Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 206

سورة البقرة

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتۡہُ الۡعِزَّۃُ بِالۡاِثۡمِ فَحَسۡبُہٗ جَہَنَّمُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمِہَادُ ﴿۲۰۶﴾

And when it is said to him, "Fear Allah ," pride in the sin takes hold of him. Sufficient for him is Hellfire, and how wretched is the resting place.

اور جب اِ س سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے ایسے کے لئے بس جہنم ہی ہے اور یقینًا وہ بدترین جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالاِثْمِ ... And when it is said to him, "Fear Allah", he is led by arrogance to (more) crime. This Ayah indicates that when the hypocrite, who deviates in his speech and deeds, is advised and commanded to fear Allah, refrain from his evil deeds and adhere to the truth, he refuses and becomes angry and outraged, as he is used...  to doing evil. This Ayah is similar to what Allah said: وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ءَايَـتُنَا بَيِّنَـتٍ تَعْرِفُ فِى وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُواْ الْمُنْكَرَ يَكَـدُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ ءَايَـتُنَا قُلْ أَفَأُنَبِّيُكُم بِشَرٍّ مِّن ذلِكُمُ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَبِيْسَ الْمَصِيرُ And when Our clear verses are recited to them, you will notice a denial on the faces of the disbelievers! They are nearly ready to attack with violence those who recite Our verses to them. Say: "Shall I tell you of something worse than that The Fire (of Hell) which Allah has promised to those who disbelieved, and worst indeed is that destination! (22:72) This is why in this Ayah, Allah said: ... فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِيْسَ الْمِهَادُ So enough for him is Hell, and worst indeed is that place to rest. meaning, the Fire is enough punishment for the hypocrite. The Sincere Believer prefers pleasing Allah After Allah described the evil characteristics of the hypocrites, He mentioned the good qualities of the believers. Allah said:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

206۔ 1 تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور و انانیت ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧٤] یعنی اسکا پندار نفس یا انا اسے غرور وتکبر ہی کی راہ دکھلاتا ہے اور متکبرین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا۔ جنت کہنے لگی، پروردگار ! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں تو وہی لوگ آ رہے ... ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے اور دوزخ کہنے لگی کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں متکبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) اور ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون ؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے اور دوزخی ہر موٹا، بدمزاج اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ آیت اقسموا باللہ جھد ایمانہم)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَہُ اتَّقِ اللہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْـبُہٗ جَہَنَّمُ۝ ٠ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ۝ ٢٠٦ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے...  اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا :  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٦ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بالْاِثْمِ ) جب ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کا خوف کرو ‘ اللہ سے ڈرو ‘ تم باتیں ایسی خوبصورت کرتے ہو اور عمل تمہارا اتنا گھناؤنا ہے ‘ ذرا سوچو تو سہی ‘ تو اس کو اپنی جھوٹی انا اور عزت نفس گناہ پر اور جما دیتی ہے۔ ایک شخص وہ ہ... وتا ہے جس سے خطا ہوگئی تو اس نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اپنی اصلاح کرلی۔ جبکہ ایک شخص وہ ہے جس کا طرزعمل یہ ہوتا ہے کہ میں کیسے مان لوں کہ میری غلطی ہے ؟ اس کی جھوٹی انا اور جھوٹی عزت نفس اسے گناہ سے ہٹنے نہیں دیتی بلکہ مزید آمادہ کرتی ہے۔ (فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ط) سو اس کے لیے جہنم کافی ہے۔ (وَلَبِءْسَ الْمِہَادُ ) روایات میں آتا ہے کہ منافقین مدینہ میں ایک شخص اخنس بن شریق تھا ‘ یہ اس کا کردار بیان ہوا ہے۔ شان نزول کے اعتبار سے یہ بات ٹھیک ہے اور تاویل خاص میں اس کو بھی سامنے رکھا جائے گا ‘ لیکن درحقیقت یہ ایک کردار ہے جو آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ اصل میں اس کردار کو پہچاننا چاہیے اور اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرنی چاہیے کہ اس کردار سے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:206) اتق۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر اتقاء (افتعال) مصدر تو ڈر۔ وقی مادہ۔ اخذتہ العزۃ بالاثم۔ العزۃ۔ عزت ۔ غرور۔ غلبہ۔ بزرگی۔ عز۔ عزۃ۔ مصدر (باب ضرب) بالاثم۔ میں باء سببیہ ہے۔ غرور اور تکبر نے اس کو گناہ پر آمادہ کیا۔ حسبہ۔ اس کو بس ہے۔ اس کو کافی ہے۔ اس کو کفایت ہے۔ حسب مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غ... ائب مضاف الیہ ۔ حسب۔ کافی۔ کفایت۔ المھاد۔ اسم ۔ بچھونا۔ ٹھکانا۔ قرار گاہ۔ مھد۔ بشتر، گہوارہ۔ مھاد (بستر) کی جمع امھدۃ اور مھد ہے۔ فائدہ : علامہ بغوی (رح) تعالیٰ نے بروایت کلبی و مقاتل وعطا فرمایا ہے کہ اخنس بن شریق بنی زہرہ کا حلیف تھا۔ یہ شخص بہت شریں کلام اور خوبصورت ملیح تھا۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آتا تھا۔ بیٹھتا اور باتیں بناتا تھا۔ اور قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ مجھے آپ سے محبت ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس سے ملاطفت فرماتے تھے۔ واقع میں وہ منافق تھا۔ اس کے بارے میں آیات 204 تا 206 نازل ہوئیں۔ (آیت 206 میں لہ۔ اخذتہ اور فحسبہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اخنس کی طرف راجع ہے) اسی اخنس نے اپنے مخالف بنو ثقیف پر شب خون مار کر ان کی کھیتیاں جلادیں۔ اور ان کے مویشی ہلاک کردیئے۔ اور اپنے ایک مدیون کے پاس تقاضے کے لئے طائف گیا اور وہاں جاکر اس کی کھیتی جلا دی اور اس کی گدھی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ اگرچہ ابتدائے کلام میں ومن الناس من یعجبک ۔۔ سے اشارہ ایک واحد شخص کی طرف ہے جو بروایات اخنس بن شریق تھا ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ومن الناس سے مراد ایک ہی شخص ہو بلکہ اس سے بہت سے اشخاص بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ان آیات کا انطباق محض اسی ایک ہی شخص تک محدود نہیں۔ بلکہ جہاں کہیں بھی وہ صفات پائے جائیں گے وہاں یہ آیات چسپاں ہوں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اوپر کی آیتوں میں جمن الناس سے لے کردو قسم کے لوگ ذکر کیے یعنی طالب دنیا اور طالب آخرت۔ اب یہاں سے منافقین کے اوصاف کا بیان ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں چند ایسے چالباز لوگ تھے ان آیات میں ان کی صفات بیان فرماک ان سے چوکس رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (اقرطبی۔ فتح اقدیر) علما... ء تفیسر کے بیان کے مطابق یہ آیت گو اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اپنے معنی کے اعتبار سے ہر اس شخص کو شامل ہے جو ان صفات خمسہ کے ساتھ متصف ہو۔ (رازی) الدالخصام (سخت جھگڑالو) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا وہ شخص ہے جو بخٹ جھگڑالو ہو۔ ( فتح البیان بحوالہ صحیح بخاری) اور حدیث میں ہے کہ منافق آدمی جب جھگڑا تا ہے تو بد کلامی پر اترآتا ہے۔ اخذتہ العذہ بلا ثم۔ ( تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے گناہوں میں داخل ہے کہ جب اس کہا جائے اللہ تعا سے ڈرر تو الٹا نصیحت کر والے کو ڈانٹ دے اور کہے تم ہوتے کون ہو نصحیت کرنے والے تم اپنی نبی ڑو۔ ( فتح القدیر) یعجبک قو لہ فی الحیوہ الد نیاء یعنی دنیاوی زندگی اور اسباب معاش کے بارے میں حیرت انگیز معلومات رکھنے ولا۔ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان واخلاص کا یقین دلانے والے۔ مگر عملا تخریبی کاروائیوں میں مشغول رہ کر لوگوں کے جان و مال کو تباہ کرنے والا فھدہ خستہ خصال۔ (المنار)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سیاق کلام آگے بڑھتا ہے ۔ یہی تصور سامنے ہے کچھ لکیریں مزید کھینچی جاتی ہیں اور کچھ نشانات اور واضح ہوکر سامنے آتے ہیں ۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ” جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو اپنے وقار کیا خیال اس کو گناہ پ... ر جما دیتا ہے ۔ ایسے شخص کے لئے تو بس جہنم کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ۔ “ جب اسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہ زمین میں فساد برپا کرتا ہے ، کھیتوں کو غارت کرتا ہے ، انسانی نسل کو تباہ کرتا ہے ، تباہی و بربادی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ ایسے شخص کے سینے میں شروفساد اور کینہ کا جو لاوا پک رہا تھا وہ پھوٹ کر باہر نکل آتا ہے ۔ جب اس قسم کا شخص یہ سب کچھ کرنے لگتا ہے اور اسے نصیحت کی خاطر اللہ خوفی کی یاددہانی کے لئے اللہ کے غضب سے بچنے کے لئے اور اس محسن سے حیا کرنے کے لئے صرف یہ کہا جاتا ہے :” اللہ سے ڈرو “ (اتق اللہ) تو وہ سخت بگڑتا ہے کہ کیوں اس کے سامنے یہ جراءت کی گئی ۔ یہ بات اسے کیوں کہی گئی ، یہ تو بری چیز ہے ۔ اسے نیکی کی طرف متوجہ کرنے والے ہیں کون ؟ اس پر اعتراض کرنے والوں کو یہ جراءت کیسے ہوئی ۔ کیا یہ لوگ اسے ہدایت دے رہے ہیں چناچہ اسے اپنے وقار کا خیال ، حق پر نہیں ، انصاف پر نہیں ، بھلائی پر نہیں بلکہ گناہ پر جما دیتا ہے ۔ وہ جرم کو عزت سمجھنے لگتا ہے ۔ خطا کو صواب سمجھتا ہے ۔ گناہ کو نیکی تصور کرتا ہے اور حق کے مقابلے میں اکڑجاتا ہے ۔ گردن فرازی کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بڑی ڈھٹائی سے اتراتا ہے ۔ حالانکہ پہلے خود اس کی حالت یہ تھی کہ یہ اپنی نیک نیتی پر ہر وقت اللہ کو گواہ ٹھہراتا ، اور ہر وقت بھلائی ، نیکی ، یکسوئی اور حیاچشمی کا مظاہرہ کرتا۔ یہ ایک آخری (Touch) ہے ، جس سے اس تصویر کے خدوخال پورے ہوجاتے ہیں۔ یہ واضح تر ہوجاتی ہے اور اس کی کئی اقسام بھی سامنے آجاتی ہیں ۔ یہ تصویر اب زندہ متحرک مثالوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ کسی تردد کے بغیر آپ یہ کہہ سکتے ہیں :” وہ ہے ! وہ ہے ! وہ ہے ! جس کی تصویر قرآن مجید نے ان الفاظ میں کھینچی ہے ۔ غرض ایسے لوگ تمہیں زندہ اشخاص کی صورت میں ہر دور میں اور ہر جگہ نظرآئیں گے ۔ “ ان صفات کفر پر جم جانے ، گناہ کو وطیرہ بنالینے ، حق کے ساتھ دشمنی اختیار کرنے ، سنگدلانہ فساد بپا کرنے اور فسق وفجور پھیلانے غرض ان سب صفات کے مقابلے میں اللہ کا صرف ایک ہی تازیانہ آتا ہے ۔ تازیانہ عبرت ! جو اس قماش کے لوگوں کے لئے موزوں اور ان کے حالات کے مطابق ہے کیا ؟ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ” ایسے لوگوں کے لئے تو جہنم ہی علاج ہے جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔ “ کافی ہے ان کے بس ، کفایت یہ کفایت کرتی ہے ، جہنم جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے ۔ جہنم جس میں ایسے مفسدین کو الٹا کرکے گرایاجائے گا اور شیطان کا تمام لشکر اس میں الٹاکرکے گرایا جائے گا ۔ جہنم جس کی آگ دل کو جلاڈالے گی ۔ جس کی جلن بجلی کی طرح دل سے چیخیں نکال دے گی۔ جہنم جو ہر چیز کو نیست ونابود کردے گی ، جلا کر راکھ کردے گی ۔ جہنم جس کے شعلے خوفناک وغضبناک ہوں گے ........ یہ جہنم ہی اس کا علاج ہے ، بہت ہی براٹھکانہ ہے ۔ غور کیجئے ! کس قدر حقارت آمیز تصویر ہے جہنم کی ۔ اس حقیر ٹھکانے کی ۔ کس قدر بدحال ہوگا وہ شخص جس کا یہ ٹھکانہ ٹھہرے ۔ ابھی ابھی دنیا میں یہ شخص اکڑ کر چلتا تھا ۔ پھولا ہوا پھرتا تھا اور کبر و غرور کا عالم یہ تھا کہ برائی پر بھی جمن جاتا تھا ، لیکن اب کہاں ہے ؟ مقام ذلت میں !  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تکبر کی مذمت : جن لوگوں میں خالص دنیاوی جاہ اور مال کی طلب ہوتی ہے ان کے دلوں میں جھکاؤ نہیں ہوتا۔ وہ غرور نفس کی وجہ سے یہی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی حق کہنے والے کی بات قبول کرلی تو ہماری ہیٹی ہوجائے گی اور ناک کٹ جائے گی، کفرو شرک پر اور گناہوں پر اصرار کرتے رہتے ہیں اور حق قبول کرنے سے گریز ک... رتے ہیں۔ ان کا نفس انہیں حق قبول کرنے نہیں دیتا، ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا : (وَ اِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بالْاِثْمِ ) (کہ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے طور طریق اور طرز عمل میں اللہ سے ڈر تو اس کی حمیت اسے پکڑ لیتی ہے اور گناہ پر آمادہ رکھتی ہے) تکبر کیا ہے ؟ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا الکبر بطر الحق و غمط الناس یعنی حق کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ بہت سے اسلام کے دعویدار بھی حق کو ٹھکرا دیتے ہیں، جب کوئی شخص دین کی بات کرتا ہے اور گناہ چھوڑنے کو کہتا ہے یا کسی بات کی خیر خواہانہ نصیحت کرتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ تو کون ہے ہمیں نصیحت کرنے والا تو ہمارے سامنے کا بچہ ہے فلاں قوم کا فرد ہے، فلاں ملک کا رہنے والا ہے، یہ سب کبر ہے اور حق کو جھٹلانے کی باتیں ہیں۔ اوپر منافقوں اور مفسدوں کا طرز عمل بیان فرمایا اور اخیر میں فرمایا کہ ایسے شخص کو دوزخ کافی ہے اور دوزخ برا بچھونا ہے، مھاد عربی میں بستر کو کہتے ہیں، دوزخ میں اہل نفاق کا جو ٹھکانا بنے گا، اسے مھاد سے تعبیر فرمایا کیونکہ وہ ان کا مستقل ٹھکانا ہے۔ جو ان کو دنیا کے بستروں کی بجائے ملے گا۔ یہاں نرم بستروں پر سوتے تھے اور وہاں آگ کا بستر ہوگا اور آرام و راحت و نیند کا نام نشان نہ ہوگا۔ اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

394 اصل میں ذِلَّةٌ کی ضد ہے مگر یہاں اس سے نخوت اور غرور مراد ہے۔ العزۃ فی الاصل خلاف الذل وارید بھا الانفةوالحمیةمجازاً (روح ص 96 ج 2) اور پھر اس نفاق اور فطری خباثت کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی درجہ کا ضدی اور متکبر بھی ہے۔ یہاں تک کہ جب کوئی خیر خواہ ازراہِ نصیحت اسے خدا سے ڈرنے اور شر و فساد سے باز ... رہنے کی تلقین کرتا ہے تو نخوت اور غرور اسے اور گناہ پر آمادہ کردیتا ہے۔ اور وہ پہلے سے بھی بڑھ کر شروفساد میں حصہ لیتا ہے۔ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ۔ کسی ناصح مشفق کی نصیحت اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ اسے جہنم کی آگ سیدھا کرے گی جو بہت ہی بری جگہ ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور لوگوں میں سے بعض آدمی ایسا بھی ہے کہ جس کی باتیں اور اسکی گفتگوں جو محض دنیوی زندگی کی غرض اور مقصد سے ہوتی ہے آپ کو حیرت زدہ کردیتی ہے اور آپ کو وہ باتیں دل کش اور خوش کن معلوم ہوتی ہیں اور اسکی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کی قسمیں کھا کھا کر اور اپنے مافی الضمیر پر خدا شاہد خدا شاہد کہہ کر آ... پ کو یقین دلاتا ہے حالانکہ وہ آپ کی مخالفت کرنے والوں اور آپ سے مخاصمت رکھنے والوں میں سب سے زیادہ شدید الخصومت اور بڑا جھگڑالو ہے اور جب وہ آپ کے پاس سے اور آپ کی مجلس سے پیٹھ پھیر کرجاتا ہے تو وہ اس غرض سے دوڑ دھوپ کرتا پھرتا ہے اور کوشش کرتا ہے اور اس قسم کی تدابیر اختیار کرتا ہے کہ شہر میں کوئی فساد برپا کرے اور لوگوں کی کھیتیوں کو تباہ کردے اور مویشیوں کو تباہ کردے اور اللہ تعالیٰ فساد اور تباہ کاری کو پسند نہیں کرتا اور جب اس کو بطور نصیحت کہا جاتا ہے کہ اللہ کا خوف کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تو اس کا گھمنڈ اور غرور اور اس کا غرہ اور نخوت اور زیادہ اس کو گناہ پر ابھارتی اور آمادہ کرتی ہے لہٰذا ایسے شخص کی کافی سزا جہنم ہے اور وہ بہت بُری آرام گاہ ہے (یعنی جہنم) تیسیر) ہم نے تیسیر میں مفسرین کے تمام اقوال کا کم و بیش خلاصہ کردیا ہے یہ واقعہ یا لو ایک خاص شخص اخنس بن شریف سے تعلق رکھتا ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو قسمیں کھا کر آپ کی محبت اور آپ پر ایمان رکھنے کا یقین دلاتا اور جب واپس جاتا تو شرارت کرتا مسلمانوں کی پختہ کھیتیوں کو آگ لگا دیتا مویشیوں کو ہلاک کردیتا بعض لوگوں نے کہا کہ آیت عام ہے ہر منافق کو شامل ہے بلکہ ہر اس شخص کو شامل ہے جو کفر کو چھپائے اور ایمان کو ظاہر کرے اور جھوٹ کو چھپائے اور جھوٹ کو سچ کرکے ظاہر کرے۔ تعجب کے معنی ہیں اس شخص کو حیرت میں ڈال دینا ایسی چیز جس کو وہ نہ جانتا ہو اس کو اس طر ز پر ظاہر کرنا کہ وہ سچ سمجھ کر متحیر ہوجائے دنیوی زندگی کے کاموں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی غرض اور اس کا مقصد دنیوی زندگی ہوتا ہے بعنی دنیوی مقصد حاصل کرنے کی غرض سے خوب بنا بنا کر باتیں کرتا ہے اور قسمیں کھا کھا کر کہتا ہے کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور میرے دل میں بڑا پختہ ایمان ہے یا اللہ جانتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ حق اور سچ ہے یا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ میرے دل کی آواز ہے ۔ خصام یا تو مصدری معنی میں ہے یا خصیم کی جمع ہے ہم نے دونوں رعایتوں کے ساتھ تیسیر میں خلاصہ کیا ہے اور بھی بہت سے معنی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً باطل پر جھگڑا کرنے والا گناہ میں نہایت سخت ۔ بات کا جھوٹا۔ گفتگو دانائی سے کرنے والا اور عمل میں خطا کار۔ حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابغض الرجال الی اللہ الالد الخصام خدا تعالیٰ کی نظر میں سب لوگوں سے زیادہ مبغوض وہ ہے جو بڑا جھگڑالو اور مقدمہ باز ہو۔ سعی کے معنی دوڑنے کے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پائوں سے نہ دوڑے بلکہ فساد انگیز تدبیریں کرے جیسا کہ فاسعو ا الی ذکر اللہ میں ہے حالانکہ نماز کے لئے دوڑ کر چلنے کی ممانعت ہے مطلب یہ ہے کہ نماز کے کاموں میں لگ جائے اور دنیا کے کام جھوڑ دے۔ بہرک حال یہاں سعی سے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو قتل کرتا پھرے رہزنی کرے فوجداریاں کرتا پھرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فساد کی کوشش کرے ہم نے تیسیر میں ہر ایک معنی کی رعایت کردی ہے حرث اور نسل سے یہاں عام طور سے کھیتی اور مواشی مراد لئے گئے ہیں لیکن ان الفاظ میں بھی بڑی تعمیم ہے حتیٰ کہ ظالم بادشاہوں کا ظلم اور امرائے جور کے مظالم جو بارش کی رکاوٹ اور قحط کا موجب ہوتے ہیں ان کو بھی یہ آیت شامل ہے کیونکہ قحط کی وجہ سے نبانات اور مواشی تباہ ہوجاتے ہیں لواطت اور زنا کو بھی بعض لوگوں نے شامل کیا ہے کیونکہ یہ افعال بھی انقطاع نسل کا سبب ہیں زکوۃ ادا نہ کرنا بھی بارش کے رک جانے کا سبب ہوتا ہے۔ ( واللہ اعلم) یہ ایسا بےباک اور اللہ تعالیٰ سے نڈر ہے کہ جب اس کو خدا سے ڈرایاجاتا ہے تو گناہ پر اور جری ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں سب سے بڑا گناہ اللہ کے نزدیک یہ ہے کسی سے کہاجائے اور کوئی شخص اپنے بھائی سے کہے کہ خدا سے ڈر اور وہ جواب میں یہ کہے کہ اپنی خبر لے اور تو ڈر مجھ کو کیا کہتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ حال منافق کا کہ ظاہر میں خوشامد کرے اور اللہ کو گواہ کرے کہ میرے دل میں تمہاری محبت ہے اور جھگڑے کے وقت کچھ کمی نہ کرے۔ اور قابو پادے تو لوٹ اور مار مچا دے اور منع کرنے سے اور ضد چھڑے زیادہ گناہ کرے۔ ایک شخص اخنس بن شریق تھا اس نے حضرت ؐ سے یہی سلو ک کئے تھے۔ (موضح القرآن) اب آگے منافق کی مناسب سے مخلص مسلمان کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)  Show more