تک کہ معبد خانوں میں عبادت کرنے والے اور اپنے گھروں کے کواڑ بند کرنے والوں پر زیادتی نہ کیجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدات میں اس بات کا مکمل خیال اور غیر مسلموں کو پورا پورا تحفظ عنایت فرمایا۔ نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس سے اسلام کی امن و سلامتی اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کھل کر واضح ہوجاتی ہے وہ معاہدہ یہ ہے : ” نجران اور اس کے رہنے والوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال، ان کے حاضرو غائب، ان کی مورتیاں، ان کے قافلے اور قاصد، اللہ کی امان اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضمانت میں ہوں گے، ان کی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ان کے حقوق میں سے کسی حق میں مداخلت نہیں کی جائے گی، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے ہٹایانہ جائے گا، اور جو کچھ بھی ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا ان کے زمانۂ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا، نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ ان پر عشر لگایا جائے گا اور نہ اسلامی فوج ان کے علا قے کو پامال کرے گی۔ ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا تو اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نہ ان کو ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا۔ ان میں سے جو شخص سود کھائے گا وہ میری ضمانت سے بری ہے۔ اس صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے بارے میں اللہ کی امان اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دوسرا حکم نازل نہ ہو۔ جب تک یہ لوگ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدہ کی پابندی کریں گے ان کو جبرًاکسی بات پر مجبور نہ کیا جائیگا۔ “ ان ہدایات کا مسلمانوں نے ہر دور اور ہر حال میں خیال رکھا۔ اسلام میں جہاد کا تصوّر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کے باغیوں کے بجائے صرف اس کے تابع فرماں بندوں کا قبضہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت ملک، قوم اور ملی نظریے سے بغاوت کرنے والوں کو گوارا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا جہاد ذاتی اغراض اور کشور کشائی کے لیے نہیں بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں آخری حکم میں فرمایا جارہا ہے کہ جہاد فرض ہونے کی صورت میں اپنے آپ کو بچانا اور مال محفوظ رکھنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ جب دشمن سر پر چڑھ آئے تو نہ مال و منال بچا کرتا ہے اور نہ عزّت وجان سلامت رہتی ہے۔ نازک حالات میں ہر چیز قربان کرنے کے جذبے سے ہی قومیں اپنا وقار اور وجود قائم رکھ سکتی ہیں۔ غزوات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان نقصان کا تقابل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں کل مسلمان شہداء 387 اور مخالف 732 تھے۔ ( رحمۃ للعلمین از قاضی سلیمان منصورپوری) لیکن افسوس غیر مسلموں کی تاریخ میں ان قدروں کا کبھی بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ مہذب دنیا کے راہنماؤں نے اپنے ہم مذہب اور دوسرے ممالک کا پہلی جنگ عظیم 1914 تا 1919 میں اور دوسری جنگ عظیم 1939 تا 1945 میں جو قیامت برپا کی اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ پہلی جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی تفصیل اس طرح ہے۔ جرمنی کے سب سے زیادہ 18 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سوویت یونین کے 17 لاکھ، فرانس کے 13 لاکھ 85 ہزار، آسٹریلیا کے 12 لاکھ اور برطانیہ کے 9 لاکھ 47 ہزار افراد مارے گئے۔ جاپان کے 8 لاکھ، رومانیہ کے 7 لاکھ 50 ہزار، سربیان کے 7 لاکھ 8 ہزار، اٹلی کے 4 لاکھ 80 ہزار، ترکی 3 لاکھ 25 ہزار، بیلجئیم کے 2 لاکھ 27 ہزار، یونان کے 2 لاکھ 30 ہزار، امریکہ کے 1 لاکھ 37 ہزار، پرتگال کے 1 لاکھ، کینیڈا کے 69 ہزار، بلغاریہ کے 88 ہزار اور مونٹے نیگرو کے 50 ہزار مارے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں سپر پاور بننے کے لیے سوویت یونین کو سب سے بھاری جانی ومالی قیمت چکانا پڑی۔ اس کے 3 کروڑ 55 لاکھ 68 ہزارفوجی اور سویلین ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جس کے 1 کروڑ 13 لاکھ 24 ہزار مارے گئے، پولینڈ کے 68 لاکھ 50 ہزار، جاپان کے 18 لاکھ 6 ہزار، یوگو سلاویہ کے 17 لاکھ، رومانیہ کے 9 لاکھ 85 ہزار، فرانس 8 لاکھ 10 ہزار، یونان 5 لاکھ 20 ہزار، امریکہ 4 لاکھ 95 ہزار، آسٹریا 4 لاکھ 80 ہزار، اٹلی 4 لاکھ 10 ہزار، برطانیہ 3 لاکھ 88 ہزار، ہالینڈ 2 لاکھ 50 ہزار اور بیلجئیم کے 85 ہزار مارے گئے۔ اس کے علاوہ فن لینڈ کے 79 ہزار، کینیڈا 42 ہزار، ہندوستان 36 ہزار، آسٹریلیا 29 ہزار، البانیہ 28 ہزار، سپین 22 ہزار، بلغاریہ 21 ہزار، نیوزی لینڈ 12 ہزار، ناروے 10 ہزار، جنوبی افریقہ 9 ہزار، لکسمبرگ 5 ہزار اور ڈنمارک کے 4 ہزار مارے گئے جب کہ حالیہ عراق اور افغانستان جنگ میں مرنے والوں کی تعداد 65 ہزار سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ ان جنگوں پر اخراجات بھی کم نہیں ہوئے۔ 1990 میں ڈالر کی قیمت کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں 196 ارب 50 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے جبکہ دوسری عالمگیر جنگ میں 2091 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ تیسری جاری عالمی جنگ میں اب تک 1 کھرب 79 ارب 19 کروڑ 51 لاکھ 11 ہزار ڈالر خرچ ہوچکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی (2004) میں امریکہ جو دنیا میں تہذیب و تمدن کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ اس نے عراق کے تاریخی مقامات اور تمام شہروں بالخصوص نجف، بغداد اور فلوجہ میں جس طرح مساجد و مدارس اور خواتین کی بےحرمتی کی اور قبرستانوں پر بلڈوزر چلائے ان مظالم کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں کو پاخانہ کھانے اور اپنا پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا جس پر امریکہ کے حلیف اور دیگر ممالک میں اس کے خلاف کہرام برپا ہوا جس کے رد عمل میں امریکہ کے صدر بش کو دنیا کے سامنے معافی مانگنی پڑی پھر بھی ان کے رویّے میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوسکی۔ مسائل ١۔ حرمت والے مہینوں اور حرمات میں قصاص ہے۔ ٢۔ زیادتی کے بدلے میں اتنی ہی زیادتی کرنا جائز ہے۔ ٣۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ ٥۔ ہر حال میں نیکی کرنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مسجد حرام کے قریب لنے کے احکام بیان کرنے کے بعد اب حرام مہینوں میں جنگ کے احکام بیان کئے جاتے ہیں ۔ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ” ماہ حرام کا بدلہ حرام ہی ہے ۔ اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا ، لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے ، تم بھی اسی طرح اس دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ “ جو شخص محرم کے مہینے کی حرمت کا کوئی پاس نہیں رکھتا اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ پابندیوں سے اٹھائے جو ان حرام مہینوں کے اندر عائد ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام معاملات میں صرف ایک مقام مسجد حرام کو دارلامن قرار دیا ہے اور زمانوں میں سے حرام مہینوں کو زمانہ امن قرار دیا ہے ۔ اس مکان اور اس زمان میں کسی کا خون بہایا نہیں جاسکتا ۔ ہر کسی کی جان ومال محفوظ ہوں گے ۔ کسی بھی زندہ چیز کو دکھ نہ دیا جائے گا ۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ خود تو امن کے اس شاداب باغیچے میں عیش کرے اور مسلمانوں کو اس سے محروم کردے ۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ خود اسے بھی اس سے محروم کردیاجائے ۔ جو دوسروں کی آبروریزی کرتا ہے ۔ خود اس کی آبروہ محفوظ نہ ہوگی کیونکہ الحرمات قصاص تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کا ہوگا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو تنبیہ کردی گئی کہ ظلم کا مقابلہ کرنے اور ظلمن کا بدلہ لینے میں ، وہ اپنے حدود سے آگے نہ بڑھیں ۔ کیونکہ ان کے مقدس مقامات اور ان مقدس و محرم مہینوں کے اندر محض ضرورت کے تحت تمہیں جنگ کی اجازت دی جارہی ہے ۔ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ ” لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ “ لیکن اس معاملہ میں غلو اور زیادتی سے کام نہ لو ۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے قدر انتقام مقرر نہیں کی ۔ مقدار ان کی خدا خوفی پر چھوڑ دی گئی ہے ۔ جب کہ اوپر ہم کہہ آئے ہیں کہ مسلمان اس بات سے خوب واقف تھے کہ ان کی نصرت اور امداد صرف اللہ تعالیٰ کررہا ہے۔ اس لئے انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں ۔ یہی وہ حد ہے جس پر انہیں رکنا چاہئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا خوفی ہی امن کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ جہاد میں افراد کی طرح مال کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاد سے پہلے ایک مجاہد کو سامان جنگ کی ضرورت ہوگی ، مثلاً سواری ، اور دوسرا سامان جنگ ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں فوجیوں اور افسروں کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں ۔ وہ لوگ اسلام کے لئے جس طرح جان قربان کرتے تھے ، اس طرح اپنی دولت بھی راہ اللہ میں خرچ کرتے تھے ۔ اگر اجتماعی نظم ، نظریہ حیات پر استوار کیا جائے تو یہی صورت ہوتی ہے ۔ اگر حکومت کی بنیاد نظریہ پر ہو تو پھر اپنے بچاؤ یا اپنے عوام کے بچاؤ کے لئے ، یا دشمنوں کے مقابلے میں کسی جنگ کے لئے اسے دولت خرچ کرکے تنخواہ دار ملازمین رکھنے کی ضرورت سرے سے پیش ہی نہیں آتی ، فوج خود آگے بڑھتی ہے ، لیڈر خود آگے بڑھتے ہیں ، جان بھی دیتے ہیں اور مال بھی ۔ ضرورت اس بات پر غور کرنے کی تھی کہ بیشمار غریب مسلمان ایسے تھے ، جو جذبہ جہاد سے تو سرشار تھے ، وہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی زندگی کے لئے لڑنے مرنے کے لئے تیار تھے لیکن صور تحال یہ تھی کہ ان کے پاس سامان جنگ تھا نہ کوئی زاد راہ تھا ۔ میدان جنگ تک جانے کے لئے کوئی سواری نہ تھی ، ایسے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے اور التجائیں کرتے کہ آپ انہیں دور دراز میدان جنگ تک لے جائیں ۔ کیونکہ میدان جنگ بعض اوقات اتنا دور ہوتا تھا کہ وہاں تک پیدل جانا ممکن نہ تھا اور جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معذرت کا اظہار فرماتے تو وہ مایوس لوٹتے ۔ ان کے بارے میں قرآن مجید میں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کی زیادتی کا جواب صلح کی شرطوں کے مطابق جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ ٧ ھ میں عمرۃ القضا کے لیے تشریف لے گئے تو یہ ماہ ذی قعدہ تھا مشرکین مکہ سے مسلمانوں کو خطرہ تھا کہ معاہدہ کی پاسداری نہ کریں اور حملہ کردیں اگر انہوں نے حملہ کیا تو حرمت والے مہینہ میں اور حرم میں جنگ کرنی پڑے گی اور اس سے مکان و زمان دونوں کی حرمت میں فرق آئے گا۔ حرم کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں ارشاد فرما دیا کہ (وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ ) اور مہینہ کی حرمت کے بارے میں اس آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اگر جنگ کرنی پڑے تو تم جنگ کرلینا اور حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے عوض ہوجائے گا یعنی مشرکین حرمت والے مہینہ کا احترام کریں تو تم بھی احترام کرو اور خود سے جنگ نہ کرو وہ بےحرمتی کر بیٹھیں تو تم بھی جوابی کار روائی کرو۔ اور یہ فرمایا والحرمت قصاص اس کا مطلب یہ ہے کہ حرمت عوض اور معاوضہ کی چیزیں ہیں جو لوگ تمہارے ساتھ ان حرمتوں کی رعایت کریں تم بھی ان کی رعایت کرو جس ذات پاک نے حرم اور ماہ حرم میں جنگ کرنے کو حرام قرار دیا اسی کی طرف سے جوابی کار روائی کرنے اور دفاع کرنے کی اجازت مل گئی تو اب حیرانی پریشانی کا کوئی موقعہ نہ رہا۔ پھر فرمایا (فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ) (یعنی جو شخص تم پر زیادتی کرے تو اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ہے) جس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی (یعنی عمرۃ القضاء جس میں دشمنوں کے حملے کا خطرہ تھا) اس کے بارے میں بتادیا کہ زیادتی کرنے والے پر اتنی ہی زیادتی کرسکتے ہو جتنی وہ زیادتی کرے آیت کا نزول اگرچہ خاص موقعہ پر تھا لیکن الفاظ کے عموم نے مستقل قانون بتادیا کہ زیادتی کا جواب بقدر زیادتی ہی دے سکتے ہو اور جتنی زیادتی کسی نے کی ہو اس سے اسی قدر بدلہ لے سکتے ہو اگر اس سے زیادہ کچھ کیا تو پھر تم زیادتی کرنے والے ہوجاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے : آخر میں فرمایا (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ) (یعنی بدلہ لینے میں اور ہر موقعہ پر گناہ سے بچو اور اللہ سے ڈرو۔ جس چیز کی اجازت نہیں اسے نہ کرو اور یہ بھی سمجھ لو کہ تقوی اختیار کرنے والوں کا بہت بڑا مقام ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے۔ اگر کسی موقعہ پر نفس کے ابھار کی وجہ سے زیادتی کرنے کا تقاضا ہوا، اور شرعی ممانعت کی وجہ سے اس سے پرہیز کیا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا بدلہ دیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

368 سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے یعنی محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذی الحجہ اشہر الحرم کہلاتے تھے اور ان میں جنگ و قتال جائز نہیں تھا۔ ذیقعدہ کے مہینے میں حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ بقصد عمرہ مکہ مکرمہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے آپ کو مقام حدیبیہ میں روک دیا اور مسلمانوں پر تیر اندازی اور سنگ باری کے ذریعہ اس عزت والے مہینہ میں جنگ کی ابتداء کی۔ اس وقت دونوں فریقوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ مسلمان اگلے سال عمرہ کریں۔ جب اگلے سال مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو ان کے دل میں تردد پیدا ہوا کہ اگر کفار نے پہل کی اور لڑائی شروع کردی تو پھر ہم کیا کریں اگر جوابی کاروائی نہ کریں تو یہ بھی مناسب نہیں گ اگر لڑیں تو عزت والے مہینے کی بےحرمتی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جوابی کاروائی میں تم پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ عزت والا مہینہ تو عزت والے مہینے کے بدلے ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے اس مہینے کی حرمت کو قائم نہیں رکھا اور تم سے لڑنے لگے ہیں تو تم پر سے بھی اس کا احترام ساقط ہے۔ قاتلھم المشرکون عام الحدیبیۃ فی ذیقعدۃ قتالا خفیفا بالرمی بالسھام والحجارۃ فاتفق خروجھم لعمرۃ القضاء فیہ فکرھوا ان یقاتلوھم۔۔۔ فقیل ھذا الشھر بذلک وھت کہ بھتکہ فلا تبالوا بہ (روح ص 77 ج 2) وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ۔ اور عزت و حرمت والی چیزیں تو برابر اور عوض ومعاوضہ کی چیزیں ہیں۔ اگر وہ انکا احترام کریں تو تم بھی احترام کرو اور اگر وہ احترام نہ کریں تو تم پر بھی لازم نہیں۔369 یہ ماقبل پر متفرع ہے یعنی اگر وہ تم پر زیادتی کریں مثلاً شہر حرم میں تمہارے ساتھ لڑائی کی ابتدا کریں تو تم بھی جوابی کارروائی کرو مگر تمہاری جوابی کاروائی ان کے ظلم وعدوان سے بڑھ کر نہ ہو۔ عربی محاورات میں فعل کی جزا کو نفس فعل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شہر حرم میں تمہارے ساتھ لڑائی کی ابتدا کریں تو تم بھی جوابی کاروائی کرو مگر تمہاری جوابی کاروائی ان کے ظلم وعدوان سے بڑھ کر نہ ہو۔ عربی محاورات میں فعل کی جزا کو نفس فعل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی محاورے کے مطابق یہاں مسلمانوں کی جوابی کاروائی کو جو مشرکین کی زیادتی کی جزا تھی، اعتداء اور زیادتی سے تعبیر کیا ہے۔ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ۔ کیسا زریں اصول ہے یہ اسلام کا کہ دشمن سے انتقام لینے میں بھی خوف خدا کو بیچ میں رکھ دیا کہ کہیں دشمن پر زیادتی نہ ہوجائے اور پھر ساتھ ہی مسلمانوں کو اطمینان دلادیا کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو ہمیشہ میری مدد تمہارے شامل حال رہے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 حرمت کا مہینہ بدلہ اور عوض ہے حرمت کے مہینے کا اور یہ حرمتیں تو بدلے اور عوض معلومہ کی چیزیں ہیں لہٰذا جو شخص کسی چیز کی حرمت کا لحاظ نہ کرے اور تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی اسی نے تم پر زیادتی کی ہے یعنی اس کو اس زیادتی کی سزا دو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ کوئی معاملہ حد سے تجاوز نہ ہونے پائے اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ یعنی اس کی نصرت آمیز ہمدردیاں اور اس کی مہربانیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو خلاف آئین کام کرنے سے ڈرتے اور بچتے ہیں (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اگر کفار مکہ حرمت والے مہینہ کا احترام نہ کریں اور تم سے ماہ ذیقعدہ میں تفض عہد کرکے لڑنے پر آمادہ ہوجائیں تو تم بھی ماہ ذیقعدہ کی حرمت کے پابند نہیں ہو کیونکہ یہ حرمتیں خواہ اشہر حرام کی ہوں یا احرام کی ہوں یہ سب اولے بدلے اور مساویانہ سلوک کی چیزیں ہیں کوئی ان کا لحاظ کرے تو تم بھی کرو اور کافر نہ کریں تو تم بھی نہ کرو بلکہ جو زیاتی کرے اور ان چیزوں کی حرمت کا خیال نہ کرے تو تم بھی خیال نہ کرو جیسی وہ تم پر زیادتی کریں تم بھی ویسی زیادتی ان پر کرو۔ زیادتی کا مطلب وہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے کہ زیادتی کی سزا زیادتی نہیں ہے بلکہ محض مشاکلت کی وجہ سے اعتدا کا لفظ استعما ل کیا ہے ورنہ زیادتی کی سزا تو عین انصاف ہے اور مثل سے بھی وہی مراد ہے جو ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کیونکہ سزا میں حقیقی مماثلت بعض صورتوں میں ناممکن ہے بعض دفعہ مقابلہ کی وجہ سے بدلے اور سزا پر وہی لفظ بول دیا کرتے ہیں مگر مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ممکن ہو جرم کی سزا مجرم کو دو ہاں اتنا خیال رکھو کہ کسی حالت میں حد سے تجاوز نہ کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یعنی اگر کوئی کافر ماہ حرام کو مانے کہ اس میں تم سے نہ لڑے تو تم بھی اس سے نہ لڑو اور مکہ لوگ اسی مہینے میں ظلم کرتے رہے مسلمان پر پھر مسلمانان ان سے کیوں قصور کریں بلکہ سفر حدیبیہ ماہ ذیقعدہ میں تھا۔ عمرے کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گئے اور کافر لڑنے کو موجود ہوئے یہ آیت اس واسطے اتری کہ مسلمان خطرہ کرتے تھے کہ اگر ماہ حرام میں لگیں کافر لڑنے تو ہم کیا کریں۔ (موضح القرآن) علماء امت کا اس پر اجماع ہے کہ اب اشہر حرم میں قتل و قتال جائز ہے اور جن آیتوں سے ممانعت کا حکم معلوم ہوتا ہے وہ منسوخ ہے مگر اب بھی افضل اور بہتر یہی ہے کہ اشہر حرام میں قتال کی خود ابتدا نہ کریں اگر کافر ان مہینوں میں لڑیں تو مسلمان بھی ان سے لڑیں۔ دوسری بات یہ یاد رکھنی چاہئے کہ حرم بلکہ تمام جزیرئہ عرب میں کافروں کو وطن بنانے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ اوپر اس کی تصریح کردی گئی ہے البتہ حرم میں قتال کی ممانعت ہے اگر کوئی کافر حرم میں گھس کر بس جائے تو اس کو وہاں سے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے گی اور اس کو تنگ کیا جائے گا تاکہ وہ گھبرا کر حدود حرم سے باہر آجائے اور باہر آنے کے بعد اگر وہ جزیرئہ عرب چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو تو اس کو قتل کردیاجائے لیکن اگر کافر حرم سے نہ نکلیں اور جنگ پر آمادہ ہوجائیں تو مجبوراً ان کو حرم میں بھی قتل کرنا جائز ہوگا اور اگر کوئی مسلمان مجرم کسی کو ق تل کرکے حرم میں جاگھ سے تو اس کو بھی تنگ کرکے باہر نکالاجائے گا اور باہر اس کو سزا دی جائے گی اور حرم سے باہر نکال کر اس پر قصاص جاری ہوگا۔ آخر میں ہم پھر ایک دفعہ اس امر پر توجہ دلاتے ہیں کہ بعض تراجم یا بعض تفاسیر میں جو آپ اس موقع پر باہم کچھ فرحی محسوس کرتے ہیں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بعض حضرات ا ن آیتوں کا مفہوم عام رکھتے ہیں اور بعض حضرات آن آیات کا مضمون عمرے کی قضا کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ احقر نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے اس لئے یہ فرق معلوم ہوتا ہے آگے جہاد کی ایک مخصوص حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ (تسہیل)