Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 213

سورة البقرة

کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ مَا اخۡتَلَفَ فِیۡہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡہُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ۚ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ مِنَ الۡحَقِّ بِاِذۡنِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۱۳﴾

Mankind was [of] one religion [before their deviation]; then Allah sent the prophets as bringers of good tidings and warners and sent down with them the Scripture in truth to judge between the people concerning that in which they differed. And none differed over the Scripture except those who were given it - after the clear proofs came to them - out of jealous animosity among themselves. And Allah guided those who believed to the truth concerning that over which they had differed, by His permission. And Allah guides whom He wills to a straight path.

در اصل لوگ ایک ہی گروہ تھے اللہ تعالٰی نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں ، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہو جائے ۔ اور صرف ان ہی لوگوں نے جنہیں کتاب دی گئی تھی ، جو اسے دیئے گئے تھے ، اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا اس لئے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی اور اللہ تعالٰی جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disputing, after the Clear Signs have come, indicates Deviation Allah says; كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ... Mankind was one community and Allah sent Prophets with glad tidings and warnings, and with them He sent down the Scripture in truth to judge between people in matters wherein they differed. And only those to whom (the Scripture) was given differed concerning it, after clear proofs had come unto them, through hatred, one to another. Ibn Jarir reported that Ibn Abbas said, "There were ten generations between Adam and Nuh, all of them on the religion of Truth. They later disputed so Allah sent the Prophets as warners and bringers of glad tidings." He then said that this is how Abdullah read the Ayah: كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْ تَلَفُوا The people were one Ummah and they then disputed. Al-Hakim recorded this in his Mustadrak and said, "Its chain of narrators is Sahih, but they (Al-Bukhari and Muslim) did not record it." Abu Jafar Razi reported that Abu Al-Aliyah said that Ubayy bin Ka`b read the Ayah as: كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ The people were one Ummah and they then disputed and Allah sent the Prophets as warners and bringers of glad tidings. Abdur-Razzaq said that Ma`mar said that Qatadah said that; Allah's statement: كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً (Mankind was one community) means; "They all had the guidance. Then: فَاخْتَلَفُوا فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ (They disputed and Allah sent Prophets). The first to be sent was Nuh." Abdur-Razzaq reported that Abu Hurayrah commented on: فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ امَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ (Then Allah by His leave guided those who believed to the truth of that wherein they differed), saying that the Prophet said: نَحْنُ الاخِرُونَ الاَْوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَحْنُ أَوَّلُ النَّاسِ دُخُولاً الْجَنَّــةَ بَيْدَ أَنَّهُم أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنا وأُوتِينَاهُ مِن بَعْدِهِمْ فَهَداَنا اللهُ لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقَّ بِإِذْنِهِ فَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ فَهَدَانَا اللهُ لَهُ فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ فَغدًا لِلْيَهُودِ وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارَى We are the last (nation), but the first (foremost) on the Day of Resurrection. We are the first people to enter Paradise, although they (Jews and Christians) have been given the Book before us and we after them. Allah has guided us to the truth wherever they disputed over it. This is the day (Friday) that they disputed about, Allah guided us to it. So, the people follow us, as tomorrow is for the Jews and the day after is for the Christians. Ibn Wahb related that Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that his father said about the Ayah: فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ امَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ (Then Allah by His leave guided those who believed to the truth of that wherein they differed), "They disputed about the day of Congregation (Friday). The Jews made it Saturday while the Christians chose Sunday. Allah guided the Ummah of Muhammad to Friday. They also disputed about the true Qiblah. The Christians faced the east while the Jews faced Bayt Al-Maqdis. Allah guided the Ummah of Muhammad to the true Qiblah (Ka`bah in Makkah). They also disputed about the prayer, as some of them bow down, but do not prostrate, while others prostrate, but do not bow down. Some of them pray while talking and some while walking. Allah guided the Ummah of Muhammad to the truth. They also disputed about the fast; some of them fast during a part of the day, while others fast from certain types of foods. Allah guided the Ummah of Muhammad to the truth. They also disputed about Ibrahim. The Jews said, `He was a Jew,' while the Christians considered him Christian. Allah has made him a Haniyfan Musliman. Allah has guided the Ummah of Muhammad to the truth. They also disputed about `Isa. The Jews rejected him and accused his mother of a grave sin, while the Christians made him a god and the son of God. Allah made him by His Word and a spirit from (those He created) Him. Allah guided the Ummah of Muhammad to the truth." Allah then said: ... بِإِذْنِهِ ... ...by His leave, According to Ibn Jarir meaning, `By His knowledge of them and by what He has directed and guided them to.' Also: ... وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء ... And Allah guides whom He wills, means from among His creation. Allah said, ... إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ...to the straight way. meaning, He commands the decision and the clear proof. Al-Bukhari and Muslim reported that Aishah narrated that; when Allah's Messenger used to wake up at night to pray, he would say: اللَّهُمَّ ربَّ جِبْرَايِيلَ وَمِيكَايِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّموَاتِ وَالاَْرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم O Allah, the Lord of (angels) Jibril, Mikhail and Israfil, Creator of the heavens and earth and Knower of the seen and the unseen. You judge between Your servants regarding what they have disputed in, so guide me to what have been the subject of dispute of the truth by Your leave. Indeed, You guide whom You will to the straight path. A Du`a (supplication) reads: اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلً وَارْزُقْنَا اجْتنِاَبَهُ وَلاَ تَجْعَلْهُ مُلْتَبِسًا عَلَيْنَا فَنَضِلَّ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا O Allah! Show us the truth as truth, and bestow adherence to it on us. Show us the evil as evil, and make us stay away from it, and do not confuse us regarding the reality of evil so that we will not be led astray by it, and make us leaders for the believers.

آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت نوح اور حضرت آدم کے درمیان دس زمانے تھے ان زمانوں کے لوگ حق پر اور شریعت کے پابند تھے پھر اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ، بلکہ آپ کی قرأت بھی یوں ہے آیت ( وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا ) 10 ۔ یونس:19 ) ابی بن کعب کی قرأت بھی یہی ہے ، قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے کہ جب ان میں اختلاف پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا پیغمبر بھیجا یعنی حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت مجاہد بھی یہی کہتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت مروی ہے کہ پہلے سب کے سب کافر تھے ، لیکن اول قول معنی کے اعتبار سے بھی اور سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے ، پس ان پیغمبروں نے ایمان والوں کو خوشیاں سنائی اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا ، ان کے ساتھ اللہ کی کتاب بھی تھی تاکہ لوگوں کے ہر اختلاف کا فیصلہ قانون الٰہی سے ہوسکے ، لیکن ان دلائل کے بعد بھی صر ف آپ کے حسد وبغض تعصب وضد اور نفسانیت کے بنا پر پھر اتفاق نہ کر سکے ، لیکن ایمان دار سنبھل گئے اور اس اختلاف کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ لگ گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آگے ہوں گے ، اہل کتاب کو کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ہمیں اس کے بعد دی گئی لیکن انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ پاک نے ہماری رہبری کی جمعہ کے بارے میں بھی نااتفاقی رہی لیکن ہمیں ہدایت نصیب ہوئی یہ کل کے کل اہل کتاب اس لحاظ سے بھی ہمارے پیچھے ہیں جمعہ ہمارا ہے ہفتہ یہودیوں کا اور اتوار نصرانیوں کا ، زید بن اسلم فرماتے ہیں جمعہ کے علاوہ قبلہ کے بارے میں بھی یہی ہوا نصاریٰ نے مشرق کو قبلہ بنایا یہود نے بھی ، ان میں بعض کی نماز رکوع ہے اور سجدہ نہیں ، بعض کے ہاں سجدہ ہے اور رکوع نہیں ، بعض نماز میں بولتے چلتے پھرتے رہتے ہیں لیکن امت محمد کی نماز سکون و وقار والی ہے نہ یہ بولیں نہ چلیں نہ پھریں ، روزوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا اور اس میں بھی امت محمدیہ کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے کوئی تو دن کے بعض حصے کا روزہ رکھتا ہے کوئی گروہ بعض قسم کے کھانے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمارا روزہ ہر طرح کامل ہے اور اس میں بھی راہ حق ہمیں سمجھائی گئی ہے ، اسی طرح حضرت ابراہیم کے بارے میں یہود نے کہا کہ وہ یہودی تھے نصرانیوں نے انہیں نصاری کہا لیکن دراصل وہ کسر مسلمان تھے پس اس بارے میں بھی ہماری رہبری کی گئی اور خلیل اللہ کی نسبت صحیح خیال تک ہم کو پہنچا دئیے گئے ، حضرت عیسیٰ کو بھی یہودیوں نے جھٹلایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت بدکلامی کی ، نصرانیوں نے انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا کہا لیکن مسلمان اس افراط وتفریط سے بچا لئے گئے اور انہیں روح اللہ کلمۃ اللہ اور نبی برحق مانا ، ربیع بن انس فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح ابتداء میں سب لوگ اللہ واحد واحد کی عبادت کرنے والے نیکیوں کے عامل برائیوں سے مجتنب تھے بیچ میں اختلاف رونما ہو گیا تھا پس اس آخری امت کو اول کی طرح اختلاف سے ہٹا کر صحیح راہ پر لگا دیا یہ امت اور امتوں پر گواہ ہو گی یہاں تک کہ امت نوح پر بھی ان کی شہادت ہوگی ، قوم یہود ، قوم صالح ، قوم شعیب اور آل فرعون کا بھی حساب کتاب انہی کی گواہیوں پر ہوگا یہ کہیں گے کہ ان پیغمبروں نے تبلیغ کی اور ان امتوں نے تکذیب کی ، حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیت ( واللہ یہدی ) الخ ، سے پہلے یہ لفظ بھی ہیں آیت ( ولیکونوا شہداء علی الناس یوم القیامۃ ) الخ ، ابو العالیہ فرماتے ہیں اس آیت میں گویا حکم ہے کہ شبہ ، گمراہی ، اور فتنوں سے بچنا چاہئے ، یہ ہدایت اللہ کے علم اور اس کی رہبری سے ہوئی وہ جسے چاہے راہ استقامت سجھا دیتا ہے ، بخاری ومسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تھے تو یہ پڑھتے دعا ( اللہم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشہادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اہدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تہدی من تشاء الی صراط مستقیم ۔ یعنی اے اللہ اے جبرائیل ومیکائل اور اسرافیل کے اللہ عزوجل اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے الہ العالمین ۔ اے چھپے کھلے کے جاننے والے اللہ جل شانہ تو ہی اپنے بندوں کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے میری دعا ہے کہ جس جس چیز میں یہ اختلاف کریں تو مجھے اس میں حق بات سمجھا تو جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دعا یہ بھی منقول ہے ( اللہم ارنا الحق حق وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاوارزقنا اجتنابہ ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل واجعلنا للمتقین اماما ) ۔ اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچا کہیں ایسا نہ کہ حق وباطل ہم پر خلط ملط ہوجائے اور ہم بہک جائیں اے اللہ ہمیں نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں کا امام بنا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

213۔ 1 یعنی توحید پر۔ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) ، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیاء دیتے رہے قائم رہے۔ آیت مفسرین صحابہ نے فاختَلَفُوْا منسوخ مانا ہے یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک و ظاہر پرستی عام ہوگئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلاف کا فیصلہ اور حق اور توحید قائم اور واضح کریں (ابن کثیر) 213۔ 2 اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور انحراف کا منبع بغض اور عناد بنتا ہے امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلاف کی شدت سے محفوظ رہی لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا اس سے اختلاف کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تاآنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیزیں بن کر رہ گیا ہے۔ 213۔ 3 مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعہ کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا یہود نے ان کو جھٹلایا اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور اللہ بنادیا اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرمانروا بندے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا ایک نے یہودی اور دوسرے نے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ (حنیفاً مُسْلِماً ) تھے اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨١] اس امت واحدہ کا طریق اور دین کیا تھا ؟ وہ تھا توحید خالص اور صرف اللہ اکیلے کی اطاعت اور بندگی۔ یہی چیز انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں سب سے پہلے انسان ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) خود نبی تھے۔ لہذا آپ (علیہ السلام) کی ساری اولاد اور آپ (علیہ السلام) کی امت اسی دین پر قائم تھی۔ مگر موجودہ دور کے مغربی علماء (جنہیں ہم مسلمانوں نے آج کل ہر شعبہ علم میں انہیں اپنا استاد تسلیم کرلیا ہے) جب مذہب کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز شرک کی تاریکیوں سے کیا، پھر اس پر کئی ادوار آئے اور بالآخر انسان توحید کے مقام پر پہنچا ہے اور یہی نظریہ ہمارے ہاں کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور یہ اسلام کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق بالکل غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ان ہولناک حوادثات کے مشاہدہ سے پیدا ہوا جو اس دنیا میں طوفانوں، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان ان دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا۔ جن کو انسان نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اس طرح انسان نے شرک سے دین کا آغاز کیا۔ یہ نظریہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ دنیا میں زلزلے طوفان، سیلاب اور وبائیں کبھی کبھار آتی ہیں۔ جبکہ دنیا کی بہاریں انسان کی پیدائش سے پہلے ہی موجود بھی تھیں اور بکثرت بھی تھیں۔ درختوں کو پھل لگتے تھے، فصلیں اگتی تھیں، بارشیں ہوتی تھیں۔ چاندنی پھیلتی تھی، تارے چمکتے، پھول کھلتے تھے۔ گویا انسان کے رزق اور رزق کے علاوہ اس کے جمال اور خوش ذوقی کے سامان پہلے سے ہی بکثرت موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تو ربوبیت کی یہ برکتیں اور رحمت کی شانیں پہلے تھیں یا اتفاقی حوادث ؟ یا یہ برکتیں تعداد میں زیادہ تھیں۔ یا ان کے مقابلہ میں اتفاقی حوادث ؟ اور کیا ابتداًء انسان کو ایک رحمن ورحیم اور رزاق ہستی کے ان بیشمار انعامات کا معترف ہو کر جذبہ شکر سے اس کا دل معمور ہونا چاہیے تھا یا ابتداًء ہی اس پر حوادث کا خوف طاری ہونے لگا تھا ؟ جو شخص بھی ان باتوں پر ضد اور ہٹ دھرمی سے ہٹ کر غور کرے گا۔ وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ فطرت انسانی کا اصلی رخ وہی ہے۔ جس کا پتہ قرآن کریم دے رہا ہے۔ نہ وہ جسکی طرف یہ مغربی علماء نشاندہی کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خوف کا لفظ ہی پہلے سے کسی نعمت کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔ خوف دراصل کسی ایسی نعمت کے چھن جانے کا نام ہے جو انسان کو عزیز بھی ہو اور پہلے سے مہیا بھی ہو۔ زلزلوں کا خطرہ ہو یا سیلابوں کا خوف ہو یا وباؤں کا ان سب میں کسی نہ کسی عزیز تر نعمت کے چھن جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے، خواہ یہ نعمت انسان کی صحت ہو، یا رزق ہو۔ گویا ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم حقیقی کا شعور بھی لازمی ہوا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ انسان کے مشاہدہ کائنات کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ انسان میں نعمتوں اور رحمتوں کی فراوانی اور اس کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا پھر وہ اسی جذبہ کے تحت اس کی بندگی کی طرف مائل ہوا۔ رہا یہ سوال کہ جب ایک دفعہ انسان توحید کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا تو پھر شرک کی راہوں پر کیسے جا پڑا تو اس کا سبب یہ ہرگز نہیں کہ اس کی فطرت میں کوئی خرابی موجود تھی بلکہ اس کی اصل وجہ انسان کی قوت ارادہ و اختیار کا غلط استعمال ہے کہ ان میں سے عیار لوگوں نے اپنے دنیوی مفادات کی خاطر کچھ غلط سلط عقائد گھڑ کر عوام الناس کو غلط راہوں پر ڈال دیا ہے۔ جب لوگوں میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہوگیا اور شرک نے کئی دوسری اخلاقی قدروں کو بھی بگاڑنا شروع کردیا تو اللہ نے پھر سے انبیاء کو مبعوث فرمانا شروع کردیا۔ ان سب انبیاء کی تعلیم ایک ہی تھی یعنی کائنات کی ہر ایک چیز کا اور انسانوں کا خالق، مالک اور رازق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہذا وہی اکیلا پرستش اور بندگی کے لائق ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اسی کی بندگی کرے اور اسی کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ پھر جو لوگ اللہ کے احکام کو مان کر اس کی تعمیل کریں گے انہیں اچھا بدلہ ملے گا اور جو نافرمان اور مشرک ہوں گے انہیں سزا بھی ملے گی۔ اس جزا و سزا کے لیے اخروی زندگی اور اس پر ایمان لانا ناگزیر ہے اور یہ دنیا محض دارالامتحان ہے۔ دارالجزاء نہیں اور یہی کلیات دین ہر نبی پر نازل کئے جاتے رہے جو عقل سلیم کے عین مطابق ہے۔ [٢٨٢] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں ہر نبی کی امت کی پوری داستان عروج وزوال بیان فرما دی ہے۔ عروج کا دور اس وقت ہوتا ہے جب تک یہ امت مجموعی طور پر متحد اور متفق رہے اور جب اس میں ایسے اختلاف پیدا ہوجائیں جو فرقہ بندی کی بنیاد بن جائیں تو بس سمجھئے کہ اس کے زوال کا آغاز ہوگیا اور یہ اختلاف اس وجہ سے نہیں ہوتے کہ کتاب اللہ میں حق بات کی پوری وضاحت نہیں ہوتی اور حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس اختلاف اور فرقہ بندی کے اصل محرکات کچھ اور ہوتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ایک جامع لفظ (بَغْیًا بَیْنَھُمْ ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی بعض لوگ حق کو جاننے کے باوجود اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے سے دریغ نہیں کرتے تاکہ ان کا اپنا جھنڈا بلند ہو۔ بعض لوگ اپنے آباء کے دین کو اصل دین قرار دے لیتے اور اس پر مصر ہوجاتے ہیں یا کسی امام کے متبع امام کے قول کو حکم الٰہی پر ترجیح دینے پر اصرار کرتے ہیں تو اس طرح نئے نئے فرقے وجود میں آتے رہتے ہیں اور وحدت ملت پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور یہی فرقے اس کے زوال کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ ایک نیا نبی مبعوث فرماتے رہے جو لوگوں کو اختلافی امور میں حق کا راستہ دکھلا کر انہی میں سے ایک نئی امت تشکیل کرتا اور لوگوں کو پھر سے ایک امت کی صورت میں متحد کردیتا۔ مگر امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیونکہ آپ نے یہ بشارت دے دی ہے کہ && میری امت میں سے ایک فرقہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ تاآنکہ قیامت آجائے (بخاری، کتاب الاعتصام، باب قول النبی لا تزال طائفہ من امتی۔۔ ) صحابہ (رض) نے عرض کیا && وہ کونسا فرقہ ہوگا ؟ فرمایا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ && (ترمذی، کتاب الایمان، باب افتراق ھذہ الامۃ) نیز دیکھئے اسی سورة کا حاشیہ نمبر ٢٢٠) لہذا آج بھی فرقہ پرستی کا صرف یہی علاج ہے کہ ہر قسم کے تعصبات کو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں اس تاریخی حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ انسانیت کی ابتدا کفر و شرک اور عظیم الشان مخلوقات، مثلاً سورج، چاند، آگ، ہوا، پانی، فرشتوں اور نیک انسانوں وغیرہ کی پرستش سے نہیں ہوئی، بلکہ خالص توحید سے ہوئی ہے۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین توحید رکھتے تھے اور ان کی ایک ہی ملت تھی۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” آدم اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرن (ایک ہزار سال) تھے۔ یہ سب شریعت حقہ (توحید) پر تھے، پھر (شیطان کے بہکانے سے ان میں شرک آیا اور) ان میں اختلافات پیدا ہوئے، تب اللہ تعالیٰ نے ( نوح (علیہ السلام) اور دوسرے) انبیاء بھیجے۔ “ [ طبری و حاکم ٢؍٤٤٢، ح : ٣٦٥٤، بسند صحیح ] پھر مسلسل انبیاء آتے رہے اور ان پر کتابیں نازل ہوتی رہیں، تاکہ ان کو اختلافات سے نکال کر ہدایت الٰہی کی طرف لایا جائے۔ اس آیت میں ” فَبَعَثَ اللّٰهُ “ کا عطف محذوف پر ہے یعنی ” فَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰہُ “ ” پس انھوں نے اختلاف کیا تو اللہ نے نبی بھیجے۔ “ (کبیر، ابن جریر) مزید دیکھیے سورة یونس (٢١) ۔ (فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ) یعنی پہلی امتوں میں اختلافات لاعلمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ باہمی حسد، ضد اور سرکشی کی وجہ سے پیدا ہوئے، جس سے وہ فرقوں میں بٹ گئیں اور اس وجہ سے گمراہ ہوگئیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی بھیج کر اور اس پر اپنی آخری کتاب نازل فرما کر تمام اختلافات کا فیصلہ فرما دیا اور اپنی توفیق خاص ” بِاِذْنِهٖ “ سے مومنوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کردی ہے۔ (بیضاوی، فتح البیان) واضح رہے کہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی شروع میں دین میں کوئی اختلاف نہیں تھا، سلف صالحین سب کے سب کسی شخص کی تقلید کے بجائے براہ راست قرآن و حدیث پر عمل کرتے تھے۔ ان میں نہ شیعہ سنی کی تفریق تھی، نہ ان میں کوئی حنفی تھا، نہ مالکی، نہ شافعی، نہ حنبلی، نہ نقشبندی، نہ قادری، نہ سہروردی، نہ چشتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا :” تم ضرور ہی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے چل پڑو گے، جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی ضب (سانڈے) کے بل میں جا گھسے ہوں تو تم بھی ان کے پیچھے جاؤ گے۔ “ پوچھا گیا : ” یا رسول اللہ ! اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟ “ فرمایا : ” پھر اور کون ہیں ؟ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی إسرائیل : ٣٤٥٦۔ مسلم : ٢٦٦٩ ] آپ کے اس فرمان کے مطابق جب اس امت میں بھی اہل کتاب کی طرح شخصی رائے کی تقلید اور اپنے دھڑے کی بےجا حمایت پر جمود پیدا ہوگیا، لوگوں نے قرآن و حدیث کے بجائے اقوال رجال کو دین سمجھنا شروع کردیا تو امت مختلف فرقوں میں بٹ کر تباہ ہوگئی۔ اس سے صرف وہ لوگ محفوظ رہے جو قرآن و سنت پر براہ راست کار بند رہے اور کسی نئے گروہ کا حصہ نہ بنے۔ [ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو اٹھتے تو اپنی رات کی نماز کا افتتاح اس دعا سے کرتے : ( اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرَاءِیْلَ وَ مِیْکَاءِیْلَ وَ اِسْرَافِیْلَ ، فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ، اہْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَہْدِیْ مَنْ تَشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) [ مسلم، صلٰوۃ المسافرین، باب صلوۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ودعاءہ باللیل : ٧٧٠ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Earlier, the real cause of the opposition to truth has been identified as the love of the worldly life. Now, the present verses point out that, all along the lanes of time, Allah has been showing clear signs to establish the true faith, yet the seekers of the mundane benefits have been working against it to safeguard their material interests. Commentary Stated in the verse is the fact that there was a time when all Human beings used to belong to one single community having common religion and belief - a faith, true and natural. Then came differences in temperaments and tastes, opinions and thoughts, consequently giving birth to contradicting beliefs, making it impossible to distinguish the true from the false. It was in order to make truth distinct from error and to show people the straight path of truth that Allah Almighty sent prophets with Books and revelations. After what the prophets (علیہم السلام) did by way of moral education, people split apart in two groups. The first group welcomed the guidance sent by Allah Almighty and accept¬ed to follow the prophets (علیہم السلام) . These are known as true Muslims. The second group belied the Scriptures and the prophets and refused to follow them. These are known as kafirs کُفَّار or disbelievers. The opening statement in the كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً translated as &all men used to be a single ummah&, needs some explanation. Imam Raghib al-Isfahani has said in his al-Mufradat المُفَردات that the word, ummah signifies a set of people gathered together for reasons of faith, time or place. This element of unicity could be that of beliefs and ideas, or that of presence in a geo¬graphical area at a given time, or that of heredity, language, colour and its likes. So, the sense of the statement is that there was a time when all human beings used to be a composite group. Two considera¬tions emerge here which need elaboration: Makhan36 Firstly, what sort of unity is stipulated in this verse? Secondly, what was the time when this unity existed? The first question was settled by the last sentence of this very verse which mentions the differences that came up later on, and that the prophets were sent to determine the true way out of the multiplicity of ways. It is obvious that the prophets and Scriptures sent to resolve these differences were not dealing with the differences in issues of heredity, language, colour, country or period. Instead, it was the difference of ideas and beliefs. This comparative examination tells us that the unity mentioned in this verse means the unity of ideas and the unity of beliefs. So, as the sense of the verse appears now, there was a time when all human beings belonged to one set of beliefs. What was that set of beliefs? Two possibilities exist here. Either they were united under the belief of God&s Oneness, or lived together under a state of disbelief and error. However, according to the majority of commentators, the weightier opinion is that all of them were united under the belief of God&s Oneness. A verse to this effect appears in Surah Yunus as well: وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّ‌بِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿١٩﴾ All men used to be a single ummah. Then, they split. Had it not been the initial will of your Lord (that the true and false and the good and bad shall exist simultaneously in this mortal world) all their disputes would have been settled once for all (leaving no trace of the enemies of truth). (10:19) In Sarah al-Anbiya&, it was said: إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَ‌بُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ﴿٩٢﴾ This ummah of yours is a single ummah and I am your Lord. So, worship Me. (21:92) Also in Sarah al-Mu&minun, it was said: وَإِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَ‌بُّكُمْ فَاتَّقُونِ ﴿٥٢﴾ This ummah of yours is a single ummah and I am your Lord. So, fear Me. (23:52) All these verses indicate that the unity referred to here is the unity of belief and faith in the true religion. Now, we have to determine the period of this universal human unity. The commentators of the Holy Qur&an among the blessed Companions, Ubayy ibn Ka&b and Ibn Zayd (رض) said that the period refers to the period of & &Azal ازل & (eternity without beginning) when the spirits of all human beings were created and asked أَلَسْتُ بِرَ‌بِّكُم (Am I not your Lord?) to which every soul without exception said, &Yes, You are our Lord&. That was the time when all human beings were on one true belief the name of which is Islam, the Faith. (Qurtub) The blessed Companion ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said that the period of this unity of belief dates back to the time when Sayyidna Adam (علیہ السلام) came into this world with his wife. They had children who multiplied. All of them believed in the religion of Adam and followed his teachings, especially that of God&s Oneness. All of them, except Qabil قابیل (Cain), were obedient to the religious law. In the Musnad of al-Bazzar, there appears an addition to the statement of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) cited above which says that this unity of belief prevailed from the time of Sayyidna Adam (علیہ السلام) to that of Sayyidna Idris (علیہ السلام) . Upto that time all of them followed Islam and Tauhid توحید and the period in between them is that of ten qarns قرن . Probably, qarn قرن means a century which sets the period at one thousand years. Some others have said that the period dates back to the time of the deluge in the days of Sayyidna Nuh نوح (علیہ السلام) in which all living were swept away except those who had boarded the ark with Sayyidna Nu-h (علیہ السلام) . When the flood subsided, those who survived were all Muslims, monotheists and followers of the true faith. In reality, all these three statements are not contradictory; all three periods were such that people were one community and followed the true faith. The second sentence in the verse says: فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ Then Allah sent prophets carrying glad-tidings and warning and sent down with them the Book with the Truth to judge between people in what they disputed. It is worth noting that the first sentence said that all men used to be a single ummah, and in the second, this statement has been rami¬fied by saying that Allah sent prophets and Books to resolve disputes. Obviously, the two sentences do not seem to synchronize because the cause of sending prophets and Books is the disputation of people, which did not exist at that time. However, the answer is very clear. The verse means that during the early period of human life, people ad¬hered to one true faith, later on differences crept in, which led to dis¬putations following which came the need to send prophets (علیہم السلام) and Books. Something still remains. When mention has been made of a single ummah above, why is it that the incidence of differences has not been mentioned? Those who are blessed with some insight into the wisdom behind the style of the Holy Qur&an would not find it difficult to answer the question, for the Holy Qur&an, while relating past events, does not report the whole story- anywhere, instead, it eliminates parts in between, which could be understood contextually. For instance, there is the prisoner in the story about Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) who, after his release, came to the king and asked that he be sent to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in order to seek an interpretation of the royal dream. This proposal of the prisoner is all that the Holy Qur&an relates, then, the conversation begins with يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيق The text does not say that the king liked his proposal and sent him to the prison-house to see Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) and that he reached there, then, addressed him. The fact is that reading the text with sentences earlier and later makes all this simple to understand. Similarly, the mention of differences after the mention of a united community in this verse was not considered necessary because the advent of disputes is something known by the whole world all the time. What needed to be expressed was that, before all these overflowing disputes, there was a time when all human beings used to follow one true religion. This is what was stated. Now, the disputes visible all over the world were not something that should have been expressly identified. This was unnecessary. Nevertheless, very pointedly it was said that Allah Almighty did provide for the removal of these disputes through guidance. The words of the text say: فَبَعَثَ اللَّـهُ :that is, &Allah Almighty sent prophets (علیہم السلام) ، who were to carry glad-tidings of eternal peace and bliss to those who follow the true Faith and to give warning of the punishment of Hell to those who turn away from it. Then, Allah helped prophets through His revelations and Books which were to make truth distinct from error in matters of beliefs and ideas. The text, after that, points out to the outcome. Inspite of the prophets (علیہم السلام) and Books with open truths, the world split itself into two groups. There were some who did not accept this clear guidance, and strangely enough, the first to deny this guidance were those to whom these prophets and verses were sent, that is, the Jews and the Christians. Far more astonishing is the fact that there was no possibility of any doubt or misgiving in Scriptures which were neither beyond their understanding nor were likely to throw them into confusion. In fact, these people knew and understood it, yet it was their lust for taking an opposite stand which made them deny it. Then, there was the second group who were enabled to follow the straight path by Allah Almighty and they became the ones to say yes to the lead given by prophets, messengers and divine books sincerely and whole-heartedly. These very two groups have been identified in Surah al-Taghabun تغابن as follows: خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ‌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ Allah Almighty created you, then, some of you became disbe¬lievers and some of you, believers. (64:2) To sum up, the gist of the sense in the verse كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَة (All men used to be a single ummah) is that all human beings were initially and universally followers of the true faith. Then, temperamental multiplic¬ity gave way to the promotion of self-interest which caused disputes to surface, so much so that a time came when beliefs too were disputed which in turn reached a point when the very root, the fine line of dis¬tinction between the true and the false, got all mixed up. Thereupon, Allah Almighty sent prophets (علیہم السلام) and His Books to guide people to the right path and to bring them back to the same true faith on which human beings already were. But, despite all guidance and very clear signs, there were some who dutifully followed these and there were others who, out of their obstinacy and hostility, took the road of denial and deviation. Injunctions and related considerations 1. The verse tells us that Allah Almighty sent His prophets and Books into this mortal world for no other purpose but that people, who had left the single ummah following the true faith and branched out into different sects, should again be assembled into the same one community. Whenever people wavered from the right path, Allah sent a prophet, and a Book so that they act accordingly. The coming of prophets as a medium of reform and salvation continued when they again deviated which resulted in the coming of another prophet and another Book with the express purpose of putting people back on the right track, that is, on the straight path shown by their Lord. This is like health, a single fact of life as compared to diseases which are too many. When a certain disease showed up, Allah prescribed the appropriate medicine and regimen. Another disease brought another set of treatment. Finally, came the most comprehensive of all prescriptions, one that will be ideally successful against all diseases until such time that Al¬lah wills to keep this world going. This perfect prescription, a compre¬hensive blueprint of all diagnostic considerations, treatment par excel¬lence, the most complete of all previous prescriptions which pre-empts all future possibilities of treatment, is none but that of Islam. For this came the last of the prophets (علیہم السلام) ، and with him came the Qur&an. There used to be the recurring problem of Scriptures being interpolated, prophetic teachings being lost which necessitated the sending of new prophets and new Books in the past. This was set right when Al¬lah Almighty Himself took the responsibility of seeing that the Holy Qur&an remains protected against interpolations or changes. Then, to make sure that the teachings of the Holy Qur&an remain intact in their original form and live right through the Day of Doom (Dooms’ Day), Allah Almighty promised to create and sustain a set of people from the community of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، a group which will always adhere to the true Faith, keep circulating the correct teachings of the Qur&an and Sunnah among Muslims all over the world without ever flinching against any opposition or hostility. Therefore, after this, it was inevitable that the doors of prophet hood and the coming of revelation be closed for ever. So, came the final proclamation, that of the end of prophet hood. Let there be no misgiving that during the course of history the coming of prophets and Books were ever a source of division or dissension between people. What is true, as stated earlier, is that all prophets and divine Books aimed at assembling people around one true faith to which they initially adhered. 2. We also discover here that the two-nation theory of Muslim and non-Muslim, the identification of nationhood on the basis of religion is exactly what the Qur&an aims to support in فَمِنكُمْ كَافِرٌ‌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ;, cited above. Along with it, we can also clearly see that the real foundation of the two-nation theory stands on raising a united nationhood, which flourished in the very beginning and which was based, not on the factor of the country of origin, but on believing in the Truth and following the straight path. The Qur&anic statement: كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَة (All men used to be a single ummah) stresses that there used to be real national unity in the beginning of the world when people followed the true faith. Disputes came later. Then came the prophets who invited them to that real unity. Those who rejected their call cut themselves off from this united nationhood and were known as a separate nation. 3. The third lesson we learn from this verse is that evil people have always elected to oppose every prophet and every divine Book and have been even eager to line up their maximum forces against them. This being the customary situation allowed to prevail by Allah Almighty, people who have the strength of faith in their hearts should not feel bad about the chronic pursuit of intrigues and hostility by the evil ones against them. Very simply, just as the disbelievers took to the ways of their elders in the form of denial, hostility and prophet-bashing, all true Muslims on the straight path should take to the consistent practice of their elders, the great prophets (علیہم السلام) ، by staying patient against injuries inflicted on them, nevertheless, keep calling them to the true Faith with wisdom, sound advice and good grace. Perhaps, it is because of this congruity of purpose, that the next verse counsels Muslims to maintain a stance of forbearance and patience against all situations of distress.

ربط آیات : اوپر دین حق سے اختلاف کرنے کی علت حب دنیا کو بتایا ہے آگے اسی مضمون کی تائید فرماتے ہیں کہ مدت سے یہی قصہ چلا آرہا ہے کہ ہم دلائل واضحہ دین حق پر قائم کرتے ہیں اور طالبان دنیا اپنی دنیوی اغراض کے سبب اس سے خلاف کرتے رہے۔ خلاصہ تفسیر : (ایک زمانہ میں) سب آدمی ایک ہی طریق پر تھے (کیونکہ اول دنیا میں حضرت آدم (علیہ السلام) مع اپنی بی بی کے تشریف لائے اور جو اولاد ہوتی گئی ان کو دین حق کی تعلیم فرماتے رہے اور وہ ان کی تعلیم پر عمل کرتے رہے ایک مدت اسی حالت میں گذر گئی پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہونا شروع ہوا حتی ٰکہ ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی) پھر (اس اختلاف کے رفع کرنے کو) اللہ تعالیٰ نے (مختلف) پیغمبروں کو بھیجا جو کہ (حق ماننے والوں کو) خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور (نہ ماننے والوں کو عذاب سے) ڈراتے تھے اور ان (پیغمبروں کی مجموعی جماعت) کے ساتھ (آسمانی) کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں (اور ان پیغمبروں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل فرمانا) اس غرض سے (تھا) کہ اللہ تعالیٰ (ان رسل وکتب کے ذریعہ سے اختلاف کرنے والے) لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ (مذہبی) میں فیصلہ فرمادیں (کیونکہ رسل وکتب امر واقعی کا اظہار کردیتے ہیں اور امر واقعی کے متعین ہونے سے ظاہر ہے کہ غیر واقعی کا غلط ہوجانا معلوم ہوجاتا ہے اور یہی فیصلہ ہے اور ان پیغمبروں کے ساتھ کتاب اللہ آنے سے چاہئے تھا کہ اس کتاب کو قبول کرتے اور اس پر مدار کار رکھ کر اپنے سب اختلافات مٹا دیتے مگر بعضوں نے خود اس کتاب ہی کو نہ مانا اور خود اسی میں اختلاف کرنا شروع کردیا) اور اس کتاب میں (یہ) اختلاف اور کسی نے نہیں کیا مگر صرف ان لوگوں نے جن کو (اولا) وہ کتاب ملی تھی (یعنی اہل علم واہل فہم نے کہ اول مخاطب وہی لوگ ہوتے ہیں دوسرے عوام ان کے ساتھ لگ لیا کرتے ہیں اور اختلاف بھی کیسے وقت کیا) بعد اس کے کہ ان کے پاس دلائل واضحہ پہنچ چکے تھے (یعنی ان کے ذہن نشین ہوچکے تھے اور اختلاف کیا کس وجہ سے صرف) باہمی ضدا ضدی کی وجہ سے (اور اصلی وجہ ضدا ضدی کی حب دنیا ہوتی ہے حب مال ہو یا حب جاہ پس مدار علت مخالفت حق کا وہی حب دنیا ٹھری اور یہی مضمون تھا سابق میں) پھر (یہ اختلاف کفار کا کبھی اہل ایمان کو مضر نہیں ہوا بلکہ) اللہ تعالیٰ نے (ہمیشہ) ایمان والوں کو وہ امر حق جس میں (مختلفین) اختلاف کیا کرتے تھے بفضلہ تعالیٰ (رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانے کی بدولت) بتلا دیا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اسی کو راہ راست بتلا دیتے ہیں۔ معارف و مسائل : اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی زمانہ میں تمام انسان ایک ہی مذہب وملت اور عقیدہ و خیال پر تھے جو ملت اور دین فطرت تھی پھر ان میں مزاج و مذاق اور رائے وفکر کے اختلاف سے بہت سے مختلف خیالات و عقائد پیدا ہوگئے جن میں یہ امتیاز کرنا دشوار تھا کہ ان میں حق کونسا ہے اور باطل کونسا حق کو واضح کرنے اور صحیح راہ حق بتلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے اور ان پر کتابیں اور وحی نازل فرمائی انبیاء (علیہم السلام) کی جدوجہد اور تبلیغ و اصلاح کے بعد انسان دو گروہوں میں منقسم ہوگئے ایک وہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات کو قبول کیا اور انبیاء (علیہم السلام) کے متبع ہوگئے جن کو مومن کہا جاتا ہے دوسرے وہ جنہوں نے آسمانی ہدایات اور انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلایا ان کی بات نہ مانی یہ لوگ کافر کہلاتے ہیں اس آیت کے پہلے جملہ میں ارشاد ہے وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ لفظ امۃ عربی لغت کے اعتبار سے ہر ایسی جماعت کو کہا جاتا ہے جس میں کسی وجہ سے رابطہ و اتحاد اور وحدت قائم ہو خواہ یہ وحدت نظریات و عقائد کی ہو یا ایک زمانہ میں یا کسی ایک خطہ ملک میں جمع ہونے کے یا کسی دوسرے علاقہ یعنی نسب، زبان، رنگ وغیرہ کی، مفہوم اس جملہ کا یہ ہے کہ کسی زمانہ میں تمام انسان باہم متفق ومتحد ایک جماعت تھے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ اس جگہ وحدت سے کس قسم کی وحدت مراد ہے دوسرے یہ کہ وحدت کس زمانہ میں تھی امر اول کا فیصلہ تو اسی آیت کے آخری جملہ نے کردیا جس میں اس وحدت کے بعد اختلاف واقع ہونے کا اور مختلف راہوں میں حق متعین کرنے کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجی ہے کیونکہ یہ اختلاف جس میں فیصلہ کرنے کے لئے انبیاء (علیہ السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجی گئی ہیں ظاہر ہے کہ وہ نسب یا زبان یا رنگ یا وطن اور زمانہ کا اختلاف نہ تھا بلکہ نظریات اور عقائد و خیالات کا اختلاف تھا اسی کے مقابلہ سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں وحدت سے بھی وحدت فکر و خیال اور وحدت عقیدہ ومسلک مراد ہے۔ تو اب مفہوم آیت کا یہ ہوگیا کہ ایک زمانہ ایسا تھا جب کہ تمام افراد انسانی صرف ایک ہی عقیدہ و خیال اور ایک ہی مذہب ومسلک رکھتے تھے وہ عقیدہ ومسلک کیا تھا اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ سب عقیدہ توحید و ایمان پر متفق تھے دوسرے یہ کہ سب کفر وضلال پر متحد تھے مگر جمہور مفسرین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ مراد عقائد صحیحہ توحید و ایمان پر سب کا متحد ہونا سورة یونس میں بھی اسی مضمون کی ایک آیت آئی ہے، وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْ آ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ (١٩: ١٠) یعنی سب آدمی ایک ہی امت تھے پھر آپس میں اختلاف پڑگیا اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہ ازلی فیصلہ نہ ہوتا (کہ اس عالم دنیا میں حق و باطل کھرا کھوٹا سچ اور جھوٹ ملے جلے چلیں گے تو قدرت الہیہ ان سب جھگڑوں کا ایسا فیصلہ کردیتی کہ حق سے اختلاف کرنے والوں کا نام ہی نہ رہتا۔ اور سورة انبیاء میں فرمایا : اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ (٩٢: ٢١) یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لئے سب میری ہی عبادت کرتے رہو۔ اسی طرح سورة مؤ منون میں فرمایا : وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ (٥٢: ٢٣) یعنی یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لئے مجھ سے ہی ڈرتے رہو، ان تمام آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ وحدت سے عقیدہ ومسلک کی وحدت اور دین حق توحید ایمان میں سب کا متحد ہونا مراد ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ دین حق اسلام و ایمان پر تمام انسانوں کا اتفاق و اتحاد کسی زمانہ کا واقعہ ہے یہ وحدت کہاں تک قائم رہی ؟ مفسرین صحابہ کرام (رض) اجمعین میں سے حضرت ابی بن کعب اور ابن زید نے فرمایا کہ یہ واقعہ عالم ازل کا ہے جب تمام انسانوں کی ارواح کو پیدا کرکے ان سے سوال کیا گیا تھا الست بربکم یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں اور سب نے بلا استثناء یہ جواب دیا تھا کہ بیشک آپ ہمارے رب اور پروردگار ہیں اس وقت تمام افراد انسانی ایک ہی عقیدہ حق پر قائم تھے جس کا نام ایمان واسلام ہے (قرطبی) اور حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ یہ وحدت عقیدہ کا اس وقت کا ہے جب کہ آدم (علیہ السلام) مع اپنی زوجہ محترمہ کے دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ہوئی اور پھیلتی گئی وہ سب کے سب حضرت آدم (علیہ السلام) کے دین اور انہی کی تعلیم و تلقین کے تابع توحید کے قائل تھے اور سب کے سب باستثناء قابیل وغیرہ متبع شریعت و فرمانبردار تھے، مسند بزار میں حضرت ابن عباس کے اس قول کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ وحدت عقیدہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) تک قائم رہی اس وقت تک سب کے سب مسلم اور توحید کے معتقد تھے اور آدم (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) کے درمیان زمانہ دس قرن ہے بظاہر قرن سے ایک صدی مراد ہے تو کل زمانہ ایک ہزار سال کا ہوگیا، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ وحدت عقیدہ کا زمانہ وہ ہے جب کہ نوح (علیہ السلام) کی بدعاء سے دنیا میں طوفان آیا اور بجز ان لوگوں کے جو نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے تھے باقی ساری دنیا غرق ہوگئی تھی طوفان ختم ہونے کے بعد جتنے آدمی اس دنیا میں رہے وہ سب مسلمان موحد اور دین حق کے پیرو تھے۔ اور درحقیقت ان تینوں اقوال میں کوئی اختلاف نہیں یہ تینوں زمانے ایسے ہی تھے جن میں سارے انسان ملت واحدہ اور امت واحدہ بنے ہوئے دین حق پر قائم تھے، آیت کے دوسرے جملہ میں ارشاد ہے، فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو خوشی سناتے تھے اور ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ میں فیصلہ فرمادیں، یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اوپر کے جملہ میں تمام انسانوں کا امت واحدہ اور ملت واحدہ ہونا بیان کیا تھا اور اس جملہ میں اسی پر تفریع کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ہم نے انبیاء اور کتابیں بھیجی تاکہ اختلاف کا فیصلہ کیا جائے ان دونوں جملوں میں بظاہر جوڑ نہیں معلوم ہوتا کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتابوں کے بھیجنے کی علت لوگوں کا اختلاف ہے اور اختلاف اس وقت تھا نہیں مگر جواب بالکل واضح ہے کہ مراد آیت مذکورہ کہ یہ ہے کہ ابتداء عالم میں تمام انسان ایک ہی عقیدہ حق کے قائل اور پابند تھے پھر رفتہ رفتہ اختلافات پیدا ہوگئے اختلافات پیدا ہونے کے بعد انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اب ایک بات رہ جاتی ہے کہ اوپر صرف امت واحدہ ہونے کا ذکر کیا گیا اختلاف پیدا ہونے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، جو لوگ قرآن کریم کے اسلوب حکیم پر کچھ نظر رکھتے ہیں ان کے لئے اس کا جواب مشکل نہیں کہ قرآن کریم احوال ماضیہ کے بیان میں قصہ کہانی یا تاریخ کی کتابوں کے سارے قصہ کو کہیں نقل نہیں کرتا بلکہ درمیان سے وہ حصہ حذف کردیتا ہے جو اس سیاق کلام سے خود بخود سمجھا جاسکے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں جو قیدی رہا ہو کر آیا اور خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے یوسف (علیہ السلام) کے پاس بھیج دو تو قرآن میں اس قیدی کی تجویز نقل کرکے بعد بات یہاں سے شروع ہوتی ہے يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ اس کا ذکر نہیں کیا کہ بادشاہ نے اس کی تجویز کو پسند کیا اور اس کو جیل خانہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس بھیجا وہ وہاں پہنچ کر ان سے مخاطب ہوا کیونکہ پچھلے اور اگلے جملوں کے ملانے سے یہ ساری باتیں خود بخود سمجھ میں آجاتی ہیں، اسی طرح اس آیت میں وحدت ملت کے بعد اختلاف واقع ہونے کا تدکزہ اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اختلافات کا وقوع تو ساری دنیا جانتی ہے ہر وقت مشاہدہ میں آتا ہے ضرورت اس امر کے اظہار کی تھی کہ ان اختلافات کثیرہ سے پہلے ایک زمانہ ایسا بھی گذر چکا ہے جس میں سارے انسان ایک ہی مذہب وملت اور ایک ہی دین حق کے پیرو تھے اس کو بیان فرمایا پھر جو اختلاف دنیا میں پھیلے ہوئے اور سب مشاہدہ میں آرہے ہیں ان کے وقوع کا بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی، ہاں یہ بتلایا گیا کہ ان اختلافات میں راہ حق کی ہدایت اور رہنمائی کا سامان حق تعالیٰ نے کیا فرمایا اس کے متعلق ارشاد ہوا فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ یعنی حق تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا جو دین حق کا اتباع کرنے والوں کو دائمی آرام و راحت کی خوش خبری اور اس سے اعراض کرنے والوں کو عذاب جہنم کی وعید سنادیں اور ان کے ساتھ اپنی وحی اور کتابیں بھیجی جو مختلف عقائد و خیالات میں سے صحیح اور حق کو واضح کرکے بتلادیں اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ انبیاء (علیہم السلام) ورسل اور آسمانی کتابوں کے کھلے ہوئے فیصلوں کے بعد بھی یہ دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی کچھ لوگوں نے ان ہدایات واضحہ کو قبول نہ کیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ قبول نہ کرنے والے اول وہی لوگ ہوئے جن کے پاس یہ انبیاء (علیہم السلام) اور آیات الہیہ بھیجی گئی تھیں یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ آسمانی کتابوں میں کوئی اشتباہ یا التباس کی گنجائش نہ تھی کہ ان کی سمجھ میں نہ آئے یا غلط فہمی کا شکار ہوجائیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ جاننے بوجھنے کے باوجود ان لوگوں نے محض ضد اور ہٹ دھرمی سے انکار کیا۔ اور دوسرا گروہ وہ ہوا جن کو اللہ تعالیٰ نے راہ ہدایت پر لگادیا اور جس نے انبیاء ورسل اور آسمانی کتابوں کے فیصلے ٹھنڈے دل سے تسلیم کئے انھیں دونوں گروہوں کا بیان قرآن کریم نے سورة تغابن میں اس طرح فرمایا ہے، خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (٢: ٦٤) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں سے کچھ کافر ومنکر ہوگئے کچھ مومن ومسلم۔ خلاصہ مضمون آیت کان النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً کا یہ ہے کہ پہلے دنیا کے سب انسان دین حق پر قائم تھے پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہونا شروع ہوا ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی یہاں تک کہ حق و باطل میں التباس ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) اور اپنی کتابیں راہ حق کی ہدایت کرنے کے لئے اور اسی دین حق پر دوبارہ قائم ہوجانے کے لئے بھیجی جس پر سب انسان پہلے قائم تھے لیکن ان سب ہدایات واضحہ اور آیات بینات کے ہوتے ہوئے کچھ لوگوں نے مانا اور کچھ لوگوں نے ضد اور عناد سے انکار و انحراف کی راہ اختیار کرلی۔ مسائل : مسئلہ : اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت سے انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں دنیا میں بھیجیں یہ سب اس واسطے تھیں کہ یہ لوگ جو دین حق کی ملت واحدہ کو چھوڑ کر مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں پھر ان کو اسی ملت واحدہ پر قائم کردیں انبیاء (علیہم السلام) کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا کہ جب لوگ اس راہ حق سے بچلے تو ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا اور کتاب اتاری کہ اس کے موافق چلیں پھر کبھی بہکے تو دوسرا نبی اور کتاب اللہ تعالیٰ نے اسی راہ حق پر قائم کرنے کے لئے بھیج دیا اس کی مثال ایسی ہے جیسے تندرستی ایک ہے اور بیماریاں بیشمار جب ایک مرض پیدا ہوا تو اس کے موافق دوا اور پرہیز مقرر فرمایا جب دوسرا مرض پیدا ہوا تو دوسری دوا اور پرہیز اس کے موافق بتلایا اب آخر میں ایسا جامع نسخہ تجویز فرمایا جو ساری بیماریوں سے بچانے میں اس وقت تک کے لئے کامیاب ثابت ہو جب تک اس عالم کو باقی رکھنا منظور ہو یہ مکمل اور جامع نسخہ ایک جامع اصول علاج سب پچھلے نسخوں کے قائم مقام اور آئندہ سے بےنیاز کرنے والا ہو اور وہ نسخہ جامع اسلام ہے جس کے لئے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن بھیجے گئے اور پچھلی کتابوں میں تحریف ہو کر جو پچھلے انبیاء کی تعلیمات ضائع اور گم ہوجانے کا سلسلہ اوپر سے چلا آیا تھا جس کے سبب نئے نبی اور نئی کتاب کی ضرورت پیش آتی تھی اس کا یہ انتظام فرما دیا گیا کہ قرآن کریم کے تحریف سے محفوظ رہنے کا ذمہ خود حق تعالیٰ نے لے لیا اور قرآن کریم کی تعلیمات کو قیامت تک ان کی اصلی صورت میں قائم اور باقی رکھنے کے لئے اللہ جل شانہ نے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام میں تاقیامت ایک ایسی جماعت قائم رکھنے کا وعدہ فرما لیا جو ہمیشہ دین حق پر قائم رہ کر کتاب وسنت کی صحیح تعلیم مسلمانوں میں شائع کرتی رہے گی کسی کی مخالفت و عداوت ان پر اثر انداز نہ ہوگی اس لئے اس کے بعد دروازہ نبوت اور وحی کا بند ہوجانا ناگزیر امر تھا آخر ختم نبوت کا اعلان کردیا گیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی مختلف کتابیں آنے سے کوئی اس دھوکہ میں نہ پڑجائے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں لوگوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرنے اور افتراق پیدا کرنے کے لئے نازل کی گئی ہیں بلکہ منشاء ان سب انبیاء (علیہم السلام) اور کتابوں کا یہ ہے کہ جس طرح پہلے سارے انسان ایک ہی دین حق کے پیرو ہو کر ملت واحدہ تھے اسی طرح پھر اسی دین حق پر سب جمع ہوجائیں۔ مسئلہ : دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مذہب کی بناء پر قومیت کی تقسیم مسلم وغیرمسلم کا دو قومی نظریہ عین منشاء قرآنی کے مطابق ہے آیت فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (٢: ٦٤) اس پر شاہد ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ اسلام میں اس دو قومی نظرئیے کی اصل بنیاد درحقیقت صحیح متحدہ قومیت پیدا کرنے پر ہے جو ابتداء آفرینش میں قائم تھی جس کی بنیاد وطنیت پر نہ تھی بلکہ عقیدہ حق اور دین حق کی پیروی پر تھی ارشاد قرآنی کان النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً نے بتلایا کہ ابتداء عالم میں اعتقاد صحیح اور دین حق کی پیروی کے اعتبار سے ایک صحیح اور حقیقی وحدت قومی قائم تھی بعد میں لوگوں نے اختلافات پیدا کئے انبیاء نے لوگوں کو اسی اصلی وحدت کی طرف بلایا جنہوں نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ اس متحدہ قومیت سے کٹ گئے اور جداگانہ قوم قرار دئیے گئے۔ مسئلہ : تیسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ ازل سے سنت اللہ یہی جاری ہے کہ برے لوگ ہر نبی مبعوث کے خلاف اور ہر کتاب الہی سے اختلاف کو پسند کرتے رہے اور ان کے مقابلہ و مخالفت میں پورا زور خرچ کرنے کے لئے آمادہ رہے ہیں تو اب اہل ایمان کو ان کی بدسلوکی اور فساد سے تنگدل نہ ہونا چاہئے جس طرح کفار نے اپنے بڑوں کا طریقہ کفر وعناد اور انبیاء کی مخالفت کا اختیار کیا اسی طرح مؤمنین صالحین کو چاہئے کہ وہ اپنے بزرگوں کا یعنی انبیاء (علیہم السلام) کا وظیفہ اختیار کریں کہ ان لوگوں کی ایذاؤں اور مخالفتوں پر صبر کریں اور حکمت وموعظت اور نرمی کے ساتھ ان کو دین حق کی طرف بلاتے رہیں اور شاید اسی مناسبت سے اگلی آیت میں مسلمانوں کو مصائب وآفات پر تحمل اور صبر کی تلقین کی گئی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝ ٠ ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۝ ٠ ۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ۝ ٠ ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۚ فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝ ٢١٣ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سدفھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلاف رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے) اس کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ تمام لوگ کفر کے طریقے پر تھے اگرچہ ان کے مذاہب مختلف تھے اور یہ ممکن ہے کہ ا ن میں مسلمان بھی ہوں اگرچہ ان کی تعداد تھوڑی تھی، اس صورت حال کے تحت کافروں کی جماعت پر امت کے لفظ کا اطلاق درست ہوگیا اس لئے کہ ایک لفظ کا اطلاق اکثریت اور عمومیت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ ضحاک اور قتادہ کا قول ہے کہ پہلے تما م لوگ حق کے راستے پر ایک امت تھے لیکن پھر ان میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ قول باری ہے (فھدی اللہ الذین امنوا لما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ ۔ پس جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا) عبداللہ بن طائوس نے اپنے والد طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (نحن الاخزون السابقون یوم القیامہ بیدان کل امۃ اوتوا الکتاب قبلنا واوتیناہ من بعدھم فھذ ایومھم الذی اختلفوا فیہ فھدانا اللہ لہ و للیھود غد و انصاری بعد غد ہم دنیا میں سب سے آخر میں آئے لیکن قیاتم میں سب سے آگے ہوں گے۔ البتہ ہر امت کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد کتاب ملی۔ یہی وہ دن ہے جس کے متعلق انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق ہمیں سیدھی راہ دکھائی یہود کے لئے آنے والا کل اور نصاریٰ کے لئے آنے والا پرسوں ہے۔ ) اعمش نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے لیکن اس میں ایک لفظ یہ ہے (یوم لجمعتہ لناوغداللیھود و بعد غد للنصاری جمعے کا دن ہمارے لئے، ہفتے کا دن یہودیوں کے لئے اور اتوار کا دن عیسائیوں کے لئے ہے۔ ) اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ قول باری (فھدی اللہ الذین امنوا لما اختلفوا فیہ) سے مراد جمعہ کا دن ہے ۔ لیکن عموم لفظ حق کی ان تمام صورتوں کا متقاضی ہے جن کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دی۔ یوم جمعہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ او اللہ اعلم بالصواب

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١٣) انسان حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک ملت یعنی کفر پر قائم تھے اور یہ بھی تفسیر کی گئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں مسلمان تھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایسے انبیاء کرام کو بھیجا جو مومنین کو جنت کی خوشخبری سنانے والے اور کافروں کو دوزخ کے عذاب سے ڈراتے اور ان پر جبریل امین کے ذریعے ایسی کتاب کو بھی نازل کیا گیا جو حق اور باطل کو بیان کرنے والی تھی تاکہ ہر ایک نبی دینی مسائل میں اپنی کتاب کے ذریعے سے فیصلہ کرسکے تاکہ وہ کتاب آپس میں فیصلہ کرسکے اور اگر (آیت) ” لیحکم “۔ لتحکم، تاء کے ساتھ پڑھا جائے تو اس سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک مراد ہوگی، دین اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اہل کتاب ہی کی بناء پر اختلاف اور انکار کیا ہے، باوجود اس کے کہ ان کی کتابوں میں اس کے متعلق واضح نشانیاں بیان کی جاچکی تھیں، دین حق میں اختلاف کرنے سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعے مومنین کو حق بات کی ہدایت عطا فرمائی۔ یعنی دین میں اختلاف کرنے اور حق کو باطل کے ساتھ ملانے سے اللہ تعالیٰ نے مومنین کی انبیاء کرام کے ذریعے اپنے حکم و ارادہ سے حفاظت فرمائی جو اس چیز کا اہل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس کو دین پر استقامت دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٣ (کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں سب کے سب انسان ایک ہی امت تھے۔ تمام انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم ( علیہ السلام) نبی ہیں۔ چناچہ امت تو ایک ہی تھی۔ جب تک ان میں گمراہی پیدا نہیں ہوئی ‘ اختلافات پیدا نہیں ہوئے ‘ شیطان نے کچھ لوگوں کو نہیں ورغلایا ‘ اس وقت تک تو تمام انسان ایک ہی امت تھے۔ اب یہاں پر ایک لفظ محذوف ہے : ثُمَّ اخْتَلَفُوْا (پھر ان میں اختلافات ہوئے) ۔ اختلاف کے نتیجے میں فساد پیدا ہوا اور کچھ لوگوں نے گمراہی کی روش اختیار کرلی۔ آدم ( علیہ السلام) کا ایک بیٹا اگر ہابیل تھا تو دوسرا قابیل بھی تھا۔ (فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَص) ۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا سلسلہ جاری فرمایا جو نیکوکاروں کو بشارت دیتے تھے اور غلط کاروں کو خبردار کرتے تھے۔ (وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ط) (وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ الاَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ ج) بَغْیًا کا لفظ قبل ازیں آیت ٩٠ میں آچکا ہے۔ وہاں میں نے وضاحت کی تھی کہ دین میں اختلاف کا اصل سبب یہی ضدمّ ضدا والا رویہّ ہوتا ہے۔ انسان میں غالب ہونے کی جو طلب اور امنگ (The urge to dominate) موجود ہے وہ حق کو قبول کرنے میں مزاحم ہوجاتی ہے۔ دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے۔ آدمی کہتا ہے میں اس کی بات کیوں مانوں ‘ یہ میری کیوں نہ مانے ؟ انسان کے اندر جہاں اچھے میلانات رکھے گئے ہیں وہاں بری امنگیں اور میلانات بھی رکھے گئے ہیں۔ چناچہ انسان کے باطن میں حق و باطل کی ایک کشاکش چلتی ہے۔ اسی طرح کی کشاکش خارج میں بھی چلتی ہے۔ تو فرمایا کہ جب انسانوں میں اختلافات رونما ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو بھیجا جو مبشر اور منذر بن کر آئے۔ ُ ّ (فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہٖ ط) (وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) سلسلۂ انبیاء و رسل کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن حکیم نازل فرما کر ‘ اپنی توفیق سے ‘ اس نزاع و اختلاف میں حق کی راہ اہل ایمان پر کھولی ہے۔ اور اللہ ہی ہے جو اپنی مشیتّ اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جس کو چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ اب بڑی سخت آیت آرہی ہے ‘ جو بڑی لرزا دینے والی آیت ہے۔ صحابہ کرام (رض) میں سے ایک بڑی تعداد مہاجرین کی تھی جو مکہ کی سختیاں جھیل کر آئے تھے۔ ان کے لیے تو اب جو بھی مراحل آئندہ آنے والے تھے وہ بھی کوئی ایسے مشکل نہیں تھے۔ لیکن جو حضرات مدینہ منورہ میں ایمان لائے تھے ‘ یعنی انصار ‘ ان کے لیے تو یہ نئی نئی بات تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے تو وہ سختیاں نہیں جھیلی تھیں جو مکہ میں مہاجرین نے جھیلی تھیں۔ تو اب روئے سخن خاص طور پر ان سے ہے ‘ اگرچہ خطاب عام ہے۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب عام طور پر ملتا ہے کہ الفاظ عام ہیں ‘ لیکن روئے سخن کسی خاص طبقہ کی طرف ہے۔ تو درحقیقت یہاں انصار کو بتایا جا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا پھولوں کی سیج نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

230. When ignorant people attempt to trace the history of 'religion' they tend to the view that man began his life in the darkness of polytheisrn and that in the course of time, corresponding to man's progress, this darkness gradually receded and light increased till man arrived at monotheism. The Qur'anic version, however, proclaims that man began his life in full light of the Truth. God revealed this Truth to the very first man He created, one to whom He intimated the right way of life for man. Thereafter the human race remained on the Right Way for some time and lived as one community. Later, however, people invented deviating ways. This did not happen because Truth had not been communicated to them. The cause was rather that some people wilfully sought to acquire privileges, benefits and advantages beyond their legitimate limits, and thus subjected others to injustices. It was in order to enable people to overcome this corruption that God sent His Prophets. These Prophets were not sent to found separate religions in their own names and bring new religious communities into existence. Rather the purpose of the Prophets was to illuminate before people the Truth which they had allowed to be lost, and once again make them into one community.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :230 ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی ، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا ۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے ۔ اس کے بعد ایک مدت تک نسل آدم راہ راست پر قائم رہی اور ایک امت بنی رہی ۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی ، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات ، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم ، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے ۔ اسی خرابی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا ۔ یہ انبیا علیہم السلام اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی امت بنالے ۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہ حق کو واضح کر کے انہیں پھر سے ایک امت بنا دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کے مابین کے زمانے تک دس قرن گذرے ہیں ان دس قرنوں میں سب لوگ موحد تھے بت پرستی سر زمین پر کہیں نہیں تھی۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) سے پہلے اس قوم کے چند نیک آدمی مرگئے جو لوگ ان وفات یافتہ لوگوں کے معتقد تھے ان کو ان نیک لوگوں کی وفات کا ان کی صورتیں آنکھوں کے سامنے اٹھ جانے کا بڑا صدمہ ہوا شیطان نے موقع پاکر ان لوگوں کے جی میں یہ وسوسہ ڈالا کہ اگر ان مرے ہوئے بزرگ لوگوں کی صورت کے موافق پیتل اور تانبے کی صورتیں بنا کر جہاں عبادت خانوں میں وہ نیک لوگ بیٹھا کرتے تھے وہاں مورتیں رکھ لی جائیں اور ان مورتوں کے وہی نام رکھے جائیں جو ان اصل نیک شخصوں کے تھے تو تم لوگوں کا جی بھی عبادت میں ویسا ہی لگے گا جس طرح ان نیک لوگوں کی زندگی میں لگتا تھا اور ان کی صورتیں آنکھوں کے سامنے رہنے سے ان کی وفات کا غم بھی کچھ بھولا رہے گا ان لوگوں نے اس وسوسہ کے موافق وہ مورتیں بنائیں اور رفتہ رفتہ آخر کو ان مورتوں کی پوجا ہونے لگی جو پوجا آج تک بت پرست لوگوں میں قائم ہے۔ اور اس خرابی کی اصلاح کے لئے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کے انبیاء آئے ہیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اس قدر بت پرستی دنیا سے اٹھ بھی گئی۔ مثلاً ایک زمانہ تھا کہ مکہ جو خود اللہ تعالیٰ کا گھر کہلاتا ہے وہاں تین سو سے زیادہ بت رکھے ہوئے تھے اور بت پر ستتوں کے زور کے سبب سے ہر مسلمان کو مکہ سے ہجرت فرض تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے وہ زائل کردیا کہ اور شہروں سے ہجرت کر کے مکہ کو جانا موجب اجر ہے اور مکہ تو کیا جزیرہ عرب میں بھی بت پرستی کا نام نہیں رہا۔ اس آیت میں اتنی بات مخذوف ہے کہ جب سے لوگوں نے توحید چھوڑ کر بت پرستی اور آپس کا اختلاف شروع کیا اس وقت سے اللہ تعالیٰ نے صاحب شریعت انبیاء کو بھیجنا شروع کیا چناچہ سورة یونس کی آیت { وما کان الناس الا امۃ واحدۃ فاختلفوا } (١٠: ١٩) میں اللہ تعالیٰ نے اس محذوف کو ظاہر فرمایا ہے اس لئے حاکم نے اپنی مستدرک میں اسی مضمون کی حدیث کی روایت کی ہے اور اس کو صحیح کہا ہے ١۔ اور عبد اللہ بن مسعود (رض) کی قرأت بھی یہ ہے ٢۔ کان الناس امۃ واحدۃ فاختلفوا فبعث اللہ النبییین الایۃ کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں جن میں تین سو تیرہ رسول ہیں۔ پانچ رسول حضرت نوح ( علیہ السلام) ، ابراہیم ( علیہ السلام) ، موسیٰ ، عیسیٰ ( علیہ السلام) ، محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اولوا العزم کہلاتے ہیں ٤۔ اور صحائف کو ملا کر ایک سو چار کتابیں آسمان سے اتری ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:213) امۃ واحدۃ۔ موصوف صفت مل کر کان کی خبر۔ امۃ بمعنی امت ۔ جماعت، مدت ، دین، یہاں بمعنی دین مستعمل ہے۔ امۃ واحدۃ ای علی دین واحد۔ فبعث اللہ النبیین۔ بعث ماضی واحد مذکر غائب بعث (باب فتح) مصدر۔ اس نے بھیجا اس نے بھیجے (نبی) جملہ ہذا سے قبل فاختلفوا محذوف ہے عبارت یوں ہوگی : کان الناس امۃ واحدۃ فاختلفوا فیعث اللہ النبین (ابتداء میں لوگ ایک ہی دین پر تھے۔ پھر ان کا آپس میں اختلاف ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو بھیجا۔ مبشرین ومنذرین۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت نصب بوجہ مال نبیین سے (اہل ایمان کو جنت کے دیگر انعامات کی) خوشخبری دینے والے اور (منکرین کو ان کے گناہوں کی پاداش میں سزا سے) ڈرانے والے۔ معہم۔ ای مع النبیین۔ الکتب سے مراد جنس کتاب ہے۔ بالحق کتاب سے حال واقع ہے یعنی مشتملا علی الحق (حق پر مشتمل) لیحکم میں لام تعلیل کی ہے۔ اور یحکم میں ضمیر فاعل کا مرجع اللہ یا کتب ہے یا اس کتاب کے ساتھ جو نبی ہے تاکہ اختلافی امور میں لوگوں کے درمیان فیصلہ دیا کرے فیما اختلفوا فیہ ما موصولہ ہے اور فیہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع۔ اس امر کے متعلق جس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ مطلب یہ کہ : اس نے نبیوں کو مبشرین و منذرین بنا کر بھیجا۔ اور ان (میں بعض) پر کتاب نازل فرمائی جو سراسر حق باتوں پر مشتمل تھی تاکہ اللہ تعالیٰ خود یا اس کی مشتمل برحق کتاب یا نبی جس وہ کتاب نازل کی گئی ان باتوں کے متعلق جن میں لوگوں کا اختلاف تھا (ٹھیک ٹھیک) فیصلہ کر دے۔ وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ۔ فیہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب کا مرجع الحق ہے یا کتاب الذین موصول عہد کے لئے ہے۔ اور اس سے مراد یہود اور نصاریٰ ہیں۔ اوتوہ۔ اوتوا ماضی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جو کتاب کی طرف راجح ہے۔ یعنی جنہیں وہ کتاب دی گئی مطلب یہ کہ اس حق میں جس پر یہ کتاب جو یہود و نصاری کو دی گئی مشتمل تھی۔ انہوں نے ہی اختلاف اختیار کیا۔ (کتاب سے مراد یہاں توراۃ اور انجیل ہے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل کی گئی اور اختلاف سے مراد یہ امور ہوسکتے ہیں : (1) باہمی ضد اور حسد کی وجہ سے ایک دوسرے کی تکفیر (2) کتاب میں تحریف اور تبدیل پر اختلاف۔ (3) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے متعلق توراۃ و انجیل میں حوالہ جات جو صریحاً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دال تھے ان پر ان کا باہمی اختلاف۔ من بعد ما جاء تھم البینت۔ بینت سے مراد وہ محکم آیات جو تورات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت دینے والی اور آپ کے اوصاف کریمہ کو بیان کرنے والی تھیں۔ یہ جملہ اختلف سے متعلق ہے۔ بغیا بینھم۔ باہمی ضد اور حسد۔ یہ اختلف کا مفعول لہ ہے۔ فھدی اللہ الذین امنوا لما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ۔ ھدی لہ۔ راستہ بتلانا۔ سیدھے راستہ پر قائم رکھنا۔ ھدی۔ ھدی۔ ھدایۃ مصدر۔ من الحق حال ہے ضمیر فیہ سے یا ما سے باذنہ حال ہے الذین امنوا سے ای ماذونا لہم۔ باذنہ اپنے امر و ارادہ سے۔ اپنے فضل و کرم سے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو حق میں جو بھی ان کو اختلاف تھا اپنے حکم سے راہ ہدایت دکھائی۔ یعنی ایمان والے اگر حق بات کے متعلق آپس میں کوئی اختلاف رکھتے بھی تھے تو چونکہ وہ بغیا بینھم پر مبنی نہ تھا۔ بلکہ محض لاعلمی یا ناسمجھی یا لاشعوری کی وجہ سے تھا ۔ لیکن ان کی نیتوں میں خلوص اور جذبہ ایمان تھا اس لئے خدا و ند تعالیٰ نے اپنے حکم (فضل و کرم) سے ان کو اس اختلاف سے نکال کر ہدایت کا راستہ دکھا دیا۔ صاحب تفسیر ماجدی لکھتے ہیں لما اختلفوا فیہ میں ذکر اہل حق کے اختلاف کا ہے اہل باطل سے باذنہ میں اذن کے معنی فضل ، توفیق اور لطف کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اس آیت میں اس تاریخی حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ انسان یت کی ابتدا کفرو شرک اور بظاہر پرستی سے نہیں بلکہ خالص دین توحید سے ہوتی ہے ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین توحید رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی، حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حسب تصریح ابن عباس دس قرنوں (ایک ہزار سال) تک تمام لوگ موجود تھے اس کے بعد شیطان کے بیکانے ان میں شرک آیا اور اختلاف پیدا ہوئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا اور پھر مسلسل انبیاء آتے رہے اور ان پر کتابیں نازل ہوتی رہیں تاکہ ان کو اختلافات سے نکال کر ہدایت الہی کی طرف لایا جائے پس آیت میں فبعث اللہ الخ۔ ا کا عطف مخذف پر ہے یعنی فاختلفو افبعث اللہ۔ (کبی ابن جریر دیکھئے سورت یو نس آیت 19 ۔ ) 1 یعنی پہلی امتوں میں ضد اور سرکشی کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور اس کی بدولت وہ گمراہو گئیں اب اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی بھیج کر اور ان پر اپنی آخری کتاب نازل فرماکر تما اختلاف کا فیصلہ کردیا اور اپنی توفیق خاص (باذنہ) سے مومنوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کردی ہے ( بیضاوی۔ فتح البیان) واضح رہے کہ امت محمد یہ میں بھی تمام کے تمام قرآن و حدیث کی بلا واسطہ اتباع کرتے رہے پھر جب دین میں غلط رائے کے خام اجتہاد اور تقلید پر جمود پیداہو گیا لوگ آراء اور اہوا پرستی کو دین سمجھنے لگ گئے تو امتفرقوں میں بٹ کر تباہ ہوگئی۔ اس سے صرف متبع سلف (اہل حدیث) ہی محفوظ رہے۔ (للہ الحمد) ، ( تبصرہ) صحیحین میں برایت حضرت عائشہ (رض) مذکور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد میں دعا استفتاح میں یہ پڑھا کرتے۔ اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 213 کان الناس (لوگ تھے) ۔ امۃ واحدۃ (ایک جماعت) ۔ بعث (بھیجا) ۔ مبشرین (خوش خبری دینے والے (اچھے کاموں پر خوش خبری دینے والے) ۔ منذرین (ڈرانے والے (برے کاموں کے انجام سے ڈرانے والے) ۔ لیحکم (تا کہ وہ فیصلہ کر دے) ۔ تشریح : آیت نمبر 213 حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت آدم و حوا نے اس زمین پر قدم رکھا تھا اللہ نے آپ کی اولاد میں برکت عطا فرمائی اور وہ پھیلتے چلے گئے حضرت ادریس (علیہ السلام) تک جو تقریباً ایک ہزار سال کا عرصہ ہوتا ہے اس میں تمام لوگ ایک ہی شریعت کے پیروکار اور اللہ کی بھیجی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتے رہے ان میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان نے ابتداء شر ک سے نہیں بلکہ توحید سے کی تھی مگر پھر بعد میں مزاجوں اور رائے کے اختلاف سے مختلف عقائد و نظریات پیدا ہوتے گئے، جن میں حق و باطل کا امتیاز کرنا مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کو واضح کرنے کے لئے مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں میں اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا تا کہ وہ اللہ کی سچی تعلیمات کے ذریعہ امت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچا سکیں اور امت سچی اور نجات کی راہ حاصل کرسکے، جو لوگ بغض و حسد اور عناد و سرکشی میں پھنس گئے تھے انہوں نے اپنی دنیا اور آخرت برباد کر ڈالی اور جنہوں نے انبیاء کا راستہ اختیار کیا وہ دنیا و آخرت کی سعادت سے ہم کنار ہوگئے۔ ان آیتوں میں درحقیقت مسلمانوں کو اس ذمہ داری کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو آخری امت ہونے کی وجہ سے ان کے کاندھوں پر آپڑی ہے فرمایا کہ اب تمہارے اندر اللہ کے آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخری کتاب آچکی ہے جو سراسر ہدایت ہی ہدایت ہے اب اگر تم نے بھی اور امتوں کی طرح باہمی اختلافات اور فرقہ بندیوں کو ہوا دی تو تمہارا انجام بھی گزری ہوئی قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ لیکن اگر تم نے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی تعلیمات پر پوری طرح عمل کیا تو یقیناً دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں اور سعادتیں تمہیں عطا کی جائیں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اول دنیا میں حضرت آدم (علیہ السلام) مع اپنی بی بی کے تشریف لائے اور جو اولاد ہوتی گئی ان کو دین حق کی تعلیم فرماتے رہے اور وہ ان کی تعلیم پر عمل کرتے رہے ایک مدت اسی حالت میں گزر گئی پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہوناشروع ہوا حتی کہ ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دنیاوی فوائد، سماجی، سیاسی، اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے امت کی وحدت ختم ہوگئی۔ وحدت اور دین حق کے احیاء کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء مبعوث فرمائے۔ لوگوں نے ان سے بھی اختلاف کیا حالانکہ انبیاء ‘ اختلافات مٹانے کے لیے آئے تھے۔ قرآن و حدیث کے علم سے بےبہرہ دین دشمن مستشرقین اور نام نہاد دانش مندوں نے کئی نسلوں سے یہ پروپیگنڈہ کر رکھا ہے کہ انسان تخلیقی طور پر تاریکی اور شرک کے ماحول میں پیدا ہوا ہے۔ اسی لیے انسان نے نسل در نسل ارتقاء کے بعد آہستہ آہستہ اپنے خالق کو پہچانا ہے۔ یہ باطل نظریات انگلش لٹریچر میں منظم طریقے کے ساتھ پھیلائے گئے ہیں اسی نظریے کی بنیاد پر عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان تخلیقی طور پر گناہگار پیدا ہوا ہے۔ قرآن مجید ایسے نظریے اور معلومات کی نفی کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے وقت ہی توحید کے تصور سے اس قدر آشنا ہوچکا تھا کہ اسے اپنے خالق کا اعتراف کرتے ہوئے ذرّہ برابر بھی تأمّل نہ ہوا۔ اس کی گرہ کشائی کے لیے سورة الاعراف : آیت ١٧٢ تا ١٧٤ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ” اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے بیخبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔ “ یہاں اسی نقطہ کی وضاحت کی جارہی ہے کہ انسان فطری و بنیادی طور پر ایک نظریے کے حامل ہونے کی بنا پر ایک ہی جماعت تھے اور ان کی فطرت میں دین اسلام سمودیا گیا ہے۔ لیکن بعد ازاں وہ توحید کے نظریے سے دور ہوئے اور ان کی وحدت بھی پارہ پارہ ہوتی چلی گئی۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مخصوص الفاظ میں انسانی فطرت کی اس طرح ترجمانی فرمائی ہے : (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ أَوْیُنَصِّرَانِہٖ أَوْیُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَھِیْمَۃِ تُنْتِجُ الْبَھِیْمَۃَ ھَلْ تَرٰی فِیْھَا جَدْعَاءَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز ‘ باب ماقیل فی أولاد المشرکین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، یا عیسائی، یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ چوپائے کی طرح جب جانور جنم لیتا ہے تو کیا تم اس میں کوئی کان کٹا ہوا پاتے ہو ؟ “ چنانچہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) کی وفات تک پوری انسانیت نظریۂ توحید پر قائم رہتے ہوئے ایک جماعت اور کنبے کے طور پر زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) سے قبل لوگوں میں پہلی دفعہ شرک پھیلنے لگا۔ شرک کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی لوگ ایک دوسرے سے دور اور منتشر ہوتے چلے گئے کیونکہ توحید وحدت کا سبق دیتی ہے اور شرک انتشار کا سبب ہوتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت اور انہیں یکجا رکھنے کے لیے حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سلسلۂ نبوت جاری فرمایا۔ ان میں سے کئی انبیاء کو ضخیم کتابیں اور کچھ نبیوں کو صحائف اور باقی کو ایک دوسرے کی تائید کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ وہ پیش آمدہ مسائل اور اختلافات میں لوگوں کو حق اور سچ کی طرف بلائیں اور ان کے باہمی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ اختلاف پیدا کرنے میں پیش پیش رہے جن کے پاس پہلے سے آسمانی ہدایت اور دلائل آچکے تھے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی بنیادی وجہ حسد وبغض، اور ایک دوسرے پر مذہبی، معاشی، سیاسی اور شخصی بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ جسے ” بَغْیًا بَیْنَھُمْ “ سے تعبیر کیا گیا۔ ایسے نام نہاد تعلیم یافتہ لوگوں نے اختلافات کو اس قدر ہوادی کہ جس میں حقیقت کو پہچاننا عام انسان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ تاہم وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہر دور میں ہدایت پاتے رہے جنہوں نے اخلاصِ نیّت کے ساتھ ہدایت کی جستجو کی۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی سے دوچار کرتا ہے۔ اگر ان الفاظ کا وہی معنی لیا جائے جو حیلہ سازلوگ لیتے ہیں کہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے تو ہدایت نہ پانے میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ ایسے لوگوں کی بات تسلیم کرلی جائے تو انبیاء کی تشریف آوری، ان کی لازوال جدوجہد اور قیامت کے دن جزاء وسزا کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے عقیدہ کے اس بنیادی اصول کو سامنے رکھیے جس میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ اسی طرح ہدایت اور گمراہی بھی اللہ کی ملک اور اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات میں سب سے گراں قدر نعمت ہدایت ہے۔ یہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اس کے طالب اور متلاشی ہوا کرتے ہیں۔ جو ہدایت سے انحراف کرتے ہیں ان کے لیے گمراہی کا راستہ آسان ہوتا ہے۔ اس مفہوم کو قرآن مجید (یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ) [ النحل : ٩٣] کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔ مسائل ١۔ ہر انسان فطرت سلیم اور عقیدۂ توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ ٢۔ حق پہنچانے اور اختلافات مٹانے کے لیے انبیاء مبعوث ہوئے۔ ٣۔ اختلافات کی بنیادی وجہ توحید سے بغاوت اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ ٥۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے دے دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبوت کے مقاصد : ١۔ بعثت انبیاء کے مقاصد۔ (البقرہ : ٢١٣، المزمل : ١٥، الجمعۃ : ٢) ٢۔ انبیاء تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتے ہیں۔ (ابراہیم : ١، ٥) ٣۔ انبیاء کا مقصد لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنا۔ (النساء : ١٠٥) ٤۔ نبی کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٥۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ : ٤٢) ٦۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاہد اور مبشر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ (الأحزاب : ٤٥) ٧۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کیے گئے۔ (الأنبیاء : ١٠٧) ٨۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفیق و مہربان بنائے گئے ہیں۔ (آل عمران : ١٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے وہ کہانی ۔ پہلے سب لوگ ایک امت ہی کے افراد تھے ۔ ایک تصور زندگی اور ایک ہی طرز عمل تھا۔ یہ اشارہ ہے اس چھوٹے انسانی خاندان کی طرف ، جو حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کی ان اولاد پر مشتمل تھا ۔ اور ابھی ابن آدم کے درمیان افکار ونظریات کا اختلاف پیدا نہ ہوا تھا ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے خاندان سے محض اس لئے کیا کہ انسانی زندگی میں خاندانی نظام خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابتدا میں انسانیت پر ایک ایسا دور گزرا ہے ، جس میں سب انسان ایک ہی سطح کے تھے ، ان کا ایک ہی رخ تھا ، ایک ہی نظریہ تھا ۔ وہ صرف ایک ہی خاندان کی شکل میں تھے ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ انسان ترقی کرگئے ۔ پھر ادھر ادھر بکھرکر بسنے لگے ان کے بودوباش کے طریقوں میں اختلاف ہوگیا ۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو خوبیاں ودیعت کی تھیں وہ ظاہر ہونے لگیں ۔ یہ خوبیاں اللہ نے تخلیق کے وقت ان کے اندر رکھ دی تھیں ۔ کسی میں کم تھیں کسی میں زیادہ ۔ اس کی حکمت اللہ ہی کے علم میں ہے اور زندگی کی بوقلمونی کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ کسی میں کچھ استعداد اور کسی کا کچھ رجحان ۔ قدرت کی اسکیم کے مطابق لوگوں کے درمیان نقطہ نظرکا اختلاف پیدا ہوگیا ، لہٰذا انسانیت نے اگلے درجے میں قدم رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کے لئے نبی بھیجے جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ” اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ “ یہاں وہ عظیم حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے یہ کہ لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے ۔ کیونکہ اختلاف ان کی تخلیق کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے ۔ اس اختلاف ہی کے نتیجے میں وہ اسکیم روبعمل آتی ہے جس کی خاطر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ یعنی زمین پر نیابت الٰہی اور منصب خلافت کے چلانے میں انسان کو مختلف قسم کے فرائض سرانجام دینے تھے ، ان کے لئے مختلف قسم کے لوگ اور گوناگوں قابلتیں رکھنے والوں کی ضرورت تھی ، تاکہ یہ سب افراد مل کر نظام خلافت کو پوری ہم آہنگی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور اس کرہ ارض کی تعمیر و ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ اسکیم کو روبعمل لائیں اور ہر شخص اس میں اس کے لئے طے شدہ رول ادا کرے ، لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف فرائض کی ادائیگی کے لئے لوگوں کی صلاحتیں بھی مختلف ہوں اور جس طرح انسان کی ضروریات ہیں اسی طرح انسانوں کی استعداد بھی مختلف ہو : وَلَا یَزَالُونَ مُختَلِفِینَ اِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَٰلِکَ خَلَقَھُم ” اور یہ لوگ یونہی مختلف رہیں گے ۔ ماسوائے ان کے جن پر اللہ رحم فرمائے اور اسی اختلاف کے لئے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ “ قابلیتوں اور فرائض کے اس قدرتی اختلاف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان افکار کا اختلاف جنم لیتا ہے ، ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں ۔ ان کا طریقہ کار اور پھر آخر کار ان کا نظام زندگی بدل جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ یہ فطری اختلافات مطلوب حد تک ہونے ضروری ہیں ۔ البتہ ان اختلافات کو ایک وسیع دائرے کے اندر رہنا چاہئے اور یہ اختلافات تعمیری ہونے چاہییں اور سیدھے ہونے چاہئیں ۔ یہ وسیع دائرہ کیا ہے جس کے اندر یہ محدود ہوں ؟ وہ ایمانی تصور حیات کا دائرہ ہے اور یہ اس قدر وسیع ہے کہ مختلف استعداد رکھنے والے لوگ ، مختلف طاقتوں کے مالک لوگ ، اور مختلف قابلیتوں کے لوگ اس کے اندر پوری ہم آہنگی کے ساتھ کام کرسکتے ہیں ۔ ایمانی تصور حیات ان اختلافات یعنی فطری اختلافات کو نہ دباتا ہے اور نہ ہی بالکل ان کا قتل عام کرتا ہے بلکہ ان کو ایک تنظیم میں لاتا ہے اور ہم آہنگ کرتا ہے اور ان سب کے رخ کو اصلاح و ترقی کی شاہراہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اندریں حالات میں ایک ایسے معیار کا وجود ضروری ہوگیا کہ باہم ٹکراؤ کی اس صورت میں لوگ اس کی طرف رجوع کریں ۔ جو ایک حاکم عادل ہو ، جس کے سامنے فریقین پیش ہوں اور جس کا قول فیصل ہو ، جس کے بعد بحث و تکرار ہی نہ رہے ، وہ ایسا ہو کہ سب لوگ اس کے ذریعہ ذوق یقین اپنے اندر پیش کریں فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا ” تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلاف رونما ہوگئے تھے ، ان کا فیصلہ کرے ۔ “ ہمیں چاہئے کہ لفظ بالحق پر غور کریں ۔ یہ دراصل اس امرپر قول فیصل ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب اللہ میں ہے ۔ اور اس حق کو اس لئے اتارا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے مختلف تصورات ، ان کے طریقہ ہائے کار اور ان کی اقدار کے لئے بمنزلہ دیانت دار منصف ہے اور تمام اختلافات میں فیصلے کا آخری مقام ہے ۔ اس کے سوا سچائی کہیں نہیں ملے گی ، اس کے ساتھ کوئی متوازی منصف نہیں ہے ، اس کی بات کے بعد پھر کوئی بات نہیں ہے ، یہ حق جو ایک اور لاشریک ہے ، اس کے بغیر تمام اختلافات اور نظریات میں اسے حکم بنائے بغیر ، اور بغیر کسی مزید مقدمہ بازی اور بغیر کسی اعتراض کے اس کے حکم کو حکم آخر تسلیم کئے بغیر اس زندگی کی گاڑی سیدھی پٹری پر روانہ نہیں ہوسکتی ۔ ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ لوگوں کے درمیان موجود شدید اختلافات ختم نہیں ہوسکتے ۔ زمین پرامن قائم نہیں ہوسکتا اور کسی صورت میں بھی ، ان تدابیر کے بغیر ، انسان امن وسلامتی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ لوگ اپنے تصورات اور قوانین حیات کہاں سے لیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قوانین حیات اور نظام حیات کے سرچشمے کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کتاب اللہ کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جائے کہ تمام اختلافات کا آخری فیصلہ کتاب اللہ ہی سے ہوگا۔ نیز یہ کہ یہ دوئی قبول نہیں کرتا ۔ اللہ پاک نے اس کتاب کو نازل فرمایا اور حق کے ساتھ نازل فرمایا۔ وہ منبع ایک ہی ہے ۔ اس میں تعدد ممکن نہیں اور یہ وہی منبع ہے جہاں سے کتاب اللہ کا نزول ہوا اور اس لئے ہوا کہ وہ اختلافی امور میں قوت فیصلہ ہو ، معیار حق ہو۔ وہ کتاب اپنی ماہیت کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ سب رسول اسی ایک کتاب کو لے کر آتے رہے ہیں ، لہٰذا تمام آسمانی کتابیں ایک ہی کتاب ہیں اور تمام ملتیں بھی دراصل ایک ہی ملت ہیں اور ان کتب ورسل کے تصورات حیات بھی دراصل ایک ہی ہیں ۔ ایک اللہ ، ایک معبود ، تمام انسانوں کے لئے ایک ہی قانون ساز ، البتہ مختلف ادوار اور مختلف ملل ونحل اور مختلف طرز ہائے زندگی اور مختلف قسم کے ادوار کے لئے تفصیلی اور جزوی احکام میں قدرے فرق ہوا۔ اور تمام حذف واضافہ کے بعد آخری مستقل اور مکمل صورت قرآنی تعلیمات اور ان تعلمیات کے ذریعہ زندگی کو بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی کی راہ پر آزادانہ طور پر ڈال دیا گیا ، تاکہ انسانی زندگی اپنے وسیع دائرے میں ، اللہ کی راہنمائی اور ہدایت کی روشنی میں ، اللہ کی شریعت اور زندہ نظام زندگی کے مطابق اپنے وسیع حدود میں ترقی کرتی چلی جائے ۔ کتاب اللہ کے بارے میں قرآن کریم کا یہ فیصلہ ہی دراصل تمام نظریات اور تمام عقائد کے بارے میں صحیح اسلامی نقطہ نظر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصل میں ہر نبی اسی ایک دین کو لے کر آیاجو چند بنیادی عقائد یعنی عقیدہ توحیدوغیرہ پر مشتمل رہا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہر امت نے اپنے رسول کے اٹھ جانے کے بعد رفتہ رفتہ اپنے اصل دین سے انحراف اختیار کرلیا اور غلط روایات اور کہانیوں کا ایک ایسا انبار جمع ہوا کہ اس کے اندر دین اصل الاصول دب کر رہ گئے ۔ لوگ اصل دین سے دور جاپڑے ۔ یوں ضرورت پیش آتی ہے کہ ایک جدید رسالت ایک جدید نبی کے ذریعے بھیجی جائے ۔ جدید نبی ضرور آتا رہا لیکن دراصل دین اسلام کی تجدید ہی ہوتی رہی ۔ خرافات کا جو انبار دین میں داخل ہوچکا تھا یہ رسول اس کی نفی کرتا رہا۔ اور اس دور کے حالات کے مطابق لوگوں کو ایک نظام ایک قانون دیا جاتا رہا ۔ ایک نظام معاشرت کی بنیاد رکھتا رہا ، تاآنکہ قرآن نازل ہوا اور اب دینی نظریات و عقائد کے بارے میں قرآن کریم ہی لائق اتباع ہے اور حق ہے۔ بعض غیر مسلم علماء جب تاریخ مذاہب و عقائد پر بحث کرتے ہیں تو ان کا منہاج بحث یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر نبی کی تعلیمات کو نبی ماقبل سے مختلف ثابت کرتے ہیں ، یوں گویا وہ نظریاتی ارتقاء ثابت کرتے ہیں۔ بعض مسلم محققین بھی اس منہج بحث سے متاثر ہوجاتے ہیں اور غیر شعوری طور پر وہ بھی ادیان کے اصل نظریات و عقائد میں تغیر وبتدل ڈھونڈتے ہیں ۔ یہ انداز بحث مستشرقین اور مذاہب کے بارے میں خود مغرب کے اہل تحقیق اختیار کرتے ہیں۔ ایمان کے اصل تصور میں تسلسل اور ثبات کا یہ نظریہ ہی اس کتاب کا مقصد نزول ہے ، جسے سچائی کے ساتھ نازل کیا گیا ہے اور اس لئے نازل کیا گیا کہ وہ لوگوں کے درمیان ، ان کے اختلافی مسائل کے بارے میں فیصلہ کرے ۔ ہر دور میں ، ہر رسول ، نبی کے بارے میں اور ابتدائی زمانوں سے لے کر آج تک تمام مسائل کے بارے میں کرے ۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسی ترازو موجود ہو جس کے مطابق سب لوگ اپنے نظریات و عقائد کی قیمت معلوم کریں ۔ ایک قول فیصل ہو جس کے بعد بحث ختم ہوجائے ، نیز اس بات کی بھی اشد ضرورت تھی کہ اس ترازو اور اس قول فیصل کا سرچشمہ انسانی نہ ہو ۔ یہ ترازو اور قول فیصل اس ذات کا ہو جو انسانی خواہشات سے متاثر نہ ہو ، وہ انسانی نقائص سے بھی پاک ہو اور اس سرچشمے میں انسان کی طرح جہالت بھی نہ ہو ۔ پھر اس قسم کی ترازو قائم کرنے کے لئے لامحدود علم کی ضرورت ہے ۔ ہر واقعہ کا علم ضروری ہے ، خواہ ہوچکا ہے ، ہورہا ہے یا ہونے والا ہے ۔ یہ علم ہو بھی مطلق یعنی وہ علم نہ زمانے کی قید سے مقید ہو کر ایک ہی چیز زمانے کے اعتبار سے جدا ہوجاتی ہے۔ ماضی ، حال اور مستقبل قرار پاتی ہے ۔ ایک چیز یقینی ، ظنی اور مجہول کہلاتی ہے ۔ ایک ہی چیز کبھی حاضر ہوتی ہے کبھی غائب ہوتی ہے ۔ کبھی قابل مشاہدہ ہوتی ہے اور کبھی چھپی ہوئی ۔ پھر مکان کی قید سے ایک ہی چیز قریب ہوتی ہے ، پھر وہی بعید ہوتی ہے ۔ کبھی دائرہ نظر میں ہوتی ہے کبھی پس پردہ ہوتی ہے ، یا کبھی محسوس ہوتی ہے اور کبھی غیر محسوس ہوتی ہے ، غرض ایسے اللہ و معبود کے علم کی ضرورت ہے جو یہ جانے کہ کیا پیدا کیا اور کس نے پیدا کیا ۔ اسے معلوم ہو کہ مفید کیا ہے اور کیا سب کے لئے مفید ہے ۔ اس قسم کی میزان قائم کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ میزان قائم کرنے والا ضروریات سے بےنیاز ہو ، نقص سے پاک ہو ، فنا سے مبرا ہو ، کوئی چیز اس سے بچ نہ سکتی ہو ، اور موت اسے لاحق نہ ہوتی ہو ، وہ طمع سے پاک ہو ، اسے کسی چیز کی رغبت نہ ہو اور نہ کسی کا ڈر ہو ۔ وہ اس پوری کائنات پر غالب ہو اور اس کی ہر چیز اور ہر شخص پر حکمرانی ہو ۔ غرض میزان اس اللہ اور معبود کی ہو جو خواہشات سے پاک ، ضروریات سے پاک اور اس میں کوئی قصور اور کمی نہ ہو۔ رہی خود انسان کی عقل و دانش ، تو اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھے ، بدلتے ہوئے ماحول پر اس کی نظر ہو ، نئی نئی ضروریات اس کے سامنے ہوں اور پھر وہ ان حالات میں ایک متعین وقت اور ایک مخصوص صورتحال میں ، ہم آۃ ن گی پیدا کرے ، لیکن اس صورت میں جب انسان کے پاس کوئی معیار حق موجود ہو ، جس کے ذریعہ انسان اپنی غلطی اور اپنی راستی کا اندازہ کرسکے ۔ اپنی راست روی اور کج روی معلوم کرسکے ، برسر حق اور برسر باطل ہونے کا اندازہ کرسکے اور یہ سب فیصلے اسی معیار کے مطابق ہی ہوں ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس کے مطابق زندگی صحیح ڈگر پر چل سکتی ہے ۔ اور لوگ اس بات پر مطمئن ہوسکتے ہیں کہ ان کے امور سیاست و قیادت رب معبود کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ کتاب سچائی کے ساتھ اس لئے نہیں اتاری گئی کہ یہ لوگوں کے درمیان قدرتی صلاحیتیوں کے امتیازات ختم کردے ۔ متنوع وسائل حیات کو ختم کردے ، مختلف طور طریقوں اور مختلف قابلیتوں کا فرق اور امتیاز مٹاڈالے بلکہ اس کتاب کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اگر لوگوں کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے تو حق کے مطابق فیصلہ کردے۔ اس حقیقت کو اگر صحیح طرح ذہنن نشین کرلیا جائے تو اس کے منطقی نتیجہ کے طور پر اسلام کا تاریخی نقطہ نظر اچھی طرح سمجھاجاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام اس کتاب کو ، جسے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ، لوگوں کے اختلافی امور میں ایک لازمی حاکمیت کا درجہ دیتا ہے۔ وہ اس کتاب کو انسانی زندگی کا اصل الاصول قرار دیتا ہے۔ اب قافلہ حیات کو دیکھا جائے گا کہ اگر وہ اس اصل سے متفق ہے ، اس کے مطابق جارہا ہے ، اس اصول پر قائم ہے ، تو وہ راہ حق پر ہے ۔ اگر قافلہ نظام حیات سے نکل جائے اور کچھ دوسرے اصولوں پر چل پڑے ، تو معلوم ہوجائے گا کہ اب یہ قافلہ راہ باطل پر گامزن ہوگیا ہے ۔ اگر تاریخ انسان کے کسی دور میں تمام کے تمام انسان اس نظام باطل پر راضی بھی ہوجائیں تب بھی وہ اس باطل کو حق میں نہیں بدل سکتے ۔ باطل ، باطل ہی رہے گا ۔ اس لئے کہ لوگ حق و باطل کھرے اور کھوٹے کو معلوم کرنے کا معیار ہی نہیں ہیں ۔ وہ حکم نہیں ہیں ۔ لوگ اگر خود کسی بات کا فیصلہ کرلیں تو وہ حق نہیں بن جائے گی اور نہ یہ کہ اگر پوری انسانی آبادی کوئی فیصلہ کردے تو وہ دین بن جائے گا ۔ اسلام کا نظریہ ہے کہ اگر لوگ کسی بات پر عمل پیرا ہیں ۔ اگر لوگ کسی بات کے قائل ہوگئے ہیں ، اگر سب لوگ کسی غلط اصول پر اپنی زندگیاں استوار بھی کرلیں تب بھی وہ قول ، وہ فعل اور وہ اصول حق میں نہیں بدل جاتا ۔ اگر وہ اللہ کی کتاب کے خلاف ہو ، لوگوں کا اجتماع اس باطل کو اصول دین میں داخل نہیں کردیتا ، نہ لوگوں کے اس عمل سے وہ اصول دین کی تعبیر وتشریح بن جائے گا ۔ ایسی باتوں پر اگر صدیوں عمل ہوتا رہا ہے ۔ تب بھی اس کے معنی یہ نہیں کہ اب وہ جائز ہوگئی ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے اور اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ اصول دین میں لوگوں نے کئی نئی چیزیں داخل کردی ہیں اور صرف اس صورت میں ہم ان چیزوں کو دین سے علیحدہ کرسکتے ہیں کہ کتاب اللہ کو حکم مانیں ۔ خود اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ مختلف مراحل میں لوگوں نے اصول دین سے انحراف کیا اور یہ انحراف رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے ۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا چونکہ ایک عرصہ سے لوگوں کی زندگی کا اجتماعی نظام اس انحراف پر استوار ہوگیا ہے اس لئے اب یہ انحراف ہی اسلامی نظام کی واقعی اور عملی شکل ہے ۔ ہرگز نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا۔ اگر تاریخ میں اسلام سے کوئی انحراف ہوا ہے اور تعامل بن گیا تو اسلام اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ انحراف اب بھی ایک غلطی تصور ہوگی ۔ اسے حجت نہ سمجھاجائے گا اور نہ وہ کوئی نظیر قرار پائے گا ۔ اس لئے جو لوگ نئے سرے سے اسلامی نظام زندگی قائم کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ان تمام انحرافات کو اکھاڑ پھینکیں ، ان کو کالعدم قرار دیں ۔ اور سب لوگ اس کتاب کی طرف لوٹ آئیں جو نازل ہی اس لئے کی گئی ہے کہ حق کے ساتھ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کرے اور ان کے درمیان حکم ہو۔ جب یہ کتاب آئی تو لوگ ہر طرف سے خواہشات میں گھرے ہوئے تھے ۔ لوگوں پر ان کی خواہشات غالب تھیں ۔ خوف اور لالچ مرغوبات اور کجروی لوگوں کو اللہ کی اس کتاب کی حاکمیت سے دور کئے ہوئے تھی ۔ لوگوں نے حق کی طرف لوٹنا چھوڑ دیا تھا ۔ محض خواہشات نفسیانیہ کی بناپروَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ” اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جاچکا تھا ، انہوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعد محض اس لئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے ۔ “ بغی سے مراد حسد ہے۔ لالچ میں منافست ہے ۔ حرص میں مقابلہ اور خواہشات نفسانیہ کی حسد ہے ۔ غرض یہ حسد اور منافست ہی ہے جس نے لوگوں کو اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام زندگی کے بارے میں اختلاف کو ہوا دینے پر آمادہ کیا ۔ لوگ تفرقہ بازی ، عناد اور بحث و تکرار میں مبتلا رہے ۔ اس اصول کے مطابق مذہبی اختلافات کا تاریخی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر اصول دین کے بارے میں کبھی دوآدمیوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے تو دو میں سے ایک کے دل میں حسد ضرور تھا ، یا دونوں ہی حسد کا شکار تھے لیکن اگر ان فریقین میں ایمانی قوت موجود ہو تو پھر اتحاد واتفاق کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ” پس جو لوگ انبیاء پر ایمان لے آئے انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھایا ، جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ “ اہل ایمان کو اس لئے ہدایت نصیب ہوئی کہ ان کے دل صاف تھے ، ان کی روح یکسو تھی ، ان کے دلوں میں حق تک پہنچنے کی امنگ تھی ۔ اگر حالات ایسے ہوں تو پھر حق تک پہنچنا اور اس پر جم جانا بہت ہی آسان ہوجاتا ہے وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ” اللہ جسے چاہتا ہے ، راہ راست دکھا دیتا ہے۔ “ وہ راہ کون سی ہے جس کی طرف یہ کتاب راہنمائی کرتی ہے ؟ وہ نظام جو حق پر قائم ہوتا ہے اور حق پر چلتا ہے اور حق پر جمارہتا ہے۔ لوگوں کی خواہشات کے مطابق کبھی ادہر ادہر نہیں بدلتا۔ انسانوں کی مرغوبات اور ان کے رجحانات کے ہاتھ میں ایک کھلونابن کر نہیں رہ جاتا۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے راہ مستقیم کے لئے چن لیتا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون لوگ ہیں جن میں قبولیت حق کی استعداد ہے اور پھر اس پر جم سکتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو سلامتی کی راہ پالیتے ہیں بلکہ سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ یہی لوگ غالب ہوں گے ۔ اگرچہ دنیا پرستوں کی نظروں میں ان کی کچھ قدروقیمت نہیں ہوتی اور یہ لوگ محروم تصور ہوتے ہیں ۔ اگرچہ یہ دنیا پرست ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، جس طرح کافر مومنین کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اب تک جو ہدایات دی گئیں ان کا مقصد یہ تھا ، جماعت مسلمہ کے دل میں ایک مکمل واضح اور جامع تصور حیات قائم ہوجائے ۔ یہ ہدایات یہاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ اب جماعت مسلمہ کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ ذرا ان اہل ایمان کے حالات کا مطالعہ کرے ، جو اپنے مخالف دشمنان اسلام ، مشرکین اور اہل کتاب کے اختلاف رائے رکھتے تھے ، پھر ان نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ان پر بیشمار مصیبتیں آئیں ۔ ان اختلافات کی بناپر بڑی بڑی جنگیں لڑی گئیں ، لوگوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اور وہ چور چور ہوگئے۔ جماعت مسلمہ کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ یہ سنت اللہ ہے جو زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے ۔ یوں اہل ایمان کو عام لوگوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے اور انہیں جنت میں داخل کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اس میں داخل ہوں اور اس کے مستحق ہوں۔ سنت اللہ یہ ہے کہ نظریاتی لوگ اپنے نظریات کی مدافعت کریں ۔ وہ اپنے عقائد ونظریات کے لئے مشکلات ، تکالیف اور دکھ و درد برداشت کریں ۔ انہیں کبھی فتح نصیب ہوگی کبھی شکست لیکن وہ ہر حال میں اپنے نظریات پر ثابت قدم رہیں گے ، کوئی سختی انہیں متزلزل نہ کرسکے گی ۔ کوئی قوت انہیں ڈرا نہ سکے گی ۔ مشکلات اور آزمائشوں کے پے درپے حملوں میں وہ ہمت نہ ہاریں ۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ لوگ اللہ کی نصرت کے مستحق ہوجائیں گے ۔ کیونکہ وہ اللہ کے دین کے امین بن گئے ہیں اور جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں وہ دیانت دار ہیں ۔ وہ اس کو بچانے کی قابلیت رکھتے ہیں اور اس کے لئے وہ جنت کے بھی مستحق ہیں ۔ ان کی روحیں خوف سے آزاد ہوگئی ہیں ، وہ ذلت سے آزاد ہوگئے ہیں ۔ وہ عیش و آرام کے حریص نہیں رہے ۔ بلکہ انہیں اب خود اپنی زندگی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ ایسے حالات میں اللہ کے یہ سپاہی آب وگل کی اس دنیا سے بہت ہی دور ہوجاتے ہیں اور جنت اور اللہ کے زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سارے انسان امت واحدہ تھے، حق واضح ہونے کے بعد عناد اور ضد کی وجہ سے مختلف فرقے ہوگئے تفسیر درمنثور ص ٢٤٣ ج ١ میں حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کے درمیان جو قرنیں تھیں یہ سب ہدایت پر اور حق شریعت پر تھے، پھر لوگوں نے اختلاف کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا جو (اس اختلاف کے بعد) سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف بھیجا، اور ایسے وقت میں بھیجا جب کہ لوگوں میں اختلاف ہوچکا تھا اور حق کو چھوڑ چکے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں جو مخلوق پر حجت ہیں۔ اور تفسیر قرطبی ص ٣١ ج ٢ میں کلبی اور واقدی سے نقل کیا ہے کہ امت واحدہ سے وہ مسلمان مراد ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں تھے (اس وقت دنیا میں صرف یہی لوگ اھل ایمان تھے، دوسری کوئی جماعت نہ تھی) حضرت نوح (علیہ السلام) کی وفات کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوگیا (اور اہل ایمان کے مقابلہ میں مشرکوں اور کافروں کی جماعتیں پیدا ہوگئیں) ۔ امتہ واحدہ کا مصداق بیان کرنے کے سلسلہ میں اور بھی اقوال ہیں۔ بہر صورت آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی زمانہ میں تمام انسان ایک ہی مذہب اور ملت اور ایک ہی عقیدہ پر تھے اور یہ وہ دین تھا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول تھا، پھر لوگوں میں (شیطان کے بہکانے سے اور رائے و فکر کے اختلاف سے) بہت سے فرقے پیدا ہوگئے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے راہ حق بتانے کے لیے حضرات انبیاء (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے راہ حق بتانے اور اصلاح حال کرنے کے لیے اپنی پوری پوری کوششیں کیں، یہ حضرات حق قبول کرنے والے کو جنت کی بشارت دیتے تھے۔ اور حق سے منہ موڑنے والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ امور اختلافیہ میں فیصلہ فرمایا، اور حق اور ناحق کو ممتاز کر کے بتادیا، حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیم و تبلیغ سامنے ہوتے ہوئے بھی لوگوں نے اپنی نفسانیت اور ضد وعناد کی وجہ سے حق سے منہ موڑا، اور باہمی اختلاف کرتے رہے، جن کو علم دیا گیا واضح دلائل سامنے ہوتے ہوئے حق سے منحرف ہوئے۔ اللہ جل شانہ نے اپنے فضل سے اہل ایمان کو راہ حق کی ہدایت دی اور جو چیز حق تھی وہ ان کو بتادی۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر درمنثور ص ٢٤٢ ج ١ میں (وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ ) کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب سے نقل کیا ہے کہ جن کو کتاب اور علم دیا گیا ان سے بنی اسرائیل مراد ہیں۔ اور بَغْیًا بَیْنَھُم کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی حرص اور ملک کی طلب اور اس کی ظاہری زیب وزینت کی وجہ سے بعض نے بعض پر بغاوت کردی اور آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مار دیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ہدایت دی جو اختلاف کے وقت اس دین پر قائم رہے جو دین حق تھا وہ خدائے وحدہ لا شریک کے لیے اخلاص کے ساتھ دین میں لگے اور اختلاف والوں سے علیحدہ ہو کر رہے، لہٰذا یہ لوگ قیامت کے دن دوسری قوموں یعنی قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح اور قوم شعیب (وغیرہم) کے مقابلہ میں گواہی دیں گے اور یہ بتائیں گے کہ ان کے رسولوں نے ان کو تبلیغ کی تھی لیکن انہوں نے ان کو جھٹلایا تھا۔ اس عالم میں اللہ جل شانہ کی طرف سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لاتے رہے ہیں اور کتب الٰہیہ نازل ہوتی رہی ہیں۔ حق پر چلنے والے بھی رہے اور مخالفین بھی رہے اب اہل ایمان کو سمجھ لینا چاہئے کہ اہل کفر ہماری مخالفت کرتے رہیں گے اور حق ظاہر ہونے کے باو جود اسے اختیار نہ کریں گے اور جب اختلاف ہوگا تو ان سے تکلیفیں بھی پہنچیں گی، اور قتل و قتال کی نوبت بھی آئے گی۔ صبر بھی کرنا ہوگا اور اللہ کی راہ میں جان و مال بھی خرچ کرنا ہوگا کافر اپنے عناد پر جمے رہیں گے۔ اہل ایمان کو ایمانی تقاضوں پر ثابت قدم رہنا لازم ہوگا۔ اس تقریر سے آیت (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ ) کا ربط بھی سمجھ میں آگیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

404 یہاں وحدت سے دین اور عقیدے کی وحدت مراد ہے یعنی شروع میں لوگ ایک ہی دین پر تھے اور سارے کے سارے دین اسلام کے پابند اور توحید پرست تھے۔ متفقین علی عین الاسلام (مدارک ص 83 ج 1 متفقین علی التوحید مقرین لعبودیتہ (روح ص 100 ج 2) اس سے معلوم ہوا کہ آغاز فطرت میں انسان توحید پرست تھا۔ اور شرک کی بیماری بعد میں پھیلی ہے۔ پہلی کتابوں میں مسئلہ توحید موجود تھا بعض پلیدوں نے بسبب بغاوت توحید کی مخالفت کی اور پچھلے لوگ باغیوں کی عبارتیں دیکھ کر مسئلہ توحید کے بارے میں شبہات میں پڑگئے۔ لیکن ان کا شبہ خدا کے یہاں کتاب اللہ کی موجودگی میں قبول نہیں ہوگا۔ ایسے لوگوں کے خلاف جہاد کرو۔ ٖ 405 یہ ماقبل پر مرتب ہے۔ لیکن اس میں بظاہر اشکال ہے کیونکہ سب لوگ دین توحید پر متفق تھے تو پھر پیغمبر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا حل یہ ہے کہ اس سے پہلے فَاخْتَلَفُوْا محذوف ہے اور مطلب یہ ہے کہ شروع میں تو سب لوگ توحید پر متفق تھے لیکن بعد میں ان کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے تاکہ وہ انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں ماننے والوں کو جنت کی خوشخبری دیں اور نہ ماننے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ اور اس حذف پر آیت کا اگلاحصہ شاہد ہے کیوں کہ آگے ارشاد ہورہا ہے کہ ہم نے پیغمبروں کو کتابیں بھی دیں تاکہ وہ اللہ کی نازل کی ہوئی ہدایت کی روشنی میں لوگوں کے باہمی اختلاف فی التوحید کا فیصلہ کریں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کی آمد سے پہلے ان میں توحید کے بارے میں اختلاف پیدا ہوچکا تھا جسے مٹانے کے لیے پیغمبر بھیجے گئے۔ نیز اسی مضمون کی ایک دوسری آیت میں فاختلفوا کی صراحت موجود ہے جیسا کہ سورة یونس رکوع 2 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَاکَانَ النَّاسُ اِلَّا اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخَتَلَفُوْا۔ اور چونکہ قرآن کے بعض حصے بعض حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اس لیے یہاں بھی فاختلفوا محذوف ہے۔ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ ۔ الکتاب میں لام جنس کیلئے ہے۔ بالحق، الکتاب سے حال ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کے ساتھ ایک کتاب بھیجی جس میں دین حق کا بیان تھا۔ٖ 406 یہ بعثت انبیاء اور انزال کُتُب کی علت ہے اور یحکم کا فاعل اللہ ہے۔ یعنی جب لوگوں نے توحید پر اتفاق کے بعد اس میں اختلاف شروع کردیا، کچھ لوگ توحید پر قائم رہے اور کچھ لوگوں نے خدا کے سوا غیروں کی عبادت اور پکار شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت نامے دے کر پیغمبر بھیجے تاکہ اس طرح ان کے درمیان اختلاف کا فیصلہ کرے۔ فیصلہ سے یہاں دلائل وبراہین سے حق و باطل میں واضح اور کھلا ہوا امتیاز پیدا کرنا مراد ہے۔ اب جس کا جی چاہے توحید قبول کرے اور جس کا جی چاہے شرک کر کے اپنی عاقبت برباد کرلے۔ دونوں راستے دلائل سے سب کے سامنے واضح کردئیے گئے ہیں۔407 اُوْتُوہُ میں ضمیر مفعول الکتاب کی طرف راجع ہے۔ الذین اوتوا سے اس کتاب کے عالم اس کا درس و تدریس کرنے والے اور پیشوایانِ قوم مراد ہیں۔ الذین اوتوہ ارباب العلم بہ والدراسۃ لہ (بحر ص 137 ج 2) اور البینات سے مراد دلائل عقلیہ ہیں۔ یعنی کتاب کے ساتھ ساتھ ہم نے توحید پر عقلی دلائل بھی قائم کردئیے تھے۔ وھذہ البینات لا یمکن حملھا علی شیئ سوی الدلائل العقلیۃ التی نصبھا اللہ تعالیٰ (کبیر ص 307 ج 2) اور بغیا اختلف کا مفعول لہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق میں ہمیشہ اختلاف انہیں لوگوں نے ڈالا جو خدا کی کتاب کا علم رکھتے اور قوم کے پیشوا اور رہنما تھے۔ یعنی علماء سوٰ اور پیرانِ سوء اور اختلاف بھی انہوں نے کسی غلط فہمی کی بناء پر نہیں ڈالا بلکہ عقلی اور نقلی دلائل سے حق کو سمجھ بوجھ کر محض ضد اور عناد کی وجہ سے اختلاف کیا۔ ایک حصر تو یہاں مذکور ہے کہ اختلاف ڈالنے والے صرف پیشوایان سوء ہی ہیں اور کوئی نہیں اور دوسرا حصر کہ ان علماء سوء نے اختلاف ہمیشہ جان بوجھ کر ڈالا ہے یہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے نہیں ہے یہ سورة جاثیہ رکوع 2 میں مذکور ہے فَمَا اخْتَلَفُوْا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیاً بَیْنَھُمْ ۔ اس آیت میں تین چیزیں بیان ہوئی (1) اختلاف کن لوگوں نے کیا (2) کب کیا اور (3) کیوں کیا۔ یعنی اختلاف ہمیشہ علماء سوء نے ڈالا اور جان بوجھ کر ڈالا اور محض ضد وعناد کی وجہ سے ڈالا۔ 408 مِنَ الْحَقِّ ، مَاکا بیان ہے اور اذن سے مراد اللہ کی توفیق ہے۔ ای بتوفیقہ وتیسریہ (روح ص 102 ج 2) اور اٰمَنُوْاسے قصدوا الایمانمراد ہے۔ یعنی جو لوگ صدق دل سے ایمان کے طالب اور حق کے متلاشی تھے۔ علماء سوء تو ہمیشہ دین حق میں اختلاف ڈالنے میں مصروف رہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ طالبان حق کو محض اپنی مہربانی اور توفیق سے توحید کی راہ دکھائی اور وہ فساد ماحول کے باوجود دین حق پر قائم رہے اور اگر الذین اوتوہ سے اہل کتاب مراد ہوں تو الذین امنوا سے امت محمدیہ مراد ہوگی۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ جن امور میں اہل کتاب کے درمیان اختلاف رہا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان میں صحیح راستہ دکھا دیا۔ مثلاً یہود ونصاریٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا کہ وہ یہودی تھے یا نصرانی تو اللہ نے ہمیں بتا دیا کہ وہ نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ وہ حنیف ومسلم تھے۔ اسی طرح یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور عیسائیوں نے انہیں خدا بنالیا۔ مسلمانوں کو خدا نے بتایا کہ وہ خدا کے پیغمبر اور اس کے بندے تھے۔ وغیرہ ذلک۔409 وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اس کی مشیت ہمیشہ ان لوگوں کی ہدایت سے متعلق ہوتی ہے جو ضد اور عناد نہ کریں۔ اور صدق دل اور اخلاص عمل کے ساتھ راہ حق کے طالب ہوں۔ اس آیت میں بھی جہاد کی ترغیب ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ اختلافات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی صحیح راہنمائی فرماتا ہے۔ نیز جہاد اس لیے بھی کرنا ضروری ہے کہ دین حق کے مٹانے والوں کا قلع قمع کیا جائے۔ یہاں ایک شبہ ہے کہ اختلاف تو اگلوں نے ڈالا تھا، پچھلوں کا کیا قصور ہے کہ ان سے جہاد کیا جائے۔ انہوں نے تو اگلوں کی تقلید کی ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ یہ اگلوں کی اندھادھند پیروی میں معذور نہیں ہیں۔ کیونکہ عقلی اور نقلی دلائل ان کے سامنے موجود ہیں۔ انہوں نے ان میں غور وفکر کر کے اور انصاف سے کام لے کر حق سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ چناچہ ارشاد ہے۔ وَالَّذِیْنَ یُحَآجُّوْنَ فِی اللهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِیْبَ لَهٗ حُجَّتُھُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ (شوری رکوع 2) ۔ جبکہ علماء ربانیین اللہ کی توحید دلائل سے مان چکے ہیں۔ اللہ کی طرف سے کتاب بھی نازل ہوچکی ہو تو اب باغیوں کے اقوال سے احتجاج مردود ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 سب لوگ ابتدا میں ایک ہی جماعت اور ایک ہی خیال اور ایک ہی طریق کے تھے پھر باہم مختلف ہوگئے اور ان میں اختلاف رونما ہوا تو اس اختلاف کے رفع کرنے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا جن کا حال یہ تھا کہ وہ حق کے قبول کرنے والوں کو بشارت دیا کرتے تھے اور منکرین حق کو ان کے انجام سے ڈرایا کرتے تھے اور ان پیغمبروں کے ہمراہ مختلف کتابیں اور صحیفے بھی برحق اور برحمل نازل فرمائے تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے مابین ان کے امور مختلفہ کا فیصلہ فرما دے اور جس امر حق میں انہوں نے جھگڑا شروع کر رکھا تھا اس کو صاف کردے لیکن واقعہ یہ ہوا کہ اس کتاب میں اور کسی نے اختلاف پیدا نہیں کیا مگر ان ہی لوگوں نے اختلاف کیا جن کو وہ کتاب دی گئی تھی اور یہ اختلاف بھی محض آپس کی ضد سے اور ہٹ سے کیا اور اس کے بعد کیا جب کہ ان کو واضح دلائل اور صاف احکام پہنچ چکے پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر حق میں ہمیشہ اپنے فضل اور اپنی توفیق سے ایمان والوں کی رہنمائی فرمائی جس میں لوگ اختلاف کیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے راہ راست کی جانب اس کی رہنمائی فرماتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ابتداء میں سب کی سب ایک ہی طریق کی پابند تھی اور وہ طریق اسلام تھا پھر جب ان کی اولاد بڑھی تو ان میں اختلاف شروع ہوگیا اور باپ نے جو تعلیم دی تھی اس کے پابند نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے آگے پیچھے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو کتابیں اور صحیفے دے کر بھیجا یعنی پیغمبر آئے اور ان پر حسب ضرورت آسمانی کتابیں اور صحائف بھی نازل ہوتے رہے یہ آسمانی کتابیں حق و انصاف پر مشتمل تھیں اور جس قسم کی ضرورت اس زمانے میں درپیش تھی ٹھیک ٹھیک اس ضرورت کو پورا کرنے والی تھیں۔ ان انبیاء کی بعثت اور نزول کتب کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان امور مختلفہ کا جن میں لوگ اختلاف کر رہے تھے فیصلہ کردے کیونکہ پیغمبر اور کتب سماویہ کا کام یہی ہے کہ وہ امر واقعی کو ظاہر کردیتی ہے اور امر واقعی کے ظاہر ہوجانے کے بعد امر غیر حق خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ بہرحال ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ باہمی سب اختلافات ختم ہوجاتے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے طریقہ کو سب لوگ اختیار کرلیتے مگر ہوا یہ کہ بعض لوگوں نے اس کتاب کو نہ مانا اور اس میں ہی اختلاف پیدا کردیا اور یہ اختلاف صرف ان ہی لوگوں نے کیا جن کو وہ کتاب ملی تھی یعنی پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں نے کیونکہ ابتدائی مخاطب یہی لوگ ہوتے ہیں اور ان ہی سے یہ امید ہوتی ہے کہ یہ خود سمجھ کر دوسروں کو سمجھائیں گے اور ان کو راہ راست پر لائیں گے لیکن یہاں انہی لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف پیدا کردیا اور یہ ختلاف بھی اس حالت میں کیا جب ان کو واضح دلائل اور صاف و روشن احکام پہنچ چکے اور یہ اختلاف بھی محض آپس کے حسد کی وجہ سے کیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فیہ کی ضمیر امر حق کی طرف راجع ہو یعنی جن لوگوں کو کتاب ملی تھی انہوں نے ہی امر حق میں ا ختلاف پیدا کردیا۔ بینات کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کے معجزے دیکھنے اور کتاب کے احکام معلوم کرنے کے باوجود پھر جھگڑا گیا۔ اس پر ہم نے اہل ایمان کی اپنے حکم اور اپنی رحمت و فضل سے اس معاملہ میں جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے تھے صحیح رہنمائی کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں ایسا ہوتا رہا ہے پہلے تو لوگ کچھ دنوں ایک راہ پر رہے پھر کفرو ایمان کی راہیں تقسیم ہوگئیں اللہ تعالیٰ نے اس اختلاف کو مٹانے کی غرض سے پیغمبر بھیجے کتابیں نازل فرمائیں تاکہ امر حق کو ظاہر کردیاجائے لیکن دلائل واضحہ آجانے کے بعد بھی لوگوں نے محض آپس کے حسد اور ضد سے نبیوں کی تکذیب اور کتابوں کا انکار شروع کردیا اور کتاب کی صداقت اور اس کے مطالب میں اختلاف کرنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے اہل ایمان کو صحیح ہدایت عطا فرمائی اور وہ لوگوں کی مختلف فیہ باتوں سے محفوظ رہے اور یہ ہدایت الی الحق حضرت حق کی مشیت پر موقوف ہے جس کو وہ چاہتا ہے سیدھی راہ بتادیا کرتا ہے یہ ہوسکتا ہے کہ اختلاف کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو آدم (علیہ السلام) سے لیکر نوح (علیہ السلام) تک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھیوں میں سے بچ گئے تھے ان کی اولاد ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہود و نصاریٰ ہوں اور راہ راست پر قائم رہنے والے امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مسلمان ہوں۔ ( واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے کتابیں اور نبی متعدد بھیجے اس واسطے نہیں کہ ہر فرقہ کو جدی راہ فرمائی اللہ کے ہاں سے سب خلق کو ایک ہی راہ کا حکم ہے جس وقت اس راہ سے کسی طرف بچلے ہیں اللہ نے نبی بھیجا کہ سمجھا دے اور کتاب بھیجی کہ اس پر چلے جاویں پھر کتاب والے کتاب میں بچلے تب دوسری کتاب کی حاجت ہوئی سب نبی اور سب کتابیں اسی ایک راہ کو قائم کرنے کو آئے ہیں اس کی مثال جیسے تندرستی ایک ہے اور مرض بیشمار جب ایک مرض پیدا ہو ایک دوا اور پرہیز اس کے موافق فرمایا جب دوسرا مرض پیدا ہوا دوسری دوا اور پرہیز اس کے موافق فرمایا اب آخری کتاب میں ایسی راہ فرمائی کہ ہر مرض سے بچائو ہے یہ سب کے بدلے کفایت ہوئی۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کی تقریر سے وہ بات صاف ہوگئی اور ایک بہت اچھی مثال دے کر حضرت شاہ صاحب (رح) نے سمجھایا کہ اصل مذہب تو سب کے لئے اسلام ہے لیکن جب کبھی لوگ بگڑے ہیں تو حضرت حق نے ان کی فوری ہدایت کا انتظام فرمایا ہے لیکن حضرت حق کی مہربانی سے کسی کو شفا ہوتی اور کوئی بدنصیب محروم رہا اذن کے معنی تو اصل میں حکم اور اجازت کے ہیں لیکن یہاں اسکا فضل اسکی توفیق، اس کا ارادہ وغیرہ مراد ہے اس آیت نے گذشتہ قوموں کا ایک مفصل نقشہ پیش کردیا ہے تاکہ مسلمانوں کو تسلی ہو۔ اب یہ بات صاف ہوگئی کہ پہلے کافر بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں ہر زمانے کے لوگوں نے انبیاء کی تکذیب کی ہے اور کتب سماویہ میں جھگڑے پیدا کئے ہیں اور انبیاء کو اذیتیں پہنچائی ہیں اور مسلمانوں کو ستایا ہے۔ آگے کی آیت میں انہی باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے تاکہ مسلمانوں کو یہ سن کر اطمینان ہوجائے کہ ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے آج جو کچھ ہورہا وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے پہلے لوگوں نے بھی اپنے پیغمبروں کے ساتھ اور ان کے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ اسی قسم کے وحشیانہ سلوک کئے ہیں اور ان کو اتنی مہلت دی گئی ہے کہ اللہ کے نیک بندوں نے مصائب سے تنگ آکر خدا تعالیٰ سے نصرت و امداد کی دعائیں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلایا ہے یہی سلوک مکہ کے کفار تمہارے ساتھ کر رہے ہیں پھر جس طرح پہلے مسلمانوں نے صبر کیا اسی طرح تم بھی صبر کرو جس طرح انکی امداد کی گئی اسی طرح تمہاری بھی مدد کی جائیگی۔ (تسہیل)