Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 195

سورة البقرة

وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚ ۖ ۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚ ۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۹۵﴾

And spend in the way of Allah and do not throw [yourselves] with your [own] hands into destruction [by refraining]. And do good; indeed, Allah loves the doers of good.

اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to spend in the Cause of Allah Allah says; وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ... And spend in the cause of Allah and do not throw yourselves into destruction, Al-Bukhari recorded that Hudhayfah said: "It was revealed about spending." Ibn Abu Hatim reported him saying similarly. He then commented, "Similar is reported from Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Ata, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Qatadah, As-Suddi and Muqatil bin Hayyan." Aslam Abu Imran said, "A man from among the Ansar broke enemy (Byzantine) lines in Constantinople (Istanbul). Abu Ayub Al-Ansari was with us then. So some people said, `He is throwing himself to destruction.' Abu Ayub said, `We know this Ayah (2:195) better, for it was revealed about us, the Companions of Allah's Messenger who participated in Jihad with him and aided and supported him. When Islam became strong, we, the Ansar, met and said to each other, `Allah has honored us by being the Companions of His Prophet and in supporting him until Islam became victorious and its following increased. We had before ignored the needs of our families, estates and children. Warfare has ceased, so let us go back to our families and children and attend to them.' So this Ayah was revealed about us: وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (And spend in the cause of Allah and do not throw yourselves into destruction), the destruction refers to staying with our families and estates and abandoning Jihad'." This was recorded by Abu Dawud, At-Tirmidhi, An-Nasa'i, Abd bin Humayd in his Tafsir, Ibn Abu Hatim, Ibn Jarir, Ibn Marduwyah, Al-Hafiz Abu Ya`la in his Musnad, Ibn Hibban and Al-Hakim. At-Tirmidhi said; "Hasan, Sahih, Gharib." Al-Hakim said, "It meets the criteria of the Two Sheikhs (Al-Bukhari and Muslim) but they did not record it." Abu Dawud's version mentions that Aslam Abu Imran said, "We were at (the siege of) Constantinople. Then, Uqbah bin Amr was leading the Egyptian forces, while the Syrian forces were led by Fadalah bin Ubayd. Later on, a huge column of Roman (Byzantine) soldiers departed the city, and we stood in lines against them. A Muslim man raided the Roman lines until he broke through them and came back to us. The people shouted, `All praise is due to Allah! He is sending himself to certain demise.' Abu Ayub said, `O people! You explain this Ayah the wrong way. It was revealed about us, the Ansar when Allah gave victory to His religion and its following increased. We said to each other, `It would be better for us now if we return to our estates and attend to them.' Then Allah revealed this Ayah (2:195)'." Abu Bakr bin Aiyash reported that Abu Ishaq As-Subai`y related that; a man said to Al-Bara bin Azib, "If I raided the enemy lines alone and they kill me, would I be throwing myself to certain demise?" He said, "No. Allah said to His Messenger: فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ (Then fight (O Muhammad) in the cause of Allah, you are not tasked (held responsible) except for yourself. (4:84) That Ayah (2:195) is about (refraining from) spending." Ibn Marduwyah reported this Hadith, as well as Al-Hakim in his Mustadrak who said; "It meets the criteria of the Two Sheikhs (Al-Bukhari and Muslim) but they did not record it." Ath-Thawri and Qays bin Ar-Rabi related it from Al-Bara. but added: لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ (You are not tasked (held responsible) except for yourself. (4:84) "Destruction refers to the man who sins and refrains from repenting, thus throwing himself to destruction." Ibn Abbas said: وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (And spend in the cause of Allah and do not throw yourselves into destruction), "This is not about fighting. But about refraining from spending for the sake of Allah, in which case, one will be throwing his self into destruction." The Ayah (2:195) includes the order to spend in Allah's cause, in the various areas and ways that involve obedience and drawing closer to Allah. It especially applies to spending in fighting the enemies and on what strengthens the Muslims against the enemy. Allah states that those who refrain from spending in this regard will face utter and certain demise and destruction, meaning those who acquire this habit. Allah commands that one should acquire Ihsan (excellence in the religion), as it is the highest part of the acts of obedience. Allah said: ... وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ and do good. Truly, Allah loves Al-Muhsinin(those who do good).

حق جہاد کیا ہے؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( بخاری ) اور بزرگوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی بیان فرمایا ہے ، حضرت ابو عمران فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ایک نے قسطنطنیہ کی جنگ میں کفار کے لشکر پر دلیرانہ حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتا ہوا ان میں گھس گیا تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ دیکھو یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اس آیت کا صحیح مطلب ہم جانتے ہیں سنو! یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اٹھائی آپ کے ساتھ جنگ وجہاد میں شریک رہے آپ کی مدد پر تلے رہے یہاں تک کہ اسلام غالب ہوا اور مسلمان غالب آگئے تو ہم انصاریوں نے ایک مرتبہ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کے ساتھ ہمیں مشرف فرمایا ہم آپ کی خدمت میں لگے رہے آپ کی ہمرکابی میں جہاد کرتے رہے اب بحمد اللہ اسلام پھیل گیا مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا لڑائی ختم ہو گئی ان دنوں میں نہ ہم نے اپنی اولاد کی خبر گیری کی نہ مال کی دیکھ بھال کی نہ کھیتیوں اور باغوں کا کچھ خیال کیا اب ہمیں چاہئے کہ اپنے خانگی معاملات کی طرف توجہ کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، پس جہاد کو چھوڑ کر بال بچوں اور بیوپار تجارت میں مشغول ہو جانا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے ( ابوداود ، ترمذی ، نسائی وغیرہ ) ایک اور روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہاں گھر جاؤں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا ؟ آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے آیت ( فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 4 ۔ النسآء:84 ) اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتا رہ تو اپنی جان کا ہی مالک ہے اسی کو تکلیف دے یہ آیت تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( ابن مردویہ وغیرہ ) ترمذی کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنے تئیں ہلاک کرنا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرات کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے ، حضرت ضحاک بن ابو جبیرہ فرماتے ہیں کہ انصار اپنے مال اللہ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے لیکن ایک سال قحط سالی کے موقع پر انہوں نے وہ خرچ روک لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد بخل کرنا ہے ، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ گنہگار کا رحمت باری سے ناامید ہو جانا یہ ہلاک ہونا ہے اور حضرات مفسرین بھی فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں پر آپ ہلاک ہونا ہے ، تہلکۃ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے ، قرطبی وغیرہ سے روایت ہے کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکوں مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ ۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جن کے پاس کچھ ہے حکم ہو رہا ہے کہ تم احسان کرو تاکہ اللہ تمہیں دوست رکھے نیکی کے ہر کام میں خرچ کیا کرو بالخصوص جہاد کے موقعہ پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو یہ دراصل خود تمہاری ہلاکت ہے ، پس احسان اعلیٰ درجہ کی اطاعت ہے جس کا یہاں حکم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بیان ہو رہا ہے کہ احسان کرنے والے اللہ کے دوست ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

195۔ 1 اس سے بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری صورتیں ہلاکت کی ہیں جہاد چھوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقینا دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور نتیجہ تباہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥٨] اس آیت کی بہترین تفسیر درج ذیل حدیث میں موجود ہے۔ حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اللہ نے اسلام کو عزت دی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں ایک دوسرے سے کہا کہ بلاشبہ ہمارے مال خرچ ہوگئے۔ اب اللہ نے اسلام کو عزت دی ہے اور اس کے مددگاروں کو زیادہ کردیا ہے۔ تو اب اگر ہم اپنے اموال سنبھال رکھیں اور جو کچھ خرچ ہوچکا اس کی تلافی شروع کردیں (تو کوئی بات نہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو کچھ ہم نے آپس میں کہا تھا اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ ہلاکت سے مراد اموال کی نگرانی، ان کی اصلاح اور جہاد کو چھوڑ دینا ہے۔ && (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) گویا اموال کو جہاد میں خرچ نہ کرنے کو اس قوم کی ہلاکت قرار دیا گیا ہے۔ [٢٥٩] کسی حکم کو بجا لانے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بس اس کی تعمیل کردی جائے اور دوسری یہ کہ اسے دل کی رغبت، محبت اور نہایت احسن طریقے سے بجا لایا جائے۔ پہلی صورت اطاعت ہے اور دوسری احسان۔ احسان اطاعت کا بلند تر درجہ ہے اور عدل کا بھی۔ حدیث میں ہے کہ جبریل جب تمام صحابہ (رض) کے سامنے اجنبی صورت میں آپ کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ احسان کیا ہے۔ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ تو && اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے && اور یہ تو ظاہر ہے کہ عبادت صرف نماز فرض یا نوافل کا ہی نام نہیں بلکہ جو کام بھی اللہ کے احکام کی بجاآوری کے لیے اس کا حکم سمجھ کر کیا جائے وہ اس کی عبادت ہی کی ضمن میں آتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے، معاملات سے ہو یا مناکحات سے ان میں سے ہر ایک کام کو بنا سنوار کر اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ نیز دل کی رغبت اور محبت سے بجا لانے کا نام احسان ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس سے پہلی آیت میں قتال فی سبیل اللہ کا حکم ہے، یہ آیت بھی اسی حکم کی تکمیل ہے، یعنی جہاد میں اور اس کی تیاری میں خرچ کرتے رہو اور اس میں کوتاہی کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، کیونکہ اس صورت میں کفار تم پر غالب آجائیں گے، جو سراسر ہلاکت ہے۔ اسلم تجیبی کہتے ہیں کہ ہم مدینۂ روم (قسطنطنیہ) میں تھے، انھوں نے ہمارے مقابلے کے لیے رومیوں کی ایک بہت بڑی جماعت نکالی، ان کے مقابلے میں اتنے ہی یا ان سے زیادہ مسلمان نکلے، اہل مصر پر عقبہ بن عامر (رض) اور جماعت پر فضالہ بن عبید (رض) (امیر) تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے رومیوں کی صف پر حملہ کردیا، یہاں تک کہ ان میں داخل ہوگیا، لوگ چیخ اٹھے اور کہنے لگے، سبحان اللہ ! یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے، تو ابو ایوب انصاریٰ (رض) کھڑے ہوئے، انھوں نے فرمایا، تم آیت کا یہ مطلب سمجھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تو ہم انصار کی جماعت کے بارے میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چھپا کر دوسروں سے کہا کہ ہمارے اموال (یعنی کھیت اور باغات وغیرہ) ضائع ہوگئے، اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی ہے اور اس کے مدد گار بہت ہوگئے ہیں، چناچہ ہم اگر اپنے اموال میں ٹھہر جائیں اور جو ضائع ہوگئے ہیں انھیں درست کرلیں (تو بہت رہے) ، تو اللہ تعالیٰ نے ہماری بات کی تردید کرتے ہوئے یہ آیت اتار دی :” اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو۔ “ [ البقرۃ : ١٩٥ ] تو ” ہلاکت “ ہمارا اپنے اموال میں ٹھہر جانا، انھیں درست کرنا اور جنگ کو چھوڑ دینا تھا۔ ابو ایوب (رض) اللہ کے راستے ہی میں نکلے رہے یہاں تک کہ روم کی سرزمین میں دفن ہوئے۔ [ ترمذی، التفسیر، باب و من سورة البقرۃ : ٢٩٧٢ و صححہ الألبانی ] حذیفہ بن یمان (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت نفقہ کے بارے میں تری۔ [ بخاری، قبل ح : ٤٥١٦ ] ابو اسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا، اگر آدمی مشرکین پر حملہ کر دے تو کیا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا، نہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : (فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ) [ النساء : ٨٤ ] ” پس اللہ کے راستے میں جنگ کر، تجھے تیری ذات کے سوا کسی کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ “ [ أحمد : ٤/٢٨١، ح : ١٨٤٧٧، وھو حسن ] صحابہ کرام (رض) کی اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ جب کسی اکیلے فدائی مسلم کے حملے سے دشمن کو نقصان پہنچنے کی امید ہو، یا اہل اسلام کی شجاعت سے کفار کے حوصلے پست کرنا مقصود ہو، یا شہادت پیش کیے بغیر دشمن کو نقصان پہنچانا ممکن نہ ہو تو فدائی حملے بالکل درست ہیں۔ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں ہے، بلکہ جہاد چھوڑ کر کاروبار میں مصروف ہوجانا اصل ہلاکت ہے۔ تاریخ اسلام میں غزوۂ بدر میں ابوجہل کے قاتل معوذ اور معاذ، غزوۂ خیبر میں ابو رافع یہودی کے قاتل عبداللہ بن عتیک، مدینہ میں کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ، خالد بن سفیان کے قاتل عبداللہ بن انیس (رض) کی کارروائیاں، حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کی موت پر بیعت، جنگ جسر میں ابو عبید ثقفی کی ہاتھی پر حملہ کرتے ہوئے شہادت، جنگ یمامہ میں براء بن مالک (رض) کا ساتھیوں سے کہنا کہ مجھے ڈھال پر بٹھا کر ڈھال کو نیزوں کے ساتھ بلند کر کے باغ کے اندر پھینک دو اور وہاں جا کر اسی (٨٠) زخم کھا کر بھی دروازہ کھول کر مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کرنا، بیہقی : ١٨٣٧٩) سلطان صلاح الدین ایوبی کے تیار کردہ فدائی جنھوں نے صلیبیوں کی کمر توڑ دی، الغرض ! بیشمار واقعات اس کے لیے شاہد ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی ہلاکت اور ذلت کا باعث یہی ہے کہ انھوں نے جہاد کی تیاری میں خرچ کرنے اور کفار سے لڑنے کے بجائے عیش و عشرت اور جان بچانے کو ترجیح دی تو کفار کے ہاتھوں نہ ان کی جانیں محفوظ رہیں نہ مال اور نہ عزتیں۔ اب بھی اگر اسلام کی آبرو کچھ باقی ہے تو جان قربان کرنے والے ان مجاہدین کے ذریعے سے، جن سے دنیائے کفر کے دل دہلتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Spending for Jihad The verse 195 introduces the tenth injunction under the theme of &righteousness& which began in Verse 177. So, in وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ (And spend in the way of Allah...), Muslims have been obligated to spend money and materials according to the need of Jihad ordered in the way of Allah. From here, jurists have deduced the ruling that Muslims have some other financial obligations as well in addition to the mandatory obligation of Zakah, but these are neither permanent nor bound by a &threshold& or quantity, instead, it is obligatory on all Muslims to provide everything as and when needed. Of course, should there be no need, nothing remains obligatory. The expenditure on Jihad is included under this provision. The literal meaning of the next sentence in this verse وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ as translated in the text are obvious. The verse forbids Muslims from throwing themselves into destruction by their own choice. However, the question remains: What does the expression, &put yourselves into destruction&, mean here? Commentators have explained it in different ways. The blessed Companion, Abu Ayyub al-Ansari (رض) said: &This verse was revealed about us. We can explain it best. It was when Allah gave Islam authority and power, we started talking that &Jihad& was not necessary any more, and that we could stay home and take care of our wealth and property&. Thereupon, this verse was revealed which made it clear that &destruction& at this place means &the abandonment of Jihad&. This proves that the banishing of Jihad from Muslim lives is the cause of their degradation and destruction. This is why the blessed Companion Abu Ayyub al-Ansari spent his entire life in Jihad, out of Madinah, his home, so much so, that he met the end of his life in Constantinople (Istanbul), Turkey and was buried there. The same approach to the meaning of this verse has been reported from the earliest authorities in Tafsir, such as, Sayyidna Ibn ` Abbas, Hudhayfah, Qatadah, Mujahid and Dahhak. Sayyidna Bar-a& ibn &Azib (رض) said that to lose hope in the mercy and forgiveness of Allah is to go for personal destruction voluntarily; therefore, to lose hope in Forgiveness is forbidden. Others say that exceeding the limit while spending in the way of Allah so much so that the rights of the family are compromised thereby, is the act identified as &putting yourself into destruction&; so, such excess in expenditure is not permissible. Still others think that the verse makes it unlawful to throw oneself into an offensive fighting in a situation when it is already obvious that one will be unable to do anything against the enemy other than dying at their hands. Notwithstanding the apparently various interpretations of this verse, al-Jassas synthesizes these by saying that all these rules can be inferred from this verse. The last sentence of the verse (195):& وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِي : (And do good. Of course, Allah loves those who do good), gives an incentive to do everything nicely. The Holy Qur&an calls this Ihsan احسان . Now, doing something nicely, can take two forms. When ihsan relates to ` Ibadah عبادہ (worship), its meaning has been explained by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself in the well-known hadith of Jibra&il (علیہ السلام) where he said that &you should worship Allah as if you are seeing Him, and if you cannot achieve that degree of perception, then you should, at the least, believe that Allah Almighty is seeing you&. And when it (ihsan احسان) relates to social transactions and dealings, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has explained Ihsan by saying (as reported in the Musnad of Ahmad on the authority of the noble Companion Mu` adh (رض) ) that &you should like for others what you like for yourselves, and in the same manner, you should dislike for others what you dislike for yourselves& (Mazhari).

دسواں حکم جہاد کے لئے مال خرچ کرنا : وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اس میں مسلمانوں پر لازم کیا گیا کہ جہاد کے لئے بقدر ضرورت اپنے اموال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کریں اس سے فقہاء نے یہ حکم بھی نکالا ہے کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کے علاوہ بھی دوسرے حقوق فرض ہیں مگر وہ نہ دائمی ہیں اور نہ ان کے لئے کوئی نصاب اور مقدار متعین ہے بلکہ جب وہ جتنی ضرورت ہو اس کا انتظام کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے اور ضرورت نہ ہو تو کچھ فرض نہیں جہاد کا خرچ بھی اسی میں داخل ہے، وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ کے لفظی معنے تو ظاہر ہیں کہ اپنے اختیار سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے اب یہ بات کہ ہلاکت میں ڈالنے سے اس جگہ کیا مراد ہے ؟ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں اور امام جصاص رازی نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی تضاد نہیں سب ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے ہم اس کی تفسیر بخوبی جانتے ہیں، بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ اور قوت عطا فرما دیا تو ہم میں یہ گفتگو ہوئی کہ اب جہاد کی کیا ضرورت ہے ہم اپنے وطن میں ٹھہر کر اپنے مال وجائداد کی خبر گیری کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے یہ بتلا دیا کہ ہلاکت سے مراد اس جگہ ترک جہاد ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ ترک جہاد مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے اسی لئے حضرت ابوایوب انصاری نے عمر بھر جہاد میں صرف کردی یہاں تک کہ آخر میں قسطنطنیہ میں وفات پاکر وہیں مدفون ہوئے، حضرت ابن عباس، حذیفہ، قتادہ، مجاہد، ضحاک ائمہ تفسیر سے بھی یہی مضمون منقول ہے، حضرت براء بن عازب نے فرمایا کہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس ہوجانا اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنا ہے اس لئے مغفرت سے مایوس ہونا حرام ہے، بعض حضرات نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا کہ بیوی بچوں کے حقوق ضائع ہوجائیں یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ایسا اسراف جائز نہیں بعض حضرات نے فرمایا کہ ایسی صورت میں قتال کے لئے اقدام کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے جبکہ یہ اندازہ ظاہر ہے کہ دشمن کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے خود ہلاک ہوجائیں گے ایسی صورت میں اقدام قتال اس آیت کی بناء پر ناجائز ہے، اور جصاص کے فرمانے کے مطابق یہ سب ہی احکام اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں۔ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ اس جملے میں ہر کام کو اچھی طرح کرنے کی ترغیب ہے اور کام کو اچھی طرح کرنا جس کو قرآن میں احسان کے لفظ سے تعبیر کیا ہے دو طرح کا ہے ایک عبادت میں دوسرے آپس کے معاملات ومعاشرت میں عبادت میں، احسان کی تفسیر حدیث جبرئیل میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ ایسی طرح عبادت کرو جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو کم ازکم یہ تو اعتقاد لازم ہی ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ اور معاملات ومعاشرت میں احسان کی تفسیر مسند احمد میں بروایت حضرت معاذ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ تم سب لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور جس چیز کو تم اپنے لئے برا سمجھتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی برا سمجھو (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۝ ٠ ۚ ۖۛ وَاَحْسِنُوْا۝ ٠ ۚۛ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٩٥ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٥) عمرہ قضا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے اپنا ہاتھ نہ روکو تاکہ تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو خود ہلاکت میں مت مبتلا کرو اور ایک یہ تفسیر کی گئی ہے کہ نیک کاموں سے مت رکو کہ کہیں تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ یعنی رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہو کر پھر ہلاکت میں گرفتار ہوجاؤ، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھو اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ راہ خدا میں اچھی طرح خرچ کرو اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں، (آیت) ”۔ وقاتلوا فی سبیل اللہ “۔ سے لے کر یہاں تک یہ آیات ان حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو حدیبیہ سے اگلے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ احرام کی حالت میں عمرہ قضا کرنے کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔ شان نزول : (آیت) ” وانفقوفی سبیل اللہ “ (الخ) امام بخاری (رح) نے حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ نفقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام ابو داؤد اور ترمذی (رح) نے سحت کے ساتھ اور نیز امام حاکم اور ابن حبان (رح) نے ابوایوب (رض) سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا اے گروہ انصار یہ آیت کریمہ ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت عطا فرما دی اور اس کے مددگار زیادہ ہوگئے تو ہم میں سے بعض نے بعض سے خفیہ طور پر یہ کہا کہ ہمارے مال یوں ہی ضائع ہورہے ہیں اور آب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے لہٰذا اگر اب ہم اپنے مال کا خیال کریں اور ضائع ہونے سے ان کی حفاظت کریں تو بہتر ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہماری باتوں کی تردید میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال بھی خرچ کرو اور اپنے آپ کو تباہی میں نہ ڈالو تو مال کی ہلاکت کی نگرانی اور اس کی حفاظت جہاد کو چھوڑنا ہے۔ طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ ابوجبیرہ بن ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ انصار صدقہ و خیرات کرتے تھے اور جتنی اللہ تعالیٰ توفیق دیتے غرباء کو مال بھی دیتے تھے ایک مرتبہ ان پر کچھ تنگی آگئی تو وہ اس کام سے رک گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتار دی کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، نیز امام طبرانی (رح) ہی نے صحیح سند کے ساتھ نعمان بن بشیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ انسان سے گناہ سرزد ہوجاتا تو وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ خدا اسے معاف نہیں فرمائے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اتاری کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اس حدیث کے لیے ایک اور گواہ بھی موجود ہے جس کو امام حاکم (رح) نے حضرت براء سے روایت کیا ہے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٥ (وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ ج) ۔ یعنی جس وقت اللہ کے دین کو روپے پیسے کی ضرورت ہو اس وقت جو لوگ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے جی چراتے ہیں وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ تبوک کے موقع پر عام اپیل کی اور اس وقت جو لوگ اپنے مال کو سمیٹ کر بیٹھے رہے تو گویا انہوں نے اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈال دیا۔ (وَاَحْسِنُوْا ج) ۔ اپنے دین کے اندر خوبصورتی پیدا کرو۔ دین میں بہتر سے بہتر مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ دنیا میں آگے سے آگے اور دین میں پیچھے سے پیچھے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین میں یہ دیکھیں گے کہ کم سے کم پر گزارا ہوجائے ‘ جبکہ دنیا کے معاملے میں آگے سے آگے نکلنے کی کوشش ہوگی ع ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ! یہ جستجو جو دنیا میں ہے اس سے کہیں بڑھ کر دین میں ہونی چاہیے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : (فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ) پس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرو۔ ( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) ۔ حدیث جبرائیل ( علیہ السلام) (جسے اُمّ السُّنّۃ کہا جاتا ہے) میں حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوال کیے تھے : (١) اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَام مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے (کہ اسلام کیا ہے ؟ ) (٢) اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَان مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے (کہ ایمان کیا ہے ؟ ) (٣) ‘ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَان مجھے احسان کے بارے میں بتایئے (کہ احسان کیا ہے ؟ ) احسان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) (٢٣) (احسان یہ ہے ) کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ‘ پھر اگر تو اسے نہ دیکھ سکے (یعنی یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے) تو (کم از کم یہ خیال رہے کہ) وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ دین کے سارے کام ‘ عبادات ‘ انفاق اور جہاد و قتال ایسی کیفیت میں اور ایسے اخلاص کے ساتھ ہوں گویا تم اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہے ہو ‘ اور اگر یہ مقام اور کیفیت حاصل نہ ہو تو کم سے کم یہ کیفیت تو ہوجائے کہ تمہیں مستحضر رہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ احسان ہے۔ عام طور پر اس کا ترجمہ اس انداز میں نہیں کیا گیا۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ ویسے یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ سورة المائدۃ میں آئے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

207. 'To spend in the way of Allah' signifies financial sacrifice in order to establish God's religion. Not to make any financial sacrifice but to be inclined, instead, to hold personal interests dear to one's heart will lead to one's ruin both in this world and in the Next. Allah will set the unbelievers to dominate over you in this world and condemn you in the Next world. 208. The root of the word ihsan is HSN, which means doing something in a goodly manner. One standard of conduct is merely to perform the task entrusted to one. The other and higher standard is to perform that task in a wholesome manner, to devote all one's capacities and resources to its fulfilment, to do one's duty with all one's heart. The first standard is that of ordinary obedlence for which it is enough that a man should fear God. The other and higher standard is that of ihsan (moral and spiritual excellence) for which it is necessary that one should have a strong love for God and a profound attachment to Him.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :207 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے ، تو یہ تمہارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہو گا اور آخرت میں بھی ۔ دنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت باز پرس ہو گی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :208 احسان کا لفظ حسن سے نکلا ہے ، جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں ۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو ، اسے بس کردے ۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے ، اپنی پوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کر دے اور دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے ۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے ، جس کے لیے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہو جاتا ہے ۔ اور دوسرا درجہ احسان کا درجہ ہے ، جس کے لیے محبت اور گہرا قلبی لگاؤ درکار ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

125: اشارہ یہ ہے کہ اگر تم نے جہاد میں خرچ کرنے سے بخل سے کام لیا اور اس کی وجہ سے جہاد کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے تو یہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کی مرادف ہوگا، کیونکہ اس کے نتیجے میں دُشمن مضبوط ہو کر تمہاری ہلاکت کاسبب بنے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بخاری نے حضرت حذیفہ (رض) سے جو شان نزول اس آیت کی بتائی ہے اس کی صراحت حضرت ابوایوب انصاری (رض) کی حدیث میں ہے جس کو ابوداؤد، ترمذی، حاکم، نسائی اور ابن حبان وغیرہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے شرط شیخین پر اس کو صحیح کہا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم انصار لوگ چند لڑائیاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمراہی میں لڑ چکے تو ایک دن ہم چند انصاروں نے خفیہ طور پر آپس میں مشورہ کیا کہ اب تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اہل اسلام بہت ہیں اگر ہم چند لڑائیوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ جائیں تو اس میں ایسا ہوگا کہ مدتوں گھر سے باہر رہنے میں اخراجات جو پڑے ہیں اس کی تلافی ہوجائے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور فرمایا کہ اس طرح کے اخراجات سے ہاتھ کو روکنا موجب ہلاکت ہے۔ ١۔ ایسی ہلاکت میں اپنے آپ کو مت ڈالو۔ اور آئندہ نیک کام میں لگے رہو۔ اس طرح کے برے وسوسوں سے بچو صحابہ کے زمانہ میں یہ ایک بات رائج تھی کہ ایک خاص معاملہ میں ایک آیت نازل ہو کر پھر دوسرا کوئی معاملہ ایسا ہو کہ جس پر اس آیت کا مطلب صادق آتا ہو تو اس دوسرے معاملہ کو بھی آیت کی شان نزول قرار دیتے تھے چناچہ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے اصل شان نزول تو وہی ہے جو حضرت حذیفہ (رض) اور حضرت ابو ایوب (رض) سے بیان ہوچکی اب نعمان بن بشیر (رض) سے طبرانی کی روایت میں یا اور بعض صحابہ سے تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں شان نزول اس آیت میں یہ امر جو بیان ہوا ہے کہ انصار لوگ صدقہ دیا کرتے تھے ایک سال قحط پڑا تو وہ قحط سے ڈر کر صدقہ سے ہاتھ کو روکنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یا ایسا شخص جو گناہ کر کے توبہ سے مایوس ہو کر بیٹھ رہے اس کے حق میں یہ آیت اتری ہے یا ایسے مجاہدین جو بلا خرچ جہاد کو چلے جائیں اور وہاں تکلیف اٹھائیں ٢ ان کے حق میں یہ آیت اتری ہے مطلب اس سے یہی ہے کہ ان معاملات پر بھی اس آیت کا مضمون صادق آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:195) انفقوا۔ فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ انفاق (افعال) مصدر تم خرچ کرو۔ لا تلقوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر، القاء (افعال) جمع مذکر حاضر، تم مت ڈالو۔ لقی مادہ ۔ قرآن مجید میں ہے۔ کلما القی فیہا فوج (67:8) جب بھی اس میں کوئی جماعت ڈالی جائے گی۔ بایدیکم۔ باء حرف جار۔ ایدیکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے ہاتھ ۔ بمعنی اپنے ہاتھوں ۔ اس سے قبل انفسکم محذوف ہے تقدیر عبارت یوں ہے ولا تلقوا انفسکم بایدیکم الی النھلۃ۔ اور نہ پھینکو (یا نہ ڈالو) اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی میں۔ التہلکۃ۔ ھلک (باب ضرب و سمع) سے مصدر ہے ہلاک ہونا۔ تباہ ہونا۔ ہلاکت۔ تباہی۔ احسنوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر، احسان (افعال) مصدر ۔ تم نیکی کرو۔ المحسنین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ احسان سے ۔ نیکی کرنے والے۔ اچھے کام کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ جو فرمایا ہے کہ اپنے ہاتھوں اس قید کا حاصل یہ ہے کہ باختیار کود کوئی امرخلاف حکم نہ کرے اور جو بلاقصد اختیار کچھ ہوجاوے تو وہ معاف ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تَوَلَّوا وَّاَعیُنُھُم تَفِیضُ مِنِ الدَّمعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوا یُنفِقُونَ (وہ لوٹتے ، مگر اس حال میں کہ ان کی آنکھیں اشک بار ہوتیں ، اس دکھ کی وجہ سے کہ ان کے پاس وہ کچھ نہیں ہے جسے وہ اس موقعہ پر خرچ کریں) قرآن مجید کی بیشمار آیات اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیشمار احادیث میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہے ۔ خصوصاً غازیوں کے سازوسامان کے لئے ۔ قرآن مجید میں بیشمار مقامات ایسے ہیں جہاں دعوت و جہاد کے ساتھ ساتھ دعوت انفاق بھی دی گئی ہے اور یہاں تو انفاق فی سبیل اللہ سے پہلو تہی کرنے کو ہلاکت اور بربادی سے تعبیر کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اس سے بچووَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (١٩٥) ” اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔ “ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے وہ بخیل ہوتے ہیں اور بخل کی وجہ سے نفس انسانی مردہ ہوجاتا ہے ۔ بخیل جس جماعت کا فرد ہے وہ اپنی ضعیفی کی وجہ سے مرگ مفاجات میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ بالخصوص ایسے نظام زندگی میں جو قائم ہی رضاکاری پر ہو ، جیسے کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں نظر آتا ہے۔ بطور تاکید مزید کہا جاتا ہے کہ انفاق سے بھی آگے بڑھو ۔ درجہ احسان تک جاپہنچو وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ” احسان کا معاملہ اختیار کرو ، بیشک اللہ تعالیٰ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔ “ اسلام میں جو مراتب ہیں ، احسان ان میں بلند ترین مرتبہ ہے ۔ احسان کی تعریف خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے۔” تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور جو انسان اس مقام بلند تک جا پہنچے ، اس کے لئے تمام دوسری عبادات ادا کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ تمام معاصی خود بخود چھوٹ جاتے ہیں اور ایسا شخص چھوٹے بڑے گناہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے ڈرتا ہے ۔ تنہائی میں اور محفل میں ہر جگہ اللہ کا خوف اس کے پیش نظر رہتا ہے۔ یہ وہ آخری نتیجہ ہے جس پر آیات جہاد کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور جہاد کے معاملہ میں نفس انسانی کو احسان کے سپرد کردیا جاتا ہے ، جو ایمان کا بلند ترین درجہ ہے ۔ اب یہاں سے حج ، عمرہ اور ان کے مناسک کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ سلسلہ کلام میں خود بخود ربط قائم ہوجاتا ہے ۔ پہلے بات چاند کے سول سے چلی تھی جواب دیا گیا کہ وہ لوگوں کے لئے اور حج کے دوران اوقات کے تعین کے لئے ہے ۔ پھر حج کے حرام مہینوں میں جنگ ، مسجد حرام کے قریب جنگ کی بات چلی اور اس کے بعد اب حج اور عمرہ کے احکام بیان ہوتے ہیں جو مسجد حرام میں میں سرانجام پاتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت مستدرک حاکم ص ٢٧٥ ج ٣ میں ابو عمران سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے اور امیر المومنین کی طرف سے مصر پر عقبہ بن عامر جہنی اور شام پر فضالہ عامل تھے رومیوں کی ایک بہت بڑی صف (جنگ کرنے کے لیے) سامنے آئی۔ مسلمانوں نے بھی ان کے سامنے بہت بڑی صف بنالی ایک مسلمان نے رومیوں کی صف پر حملہ کردیا۔ یہاں تک کہ وہ ان میں گھس گئے پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر وہاں سے نکلے۔ لوگ کہنے لگے کہ اس نے تو اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں ڈال دیا اس پر حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم اس آیت کا مطلب غلط لیتے ہو (اس کا یہ مطلب نہیں کہ دشمنوں سے قتال نہ کرو اور ان پر حملہ آور نہ ہو) یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غلبہ دے دیا اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو بعض انصار نے یوں کہا کہ ہمارے مال ضائع ہوگئے۔ لہٰذا اب اگر ہم مالوں کی دیکھ بھال کے لیے گھروں میں مقیم رہیں (تو شاید کچھ حرج نہ ہو) اللہ تعالیٰ شانہ، نے ہمارے ارادوں کی تردید فرمائی اور آیت کریمہ (وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (الایۃ) نازل فرمائی۔ جس سے معلوم ہوگیا کہ مالوں کی دیکھ بھال کے لیے گھروں میں بیٹھنے میں ہلاکت ہے۔ پس ہم کو جہاد کرنے کا حکم ہوا۔ حضرت ابوایوب (رض) موت آنے تک برابر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے سنن ترمذی کتاب التفسیر (تفسیر سورة البقرہ) میں بھی یہ واقعہ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ مروی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں : فلو اقمنا فی اموالنا واصلحنا ما ضاع منھا۔ (کہ اگر ہم اپنے مالوں میں قیام کرتے اور ان میں جو خرابی و خستگی آگئی ہے اسے ٹھیک کرلیتے تو اچھا تھا) اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالانازل فرمائی جس سے واضح ہوا کہ ہلاکت مالوں کی دیکھ بھال اور ان کی اصلاح کے لیے گھروں میں مقیم ہونے اور جہاد چھوڑنے میں ہے۔ آیت کے شان نزول سے معلوم ہوا کہ کافروں کے ساتھ جہاد کرتے رہنے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے رہنے میں اسلام اور مسلمان کی عزت و غلبہ ہے اور اس کو چھوڑنے میں ہلاکت ہے۔ جہاد کی اہمیت اور ضرورت : درحقیقت جہاد بہت بڑی چیز ہے اس میں بہت بڑی عزت ہے اس سے اللہ کی مدد آتی ہے اور اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ رہتا ہے۔ تاریخ الخلفاء ص ٨٧ میں ابوبکر صدیق (رض) کی مرویات میں بحوالہ طبرانی (فی المعجم الاوسط) حدیث نقل کی ہے۔ ما ترک قوم الجھاد الأعمھم اللّٰہ بالعذاب (جس قوم نے جہاد کو چھوڑ دیا اس پر اللہ تعالیٰ عام عذاب بھیج دیں گے) جب سے مسلمانوں نے فی سبیل اللہ جہاد کرنا چھوڑ دیا ہے اس کی وجہ سے عمومی عذاب بھی دیکھ رہے ہیں مسلمان جہاد کی طرف متوجہ نہیں، یا تو آپس میں لڑتے ہیں یا دشمن کی شہہ پر جنگ کرتے ہیں اور جنگ میں بھی وطن یا زبان کی عصبیتیں پیش نظر ہوتی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اور اللہ کی بات اونچی کرنے کے لیے جنگ کرنے کا دھیان بھی نہیں ہوتا۔ لامحالہ دشمن پیٹ دیتا ہے۔ اور جب ایک دشمن دوسرے دشمن کو مسلمانوں کا ملک دلواتا ہے تو اسی کے پاس فریاد لے کر چلے جاتے ہیں اور اسی کے فیصلوں پر راضی ہوجاتے ہیں اس طرح ہلاکت میں پڑ رہے ہیں۔ اللہ کی راہ میں جو جان و مال خرچ کرنے کا حکم ہے مسلمانوں کا کوئی ملک اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ فالی اللّٰہ المشتکیٰ وھو المستعان۔ یہ جو فرمایا : (وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ) اس کی ایک تفسیر تو وہی ہے جو شان نزول سے معلوم ہوئی اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے بیان فرمائی لیکن مفسرین نے اس کا مصداق بتاتے ہوئے اور بھی کئی چیزیں ذکر کی ہیں اور الفاظ کے عموم کے اعتبار سے بہت سی صورتیں اس میں شامل ہیں۔ مال کے خرچ کرنے میں اسراف کرنا، حلال ذریعہ معاش کو ضائع کرنا۔ خود کشی کرنا۔ قصداً و عمداً ایسے کام کرنا جس میں ہلاکت ہو۔ جن مواقع میں مال خرچ کرنا فرض یا واجب ہے وہاں خرچ کرنے سے جان چرانا، گناہوں میں مبتلا رہنا توبہ نہ کرنا۔ اور اس طرح کی بہت سی صورتیں ہیں جو جان کو ہلاکت میں ڈالنے کے ذیل میں آتی ہیں وہ سب ممنوع ہیں۔ صفت احسان اختیار کرنے کا حکم : آیت کے آخر میں فرمایا : (وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) لفظ اَحْسِنُوْا باب افعال میں ہے کہ امر کا صیغہ ہے۔ اور احسان حسن سے ماخوذ ہے۔ حسن خوبی اور اچھائی کو کہتے ہیں اور احسان کسی کام کو عمدہ طریقے پر انجام دینے کو کہا جاتا ہے جو کام کیے جائیں ان کی شرائط اور آداب کا خیال رکھا جائے۔ تاکہ ان میں صف احسان پیدا ہوجائے اور خوبی کے ساتھ انجام دینا صادق آجائے۔ حدیث جبریل میں ہے کہ انہوں نے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب سوال کیا کہ احسان کیا چیز ہے تو آپ نے عبادت کو احسان بتادیا اور فرمایا : ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک (احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے) زکوٰۃ کو صفت احسان کے ساتھ ادا کریں دکھاوا مقصود نہ ہو، ردی مال نہ دیں جس کو دیں اس پر احسان نہ دھریں، خوش دلی کے ساتھ دیں پوری زکوٰۃ نکالیں، حج میں جنایات نہ کریں۔ جنگ وجدال سے پرہیز کریں۔ حج کرکے نام کرنا مقصود نہ ہو۔ روزہ رکھیں، غیبت اور سب وشتم سے روزہ کی حفاظت کریں یہ سب صفت احسان میں شامل ہے انسانی ضرورت کے لیے جانوروں کے ذبح کرنے کی اجازت دی گئی لیکن اس میں بھی صفت احسان ملحوظ رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے بارے میں خوبی اختیار کرنے کا حکم فرمایا سو جب تم (کسی کو شریعت کی اجازت سے) قتل و قتال کرنے میں خوبی اختیار کرو (مثلاً ہاتھ پاؤں نہ کاٹ دو ، چہرہ نہ بگاڑ دو ) اور جب تم ذبح کرنے لگو تو خوبی کے ساتھ ذبح کرو اپنی چھری کو تیز کرلو اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ۔ (صحیح مسلم ص ١٥٢ ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

370 جہاد کے حکم کے بعد اب یہاں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے کیونکہ خرچ کے بغیر جہاد ناممکن ہے۔ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ سے بخل کر کے اور جہاد سے جی چرا کر اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ بترک الغزو الانفاق فیہ روح ص 77 ج 2) کیونکہ خرچ کے بغیر جہاد نہیں ہوسکتا اور جہاد کے بغیر نہ توحید قائم ہوسکتی ہے اور نہ مشرکین کا زور ٹوٹ سکتا ہے۔ وَاَحْسِنُوا۔ اور اپنے تمام اعمال کو اخلاص اور حسن نیت سے بجا لاؤ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مخلصین کو بہت پسند کرتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور تم اللہ کی راہ میں مال بھی خرچ کیا کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت و تباہی میں نہ ڈالو اور خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اچھے کام کیا کرو اور یقین مانو ! اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو خلوص و نیک نیتی کے ساتھ اچھے کام کیا کرتے ہیں (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے اور اس کے دین کو بلند کرنے کی غرض سے تم جس طرح اپنی جانیں دیتے ہو اسی طرح جہاد کے لئے مال بھی دیا کرو۔ اور دل کھول کر مال خرچ کیا کرو۔ اگر مجاہدین کی مالی ضروریات کو پورا نہ کرو گے اور سامان جنگ فراہم نہ کرکے خود اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہ کیا اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی بزدلی اور اپنے بخل کے باعث جہا د کو چھوڑ کے نہ بیٹھ جانا اگر ایسا کرو گے تو یہ مسلمانوں کی موت کے مترادف ہوگا اور اس کا یہ مطلب ہوگا کہ تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہ کیا کیونکہ جب تم مقابلہ نہ کرو گے اور بخیل وبزدل ہوجائو گے تو لا محالہ تمہارے مخالف تم پر چھا جائیں گے اور تم دوسروں کے محکوم اور غلام ہوجائو گے اور غلامانہ زندگی اور موت دونوں ایک ہی چیزیں ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی چھوڑ کر جہاد نہ بیٹھو اس میں تمہارا ہلاک ہے۔ (موضح القرآن) ابو عمران فرماتے ہیں کہ قسطنطنیہ کی جنگ میں ایک مہاجر مسلمان کافروں کی صفوں کو چیرتا ہوا اندر گھس گیا میں نے ابو ایوب انصاری سے کہا دیکھو اس شخص نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دیا یہ سن کر حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا۔ اس آیت کو میں خوب جانتا ہوں۔ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب اسلام پھیل گیا اور مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہوگیا تو ہم سب جمع ہوئے اور یہ رائے کرنے لگے کہ اب جہاد بند کرو اور اپنی کھیتی باڑی کا کام شروع کرو اور گھر بار کے دھندے میں لگو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہلاکت یہ نہیں جس کو تم ہلاکت سمجھ رہے ہو بلکہ ہلاکت یہ ہے کہ مسلمان جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہیں اور اپنے ا ہل اور اپنے مال میں مشغول ہوجائیں۔ ابن سنن عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے اس کو نقل کیا ہے آج کل مسلمان ترک جہاد کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور بعض بزدل مسلمانوں کا تو یہ حال ہے کہ معمولی سے خطرے کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور اس کو تہلکہ سے تعبیر کردیتے ہیں حالانکہ قرآن کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے یہ بزدل لوگ قرآن سے بالکل اس کے منشاء کے خلاف استدلال کرتے ہیں ۔ قرآن خطرے سے بچنے کو ہلاکت کہتا ہے یہ خطرے میں پڑنے کو ہلاکت سمجھتے ہیں۔ نعود بااللہ من ذالک۔ کسی قوم کو اپنی آزادی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے جنگ نہ کرنا تباہی اور ہلاکت ہے نہ یہ کہ جنگ کرنا جہاد کرتے رہنا ہلاکت اور تباہی ہے۔ رہا عدم استطاعت اور شرائط کا فقدان وہ ایک دوسری چیز ہے جس قدر استطاعت ہو اس سے تو دریغ نہ کرنا چاہئے۔ (تسہیل)